HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد عمار خان ناصر

’’میزان‘‘ ــــــ توضیحی مطالعہ (۵)

تقسیم وراثت

بہن بھائیوں کا حصہ

’’’اِخْوَة‘ کا لفظ اِس آیت میں ،ہمارے نزدیک محض وجود پر دلالت کرتا ہے ۔ اِس سے مقصود صرف یہ بتانا ہے کہ بھائی بہنوں کی موجودگی میں ، عام اِس سے کہ وہ ایک ہوں یا دو یا دو سے زیادہ ہوں ، والدین کا حصہ اپنی اصل کی طرف لوٹ جائے گا۔ ...مرنے والا اپنے پیچھے ایک بھائی یا بہن چھوڑ کر بھی رخصت ہو سکتا ہے اور اُس کے بہن بھائی پانچ دس بھی ہو سکتے ہیں ۔ ’اِخْوَة‘  کالفظ اِن سب صورتوں کا احاطہ کر لیتا ہے ۔ ‘‘ (میزان ۵۲۳-  ۵۲۴)
’’...’فَاِنْ كَانَ لَهٗ٘ اِخْوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ‘ کے بعد بھی ہمارے نزدیک ’ولأبيه‘ یا اِس کے ہم معنی الفاظ حذف ہو گئے ہیں ۔ اِس کا قرینہ بھی بالکل واضح ہے ۔ بھائی بہن موجود ہوں تو ماں کا حصہ وہی ہے جو اوپر اولاد کی موجودگی میں بیان ہوا ہے۔ یہ مذکور اِس بات پر خود دلیل ہے کہ باپ کا حصہ بھی وہی ہونا چاہیے ۔ اِس کو الفاظ میں بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی ۔... اِس حکم سے واضح ہے کہ اولاد کی غیرموجودگی میں اللہ تعالیٰ نے بہن بھائیوں کو اُن کا قائم مقام ٹھیرایا ہے ۔ ‘‘ (میزان ۵۲۳)
’’...اسلوب بیان سے یہ بات نکلتی ہے کہ اولاد کی غیرموجودگی میں میت کے وارث اُس کے بھائی بہن ہیں، لیکن اسلوب بیان کی یہ دلالت ،ظاہر ہے کہ دلالت الفاظ کی طرح ہر احتمال سے خالی نہیں ہے کہ اِس مسئلے پر بحث کی گنجایش باقی نہ رہے۔‘‘ (میزان ۵۳۱)

سورۂ نساء میں احکام وراثت کے بیان میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر مرنے والے کے اولاد ہو تو اس کے ماں باپ، دونوں کو ترکے میں سے چھٹا، چھٹا حصہ ملے گا، لیکن اگر اولاد نہ ہو اور صرف ماں باپ وارث ہوں تو ماں کو ایک تہائی ملے گا، (جب کہ باقی دو تہائی باپ کو مل جائے گا)۔ البتہ اگر مرنے والے کے ’إخوة ‘ ہوں تو ماں کا حصہ پھر کم ہو کر دوبارہ چھٹا حصہ رہ جائے گا۔

یہاں دو اہم تفسیری وفقہی سوالات تنقیح کے متقاضی ہیں:

پہلا یہ کہ جمہور اہل علم کے نزدیک یہاں ’إخوة ‘ سے خاص طور پر صرف بھائی مراد ہیں، یعنی  صرف بہنوں کی موجودگی میں اس حکم کا اطلاق نہیں ہوگا۔ البتہ جمہور صحابہ اور ابن عباس کے مابین یہ اختلاف منقول ہے کہ جمہور ماں کے حصے میں تخفیف کے لیے کم سے کم دو بھائیوں کی موجودگی کو ضروری سمجھتے ہیں، جب کہ ابن عباس کی راے یہ تھی کہ جمع کے صیغے کی ظاہری دلالت کے مطابق ان کی کم سے کم تعداد تین ہونی چاہیے۔ مصنف کی راے ان دونوں نکتوں کے حوالے سے جمہور سے مختلف ہے۔ ان کے نقطۂ نظر سے یہاں ’إخوة ‘ کی تعبیر نہ تو صرف بھائیوں کے لیے آئی ہے اور نہ اس سے دو یا تین کی تعداد مراد ہے۔ ’إخوة ‘ بھائیوں اور بہنوں، دونوں کے لیے عام ہے اور جمع کا صیغہ تعداد پر دلالت کرنے کے لیے نہیں، بلکہ صرف ان کی موجودگی پر دلالت کرنے کے لیے لایا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مرنے والے کا کوئی ایک بہن یا بھائی بھی موجود ہو تو قرآن کا یہ حکم اس صورت کو شامل ہے۔

دوسرا یہ کہ جمہور فقہا کے نزدیک یہاں میت کے بھائیوں کی موجودگی صرف اس پہلو سے اثر انداز ہوتی ہے کہ ایسی صورت میں ماں  کا حصہ ایک تہائی سے کم ہو کر چھٹا حصہ رہ جاتا ہے، لیکن بھائی ترکے میں  حصہ دار نہیں بنتے۔ یہ بات بظاہر غیر معقول دکھائی دیتی ہے، کیونکہ کسی ایک رشتہ دار کی موجودگی کی وجہ سے دوسرے کے حصے میں کمی   تبھی معقول ہو سکتی ہے جب اس رشتہ دار کو ترکے میں حصہ دینا پیش نظر ہو۔   مثلاً اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اولاد کی موجودگی میں ماں باپ دونوں کا حصہ ایک ایک سدس بتایا ہے۔ یہاں چونکہ اولاد ایک حصہ دار فریق کے طور پر موجود ہے اور اسے ترکہ دلوانا مقصود ہے، اس لیے ان کی وجہ سے ماں باپ کے حصے کم رکھا جانا پوری طرح سمجھ میں آتا ہے۔ تاہم بھائیوں کے معاملے میں جمہور کی تفسیر کے مطابق صورت یہ ہے کہ ان کو ترکے میں سے کوئی حصہ تو نہیں ملے گا، لیکن وہ ماں کے حصے کو ایک تہائی سے کم کر کے ایک سدس تک لے آئیں گے، جب کہ عصبہ ہونے کی حیثیت سے باقی سارے مال کا حق دار مرنے والے کا باپ قرار پائےگا۔ گویا ایک ایسا فریق جس کا ترکے میں کوئی حصہ نہیں، محض اپنی غیر متعلق موجودگی کے باعث وارثوں کے حصے کے تناسب میں فرق کا موجب بن جاتا ہے جو بظاہر غیر معقول ہے۔

قتادہ نے دور تابعین کے اہل علم سے اس کی توجیہ یہ نقل کی ہے کہ چونکہ مرنے والے کے بہن بھائی ہوں تو ان کی کفالت باپ کے ذمے ہے، اس لیے  اس صورت میں ماں کا حصہ کم کر کے باپ کو زیادہ دلوایا گیا ہے تاکہ بہن بھائیوں کی کفالت میں اس کو معاونت مل جائے (تفسیر ابن ابی حاتم ۳/ ۸۸۳)۔ تاہم میت کے بہن بھائی اگر بعض صورتوں میں نابالغ اور باپ کے دست نگر ہو سکتے ہیں تو بعض صورتوں میں بالغ اور خود کفیل بھی ہو سکتے ہیں۔ یوں مذکورہ توجیہ بظاہر مکمل دکھائی نہیں دیتی، البتہ اس کی روشنی میں یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اگر مرنے والے کے بہن بھائی محتاج کفالت ہوں تو ان کے اخراجات کی ذمہ داری ان کے باپ پر ہوگی، جب کہ  دوسری صورت میں، جب وہ بالغ اور خود کفیل ہوں تو شرعی اخلاقیات کی رو سے وہ ماں باپ، خاص طور پر ماں کے اخراجات کی کفالت کے بھی ذمہ دار ہیں۔ چونکہ اس صورت میں ماں کا انحصار اپنے نفقہے کے لیے صرف شوہر پر نہیں ہوگا، بلکہ اس کے بیٹے، یعنی مرنے والے کے بھائی بھی اس ذمہ داری میں شریک ہوں گے، اس لیے قرآن نے اس صورت میں ماں کے حصے میں کمی کر کے باپ کے حصے میں اضافہ کر دیا ہے۔

جمہور فقہا کی راے کے برخلاف، عبد اللہ بن عباس سے مروی ہے کہ وہ اس صورت میں ماں کے حصے میں کمی کی وجہ یہ سمجھتے تھے کہ ماں سے جو چھٹا حصہ واپس لیا گیا ہے، وہ بہن بھائیوں میں تقسیم کر دیا جائے (احکام القرآن ۲/۸۱) ۔ گویا ابن عباس کے نزدیک والدین کی موجودگی میں بہن بھائی چھٹے حصے کے حق دار ہیں، جب کہ ان کی غیر موجودگی میں وہ اولاد کے قائم مقام ہو کر   پورے ترکے کے حق دار بن جاتے ہیں۔ ابن عباس کی یہ راے اس نکتے پر مبنی ہےکہ عقلاً بھائیوں کی موجودگی میں ماں کا حصہ کم کرنا تبھی قابل فہم ہو سکتا ہے جب ترکے میں سے بھائیوں کو کچھ دینا مقصود ہو۔ اگر بھائی حصہ دار نہیں تو محض ان کی موجودگی کی وجہ سے ماں اورباپ کے حصوں کے تناسب میں تبدیلی کرنا  ایک غیر معقول بات بن جاتی ہے۔    صاحب ’’تفسیر المنار‘‘ نے بھی اس نکتے کے حوالے سے ابن عباس کے موقف کو جمہور کے مقابلے میں زیادہ معقول قرار دیا ہے (۴/ ۴۱۷- ۴۱۸)۔

جصاص نے جمہور کی راے کے حق میں یہ استنباط پیش کیا ہے کہ چونکہ ’فإن کان له إخوة، وورثه أبواہ‘ پر متفرع ہے، اس لیے اس کا مطلب یہ ہے کہ  جب صرف ماں باپ وارث ہوں اور ان کے ساتھ بھائی موجود ہوں تو ماں کا حصہ ایک تہائی سے چھٹے حصے میں تبدیل ہو جائے گا (احکام القرآن ۲/ ۸۲)۔ لیکن یہ تفسیر عربیت کی رو سے وزنی معلوم نہیں ہوتی اور اسلوب کلام سے بظاہر ابن عباس کی بات کی تائید ہوتی ہے، کیونکہ ’فإن کان له إخوة فلأمه الثلث ‘ میں حرف ’فا‘ سے ’وورثه أبواه‘ پر تفریع کی گئی ہے، جس کا مطلب یہی ہو سکتا ہےکہ اگر صرف ماں باپ وارث ہوں تو ماں کو ایک تہائی ملے گا، لیکن اگر ماں باپ کے ساتھ بھائی بھی ہوں، یعنی وہ بھی وراثت میں شریک ہوں تو پھر ماں کو چھٹا حصہ ملے گا۔   

مصنف کا نقطۂ نظر بھی یہاں اس حوالے سے ابن عباس کی راے کے مطابق ہے کہ بھائیوں کی موجودگی میں ماں کا حصہ کم کرنے کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ اس صورت میں بھائی بھی ترکے میں حصہ دار بنیں گے، تاہم مصنف کو ابن عباس کی اس راے سے اختلاف ہے کہ بھائی، ماں کے چھوڑے ہوئے چھٹے حصے کے وارث بنیں گے۔ مصنف کے نزدیک اس صورت میں بھائی بہن اولاد کے قائم مقام ہو کر ماں اور باپ کے حصوں کی ادائیگی کے بعد باقی ترکے کے حق دار بن جاتے ہیں۔ البتہ اللہ تعالی ٰ نے اس موقع پر اس کی طرف صرف اشارہ کرنے اور بہن بھائیوں کی اصولی حیثیت کی طرف متوجہ کرنےپر اکتفا کی ہے، جب کہ سورہ کی آخری آیت میں، اس نوعیت کی ایک صورت حال پیش آنے پر بہن بھائیوں کی وراثت سے متعلق اسی حکم کو بالکل واضح او رمتعین  انداز میں بیان فرما دیا ہے۔

مصنف کی اس راے پر یہ اشکال ہوتا ہےکہ اگر بہن بھائیوں کی موجودگی میں ماں اور باپ، دونوں کا حصہ کم ہو کر ایک سدس تک محدود ہو جاتا ہے تو زیربحث آیات میں حصے میں تخفیف کا ذکر ’فَاِنْ كَانَ لَهٗ٘ اِخْوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ‘کے الفاظ میں صرف ماں کے حوالے سے کیوں کیا گیا ہے، جب کہ اصولاً یہاں ’فلکل واحد منهما السدس‘کے الفاظ ہونے چاہییں تھے۔ مصنف نے اس اشکال کا جواب یہ دیا ہے کہ یہاں دراصل سابقہ جملے (وَوَرِثَهٗ٘ اَبَوٰهُ فَلِاُمِّهِ الثُّلُثُ) کی رعایت سے،  مجانست کے اسلوب میں،  وہی تعبیر اختیار کرتے ہوئے ماں کا حصہ بیان کرنے پر اکتفا کی گئی ہے، تاہم مراد یہ ہے کہ ماں باپ کے ساتھ بہن بھائی بھی موجود ہوں تو جیسے ماں کا حصہ واپس سدس پر چلا جائے گا، اسی طرح باپ کا بھی وہی حصہ لوٹ آئے گا۔

کلالہ کی وراثت

’’...آیت میں ’يُوْرَثُ‘ ہمارے نزدیک ،باب افعال سے مبنی للمفعول ہے ۔ ’كَلٰلَةً‘ اُس سے مفعول لہ ہے ۔ ’كَانَ‘ یہاں ناقصہ ہے، ’رَجُلٌ اَوِ امْرَاَةٌ‘، ’كَانَ‘ کے لیے اسم ہیں اور ’يُوْرَثُ‘ اُس کی خبر واقع ہوا ہے ۔ اِس تالیف کی رو سے اِس کا ترجمہ یہ ہو گا :’’اور اگر کسی مرد یا عورت کو اُس کے کلالہ تعلق کی بنا پر وارث بنایا جاتا ہے۔‘‘  ... مرنے والا کلالہ رشتہ داروں میں سے اپنے کسی بھائی ، بہن ،ماموں، پھوپھی یا چچا وغیرہ کو وارث بنا سکتا ہے ۔ لیکن ،ظاہر ہے کہ جس بھائی یا ماموں کو وارث بنایا جائے گا ،مرنے والے کے بھائی اور ماموں اُس کے علاوہ بھی ہو سکتے ہیں ۔ یہی معاملہ چچا ،پھوپھی اور خالہ وغیرہ کا ہے ۔کوئی شخص اپنے ذاتی رجحان کی بنا پر کسی ایک ماموں یا پھوپھی کو ترجیح دے سکتا ہے ، مگر اللہ تعالیٰ نے اِس کو پسند نہیں فرمایا کہ ایک ہی رشتہ کے دوسرے متعلقین بالکل محروم کر دیے جائیں ۔ چنانچہ اِس کے لیے یہ ہدایت فرمائی کہ کوئی شخص اگر ،مثال کے طور پر ، اپنے چچا زید کو باقی ترکے کا وارث بنا دیتا ہے اور اُس کے چچا عثمان اور احمد بھی ہیں تو ترکے کے جس حصے کا وارث زید کو بنایا گیا ہے ، اُس کا ایک تہائی عثمان اور احمد میں تقسیم کرنے کے بعد باقی ترکہ زید کو دیا جائے گا ۔ ‘‘ (میزان ۵۳۰)

سورۂ نساء کی آیت ۱۲ میں ’نوَاِنْ كَانَ رَجُلٌ يُّوْرَثُ كَلٰلَةً اَوِ امْرَاَةٌ وَّلَهٗ٘ اَخٌ اَوْ اُخْتٌ‘کی تفسیر میں جمہور فقہا ومفسرین کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ یہاں مرنے والے کے والدین اور اولاد نہ ہونے کی صورت میں اس کے بہن بھائیوں کا حصہ بیان کیا گیا ہے۔  اس تفسیر کے مطابق آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’اگر وہ شخص جس کی وراثت تقسیم کی جا رہی ہے، کلالہ ہو، (یعنی اس کے والدین اور اولاد میں سے کوئی موجود نہ ہو) اور اس کا ایک بھائی یا بہن ہو۔‘‘  تاہم یہاں  بہن بھائیوں کا حصہ ایک سدس یا ثلث بتایا گیا ہے، جب کہ آخری آیت میں  بہن بھائیوں کو مختلف صورتوں میں بعینہٖ اتنے حصوں کا حق دار قرار دیا گیا ہے جو آیت ۱۱ میں اولاد کے لیے بیان ہوئے ہیں۔  یوں یہ ایک ہی رشتے سے وارث بننے والوں کے متعلق دو متضاد حکم بن جاتے ہیں۔ جمہور کے نزدیک ان میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ آیت ۱۲ کو ماں شریک بہن بھائیوں سے، جب کہ آخری آیت کو سگے اور باپ شریک بہن بھائیوں سے متعلق قرار دیا جائے اور اس کی تائید سعد بن ابی وقاص سے منسوب ایک قراء ت سے بھی ہوتی ہے جس میں آیت ۱۲ میں ’ وَلَهٗ٘ اَخٌ اَوْ اُخْتٌ‘ کے ساتھ ’من أم‘کے الفاظ کا اضافہ بھی موجود ہے۔

مولانا فراہی نے اس راے پر یہ تنقید کی ہے کہ قرآن کے الفاظ اور سیاق وسباق میں آیت کو ماں شریک بہن بھائیوں کے ساتھ مخصوص قرار دینے کا کوئی قرینہ موجود نہیں۔ اگروہ بات کہنا پیش نظر ہوتی جو جمہور کی تفسیر میں  سمجھی گئی ہے تو بہن بھائی کے ذکر میں ماں شریک کی قید متواتر قراءت کا حصہ ہونی چاہیے تھی۔ سعد بن ابی وقاص کی شاذ قراءت کی حیثیت ایک خارجی دلیل کی ہے، جب کہ قرآن کے باہر  کی کسی دلیل سے ایسی تخصیص پید اکرنا جس کا قرینہ قرآن میں موجود نہ ہو، مولانا کے نزدیک درست نہیں۔ چنانچہ مولانا نے مذکورہ آیات کی ایک مختلف تاویل بیان کی ہے جو جمہور کی راے سے مختلف ہے۔ مولانا کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ان دونوں آیات میں کسی فرق کے بغیر مرنے والے کے سبھی بہن بھائیوں کا حصہ بیان کیا گیا ہے، البتہ یہاں حکم کے بیان میں تدریج کا اصول ملحوظ رکھا گیا ہے۔ چونکہ بہن بھائیوں کو ترکے میں حصہ دار تسلیم کرنا لوگوں کے لیے مشکل تھا، اس لیے اللہ تعالی ٰ نے پہلے مرحلے پر بہن بھائیوں کو بالکلیہ اولاد کے قائم قرار دینے کے بجاے انھیں جزوی طور پر، یعنی ایک سدس یا ثلث میں حصہ دار قرار دیا اور پھر تعمیل حکم کے لیے آمادگی پیدا ہو جانے کے بعد سورہ کے آخر میں پورا حکم بیان کر دیا گیا (اصول الشرائع ۳۰)۔

مصنف کو مولانا فرا ہی کے اس اصولی موقف سے تو اتفاق ہے کہ قرآن کے کسی حکم کی تحدید یا تخصیص  کا قرینہ خود کلام میں موجود نہ ہو تو کسی خارجی دلیل سے، چاہے وہ خبر واحد کی صورت میں ہو یا خود قرآن کی کسی معروف یا غیر معروف قراءت کی صورت میں،  قرآن کے ظاہر کی تخصیص نہیں کی جا سکتی، تاہم آیت کی تفسیر میں وہ جمہور مفسرین اور مولانا فراہی، دونوں سے اختلاف کرتے ہیں۔ ان کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ آیت ۱۲ میں ’ووَاِنْ كَانَ رَجُلٌ يُّوْرَثُ كَلٰلَةً‘ کا مصداق مرنے والا نہیں، بلکہ وہ شخص ہے جس کو وارث بنایا جا رہا ہو اور لفظ ’كَلٰلَةً‘،’کَانَ ‘کی خبر نہیں، بلکہ ’يُوْرَثُ‘ کی ضمیر سے مفعول لہٗ ہے۔ یعنی آیت میں زیر بحث صورت یہ نہیں کہ مرنے والا کلالہ ہو جس کے ماں باپ یا اولاد موجود نہ ہوں، بلکہ یہ ہے کہ قریبی رشتہ داروں کی غیرموجودگی میں مرنے والے نے کسی دور کے رشتے دار کو وارث قرار دیا ہو۔   

اس تفسیر کی رو سے آیت کا مدعا یہ بنتا ہے کہ اگر مرنے والے نے  والدین اور اولاد کی غیر موجودگی میں (یا   بعض صورتوں میں ورثا کے حصے ادا کرنے کے بعد بچے ہوئے ترکے میں) اپنے کلالہ رشتہ داروں، مثلاً بھائی بہن، ماموں، پھوپھی یا چچا وغیرہ کو اپنا وارث قرار دیا ہو ، جب کہ اسی نوعیت کی قرابت رکھنے والے دوسرے افراد کو وراثت سے محروم رکھا ہو تو اللہ تعالی ٰ نے اس کو پسند نہیں فرمایا کہ ایک ہی رشتہ کے دوسرے متعلقین کو بالکل محروم کر دیا جائے۔ چنانچہ ا س کے لیے یہ ہدایت فرمائی گئی ہے کہ جس شخص کو مرنے والے کی طرف سے ترکے کا وارث بنایا گیا ہے،   اس کا کوئی ایک بہن یا بھائی ہو تو اس کو ترکے کا چھٹا حصہ، جب کہ ایک سے زیادہ ہونے کی صورت میں ترکے کا ایک تہائی ان میں تقسیم کرنے کے بعد باقی ترکہ مرنے والے کے متعین کردہ وارث کو دے دیا جائے۔

مصنف نے اس تفسیر کی تائید میں ’يُوْصِيْ بِهَا٘ اَوْ دَيْنٍ‘ میں صیغۂ مجہول سے استدلال کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اولاد، والدین اور زوجین کے حصے بیان کرتے ہوئے وصیت کا ذکر صیغۂ معروف کے ساتھ کیا گیا ہے، جب کہ زیربحث حکم کے بیان میں اسلوب کو بدل کر صیغۂ مجہول استعمال کیا گیا ہے اور اسلوب کا یہ تغیر اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ یہاں حکم کی ابتدامیں ’ضیحوَاِنْ كَانَ رَجُلٌ يُّوْرَثُ‘ سے مراد مرنے والا نہیں، بلکہ وہ شخص ہے جو وارث بن رہا ہے (میزان ۵۲۹)۔

مصنف کی تائید میں یہ نکتہ بھی پیش کیا جا سکتا ہےکہ اس پورے سلسلۂ کلام میں ترکے میں ورثا کے حصے بیان کرتے ہوئے  مرنے والے کے بجاے ورثا ہی  کو موضوع بنایا گیا ہے۔ مثلاً یہ کہا گیا ہے کہ اولاد کو فلاں اور فلاں صورتوں میں اتنا حصہ ملے گا، والدین کے حصے مختلف صورتوں میں یہ ہوں گے، اور زوجین اگر ایک دوسرے کے وارث بن رہے ہوں تو ان کے حصے یہ اور یہ ہوں گے۔ اس اسلوب کلام کے تسلسل میں ’یوَاِنْ كَانَ رَجُلٌ يُّوْرَثُ‘  کو بھی وارث پرمحمول کرنا زیادہ قرین قیاس ہے۔ گویا نسق کلام یوں ہے کہ اگر مرنے والے کا وارث قریبی رشتہ دار بن رہے ہوں تو ان کے حصے یہ ہوں گے، لیکن اگر قریبی رشتہ داروں کی غیرموجودگی میں کسی دور کے قرابت دار کو وارث بنایا گیا ہو تو اس کو ترکہ اس ہدایت کے مطابق دیا جائے گا۔

مزید یہ کہ اس حکم میں ماں شریک بہن بھائیوں کو ’لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ‘ کے بجاے  مساوی طور پر حصہ دار قرار دینا وراثت کے عام اصول کے منافی معلوم ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف مصنف کی تفسیر کے لحاظ سے یہ بات قابل فہم ہے، کیونکہ جس بہن یا بھائی کا ذکر کیا جا رہا ہے، وہ اصلاً وارث نہیں، بلکہ اسے وارث بنائے جانے والے شخص کے ساتھ قرابت کی وجہ سے، محض دل جوئی کے پہلو سے، ترکے میں حصہ دار قرار دیا جارہا ہے اور اس صورت میں   بہنوں اور بھائیوں کے حصوں میں امتیاز نہ کرنے کی حکمت سمجھ میں آتی ہے۔

جمہور کی تفسیر میں ایک فقہی الجھن یہ بھی پیدا ہو جاتی ہے کہ اس کی رو سے مرنے والے کے ماں شریک بہن بھائی تو ذوی الفروض میں شامل ہو جاتے ہیں جن کو اولاد کی موجودگی میں بھی ترکے میں سے حصہ دینا لازم ہے، جب کہ اس کے مقابلے میں سگے بہن بھائی اولاد کی موجودگی میں محروم قرار پاتے ہیں، حالاں کہ ان کا رشتہ ماں شریک بہن بھائیوں سے زیادہ قریبی ہوتا ہے۔  اسی الجھن کے پیش نظر فقہاے صحابہ کے ایک گروہ نے یہ نقطۂ نظر اختیار کیا کہ سگے بہن بھائیوں کی ماں تو بہرحال ایک ہی ہوتی ہے، اس لیے اس تعلق سے انھیں بھی ماں شریک بہن بھائیوں کے حصے میں   شریک ہونا چاہیے۔  چنانچہ سیدنا عمر، سیدنا عثمان، عبد اللہ بن مسعود اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم ایسی صورت حال میں ماں شریک بہن بھائیوں کے حصے میں سگے بہن بھائیوں کو بھی حصہ دار قرار دیتے تھے۔ ان حضرات سے اس کا استدلال یہ نقل ہوا ہے کہ جب دونوں کی ماں ایک ہے تو باپ کے ایک ہونے سے یہ رشتہ   کم زور نہیں ہوتا، بلکہ مزید مضبوط ہو جاتا ہے (سنن الدارمی، رقم ۲۹۲۴، ۲۹۲۶)۔ زید بن ثابت سے یہ بات اس اسلوب میں منقول ہے کہ یہی مان لو کہ ان کا باپ کوئی گدھا تھا، لیکن اس نے ان کی قرابت کو بڑھایا ہی ہے، کم تو نہیں کیا (المستدرک علی الصحیحین، رقم ۸۰۵۰) [1]۔

سیدنا عمر  کے بارے میں روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس استدلال کی روشنی میں انھوں نے اپنی راے تبدیل کر لی تھی۔ چنانچہ ایک واقعے میں انھوں نے سگے بہن بھائیوں کو ماں شریک بہن بھائیوں کے حصے میں شریک قرار دیا تو انھیں ان کے ایک سابقہ فیصلے کا حوالہ دیا گیا جس میں انھوں نے سگے بہن بھائیوں کو حصہ نہیں دلوایا تھا۔ سیدنا عمر نے جواب میں کہا کہ وہ فیصلہ ہم نے اس مقدمے میں کیا تھا اور یہ فیصلہ ہم اس مقدمے میں کر رہے ہیں (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۱۷۴۴) ۔

یہ موقف مذکورہ عقلی اشکال کا تو رفع کر دیتا ہے، لیکن  متعلقہ آیات کی ظاہری دلالت کے حوالے سے اس سوال کا جواب نہیں دیتا کہ اگر اللہ تعالی ٰ کے پیش نظر یہی تقسیم تھی تو ماں شریک بہن بھائیوں اور سگے بہن بھائیوں کے حصے  اس طرح الگ الگ آیات میں بیان کرنے کا اسلوب کیوں اختیار کیا گیا جو اپنے ظاہر کے لحاظ سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ ماں شریک بہن بھائی  تو اولاد کی موجودگی میں بھی ، میاں بیوی اور والدین کی طرح، وارث بنیں گے، جب کہ سگے بہن بھائیوں کے وارث بننے کے لیے یہ شرط ہے کہ مرنے والے کی اولاد موجود نہ ہو؟ یوں ایک موقف اگر عقلی اشکال کا حل پیش کرتا ہے تو نصوص کی ظاہری دلالت مجروح ہوتی ہے ، جب کہ دوسرا موقف ظاہری دلالت کو برقرار رکھتا ہے تو ایک بہت مضبوط عقلی وفقہی اعتراض   کا کوئی حل پیش نہیں کرپاتا۔

مسلمان اور غیر مسلم کے مابین توارث

’’والدین ،اولاد ، بھائی بہن ،میاں بیوی اور دوسرے اقربا کے تعلق میں یہ منفعت بالطبع موجود ہے اور عام حالات میں یہ اِسی بنا پر بغیر کسی تردد کے وارث ٹھیرائے جاتے ہیں ۔لیکن اِن میں سے کوئی اگر اپنے مورث کے لیے منفعت کے بجاے سراسر اذیت بن جائے تو حکم کی یہ علت تقاضا کرتی ہے کہ اُسے وراثت سے محروم قرار دیا جائے ۔یہ استثنا ، اگر غور کیجیے تو کہیں باہر سے آ کر اِس حکم میں داخل نہیں ہوا ،اِس کی ابتدا ہی سے اِس کے ساتھ لگا ہوا ہے ،لہٰذا قرآن کا کوئی عالم اگر اِسے بیان کرتا ہے تو یہ ہرگز کوئی تغیر و تبدل نہیں ہے ،بلکہ ٹھیک اُس مدعا کی تعبیر ہے جو قرآن کے الفاظ میں مضمر ہے ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسی کے پیش نظر جزیرہ نماے عرب کے مشرکین اور یہود و نصاریٰ کے بارے میں فرمایا : ... ’’نہ مسلمان اِن میں سے کسی کافر کے وارث ہوں گے اور نہ یہ کافر کسی مسلمان کے۔‘‘ ... اتمام حجت کے بعد جب یہ منکرین حق خدا اور مسلمانوں کے کھلے دشمن بن کر سامنے آ گئے ہیں تو اِس کے لازمی نتیجے کے طور پر قرابت کی منفعت بھی اِن کے اور مسلمانوں کے درمیان ہمیشہ کے لیے ختم ہوجانی چاہیے۔ چنانچہ یہ اب آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوں گے۔  ‘‘ (میزان ۴۰)

اس اقتباس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جس ارشاد (لا یرث المومن الکافر ولا الکافر المومن)   کا حوالہ دیا گیا ہے، وہ آپ نے ارشاد فتح مکہ کے موقع پر اصلاً ان جایدادوں سے متعلق  فرمایا تھا جو بعض مہاجرین کے مشرک اقربا نے ان کے ہجرت کر جانے کے بعد ان کی غیر موجودگی میں  تقسیم کر لی تھیں (بخاری، رقم ۴۲۸۲، ۴۲۸۳)۔ چونکہ قرآن مجید میں احکام میراث بیان کرتے ہوئے ایسی کوئی تخصیص بیان نہیں کی گئی، اس لیے اس ضمن میں ایک اہم سوال تو یہ سامنے آتا ہے کہ اس تخصیص کی نوعیت کیا ہے؟ اصول فقہ کی روایت میں اس حدیث کو اس اصول کی ایک نمایاں مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے کہ خبر واحد کے ذریعے سے قرآن کے عام حکم کی تخصیص کی جا سکتی ہے۔ امام شافعی کے نقطۂ نظر سے اس تخصیص کی نوعیت، قرآن کی مراد کی تبیین کی ہوتی ہے اور چاہے بظاہر قرآن میں اس تخصیص کی کوئی بنیاد موجود نہ ہو، اسے توضیح وتبیین ہی تصور کرنا ضروری ہے، یعنی اسے نسخ اور تغییر نہیں کہا جا سکتا۔  احناف، اس کےبرخلاف، ایسی تخصیصات کو  تغییر قرار دیتے اور نسخ کی ایک جزوی صورت تصور کرتے ہیں۔

مصنف اصول کی حد تک  امام شافعی کے موقف سے اتفاق رکھتے ہیں، تاہم ان کی راے میں عملاً ایسی کوئی صحیح حدیث موجود نہیں جو قرآن کے حکم میں تخصیص یا زیادت کرتی ہو اور اس کی بنیاد قرآن میں نہ بتائی جا سکے۔  اس نقطۂ نظر کے تحت مصنف نے مسلمان اور غیر مسلم کے مابین توارث کی ممانعت کی بنیاد بھی خود قرآن میں واضح کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مرنے والے کی میراث میں رشتہ داروں کو حصہ دار قرار دینا منفعت کے اصول پر مبنی ہے اور مختلف حصہ داروں کے حصوں میں باہمی فرق کا اصول بھی منفعت کا کم یا زیادہ ہونا ہے۔ اس اصول کی روشنی میں اگر کسی خاص صورت میں رشتہ داروں کے مابین منفعت ختم ہو جائے تو اس پر مبنی وراثت کے حکم کو بھی منتفی ہو جانا چاہیے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زیر بحث صورت میں اسی اصول کا اطلاق کیا ہے۔ ط

مصنف کی راے کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ وہ اس ممانعت کو اتمام حجت کے قانون کی روشنی میں جزیرہ نماے عرب کے مشرکین اور یہود ونصاریٰ سے متعلق قرار دیتے ہیں، یعنی اسے شریعت کا کوئی ابدی اور دائمی حکم تصور نہیں کرتے۔  زیر بحث حکم کے دائرۂ اطلاق کی تعیین کے حوالے سے اہم اختلافات تو فقہاے صحابہ کے مابین ہی سامنے آ گئے تھے۔ جمہور صحابہ اس کا اطلاق تمام غیر مسلموں پر کرنے کے قائل تھے، جب کہ معاذ بن جبل اور سیدنا معاویہ کا زاویۂ نظر یہ تھا کہ اہل کتاب پر اس کا اطلاق بعینہٖ نہیں کیا جائے گا، بلکہ اس صورت میں وہی اصول لاگو ہوگا جو اہل کتاب کے ساتھ نکاح کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے، یعنی جس طرح مسلمان مرد اہل کتاب کی خواتین سے نکاح کر سکتے ہیں، لیکن مسلمان خواتین، اہل کتاب کے مردوں سے نکاح نہیں کر سکتیں، اسی طرح  مسلمان اپنے اہل کتاب اقربا کا وارث بھی بنے گا، لیکن اہل کتاب کو ’الإسلام يزيد ولا ينقص‘ کے اصول کے تحت ان کے مسلمان رشتہ داروں کی وراثت میں شریک نہیں کیا جائے گا (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۲۱۰۱، ۳۲۱۰۲۔ جصاص، احکام القرآن ۲/ ۱۰۲)۔ یہی راے عبد اللہ بن معقل، مسروق، سعید بن المسیب، محمد بن الحنفیہ، علی بن الحسین اور ابراہیم نخعی وغیرہ سے بھی منقول ہے (الام ۵/ ۱۵۲۔ المغنی ۶/ ۶۴۲۔ الموسوعہ الفقہیہ ۳ا/۵۲)۔

امام شافعی نے اس موقف کی توجیہ یوں کی ہے کہ شان ورود کے لحاظ سے زیر بحث حکم میں یہ احتمال پایا جاتا ہے کہ اسے صرف مشرکین عرب کے لیے خاص سمجھا جائے، جب کہ اہل کتاب کو اس کے دائرے میں شامل نہ مانا جائے (الام ۵/ ۱۵۲)۔ گویا سیدنا معاویہ اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہما کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ حدیث میں مسلمان کے، کافر کا وارث بننے کی جو ممانعت آئی ہے، وہ صرف مشرکین سے متعلق ہے، جب کہ اہل کتاب کی وراثت ایک قیاسی استدلال کی بنیاد پر مسلمان کو مل سکتی ہے۔

اسی نوعیت کا اختلاف اس ممانعت کا اطلاق مرتد پر کرنے کے حوالے سے بھی پایا جاتا ہے۔  چنانچہ سیدنا علی، عبد اللہ بن مسعود، عمر بن عبد العزیز، حسن بصری، سعید بن المسیب اور شعبی سے منقول ہے کہ وہ اسلام سے مرتد ہو جانے والے شخص کی میراث اس کے مسلمان وارثوں کو دلوایا کرتے تھے (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۲۰۳۳ -  ۳۲۰۴۳)۔ فقہاے احناف بھی  یہ قرار دیتے ہیں کہ اگر کوئی مسلمان مرتد ہو جائے اور اسی حالت میں مر جائے تو اس کی وراثت اس کے مسلمان حصہ داروں میں تقسیم کی جائے گی۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ مذکورہ ارشاد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر دراصل ایسے اہل کفر کا حکم بیان کرنا ہے جنھیں اپنے کفر پر قائم رہنے کا حق ہو، اس لیے کہ شریعت کے عرف میں ’ کافر‘ کے لفظ کا عمومی اور متبادر اطلاق ایسے ہی اہل کفر پر کیا جاتا ہے۔ مرتد بھی اگرچہ کفار کے زمرے میں شمار ہوتا ہے، لیکن اس کی نوعیت دوسرے اہل کفر سے مختلف ہے اور اسی وجہ سے بہت سے شرعی وفقہی احکام میں بھی مرتد اور دوسرے اہل کفر میں امتیاز کیا گیا ہے۔ مثلاً مرتد اگر اسلامی ریاست میں ہو تو اسے اپنے ارتداد پر قائم رہنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اسی طرح اس کے ذبح کیے ہوئے جانور کا گوشت کھانا جائز نہیں اور اگر مرتد عورت ہو تو اس کے ساتھ نکاح کرنا کسی مسلمان کے لیے روا نہیں۔ اس تناظر میں مرتد ’لا یرث المسلم من الکافر‘ کے ارشاد نبوی کے دائرۂ اطلاق میں بھی شامل نہیں اور اس صورت کا حکم قیاس واجتہاد سے متعین کیا جائے گا (طحاوی، شرح معانی الآثار ۳/ ۲۲۶ع۔ جصاص، شرح مختصر الطحاوی ۶/ ۱۱۵)۔

بعد کی فقہی روایت میں امام ابن القیم نے   زیر بحث حکم کی تعلیل اور دائرۂ اطلاق کی تحدید میں ایک اور اہم زاویۂ نظر پیش کرتے ہوئے جمہور اہل علم کی اس راے سے اختلاف کیا کہ توارث کی ممانعت کا مقصد مسلمان اور کافر کے مابین موالاۃ، یعنی معاشرتی تعلق کو محدود کرنا ہے (سرخسی، المبسوط ۳۰/ ۳۰)۔ شاہ ولی اللہ اس کی حکمت واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ معاشرتی معاملات میں مسلمان اور کافر کے مابین اختلاط چونکہ دین میں بعض خرابیوں کا موجب ہو سکتا ہے، اس لیے شریعت نے بعض حوالوں سے اس کو ممنوع اور بعض حوالوں سے محدود کر دیا ہے (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۳۲۳)۔ ابن القیم اس تعلیل کو درست نہیں سمجھتے۔ ان کی راے میں شریعت کا منشا یہ نہیں کہ معاشرت کی سطح پر مسلمان اور غیر مسلم کے مابین قرابت داری اور خاندانی تعلق   سے جو حقوق پیدا ہوتے ہیں، ان کی نفی کی جائے۔ ابن القیم مختلف شرعی احکام سے یہ استشہاد کرتے ہیں کہ شریعت میں قرابت داری کے حقوق کی نفی نہیں کی گئی اوراس پہلو سے توارث کی ممانعت کا حکم بھی موالاۃ کی نفی پر مبنی نہیں ہو سکتا۔  مثلاً اگر کسی کے آزاد کردہ غیر مسلم غلام کا چھوڑا ہوا مال ’ولاءہ کے طور پر  اس کے آزاد کنندہ کو مل رہا ہو تو اہل علم کا ایک گروہ، جس میں سیدنا علی  ، عمر اور جابر بن عبد اللہ بھی شامل ہیں، اس صورت میں اختلاف مذہب کو توارث میں مانع قرار نہیں دیتا (احکام اہل الذمۃ ۸۶۶-  ۸۶۷)۔ (اسی طرح غیر مسلم اقربا کے ساتھ صلۂ رحمی اور ان کی مالی معاونت شریعت میں ممنوع نہیں، جب کہ اہل علم کے ایک گروہ کے نزدیک، جس کا ذکر سابقہ سطور میں امام ابن جریر طبری کے حوالے سے کیا جا چکا ہے، اگر کسی کا قریبی رشتہ دار غیر مسلم ہونے کی وجہ سے وارث نہ بن سکتا ہو تو وصیت کے اختیار کے تحت اسے وراثت میں حصہ دینا واجب ہے )۔

ابن القیم کے نزدیک اس ممانعت کی اصل بنیاد محاربہ ہے اور وہ ’لا یرث المسلم من الکافر‘ کو حربی کافر سے متعلق قرار دیتے ہیں جس کا محارب ہونا، مسلمان کو اس کا وارث بنانے سے مانع ہے۔ چونکہ اہل ذمہ میں یہ مانع نہیں پایا جاتا، اس لیے  ان کی وراثت مسلمان رشتہ داروں کو دلوانا اس حدیث کے خلاف نہیں ہے۔ ابن القیم مسئلے کے دوسرے پہلو کے حوالے سے جمہور کے اس موقف سے اتفاق کرتے ہیں کہ ذمی، مسلمان کا وارث  نہیں بن سکتا۔  تاہم وہ اس کا ماخذ حدیث کے دوسرے جملے یعنی ’لا یرث الکافر من المسلم‘ کو قرار نہیں دیتے، کیونکہ اس حدیث میں ان کے نقطۂ نظر سے حربی کفار کا حکم بیان کیا گیا ہے۔ ابن القیم کے نزدیک ذمی کے، مسلمان کا وارث بننے کی ممانعت دراصل تناصر کے سیاسی اصول سے اخذ ہوتی ہے، یعنی وہ اسے دارالاسلام میں اہل ذمہ کی سیاسی حیثیت اور سیاسی ذمہ داریوں کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چونکہ مسلمان معاشرہ ہر طرح سے اہل ذمہ کی دیکھ بھال اور ان کے مذہبی وسماجی حقوق کے تحفظ کا ذمہ دار ہے، اس لیے  اس کے عوض میں اہل ذمہ کی وراثت ان کے مسلمان رشتہ داروں کو ملنی چاہیے۔ اس کے برعکس، اہل ذمہ دار الاسلام کی اجتماعی ذمہ داریوں میں  شریک نہیں ہوتے، اس لیے انھیں ان کے مسلمان اقربا کی وراثت نہ دیا جانا قرین انصاف ہے (احکام اہل الذمۃ ۸۷۲)[2]۔

دور جدید میں بہت سے اہل علم نے امام ابن القیم کے اس نقطۂ نظر کا حوالہ دیتے ہوئے غیر مسلم ممالک میں مقیم نو مسلموں کے لیے اپنے غیر مسلم قرابت داروں سے وراثت پانے کے جواز کو دینی مصلحت کا تقاضا قرار دیا ہے (یوسف القرضاوی، فی فقہ الاقلیات المسلمۃ ۱۲۸)۔ تاہم ابن القیم کا طرز استدلال   موجودہ صورت حال میں اپنی بنیاد کے لحاظ سے یک طرفہ توارث تک محدود نہیں رہتا، بلکہ دو طرفہ توارث کے جواز کا تقاضا کرتا ہے، کیونکہ اگر عدم توارث کی بنیاد موالاۃ کی نفی نہیں، بلکہ تناصر کا سیاسی اصول ہے تو جدید جمہوری ریاستوں میں، چاہے وہ مسلمانوں کی ہوں یا غیر مسلموں کی، تمام شہریوں کو مساوی سیاسی وسماجی حقوق حاصل ہوتے ہیں اور وہ اصولی طور پر یکساں حیثیت میں معاشرے اور ریاست کے مفاد میں ذمہ داریاں انجام دینے کے اہل سمجھے جاتے ہیں۔ یوں تناصر کے اصول کی عملی نوعیت بالکل مختلف ہو جانے کی وجہ سے یہ کہنا ممکن نہیں کہ ایک مذہب کے پیروکار تو تناصر کی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں اور دوسرے مذہب کے پیروکار نہیں کر رہے۔ دوسرے لفظوں میں، ابن القیم کی تعلیل کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کلاسیکی اسلامی ریاست میں تناصر کا جو اصول توارث میں مانع تھا، جدید جمہوری ریاستوں میں کالعدم ہو جانے کی وجہ سے مسلم اور غیر مسلم کے مابین دو طرفہ توارث  بھی درست قرار پائے، کیونکہ اس کی بنیاد موالاۃ پر ہے، جس کی نفی، ابن القیم کی راے کے مطابق، شریعت نے نہیں کی۔

مصنف کی راے  اس بحث میں بنیادی طور پر ابن القیم کے نقطۂ نظر سے ہم آہنگ ہے، یعنی وہ اس ممانعت کو قرابت داری کے حقوق اور موالاۃ کی اصولی نفی پر مبنی نہیں سمجھتے، بلکہ ایک اضافی مانع کا مقتضا قرار دیتے ہیں۔ البتہ مصنف کے نزدیک  یہ مانع تناصر کا سیاسی اصول نہیں، بلکہ اتمام حجت کا دینی اصول ہے۔  اس تناظر میں مصنف، جمہور کے اس موقف سے اتفاق رکھتے ہیں  کہ یہ ممانعت مشرکین اور اہل کتاب، دونوں سے متعلق تھی، لیکن وہ اس کو مشرکین اور اہل کتاب میں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے براہ راست مخاطبین تک محدود سمجھتے ہیں جن پر اتمام حجت کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ فرما دیا کہ اہل ایمان کے ساتھ ان کی قرابت اللہ کی نظر میں گویا کالعدم ہے اور اس تعلق کی بنا پر رشتہ داروں کا ایک دوسرے کے مال پر جو حق عائد ہوتا ہے، وہ بھی اس صورت میں اپنی بنیاد سے محروم ہو جاتا ہے۔

___________

[1]۔ بعض فقہی کتابوں میں منقول روایت میں یہ جملہ کہ ’هب إن أبانا کان حمارًا، ألسنا من أم واحدة‘؟ (مان لیجیے کہ ہمارا باپ ایک گدھا تھا، لیکن کیا ہماری ماں ایک نہیں ہے)؟ ان بہن بھائیوں کی طرف منسوب کیا گیا ہے جنھیں سیدنا عمر نے حصہ نہیں دلوایا تھا اور پھر ان کے استدلال پر اس فیصلے سے رجوع کر لیا (سرخسی، المبسوط ۲۹/ ۱۵۴-۱۵۵)۔ تاہم محدثین کی نقل کردہ روایات وآثار میں ہمیں اس کا کوئی ماخذ نہیں مل سکا۔

[2]۔ ابن القیم نے یہ نقطۂ نظر اپنے استاذ امام ابن تیمیہ کے حوالے سے بھی بیان کیا ہے۔ تاہم ابن تیمیہ کے فتاوی ٰ سے ان کا موقف  جمہور کی راے کے مطابق سامنے آتا ہے (مجموع الفتاویٰ ۱۵/ ۴۴۳)۔ بہرحال اس حوالے سے ابن تیمیہ کی راے میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی ہے تو ابن القیم کے بیان کو اس کی زبانی روایت کے طور پر قبول کیا جا سکتا ہے۔

B