محمد بلال
میرے دوست ڈاکٹر مشتاق احمد ان دنوں کراچی میں پیپلز پارٹی کے بہت نمایاں اور سرگرم رکن تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو صاحب برسراقتدار تھے۔ حکمران جماعت کی ضلعی کمیٹی کا اجلاس ہو رہا تھا۔ مسئلہ شہر کے ایک علاقے میں طوائفوں کی موجودگی تھا۔ سب لوگ جذباتی تقریریں کر رہے تھے اور اسے شرافت کی چادر پر بدنما داغ قرار دے رہے تھے۔ مشتاق صاحب اس علاقے کے ممبر تھے۔ ان کا کمیٹی کے لوگوں پر تاثر ایک بااصول آدمی کا تھا۔ وہ کافی دیر سے خاموشی کے ساتھ یہ سب کچھ سن رہے تھے ۔
آخر میں اجلاس کے شرکا اس نتیجے پر پہنچے کہ ان عورتوں کو وہاں سے نکال دیا جائے۔ لیکن اس کے لیے ضروری تھا کہ مشتاق صاحب کی اس علاقے کے ممبر ہونے کی وجہ سے رضا مندی حاصل کی جائے۔ وہاں موجود ایک آدمی نے کہا: ’’مشتاق بھائی، تمھارا کیا خیال ہے ؟‘‘ مشتاق صاحب نے کہا:’’میرا خیال ہے ان عورتوں کو علاقے سے نہیں نکالنا چاہیے ۔‘‘ سب لوگ ان کی بات سن کر حیران ہو گئے۔ ایک صاحب نے کہا: ’’مشتاق بھائی مجھے نہیں معلوم تھا کہ تم جیسا بااصول آدمی ایسی بے اصولی کی بات کرے گا۔‘‘ اس پر مشتاق صاحب کی قوتِ برداشت ختم ہو گئی۔ وہ سرخ چہرے کے ساتھ قدرے بلند آواز میں بولے: ’’یہ عورتیں لوگوں کو بازو سے پکڑ کر ، کھینچ کر اپنے پاس نہیں لاتیں۔ لوگ خود ان کے پاس جاتے ہیں۔ نکالنا ہے تو ان مردوں کو نکالو جو شام کو نہا دھو کر ، تازہ کلف لگے کپڑے پہن کر، عطرپھلیل لگا کر، ٹپ ٹاپ ہو کر، گلے میں موتیے کا ہار ڈال کر، گولڈ لیف کی ڈبی لے کر، کبھی کار میں اور کبھی ٹم ٹم میں شہزادوں کی طرح اکڑ کر بیٹھ کر خود ان کے پاس آتے ہیں۔ برائی کا منبع ان مردوں میں پایا جاتا ہے۔ نکالنا ہے تو ان کو نکالو۔‘‘ اس پر سب خاموش ہو گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد کچھ آوازیں اٹھیں: ’’وہ مرد تو شہر کے بڑے بڑے لوگ ہیں۔ ان کے خلاف ہم کچھ نہیں کر سکتے۔‘‘ پھر وہ اجلاس کوئی قرار داد پاس کیے بغیر ختم ہو گیا۔
اس میں شبہ نہیں کہ ہمارے ہاں اصلاحِ احوال کے لیے بالعموم مسائل کے منبع کو پیشِ نظر نہیں رکھا جاتا اور پھر ہوتا یہ ہے کہ بہت سی اصلاحی کوششوں کے باوجود مسئلہ جوں کا توں وہیں موجود ہوتا ہے۔
۸ مارچ ۲۰۰۰ کو جب خواتین کا عالمی دن منایا گیا تو اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کی اپیل پر ذرائع ابلاغ، خبروں کے انتخاب اور خبروں کے فلیش کرنے کا اختیار ایک دن کے لیے عورتوں کو دے دیا گیا تاکہ اس دن دنیا عورتوں کی ادارت میں نکالے گئے اخبارات پڑھ سکے۔ چنانچہ بعض اخبارات میں اس طرح کی تصویریں شائع ہوئیں جن میں ایک خاتون نیوز روم کے عملے کی قیادت کرتی دکھائی دے رہی ہے ۔
میں سمجھتا ہوں کہ ایسی اپیل پر جس سے خواتین کے مسائل کا خاتمہ تو درکنار ان کے لیے مزید مسائل پیدا ہونے کا امکان موجود ہو، عمل کر کے ہمارے اخبارات نے خواتین کی اور معاشرے کی کوئی اچھی خدمت نہیں کی۔
مردوں اور عورتوں کو پیدا کرنے والا عالم کا پروردگار جس نوعیت کا معاشرہ تشکیل دینا چاہتا ہے اس میں گھروں کے سربراہ مرد قرار پاتے ہیں۔ سورۂ نساء میں ہے:
’’مرد عورتوں کے سرپرست ہیں، بوجہ اس کے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت بخشی ہے اور بوجہ اس کے کہ انھوں نے اپنے مال خرچ کیے۔
پس جو نیک بیبیاں ہیں وہ فرماں برداری کرنے والی، رازوں کی حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں۔‘‘ ( ۴: ۳۴)
مولانا امین احسن اصلاحی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’عربی میں’قام‘کے بعد ’علیٰ ‘آتا ہے تو اس کے اندر نگرانی، محافظت، کفالت اور تولیت کا مضمون پیدا ہو جاتا ہے۔ ’قوٰمون علی النساء ‘ میں بالاتری کا مفہوم بھی ہے اور کفالت و تولیت کا بھی اور یہ دونوں باتیں کچھ لازم و ملزوم سی ہیں۔
گھر کی چھوٹی سی وحدت بھی، جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا، ایک چھوٹی سی ریاست ہے۔ جس طرح ہر ریاست اپنے قیام و بقا کے لیے ایک سربراہ کی محتاج ہوتی ہے اسی طرح یہ ریاست بھی ایک سربراہ کی محتاج ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوا کہ اس ریاست میں سربراہی کا مقام مرد کو حاصل ہو یا عورت کو ؟ قرآن نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ یہ مقام مرد کو حاصل ہے اور اس کے حق میں دو دلیلیں دی ہیں ۔
ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر فضیلت بخشی ہے۔ مرد کو بعض صفات میں عورت پر نمایاں تفوق حاصل ہے جن کی بنا پر وہی سزا وار ہے کہ قوامیت کی ذمہ داری اسی پر ڈالی جائے۔ مثلاً محافظت و مدافعت کی جو قوت و صلاحیت یا کمانے اور ہاتھ پاؤں مارنے کی جو استعداد و ہمت اس کے اندر ہے، وہ عورت کے اندر نہیں ہے یہ امر ملحوظ رہے کہ یہاں زیرِ بحث کلی فضیلت نہیں ہے بلکہ صرف وہ فضیلت ہے جو مرد کی قوامیت کے استحقاق کو ثابت کرتی ہے۔ بعض دوسرے پہلو عورت کی فضیلت کے بھی ہیں لیکن ان کو قوامیت سے تعلق نہیں ہے۔ مثلاً عورت گھر در سنبھالنے اور بچوں کی پرورش و نگہداشت کی جو صلاحیت رکھتی ہے وہ مرد نہیں رکھتا۔ اسی وجہ سے قرآن نے یہاں بات ابہام کے انداز میں فرمائی ہے جس سے مرد اور عورت دونوں کا کسی نہ کسی پہلو سے صاحبِ فضیلت ہونا نکلتا ہے۔ لیکن قوامیت کے پہلو سے مرد ہی کی فضیلت کا پہلو راجح ہے۔
دوسری یہ کہ مرد نے عورت پر اپنا مال خرچ کیا ہے ۔ یعنی بیوی بچوں کی معاشی اور کفالتی ذمہ داری تمام اپنے سر اٹھائی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ذمہ داری مرد نے اتفاقیہ یا تبرعاً نہیں اٹھائی بلکہ اس وجہ سے اٹھائی ہے کہ یہ ذمہ داری اسی کے اٹھانے کی ہے۔ وہی اس کی صلاحیتیں رکھتا ہے اور وہی اس کا حق ادا کر سکتا ہے۔
مرد کو قوامیت کے منصب پر سرفراز کرنے کے بعد نیک بیبیوں کا رویہ بتایا کہ وہ نہایت فرماں برداری کے ساتھ اپنے قوام کی اطاعت کرتی، اس کے رازوں اور اس کی عزت و ناموس کی حفاظت کرتی ہیں۔ اس سے یہ بات آپ سے آپ نکلی کہ جو عورتیں، اس کے بالکل برعکس آج اس بات کے لیے زور لگا رہی ہیں کہ وہ عورت بن کر نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں مرد بن کر رہیں گی وہ صالحات نہیں بلکہ فاسقات ہیں اور انھوں نے اس نظام کو بالکل تلپٹ کر دینا چاہا ہے جس پر عائلی زندگی کی تمام برکتوں اور خوش حالیوں کا انحصار ہے ۔‘‘( تدبرِ قرآن ج ۲ ، ص ۲۹۱-۲۹۲)
معاشرتی تجربہ یہ بتاتا ہے کہ گھروں کے ساتھ ساتھ معاشرے کے اجتماعی اداروں کی سربراہی کا کام بھی اگر مرد ہی انجام دیں تو معاشرہ فطری خطوط پر قائم رہتا ہے۔ اس پہلو سے غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کو گھر سے نکال کر انھیں مردوں والے کام کرنے کی ترغیب دینے والے اس ملک و قوم کے نادان دوست ہیں۔ عورت کا اصل دائرۂ کار اس کا گھر ہے اور گھر کے اندرونی معاملات کو درست رکھنا، بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کرنا، ایک مکان کو گھر بنانا بھی کام ہے۔ نام نہاد روشن خیال لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہی عورت کام کرنے والی عورت کہلاتی ہے جو گھر سے باہر نکل کر مردوں والے کام کر رہی ہو۔ اس خلاف حقیقت خیال کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ عورت کا اصل دائرۂ کار گھر کے اندرونی اور مرد کا اصل دائرۂ کار گھر کے بیرونی مسائل ہیں۔ اور عالم کے پروردگار نے عورت اور مرد کے اندر ان کے دائرۂ کار ہی کے مطابق مختلف صلاحیتیں ودیعت کی ہیں۔ اور یہ ایک امرِ واقعہ ہے کہ اس معاملے میں فطرت اپنے آپ کو منوا رہی ہے۔ ہمارے معاشرے کے مردوں اور عورتوں کی اکثریت ’’روشن خیالوں‘‘ کی فطرت کے منافی ترغیب کے باوجود ٹھیک اپنے اپنے دائرۂ کار ہی میں مصروفِ عمل ہے ۔ البتہ اس حقیقت سے انکار نہیں ہے کہ عورت اپنی ذاتی یا معاشرے کی اجتماعی ضرورت کے تحت بیرونِ خانہ سے متعلق کام کر سکتی ہے اور اس میں اس کی بعض کمزوریوں کے باعث اسے خصوصی مراعات بھی حاصل ہونی چاہییں۔
یونیسکو کی اپیل پر معمولی غور کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس میں اسلامی معاشرے کی بنیاد کو ہلانے اور اسے غیر فطری خطوط پر استوار کرنے کی شعوری یا غیرشعوری کوشش کا علامتی اظہار کارفرما تھا۔ مگر چونکہ بے سوچے سمجھے مغرب کی ہر بات کو مان لینا ہمارے جدید پڑھے لکھے طبقے کی ایک عام روش ہے، اس لیے اس اپیل کے آگے بھی پوری عاجزی کے ساتھ سرِ تسلیم خم کر دیا گیا۔
خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے وطنِ عزیزمیں مختلف تقاریب کا انعقاد کیا گیا۔ خصوصی تقریریں کی گئیں۔ خصوصی تحریریں لکھی گئیں۔ میں نے اس سلسلے میں جتنی بھی تحریریں پڑھیں، ان میں سب سے زیادہ حقیقت اور حکمت پر مبنی بات محترمہ مسرت لغاری نے کی اور چونکہ ایک خاتون نے کی، اس لیے اس کی اہمیت مزید بڑھ گئی۔ انھوں نے اپنے کالم ’’فکرِ جہاں‘‘ میں لکھا:
’’کیا مرد حضرات یہ نہیں جانتے کہ انھوں نے خواتین کو انصاف اور حقوق دینے کی ابتدا ذاتی طور پر اپنے گھر سے کرنی ہے۔ وہ حقوق کے حق میں نعرہ لگانے والی خواتین کے جلوسوں میں شامل ہوتے ہیں، سیمیناروں میں تقریریں کرتے ہیں۔ جلسے والوں کی آہ و بکا پر آہ اور واہ بھی کرتے ہیں۔ لیکن جونہی اپنے گھروں میں داخل ہوتے ہیں یکسر وہی بن جاتے ہیں جن کی زیادتیوں کے خلاف وہ جلسوں میں شرکت کرنے والی خواتین کا ساتھ دے کر آتے ہیں، بلکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسی خبریں اور تقریریں سن کر وہ خواتین کے استحصال کے لیے مزید نئے گر اپنانے کا سوچتے ہیں۔ دیکھا جائے تو دراصل مرد ہی معاشرے کی مضبوط ترین حتمی اور بنیادی اکائی ہے۔ اگر وہ درست ہے اور راہِ راست پر ہے تو خواتین کی حق تلفیوں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اس لیے کہ عورت کے چاروں مقدس رشتے اسی کے ساتھ منسلک ہیں۔‘‘ ( نواے وقت، ۱۵ مارچ ۲۰۰۰)
ایسی ہی بات جناب عبد القادر حسن نے بھی کی ہے۔ لکھتے ہیں:
’’ایک زمانے میں، میں نے لاہور شہر کی ایسی متعدد عورتوں کے انٹرویو کیے تھے جن کو معاشرہ بدکار عورتیں کہتا ہے۔ ’’رات، عورت اور شہر لاہور‘‘ کے عنوان سے ان مضامین کے سلسلے میں جن عورتوں سے ملاقات ہوئی ان میں سے واقعتہً کوئی ایک بھی ایسی نہیں تھی جو شوقیہ اور جسم کی بھوک مٹانے کے لیے قحبہ گری میں مبتلا ہوئی ہو۔ حالات نے ان عورتوں کو ان کے شرف سے محروم کر دیا اور یہ حالات مردوں کی ناانصافیوں کی وجہ سے پیدا ہوئے اور کسی مرد نے کسی مظلوم عورت کو ’’آبرو باختہ‘‘ بنا دیا۔ ہم مردوں نے ہماری ستائی ہوئی ان عورتوں کو معاشرے سے کاٹ کر بدرو میں پھینک دیا اور خود معاشرے کی عزت و حرمت کے امین بن کر بیٹھ گئے ۔‘‘ (جنگ ۲۶ مارچ ۲۰۰۰)
غور کریں، زینب نور کو اس کا حافظ قرآن شوہر ــــــ جی ہاں ایک مرد ــــــ بجلی کے جھٹکے لگا لگا کر جلا ڈالتا ہے۔ ڈھوک کھبہ کا ایک باپ ــــــ جی ہاں ایک مرد ــــــ اپنی نوخیز بیٹی کو اپنی دلہن بنا ڈالتا ہے۔ نواب پور کے بھرے بازار میں وڈیرے ــــــ جی ہاں مرد ــــــ مظلوم عورتوں کو بے حجاب ناچنے پر مجبور کر ڈالتے ہیں۔
اسی طرح گینگ ریپ کرنے والے، مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگانے والے، جوئے میں اپنی بیوی کو ہارنے والے، تیزاب گرا کر چہرہ خراب کرنے والے اور خلع کا مطالبہ کرنے پر طلاق فروخت کرنے والے بھی مرد ہی ہوتے ہیں ۔
بلاشبہ، یہ بات بھی بہت حد تک درست ہے کہ عورت، عورت کی دشمن ہوتی ہے۔ یہی عورت ساس یا نند کی شکل میں اور بسا اوقات بھابی یا بہو کی صورت میں ایک دوسری عورت پر ظلم کرتی ہے۔ اس کے حقوق پامال کرتی ہے، مگر ساس، نند، بھابی، بہو کے اوپر بھی ایک مرد موجود ہوتا ہے جو اگر چاہے تو انھیں ظلم کرنے سے روک سکتا ہے۔ اگر مرد صحیح شخصیت کا حامل ہو گا تو اس کے تحت خواتین بھی دوسری خواتین کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے صحیح رویہ اختیار کریں گی۔
اب اس مسئلے کو ایک دوسرے پہلو سے دیکھیں، ایک انسان کی شخصیت اس کے بچپن میں تشکیل پاتی ہے اور بچپن میں انسان پر سب سے زیادہ اثر اس کی ماں کا ہوتا ہے۔ ماں اگر بچے کی صحیح تربیت کرے تو قوی امکان ہے کہ بڑا ہو کر وہ اپنے اور دوسروں کے حقوق و فرائض کے معاملے میں صحیح اور متوازن رویہ اپنائے گا، مگر بات کی تان پھر وہیں آ کر ٹوٹتی ہے کہ یہ ماں بھی کسی کی بیٹی اور کسی کی بیوی ہے لہٰذا اس باپ کو، اس خاوند کو دوسرے لفظوں میں اس ’’مرد‘‘ کو اس ’’خاتون‘‘ کی اخلاقی تعلیم و تربیت کے معاملے میں بھی حساس ہونا ہو گا ــــــ جی ہاں تعلیم اور تربیت صرف تعلیم نہیں ــــــ یعنی ہمیں معاشرے میں اخلاقی تعلیم و تربیت کے زیادہ سے زیادہ اہتمام پر سر گرمی کے ساتھ کام کرنا ہو گا۔ اس سے خواتین کے مسائل اپنے منبع سے درست ہونا شروع ہوں گے۔ اگر ہم نے اخلاقی تعلیم و تربیت کی جانب توجہ نہ کی تو کمیشن بنتے رہیں گے۔ آرڈیننس جاری ہوتے رہیں گے۔ اسمبلیوں میں نشستیں مخصوص ہوتی رہیں گی۔ خواتین کا دن منایا جاتا رہے گا مگر ’’زینب نور‘‘ جلتی رہے گی، ’’نوخیز بیٹی‘‘ باپ کی دلہن بنتی رہے گی، مظلوم عورتیں بھرے بازار میں بے حجاب ناچتی رہیں گی۔
___________