HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

قانون سیاست (۵)

[نئی اشاعت کے لیے مصنف کی طرف سے نظرِ ثانی اور ترمیم و اضافہ کے بعد ]

 

۵۔نظمِ حکومت

 

وَاَمْرُهُمْ شُوْرٰي بَيْنَهُمْ. (الشوریٰ ۴۲: ۳۸)

اسلام کے قانونِ سیاست میں  نظمِ حکومت کی اساس یہی آیت ہے۔ سورۂ شوریٰ میں تین لفظوں کا یہ جملہ اپنے اندر جو جہانِ معنی سمیٹے ہوئے ہے، اس کی تفصیل یہ ہے:

اس میں پہلا لفظ ’امر‘ ہے۔ عربی زبان میں یہ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے، لیکن آیۂ زیرِ بحث میں اس کا موقع و محل دلیل ہے کہ یہ نظام کے مفہوم میں ہے۔یہ معنی اِس لفظ میں حکم ہی کے معنی میں وسعت سے پیدا ہوئے ہیں۔حکم جب بہت سے لوگوں سے متعلق ہوتا ہے تو اپنے لیے حدود مقرر کرتا اور قواعد و ضوابط بناتا ہے۔اُس وقت اِس کا اطلاق سیاسی اقتدار کے احکام اور جماعتی نظم، دونوں پر ہوتا ہے۔ غور کیجیے تو لفظ نظام ہماری زبان میں اِسی مفہوم کی تعبیر کے لیے بولا جاتا ہے۔

 پھر اِس مقام پر چونکہ قرآن مجید نے اِسے ضمیر غائب کی طرف اضافت کے سوا کسی دوسری صفت سے مخصوص نہیں کیا، اِس لیے نظام کا ہر پہلو اِس میں شامل سمجھا جائے گا۔بلدیاتی مسائل، قومی و صوبائی امور، سیاسی و معاشرتی احکام، قانون سازی کے ضوابط،اختیارات کا سلب و تفویض، امرا کا عزل و نصب، اجتماعی زندگی کے لیے دین کی تعبیر،غرض نظام ریاست کے سارے معاملات اِس آیت میں بیان کیے گئے قاعدے سے متعلق ہوں گے۔ ریاست کا کوئی شعبہ اِس کے دائرے سے باہر اور کوئی حصہ اِس کے اثرات سے خالی نہ ہو گا۔

اِس کے بعد ’شورٰی‘ ہے۔ یہ ’فعلی‘ کے وزن پر مصدر ہے اور اِس کے معنی مشورہ کرنے کے ہیں۔ آیت زیر بحث میں اِس کے خبر واقع ہونے سے جملے کا مفہوم اب وہ نہیں رہا جو ’شاورھم فی الامر فاذا عزمت فتوکل علی اللہ[8] میں ہے۔ وہی بات کہنی مقصود ہوتی تو الفاظ غالباً یہ ہوتے: ’وفی الامر ھم یشاورون‘ (اور معاملات میں اُن سے مشورہ لیا جاتا ہے )۔ اِس صورت میں ضروری تھا کہ معاشرہ امیر و مامور میں پہلے سے تقسیم ہو چکا ہوتا۔ امیر یا تو مامور من اللہ ہوتا یا قہر و تغلب سے اقتدار حاصل کر لیتا یا کوئی امام معصوم اُسے نامزد کر دیتا۔ بہرحال وہ کہیں سے بھی آتا اور کسی طرح بھی امارت کے منصب تک پہنچتا، صرف اِسی بات کا پابند ہوتا کہ قومی معاملات میں کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے لوگوں سے مشورہ کر لے۔ اجماع یا اکثریت کا فیصلہ تسلیم کر لینے کی پابندی اُس پر نہیں لگائی جا سکتی تھی۔ رائے کے ردو قبول کا اختیار اُسی کے پاس ہوتا۔ وہ چاہتا تو کسی کی رائے قبول کر لیتا اور چاہتا تو بغیر کسی تردد کے اُسے رد کر دیتا۔

لیکن ’امرهم شوريٰ بينهم ‘ کی صورت میں اسلوب میں جو تبدیلی ہوئی ہے، اُس کا تقاضا ہے کہ خود امیر کی امارت مشورے کے ذریعے سے منعقد ہو۔ نظام مشورے ہی سے وجود میں آئے۔ مشورہ دینے میں سب کے حقوق برابر ہوں۔ جو کچھ مشورے سے بنے،وہ مشورے سے توڑا بھی جا سکے۔جس چیز کو وجود میں لانے کے لیے مشورہ لیا جائے، ہر شخص کی رائے اُس کے وجود کا جز بنے۔ اجماع و اتفاق سے فیصلہ نہ ہو سکے تو فصل نزاعات کے لیے اکثریت کی رائے قبول کر لی جائے۔

ہم اپنی زبان میں مثال کے طور پر یہ کہیں کہ : ’’اِس مکان کی ملکیت کا فیصلہ اِن دس بھائیوں کے مشورے سے ہوگا ‘‘ تو اِس کے صاف معنی یہی ہوں گے کہ دس بھائی ہی فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں اور اُن میں سے کسی کی رائے کو دوسرے کی رائے پر ترجیح حاصل نہیں ہے۔ وہ سب بالاتفاق ایک ہی نتیجے پر پہنچ جائیں تو خیر،ورنہ اُن کی اکثریت کی رائے فیصلہ کن قرار پائے گی۔ لیکن یہی بات اگر اِس طرح کہی جائے کہ : ’’مکان کی ملکیت کا فیصلہ کرتے وقت اِن دس بھائیوں سے مشورہ لیا جائے گا ‘‘تو اِس کے معنی اس کے سوا کچھ نہیں ہوں گے کہ فیصلہ کرنے کا اختیار اِن دس بھائیوں کے سوا کسی اور شخص کے پاس ہے۔ اصل رائے اُسے قائم کرنی ہے اور اُسی کی رائے نافذ العمل ہو گی۔رائے قائم کرنے سے پہلے، البتہ اُسے چاہیے کہ اِن بھائیوں سے بھی مشورہ کرے۔ اِس صورت میں،ظاہر ہے کہ وہ اُن کے اجماع کا پابند ہو گا نہ اُن کی اکثریت کا فیصلہ قبول کرنا اُس کے لیے ضروری ہو گا۔

ہمارے نزدیک چونکہ مسلمانوں کے اجتماعی نظام کی اساس ’امرهم شوريٰ بينهم ‘ ہی ہے، اِس لیے اُن کے امرا و حکام کا انتخاب اور حکومت و امارت کا انعقاد مشورے ہی سے ہو گا اور امارت کا منصب سنبھال لینے کے بعد بھی وہ یہ رویہ اختیار نہیں رکھتے کہ اجتماعی معاملات میں مسلمانوں کے اجماع یا اکثریت کی رائے کو رد کر دیں۔

صاحب ’’تفہیم القرآن‘‘ مولانا سید ابوالاعلیٰ صاحب مودودی اِس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

’’ ’امرهم شوريٰ بينهم ‘ کا قاعدہ خود اپنی نوعیت اور فطرت کے لحاظ سے پانچ باتوں کا تقاضا کرتا ہے :
اول یہ کہ اجتماعی معاملات جن لوگوں کے حقوق اور مفاد سے تعلق رکھتے ہیں، اُنھیں اظہاررائے کی پوری آزادی حاصل ہو اور وہ اِس بات سے پوری طرح باخبر رکھے جائیں کہ اُن کے معاملات فی الواقع کس طرح چلائے جا رہے ہیں اور اُنھیں اِس امر کا بھی پورا حق حاصل ہو کہ اگر وہ اپنے معاملات کی سربراہی میں کوئی غلطی یا خامی یا کوتاہی دیکھیں تو اُس پر ٹوک سکیں، احتجاج کر سکیں اور اصلاح ہوتی نہ دیکھیں تو سربراہ کاروں کو بدل سکیں۔ لوگوں کا منہ بند کر کے اور اُن کے ہاتھ پاؤں کس کر اور اُن کو بے خبر رکھ کر اُن کے اجتماعی معاملات چلانا صریح بددیانتی ہے،جسے کوئی شخص بھی ’امرهم شوري بينهم ‘کے اصول کی پیروی نہیں مان سکتا۔
دوم یہ کہ اجتماعی معاملات کو چلانے کی ذمہ داری جس شخص پر بھی ڈالنی ہو، اُسے لوگوں کی رضا مندی سے مقرر کیا جائے اور یہ رضا مندی اُن کی آزادانہ رضا مندی ہو۔ جبر اور تخویف سے حاصل کی ہوئی یا تحریص و اطماع سے خریدی ہوئی یا دھوکے اور فریب اور مکاریوں سے کھسوٹی ہوئی رضا مندی، درحقیقت رضا مندی نہیں ہے۔ ایک قوم کا صحیح سربراہ وہ نہیں ہوتا جو ہرممکن طریقے سے کوشش کر کے اُس کا سربراہ بنے، بلکہ وہ ہوتا ہے جس کو لوگ اپنی خوشی اور پسند سے اپنا سربراہ بنائیں۔
سوم یہ کہ سربراہ کار کو مشورہ دینے کے لیے بھی وہ لوگ مقرر کیے جائیں جن کو قوم کا اعتماد حاصل ہو اور ظاہر بات ہے کہ ایسے لوگ کبھی صحیح معنوں میں حقیقی اعتماد کے حامل قرار نہیں دیے جا سکتے جو دباؤ ڈال کر یا مال سے خرید کر یا جھوٹ اور مکر سے کام لے کر یا لوگوں کو گمراہ کر کے نمائندگی کا مقام حاصل کریں۔
چہارم یہ کہ مشورہ دینے والے اپنے علم اور ایمان و ضمیر کے مطابق رائے دیں اور اِس طرح کے اظہاررائے کی اُنھیں پوری آزادی حاصل ہو۔ یہ بات جہاں نہ ہو،جہاں مشورہ دینے والے کسی لالچ یا خوف کی بنا پر یا کسی جتھا بندی میں کسے ہوئے ہونے کی وجہ سے خود اپنے علم اور ضمیر کے خلاف رائے دیں، وہاں درحقیقت خیانت اور غداری ہو گی، نہ کہ ’امرهم شوري بينهم ‘کی پیروی۔
پنجم یہ کہ جو مشورہ اہل شوریٰ کے اجماع (اتفاق رائے )سے دیا جائے یا جسے اُن کے جمہور (اکثریت) کی تائید حاصل ہو، اُسے تسلیم کیا جائے۔ کیونکہ اگر ایک شخص یا ایک ٹولہ سب کی سننے کے بعد اپنی من مانی کرنے کا مختار ہو تو مشاورت بالکل بے معنی ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ نہیں فرما رہا ہے کہ : ’’اُن کے معاملات میں اُن سے مشورہ لیا جاتا ہے‘‘بلکہ یہ فرما رہا ہے کہ ’’اُن کے معاملات آپس کے مشورے سے چلتے ہیں۔‘‘اِس ارشاد کی تعمیل محض مشورہ لے لینے سے نہیں ہو جاتی،بلکہ اِس کے لیے ضروری ہے کہ مشاورت میں اجماع یا اکثریت کے ساتھ جو بات طے ہو،اُسی کے مطابق معاملات چلیں۔‘‘ ( ۴ /۵۰۹- ۵۱۰)

قرآنِ مجید کا یہ اصول عقل و فطرت سے بھی ثابت ہے ۔ مسلمانوں کا کوئی فردمعصوم نہیں ہوتا۔ علم و تقویٰ میں ہو سکتا ہے کہ وہ سب سے ممتاز ہو، امارت و خلافت کے لیے وہ احق ہو سکتا ہے اور اپنے آپ کو احق سمجھ بھی سکتا ہے ، لیکن جس طرح مجرد یہ فضیلت اس بات کے لیے کافی نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں کی رائے کو نظر انداز کرکے خلافت کا منصب سنبھالنے کی کوشش کرے، اسی طرح مسلمانوں کے مشورے سے امارت کے منصب پر فائز ہو جانا بھی اس بات کو مستلزم نہیں ہے کہ اب وہ ہر خطا سے  محفوظ ہے اور اسے یہ حق حاصل ہو گیا ہے کہ وہ اپنی تنہا رائے کے مقابلے میں اہل الرائے کے اجماع یا ان کی اکثریت کی رائے کو رد کر دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حق حاصل تھا اور اسی وجہ سے حاصل تھا کہ آپ فی الواقع ایک معصوم ہستی تھے، لیکن تاریخ و سیر کی کتابوں سے اس امر کی ایک مثال بھی پیش نہیں کی جا سکتی کہ آپ نے کسی معاملے میں اپنی رائے کے مقابلے میں مسلمانوں کے اہل الرائے کی اکثریت کو نظر انداز کر دیا ہو۔

امیر بہرحال ایک فرد ہی ہوتا ہے اور فرد کی رائے کے مقابلے میں ہر شخص تسلیم کرے گا کہ ایک جماعت کی رائے میں صحت و اصابت کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ امیر کو، اگر وہ فی الواقع ایک خداترس  شخص ہے تو اپنی رائے کو وہی حیثیت دینی چاہیے جس کا اظہار فقہِ اسلامی کے ایک جلیل القدر امام نے اپنے اس قول میں کیا ہے کہ: ہم اپنی رائے کو صحیح کہتے ہیں، لیکن اس میں غلطی کا امکان تسلیم کرتے ہیں اور دوسروں کی رائے کو غلط کہتے ہیں، لیکن اس میں صحت کا امکان تسلیم کرتے ہیں ۔

پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ مشورہ دینے والوں کو اگر اس بات کا احساس ہو کہ ان کے اجماع یا اکثریت کی رائے بھی ضروری نہیں کہ قبول کر لی جائے تو اول تو وہ مشورہ دینے پر آمادہ نہ ہوں گے، طوعاً و کرہاً اس پر راضی بھی ہو گئے تو سخت بے دلی کے ساتھ مشورہ دیں گے۔ مسئلہ زیرِ بحث کبھی ان کے غوروخوض کا حصہ نہ بن سکے گا۔ وہ شوریٰ میں کشاں کشاں لائے جائیں گے اور افسردہ خاطر ہو کر وہاں سے روانہ ہو جائیں گے۔ سیاسی نظام اور ریاستی اداروں کے ساتھ ان کے دل و دماغ اور جذبات کا تعلق کبھی استوار نہ ہو سکے گا۔ قاضی ابوبکر جصاص نے اپنی کتاب ’’احکام القرآن‘‘ میں مشورہ دینے کے اس نفسیاتی پہلو کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے:

وغیر جائز ان یکون الامر بالمشاورة علی جھة تطبیب نفوسھم و رفع اقدارھم ولتقتدی الامة به فی مثله لانه لو کان معلوما عندھم انھم اذا استفرغوا مجھودھم فی استنباط ما شووروا فیه و صواب الرأی فیما سئلوا عنه ثم لم یکن فی ذٰلک معمولا علیه ولا متلقی منه بالقبول بوجه لم یکن فی ذٰلک تطبیب نفوسھم ولا رفع لاقدارھم ، بل فیه ایحاشھم واعلامنھم بان آراء ھم غیر مقبولة ولا معمول علیھا فھذا تاویل ساقط لا معنی لا فکیف یسوغ تاویل من تاوّله لتقتدی به الامة مع علم الامة عند ھذا القائل بان ھذه المشورة لم تفد شیئاً ولم یعمل فیھا بشیء اشاروابه. (ج ۲، ص ۴۱)
’’اور جائز نہیں ہے کہ مشورہ کرنے کا یہ حکم محض صحابہ کی دل داری اور ان کی عزت افزائی کے لیے ہو یا محض اس لیے ہو کہ اس طرح کے معاملات میں امت آپ کے طریقے کی پیروی کرے ، حالاں کہ اگر صحابہ کو یہ معلوم ہوتا کہ جب وہ مشورہ طلب امور میں اپنے دل و دماغ کی ساری قوتیں کھپا کر کوئی رائے دیں گے تو اس پر نہ عمل ہو گا اور نہ کسی پہلو سے اس کی قدر کی جائے گی تو اس سے ان کی دل داری اور عزت افزائی تو کیا ہوتی، الٹا وہ متوحش ہوتے اور سمجھتے کہ ان کی رائیں نہ قبول کیے جانے کے لیے ہیں نہ عمل کیے جانے کے لیے۔ لہٰذا احکامِ مشورہ کی یہ تاویل ناقابلِ اعتبار اور بے معنی ہے۔ پھر تاویل کا یہ پہلو کہ یہ حکم امت کو آپ کے طریقے کی تعلیم دینے کے لیے دیا گیا تھا، کس طرح درست ہو سکتا ہے، جب کہ کہنے والے کے نزدیک بھی یہ بات امت کے علم میں ہو گی کہ اس مشورے نے نہ کوئی فائدہ دیا اور نہ کسی معاملے میں اس کے مطابق عمل کیا گیا۔‘‘

یہاں ہو سکتا ہے کہ بعض لوگ مانعینِ زکوٰۃ کے خلاف کارروائی اور لشکرِ اسامہ کی روانگی کے بارے میں سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ کے طرزِ عمل کو اس کی تردید میں پیش کریں، لہٰذا یہ ضروری ہے کہ اس کی حقیقت بھی واضح کر دی جائے۔

استاذ امام امین احسن اصلاحی اس کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’(مانعینِ زکوٰۃ کے) اس واقعہ پر غور کرنے سے چند   حقیقتیں بالکل واضح طور پر سامنے آتی ہیں:
ایک یہ کہ یہ معاملہ شوریٰ اور خلیفہ کے درمیان کا کوئی معاملہ نہیں تھا۔ حضرت ابوبکر نے اس کو شوریٰ کے سامنے پیش ہی نہیں کیا تھا۔ شوریٰ کے سامنے وہ معاملات پیش ہوتے ہیں جو اجتہاد اور امورِ مصلحت سے تعلق رکھنے والے ہوتے ہیں۔ یہ معاملہ دین کا ایک منصوص مسئلہ ہے۔ اسلامی حکومت میں کسی ایسی جماعت کے بحیثیت ِ مسلم حقوقِ شہریت باقی ہی نہیں رہتے جو بیت المال کو زکوٰۃ ادا کرنے سے انکار کر دے۔[9]یہ چیز اسلامی قانون میں طے شدہ ہے۔ اس وجہ سے حضرت ابوبکر کی ذمہ داری یہ نہیں تھی کہ وہ اس کو شوریٰ کے سامنے رکھتے، بلکہ بحیثیتِ خلیفہ ان کی ذمہ داری صرف یہ تھی کہ وہ اس بارے میں قانون کی تنفیذ کرتے۔ چنانچہ انھوں نے یہی کیا۔ اس کو مثال سے یوں سمجھیے کہ اسلامی حکومت کے حدود میں کوئی جماعت اگر قتل و غارت شروع کر دے تو خلیفہ کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ اس جماعت کی سرکوبی کے لیے شوریٰ سے اجازت طلب کرے ، بلکہ اس کا فرض یہ ہے کہ قرآن نے محاربین کے لیے جو قانون بتایا ہے، اس کی تنفیذ کے لیے اپنے اختیارات بے دھڑک استعمال کرے ۔
دوسری یہ کہ جن لوگوں نے امیر کے اس اقدام سے متعلق تردد کا اظہار کیا ، ان کو ایک حدیث کے سمجھنے میں غلط فہمی ہو رہی تھی۔ حضرت ابوبکر نے اس حدیث کے اجمال کو ایک دوسری حدیث سے جو خود انھوں نے حضور سے سنی تھی، واضح کر دیا، جس سے لوگ مطمئن ہو گئے[10]۔ظاہر ہے کہ اس زمانہ کے لوگوں کے نزدیک اس حدیث سے زیادہ وقیع حدیث اور کون سی ہو سکتی تھی جس کے راوی حضرتِ ابوبکر صدیق ہوں۔
  تیسری یہ کہ حضرت ابوبکر نے یہ جو فرمایا کہ اگر ان لوگوں سے لڑنے کے لیے میں کسی کو نہیں پاؤں گا تو میں تنہا ان سے لڑوں گا۔ شوریٰ کے کسی فیصلے کو ویٹو کرنے والی بات نہیں ہے، بلکہ یہ اس ذمہ داری کا صحیح صحیح اظہار و اعلان ہے جو دین کے واضح اور قطعی احکام کی تنفیذ اور ان کے اجرا سے متعلق بحیثیتِ خلیفہ ان پر عائد ہوتی تھی۔ اسلام میں خدا اور اس کے رسول کے احکام کی تنفیذ کے لیے خلیفہ کی اصل ذمہ داری یہی ہے کہ وہ ان کی تنفیذ کے لیے اپنی جان لڑا دے، اگرچہ ایک شخص بھی اس کا ساتھ نہ دے۔ جمہور کے مشوروں کا پابند وہ   مصلحتی اور اجتہادی امور میں ہے، نہ کہ شریعت کی قطعیات ہیں۔
اسی طرح لشکرِ اسامہ کا معاملہ یہ ہے کہ اس کی ساری تیاریاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے حضور کی حیاتِ مبارک ہی میں ہو چکی تھیں۔ اس کے لیے اشخاص بھی حضور کے منتخب کردہ تھے۔ اس کے لیے جھنڈا بھی خود حضور نے باندھا تھا، یہاں تک کہ اگر حضور کی علالت نے تشویش انگیز شکل نہ اختیار کر لی ہوتی تو یہ لشکر روانہ ہو چکا تھا۔ اسی دوران میں حضور کا وصال ہو گیا اور حضور کے بعد حضرت ابوبکر خلیفہ ہوئے۔ انھوں نے خلیفہ ہونے کے بعد قدرتی طور پر اپنی سب سے بڑی ذمہ داری یہ سمجھی کہ حضور جس لشکر کے بھیجنے کی ساری تیاریاں اپنے سامنے کر چکے تھے اور جس کے جلد سے جلد بھیجنے کے دل سے آرزو مند تھے، اس لشکر کو اس کی پیشِ نظر مہم پر روانہ کر دیں ۔ بحیثیت خلیفۂ رسول کے ان کی سب سے بڑی ذمہ داری اور ان کے لیے سب سے بڑی سعادت اس وقت کوئی ہو سکتی تھی تو بلا ریب یہی ہو سکتی تھی کہ وہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے منشا کو پورا کریں۔ اس کام کے لیے وہ شوریٰ سے کسی مشورہ کے محتاج نہ تھے، کیونکہ اس لشکر کے بھیجنے کے فیصلہ سے متعلق سارے امور خود حضور کے سامنے، بلکہ خود حضور کے حکم سے طے پا چکے تھے۔ پیغمبر کے خلیفہ کی حیثیت سے، ان کا کام پیغمبر کے فیصلہ کو نافذ کرنا تھا، نہ کہ اس کو بدل دینا۔ چنانچہ کچھ لوگوں نے جب وقت کے مخصوص حالات کی بنا پر اس لشکر کو خلافِ  مصلحت قرار دیا تو انھوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ جس جھنڈے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باندھا ہے، میں اس کو کھولنے کے لیے تیار نہیں ۔
بہرحال، یہ دونوں واقعے کسی طرح بھی اس بات کی دلیل نہیں بن سکتے کہ خلیفہ کو شوریٰ کے فیصلے رد کردینے کا حق ہے۔ یہ اگر دلیل ہیں تو اس بات کی دلیل ہیں کہ خدا اور رسول کے قطعی احکام کی تنفیذ کے معاملے میں خلیفہ شوریٰ سے مشورہ حاصل کرنے کا پابند نہیں ہے، بلکہ اس کی ذمہ داری صرف ان احکام کی تنفیذ ہے۔‘‘ (اسلامی ریاست، ص ۳۶)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاے راشدین نے اپنے تمدن کے لحاظ سے ’امرهم شوريٰ بينهم ‘ کے اس قرآنی اصول کے مطابق نظمِ اجتماعی میں عام مسلمانوں کی شرکت کا جوطریقہ اپنے زمانے میں اختیار فرمایا ، اس کی تفصیلات یہ ہیں:

 اولاً، یہ اصول قائم کیا گیا کہ مسلمان اپنے معتمد لیڈروں کی وساطت سے شریکِ مشورہ ہوں گے۔ بخاری میں ہے:

ان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم قال حین اذن لھم المسلمون فی عتق سبی ھوازن، فقال ، انی لا ادری من اذن فیکم ممن لم یاذن فارجعوا حتی یرفع الینا عرفاءکم امرکم.(کتاب الاحکام)      
’’مسلمانوں نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق جب ہوازن کے قیدی رہا کرنے کی اجازت دی تو آپ نے فرمایا : میں نہیں جان سکا کہ تم میں سے کس نے اجازت دی ہے اور کس نے نہیں دی۔ پس تم جاؤ اور اپنے لیڈروں کو بھیجو تاکہ وہ تمھاری رائے سے ہمیں آگاہ کریں۔‘‘

سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں دارمی کی روایت ہے:

فان اعیاہ ان یجد فیه سنة من رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم جمع رؤس الناس و خیارھم فاستشارھم فاذا اجتمع رأیھم علی امرقضی به.(ص ۵۳)
’’پھر اس معاملے میں اگر انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی سنت نہ ملتی تو قوم کے اعیان و اکابر کو جمع کر کے ان سے مشورہ کرتے اور جب وہ کسی بات پر جم جاتے تو اسی کے مطابق فیصلہ کر دیتے ۔‘‘

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں یہ حیثیت قبائل کے سرداروں کو حاصل تھی۔ اوس و خزرج اور قریش کے یہ سردار لفظ کے ہرمفہوم میں ان قبائل کے معتمد تھے۔ بے شک یہ منصب ان کو انتخابات کے ذریعے سے حاصل نہیں ہوا تھا اور اس زمانے کے تمدنی حالات میں اس کی کوئی ضرورت بھی نہ تھی ، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ لوگ ان حضرات کے سماجی مقام اور فہم و تجربہ کی وجہ سے سیاسی و اجتماعی معاملات میں انھی کو مرجع بناتے تھے۔ زمانۂ جاہلیت میں بھی انھیں یہ اعتماد ان کے قبائل کی آزادانہ مرضی سے حاصل تھا اور اسلام لانے کے بعد بھی ان کی یہ حیثیت برقرار رہی۔ اسلام سے قبل تو کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ یہ جبر و استبداد سے اولوالامر بن بیٹھے تھے، لیکن اسلام لانے کے بعد اس کا کوئی امکان نہ تھا۔ ان کے اتباع و عوام جب چاہتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ان پر عدمِ اعتماد کا اظہار کر سکتے تھے۔ اور اگر وہ ایسا کرتے تو یہ حضرات یقیناً اس منصب پر برقرار نہ رہ سکتے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے میں تمام اہم فیصلے انھی سرداروں کے مشورے سے کیے اور خلافتِ راشدہ کے دور میں بھی اربابِ حل و عقد کی حیثیت سے ان کا یہ مقام اسی طرح برقرار رہا۔

سیدنا فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں عراق و شام کی زمینوں کے بارے میں ایک شوریٰ کے انعقاد کا حال بیان کرتے ہوئے قاضی ابو یوسف لکھتے ہیں:

قالوا: فاستشر، قال: فاستشار المھاجرین الاولین فاختلفوا، فاما عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنه فکان رأیه ان تقسم لھم حقوقھم و رأی عثمان و علی و طلحه و ابن عمر رضی اللہ عنھم رأی عمر فارسل الی عشرة من النصار: خمسة من الاوس و خمسة من الخزرج، من کبرائھم واشرافھم.(کتاب الخراج، فصل فی الفئی والخراج      )
’’لوگوں نے کہا : تو پھر آپ باقاعدہ مشورہ کیجیے۔ اس پر آپ نے مہاجرینِ اولین سے مشورہ کیا تو ان کی رایوں میں بھی اختلاف تھا۔ عبد الر  حمٰن بن عوف کی رائے تھی کہ ان لوگوں کے حقوق انھی میں تقسیم کر دینے چاہییں اور عثمان، علی، طلحہ اور ابنِ عمر رضی اللہ    عنہم حضرتِ عمر سے متفق تھے۔ پھر آپ نے انصار میں سے دس افراد کو بلایا: پانچ اوس کے اکابر و اشراف میں سے اور پانچ خزرج کے اکابر و اشراف میں سے۔‘‘

اہلِ شوریٰ کے مقابلے میں اپنی حیثیت سیدنا عمر نے اس مجلس میں اس طرح واضح فرمائی:

انی لم ازعجکم الّا لان تشرکوا فی امانتی فیما حملت من امورکم فانی واح کاحدکم ولست اریدان تتبعوا ھٰذا الذی ھوای.(کتاب الخراج، فصل فی الفئی والخراج)
 ’’میں نے آپ لوگوں کو اس لیے زحمت دی ہے کہ آپ کے معاملات کا جو بارِ امانت مجھ پر ڈالا گیا ہے، اس کے اٹھانے میں آپ میری مدد کریں۔ میں آپ ہی جیسا ایک شخص ہوں اور نہیں چاہتا کہ آپ ان معاملات میں میری خواہش کی پیروی کریں۔‘‘ 

اس طرح کی مجالس کے انعقاد کا طریقہ یہ تھا کہ پہلے ایک منادی اعلان کرتا کہ ’الصلوٰة جامعة‘ یعنی لوگ نماز کے لیے جمع ہو جائیں۔  جب لوگ جمع ہو جاتے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ دو رکعت نماز پڑھتے، پھر ایک مختصر تقریر فرماتے اور جس معاملے پر رائے لینا مقصود ہوتی، اسے بحث کے لیے پیش کر دیتے۔ عراق و شام کی زمینوں کا معاملہ اور معرکۂ نہاوند کے موقع پر خود امیر المومنین کے میدانِ جنگ میں جانے کا مسئلہ انھی مجالس میں طے ہوا۔ اسی طرح فوج کی تنخواہم، عمال کے تقرر، دفتر کی ترتیب ، غیر قوموں کے لیے تجارت کی آزادی اور ان سے  متعلق محاصل وغیرہ کے معاملات بھی انھی مجالس میں پیش ہو کر طے پائے ۔ طبقات ابنِ سعد، کنز العمال، تاریخِ طبری ، کتاب الخراج اور اس طرح کی بعض دوسری کتابوں میں ان کی تفصیلات بیان ہوئی ہیں۔ بلاذری نے لکھا ہے کہ روزانہ انتظامات کے لیے خاص برسراقتدار جماعت کے اعیان و اکابر پر  مشتمل ایک اور مجلس بھی تھی جس کے اجلاس مسجدِ نبوی میں منعقد ہوتے رہتے تھے:

کان للمھاجرین مجلس فی المسجد فکان عمر یجلس معھم فیه و یحدثھم عما ینتھی الیه من امور الاٰفاق.(فتوح البلدان، ص ۲۶۶)
’’مسجدِ نبوی میں مہاجرین کی ایک مجلس منعقد ہوتی تھی اور حضرتِ عمر اس میں بیٹھتے اور اس کے سامنے وہ تمام حالات پیش کیا کرتے تھے جو مملکت کے مختلف گوشوں سے ان کو پہنچتے تھے۔‘‘

ثانیاً ، یہ روایت قائم کی گئی کہ امامت و سیاست کا منصب ریاست میں موجود مسلمانوں کے مختلف گروہوں میں اس گروہ کا استحقاق قرار پائے گا جسے عام مسلمانوں کی اکثریت کا اعتماد حاصل ہو گا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے کچھ عرصہ پہلے یہ فرمایا کہ حکومت کے لیے آپ کے جانشین آپ کے بعد انصار کے بجائے قریش ہوں گے۔ آپ نے فرمایا:

ان ھذا الامر فی قریش، لا یعادیھم احد الاکبه اللہ فی النار علی وجھه ما اقاموا الدین. (بخاری، کتاب الاحکام)
’’ہمارا یہ اقتدار قریش کو منتقل ہو جائے گا۔ اس معاملے میں، جب تک وہ دین پر قائم رہیں، جو شخص بھی ان کی مخالفت کرے گا، اللہ اسے اوندھے منہ آگ میں ڈال دے گا۔‘‘

چنانچہ انصار کو آپ نے ہدایت کی کہ ’قدمو قریشاً ولا تقدموھا[11] ‘(اس معاملے میں قریش کو آگے کرو اور ان سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرو) اور اپنے اس فیصلے کی وجہ یہ بیان فرمائی:

الناس تبع القریش فی ھذا الشأن، مسلمھم لمسلمھم وکافرھم لکافرھم.(مسلم، کتاب الامارہ)
’’لوگ اس معاملے میں قریش کے تابع ہیں۔ عرب کے مومن ان کے مومنوں کے پیرو ہیں اور ان کے کافر ان کے کافروں کے۔‘‘

اس طرح یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بالکل واضح کر دی کہ عرب کے مسلمانوں کا اعتماد چونکہ قریش کو حاصل ہے، اس لیے قرآنِ مجید کی ہدایت  ــــــ امرهم شوريٰ بينهم  ــــــ کی روشنی میں امامتِ عامہ کا مستحق پورے عرب میں ان کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا اور انتقالِ اقتدار کا یہ فیصلہ کسی نسبی تفوق یا نسلی ترجیح کی بنا پر نہیں، بلکہ ان کی اس حیثیت ہی کی وجہ سے کیا گیا ہے۔

تاریخِ عرب کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے عرب میں سیاسی اقتدار اسی گروہِ قریش کو حاصل تھا اور انھی کے اشراف عرب کے لیڈر سمجھے جاتے تھے۔ بدر و احد کے معرکوں میں ان لیڈروں کی بڑی اکثریت اگرچہ تلوار کے گھاٹ اتار دی گئی تھی، لیکن بحیثیتِ جماعت عربوں کا اعتماد اب بھی قریش ہی کو حاصل تھا۔ ان میں سے جو بڑے بڑے لوگ ایمان لائے، وہ سب مدینہ میں جمع تھے اور بہت سے لوگوں کو ان کی اسلامی خدمات نے دوسروں سے ممتاز کر دیا تھا۔ یہی لوگ تھے جن کے لیے مہاجرین کا اصطلاحی نام استعمال ہوتا تھا اور عام عربوں کے قبولِ اسلام کے بعد ان کے لیڈر اب مسلمانوں میں اسی اعتماد و رسوخ کے حامل تھے جو زمانۂ جاہلیت میں قریش کے اعیان و اکابر کو حاصل ہوا کرتا تھا۔ اس وجہ سے یہ حقیقت اپنے اثبات کے لیے انتخابات کی محتاج تھی نہ اس کے بارے میں کسی اختلاف و نزاع کی گنجایش تھی کہ عرب کے عام مسلمانوں کا اعتماد بہرحال قریش کو حاصل ہے اور جزیرہ نما میں کوئی دوسرا گروہ انھیں چیلنج کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا ۔

اس میں شبہ نہیں کہ مدینہ طیبہ میں اوس و خزرج کے لیڈروں  ــــــ سعد بن عبادہ اور سعد بن معاذ  ــــــ کی قیادت میں مقامی طور پر انصار کا اثر و رسوخ مسلم تھا۔ اپنی دینی خدمات کے اعتبار سے یہ مہاجرینِ قریش سے کسی طرح کم نہ تھے۔ اُنھوں نے ہجرت کی تھی تو اِنھوں نے غیر مشروط حمایت و نصرت کی پیش کش کے ساتھ ان کا استقبال کیا تھا۔ بدر و احد اور احزاب و حنین کے معرکوں میں یہ اُن کے پہلو بہ پہلو اسلام کے دشمنوں سے نبرد آزما ہوئے تھے۔ مؤاخات کے زمانے میں انفاق فی سبیل اللہ کی جو مثال انھوں نے قائم کی تھی، تاریخ کے اوراق سے اس کی کوئی نظیر پیش کرنا آسان نہیں ہے۔ اسلامی ریاست اگر مدینہ ہی کے حدود میں رہتی تو یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اقتدار ان کی طرف منتقل ہو جاتا، لیکن فتح مکہ کے بعد عام عربوں کے اسلام کی طرف رجوع نے سیاسی صورتِ حال میں  عظیم تغیر پیدا کر دیا اور مہاجرینِ قریش کے مقابلے میں انصار کے سیاسی اثرورسوخ کی کوئی حیثیت باقی نہ رہی۔

تاہم اس کے باوجود اندیشہ تھا کہ قبائلی حمیت کا جائز اور فطری رجحان، دینی خدمات میں مسابقت کا جذبہ اور مدینہ طیبہ میں اپنی جمعیت اور اثر و رسوخ پر اعتماد کہیں انھیں اقتدار کی کش مکش میں مبتلا نہ کر دے اور وہ مہاجرینِ قریش کو چیلنج کرنے کے لیے میدان میں اتر آئیں۔ یہ صورتِ حال اگر خدانخواستہ پیدا ہو جاتی تو منافقین اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے اور اس وقت کے تمدنی حالات میں جنگ و جدال کے سوا فضلِ نزاع کی کوئی صورت تلاش کرنا ناممکن ہو جاتا ۔

چنانچہ اسی اندیشے کے پیشِ نظر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مستقبل میں متوقع اس قضیے کو اپنی زندگی ہی میں ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا اور رئیسِ انصار سعد بن عبادہ کی موجودگی میں لوگوں، بالخصوص انصار پر واضح کر دیا کہ: ’الائمۃ من قریش[12]  (میرے بعد امامت قریش کو منتقل ہو جائے گی)۔ لہٰذا سقیفہ بنی ساعدہ میں جب انصار کے لیڈروں نے حکومت کے لیے اپنا استحقاق ثابت کرنے کی غرض سے پرجوش تقریریں کیں تو حضرتِ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی فیصلے کا حوالہ دیا۔ آپ نے فرمایا:

لقد علمت یا سعد، ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال وانت قاعد، قریش ولاة ھذا الامر، فبر الناس تبع لبرھم وفاجرھم تبع لفاجرھم فقال له سعد صدقت، نحن الوزراء وانتم الامراء. (احمد بن حنبل ج ۱ ص ۵)
’’ اے سعد ، تمھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمھارے سامنے یہ بات فرمائی تھی کہ حکومت قریش کو ملے گی، اس لیے کہ عرب کے اچھے اُن کے اچھوں کے پیرو ہیں اور ان کے برے اُن کے بروں کے۔ سعد نے جواب دیا: آپ نے ٹھیک کہا ، ہم وزیر ہیں اور آپ امیر۔‘‘         

ایک دوسری روایت میں ان کے الفاظ ہیں:

العرب لا تعرف ھذا الامر الا لھٰذا الحی من قریش.(احمد بن   حنبل ج ۱ ص۵۶)
’’اہلِ عرب اس قبیلۂ قریش کے سوا کسی اور کی قیادت سے آشنا نہیں ہیں۔‘‘

رئیسِ نصار سعد بن عبادہ کی طرف سے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد کی تصدیق کے بعد سقیفہ بنی ساعدہ کے حاضرین پر یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ بحث و تمحیص کی گرما گرمی میں وہ غلط راستے پر چل پڑے تھے، دراں حالیکہ ان کے غور کرنے کا مسئلہ صرف یہ تھا کہ عام مسلمانوں کی اکثریت کے اعتماد کی بنا پر جس گروہ کو اقتدار منتقل ہوا ہے، اس کی قیادت کے لیے کس لیڈر کا انتخاب کیا جائے۔ وہ اس کے رہنماؤں میں سے جسے منتخب کریں گے، وہی مسلمانوں کا حکمران ہو گا اور ان پر اس کی اطاعت واجب ہو گی۔ انتقالِ اقتدار کا یہ فیصلہ ان کے رسول نے کیا ہے اور اس کے خلاف کوئی راستہ اختیار کرنا ان کے لیے جائز نہیں ہے ۔

خلافتِ راشدہ اسی فیصلے کی بنیاد پر قائم ہوئی انصار کے اکابر نے جب اسے تسلیم کر لیا تو عمر رضی اللہ عنہ نے اس یقین کی بنا پر کہ مہاجرینِ قریش کے لیڈر ان کی رائے سے نہ صرف یہ کہ اختلاف نہ کریں گے ، بلکہ سقیفہ کی صورتِ حال میں ان کے اقدام کو لازماً درست قرار دیں گے ، صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کا اعلان کر دیا۔ بعد میں ایک موقع پر انھوں نے خود اپنے اس اقدام کا یہی سبب بیان فرمایا اور لوگوں کو تنبیہ کی کہ آیندہ کوئی شخص اسے اس باب میں قرآنِ مجید کے حکم    ــــــ امرهم شوريٰ بينهم  ــــــ  کی خلاف ورزی کے لیے دلیل کے طور پر پیش کرنے کی جسارت نہ کرے۔ انھوں نے فرمایا:

فلا یغترن امرؤ ان یقول انما کانت بیعة ابی بکر فلتة وتمت، الا، وانھا قد کانت کذٰلک، ولکن اللہ وقی شرھا، وللیس فیکم من تقطع الاعناق الیه مثل ابی بکر. من بایع رجلا من غیر مشورة من المسلمین فلا یبایع ھو ولا الذی بایعه تغرة ان یقتلا.(بخاری، کتاب الحدود  )
’’تم میں سے کوئی شخص اس بات سے دھوکا نہ کھائے کہ ابوبکر کی بیعت اچانک ہوئی اور لوگوں نے اسے قبول کر لیا. اس میں شبہ نہیں کہ ان کی بیعت اسی طرح ہوئی, لیکن اللہ نے اہلِ ایمان کو اس کے کسی برے نتیجے سے محفوظ رکھا اور یاد ر کھو, تمھارے اندر اب کوئی ایسا شخص نہیں ہے کہ ابوبکر کی طرح جس کے سامنے گردنیں جھک جائیں، لہٰذا جس شخص نے اہلِ ایمان کی رائے کے بغیر کسی کی بیعت کی، اس کی اور اس سے بیعت لینے والے، دونوں کی بیعت نہ کی جائے، اس لیے کہ اپنے اس اقدام سے وہ گویا اپنے آپ کو قتل کے لیے پیش کریں گے۔‘‘

صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کے وقت بھی مہاجرینِ قریش کی یہ حیثیت برقرار تھی۔ انصار یا عرب کے کسی دوسرے گروہ نے چونکہ ان کے مقابلے میں اکثریت کا اعتماد حاصل ہونے کا دعویٰ نہیں کیا تھا، اس لیے اقتدار بدستور ان کے پاس تھا اور اس کی توثیق کے لیے عام مسلمانوں کی طرف رجوع کی ضرورت نہ تھی۔ چنانچہ نئے امیر المومنین کی حیثیت سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو مہاجرینِ قریش کے لیڈر نے نامزد کیا اور ان کے اس انتخاب کو مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں ــــــ انصار و مہاجرین ــــــ کے لیڈروں نے قبول کر لیا تو بغیرکسی نزاع کے اسلامی دستور کے عین مطابق امارت ان کی طرف منتقل ہو گئی ۔ ابنِ سعد کی روایت ہے:

انابابکر الصدّیق لما استعز به، دعا عبد الرحمٰن ابن عوف فقال اخبرنی عن عمر بن الخطاب، فقال عبد الرحمٰن: ما تسألنی عن أمر الا وانت اعلم به منی، فقال ابوبکر وان، فقال عبد الرحمٰن: ھو، واللہ افضل من رأیتک فیه، ثم دعا عثمان بن عفان فقال: اخبرنی عن عمر، فقال: انت اخبرنا به، فقال: علی ذلک یا ابا عبد اللہ، فقال عثمان اللّٰھم علمی به ان سریرته خیر من علانیته وانه لیس فینا مثله.(الطبقات الکبریٰ، ج۳، ص۱۹۹)
’’ ‘ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر بیماری نے غلبہ پا لیا اور ان کی وفات کا وقت قریب آ گیا تو انھوں نے حضرت عبد الر حمٰن بن عوف کو بلایا اور ان سے کہا: مجھے عمر بن الخطاب کے بارے میں بتاؤ عبد الرحمٰن رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: آپ مجھ سے ایک ایسے معاملے کے بارے میں رائے چاہتے ہیں جسے آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ ابوبکر نے فرمایا: اگرچہ (یہ درست ہے، لیکن تم اپنی رائے دو) اس پر عبد الرحمٰن بن عوف نے کہا: خدا کی قسم وہ اس رائے سے بھی بڑھ کر ہیں جو آپ ان کے بارے میں رکھتے ہیں۔ پھر انھوں نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو طلب کیا اور ان سے کہا: مجھے عمر الخطاب کے بارے میں بتاؤ۔ حضرت عثمان نے جواب دیا: ہم سے زیادہ آپ انھیں جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: اس کے باوجود، اے ابو عبد اللہ، (میں آپ کی رائے معلوم کرنا چاہتا ہوں)۔ اس پر حضرت عثمان نے کہا: بے شک میں تو یہ جانتا ہوں کہ ان کا باطن ان کے ظاہر سے بہتر ہے اور ان جیسا ہمارے اندر کوئی دوسرا نہیں ہے۔‘‘

ابنِ سعد بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے ان دونوں کے علاوہ مہاجرین و انصار کے تمام بڑے بڑے لیڈروں سے مشورہ کیا:

وشاورمعھما سعید بن زید ابا الاعور و اسید بن الحضیر و غیر ھما من المھاجرین والانصار فقال اسید: اللھم، اعلمه الخیرة بعدک یرضی للرضی و یسخط للسخط، الذی یسر خیر من الذی یعلن ولم یل ھٰذا الامر احد اقوی علیه منه. (الطبقات الکبریٰ، ج۳، ص۱۹۹)
’’ اور انھوں نے ان دونوں حضرات کے ساتھ ابو الاعور سعید بن زید، اسید بن الحضیر اور ان کے علاوہ مہاجرین و انصار کے دوسرے لیڈروں سے بھی مشورہ کیا تو اسید نے کہا: بے شک، میں انھیں، اے ابوبکر، آپ کے بعد سب سے بہتر سمجھتا ہوں۔ وہ خوشی کے موقع پر خوش اور ناراضی کے موقع پر ناراض ہوتے ہیں۔ ان کا پوشیدہ ان کے ظاہر سے بہتر ہے۔ اس خلافت کا بوجھ ان سے بڑھ کر کوئی نہیں اٹھا سکتا۔‘‘

اس کے بعد ابنِ سعد نے بتایا ہے کہ کچھ لوگوں نے حضرتِ ابوبکر کی رائے سے اختلاف بھی کیا، لیکن انھوں نے انھیں  مطمئن کر دیا۔ پھر حضرت عثمان کو بلایا اور کہا:

اکتب بسم اللہ الرحمٰن الرحیم. ھذا ما عھد بالدنیا خارجاً منھا و عند اول عھدہ بالاخرة داخلاً فیھا حیث یؤمن الکافرو یوقن الفاجرو یصدق الکاذب، انی استخلفت علیکم بعدی عمر بن الخطاب فاسمعوا له واطیعوا. (الطبقات الکبریٰ، ج۳، ص۲۰۰)
’’ ‘لکھیے: اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے۔ یہ ابوبکر بن ابی قحافہ کی وصیت ہے جو اس نے دنیوی زندگی کے اختتام پر جب وہ اس سے نکلنے کو ہے اور اخروی زندگی کے آغاز پر جب وہ اس میں داخل ہونے کو ہے، اس وقت کی ہے جب کافر ایمان لاتے، فاجر یقین کرتے اور جھوٹے سچ بولتے ہیں۔ میں نے عمر بن الخطاب کو تمھارا خلیفہ بنایا ہے، پس ان کی سنو اور اطاعت کرو۔‘‘

ان کے اس خط پر مہر لگائی گئی۔ ان کے حکم کے مطابق عمر بن الخطاب اور اسید بن سعید کی معیت میں حضرت عثمان اسے لے کر باہر تشریف لائے اور لوگوں سے کہا:

اتبایعون لمن فی ھذا الکتٰب: فقالوا نعم. (الطبقات الکبریٰ، ج۳، ص۲۰۰)
’’ اس خط میں جس کے حق میں وصیت کی گئی ہے، تم اس کی بیعت کرو گے ؟ لوگوں نے کہا: ہاں۔‘‘

ابن سعد کی روایت ہے:

فاقروا بذلک جمیعاً ورضوا به و بایعو اثم دعا ابوبکر عمر خالیاً فاوصاہ بما اوصاہ به. (الطبقات الکبریٰ، ج۳، ص۲۰۰)
’’سب نے اقرار کیا اور اس پر راضی ہوئے اور عمر کی بیعت کی۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمر کو خلوت میں بلایا اور جو نصیحت کرنا چاہی، کی۔‘‘ 

عمر رضی اللہ عنہ زخمی ہو گئے اور رخصت کا وقت قریب آ گیا، لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ قائم رہی کہ عام مسلمانوں کی اکثریت کا اعتماد ابھی تک مہاجرینِ قریش ہی کو حاصل ہے۔ چنانچہ اسلامی دستور کی رو سے مسئلہ کی نوعیت اس وقت بھی یہی تھی کہ اکثریتی گروہ کو اپنے نئے لیڈر کا انتخاب کرنا تھا۔ ذمہ دار لوگوں نے خود عمر رضی اللہ عنہ سے درخواست کی کہ:’الا تعھد الینا، الا تومر علینا[13] ‘ (کیا آپ ہمارے لیے وصیت نہیں کریں گے ؟ کیا آپ ہمارے لیے خلیفہ مقرر نہیں فرمائیں گے ؟) لیکن انھوں نے حضرت ابوبکر کی طرح ارکانِ شوریٰ کے مشورے سے خود کسی خلیفہ کا تقرر کرنے کے بجائے یہ معاملہ مہاجرینِ قریش کے چھ بڑے لیڈروں کے سپرد کر دیا اور ان سے کہا:  

انی قد نظرت لکم فی امر الناس فلم اجد عند الناس شقاقا الا ان یکون فیکم، فان کان شقاق فھو فیکم وانما الامر الی ستة: الی عبد الرحمٰن و عثمان و علی والزبیر و طلحة وسعد. (الطبقات الکبریٰ، ج۳، ص۳۴۴)
’’میں نے تمھارے لیے امامتِ عامہ کے مسئلہ پر غور کیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ خلافت کے معاملے میں لوگوں میں کوئی اختلاف نہیں، الاّ یہ کہ وہ تم میں ہو۔ پس اگر کوئی اختلاف ہے تو وہ تمھارے اندر ہی محصور ہے، لہٰذا اب یہ معاملہ تم چھ اصحاب  ــــــ  عبد الر  حمٰن ، عثمان، علی، زبیر، طلحہ اور سعد کے سپرد ہے۔‘‘

ان کی اس بات کا مطلب یہ تھا کہ امارت کے لیے چونکہ لوگوں کی نظروں میں تمھارے سوا کوئی اورنہیں ہے ، اس لیے تم لوگ اگر اپنے میں سے کسی ایک پرمتفق ہو جاؤ گے تو وہ تمھارے اس فیصلے سے اختلاف نہ کریں گے ۔

اس کے بعد انھوں نے فرمایا:’قوموا فتشاوروا فامروا احدکم[14] ‘  (اٹھو، مشورہ کرو اور اپنے میں سے کسی کو امیر بنا لو)۔ تاہم چونکہ اندیشہ تھا کہ شرپسند شورش برپا کرنے کی کوشش کریں یا یہ حضرات مشاورت کو ضرورت سے زیادہ طویل کر دیں، اس لیے آپ نے انصار کو جو اقلیتی گروہ ہونے کی وجہ سے اس قضیے سے الگ تھے، ان پر نگران مقرر کر دیا۔ ابنِ سعد انس بن مالک کے حوالے سے بیان کرتے ہیں:

ارسل عمر بن الخطاب الی ابی طلحة الانصاری. قبیل ان یموت بساعة فقال: یا ابا طلحة کن فی خمسین من قومک من الانصار مع ھٰؤلاء النفر اصحاب الشوریٰ فانھم فیما احسب سیجتمعون فی بیت احدھم فقم علی ذلک الباب باصحابک فلا تترک احداً یدخل علیھم ولا تترکھم یمضی الیوم الثالث حتی یومروا احدھم.(الطبقات الکبریٰ ، ج ،۳ ص ۳۶۴  )
’’ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے وفات سے ذرا پہلے ابو طلحہ انصاری کو بلایا۔ وہ آئے تو فرمایا: ابو طلحہ، اپنی قوم، انصار کے پچاس آدمی لے کر ان اصحابِ شوریٰ کے پاس پہنچ جاؤ۔ میرا خیال ہے کہ یہ اپنے میں سے کسی کے گھر پر جمع ہوں گے۔ پس تم اپنے ساتھیوں کو لے کر دروازے پرکھڑے ہو جاؤ اور نہ کسی کو اندر داخل ہونے دو ، نہ انھیں انتخابِ امارت کے لیے تین دن سے زیادہ کی مہلت دو۔‘‘

انصار کے اربابِ حل وعقد کے بارے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کو ہدایت کی کہ:

احضروا معکم من شیوخ الانصار ولیس لھم من امرکم من شی. (الامامۃ والسیاسۃ، ابن قتیبہ، ص۲۸)
’’ انصار کے لیڈروں کو اپنے ساتھ بلا لو لیکن تمھاری اس امارت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔‘‘

ابنِ سعد کی روایت ہے کہ یہ سب جمع ہوئے تو عبد الر حمٰن بن عوف نے ان میں سے تین کو تین کے حق میں دست بردار ہونے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ زبیر علی کے حق میں، طلحہ و سعد، عثمان اور عبدالرحمٰن کے حق میں دست بردار ہو گئے۔ پھر انھوں نے علی و عثمان سے کہا کہ وہ اس معاملے کا فیصلہ ان کے سپرد کر دیں۔ وہ دونوں راضی ہو گئے تو علی رضی اللہ عنہ سے کہا:

ان لک من القرابة من رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم والقدم، واللہ علیک لئن استخلفت لتعدلن ولئن استخلف عثمان لتسمعن ولتطیعن. (الطبقات الکبریٰ ، ج ،۳ ص ۳۳۹  )
’’ تمھیں دین میں سبقت اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابت کا شرف حاصل ہے۔ خدا گواہ رہے کہ اگر خلافت تمھارے سپرد ہوئی تو وعدہ کرو کہ عدل کرو گے اور اگر عثمان خلیفہ بنا دیے گئے تو ان کے ساتھ سمع و طاعت کا رویہ اختیار کرو گے۔‘‘

حضرت علی نے اقرار کیا تو انھوں نے یہی بات عثمان رضی اللہ عنہ سے کہی۔ وہ بھی راضی ہو گئے تو فرمایا: عثمان اپنا ہاتھ بڑھاؤ۔ انھوں نے ہاتھ بڑھایا تو حضرت علی اور دوسرے لوگوں نے بیعت کر لی[15]۔

علی رضی اللہ عنہ کے انتخاب کے بارے میں دو رائیں ہو سکتی ہیں لیکن یہ اختلافِ آرا کسی بنیادی اصول کے بارے میں نہیں، صرف اس بات میں ہے کہ قریش کے سب لیڈر کیا ان کے انتخاب کے موقع پر جمع ہوئے اور ان کا انتخاب کیا انھوں نے اپنی آزادانہ مرضی سے کیا یا اس میں جبر و اکراہ کو بھی کچھ دخل تھا ؟ یہ بحث ہمارے موضوع سے غیر متعلق ہے، اس لیے اس سے قطعِ نظر بھی کر لیا جائے تو یہ حقیقت اپنی جگہ پر ثابت ہے کہ خلافتِ راشدہ کے پورے دور میں اقتدار بہرحال اکثریتی گروہ، یعنی مہاجرینِ قریش کے پاس رہا اور ان کے بڑے بڑے لیڈر باہمی مشورے سے امامتِ عامہ کے لیے مختلف اشخاص کا انتخاب کرتے رہے۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ چاروں خلفا کے انتخاب کے لیے الگ الگ طریقے اختیارنہیں کیے گئے، بلکہ اصولی اعتبار سے ایک ہی طریقے کی پیروی کی گئی۔ یہ سب اکثریتی گروہ کے اکابر میں سے منتخب کیے گئے اور ان کا انتخاب تمام گروہوں کے اکابر کے مشورے سے ہوا۔ فرق صرف یہ ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ پر وہ متفق ہو گئے تو حضرت ابوبکر نے ان کا فیصلہ خود نافذ کر دیا اور حضرت عمر نے ان کی رائے کو مختلف، لیکن چھ بڑے لیڈروں ہی میں محصور پایا تو ان کے اس فیصلے کا اعلان خود کردیا اور ان چھ میں سے ایک کے انتخاب کی ذمہ داری خود ان چھ اشخاص پر ڈال دی ۔

 اس بحث سے جو باتیں صاف واضح ہوتی ہیں، وہ یہ ہیں:

 اولاً ، اسلامی ریاست میں مختلف جماعتوں اور گروہوں کا وجود نہ صرف یہ کہ جائز ہے، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدین کے دور میں یہ ریاست جب قائم ہوئی تو اس کے نظامِ حکومت کے عناصرِ ترکیبی میں اسے ایک اہم عنصر کی حیثیت حاصل تھی۔

ثانیاً، اس زمانے میں اگر ہم کسی جماعت کے بارے میں عام مسلمانوں کے اعتماد یا عدمِ اعتماد کا فیصلہ انتخابات کے ذریعے سے کریں تو اسے اسلام کے منشا کے خلاف قرار نہیں دیا جا سکتا ۔

ثالثاً ، قرنِ اوّل کی روایات پیشِ نظر رہیں تو سربراہِ حکومت کا انتخاب عامتہ الناس کے براہِ راست ووٹوں کے بجائے پارلیمان میں ان کے نمائندوں، یعنی اربابِ حل و عقد ہی کی وساطت سے ہونا چاہیے۔

____________

[8]۔  آل عمران ۳ : ۱۵۹، ’’نظم اجتماعی کے معاملے میں اِن سے مشورہ لیتے رہو۔ پھر جب کوئی فیصلہ کر لو تو اللہ پر بھروسا کرو۔‘‘

[9]۔  اس کی تفصیل اوپر ’’ریاست کی شہریت‘‘ کے زیرِعنوان ہم نے وضاحت کے ساتھ پیش کر دی ہے۔

[10]۔  اور انھوں نے پھر کسی شوریٰ کے بلانے پر اصرار نہیں کیا           ۔

[11]۔  تلخیص الحبیر، ج۲، ص ۲۶۔

[12]۔  احمد بن حنبل، ج۳، ص ۱۸۳۔

[13]۔  الطبقات الکبریٰ، ابنِ سعد، ج۳، ص۳۴۳۔

[14]۔  الطبقات الکبریٰ، ابنِ سعد، ج۳، ص۳۴۴۔

[15]۔  الطبقات الکبریٰ، ابنِ سعد، ج۳، ص۳۳۹۔


B