ڈاکٹر قبلہ ایاز[*]
مصنف: محمد تہامی بشر علوی
قرآن کریم میں انسان کی عائلی زندگی سے متعلق جن معاملات کے بارے میں تفصیل سے اصولی ہدایات دی گئی ہیں، ان میں نکاح و طلاق کے مسائل سر فہرست ہیں۔ نکاح کے مقاصد، نکاح میں مذہب کی اہمیت، تعدد ازواج، نکاح کے بعد کی زندگی میں خانگی ذمہ داریاں، میاں بیوی کے در میان ناچاقی و تنازعات کا حل اور دیگر امور کے بارے میں تفصیلی ہدایات موجود ہیں۔ اسی طرح اگر میاں بیوی کے در میان باہم نباه ممکن نہ رہے تو اس عقد کو ختم کرنے کا طریقۂ کار بھی طلاق کی صورت میں بتایا گیا ہے۔ تاہم نکاح و طلاق کا انعقاد کیسے ہوگا، اس کی تفصیلات سے قرآن کریم میں تعرض نہیں کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان مسائل میں ایک سے زائد آرا اور طریق کار کی گنجایش پیدا ہو گئی۔ چنانچہ ائمۂ مجتہدین نے اپنے ماحول اور عرف و رواج کے مطابق ان آیات کی تعبیر و تشریح کی۔
مناکحات کے باب میں جو مسئلہ قرن اول سے معرکہ آرا رہا، وہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ہیں۔ حضرات صحابۂ کرام رضوان الله علیہم اجمعین کے ہاں بھی ایک مجلس کی طلاق ثلاثہ کے بارے میں ایک سے زائد آرا موجود تھیں۔ اسی طرح تابعین اور بعد کے ادوار میں ہر زمانے میں فقہاے کرام کے ہاں یہ مسئلہ مختلف فیہ رہا۔ ائمۂ اربعہ نے اسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے کے بعد اجماعی مسئلے کے طور پر دیکھا، جب کہ بعض دیگر کبار ائمہ اور بعد کے ادوار میں خود ائمۂ اربعہ کے پیروکاروں میں نامور فقہاے کرام نے اسے ایک ایسے اجتہادی مسئلے کے طور پر لیا جس میں تعدد آرا کی گنجایش موجود ہے۔
طلاق کا مسئلہ شرعی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خالص سماجی مسئلہ بھی ہے۔ سماج پر اس کے منفی یا ناخوشگوار اثرات بہر صورت مرتب ہوتے ہیں۔ اس لیے اس حوالے سے کوئی نقطۂ نظر اختیار کرتے وقت مسئلے کے سماجی پہلو کو ملحوظ رکھنا از حد ضروری ہے۔ ہمارے ہاں گذشتہ کئی دہائیوں سے اس مسئلے کے حوالے سے افراط و تفریط کی صورت حال ہے۔ ایک طرف ایقاع طلاق میں بے احتیاطی ہے اور دوسری طرف وقوع طلاق میں شدت کا رویہ ہے، حالاں کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسئلے کو سماجی تناظر میں دیکھا جائے اور خاندان کو توڑنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کی جائے۔
عزیزم محمد تہامی بشر علوی نوجوان محقق ہیں۔ انھوں نے طلاق ثلاثہ کے مسئلے کو سماجی تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ بہ یک وقت تین طلاقوں کو ایک طلاق قرار دینے کی حمایت میں مضبوط دلائل دیے ہیں۔ یک بارگی کی تین طلاقوں کے نتیجے میں حلالہ کی صورت میں جو شریعت کی روح کے خلاف حیلے اختیار کیے جاتے ہیں، ان کی شرعی حیثیت بھی واضح کی ہے۔ ایک مجلس کی تین طلاقوں کے بارے میں متقدمین فقہا اور معاصر اہل علم کے نقطہ ہاے نظر کو جمع کر کے مسئلے کے اجماعی پہلو پر بھی بحث کی ہے۔ علاوہ ازیں مسئلے کے ضمنی متعلقات، یعنی حدود تقلید اور فقہی توسیع پر بھی عمده گفتگو کی ہے۔ مؤلف کے بقول اس کتاب کی تحریر کا محرک بہ یک وقت تین طلاقوں کی وجہ سے سماجی طور پر جنم لینے والے المیے ہیں کہ کس طرح تین طلاقوں کی وجہ سے آناًفاناً ایک ہنستا بستا گھر اجڑ کر رہ جاتا ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل نے بہ یک وقت تین طلاقوں کو تعزیری جرم قرار دینے کی سفارش کی ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ آئے دن تین طلاقوں کے واقعات سامنے آتے ہیں۔ پھر جب غلطی پر ندامت کا احساس ہوتا ہے تو علما سے رجوع کیا جاتا ہے۔ یہ کتاب اس حوالے سے علمی ضرورت پوری کرتی نظر آتی ہے۔ امید ہے کہ علماے کرام اس سے مستفید ہوں گے۔
کتاب کی زبان رواں اور اسلوب نگارش علمی و تحقیقی ہے۔ یک بارگی کی تین طلاقوں کے حوالے سے اس کتاب نے چبھتے ہوئے سوالات کو جنم دیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ علمی حلقے اس مسئلے کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے اسے از سر نو زیر غور لائیں اور ایک اجماعی موقف تشکیل دینے کی کوشش کی جائے۔
میرے خیال میں یہ کتاب اس اعتبار سے بھی لائق تحسین ہے کہ نوجوان اہل علم میں بھی احکام شرع کو سماج کے ساتھ جوڑ کر دیکھنے کا ذوق پروان چڑھنے لگا ہے۔ دعا ہے کہ الله تعالىٰ اس ذوق میں اضافہ فرمائے اور مستقبل قریب میں ہمیں اس حوالے سے مزید علمی تحقیقات دیکھنا نصیب ہوں۔
___________
[*] پی ایچ ڈی، ایڈنبرا،چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل، پاکستان۔