HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

کائنات کا آغاز و ارتقا: قرآنی بیانات اور سائنسی حقائق کے درمیان تطبیق کی راہ (۳)

[”نقطۂ نظر“ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

 

زمین پرزندگی

اس سلسلہ میں اسکالرجمشیداخترکی تشریح کی طرف قارئین کی توجہ ضرورمبذول کرانا چاہیں گے جس میں انھوں نے مختلف قرآنی آیات کی ترتیب سے ایک نیابیانیہ مرتب کرنے کی کوشش کی ہے۔جس میں قرآنی بیانات اورسائنسی بیانیہ میں تطبیق کی صورت نکل آتی ہے۔وہ لکھتے ہیں :

’’انسان اورپودے ایک ہی طرح سے زمین سے پیداکیے گئے ہیں(نوح۷۱: ۱۷)۔ اوریہ عمل مرحلہ وار ہوا ہے (نوح۷۱: ۱۴)۔ انسان کی شکل اسے اپنی تخلیق (اپنی بالکل بنیادی شکل میں )کے بعدملی ہے (الاعراف ۷: ۱۱)۔ اور اسے کھڑاہونے کی صلاحیت ایک انتہائی خوبصورت منصوبے کے ذیل میں دی گئی (التین ۹۵: ۴)۔تخلیق کے بنیادی اجزا دھول (الحج ۲۲: ۵۔ الکہف ۱۸: ۳۷۔ الروم ۳۰: ۲۰۔ فاطر ۳۵: ۱۱۔ الغافر ۴۰: ۶۱) ۔ اورپانی (طور ۵۲: ۴۴)ہیں۔تخلیق کا واقعی عمل مٹی سے شروع ہوا (السجدہ ۳۲: ۷)۔ اس عمل میں مالیکیولز کے چپک جانے کے عمل نے (العلق ۹۶:۲ )۔ اور پانی کی ایک بہت کم مقدارنے اہم حصہ اداکیا(عبس ۸۰: ۱۹)۔رقیق ایک مکسچربن گیاجس میں molecules شامل ہوچکے تھے (الدھر ۷۶:۲)۔ اس میں ایک مکروہ بو پیدا ہو چکی تھی (ناتمام مالیکولز میں سخت بو ہوتی ہے (المرسلات ۷۷: ۲۰)۔یہ پوراعمل ایک محفوظ اورغیرمتحرک جگہ پر ہوا (المرسلات ۷۷: ۲۱)۔ اوراس میں اتنا وقت لگا جس کا صحیح علم صرف خالق ہی کومعلوم ہے (المرسلات۷۷: ۲۲)۔ مٹی سے پیداہونے کے عمل میں ایک چیز سے دوسری چیز نکالنے کا عمل (سلالہ) شامل تھا (المومنون ۲۳: ۱۲)۔آیات میں اس عمل کے مختلف مراحل کا پتا چلتاہے جس میں نامیاتی مالیکیولز بہ تدریج غالب ہوتے گئے (المائدہ ۵: ۲۲)۔وقت گزرنے کے ساتھ زندگی واضح روپ اختیارکرنے لگی (الحجر ۱۵: ۵۱)۔ جس میں ہڈیوں کی ساخت سے ایک اندرونی سپورٹ پیداہوئی جوبتدریج tissues اور musclesسے ڈھانپی گئی (المومنون۲۳: ۴)۔ اس کے بعدزندگی میں آواز پیداکرنے کی صلاحیت پیداکی گئی (الحجر ۱۵: ۲۶۔ الصافات ۳۷: ۱۱)۔ اورپھرانسانی جسم کی صورت گری کی گئی جومٹی کے برتن بنانے سے مشابہ تھی،تاکہ آواز کی صلاحیت کو کنٹرول کرنے کی استطاعت دی جاسکے (الرحمٰن ۵۵:۱۴)۔جینیاتی اطلاعات کومکس کرنے اوران کا تبادلہ کرنے میں جنس (نر و مادہ) کی پیدایش نے اہم کرداراداکیا۔تخلیق میں ایک ترتیب رکھ (دے) کرآیات السجدہ (۹،۸،۷)یہ واضح کرتی ہیں کہ دھول سے زندگی کے آغاز اورجدیدانسان کی پیدایش کے درمیان مختلف مراحل سے گزرنے میں ہر مرحلہ کی مختلف نسلیں پیداکی گئیں۔قرآن ایک تمثیلی آیت (البقرہ ۲ :۲۶۰)کے مالیکولز میں پائے جانے والے ایک خصوصی میلان کی طرف اشارہ کرتاہے۔اس کے علاوہ زندگی کی پیدایش میں چاربنیادی یونٹس کا رول اور teleonomicمقصدکی سمت زندگی کے ارتقا میں کودکرچلنے یااچھل کرچلنے سے مماثلت کی وضاحت کی گئی ہے۔اس پورے عمل میں ایسالگتاہے کہ ایک ایساطویل وقفہ گزراجس میں زندہ اجسام بے نام اورحقیررہے (الدھر ۷۶ : ۱)۔ایسی تمام آیات زندگی کی پیدایش اورانسان کے درمیان ایک تسلسل کے وجودکی طرف اشارہ کرتی ہیں۔تخلیق کی ترتیب قرآن میں چھ مقامات پر واضح طورپربیا ن کی گئی ہے۔ زمین کی ابتدائی تاریخ میں ایسا لگتا ہے کہ کسی طرح کا جینیاتی ردوبدل (Genetic takeover) ہوا تھا۔ قرآن کریم کی آیات اس طرف اشارہ کرتی ہیں اورہم سمجھتے ہیں کہ اس خاص میدان میں گہری تحقیق اچھے نتائج سامنے لاسکتی ہے۔‘‘[46] 

 تاریخ عظیم یابگ ہسٹری کیاہے؟

عمومی طورپر تاریخ کی کتابیں،آدم سے شروع ہوکرانسانوں کے پتھرکے زمانے،خانہ بدوشی کے دورانیے اور شکارکرنے اورپھرمکان بنانے اور بہ تدریخ زراعت اورتجارت کوترقی دینے سے شروع ہوکرموجودہ دور کے صنعتی اورمابعدصنعتی معاشرہ کے ارتقا پر ختم ہوجاتی ہیں۔لیکن تاریخ عظیم یابگ ہسٹری میں انسان اس سے بہت آگے جاکرپہلے بگ بینگ اوراس سے کائنات کی نشوونما،پھراربوں سال بعدزمین کی تشکیل اور پھر بہ تدریج ملین سالوں میں اس میں زندگی کے ظہوراورمختلف مراحل سے گزرنے کے بعدجدیدانسان کے ظہورکی کہانی بیان کی جاتی ہے اور پھر تاریخ کے عمومی بیانیہ پر پہنچتے ہیں۔ امریکی مؤرخ ڈاکر کرسچین اورمشہوراسرائیلی ماہرمستقبلیات یوال نواحراری نے اس تاریخ کومرتب کرنے میں اہم کرداراداکیاہے۔

چنانچہ اس کی ٹائم لائن کچھ یوں بیان کی جاتی ہے :( اس کی باریک تفصیلات کوسردست ہم نظرانداز کرتے ہیں ):

٭۴۵۴۰ / ارب برس قبل قدیم ترین زمین کی تشکیل ہوئی۔

٭۴۴۰۴ / ارب برس قبل زمین پر پانی کا پہلی مرتبہ نمودارہونا۔

٭۴۲۰۰/ ارب برس قبل زمین پرزندگی کا قدیم ترین ظہور۔

٭۳۹۰۰/ ارب برس پہلے پروکیریوٹس( Procaryotes )سے ملتے جلتے خلیوں کا ظہور،جب اولین نامیے توانائی کا حصول غیرنامیاتی موادپر عمل تکسید(آکسیجن کی آمیزش کا عمل )کی بدولت کرتے تھے۔

٭۳۵۰۰ /ارب برس قبل آخری عالم گیرمشترکہ جد امجدکا عرصہ ٔحیات۔اسی میں بیکٹریا اور آرکیا (Archaea) کے درمیان تقسیم وجودمیں آتی ہے۔

٭۲۸۰۰/ارب برس قبل خشکی پر انتہائی چھوٹے جان دار( microbial)کا اولین ثبوت ۔

٭۱۰.۸۰۰/ارب برس قبل اولین کثیرخلوی نامیے۔

٭۱۰۵۰۰ تا ۱۰.۵۸۰/ ارب برس قبل داکنبرین دھماکا ہوتاہے، یعنی ارضیاتی تنوع میں اضافہ ہوتاہے اور اچانک سے بڑے بڑے جانور ڈائنوسار وغیرہ پیداہوتے ہیں، جیساکہ فوسل رکارڈ بتاتے ہیں۔

٭۱۰.۴۲۰ /ارب برس قبل رے فن مچھلیاں ( Ray-Finned)اریکنڈ ( Arachnids)یامفتل پایہ رکھنے والے، مثلاًبچھو،مکڑی وغیرہ اورزمینی بچھوپیداہوئے۔

٭ ۳۹۵.۰ / ارب سال قبل ہارویسٹ مین ( Harvest man)، یعنی لمبی ٹانگوں والے عنکبے ظاہرہوئے۔

٭۱۰.۱۰/ ارب سال قبل گھاس کے بڑے بڑے قطعات اوربڑی چراگاہیں اوران میں رہنے والے جانور، سانپ اور کیڑے مکوڑے ظاہرہوئے۔واضح رہے ۱۰.۲۰ تا ۱۰.۳۶۳ /ارب سال قبل کے درمیان کے لمبے زمانے میں خشکی کے کیڑے، بیج والے پودے اور جنگلات، شارک مچھلیاں، بھونرے، ڈائنوسار، مکھیاں، کچھوے، پھولوں والے پودے،ممالیہ جانور،دانتوں والے پرندے،شہدکی مکھیاں،حیوانوں میں مقدم انواع (primate) طوطے،پن ڈبی، وھیل مچھلی، گینڈے اور اونٹ،سؤر،بلی،ہرن،زرافے، بلے وغیرہ کا ظہور ہوا۔ اسی لمبی مدت میں اوربھی اشیا،اورنمایاں حیوانوں وغیرہ کے پیداہونے کا ثبوت ملتاہے۔

٭۶.۵۰ ملین سال قبل اولین ہومانیز( Hominies )یابندروں سے زیادہ ترقی یافتہ ہمارے اجدادسامنے آئے۔

٭۶.۰۰ملین سال پہلے آسٹرالوپیتھینز(australopathenes)،یعنی چمپانزی اور انسانوں میں مشترک قریبی رشتہ دار(جواب معدوم ہوچکے ہیں )ظاہرہوئے۔

٭۲۸۰ملین سال پہلے اینتھروپیتھینسیزاورہوموہوبالیز( Homohobilies)کے درمیان والی انواع ظاہرہوئیں۔

۲۱۰ملین سال پہلے مشترک خاصیتوں کی حامل انسانی شکلیں

(genus homo)والی انواع کا ظہورہوا۔اس کے بعدنیاندرتھل،ہومونیڈ،ہوموارکٹس افریقا میں پائے گئے۔ جنھوں نے وہاں سے پھیل کرجاوا،سماترا، یورپ اورمشرق وسطیٰ وغیرہ میں مسکن بنایا۔نیاندرتھل کوئی ایک ہزارسال تک ہوموسیپین (جدیدانسان )کے ساتھ رہتے رہے، پھروہ اب سے تقریباً ۳۰ ہزارسال پہلے غائب ہوگئے[47]۔اس کی بہت سی وجوہات جدیدنیچرلسٹ مؤرخین بیان کرتے ہیں [48]۔ یوں ہوموسیپین ان پرغالب آئے اورپھرتبھی سے ہوموسیپین کی تاریخ دنیامیں شروع ہوجاتی ہے۔اس طرح سے جدیدانسان کی تاریخ کوئی ۳۰ہزارسال پہلے تک جاتی ہے۔البتہ مدون انسانی تاریخ جس کی تائیدبائیبل بھی کرتی ہے، چھ سے تیرہ ہزارسال پہلے تک جاتی ہے۔تاہم نئی کھدائیوں اورتحقیقات کاسلسلہ جاری ہے اوران سے یہ قوی امکان موجودہے کہ کئی ہزارسال کا یہ گیپ بھی پُرہوجائے گا۔قرآن اس بارے میں خاموش ہے۔البتہ وہ موجود انسانوں کا مورث اعلیٰ آدم اورحواکوقراردیتاہے۔ ملاحظہ ہو :’يٰ٘اَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰي وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا‘، ’’ اے لوگو،ہم نے تم کوایک مرداورایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تمھیں قوموں وقبیلوں میں منقسم کردیاتاکہ تم ایک دوسرے کوپہچانو‘‘(الحجرات ۴۹: ۱۳)وغیرہ آیات۔

تویہاں سوال یہ پیداہوگاکہ مذکورہ ٹائم لائن میں آدم کون ہیں؟آدم کس کوکہاگیاہے۔ذیل میں ہم اس گتھی کوسلجھانے کی کوشش کرتے ہیں :

 مفسر قرآن جناب جاوید احمد غامدی صاحب سورۂ سجدہ کی ذیل کی آیات کی تفسیرمیں لکھتے ہیں :

’’الَّذِيْ٘ اَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهٗ وَبَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِيْنٍ. ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهٗ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ مَّآءٍ مَّهِيْنٍ. ثُمَّ سَوّٰىهُ وَنَفَخَ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِهٖ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْـِٕدَةَﵧ قَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ.(۳۲: ۷ - ۹)
’’(وہی کہ) جس نے جو چیز بھی بنائی ہے، خوب ہی بنائی ہے(۱)۔ انسان کی تخلیق کا آغاز اُس نے مٹی سے کیا(۲)، پھر اُس کی نسل حقیر پانی کے خلاصے سے چلائی،(۳)پھراُس کے نوک پلک سنوارے اور اُس میں اپنی روح میں سے پھونک دیا(۴) اور تمھارے (سننے کے) لیے کان اور (دیکھنے کے لیے)آنکھیں اور (سمجھنے کے لیے)دل بنا دیے(۵) ــــ تم کم ہی شکرگزار ہوتے ہو(۶)! ‘‘
ترجمہ کے حواشی :
۱۔ یعنی ایسی متناسب، موزوں اور اپنے اوصاف و خصائص کے لحاظ سے ایسی کامل بنائی ہے کہ اُس میں نہ کسی نقص کی نشان دہی کی جا سکتی ہے، نہ کوئی ترمیم پیش کی جا سکتی ہے۔
۲۔   یہ پہلے مرحلے کا بیان ہے، جب انسان کا حیوانی وجود تخلیق ہوا۔ اِس کے لیے وہی طریقہ اختیار کیا گیا جو انسان کی پیدایش کے لیے اب اختیار کیا جاتا ہے، اِس فرق کے ساتھ کہ اب جو عمل ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے، اُس وقت زمین کے پیٹ میں ہوا ۔ چنانچہ مٹی کے وہی اجزا جو غذا کی صورت میں ہمارے اندر جاتے اور حقیر پانی کے خلاصے میں تبدیل ہو کر اُس عمل کی ابتدا کرتے ہیں جس سے انسان بنتے ہیں، اُس وقت سڑے ہوئے گارے کے اندر اِسی عمل سے گزرے۔ یہاں تک کہ جب خلقت پوری ہوگئی تو اوپر سے وہی گارا انڈے کے خول کی طرح خشک ہو گیا جس کے ٹوٹنے سے جیتی جاگتی ایک مخلوق نمودار ہوئی جسے انسان کا حیوانی وجود کہنا چاہیے۔ اِس سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ دوسری تمام مخلوقات بھی پہلی مرتبہ اِسی طریقے سے وجود میں آئیں۔
۳۔   یہ دوسرا مرحلہ ہے جس میں اِس طرح بنائی جانے والی مخلوق نے اپنی نسل آپ پیدا کرنی شروع کر دی۔ چنانچہ وہی عمل جو زمین کے پیٹ میں ہوا تھا، اب وہ ماں کے پیٹ میں ہونے لگا۔ یہ انسان کا وہ دور ہے ، جب وہ علم و ادراک سے محروم محض ایک ناتراشیدہ حیوان تھا۔
۴۔   یہ تیسرا مرحلہ ہے جس میں غالباً کئی نسلوں کے اختلاط سے انسان کے حیوانی وجود کو نک سک سے درست کیا گیا، یہاں تک کہ وہ اِس قابل ہو گیا کہ اُسے انسان کی شخصیت عطا کی جائے۔ چنانچہ اِس مخلوق کے جو افراد اُس وقت موجود تھے، اُن میں سے دو کا انتخاب کرکے خدا کی طرف سے ایک لطیف پھونک کے ذریعے سے جسے قرآن میں روح کہا گیا ہے، یہ شخصیت اُسے عطا کر دی گئی۔ یہی آدم و حوا تھے۔ اِس کے بعد جو انسان پیدا ہوئے، وہ سب اِنھی کی اولاد ہیں۔
قرآن کے اِس بیان سے، اگر غور کیجیے تو اُن تمام آثار کی نہایت معقول توجیہ ہو جاتی ہے جو سائنسی علوم کے ماہرین نے اب تک دریافت کیے ہیں اور جنھیں ڈاروینیت کے علم بردار اپنی تائید میں پیش کرتے اور اِس طرح اُن گتھیوں کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو اُن کے نظریے میں نہ پہلے حل ہوئی ہیں ، نہ آیندہ کبھی ہوں گی۔
۵۔   یہ نفخ روح کا نتیجہ ہے جس نے بصیرت و ادراک سے محروم ایک حیوان کے اندر سمع و بصراور دل و دماغ کی وہ صلاحیتیں پیدا کر دیں جو تمام حیوانات کے مقابل میں اُس کے لیے وجہ امتیاز ہیں۔ چنانچہ اب وہ اِس قابل ہو گیا کہ اُسے مخاطب کرکے یہ کہا جا سکے کہ ہم نے تمھارے لیے کان اور آنکھیں اور دل بنا دیے۔ قرآن نے اِسی بنا پر صیغۂ غائب کو یہاں پہنچ کر صیغۂ خطاب میں تبدیل کر دیا ہے۔
۶۔ یعنی اِس کے باوجود کہ اِن سب مراحل سے گزر کر اُس مقام تک پہنچے ہو، جہاں اب اپنے آپ کو دیکھ رہے ہو، لیکن تمھارا حال یہ ہے کہ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو۔ چنانچہ کبھی خدا کا انکار کرتے اور کبھی اُس کے شریک ٹھیرانے لگتے ہو۔‘‘[49]

ہمارے نزدیک یہی بہترتوجیہ ہے اوراسی مرحلہ کوہم مرحلہ ٔآدم کہہ سکتے ہیں۔مزیدآیات دیکھیں :

 ’وَاللّٰهُ اَنْۣبَتَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ نَبَاتًا‘،’’ اوراللہ نے تم کوزمین سے پودے کے ماننداگایا‘‘( نوح ۷۱: ۱۷) یعنی انسان کے حیوانی وجودنے مٹی کے اندرسے جنم لیاجیسے کہ پودے زمین سے اگتے ہیں۔اسی کے ہم معنی یہ آیتیں بھی ہیں :

 ’مِنْهَا خَلَقْنٰكُمْ وَفِيْهَا نُعِيْدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً اُخْرٰي‘، ’’ مٹی سے ہی ہم نے تم کوپیداکیااوراسی میں ہم تم کولوٹائیں گے اورپھراسی سے ایک بارپھرنکال لیں گے‘‘(طٰہٰ ۲۰: ۵۵)۔

 ’وَقَدْ خَلَقَكُمْ اَطْوَارًا‘، ’’اوراللہ نے تم کومختلف مراحل سے گزارکرخلق کیا‘‘( نوح۷۱: ۱۴ )۔اس آیت میں بھی تخلیق کے مختلف مراحل کی طرف اشارہ ہے جن سے روایتی طورپرماں کے پیٹ میں جنین کی مختلف حالتیں لی جاتی ہیں، مگرلفظ میں پوری گنجایش موجودہے کہ اس سے ارتقا کے مختلف مراحل مرادلیے جائیں۔

یوں یہ سب آیات اس نظریہ کومؤکدکرتی ہیں۔یہ گویاپہلامرحلہ ہوا۔

 ’كَمَا٘ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ ذُرِّيَّةِ قَوْمٍ اٰخَرِيْنَ‘،’’جیساکہ ہم نے تم کودوسرے لوگوں کی ذریت سے بنایاسنوارا‘‘(الانعام۶: ۱۳۳)۔ اس میں ’مِّنْ ذُرِّيَّةِ قَوْمٍ اٰخَرِيْنَ‘ معنی خیزہے اوراس سے اشارہ ملتاہے کہ مرحلہ ٔآدم میں آنے سے پہلے انسان دوسری گون کا تھا۔مولاناعبدالماجددریابادی کے مطابق’’یعنی نوع انسانی کے علاوہ کوئی اورہی نئی مخلوق‘‘[50]۔

اس کے بعدوالے مرحلہ میں جب انسان کا تسویہ ہوگیاتووہ توالدوتناسل کے مرحلہ میں داخل ہوااوراس مرحلہ کا تذکرہ اِن آیات میں کیاگیاہے :

وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّﵧ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ. ( الانبیاء ۲۱: ۳۰ )
’’ اوراس نے ہر جان دارکوپانی سے پیداکیا۔‘‘
هُوَ الَّذِيْ خَلَقَ مِنَ الْمَآءِ بَشَرًا‘ (الفرقان ۲۵: ۵۴)۔

وَاللّٰهُ خَلَقَ كُلَّ دَآبَّةٍ مِّنْ مَّآءٍ‘ (النور ۲۴: ۴۵) وغیرہ آیات ۔

زمین پر زندگی کے ظہور،حیوانوں کے وجوداورانسان کے حیوانی وجودسے انسانی قالب میں ارتقا پر، جو اربوں سال گزرے، اس پر اس آیت کوبھی محمول کیاجاسکتاہے : ’هَلْ اَتٰي عَلَي الْاِنْسَانِ حِيْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْـًٔا مَّذْكُوْرًا‘ (الدھر ۷۶: ۱ )۔ اس میں دہرسے وہ نومہینے کی مدت مراد لینا بعید ہے، جب کہ انسان نومہینے ماں کے پیٹ میں رہتاہے۔قرآن کریم میں ایسی کوئی آیت نہیں ہے جوصراحت کے ساتھ یہ کہتی ہوکہ آدم و حوا کی پیدایش ڈائریکٹ اوریک بارگی ہوئی[51]۔

یہ پیپرانسانی زندگی کے نشووارتقا سے براہ راست بحث نہیں کرتا،اورآدم کا تذکرہ بھی اس میں ثانوی حیثیت میں آیاہے۔یہاں ایک باراسکالرجمشیداخترکی تحقیقات کی طرف قارئین کی توجہ ضرورمبذول کرائیں گے، جس میں انھوں نے علم جدیداورقرآن سے کشیدکردہ معلومات میں تطابق دکھایاہے[52]۔

ارتقا کے سلسلہ میں عصرحاضرکے معروف فلسفی سیدحسین نصرکی یہ راے بھی قابل لحاظ ہے کہ :

"The hypothesis of evolution itself a child of nineteenth century philosophy, becomes a dogma of biology presented to the world as an axiomatic truth and further more a mental fashion that pervades all realms so that one no longer studies anything in itself but only its evolution and history." (Man and Nature Page: 29 Mandala Books 1968 Uneven Publishers London )
’’ ارتقا کا مفروضہ جوخودانیسویں صدی کے فلسفہ کی پیداوارہے،بایولوجی کا عقیدہ بن گیاہے اوردنیاکے سامنے ایک مسلمہ حقیقت کے طورپر پیش کیا گیا اور ایک ذہنی فیشن بن کے ہر میدان میں سرایت کر گیا۔ چنانچہ اب کوئی بھی شخص کسی چیز کا مطالعہ نہیں کرتا، مگر صرف اس کے ارتقایاتاریخ کامطالعہ کرتا ہے ‘‘[53]۔

ارتقائی پراسس پر مبنی اس انسانی تاریخ پر مسلمانوں کی طرف سے اب تک بڑا اعتراض یہی سامنے آیاہے کہ اس کو تسلیم کرلینے کے نتیجہ میں انسان کی اشرفیت اورمخلوقات کے درمیان اس کے کمال کی نفی ہوجاتی ہے۔ چنانچہ سیدحسین نصرلکھتے ہیں [54]:

"The purpose and aim of creation is in fact for God to come to know Himself through His perfect instrument of knowledge that is the Universal man. Man therefor occupies a particular position in this world. He is at the axis and centre of the cosmic milieu at once the master and custodian of nature. By being taught the names of all things he gains domination over them. but he is given this power only because he is the vicegerent (khalifa) of God on earth and the instrument of His Will. Man is given the right to dominate over nature only by verute of his theomorphic make up, not as a rebel against heaven." (Man and Nature Page: 96 Mandala Books 1968 Uneven Publishers London )
’’تخلیق کا مقصد اور ہدف در حقیقت خداوند عالم کو اپنے کامل آلے کے ذریعہ جاننا ہے۔ اس کے لیے انسان اس دنیا میں ایک خاص مقام پر فائز ہے۔ فطرت کواس کے لیے مسخرکیاگیاہے۔وہ کائناتی فضا کے محور اور مرکز میں ہے۔اس کواشیا کا علم دیاگیاہے تاکہ وہ ان پر غلبہ حاصل کرے۔ لیکن اسے یہ اختیار صرف اس وجہ سے دیا گیا ہے کہ وہ زمین پر خدا کا خلیفہ اور اس کی مرضی برپاکرنے والے جارحہ کے مقام پر فائز ہے۔ انسان کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ فطرت کی تسخیراسی حیثیت میں کرے، نہ کہ خداکا باغی ہوکر۔‘‘

سرسید اورارتقا

اکثرایساہوتاہے کہ کسی صاحب علم نے اسلاف یاماضی کے اہل علم وفکرکے بارے میں کوئی بات کہہ دی اور معاصرین یابعدوالے اوریجنل مصادراورسورسزسے اس کوچیک کیے بغیراس نقل پر اعتمادکرکے اس کوآگے منتقل کرتے چلے گئے۔علمی دنیامیں اس کوایک مسلمہ مان کردہرایاجانے لگا۔بہت بعدمیں کسی کوتوفیق ملی اوراُس نے اصل مصادرسے چیک کیاتوحقیقت سامنے آگئی۔ مثال کے طورپر کہاجاتاہے کہ ارتقا کے مسئلہ پر مسلمانوں کے علمی ماضی میں اس سے ملتی جلتی رائیں مختلف اصحاب فکرکے ہاں پائی گئی ہیں۔مثال میں ابن مسکویہ کی ’’الفوزالاصغر‘‘،اخوان الصفاکے مقالات،رومی کی شاعری،اور ’’ کتاب الحیوان‘‘ میں الجاحظ کے بعض بیانات کونقل کیاجاتاہے۔لیکن Manufacturing Imposture The view on the Theory of Evolution through the Prism of Islam and Science by Abdelhaq M Hamza جوایک جامع مضمون ہے، میں صاحب مقالہ نے یہ ثابت کیاہے کہ ماضی کے جتنے لوگوں ابن مسکویہ،ابن خلدون، رومی وغیرہ کے حوالہ سے یہ جوبات اکثرکہی جاتی ہے کہ ان لوگوں کے ہاں انسانی ارتقا کا تصورکسی نہ کسی شکل میں پایاجاتاہے تویہ بہت بڑی غلط فہمی ہے جوان کے غلط ترجموں سے پیداہوئی ہے۔اصل متن کے مطالعہ سے ایسی کوئی بات ثابت نہیں ہوتی۔بالکل یہی بات سرسیداحمدخان کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے۔علمی حلقوں میں ان کے بارے میں یہ مشہورہوگیاہے کہ انھوں نے ڈارون کی تھیوری کوتسلیم کیاہے۔حالاں کہ یہ دعویٰ سراسر غلط اور بے بنیادہے۔سرسیدلکھتے ہیں :

’’اس زمانے میں کہاجاتاہے کہ ابتدا میں ہرایک نوع حیوان کے پیداکرنے کے لیے نیچرنے ایک ہی شے جان دار پیدا کی تھی جو دنیا میں پھیلی ہوئی تھی پھران ضروریات کے سبب جواُس کولاحق ہوتی گئیں اور موثرات خارجی کے سبب ایک ممتدزمانے میں اُس نے ترقی کی اوراُ س کی جسمانی اورذہنی حالت نے ایک ترقی یافتہ حالت پیداکی۔رفتہ رفتہ وہ اعلیٰ درجہ پر پہنچ گئی ۔‘‘

اس خیال پر تبصرہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں :

’’اس مسئلہ کے لیے برہان لمی یا اولیات کے دلائل کی نسبت زیادہ ترقیاسی اورخیالی دلیلیں ہیں۔اس مسئلہ کوہم انقلاب کے مسئلہ سے تعبیرکرتے ہیں اوراس بات کوتسلیم نہیں کرتے کہ پہلی قسم کا بندراُس کی نسل رفتہ رفتہ ترقی پاکرایک ممتدزمانہ میں انسان یاآدم بن گیا۔‘‘ [55]

سرسیدکے نزدیک ارتقا انسان کی ذہنی حالت میں ہواہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

’’قدرت نے بہت سے حیوانات میں ایک حدتک تربیت کامادہ رکھاہے جس سے جسمانی اورذہنی حالت کوترقی ہوئی۔اس طرح انسان میں بھی ایک مادہ ہے جس سے اُس کی ذہنی قوت اورپروازمیں ترقی پائی جاتی ہے اوریہ بات کہ اُس کی ترقی کی حدکہاں تک ہے ابھی تک تحقیق نہیں ہوئی اورمعلوم نہیں کہاں تک اُس کی ترقی کی حدہوگی۔اس لیے کہ انسان کی ذہنی قوت برابرترقی کرتی چلی جاتی ہے۔ ‘‘ [56] 

ایک جگہ توسرسیدنے ڈارون کا نام لے کرباضابطہ اس کی تھیوری کی تغلیط کی ہے۔[57] 

ایک جگہ وہ لکھتے ہیں کہ :

’’اس قسم کے انقلاب کے لیے اول ان دونوں نوعوں کا مستقل موجودہوناضروری ہے تاکہ شے ثالث وجودپذیر ہو،لہٰذا اس شے ثالث پر انقلاب شے ثانی کا اطلاق نہیں ہوسکتاہے، بلکہ وہ ایک نیانتیجہ ہے دوشیئوں کے اتحاداورملاپ کا،نہ انقلا ب ایک شے کا دوسری شے میں۔غرضیکہ یہ بات صحیح نہیں ہے کہ وہ حیوان جس کوبندرکہتے ہیں مرور دہور میں ترقی کرتے کرتے اس صورت میں آگیاجسے انسان کہتے ہیں،بلکہ قانون قدرت کا سلسلہ ٔانتظام ایسی مناسبت سے واقع ہواہے کہ اُس نے ابتدا ہی سے مخلوق کواسی مناسبت سے پیداکیاہے کہ اعلیٰ ادنیٰ سے موتیوں کی لڑی کے مثل مناسبت ومشابہت رکھتی ہے،اوراس لیے ضرورہے کہ انسان سے نیچے ایک ایسی مخلوق ہوجونہایت انسان کے مشابہ ہواوراس کے نیچے ایسی مخلوق ہوجواُس مخلوق سے جوانسان کے نیچے ہے مشابہ ہو۔‘‘[58] 

تحقیق کے نتائج

۱۔سائنس جوبیانیہ کائنات کے آغازوارتقا کا دیتی ہے، وہ قرآن کا مخالف نہیں ہے۔

۲۔البتہ اس بیانیہ کی بنیادپر وجوداورزندگی کی جونیچرلسٹ تعبیرکی جاتی ہے، یعنی بگ ہسٹری یاتاریخ عظیم کی وہ تشریح جس سے تخلیق صرف اورصرف نیچرپر مبنی اوربغیرکسی خالق کے ثابت کی جاتی ہے، وہ قرآن کے مخالف ہے۔مثلاً جس طرح اس کورچرڈ ڈاکن اورکارل ساگان وغیرہ اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں۔مثال کے طورپرکتاب ’’وقت کا سفر‘‘ پر اپنے مقدمہ میں کارل ساگان نے کہا:

’’جیساکہ ہاکنگ نے کھلے لفظوں میں کہاہے کہ وہ خداکے ذہن کوسمجھنے کی کوشش کررہاتھااوراسی کوشش کا بہت غیرمتوقع نتیجہ نکلتاہے۔کم ازکم اب تک تویہی کہاجاسکتاہے کہ اس کائنات میں مکان ( space)کا کوئی کنارانہیں ہے۔اورنہ ہی وقت یازمان کا کوئی آغاز یاانجام ہے اورنہ ہی خالق کے کرنے کے لیے کچھ ہے۔‘‘[59] 

کارل ساگان کورنل یونیورسٹی ایتھاکانیویارک ، مقدمہ۔حالاں کہ خوداسٹیفن کا کہناہے کہ بڑے سائنس دان کائنات پر اتفاق کی عمل داری قبول نہیں کرتے :

’’آئن اسٹائن نے کبھی یہ تسلیم نہیں کیاکہ کائنات پر اتفاق کی عمل داری ہے اس کے احساسات کا خلاصہ اس کے مشہورمقولہ میں اس طر ح بیان ہواہے کہ ‘‘خداکبھی چوسرنہیں کھیلتا۔‘‘ ‘ ‘ [60] 

۳۔کائنا ت کے آغاز،زندگی کی شروعات،آسمان وزمین کی تخلیق اورخودانسان کی پیدایش سے متعلق قرآن جن الفاظ کا استعمال کرتاہے، ان کے مفہوم میں پوری گنجایش ہے کہ جس طرح ان کی روایتی تشریح کی جاتی ہے،اسی طرح سائنسی حقائق کے مطابق تشریح کی جاسکتی ہے۔اسکالرجمشیداخترکے لفظوں میں :

’’عمومی طورپر نطفہ،قراریاعلقہ کے دیدہ ودانستہ استعمال نے ایک ہی آیت کی مختلف ادوارمیں گوناگوں تشریحوں کے امکانات پیداکردیے۔معلومات درمعلومات کی یہ صفت اس لیے ضروری تھی کہ ایک ہی آیت کے ذریعہ مختلف ادوارکی روزافزوں پیچیدگیوں کے درمیان ہدایت واضح ہوناتھی۔تاکہ علم کے بلندترہوتے ہوئے معیارکے درمیان آیات قرآنی کونہ صرف سمجھاجاسکے، بلکہ ان کی تشریح بھی کی جاسکے۔قرآن کی ساخت کا حسن یہی ہے کہ علمی ترقی کے ساتھ ساتھ اس کا فہم بتدریج الفاظ کے مادوں کے معنی تک پہنچ رہاہے۔‘‘ [61]

خاتمہ

اس پیپرمیں جس مضمون پرگفتگو کرنے کی کوشش کی گئی ہے، وہ بڑاوسیع اورپھیلاہواہے اوراس کے تمام اطراف کااحاطہ ایک مختصرپیپرمیں کیانہیں جاسکتاہے۔اس لیے اس موضوع پر مزیدکام کرنے کی ضرورت ابھی باقی ہے۔ اوراس میں لازم یہ ہے کہ سائنس کا کوئی باقاعدہ طالب علم اس اسٹڈی کوانجام دے اوراس کے ساتھ قرآن کا ایک اسکالرہواوروہ دونوں مل کر قرآنی بیانات اورسائنسی تحقیق کا تقابل کریں، کیونکہ بغیرسائنس کے باضابطہ مطالعہ اوربغیرقرآن پر گہری تحقیق کے صحیح معنی میں اس موضوع پر ریسرچ کا حق ادانہیں کیا جاسکتا۔ اس لحاظ سے ہمارایہ مقالہ اس سلسلہ کا محض نقش اول ہے۔

مصادرومراجع  

۱۔ Stephen Hawking, A short history of Time اردوترجمہ وقت کا سفر۔

2. Rechard De Witt, World Views an Introduction, Second Edition, Wiley -Blackwell.

3. Gerry A Coyne, Why Evolotion is True? Oxford university press 2009   .

4. Merwa El-shakry, Reading Darwin in Arabic The university of Chicago press 2013  .

۵۔ مولاناوحیدالدین خاں ، علم جدیدکا چیلنج، گڈورڈبکس نظام الدین، نئی دہلی ۔

۶۔ مولاناوحیدالدین خاں ،مذہب اورسائنس، گڈورڈبکس نظام الدین، نئی دہلی ۔

۷۔مولاناوحیدالدین خاں، اظہاردین گڈورڈبکس نظام الدین، نئی دہلی، ۲۰۱۴ ء۔

۸۔ ڈاکٹرمحمدرفیع الدین، قرآن اورعلم جدید، آل پاکستان ایجوکیشن کانگریس، لاہور۔

۹۔مولاناشہاب الدین ندوی،قرآ ن اورسورج کی موت ، فرقانیہ اکیڈمی، بنگلور۔

۱۰۔مولاناشہاب الدین ندوی، قرآن اوردنیائے حیات ، فرقانیہ اکیڈمی، بنگلور۔

11. Jamshed Akhtar, The Ultimate Revelation Oriole International book 1996.

12. Jamshed Akhtar, In search of our Origine, The Oriole Book publishers 2010.

اردو ترجمہ : قرآن کریم اورارتقائے حیات کی جستجو، ڈاکٹر محمد ذکی کرمانی، ایویریز اکیڈمی، علی گڑھ ۔

13. Jamshed Akhtar, The Fate or Universe, The Oriole Book publishers.

14. Yuwal Nuah Harari, Homo Sepein Harper Collins publishers inc.2015 .

15. Nidal Ghassome, Kalam's necessary engagement with Science

KALAM RESEARCH & MEDIA KNOWLEDGE VILLAGE, DUBAI.

۱۶۔ محمدولی رازی،قرآن اورسائنسی انکشافات،اریب پبلیکیشنزنئی دہلی ۲۰۱۴ء ۔

۱۷۔ڈاکٹر فضل الرحمان، اسلام، اردو ترجمہ: محمد کاظم،مشعل بکس، لاہور۔

۱۸۔ہارون یحییٰ، The creation of the Universe، فضلی اینڈ سنز، کراچی ۔

۱۹۔ مولاناکبیرالدین فوزان قاسمی، تخلیق آدم وعیسیٰ اورقرآن،الحمد ریسرچ سینٹر، ریاض کالونی، علی گڑھ ۔

۲۰۔ ابلیس وآدم،غلام احمدپرویز، ادارہ طلوع اسلام، لاہور ۔

۲۱۔ جان اسکیل ایوری ،ہم کون ہیں،ہم کہاں سے آئے ہیں؟مشعل بکس، لاہور۔

۲۲۔مقالات سرسیداحمدخان، مرتبہ: محمداسماعیل پانی پتی، مجلس ترقی ادب، لاہور، طبع دوم، ۱۹۸۸ء۔

۲۳۔ابوالکلام آزاد،تفسیرترجمان القرآن ،اسلامی اکادمی، لاہور۔

۲۴۔مورس بوکائیے،بائبل قرآن اورسائنس، اردوترجمہ: ثناء الحق صدیقی ۔

۲۵۔جاویداحمدغامدی، البیان، المورد، لاہور۔

۲۶۔جارج گیمو:

FACTS & SPECULATIONS OF SCIENCE Infinity One two three

PROFESSOR OF PHYSICS UNIVERSITY OF COLORADO

ILLUSTRATED BT THE AUTHOR            

۲۷۔ رچرڈ فن مین:

The Character of Physical Law Richard Feynman The M.I.T Press    Massachusetts Institute of Technology 1985      .

۲۸۔ انور شاہ کاشمیری، فیض الباری علی صحیح البخاری، دار الکتب العربیۃ، بیروت۔

۲۹۔سیدحسین نصر:

Man and Nature Page:29 Mandala Books 1968 Uneven Publishers London.

۳۰۔متفرقات :تفاسیرقرآن:عبدالماجددریابادی،تفسیرماجدی۔ ابوالاعلیٰ مودودی،تفہیم القرآن، اور مختلف رسائل وجرائد۔

ـــــــــــــــــــــــــ

[46]۔ In Search of our Origin، اردوترجمہ: محمد ذکی کرمانی،قرآن کریم اور ارتقائے حیات کی جستجو، ایوروز اکیڈمی، علی گڑھ، ۲۰۱۹ء ،۱۳۴- ۱۳۵ ۔

[47]۔ تفصیل کے لیے دیکھیے : جان اسکیل ایوری :ہم کون ہیں،ہم کہاں سے آئے ہیں، باب چہارم، ہمارے آبا و اجداد، ۱۱۵۔

[48]۔ ملاحظہ ہو:یوال نوواحراری ،Homo Sapian ۲۳-  ۲۴۔

[49]۔ البیان، جلد چہارم سورۂ سجدہ، المورد: ادارۂ علم وتحقیق، لاہور۔

[50]۔ بحوالہ قانون تخلیق آدم وحوا،مولاناکبیرالدین فوزان قاسمی۷۷۔

[51]۔ تفصیل کے لیے دیکھیں :مولاناکبیرالدین فوزان قاسمی، تخلیق آدم وعیسیٰ اورقرآن ۷۲ - ۸۳۔

[52]۔ ملاحظہ ہو: قرآن کریم اور ارتقائے حیات کی جستجو ۱۳۴- ۱۳۵۔

53۔  Man and Nature Page: 29  Mandala Books 1968  Uneven Publishers London 

[54]۔ Man and Nature Page: 96  Mandala Books 1968  Uneven Publishers London 

[55]۔ مقالات سرسید، مرتب: مولانامحمداسماعیل پانی پتی۴/ ۴۶۔

[56]۔ مقالات سرسید، مرتب: مولانامحمداسماعیل پانی پتی۴/ ۴۶۔

[57]۔ مقالات سرسید، مضمون انسان کی پیدائش قرآن مجیدکی روسے ۴/ ۳۰۔

[58]۔ مقالات سرسید، مضمون انسان کی پیدائش قرآن مجیدکی روسے ۴/ ۳۱۔

[59]۔ کارل ساگان کورنل یونیورسٹی ایتھاکانیویارک ، مقدمہ۔

[60]۔ وقت کا سفر۸۳۔

[61]۔ جمشیداختر،قرآن کریم اورارتقائے حیات کی جستجو،اردوترجمہ: ڈاکٹرمحمدذکی کرمانی ۱۳۶۔

B