[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ ]
۱۴ھ:جنگ قادسیہ میں حضرت عمر نے حضرت عبدالرحمٰن بن ربیعہ كو قاضی مقرركرنے كے ساتھ مال فے و غنائم تقسیم كرنے كی ذمہ داری دی۔ انھوں نے حضرت سلمان فارسی كو فوج كا واعظ اور داعی مقرر كیا۔
۱۵ھ:اس سال حضرت عمر نے وظائف كا دیوان مرتب كیا۔ انھوں نےجنگ بدر میں حصہ لینے والے صحابہ كے لیےپانچ ہزار درہم ، جنگ بدر كے بعدصلح حدیبیہ تك ہونے والے غزوات میں شریك ہونے والے اصحاب كے لیےچار ہزار اورصلح حدیبیہ كے بعد فتنۂ ارتداد تك ہونے والی جنگوں میں حصہ لینے والے اہل ایمان كے لیے تین ہزار درہم وظیفہ مقرر كیا۔ حضرت عمر نے آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم كے نواسوں، حضرت حسن، حضرت حسین اور آپ كے دو صحابہ حضرت سلمان فارسی اور حضرت ابوذرغفاری كے لیے ان كے مرتبوں كى وجہ سے بدری صحابہ كے برابر وظیفہ جاری كیا۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم كایہ ارشاد ان كے پیش نظر رہا: سلمان كا تعلق ہم سے ہے، سلمان اہل بیت میں سے ہیں (مستدرك حاكم، رقم ۶۵۳۹۔ المعجم الكبیر، طبرانی، رقم ۶۰۴۰)۔
ایك بار حضرت عمر نے حضرت سلمان فارسی سے پوچھا:میں بادشاہ ہوں یاخلیفہ؟ انھوں نے جواب دیا:اگر آپ نے مسلمانوں كی سرزمین سے ایك درہم یا اس سےزیادہ یا كم بھی وصول كر كے ناجائز جگہ خرچ كردیا تو آپ بادشاه بن جائیں گے اور خلیفہ نہیں رہیں گے۔ اس پر حضرت عمر رو دیے۔
صفر۱۶ ھ(مارچ ۶۳۷ء):قدیم عراقی شہر بہر سیر فتح كرنے كے بعد اسلامی فوج كے كمانڈر حضرت سعد بن ابی وقاص نے مدائن كا رخ كیا۔ دونوں شہروں كے درمیان دریاے دجلہ حائل تھا۔ حضرت سعد نے دریا پار كرنے كے لیے كشتیوں كی تلاش كی تو پتا چلا كہ ساسانیوں نے اپنے قبضے میں كر ركھی ہیں۔ ماه صفر كے چند دن بہرسیر میں گزرگئے تو لوگ دریا كے پار جانے كے لیے بے چین ہو گئے۔ اس اثنا میں حضرت سعد نے خواب میں دیكها كہ مسلم فوج كے گهوڑے دریا میں گهس گئے ہیں اور بہ حفاظت اسے عبور كر لیا ہے۔ انھوں نےاس خواب پر عمل كرنے كا اراده ظاہر كیاتوچھ سو سپاہی پانی میں كودنے كے لیےتیار ہو گئے۔ حضرت سعد نے ان میں سے ساٹھ جوانوں كو حضرت عاصم بن عمروكی سالاری میں ذمہ داری سونپی كہ ساحل كی حفاظت كریں اورلشكركو دشمن كے حملوں سے بچائیں۔ چھ سو كا دستہ دریا پار كر كے دوسرے كنارے پرپہنچ گیا تو حضرت سعد نے باقی فوج كو بھی كودنے كا حكم دے دیا، وه خوددریا میں گھوڑا دوڑاتے ہوئے دعا كرتے جا رہے تھے: ’حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ‘ (الله ہی ہمارے لیے كافی ہے اور بہترین كار ساز ہے)۔ حضرت سلمان فارسی باتیں كرتے ہوئےان كے ساتھ ساتھ تیر رہے تھے اور فرما رہے تھے: اسلام كا طور نیا ہے، مسلمانوں كے لیے دریا اورسمندر اسی طرح مسخر كر دیے گئے ہیں، جس طرح خشكی ان كے تابع بنا دی گئی ہے۔ اس ذات كی قسم جس كے قبضے میں سلمان كی جان ہے، اہل ایمان دجلہ سے اسی طرح فوج در فوج نكلیں گے، جس طرح اس میں كودے تھے۔ یوں جیش اسلامی طغیانی میں آئے ہوئے دجلہ سے گزر كر دوسرے كنارے پرپہنچ گیا اورحضرت سلمان فارسی كی قسم بھی پوری ہوئی۔ مالك بن عامر عنبری كے ایك لكڑی كے پیالے كے سوا كوئی چیز نہ كھوئی، اسے بھی دریا كی موجوں نے دوسرےكنارے پر پھینك دیا۔ ایك مسلمان غرقدہ (یا عرفدہ )بارقی گھوڑے سے پھسلا توحضرت قعقاع نے اسے واپس بٹھا دیا۔ اس دن كویوم الماء (پانی كا دن) كہا گیا۔ دشمن یہ كہتے ہوئے اپنا مال و اسباب چھوڑ كر بھاگا كہ یہ تو انسان نہیں، جن ہیں۔
مدائن میں سب سے پہلے حضرت عاصم كا دستہ داخل ہوا، پھر حضرت قعقاع اپنے سپاہیوں كو لے كر آئے۔ اكثر ایرانی اپنےبادشاہ یزدگرد سمیت حلوان کو فرار ہوچکے تھے۔ پھر بھی حضرت سعد بن ابی وقاص نے مناسب سمجھا كہ ایوان كسریٰ، قصر ابیض میں داخل ہونے سے پہلے اس كے خالی ہونے كی تصدیق كر لیں۔ انھوں نے حضرت سلمان فارسی سے کہاكہ قصر ابیض (White Palace) کے باشندگان کو فارسی میں آوازدیں۔ حضرت سلمان تین دن تک انھیں پکا رتےرہے۔ جب کوئی جواب نہ ملا تو حضرت سعد اپنی فوج لے كر ساسانیوں کے اس عالی شان محل میں داخل ہو گئے جہاںتیس کھرب دینار کا خزانہ اور سامان زیبایش جمع تھا۔ انھوں نے آٹھ رکعت نماز فتح ادا کی اور شاہی ایوان کو مسجد میں تبدیل کر دیا۔ صفر۱۶ھ میں انھوں نےسرزمین عراق میں پہلا جمعہ پڑھایا۔
یكم ذی قعد ۱۶ھ(۲۴؍ نومبر۶۳۷ ء) فتح مدائن كےبعدحضرت سعد بن ابی وقاص نے ایرانیوں سے مزید جنگ کرنے کی کوئی پلاننگ نہ کی، کیونکہ خلیفۂ ثانی کی طرف سے ایسا حکم نہ ملا تھا۔ اس اثنا میں ایران کے بھگوڑے شاه یزدگرد نے ایك بڑی فوج تیار كر كے، مہران کو کمانڈر مقرر کیا اور اسے مدائن سےپینتیس میل دور جلولا (كردی زبان میں: گولالہ)کے قلعہ نما شہر میں متعین كر دیا۔ قادسیہ میں ہلاک ہونے والے جرنیل رستم کے بھائی خرزادبن فرخ زاد نے جلولا کے گرد خندق کھدوا کر اس کے گرد لوہے کی خاردار تار نصب کرا دی تھی۔ حضرت سعد كو علم ہوا تو انھوں نےحضرت عمر سے ہدایات مانگیں۔ حضرت عمر نے حضرت ہاشم بن عتبہ كی قیادت میں باره ہزار كی فوج جلولا بھیجنے كاحكم دیا۔ ایرانیوں کو قلعہ بند پاكر حضرت ہاشم نے ان كا محاصره كر لیا۔ اڑھائی ماہ گزر گئے، ایرانی قلعہ سے نکل کر اسلامی فوج پر حملہ کرتے اور پسپا ہو کر لوٹتے۔آخر كار تنگ آ کر ایک صبح انھوں نے پوری نفری كے ساتھ اسلامی فوج پر حملہ كر دیا۔ فریقین میں سخت جنگ ہوئی، عصرتک کوئی فیصلہ نہ ہوا تو مقدمہ كے كمانڈرحضر ت قعقاع نے سپاہیوں کوالله پر توكل كرتے ہوئےیک جان ہوكرٹوٹ پڑنے کاحکم دیا۔ رات تك مسلمانوں نے خندق تک یلغار کر لی۔ سپاہی جنگ اگلے دن تک موقوف کرنا چاہتے تھے، لیكن حضرت قعقاع نے جنگ جاری رکھنے کا حكم دیا۔ ایرانی مجوسی فوج پسپا ہو كر الٹے پاؤں واپس ہوئی تو اپنی کھودی ہوئی خندق ہی راه میں رکاوٹ بن گئی، سپاہی گاجر مولی کی طرح کٹنے لگے۔ ایک رات میں ایك لاکھ ایرانی کھیت رہے، باقیوں نے حلوان کو راہ فرار اختیار کی جہاں ان کا شکست خوردہ بادشاہ یزدگرد پناه لیے ہوئے تھا۔ اسلامی فوج كو ملنے والے مال غنیمت كی مالیت تین كروڑدرہم تھی، اسلحہ اس كے علاوه تھا۔ اسی قدر مال وہ مدائن میں حاصل كر چكے تھے۔ مال غنیمت تقسیم كرنے كی ذمہ داری حضرت سلمان فارسی (:ابن كثیر، حضرت سلمان بن ربیعہ: طبری)كو دی گئی۔
محرم۱۷ ھ (۶۳۹ء): مدائن میں سكونت اختیار كرنے كے بعدمسلمان سپاہیوں كی صحتیں خراب ہوگئیں۔ اس بات كو امیرالمومنین نے بھی محسوس كیا۔ حضرت حذیفہ بن یمان نے خط لكھا:ناموافق آب و ہوا کی وجہ سے مسلمان فوجیوں کے پیٹ ساتھ لگ گئے ہیں، بازوؤں اور ٹانگوں سے گوشت اتر گیا ہے اوران کے رنگ سیاہ ہوگئے ہیں۔ حضرت سعد بن ابی وقاص نے اس كی تائید كی توحضرت عمر نے ہدایت بھیجی، یہاں کے لوگوں کو وہی آب و ہوا موافق ہو گی جو ان کے اونٹوں کے لیے سازگار ہو۔ انھیں دریاؤں سے دورخشک زمینوں میں آباد کروجہاں پانی کے چشمے بھی ہوں۔ میرے اور تمھارے درمیان كوئی دریا یا پل نہ ہو۔ چنانچہ مناسب مقام كی تلاش میں حضرت سلمان فارسی ( سلمان بن زیاد:ابن كثیر) دریاے فرات کے مغرب میں انبارتک گئے، لیکن کوئی جگہ پسند نہ آئی۔ حضرت حذیفہ بن یمان دریا کی مشرقی سمت میں گئے، پھرتے پھرتے حیرہ کے قریب اس مقام تک آئے جسے کوفہ کہا جاتا ہے، یعنی سرخ ریت اور سنگ ریزوں والی زمین۔ انھوں نے نئے شہر کے لیے اسی جگہ کا انتخاب کیاجو دریاے فرات کے قریب ہونے کے باوجود صحر اسے دور نہ تھی۔ حضرت حذیفہ اور حضرت سلمان نے اس جگہ نماز ادا کی اور نئے شہر کے لیے برکت و ثبات کی دعا مانگی۔ حضرت سعد مدائن سے آئے اور سب سے پہلے بلند ترین جگہ کی نشان دہی کر کے مسجد تعمیر کرائی۔ پھر انھوں نے ایک ماہر تیر انداز بلایا جس نے مسجد کے چاروں طرف ممكن حد تك دورتیر پھینکے۔ تیر گرنے کے مقامات تک کی جگہ بازارکے لیے چھوڑی گئی اور اس سے پرے عوام الناس نے حضرت عمر كی ہدایت كے مطابق نرسل كے گھر بنا لیے۔ ابن جوزی كہتے ہیں: كوفہ جنگ مدائن كے گیاره ماه بعد آباد ہوا۔
۳۲ھ (۶۵۴ء): خلیفۂ سوم حضرت عثمان كے حكم پرگورنر کوفہ حضرت سعید بن العاص نے حضرت سلمان بن ربیعہ کی قیادت میں ایک مہم داغستان كے شہر باب الابواب (Derbent)یا دربند شروان روانہ کی۔ ادھر ان كے بھائی حضرت عبدالرحمٰن بن ربیعہ نےخزرخاقانیت كے دارالخلافہ بلنجر پر حملہ كیا۔ اس پہلی عرب خزرجنگ میں حضرت عبدالرحمٰن اور ان کے بے شمار سپاہیوں نے شہادت پائی، اسلامی فوج شکست کھا کر دو حصوں میں بٹ گئی۔ ایک حصہ باب (Derbent)کی طرف بھاگا اور حضرت سلمان بن ربیعہ کی قیادت میں آنے والی کمک سے جا ملا۔ ایک گروہ جس میں حضرت سلمان فارسی، حضرت ابوہریرہ، علقمہ بن قیس اور حضرت خالد بن ربیعہ تھے، خزر کے راستے پر چلتے ہوئے گیلان پہنچااور پہاڑوں پر چڑهتا ہواجرجان میں منتشر ہو گیا۔ انجام کارحضرت سلمان بن ربیعہ کے جیش نے فتح پائی اور وہی باب (دربند) کے نئے عامل مقر ر ہوئے۔
حضرت سلمان فارسی بیمار ہوئے تو حضرت سعد بن ابی وقاص ان كی عیادت كو آ ئے۔ حضرت سلمان رونے لگے تو حضرت سعد نے كہا: رو كیوں رہے ہیں؟كیا آپ رسول الله صلی الله علیہ وسلم كے صحابی نہیں؟وفات كے وقت آں حضرت آپ سے راضی تھے اورحوض كوثرپر آپ سے ملاقات كریں گے۔ حضرت سلمان نے كہا: میں موت كے ڈر اور دنیا كی حرص سے نہیں، بلكہ اس لیے رو ر ہا ہوں كہ آپ نے ہمیں نصیحت فرمائی تھی: تمھارے پاس دنیا میں گزارے كے لیے اتنا ہی سامان ہونا چاہیے جتنا ایك مسافر كا زاد راه ہوتا ہے۔ میں نے آپ كی نافرمانی كر دی، میرے اردگرد یہ ساز و سامان دنیا تو دیكھو، حالاں كہ ان كے پاس ایك تسلے، ایك پیالے اور ایك لوٹے كے سوا كچھ نہ تھا، اس سامان كی كل قیمت پچیس یا تیس درہم بنتی تھی۔ حضرت سعد نے كہا:ابو عبدالله ، ہم آپ كے بعد رسول الله صلی الله علیہ وسلم كے اس فرمان پرعمل پیرا رہیں گے۔ حضرت سلمان نے نصیحت كی:سعد ، جب تم كوئی اراده كرو تو الله كو یاد ركھو، جب فیصلہ كرو تو الله كو یاد كرو اور جب مال تقسیم كرو تو الله كو یاد كرو (ابن ماجہ، رقم ۴۱۰۴۔ احمد، رقم ۲۳۷۱۱۔ حلیۃ الاولیاء۶۱۴)۔ كسی ساتھی نے وصیت كرنے كو كہا تو فرمایا: كوشش كرنا كہ حج و عمرہ، جہاد یا قرآن مجید كو اگلی نسل تك منتقل كرتے ہوئے جان نكلے، آخری وقت فسق و فجور یا خیانت میں مبتلا نہ ہو جانا۔ جب مرض كی شدت زیاده ہو گئی تو جنگ جلولا (یا جنگ بلنجر) میں ملنے والی مشك كی پڑیا منگوائی اور اپنی اہلیہ بقیرہ سے كہا :اسے پانی میں ملا كر میرے گرد چھڑكو اور بالا خانے كے چاروں دروازے كھول دو، اب میرے مہمان آنے والے ہیں جو خوشبو سونگھتے ہیں اور كهاتے كچھ نہیں، معلوم نہیں، كس دروازے سے داخل ہوں۔ كچھ ہی دیرمیں نزع كا عالم طاری ہوا اور ان كی روح قفس عنصری سے پرواز كر گئی (حلیۃ الاولیاء ۶۶۷)۔
مشہور روایت كے مطابق حضرت سلمان فارسی كا سن وفات۳۶ھ(۶۵۷ء)ہے۔ ابن جوزی كا كہنا ہے كہ وه عہد عثمانی میں ۳۲ھ (۶۵۳ء)میں فوت ہوئے۔ سعید بن مسیب بیان كرتے ہیں: حضرت سعد كے ساتھ حضرت عبدالله بن مسعود بھی حضرت سلمان فارسی كی عیادت كرنے آئے(التاریخ الكبیر، بخاری ۴۱ )۔ حضرت ابن مسعود كی وفات (۳۴ھ)سے قبل ہوئی۔ اس حساب سے حضرت سلمان كا سن وفات ۳۲ھ یا ۳۳ھ بنتا ہے۔
حضرت سلمان كی عمراڑھائی سوسال، بلكہ بعض روایات میں تین سو سال بیا ن كی جاتی ہے۔ ذہبی كہتے ہیں: میں ان كی بتائی ہوئی اتنی عمر سے مطمئن نہیں اور اسے درست نہیں مانتا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص كاان كو كہنا كہ اسی سال گزار لینے كے بعد آپ كارونے كا كیا مطلب، واضح كرتا ہے كہ ان كی عمر اسی كے لگ بھگ رہی ہو گی۔ ان كی ہمت، سرگرمی اورمعمولات بتاتے ہیں كہ وہ اتنے بوڑھے نہ تھے۔ اپنا وطن چھوڑ كر مدینہ پہنچے ہوں گے تو چالیس برس سے زیاده نہ ہوں گے(سیر اعلام النبلاء:قصۃ سلمان الفارسی )۔ ابن حجر نے آخری عمر میں حضرت سلمان فارسی كی چستی اور نشاط كو خارق عادت پر محمول كرتے ہوئے ذہبی پر اعتراض كیا كہ انھوں نے اپنے خیال كی تائید میں كوئی سند پیش نہیں كی۔
حضرت سلمان فارسی مدائن میں فوت ہوئے، ان كی آخری آرام گاه انھی كے نام سے منسوب مدائن كےقصبے سلمان پاك میں ہے۔ یہ عراق كے دارالحكومت بغداد سے بیس میل (بتیس كلومیٹر) اور طاق كسریٰ (Kasra Taq یا ایوان مدائن) سے ایك میل كے فاصلے پر ہے۔ وہاں ایك عالی شان مسجد بھی تعمیر كی گئی ہے۔ حضرت حذیفہ بن یمان ان كے پہلو میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔ كچھ شاذروایات میں حضرت سلمان كا مدفن بیت المقدس یا اصفہان میں بتایا گیا ہے۔
ابوعبدالله حضرت سلمان كی كنیت اورسلمان الخیر (سلمان المحمدی) لقب تھا۔ حضرت ابوہریره انھیں ابوالكتابین كے لقب سے پكارتے تھے۔
حضرت سلمان فارسی دراز قامت تھے۔ ان كے بال گھنے اور كان لمبے تھے-
ابن قتیبہ كہتے ہیں:حضرت سلمان فارسی فصحاے عرب كی طرح فصیح عربی بولتے تھے، تاہم ان كے شاگرد ابو عثمان نہدی كا كہنا ہے كہ عجمی لہجہ ركھنے كی وجہ سے ان كی بات سمجھنا مشكل ہوتی تھی۔
ابو قره كندی نے حضرت سلمان فارسی كو اپنی ہمشیر سے شادی كی پیش كش كی، لیكن انھوں نے اپنی مالكہ بُقیرہ سے بیاه كیا (احمد، رقم ۲۳۷۲۱)۔ بُقیره سے ان كی تین بیٹیاں ہوئیں۔ ایك اصفہان میں رہی، جب كہ دومصر میں مقیم ہوئیں، دو بیٹے عبدالله اور محمدہوئے ۔تیسرے بیٹے كثیر اورایك بھائی بشیر كا ذكر ملتا ہے۔ حضرت سلمان فارسی كے پوتے، پڑپوتے رے میں پانچ سو سال تك موجود رہے۔ان میں سےبدر الدین حسن بن علی، بخارا كے مہتمم امور شرعیہ ضیاء الدین، تاج الشعرا شمس الدین سوزنی، ابوكثیر بن عبدالرحمٰن اور ابو اسحٰق كارزونی مشہور ہوئے (سلمان فارسی ، استاندارمدائن، صادقی اردستانی ۳۷۷ - ۳۹۰) ۔
نبی صلی الله علیہ وسلم كا ارشاد ہے: سلمان ایران سے دین حق كی طرف سبقت كرنے والے ہیں (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۲۹۹۵۔ مستدرك حاكم، رقم ۶۵۴۱)۔ آپ نے یہ بھی فرمایا:سابقین چار ہیں، میں عرب سے سبقت كرنے والا ہوں، صہیب روم سے، سلمان فارس سے اور بلال حبشہ سے سبقت كرنے والے ہیں (مستدرك حاكم، رقم ۵۲۴۳۔ حلیۃ الاولیاء۵۹۸)۔
صلح حدیبیہ كے بعد كسی موقع پر ابوسفیان كی حضرت سلمان فارسی ، حضرت صہیب رومی اور حضرت بلال حبشی سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے كہا: والله، الله كی تلواریں الله كے دشمن كی گردن ماپ نہیں سكیں، ابوسفیان ابھی اسلام نہیں لائے تھے۔ حضر ت ابوبكر نے جو پاس ہی تھے، انھیں ڈانٹا:تم قریش كے بزرگ اور سردار كو اس طرح كہہ رہے ہو؟ آں حضور صلی الله علیہ وسلم كو پتا چلا تو فرمایا:ابو بكر ، ہو سكتا ہے، تم نے ان كو ناراض كر دیا ہو۔ تم نے انھیں غصہ دلایا توگویا اپنے رب كو غضب ناك كردیا۔ حضرت ابوبكر فوراً ان اصحاب كے پاس پہنچے اور معذرت كی۔ انھوں نے كہا: بھائی، الله آپ سے درگذر كرے، ہم آپ سے ہرگز ناراض نہیں ہوئے(مسلم، رقم ۶۴۹۶۔ المعجم الكبیر، احمد ، رقم ۲۰۶۴۰۔ طبرانی ، رقم ۱۴۴۵۶)۔
حضرت ابو ہریره فرماتے ہیں:ہم نبی صلی الله علیہ وسلم كے پاس بیٹھے تھے كہ سورۂ جمعہ نازل ہوئی۔ آپ نے آیات ’هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهٖ وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَﵯ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ. وَّاٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْﵧ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ‘، ’’یہ الله ہی ہے جس نے امی قوم میں انھی سےتعلق ركھنے والا ایك رسول مبعوث كیا جو انھیں الله كی آیات پڑھ كر سناتا ہے، ان كا تزکیہ كرتا ہے اور انھیں كتاب و حكمت كی تعلیم دیتا ہے، اگرچہ اس سے پہلے وه كھلی گم راہی میں پڑے تھے۔ اور ان میں سے كچھ دوسرے ہیں جو ابھی ان میں شامل نہیں ہوئے، الله زبردست اور حكمت والا ہے‘‘(۶۲: ۲ - ۳ ) تلاوت كیں تو حضرت ابوہریره نے پوچھا: یا رسول الله ، یہ ’اٰخَرِيْنَ‘ كون ہیں؟آپ نے جواب ارشاد نہ فرمایا، حتیٰ كہ انھوں نے تین دفعہ سوال دہرایا۔ حضرت سلمان فارسی حلقۂ اصحاب میں بیٹھے تھے، آپ نے ان پر ہاتھ ركھ كر فرمایا:اگر ایمان ثریا پر ہوتا تب بھی ان كی قوم میں سے ایك یا زیاده اشخاص اسے پالیتے(بخاری، رقم ۴۸۹۷۔ مسلم، رقم ۶۵۹۰۔ ترمذی، رقم ۳۳۱۰۔ احمد، رقم ۹۴۰۶۔ السنن الكبریٰ، نسائی، رقم ۸۲۷۸)۔
ایك بار نبی صلی الله علیہ وسلم نےآیت ’وَاِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْﶈ ثُمَّ لَا يَكُوْنُوْ٘ا اَمْثَالَكُمْ‘، ’’ اگر تم دین اسلام كے لیے جہاد و انفاق كرنے سے روگردانی كرو گے تو الله تمھارے بدلے میں كوئی دوسر ی قوم منتخب كر لے گا، پھر وه تم جیسے نہ ہوں گے‘‘ (محمد۴۷: ۳۸) تلاوت فرمائی توصحابہ نے سوال كیا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم، ہمارے بدلے میں كس كو لایا جائے گا؟ حضرت سلمان فارسی پاس ہی بیٹھے تھے، آپ نے ان كے كندھے پر دست مبارك ركھ كر فرمایا:یہ اور ان كی قوم، یہ اور ان كی قوم (ترمذی، رقم ۲۳۶۰۔ مستدرك حاكم، رقم ۳۷۰۹)۔
حضرت انس بن مالك كی روایت ہے كہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:جنت تین اصحاب سے ملنے كی مشتاق ہے: علی، عمار اور سلمان (ترمذی، رقم ۳۷۹۷۔ مستدرك حاكم، رقم ۶۶۶)۔ حاكم نے اس روایت كوصحیح قرار دیا ہے، جب كہ ترمذی نے حسن اور غریب بتایا ہے۔ ذہبی كہتے ہیں: یہ ضعیف السند ہے۔ حضرت ابوبریده بیان كرتے ہیں: مجھے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے حكم دیا كہ میں چار آدمیوں سے محبت كروں اور فرمایا: میں بھی ان سے محبت كرتا ہوں۔ آپ نے ان كے نام بھی گنوائے: علی ، ابوذر ، مقداد اور سلمان (ترمذی، رقم ۳۷۱۸۔ ابن ماجہ ، رقم ۱۴۹۔ احمد، رقم ۲۲۹۶۸۔ مستدرك حاكم، رقم ۴۶۴۹)۔ اس روایت كے راوی ابوربیعہ ایادی محل نقد ہیں۔ حیرت ہے كہ ان دونوں روایا ت میں صرف انھی صحابہ كے نام گنوائے گئے ہیں جن كی صحابیت كے شیعہ قائل ہیں۔
نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:ہر نبی کو سات معزز رفقا یا وزرا عطا كیے گئے، جب کہ مجھے چودہ نقیبوں كی (سات قریش سے اور سات باقی مہاجرین میں سے) معیت حاصل ہے۔ ان کے نام یہ ہیں، علی، حسن، حسین، جعفر، حمزہ، ابوبکر، عمر، مصعب ، بلال ، سلمان، عمار ، مقداد، حذیفہ اور عبدالله بن مسعود (ترمذی ، رقم ۳۷۵۸۔ احمد، رقم ۶۶۵، ۱۲۶۳) ۔ ترمذی نے اس روایت كو حسن، غریب بتایا، جب كہ شعیب الارنؤوط نے احمد کی روایات کو ضعیف قرار دیاہے۔
حضرت عائشہ فرماتی ہیں كہ حضرت سلمان رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے رات كو تنہا ملاقات كرتے تھے، لگتا تھا كہ وه ہمارا وقت بھی لے لیں گے(الاستیعاب ۲/ ۶۳۶۔ اسد الغابہ ۲/ ۳۳۱)۔
ایك بار حضور صلی الله علیہ وسلم نےحضرت سلمان فارسی سے فرمایا: سلمان، مجھ سے بغض نہ ركھنا، مبادا كہ اپنا دین چھوڑ بیٹھو۔ حضرت سلمان نے كہا:یا رسول الله ، میں آپ سے بغض كیسے ركھ سكتا ہوں، الله نےآپ ہی كے ذریعے سے تو ہم سب كو ہدایت بخشی ہے۔ آپ نے فرمایا:تم عربوں سے نفرت كرو گے تو یہ تمھاری مجھ سے نفرت ہو گی(ترمذی، رقم ۳۹۲۷۔ احمد، رقم ۲۳۷۳۱۔ مسند بزار ، رقم ۲۵۰۲)۔
حضرت سلمان فارسی كے بارے میں حضرت علی كی راے لی گئی تو فرمایا:وه ہم اہل بیت میں سے تھے۔ حكیم لقمان كی طرح ان كو اول و آخر كا علم دیا گیا تھا، سمندر تھے جسے خشك نہیں كیا جا سكتا(مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۲۹۹۶۔ حلیۃ الاولیاء۶۰۲)۔
منصب خلافت پر فائز ہونے سے پہلے حضرت علی نے حضرت سلمان فارسی كوخط لكھا:حمد و ثنا كے بعد، بلاشبہ دنیا سانپ كے مانند ہے۔ مس كرنے میں تو ملائم اور نرم نرم لگتا ہے، مگر اس كا زہر جان لے لیتا ہے۔ جو تمھیں بھلا لگے، اس سے دو ر ہی رہو، كیونكہ دل لبھانے والی چیزوں میں سے كم ہی تمھارا ساتھ دیں گی۔ دنیا كے تفكرات كی پروا نہ كرو، اس لیے كہ تمھیں خود یقین ہے كہ وہ زائل ہو جائیں گے اور حالات پلٹ جائیں گے۔ دنیا سے بہت انس محسوس ہو تو اس سے مزید ہوشیا ر ہو جاؤ، كیونكہ دنیا چاہنے والاجب كسی خوشی سے سكون حاصل كرتا ہے تو یہی اسے ان پریشانیوں میں ڈال دیتی ہے جن سے آدمی بچنا چاہتا ہے۔ یوں وقتی سرور انس كو وحشت میں بدل دیتا ہے۔ والسلام(نہج البلاغۃ، رسائل امیر المومنین :۶۸)۔
حضرت معاذ بن جبل نےاپنے شاگردیزید بن عمیره كو مزید تعلیم كے لیے حضرت سلمان فارسی كے پاس بھیجا۔
حضرت معاذ كا آخری وقت آیا تو پاس موجود لوگوں نے كہا: حضرت كوئی نصیحت فرمائیں۔ انھوں نے بٹھانے كو كہا، جب انھیں بٹھا دیا گیا تو فرمایا: علم اور ایمان اپنی جگہ پر ملتے ہیں، جو ان كی طلب ركھتا ہے، پا لیتا ہے۔ علم چار اصحاب كے پاس ڈھونڈنا: عویمر ابو الدرداء ، سلمان فارسی ، عبدالله بن مسعود اور عبدالله بن سلام (ترمذی، رقم ۳۸۰۴۔ احمد، رقم ۲۲۱۰۴)۔
ایك تابعی ابوسبره مدینہ آئے اور دعا كی كہ الله كوئی اچھا ہم نشیں میسر كر دے۔ حضرت ابو ہریرہ سے ان كی ملاقات ہوئی تو خوش ہوئے كہ ان كی دعا قبول ہوئی۔ حضرت ابو ہریرہ نے پوچھا:آپ كہاں سے آئے ہیں؟بتایا: كوفہ سے، بہتر كی تلاش كرتے ہوئے مدینہ آیا ہوں۔ حضرت ابوہریره نے فرمایا:كیا تمھارے ہاں سعد بن ابی وقاص نہیں جن كی دعا قبول ہوتی ہے؟ابن مسعود نہیں جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم كے لیے وضو كا پانی لاتے اور آپ كی جوتیاں اٹھاتے تھے؟ حذیفہ جو راز دان رسول تھے؟عمار جنھیں الله نے اپنے نبی كی زبانی شیطان سے پناه میں ركھنے كی خبر دی تھی؟اور سلمان فارسی جو دو الہامی كتابوں ــــــ انجیل اور قرآن ــــــ كے عالم تھے؟ (ترمذی، رقم ۳۸۱۱۔ مستدرك حاكم، رقم ۵۶۷۹) ۔
حضرت ابوالدردا ء ( اصل نام:حضرت عویمر بن زیدیا قیس )حضرت سلمان فارسی كے انصاری بھائی تھے، وه نوافل پڑھتے یا نفلی روزه ركھتے تو حضرت سلمان فارسی انھیں منع كرتے۔ حضرت ابو الدردا ء كہتے: آپ مجھے اپنے رب كا روزه ركھنے اور اس كی نماز پڑھنے سے كیوں منع كرتے ہیں؟جواب دیا: تمھاری آنكھ اپنا نیندكا حق چاہتی ہے اور تمھارے اہل خانہ اپنے لیے وقت كا تقاضا كرتے ہیں۔ ہر حق دار كا حق ادا كرو۔ یہ بات رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم تك پہنچی توفرمایا: سلمان علم سے سیر ہو گیا ہے(مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۲۹۹۴۔ طبقات ابن سعد:سلمان الفارسی )۔
ایك جمعہ كے روز حضرت سلمان حضرت ابوالدردا ء كے گھر گئے تو یہ دیكھ كر كہ ان كی اہلیہ حضرت خیرہ بنت ابو حدردنے میلے كچیلے كپڑے پہن ركھے ہیں، پوچھا:كیا ہوا؟ بتایا:آپ كے بھائی ابوالدرداء دنیا سے(عورتوں سے، مصنف ابن ابی شیببہ، رقم ۳۵۸۱۳) بے نیاز ہو گئے ہیں۔ شب كو نوافل پڑھتے ہیں اور دن میں روزه ركھ لیتے ہیں، اس وقت وه سو رہےہیں۔ حضرت سلمان نے اسی وقت كھانا پكوایا اور حضرت ابوالدرداء كوجگا كر پیش كیا۔ انھوں نے كہا:میں روزے سے ہوں۔ حضرت سلمان نے كہا:میں نہ كھاؤں گا جب تك تم نہ كھاؤ۔ چنانچہ ان كےاصرارپر حضرت ابوالدرداء نے روزه كھول لیا۔ جب رات شروع ہوئی تو حضرت ابوالدراء نوافل ادا كرنے كے لیے اٹھے، حضرت سلمان نے كہا: سو جاؤ، وه سو گئے، لیكن كچھ ہی دیر كے بعد پھراٹھ كھڑے ہوئے۔ حضرت سلمان نے پھر سونے كو كہا۔ رات كا آخری پہر ہوا تو انھوں نے حضرت ابوالدرداء كو خود جگا یا، پھر دونوں بھائیوں نے تہجد پڑھی۔ اس موقع پر حضرت سلمان نے كہا:آپ كے رب كا آپ پر حق ہے، آپ كے نفس كا آپ پر حق ہے اور آپ كے گھر والوں كا آپ پر حق ہے۔ ہر حق داركو اس كا حق ادا کیجیے۔ انھوں نے حضرت ابوالدرداء كو نصیحت كرتے ہوئے رسول الله صلی الله علیہ وسلم كا یہ فرمان بھی سنایا:قیام اللیل كے لیے جمعہ كی شب اور روزه ركھنے كے لیے جمعہ كا دن منتخب نہ كرو۔ دونوں جب نبی صلی الله علیہ وسلم كی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضرت سلمان فارسی كےعمل كا تذكره ہوا تو آپ نے حضرت ابوالدرداء كی ران پر ہاتھ مار كر تین بار فرمایا: اے عویمر، سلمان نے سچ كہا، وه تم سے بہتر جانتا ہے
(بخاری، رقم ۱۹۶۸۔ترمذی، رقم ۲۴۱۳۔ صحیح ابن خزیمہ، رقم ۲۱۴۴۔ مسندبزار، رقم ۲۵۴۳۔ مصنف عبدالرزاق ، رقم ۷۸۰۳)۔ حضرت سلمان نے مزید كہا:اونٹ كواتنا تیز نہ دوڑاؤ كہ وه مرنے والا ہو جائے اور نہ رك رك كر چلو كہ پچھلی سواریاں آگے نكل جائیں، درمیانی چال چلو، اونٹوں كی انتہائی رفتار كو پہنچ جاؤگےاور رات كے پہلے اور آخری حصے میں سفر جاری ركھ سكو گے۔
ایك نیك كام شروع كر كے اسے مكمل نہ كرنا اچھا نہیں، اس لیے فقہا كی اكثریت كا خیال ہے كہ نفلی روزه توڑنے كی قضا مستحب ہے، امام ابو حنیفہ ہر حال میں قضاكو واجب قرار دیتےہیں، جب كہ امام مالك صرف اس صورت میں وجوب كے قائل ہیں جب روزه كسی عذر كے بغیر توڑا گیا ہو۔
حضرت ابوالدرداء سےخصوصی تعلقات كی بنا پر حضرت سلمان فارسی نےانھیں مسجد سے چپكے رہنےكی نصیحت كرتےہوئے رسول الله صلی الله علیہ وسلم كا فرمان سنایا: ہر متقی مسجد كو گھر سمجھتا ہے۔ جو لوگ مسجدوں كواپنا گھر بناتے ہیں، الله تعالیٰ نے ان كے لیے راحت و رحمت اور پل صراط سے گزر جانے كی ضمانت دی ہے (مسند بزار، رقم ۲۵۴۶۔ المعجم الكبیر، طبرانی، رقم ۶۱۴۳)۔
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نےحضرت ابوالدرداء كا حضرت سلمان سے بھائی چاره قائم فرمایا تھا۔ خلافت راشده كے زمانے میں حضرت ابوالدرداء شام میں، جب كہ حضرت سلمان عراق میں بس گئے۔ حضرت ابوالدرداء نے حضرت سلمان كو خط لكھا:ا لله نے مجھے بہت مال و دولت عطا كیا ہےاور میں ارض مقدسہ (فلسطین)میں آبادہو گیا ہوں۔ حضرت سلمان نے جواب بھیجا:خیر مال و اولاد كی كثرت سے نہیں ملتا، بلكہ تب ملتا ہے جب تمھاری دانش بڑھ جائے اور تمھا را عمل تمھارے لیے نفع مند ہو جائے۔ اسی طرح زمین كسی كو مقدس نہیں بناتی، بلكہ انسان كو اس كا عمل مقدس بناتا ہے(اسد الغابہ ۲/۳۳۱۔ حلیۃ الاولیاء۶۵۲)۔
حضرت حذیفہ مدائن میں تھے تو لوگوں کو و ہ باتیں بتا دیتے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے كچھ صحابہ سے خفا ہو کر کہی تھیں۔ جب یہ حضرت سلمان فارسی سے ان باتوں كاذکركرتے تووه كہتے: ان کا حذیفہ ہی کوزیادہ علم ہو گا۔ یہ واپس حضرت حذیفہ كے پاس پہنچتے اور كہتے كہ حضرت سلمان آپ كی باتوں كی تصدیق كرتے ہیں نہ تردید۔ چنانچہ حضرت حذیفہ خود حضرت سلمان سے ملنے گئے اور پوچھا:كیا امر مانع ہے كہ آپ ان ارشادات كی تصدیق نہیں کرتے جو میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سن ركھے ہیں۔ حضرت سلمان نے کہا: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ سے خفا ہوتے تو اس كا اظہاركر دیتے تھے اور جب خوش ہوتے تو كلمات رضا بھی ارشاد كر دیتے تھے۔ كیا آپ اس بات سے رك نہیں سكتے كہ ان فرامین رسول كو بیان كر كے لوگوں میں كچھ اصحاب رسول سے محبت اور دوسروں سے بغض پیدا كریں او ر اس طرح امت میں تفرقے اور اختلاف كو ہوا دیں۔ آپ جانتے ہیں كہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے خطبہ ارشاد كرتے ہوئے دعا فرمائی تھی: اے الله، میں بھی ابن آدم ہوں، غصے میں آ جاتا ہوں۔ تو نے مجھے رحمۃً للعا لمین بنا كر بھیجا ہے، اس لیے اپنی امت میں سے جس كو بھی میں نےغصے میں برا بھلا كہا ہو یا لعنت ملامت كی ہو، روز قیامت اس پر رحمت بے حساب كر دینا۔ بخدا حذیفہ ، آپ ایسا کرنا چھوڑدیں، نہیں تو میں امیرالمومنین عمر کو لکھ بھیجوں گا۔ بعد میں یہ معاملہ سلجھ گیا اور خط لكھنے كی نوبت نہ آئی (ابوداؤد، رقم ۴۶۵۹۔ احمد، رقم ۲۳۷۲۱۔ المعجم الكبیر، طبرانی، رقم ۶۱۵۶)۔
عہد رسالت میں حضرت سلمان اصحاب صفہ كے فقرا میں شامل تھے۔
اپنی گورنری كے زمانہ میں وه كھجور كےپتوں سے ٹوكریاں بنا كر بیچتےاور اس سے گھر كا خرچ چلاتے، حالاں كہ سركاری عہده ركھنےكی وجہ سےانھیں بیت المال سے گزارے كا خرچ لینے كی اجازت تھی۔ كہتے ہیں:میں ایك درہم كے پتے خریدتا ہوں اورٹوكری بنا كر تین درہم كی بیچ دیتا ہوں، ایك درہم صدقہ كر دیتا ہوں، ایك درہم كے اور پتے لے لیتا ہوں اور ایك درہم سے گھر كا خرچ چلاتا ہوں۔ امیر المومنین عمر منع كریں توبھی نہ ركوں (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۵۸۰۷)۔
ایك شخص ابو عزره نے حضرت سلمان فارسی كی بہت خوبیاں سنیں تو ان سے ملنے قادسیہ آیا تو دیكھا كہ وه جھولا(زنبیل)سی رہے ہیں اور كھال رنگ رہے ہیں(مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۵۸۲۳)۔
حضرت سلمان فارسی اپنی محنت كی كمائی سے كھانا بناتے اور كوڑھیوں كو بلاكر ان كے ساتھ كھاتے (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۵۸۰۶۔ حلیۃ الاولیاء۶۳۲)۔
ایك شخص حضرت سلمان سے ملنےان كے گھر آیا تودیكھا كہ وہ آٹا گوندھ رہےہیں۔ اس نے پوچھا: حضرت، یہ كیا؟ حضرت سلمان نے جواب دیا: ہم نے خادم كو كسی كام سے بھیج ركھا ہے۔ اب نہیں چاہتے كہ اس سے دودو كام كرائیں(حلیۃ الاولیاء۶۳۶)۔
زید بن صوحان نے حضرت سلمان فارسی كو وسق بھر غلہ(آج كل كے حساب سے ایك سو تیس كلو) خریدتے دیكھاتو كہا: ابو عبدالله ، رسول الله صلی الله علیہ وسلم كے صحابی ہو كر اتنا غلہ لے رہے ہیں؟حضرت سلمان نے جواب دیا: انسان جب اپنا رزق اكٹھا كر لیتا ہے تو مطمئن ہو كر عبادت كے لیے فارغ ہو جاتا ہے اور اس كے وسوسے زائل ہو جاتے ہیں(حلیۃ الاولیاء ۶۶۴)۔
حضرت جریر بن عبدالله كا مكہ سے كوفہ جانے والے راستے پر واقع وادی صفاح سے گزر ہوا تو ایك شخص كو سخت گرمی میں درخت كے سائے میں عبا اوڑھے سویا ہوا دیكھا، كچھ كھانا پاس پڑا تھا، توشہ دان سر كے نیچے تھا۔ انھوں نے سواری سےاتر كردیكھا تووه حضرت سلمان فارسی تھے۔ حضرت جریر نے كہا:ہم نے تو آپ كو سایہ مہیا كیا تھا۔ حضرت سلمان نےجواب دیا:جو دنیا میں تواضع اختیار كرتا ہے، الله روز قیامت اسے بلند كرے گااور جو دنیا میں بڑا بننےكی كوشش كرتا ہے، الله اسے آخرت میں پست كر دے گا۔
حضرت سلمان فارسی نے الله تعالی ٰ كا فرمان ’وَاِنَّ جَهَنَّمَ لَمَوْعِدُهُمْ اَجْمَعِيْنَ. لَهَا سَبْعَةُ اَبْوَابٍﵧ لِكُلِّ بَابٍ مِّنْهُمْ جُزْءٌ مَّقْسُوْمٌ‘، ’’بلا شبہ، ان سب منكروں كا وعید كرده ٹھكانا جہنم ہے، جس كے سات دروازے ہیں، ہر دروازے سے ان كا طے شده مخصوص حصہ داخل ہو گا‘‘ (الحجر۱۵: ۴۳ -۴۴) سنا تو خوف سے تین دن دیوانہ وار بھاگتے رہے۔ انھیں نبی صلی الله علیہ وسلم كے پاس لایا گیا تو كہا: یا رسول الله ، اس ذات كی قسم جس نے آپ كو حق كے ساتھ بھیجا ہے، الله كے اس ارشاد نے میرا دل ٹكڑے ٹكڑے كر دیا ہے۔ تب اگلی آیت نازل ہوئی: ’اِنَّ الْمُتَّقِيْنَ فِيْ جَنّٰتٍ وَّعُيُوْنٍ. اُدْخُلُوْهَا بِسَلٰمٍ اٰمِنِيْنَ‘، ’’بے شك، الله سے ڈرنے والے باغوں اور چشموں میں پہنچیں گے۔ ان سے كہا جائے گا:ان جنتوں میں داخل ہو جاؤ سلامتی كے ساتھ بے خوف وخطر‘‘ (الحجر۱۵: ۴۵ - ۴۶)۔
حضرت سلمان فارسی سے پوچھا گیا:آپ كوامارت و حكومت بری كیوں لگتی ہے؟ كہا: یہ ماں كے دودھ كی طرح ہے ، ملنےپرمیٹھی لگتی ہے اور اس كا چھوٹنا كڑوا لگتا ہے۔
حضرت سلمان كا كوئی گھر نہ تھا، جہاں چھاؤں ملتی، بسیرا كر لیتے۔ ایك شخص نے كہا:میں آپ كو گھر نہ بنا دوں جو گرمیوں میں سایہ مہیا كرے اور سردیوں میں آرام دے۔ اسے ہدایت كی:اس طرح بنانا كہ جب تم كھڑے ہو تو چھت سر كو لگے اور لیٹو تو پاؤں دیوار كو لگیں (مصنف عبدالرزاق، رقم ۲۰۶۳۱)۔
حضرت سلمان كے گدھے كا چاره چوری ہو گیا تو غلام یا باندی سے كہا: اگر مجھے قصاص كا ڈر نہ ہوتا تو تمھیں ضرور پیٹتا۔
[باقی]
_________