محمد تہامی بشر علوی
ہمارے عرف میں ’سنت‘ کا ایک مفہوم رائج ہے جو کافی حد تک وہی ہے جو ’’نبوی سنت‘‘ کے ذیل میں ہم نے بیان کر دیا ۔عرف میں پھیلے سنت کے مفہوم میں سنت کے مختلف مفاہیم میں فرق مٹا کرسب کو ایک کر دیا گیا ہے۔
لوگوں نے ’’سنت‘‘ لفظ کے مشترک ہونے کی وجہ سے اس کے مختلف مفاہیم کو فراموش کر کے ایک ایسا تصور اپنا لیا جوان تمام مفاہیم کا مکسچر بن کر رہ گیا ہے۔ عرف میں ان جملوں کا استعمال عام طور پر دیکھا جاسکتا ہے: کرتا، تہ بند اور عمامہ سنت ہے؛کھجور، کدو اور ثرید کھانا سنت ہے؛گھوڑا پالنا، تلواررکھنا سنت ہے؛اونٹ ،گدھے ،خچر اور گھوڑے پر سواری سنت ہے؛بکریاں چرانا اور ان کا دودھ دوھنا سنت ہے؛ اپنی جوتی خود سینا اور اپنے کپڑوں کوپیوند لگانا اور پیوند لگے کپڑے پہنناسنت ہے؛ دائیں ہاتھ سے کھانا ، سلام کہنا، میت کو غسل دینا، ظہرکے فرائض سے پہلے چار سنتیں ادا کرنا سنت ہے۔ وغیرہ۔ عرف میں لوگ ’’سنت‘‘ کا لفظ بول کر یہ سارے مفاہیم مراد لے لیتے ہیں۔ وہ ان مفاہیم میں فرق نہیں سمجھتے۔یہ فرق نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے کہ لوگ ان بیان کردہ کئی چیزوں کو ’’نبوی سنن‘‘ کے بجاے’’دینی سنن‘‘بھی سمجھنے لگتے ہیں ۔
یہی معاملہ ’’سنت علاج‘‘ کے عنوان سے اختیار کیا جاتا ہے۔ لوگ ’’طب نبوی‘‘ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے ادویات کی انڈسٹری بناتے اور جاہل عاشق مریضوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے لوٹ لیتے ہیں۔ کسے نہیں معلوم کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنا علاج اس دور کے حکما و اطبا سے ہی کرایا کرتے تھے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی صحابہ سے یہ نہیں فرمایا کہ فلاں مرض کا فلاں علاج مجھے وحی میں تجویز کیا گیا ہے۔صحابہ نے بھی کبھی علاج معالجے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رخ نہیں فرمایا۔حضورصلی اللہ علیہ وسلم سمیت سبھی صحابہ اپنے علاج معالجے کے لیے اس دور کے طبیبوں سے رجوع کیا کرتے اور انھی کی تجویز کردہ دوائیں استعمال کیا کرتے تھے۔
اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ جن امور کو محض نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہونے کی حیثیت سے سنت کہہ لیا جاتا ہے، ان سب کا تعلق دینی سنن سے نہیں ہوتا۔ یعنی ایسا نہیں ہوتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کرتے اور عمامے کو دینی لباس کی حیثیت سے امت میں جاری کر دیا ہو یا کھجوریا کسی اور دوا یا غذا کا مقام دینی غذا یا دوا کا بن گیا ہو یا یہ کہ گھوڑے کو دینی سواری قرار دیا گیا ہو۔ اور ایسے امور کا مطلب یہ بھی نہیں ہوتا کہ یہ امور صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار فرمائے ہیں۔اپنی حقیقت میں یہ نبوی سنتیں بھی ایک زمانے کے ’’عرب کلچر‘‘ کی سنتیں ہیں۔یہ سب امور خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دین کی حیثیت سے منقول نہیں اور نہ ہی خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں کبھی دینی حیثیت سے پیش فرمایا۔خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دور میں پہنا جانے والا لباس ہی اپنایا اور اس وقت کھائی جانے والی غذائیں ہی استعمال فرمائیں۔
ان امور کا تعلق دین سے نہیں، اس دور کے ’’عرب کلچر‘‘سے تھا۔ یہ بھی درست ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کرتا اور عمامہ پہنا کرتے تھے، مگر یہ بھی غلط نہیں کہ دوسری طرف ٹھیک یہی لباس دشمن اسلام ابوجہل کا بھی ہوا کرتاتھا۔ ان چیزوں کا تعلق دینی سنن سے ہرگز نہیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سواریوں کا معاملہ بھی اسی طرح کا ہے۔صحابۂ کرام کا معاملہ بھی یہی رہا کہ اسی نبوی دور میں ہونے کی وجہ سے وہ بھی یہ سب امور اسی طرح کرتے رہے، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اس زمانے کے باقی مسلم، غیرمسلم سبھی لوگ کیا کرتے تھے، مگر بعد کے لوگوں نے ، مقامی لباس و خوراک مختلف ہونے کے باوجود، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم والا لباس و خوراک وغیرہ اپنانا شروع کر دیا۔ ایسا محبت کے فطری جذبہ کے تحت ہی ہوا اور یہ اپنی جگہ ایک قابل قدر جذبہ ہے۔لوگ جس شخصیت سے محبت کیا کرتے ہیں، اس کے طور اطوار اور لباس و انداز بھی اپنایا کرتے ہیں۔کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے جذبے کے تحت کرتا پہنے، زلفیں دراز کرے یا مسواک پر اصرار کرے تو اس کا یہ جذبہ اور ذوق قابل قدر ہے، مگر معاملہ اب اس فطری حد کو کراس کرکے سنگین مسئلہ کی صورت اختیار کر چکا ہے۔
ان امور پر سنت کے اطلاق کی وجہ سے لوگوں نے غلط فہمی کے باعث لباس و خوراک تک کو بھی دینی نوعیت کی اہمیت دینا شروع کر دی۔ پھر ہمارے واعظین کی طرف سے سنتوں پر عمل کے فضائل کے بیان نے اس عمومی غلط فہمی سے مل کر یہ رنگ پکڑا کہ ’’سنت کے مطابق زندگی‘‘ سے مراد’’ ٹوپی ، کرتے، پگڑی، مسواک اور زلفوں والی زندگی‘‘ لی جانے لگی۔ آج ہم اسی غلط فہمی کے دور میں جی رہے ہیں۔ لوگوں میں عمامہ پہن کر نماز پڑھنے کی فضیلت کے چرچے عام ہو چکے ہیں۔
فضائل کی کتب میں نماز میں خشوع و خضوع کی کوئی فضیلت منقول نہیں، البتہ عمامہ پہن کر نماز ادا کرنے کا غیرمعمولی اجر منقول ہے۔ اپنے آغاز کے لحاظ سے محبت کے نفیس اور قابل قدر جذبے سے پیدا ہونے والے اس رویے نے غلط فہمیوں سے مل کر یہ صورت اختیار کر لی کہ اب ’’مسنون زندگی‘‘ کا مطلب عام طور پر ’’مخصوص لباس و حلیے‘‘ والی زندگی سمجھا جانے لگا ہے۔ مسنون زندگی کے اس تصور نے جب ہمارے ہاں کے مذہبی طبقے کے شعار کا روپ دھارا تو اب یہ ’’مسنون زندگی‘‘ ترقی کرکے’’واحد اسلامی زندگی‘‘ کی سطح پر آچکی ہے۔ اس قسم کی ’’مسنون زندگی‘‘نے ’’مذہبی فیشن‘‘ بن جانے کے بعد سنگین مسائل پیدا کیے:
٭ لوگوں نے اس مخصوص حلیے والی زندگی کے خلاف اپنے ماحول کے مطابق لباس اور حلیہ اپنانے کو ’’خلاف سنت‘‘ زندگی سمجھ ڈالا۔بعض مذہبی لوگوں میں کالر والی قمیص پہننے کو بھی معیوب جانا جاتا ہے اور سر کو ننگا رکھنا بے دینی کی علامت بنا دیا گیا ہے۔سماج میں ایسے جاہلانہ تصورات کے عمومی غلبے کی وجہ سے ایک دین دار آدمی کا نقشہ یہ بن گیا ہے کہ وہ ڈاڑھی، پگڑی اور کرتے والا شخص ہو اور اپنے ہم راہ مسواک اور تسبیح بھی رکھتا ہو۔اور جو شخص اس مخصوص حلیے کی پابندی نہیں کرتا، وہ دین دار انسان کہلائے جانے کا مستحق نہیں۔شلوار قمیص، پینٹ شرٹ، ٹروزر جیسے لباس بے دینوں کے لباس سمجھے جانے لگے اور سر پر ٹوپی پگڑی نہ رکھناسنت سے دوری اور بے دینی کی علامت سمجھی جانے لگی۔
٭ لوگوں نے یہ سمجھا کہ اسلامی زندگی اپنانے کے لیے ہمیں اپنا لباس، وضع قطع وغیرہ سب بدلنا ہو گا، جو کہ عمومی طور پر سماج کی اکثریت کے لیے ممکن ہی نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں سماج میں تین قسم کے لوگ پیدا ہو جاتے ہیں:
۱۔ اس مخصوص وضع کو اپنا لینے والادین داری کے زعم میں مبتلا مذہبی طبقہ؛
۲۔ دین کے اس قسم کے تصور سے بدظن ہو کر دین بے زار طبقہ؛
۳۔ دین کے اس تصور کو ناقابل عمل جان کر بے وجہ احساس گناہ میں جینے والا گناہ گار طبقہ ۔
یہ تینوں حالتیں انتہائی خطرناک ہیں، اس لیے کہ:
۱۔ مذہب کے اصل مقصود کو فراموش کر کے ان امور کو اہم سمجھ لینا جو سرے سے مذہبی مطالبات میں شامل ہی نہیں۔
۲۔ دین کے اس غلط تصور کی وجہ سے سماج کے ایک طبقے کادین کے نام پر خوددین سے بے وجہ بے زار ہو جانا۔ بے وجہ اس لیے کہ خود دین میں ایسا کوئی مطالبہ شامل ہی نہیں جو خواہ مخواہ دینی مطالبہ بنا کر پیش کردیا گیا۔
۳۔ خود کو بے دین و گناہ گار سمجھنے کی نفسیات انسان کو فسق و فجور پر آمادہ رکھتی اور خدا اور دین سے دور کرتی چلی جاتی ہیں۔ لوگوں کی اکثریت آج اسی احساس کے زیر اثر فسق و فجور کی طرف بڑھتی چلی جارہی ہے۔ لوگوں کی اکثریت اس ’’دینی فیشن‘‘ کو اپنانا سخت مشکل خیال کرکے دین کی طرف آنے سے ہی کترانے لگی۔
ضروری ہے کہ:
٭ دینی مطالبات پیش کرنے میں اپنی طرف سے کسی قسم کا اضافہ کسی جذبے کے تحت کبھی نہ کیا جائے۔ دانستہ ایسا کرنا بدترین گناہ ہے۔ جو لوگ اس حقیقت کو سمجھ چکے، وہ ان لوگوں کی دانست میں یہ چیز لائیں تاکہ وہ نادانستہ چندلوگوں کو دین دار بنانے کی کوشش میں اکثر لوگوں کو دین بے زار بنانے کا ذریعہ نہ بنیں۔
٭ محبت کے جذبے سے اپنائی گئی ’’نبوی سنتیں‘‘ ذاتی اور ذوقی درجے میں ہی رکھی جائیں، انھیں ’’دینی سنتوں‘‘ کے طور پر پیش کرنے کے رویے کی اصلاح کی جائے۔ اور جو لوگ اس طرح کی ذوقی چیزوں میں اپنے ذوق اور عرف کے مطابق کوئی اور قسم کا لباس پہنتے ہیں، اسے ’’خلاف سنت لباس‘‘ یا ’’بے دینوں کا لباس ‘‘ قراردینے کی جسارت نہ کی جائے۔ بلکہ دقت نظر سے دیکھا جائے تو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا رویہ یہی تھا کہ اپنے دور میں پہنا جانے والا شرفاکا لباس اپنایا جائے۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اگر آج کے دور میں تشریف لاتے تو یقیناً ان کا لباس وہ نہ ہوتا جو قدیم عرب کے عرف کے لحاظ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت زیب تن فرمایا۔اس زمانے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے تو یقیناً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواریاں اونٹ گدھے نہ ہوتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہتھیاروں میں زرہ و تلوار اور تیر و تبر کا ذکر نہ ہوتا۔ لوگوں کی بدفہمی کے نتیجے میں اس قسم کی زمانی نوعیت کی چیزیں بھی دین، بلکہ ’’دینی شعار‘‘ بن کر رہ گئیں۔
٭ قرآن و سنت کو بنیاد بنا کر دین کے حقیقی مطالبات پوری صراحت کے ساتھ لوگوں کے سامنے رکھے جائیں تاکہ وہ اپنی شخصیت کو پاکیزہ بنا کر ’’حقیقی اسلامی زندگی‘‘ جینے کی کوشش کر سکیں۔ بالآخر لوگ یہ جانیں کہ ’’مسنون یاا سلامی زندگی‘‘سے مراد ’’کرتے، مسواک، زلفوں اور پگڑی ‘‘ والی زندگی نہیں، بلکہ ’’ایمان، معرفت، تقویٰ، اخلاص، سچائی، ایثار، محبت، وفاداری، دیانت داری، انسان دوستی، ہم دردی، پاک دامنی، صلہ رحمی، صدقہ، قربانی، حسن اخلاق اورحسن اعمال وغیرہ‘‘ والی زندگی ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــ