(مشکوٰۃ المصابیح، حدیث: ۴۷ - ۴۸)
وعن معاذ بن جبل رضی اللہ عنه قال : سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم یقول: من لقی اللہ لایشرک به شیئا ویصلی الخمس ویصوم رمضان ، غفر له. قلت أفلا أبشرھم، یا رسول اللہ؟ قال: دعھم یعملوا.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
’’حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنا : جو اللہ تعالیٰ سے اس طرح ملا کہ وہ شرک کا مرتکب نہیں تھا اور نماز پنجگانہ کا اہتمام کرتا تھا اور رمضان کے روزے رکھتا تھا ، اس کی بخشش ہو گئی ۔ میں نے پوچھا : کیا میں انھیں یہ خوش خبری دے نہ دوں ؟ آپ نے یہ کہہ کر مجھے روک دیا کہ انھیں عمل کرنے دو ۔‘‘
الخمس: پانچ وقت کی پانچ نمازیں ۔پوری بات ’خمس صلوات في خمس اوقات‘ ہے۔یعنی الف لام ،عوضا عن المضاف الیہ ہے ۔
اس سے پہلے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے اسی مضمون کی روایت[1] گزر چکی ہے ۔ اس روایت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ سے یہ پوچھا تھا کہ بندوں پر اللہ کا اور بندوں کا اللہ پر کیا حق ہے ؟ حضرت معاذ نے آپ ہی سے اس کی وضاحت دریافت کی تو آپ نے صرف خدا کی عبادت اور شرک سے اجتناب کو اللہ کا حق اور جو بندہ یہ حق پورا کردے اس کی بخشش کو اس بندے کا حق قرار دیا ۔ یہی مضمون زیرِ بحث روایت میں نماز اور روزے کے اضافے کے ساتھ بیان ہوا ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ روایت اس اضافے کے بغیر بھی کتبِ حدیث میں موجود ہے ۔دونوں روایتوں کی اسناد میں بعض راوی مشترک ہیں۔اس سے یہ گمان ہوتا ہے کہ حضرت معاذ نے اسی سوال و جواب کے نتیجے کو اپنے الفاظ میں بیان کر دیا ہے ۔ اگرچہ یہ بھی ممکن ہے کہ حضورنے دو الگ مواقع پر اسی مضمون کو بیان کیا ہو ،لیکن یہ بات موزوں نہیں لگتی کہ حضرت معاذ نے دونوں مواقع پر آپ سے لوگوں کو خوش خبری دینے کی اجازت طلب کی ہو ۔ اس نکتے کے پیشِ نظر یہی بات قرینِ قیاس ہے کہ یہ ایک ہی گفتگو کی روایت ہے ۔ ایک میں حضرت معاذ نے پورا مکالمہ نقل کیا ہے اور دوسری میں صرف نتیجہ بیان کر دینے پر اکتفا کی ہے۔
یہ مضمون متعدد روایات میں زیرِبحث آ چکا ہے ۔ ہم یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ اس پیش گوئی کے اصل حق دار صحابہ رضوان اللہ علیہم ہیں ۔ آج کے مسلمانوں کی طرح اس زمانے میں محض نام کے مسلمان ہونے کا کوئی تصور نہیں کر سکتا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مضمون کی حامل گفتگوؤں میں دین کے فرائض و احکام اور مطالبات کی تفصیل کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی ۔ آج ہم اس خوش خبری کے مخاطب صرف اسی صورت میں ہو سکتے ہیں جب دین ہماری اپنی دریافت بن جائے ۔ ہم نسلی مسلمان سے آگے بڑھ کر حقیقی مسلمان بن جائیں ۔
ابنِ داؤد ، کتاب الجنائز ، باب ۲۰۔ابنِ ماجہ ،کتاب الادب ، باب ۵۴۔ مسندِ احمد عن معاذ بن جبل ۔
___________
[1]۔ حدیث:۲۴ ۔