HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

آداب و شعائر (۲)

۵۔  مونچھیں پست رکھنا،  ۔۶ زیر ناف کے بال مونڈنا،  ۷۔ بغل کے بال صاف کرنا،  ۸۔ بڑھے ہوئے ناخن کاٹنا،  ۹۔ لڑکوں کا ختنہ کرنا۔

یہ پانچوں چیزیں شعائر کے قبیل سے ہیں۔ بڑی بڑی مونچھیں انسان کی ہیئت میں ایک نوعیت کا متکبرانہ تاثر پیدا کرتی ہیں۔ پھر کھانے اور پینے کی اشیا منہ میں ڈالتے ہوئے ان سے آلودہ بھی ہو جاتی ہیں۔ بڑھے ہوئے ناخن میل کچیل کو اپنے اندرسمیٹنے کے علاوہ درندوں کے ساتھ مشابہت کا تاثر نمایاں کرتے ہیں۔ چنانچہ ہدایت کی گئی کہ مونچھیں پست ہوں اور بڑھے ہوئے ناخن کاٹ دیے جائیں۔ باقی سب چیزیں بدن کی طہارت کے لیے ضروری ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا اس قدر اہتمام تھا کہ ان میں سے بعض کے لیے آپ نے وقت کی تحدید فرمائی ہے۔ سیدنا انس کی روایت ہے:

وقت لنا فی قص الثارب و تقلیم الاظفار ونتف الابط و حلق العانة ان لا نترک اکثر من اربعین لیلة. (مسلم، کتاب الطہارہ)
’’ ہمارے  لیے مونچھیں اورناخن کاٹنے، بغل کے بال صاف کرنے اور زیر ناف کے بال مونڈنے کا وقت مقرر کیا گیا کہ ان پر چالیس دن سے زیادہ نہیں گزرنے چاہییں۔‘‘  

 زمانۂ بعثت سے پہلے بھی عرب بالعموم ان پر عمل پیرا تھے[4]A۔ یہ سننِ فطرت ہیں  جنھیں انبیا علیہم السلام نے تزکیہ وتطہیر کے لیے ان کی اہمیت کے پیشِ نظر دین کا لازمی جز بنا دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

 خمس من الفطرة الختان والاستحداد وتقلیم الاظفار ونتف الابط وقص الشارب.(مسلم، کتاب الطہارہ)
’’ پانچ چیزیں فطرت میں سے ہیں: ختنہ کرنا ، زیر ناف کے بال مونڈنا، بڑھے ہوئے ناخن کاٹنا، بغل کے بال صاف کرنا اور مونچھیں پست رکھنا۔‘‘   

۱۰۔ناک ، منہ اور دانتوں کی صفائی

 انبیا علیہم السلام اپنے ماننے والوں میں پاکیزگی اور طہارت کا جو ذوق پیدا کرنا چاہتے ہیں، یہ اسی کا تقاضا ہے کہ اس صفائی کوبھی انھوں نے ایک سنت کی حیثیت دی ہے۔ تاریخ میں اس کا ذکر اہلِ عرب کے دینی شعار کے طور پرہوتا ہے[5]۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کی جو روایت امت کو منتقل ہوئی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہروضو کے موقع پرآپ نہایت اہتمام کے ساتھ ’مضمضة[6] اور ’استنشاق[7] کرتے تھے۔ دانتوں کی صفائی کا بھی آپ کو ایسا ہی اہتمام تھا، یہاں تک کہ آپ نے فرمایا:

لولا ان اشق علی امتی لامرتم بالسواک عند کل صلوٰة.(مسلم ، کتاب الطہارہ)
’’ مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ میں اپنی امت کو مشقت میں ڈال دوں گا تو ہر نماز کے وقت انھیں دانتوں کی صفائی کا حکم دیتا۔‘‘

  ۱۱۔  استنجا 

بول و براز کے بعد پوری احتیاط کے ساتھ جسم کی صفائی بھی دینِ ابراہیمی کے سنن میں ہے[8]۔حالات کے لحاظ سے یہ صفائی پانی سے بھی ہو سکتی ہے اور مٹی کے ڈھیلوں یا اس طرح کی کسی دوسری چیز سے بھی۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس مقصد کے لیے بالعموم پانی ہی استعمال کرتے تھے۔ سیدنا ابو ہریرہ کا بیان ہے:

کان النبی صلی اللہ علیه وسلم اذا اتی الخلاء اتیته بماء فی تور او رکوة فاستنجی ثم مسح یدہ علی الارض.(ابو داؤد، کتاب الطہارہ)
’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رفعِ حاجت کے لیے جاتے تو میں کسی برتن یا چھاگل میں پانی لے کر آتا۔ آپ اس سے استنجا کرتے اور صفائی کے لیے ہاتھ زمین پر رگڑتے ۔‘‘  

۱۲۔حیض و نفاس میں زن و شو کے تعلق سے اجتناب 

اس حالت میں زن و شو کا تعلق تمام الہامی مذاہب میں ممنوع رہا ہے۔ دینِ ابراہیمی کے زیرِ اثر عربِ جاہلیت بھی اسے ناجائز ہی سمجھتے تھے۔ ان کی شاعری میں اس کا ذکر کئی پہلوؤں سے ہوا ہے۔ اس معاملے میں کوئی اختلاف نہ تھا، لیکن عورت ان ایام سے گزر رہی ہو تو اس سے اجتناب کے حدود کیا ہیں ؟ اس میں، البتہ بہت کچھ افراط و تفریط پائی جاتی تھی۔ چنانچہ لوگوں نے پوچھا تو قرآن نے اس کے متعلق شریعت کا حکم وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا۔ ارشاد فرمایا ہے:

وَيَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الْمَحِيْضِﵧ قُلْ هُوَ اَذًيﶈ فَاعْتَزِلُوا النِّسَآءَ فِي الْمَحِيْضِﶈ وَلَا تَقْرَبُوْهُنَّ حَتّٰي يَطْهُرْنَﵐ فَاِذَا تَطَهَّرْنَ فَاْتُوْهُنَّ مِنْ حَيْثُ اَمَرَكُمُ اللّٰهُﵧ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ.(البقر ۲: ۲۲۲)
’’وہ تم سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دو یہ نجاست ہے۔ چنانچہ حیض کی حالت میں عورتوں سے الگ رہو اور جب تک وہ خون سے پاک نہ ہو جائیں، ان کے قریب نہ جاؤ۔ پھر جب وہ نہا کر پاکیزگی حاصل کر لیں تو ان سے ملاقات کرو، جہاں سے اللہ نے تم کو حکم دیا ہے۔ بے شک اللہ توبہ کرنے والوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔‘‘

استاذ امام امین احسن اصلاحی اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

’’اس زمانے میں عورت سے علیحدہ رہنے (اعتزال) کا جو حکم دیا ہے، اس کی صحیح حد آگے کے الفاظ ،’ولا تقربوھن حتی یطھرن فاذا تطھرن فاتوھن من حیث امرکم اللہ‘(اور تم ان سے قربت نہ کرو، یہاں تک کہ وہ پاک ہو جائیں۔ تو جب وہ پاکیزگی حاصل کر لیں تو ان کے پاس آؤ، جہاں سے اللہ نے تم کو حکم دیا ہے)، سے خود واضح ہو رہی ہے کہ یہ علیحدگی صرف زن و شو کے خاص تعلق کے حد تک ہی مطلوب ہے۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ عورت کو بالکل اچھوت بنا کر رکھ دو، جیسا کہ دوسرے مذاہب میں ہے۔ اس چیز کی وضاحت احادیث اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے بھی ہوئی ہے۔
اس آیت میں ’طھر‘ اور ’تطھر‘ دو لفظ استعمال ہوئے ہیں۔ ’طھر‘ کے معنی تو یہ ہیں کہ عورت کی ناپاکی کی حالت ختم ہو جائے اور خون کا آنا بند ہو جائے اور ’تطھر‘ کے معنی یہ ہیں کہ عورت نہا دھو کر پاکیزگی کی حالت میں آ جائے۔ آیت میں عورت سے قربت کے لیے ’طھر‘ کو شرط قرار دیا ہے اور ساتھ ہی فرما دیا ہے کہ جب وہ پاکیزگی حاصل کر لیں، تب ان کے پاس آؤ، جس سے یہ بات نکلتی ہے کہ چونکہ قربت کی ممانعت کی اصلی علت خون ہے، اس وجہ سے اس کے انقطاع کے بعد یہ پابندی تو اٹھ جاتی ہے، لیکن صحیح طریقہ یہ ہے کہ جب عورت نہا دھو کر پاکیزگی حاصل کر لے ، تب اس سے ملاقات کرو۔‘‘ (تدبرِ قرآن ج ۱ ص۵۲۶ )    

اس کے بعد آیت کے آخری حصے کی وضاحت میں انھوں نے لکھا ہے:

’’توبہ اور تطہر کی حقیقت پر غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ توبہ اپنے باطن کو گناہوں سے پاک کرنے کا نام ہے اور تطہر اپنے ظاہر کو نجاستوں اور گندگیوں سے پاک کرنا ہے۔ اس اعتبار سے ان دونوں کی حقیقت ایک ہوئی اور مومن کی یہ دونوں   خصلتیں اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہیں۔ اس کے برعکس جو لوگ ان سے محروم ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض ہیں۔ یہاں جس سیاق میں یہ بات آئی ہے، اس سے یہ تعلیم ملتی ہے کہ جو لوگ عورت کی ناپاکی کے زمانے میں قربت سے اجتناب نہیں کرتے یا قضاے شہوت کے معاملے میں فطرت کے حدود سے تجاوز کرتے ہیں، وہ اللہ کے نزدیک نہایت مبغوض ہیں۔ احادیث میں اس بات کی وضاحت موجود ہے۔‘‘( تدبرِ قرآن ، ج ۱ ص ۵۲۶ - ۵۲۷)

۱۳۔ حیض و نفاس کے بعد غسل، ۱۴۔   غسلِ جنابت 

یہ  غسل بھی ایک قدیم سنت ہے، حیض و نفاس کے بعد اس کا ذکر قرآن میں جس طرح ہوا ہے، وہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں ۔ خون آنا بند ہو جائے تو عورتوں کو طہارت کے لیے یہ  غسل لازماً کرنا چاہیے۔ جنابت کے بعداللہ تعالیٰ نے بالخصوص نماز سے پہلے اس کی تاکید قرآن میں اس طرح فرمائی ہے:

يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰي حَتّٰي تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِيْ سَبِيْلٍ حَتّٰي تَغْتَسِلُوْا.(النساء ۴: ۴۳)
’’ایمان والو، نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جاؤ، یہاں تک کہ جو کچھ تم زبان سے کہتے ہو، اسے سمجھنے لگو اور جنابت کی حالت میں بھی جب تک غسل نہ کر لو، الاّ یہ کہ نماز کی جگہ سے بس گزر جانا ہی مقصود ہو۔‘‘

سورۂ مائدہ میں یہی حکم ’ان کنتم جنباً فاطھروا[9]کے الفاظ میں بیان ہوا ہے۔ جنابت سے یہاں نجاست کی وہ حالت مراد ہے جو کسی شخص کو مجامعت یا انزال سے لاحق ہوتی ہے۔ اس کے بعد طہارت کے لیے غسل ضروری ہے۔ یہ   غسل پورے اہتمام کے ساتھ کرنا چاہیے۔ قرآن میں ’اطھروا‘ اور ’تغتسلوا‘ کے الفاظ عربیت کی رو سے اسی پر دلالت کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جو اسوہ اس غسل سے متعلق روایتوں میں بیان ہوا ہے، اس کی تفصیل یہ ہے:

۱۔ پہلے ہاتھ دھوئے جائیں۔

۲۔ پھر شرم گاہ کو بائیں ہاتھ سے دھو کر اچھی طرح صاف کیا جائے۔

۳۔ پھر پورا وضو کیا جائے، سوائے اس کے کہ پاؤں آخر میں دھونے کے لیے چھوڑ دیے جائیں،

۴۔ پھر بالوں میں انگلیاں ڈال کر سر پر اس طرح پانی ڈالا جائے کہ وہ ان کی جڑوں تک پہنچ جائے،

۵۔ پھر سارے بدن پر پانی بہایا جائے۔

۶ ۔آخر میں پاؤں دھولیے جائیں ۔

اس سلسلہ کی جو روایات امہات المومنین، سیدہ عائشہ اور سیدہ میمونہ سے ہم تک پہنچی ہیں، وہ ہم ذیل میں نقل کیے دیتے ہیں:

عن عائشة رضی اللہ عنھا قالت ان النبی صلی اللہ علیه وسلم کان اذا اغتسل من الجنابة یبدأ فیغسل یدیه، ثم یفرع بیمینه علی شماله فیغسل فرجه ثم یتوضأ وضؤہ للصلوٰۃ، ثم یاخذ الماء فیدخل اصابعه فی اصول الشعر، حتی اذا رأی انه قد الستبرأ حفن علی رأسه ثلاث حثیات، ثم افاض علی سائر جسدہ، ثم غسل رجلیه. (مسلم، کتاب الحیض)
’’ سیدہ عائشہ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب  غسلِ جنابت کرتے تو پہلے دونوں ہاتھ دھوتے، پھر دائیں ہاتھ سے بائیں پر پانی ڈال کر اس سے اپنی شرم گاہ صاف کرتے، پھر نماز کے وضو کی طرح وضو کرتے، پھر پانی لیتے اور اپنی انگلیاں بالوں کی جڑوں میں ڈال دیتے، یہاں تک کہ جب دیکھ لیتے کہ پانی جلد تک پہنچ گیا ہے تو اپنے سر پر تین چلو پانی انڈیلتے، پھر سارے جسم پر پانی بہا لیتے، پھر دونوں پاؤں دھوتے۔‘‘
عن ابن عباس، قال حدثتنی خالتی میمونه قالت ادنیت لرسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم غسله من الجنابة فغسل کفیه مرتین او ثلاثاً: ثم ادخل یدہ فی الاناء ثم افرغ به علی فرجه وغسله بشماله ثم جرب بشماله الارض فدلکھا دلکاً شدیداً ثم توضأ وضؤو للصلوٰۃ ثم افرغ علی رأسه ثلاث حفنات ملً کفہ ثم غسل سائر جسدہ، ثم تنحی عن مقامه ذلک فغسل رجلیه. (مسلم، کتاب الحیض)
’’ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ میری خالہ سیدہ میمونہ نے بیان فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں غسلِ جنابت کے لیے پانی رکھا تو آپ نے پہلے دونوں ہاتھ دو یا تین مرتبہ دھوئے، پھر اپنا ہاتھ برتن میں ڈالا اور اس سے اپنی شرم گاہ پر پانی بہایا اور اسے بائیں ہاتھ سے دھویا، پھر اپنا یہ ہاتھ زمین پر اچھی طرح رگڑا ، پھر نماز کے لیے جس طرح وضو کرتے ہیں اس طرح وضو کیا، پھر چلو میں بھر کر تین مرتبہ پانی سر پر بہایا، پھر سارا بدن دھویا، پھر اس جگہ سے ہٹے اور دونوں پاؤں دھوئے ۔‘‘ 

(باقی)

____________

[4]۔ المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، جواد علی، ج۶، ص۳۴۶۔

[5]۔ المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، جواد علی، ج۶، ص۳۴۶۔

[6]۔ منہ کی صفائی کے لیے اس میں پانی پھرانا۔

[7]۔ ناک صاف کرنے کے لیے اس میں پانی ڈالنا۔

[8]۔ المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، جواد علی، ج۶، ص۳۴۶۔

[9]۔ المائدہ ۵: ۶۔


B