وَاِذَا قِيْلَ لَهُمْ اٰمِنُوْا بِمَا٘ اَنْزَلَ اللّٰهُ قَالُوْا نُؤْمِنُ بِمَا٘ اُنْزِلَ عَلَيْنَا وَيَكْفُرُوْنَ بِمَا وَرَآءَهٗﵯ وَهُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَهُمْﵧ قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُوْنَ اَنْۣبِيَآءَ اللّٰهِ مِنْ قَبْلُ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ٩١ وَلَقَدْ جَآءَكُمْ مُّوْسٰي بِالْبَيِّنٰتِ ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْۣ بَعْدِهٖ وَاَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ ٩٢ وَاِذْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّوْرَﵧ خُذُوْا مَا٘ اٰتَيْنٰكُمْ بِقُوَّةٍ وَّاسْمَعُوْاﵧ قَالُوْا سَمِعْنَا وَعَصَيْنَاﵯ وَاُشْرِبُوْا فِيْ قُلُوْبِهِمُ الْعِجْلَ بِكُفْرِهِمْﵧ قُلْ بِئْسَمَا يَاْمُرُكُمْ بِهٖ٘ اِيْمَانُكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ٩٣
اور (یہ وہ لوگ ہیں کہ) جب اِن سے اصرار کیا جاتا ہے کہ اُس چیز کو مان لو جو اللہ نے اتاری ہے تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اُسے ہی مانتے ہیں جو ہم پر اترا ہے اور (اِس طرح) جو کچھ اُس کے علاوہ ہے، اُس کا صاف انکار کر دیتے ہیں[225]، دراں حالیکہ وہی حق ہے[226]، اُن پیشین گوئیوں کے ٹھیک مطابق جو ان کے ہاں موجود ہیں۔ اِن سے پوچھو، (وہ ہدایت جو تم پر اتری ہے) ، اگرتم (اُس کے) ماننے والے ہو تو اِس سے پہلے پھر اللہ کے (اُن) نبیوں کو قتل کیوں کرتے رہے ہو (جو تمھاری طرف آئے) اور (تمھیں معلوم ہے کہ) موسیٰ تمھارے پاس کھلی ہوئی نشانیاں لے کر آیا، پھر اُس کے پیچھے تم نے بچھڑے کو معبود بنا لیا اور اُس وقت تم بڑے ہی ظلم کا ارتکاب کر رہے تھے[227]۔ اور یاد کرو، جب ہم نے تم سے عہد لیا اور طور کو تم پر اٹھا دیا اور حکم دیا کہ یہ جو کچھ ہم نے تمھیں دیا ہے، اِسے مضبوطی سے پکڑو، اور سنو اور مانو تو (تمھارے بزرگوں نے جو رویہ اُس کے ساتھ اختیار کیا، اُس نے بتا دیا کہ) اُنھوں نے (گویا اُس وقت یہی) کہا کہ ہم نے سنا اور نہیں مانا۔ اور اُن کے اِس کفر کے باعث بچھڑے کی پرستش اُن کے دلوں میں بسا دی گئی۔ اِن سے پوچھو، اگر تم ماننے والے ہو تو کیا ہی بری ہیں یہ باتیں جو تمھارا یہ ایمان تمھیں سکھاتا ہے۔ ۹۱- ۹۳
قُلْ اِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ عِنْدَ اللّٰهِ خَالِصَةً مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ٩٤ وَلَنْ يَّتَمَنَّوْهُ اَبَدًاۣ بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْهِمْﵧ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌۣ بِالظّٰلِمِيْنَ ٩٥
اِن[228] سے کہو، اگر آخرت کاگھر اللہ کے نزدیک، سب لوگوں کو چھوڑ کر صرف تمھارے ہی لیے خاص ہے [229] تو مرنے کی تمنا کرو، اگر تم (اپنے اِس دعوے میں) سچے ہو[230]۔ اور (تم دیکھو گے کہ) اپنے ہاتھوں کی جو کمائی یہ آگے بھیج چکے ہیں، اُس کے باعث یہ کبھی اِس کی تمنا نہ کریں گے۔ اور (حقیقت یہ ہے کہ) اللہ اِن ظالموں سے خوب واقف ہے۔ ۹۴ – ۹۵
وَلَتَجِدَنَّهُمْ اَحْرَصَ النَّاسِ عَلٰي حَيٰوةٍﵑ وَمِنَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْاﵑ يَوَدُّ اَحَدُهُمْ لَوْ يُعَمَّرُ اَلْفَ سَنَةٍﵐ وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهٖ مِنَ الْعَذَابِ اَنْ يُّعَمَّرَﵧ وَاللّٰهُ بَصِيْرٌۣ بِمَا يَعْمَلُوْنَ ٩٦ﶒ
اور تم اِنھیں سب سے بڑھ کر جینے کا حریص پاؤ گے، اور حد یہ ہے کہ اُن لوگوں سے بھی بڑھ کرجنھوں نے شرک کو اپنا مذہب بنایا ہے[231] ۔اِن میں ہر ایک یہ چاہتا ہے کہ کاش وہ ہزار سال جیتا رہے، دراں حالیکہ اگر یہ عمر بھی اُس کو مل جائے تو (اِس سے) وہ اپنے آپ کو اللہ کے عذاب سے بچا نہ سکے گا۔ اور (اس میں شبہ نہیں کہ) جو کچھ یہ کرتے ہیں، اللہ اُسے دیکھ رہا ہے[232] ۔۹۶
[225]۔ یعنی تورات کے بعد اب وہ کسی چیز پر ایمان لانے کے قائل نہیں ہیں۔
[226]۔ یعنی تورات کی پیشین گوئیوں کے مطابق اب قرآن ہی صحیفۂ حق ہے۔
[227]۔ اصل الفاظ ہیں: ’وانتم ظٰلمون‘ قرآن کی رو سے سب سے بڑا ظلم چونکہ شرک ہے، اس لیے ’وانتم ظٰلمون‘ یہاں ٹھیک ’وانتم مشركون‘ کے مفہوم میں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تورات پر اپنے ایمان کے دعوے میں اگر تم سچے ہو تو سیدنا موسیٰ کے دنیا میں ہوتے ہوئے بچھڑے کی پرستش کر کے پھر تم نے اس ظلم کا ارتکاب کیوں کیا ؟ پچھلے نبیوں نے بنی اسرائیل کی تاریخ کے اسی شرم ناک واقعے کی طرف تعریض کرتے ہوئے یہاں تک کہا کہ: اے اسرائیل، تو تو وہ ہے کہ تو نے پہلی شب میں بے وفائی کی۔
[228]۔ پچھلی دو فصلیں جس مضمون پر ختم ہوئی ہیں، یہود پر اتمامِ حجت کے اس سلسلۂ بیان کی یہ تیسری فصل بھی اسی مضمون پر ختم ہو رہی ہے۔
[229]۔ یعنی آخرت کی نعمتوں کے حق دار اس دنیا میں اگر تنہا تمھی ہو ۔
[230]۔ قرآن نے یہ یہود کو شرم دلائی ہے کہ آخرت اگر تمھارے ہی لیے خاص ہے تو اس کا تقاضا تو یہ ہونا چاہیے کہ تم اپنے پروردگار سے ملاقات کے لیے موت کی آرزوئیں کرو، لیکن تمھیں معلوم ہی ہے کہ تم جینے کے کیسے حریص ہو۔ یہ حقیقت، ظاہر ہے کہ یہود کے لیے بڑی تلخ اور اُنھیں اپنی نگاہوں میں بالکل رسوا کر دینے والی تھی۔
[231]۔ یعنی مشرکینِ عرب جنھیں ایک لمبی مدت تک نبیوں کی رہنمائی سے محروم رہنے کے باعث یہود اپنے مقابلے میں نہایت حقیر سمجھتے تھے۔ قرآن نے یہ واضح کیا ہے کہ دین و شریعت کی علم برداری کے بلند بانگ دعووں کے باوجود وہ اخلاقی طور پر ان مشرکین سے بھی گرے ہوئے ہیں۔
[232]۔ یہاں اِس دیکھنے کا لازم مراد ہے۔ یعنی جب دیکھ رہا ہے تو انھیں لازما ً ان کے جرائم کی سزا بھی دے گا۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ