فلسفۂ اخلاق کا ہمیشہ سے یہ ایک بنیادی سوال رہا ہے کہ علم ومعرفت کو جانچنے کا معیار اور اُس کی اصل غایت و مقصد کیا ہے؟ اِس سوال کے مختلف جواب دیے گئے ہیں۔
تاہم غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی پراسرار چیز نہیں۔علم ومعرفت کا معیار اور اُس کا مقصدانسانی شخصیت کی تعمیر ہے، یعنی ایمان واخلاق کے اعتبار سے آدمی کا تزکیہ و تطہیر۔
حقیقت یہ ہے کہ ایمان واخلاق کے بغیرعلم ومعرفت کا دعویٰ محض ایک ایسے کاغذی پیرہن کے مانند ہے جو آزمایش کی طوفانی برسات میں آدمی کو پوری طرح برہنہ کردیتا ہے۔
یہ آزمایش کیا ہے؟ یہ ہے ــــ خدا کا خوف، انسان سے محبت، حسن اخلاق، عدل و انصاف، قیام بالقسط، اپنی ذات، اپنے گروہ اور اپنے مزعومات کے خلاف ہونے کے باوجود حق و صداقت کے سامنے آتے ہی اُس کے آگے جھک جانا (الّذين إذا أعطُوا الحقّ، قَبِلُوه)[1]۔
حقیقت یہ ہے کہ علم ومعرفت کا تعلق براہ راست آدمی کی شخصیت (personality)سے ہے۔یہ اگر آدمی کی شخصیت کا حصہ نہ بنے تو اِس کو ایک قسم کا ذہنی تعیش (intellectual luxury) یا عارفانہ وجد (spiritual ecstasy) تو کہا جاسکتا ہے، مگر وہ ہرگز کوئی ایسی چیز نہیں جو آدمی کے لیے نفسیاتی غذا ثابت ہو، جو اُس کی اصل شخصیت میں جوہری تبدیلی پیدا کرے،جو اُس کے لیے ایک مطلوب تعمیری جز کی حیثیت رکھتی ہو۔
اخلاقیات سے خالی معرفت کا تصور اسلام میں سرتاسر اجنبی ہے۔ اخلاق ،ایمان کا لازمی تقاضا اور اُس کے ظہور ہی کا دوسرا نام ہے۔ ایمان اگر معرفت ہے تو حسن اخلاق عمل صالح، اوریہ ایک مبرہن حقیقت ہے کہ کسی آدمی کے ایمان ومعرفت کی تصدیق عمل سے ہوتی ہے، نہ کہ محض زبان سے۔
(لکھنؤ، ۲۵/اکتوبر ۲۰۱۹ء)
ـــــــــــــــــــــــــ
[1]۔ اِس روایت کے مزید الفاظ یہ ہیں: ’وإذا سُئلوه، بَذَلُوه؛ وحَکَمُوا لِلنّاس کحُکمِهم لأنفسهم‘، ’’جب اُن کے سامنے حق کو پیش کیا جائے تو وہ بلا تامل اُسے قبول کرلیں، جب اُن سے مانگا جائے تو وہ دیں اور لوگوں کے لیے وہ اُسی طرح فیصلہ کریں، جس طرح وہ اپنے لیے پسند کرتے ہیں‘‘ (جامع المسانید والسنن ،ابن کثیر، رقم ۲۵۵۹)۔