HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

بہترین ایمان

عن معاذ بن جبل رضی اللہ عنه أنه سأل النبی عن أفضل الایمان. قال: أن تحب للہ و تبغض للہ و تعمل لسانک فی ذکر اللہ. قال: و ماذا یا رسول اللہ؟ قال: أن تحب للناس ما تحب لنفسک و تکرہ لھم ما تکرہ لنفسک.

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

’’حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بہترین ایمان کے بارے میں پوچھا ۔ آپ نے فرمایا : تواللہ کے لیے محبت کرے ، اللہ کی خاطر دشمنی رکھے اور اللہ کے ذکر میں اپنی زبان لگائے رکھے ۔انھوں نے پوچھا: اللہ کے رسول، (اس کا طریقہ) کیا ہے؟ آپ نے فرمایا : یہ کہ تو لوگوں کے لیے وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے اور لوگوں کے لیے وہی ناپسند کرے جو اپنے لیے نا پسند کرتا ہے ۔‘‘

لغوی بحث

حب: پسند کرنا ، قلبی لگاؤ ہونا ۔

بغض: ناپسند کرنا ، کسی سے دل میں دشمنی رکھنا ۔

تعمل لسانك: تو اپنی زبان کو لگائے رکھے ۔

متون

یہ روایت صرف مسندِ احمد میں روایت ہوئی ہے ۔ مسند میں اس کے دو متن ہیں ۔ دونوں میں ایک جملے کا فرق ہے ۔ اس فرق کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حب و بغض ، ذکرِالٰہی اور دوسروں کے لیے پسند و ناپسند کے معیار کے ساتھ یہ بھی فرمایا تھا کہ ’أن تقول خیراً أو تصمت‘ ایمان یہ ہے کہ تو بھلی بات کہے یا خاموش رہے ۔

اگرچہ اس روایت کے دستیاب متن دو ہی ہیں ۔لیکن یہ مضمون بہت سی روایات میں بیان ہوا ہے ۔ مثلًا: ’الایمان بضع و سبعون شعبة[1]، ایمان کے ستر سے زیادہ شعبے ہیں۔ ’المسلم من سلم المسلمون من یدہ و لسانه[2]  ، مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں ۔ ’من أحب للہ وأبغض للہ وأعطی للہ و منع للہ فقد استکمل الایمان[3]،جس نے اللہ کے لیے پسند کیا ، اللہ کے لیے ناپسند کیا ، اللہ کے لیے دیا اور اللہ کے لیے روکا اس نے اپنے ایمان کی تکمیل کر لی ۔ ’أفضل الاعمال الحب فی اللہ و البغض فی اللہ[4]، بہترین اعمال اللہ کی راہ میں محبت اور اللہ کی راہ میں دشمنی ہے ۔ ’(الاسلام) طیب الکلام و اطعام الطعام[5] (اسلام ) دل کش گفتگو اور کھانا کھلانا ہے۔ اسی مضمون کے مختلف پہلوؤں کا بیان ہے ۔ اس سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک ایمان اور اخلاق ِعالیہ کا آپس میں لازم و ملزوم کا تعلق ہے ۔

معنی

ایمان کی بہترین حالت کیا ہے ؟ اس روایت میں اس سوال کا جواب دیا گیا ہے ۔ ایمان جب دل کی گہرائیوں میں اترتا ہے تو آدمی کے ترک و اختیار کا معیار بدل جاتا ہے ۔ سماجی زندگی میں بالعموم فیصلہ کرنے میں قرابت مندی ، وطنیت ، دوست داری اور مالی منفعت جیسے محرکات کارفرما ہوتے ہیں ۔لیکن بندۂ مومن ان محرکات سے بلند صرف اپنے پروردگار کی رضا کے لیے قرب و بعد اور ترک و اختیار کا فیصلہ کرتا ہے ۔

خدا کی یاد دینی زندگی کی سب سے بڑی ضرورت ہے ۔ اوپر بیان کیے گئے معیار کو حاصل کرنا مقصود ہو یا دین کے احکام پر عمل کرنے میں جادۂ احسان پر چلنا پیشِ نظر ہو خدا کی یاد ہی اس کا واحد ذریعہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ شب وروز میں پانچ نمازیں فرض کی گئی ہیں تاکہ خدا کی یاد تازہ کرنے کا اہتمام ہوتا رہے۔ یہ امر غیر معمولی صورت اختیار کر لے گا اگر خدا کی یاد سے زبان بھی تر رہے ۔ لیکن اس کے لیے وہی صورتیں اختیار کی جائیں گی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کی تھیں ۔

حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسلوب ِ بیان سے اندازہ کیا کہ ایمان کے بارے میں حضور کچھ اور بھی بتائیں گے ۔ چنانچہ انھوں نے اپنے اشتیاق کا اظہار کرتے ہوئے مزید پوچھا تو آپ نے فرمایا : لوگوں کے ساتھ سلوک میں اس بات کو معیار بنا لو کہ جو تم اپنے لیے پسند کرتے ہو وہی لوگوں کے لیے پسند کرو اور جو اپنے لیے نا پسند کرتے ہو وہی لوگوں کے لیے ناپسند کرو ۔حقیقت یہ ہے کہ معاشرتی زندگی میں حق و باطل اور ظلم و انصاف کو پہچاننے کا یہ معیار جتنا سادہ ہے ،اتنا ہی ہمہ گیر ہے ۔ کسی باطل کو حق بنانے اور کسی ناخوب کو خوب ثابت کرنے میں ساری دانش صرف غیر کے معاملے میں کام آتی ہے ۔ جب اپنا معاملہ ہو تو انسان نہایت آسانی سے اصل حقیقت کو پہچانتا اور صحیح فیصلہ دیتا ہے ۔ سوال کے جواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اضافے سے یہ روایت خدا کے ساتھ تعلق اور بندوں کے ساتھ تعلق کے دونوں پہلوؤں کا احاطہ کر لیتی ہے اور دونوں کے باب میں وہ معیار بتادیتی ہے جسے اختیار کر لینے کے بعد بندۂ مومن جادۂ مستقیم سے منحرف نہیں ہو سکتا۔

کتابیات

مسند ِ احمد عن معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ۔

___________

[1]۔  حدیث : ۵ ۔

[2]۔ حدیث : ۶ ۔

[3]۔ حدیث : ۳۰ ۔

[4]۔ حدیث : ۳۲ ۔

[5]۔ حدیث : ۴۶ ۔

B