HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

عذاب قبر (۴)

ترجمہ و تحقیق: ڈاکٹر محمد عامر گزدر

 

ــــــ ۱۷ ــــــ

عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الأَنْصَارِيِّ۱ أَنَّ النَّبِيَّ  سَمِعَ صَوْتًا حِينَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ، فَقَالَ: «هٰذِهِ أَصْوَاتُ الْيَهُودِ تُعَذَّبُ فِي قُبُورِهَا».
ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ سورج غروب ہو رہا تھا ، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی آواز سنی تو فرمایا: یہ یہودکی آوازیں ہیں۔ اِنھیں اِن کی قبروں میں عذاب دیا جارہا ہے۱۔

______________________ 

۱۔اِس پر تعجب نہیں ہونا چاہیے۔قرآن میں تصریح ہے کہ سیدنا مسیح علیہ السلام کی طرف سے اتمام حجت کے بعد یہود کے لیے دنیا اور آخرت ، دونوں میں عذاب کا فیصلہ سنا دیا گیا ہے ، جس سے نسل در نسل اب وہ اِسی صورت میں نجات پاسکتے ہیں کہ اپنے آبا کے جرائم کو سمجھیں اور اُن سے اظہار براءت کردیں ۔اِس کا لازمی نتیجہ یہی ہے اور یہی ہونا چاہیے کہ برزخ میں بھی اُن کے مستکبرین کے لیے یہ سلسلہ اِسی طرح جاری رہے ۔ آگے روایت۲۲ تک اِنھی کے واقعات بیان ہوئے ہیں۔ہم پیچھے بیان کرچکے ہیں کہ برزخ کا یہ عذاب اُنھی لوگوں کے لیے ہے ، جن کا فیصلہ دنیا ہی میں ہوجاتا ہے ۔اُن کے لیےکسی حساب کتاب کی ضرورت نہیں ہوتی کہ اُس کی خاطر قیامت کا انتظار کیا جائے۔

متن کے حواشی

۱ ۔اِس روایت کا متن مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۲۰۳۵سے لیا گیا ہے۔ اِس کے تنہا راوی ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ ہیں۔ اِس کے باقی طرق الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ جن  مراجع میں نقل ہوئے ہیں، وہ یہ ہیں: مسند طیالسی، رقم۵۸۹۔ مسنداحمد، رقم ۲۳۵۳۹، ۲۳۵۵۵۔مسند عبد بن حميد، رقم ۲۲۴۔صحيح بخاری، رقم ۱۳۷۵۔صحيح مسلم، رقم۲۸۶۹۔الآحاد والمثانی، ابن ابی عاصم، رقم۱۸۷۹، ۱۸۸۰، ۱۸۸۱۔ السنۃ،عبد الله بن احمد، رقم ۱۴۰۸۔السنن الصغریٰ، نسائی، رقم ۲۰۵۹۔السنن الكبرىٰ، نسائی، رقم۲۱۹۷۔ شرح مشكل الآثار، طحاوی، رقم ۵۲۰۵۔مسند شاشی، رقم ۱۰۹۳، ۱۰۹۴، ۱۰۹۶۔صحيح ابن حبان، رقم۳۱۲۴۔المعجم الكبير، طبرانی، رقم ۳۸۵۶۔فوائد تمام، رقم ۱۱۵۴۔ معرفۃ الصحابۃ، ابو نعيم، رقم ۲۴۱۹۔ اثبات عذاب القبر، بیہقی، رقم ۸۶، ۸۷۔ شعب الايمان، بیہقی، رقم ۳۹۴۔

ــــــ ۱۸ ــــــ

عَنْ أَنَسٍ قَالَ: ۱ بَيْنَمَا نَبِيُّ اللهِ r فِي نَخْلٍ لَنَا -نَخْلٍ لِأَبِي طَلْحَةَ- يَتَبَرَّزُ لِحَاجَتِهِ، قَالَ: وَبِلَالٌ يَمْشِي وَرَاءَهُ، يُكَرِّمُ نَبِيَّ اللهِ r أَنْ يَمْشِيَ إِلَى جَنْبِهِ، فَمَرَّ نَبِيُّ اللهِ r بِقَبْرٍ، فَقَامَ حَتَّى تَمَّ إِلَيْهِ بِلَالٌ، فَقَالَ: «وَيْحَكَ يَا بِلَالُ هَلْ تَسْمَعُ مَا أَسْمَعُ؟» قَالَ: مَا أَسْمَعُ شَيْئًا. قَالَ: «صَاحِبُ الْقَبْرِ يُعَذَّبُ». قَالَ: فَسُئِلَ عَنْهُ، فَوُجِدَ يَهُودِيًّا. 
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے، یعنی ابوطلحہ کے ایک باغ میں رفع حاجت کے لیے  جارہے تھے، بلال آپ کے پہلو میں چلنے کے بجاے آپ کے اکرام میں پیچھے چل رہے تھے۔ اِس دوران میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک قبر کے پاس سے ہوا تو آپ وہاں رک گئے ،اتنے میں بلال بھی آپ کے پاس آپہنچے۔آپ نے فرمایا: ہاے بلال، کیا تمھیں بھی وہ آواز سنائی دے رہی ہے جو میں سن رہا ہوں ؟ انھوں نے عرض کیا: مجھےتو کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی۔آپ نے فرمایا: اِس قبر والے کو عذاب ہو رہا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ اُس کے بارے میں پوچھنے پر معلوم ہوا کہ وہ یہودی تھا ۔

متن کے حواشی

۱ ۔ اِس واقعے کا متن مسنداحمد، رقم ۱۲۵۳۰ سے لیا گیا ہے۔ بعینہٖ اِسی متن کے ساتھ اِس کا ایک اور طریق الادب المفرد، بخاری، رقم ۸۵۳ میں بھی دیکھ لیا جاسکتا ہے۔

ــــــ ۱۹ ــــــ

عَنْ أُمِّ مُبَشِّرٍ حُمَيْمَةَ بِنْتِ صَيْفِيِّ، قَالَتْ: ۱ دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللهِ، وَأَنَا فِي حَائِطٍ مِنْ حَوَائِطِ بَنِي النَّجَّارِ، فِيهِ قُبُورٌ مِنْهُمْ، قَدْ مَاتُوا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَسَمِعَهُمْ وَهُمْ يُعَذَّبُونَ، فَخَرَجَ [فَزِعًا۲ ] [فَسَمِعْتُهُ۳ ] وَهُوَ يَقُولُ: «اسْتَعِيذُوا۴ بِاللهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ». قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، وَإِنَّهُمْ لَيُعَذَّبُونَ فِي قُبُورِهِمْ؟۵ قَالَ: «نَعَمْ، عَذَابًا تَسْمَعُهُ الْبَهَائِمُ».

حمیمہ بنت صیفی رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں کہ میں بنونجار کے باغوں میں سے ایک باغ میں تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے۔اُس باغ میں بنو نجار کے کچھ لوگوں کی قبریں بھی تھیں جو زمانۂجاہلیت میں وفات پاچکے تھے۱ع۔آپ نے اُن کو سنا تو اُس وقت اُنھیں عذاب دیا جارہا تھا۔اِس پر آپ گھبراکر وہاں سے باہر نکل آئے ۔پھر میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگا کرو۔حمیمہ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: یارسول اللہ، کیا اِن لوگوں کو اِن کی قبروں میں عذاب دیا جارہا ہے؟آپ نے فرمایا: ہاں، ایسا عذاب کہ جسے جانور بھی سنتے ہیں۲۔

______________________

۱۔ بنو نجار کے بارے میں معلوم ہے کہ یہ یہود ہی کا ایک قبیلہ تھا ، جس کے لوگ مدینہ میں آباد تھے۔

۲۔ اِس طرح کے مشاہدات پیغمبروں کو غالباً اِس مقصد سے کرائے جاتے ہیں کہ مرنے کے بعد جنت، دوزخ اور عالم برزخ کی منادی وہ پورے یقین و اذعان کے ساتھ کرسکیں، اِس لیے وہ اِسی کے لیے مبعوث ہوتے ہیں۔

متن کے حواشی

۱۔ اِس واقعے کا متن اصلاً مسند احمد، رقم ۲۷۰۴۴ سے لیا گیا ہے۔ الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ اِس کے باقی طرق جن مراجع میں نقل ہوئے ہیں، وہ یہ ہیں: مصنف ابن ابی شیبہ، رقم۱۲۰۳۴، ۲۹۱۴۷۔ مسنداسحاق، رقم ۲۲۰۱۔ الزهد، ہنَّاد، رقم ۳۴۹ ۔ السنۃ، ابن ابی عاصم، رقم ۸۷۵۔ المعجم الكبير ، طبرانی، رقم ۲۶۸۔ الشریعۃ، آجری، رقم ۸۵۶۔ اثبات عذاب القبر، بیہقی، رقم ۹۵ ۔

یہی واقعہ الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے بھی نقل ہوا ہے۔اُن کی روایت کے طرق جن مراجع میں نقل ہوئے ہیں، وہ یہ ہیں:مسنداحمد، رقم ۱۴۱۵۲ ۔ مصنف عبد الرزاق، رقم ۶۷۴۲۔ السنۃ،عبد الله بن احمد، رقم ۱۴۳۲۔ مسند ابی يعلىٰ، رقم ۲۱۴۹۔البعث، ابن ابی داؤد، رقم۱۳۔ اثبات عذاب القبر، بیہقی، رقم۲۰۴۔

۲ ۔ یہ اضافہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی اِسی واقعے کے ایک طریق مسنداحمد، رقم ۱۴۱۵۲ سے لیا گیا ہے۔

۳۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۲۹۱۴۷۔

۴۔ بعض طرق، مثلاً مسند اسحاق، رقم ۲۲۰۱ میں یہاں امر کے بجاے متکلم مفرد کا صیغہ آیا ہے۔

۵ ۔کئی طرق میں یہاں یہ سوال اِن الفاظ میں نقل ہوا ہے: ’يَا رَسُولَ اللهِ وَلِلْقَبْرِ عَذَابٌ؟‘، ’’کیا قبر میں بھی عذاب ہوگا، اے اللہ کے رسول؟‘‘۔

ــــــ ۲۰ ــــــ

عَنْ أَنَسٍ أَيْضًا، قَالَ: ۱ دَخَلَ النَّبِيُّ r حَائِطًا مِنْ حِيطَانِ الْمَدِينَةِ لِبَنِي النَّجَّارِ، فَسَمِعَ صَوْتًا مِنْ قَبْرٍ، [فَخَرَجَ إِلَيْنَا مَذْعُورًا أَوْ فَزِعًا،۲] فَسَأَلَ عَنْهُ: «مَتَى دُفِنَ هٰذَا؟» فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، دُفِنَ هٰذَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَأَعْجَبَهُ ذٰلِكَ، وَقَالَ: «لَوْلَا أَنْ لَا تَدَافَنُوا، لَدَعَوْتُ۳ اللهَ أَنْ يُسْمِعَكُمْ [مِنْ۴] عَذَابِ الْقَبْرِ [مَا أَسْمَعَنِي۵]». 
انس رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں  کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں ایک مرتبہ بنو نجار۱ کے ایک باغ میں تشریف لے گئے۔ آپ کو کسی قبر سے آواز سنائی دی تو آپ گھبرا کر ہماری طرف نکل آئے۔پھرآپ نے اُس کے بارے میں لوگوں سے پوچھا   کہ یہ شخص کب دفن ہوا تھا؟ لوگوں نے بتایا کہ اے اللہ کے رسول، اِس کی تدفین تو جاہلی دور میں ہوئی تھی۔اِس پر آپ متعجب ہوئے اور فرمایا: اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تم لوگ اپنے مُردوں کو دفن کرنا چھوڑ دو گے تو میں اللہ سے دعا کرتا کہ وہ تمھیں بھی عذاب قبر کی کوئی آواز سنا دے جو اُس نے مجھے سنائی ہے ۲۔

______________________

۱۔ پیچھے وضاحت ہوچکی ہے کہ بنو نجار یہود ہی کے ایک قبیلے کا نام تھا۔

۲۔ اِسی طرح کے بعض مشاہدات کا ذکر اِس سے پہلے بھی ہو چکا ہے۔ یہ مشاہدات واقعی بھی ہوتے ہیں اور تمثیلات کی صورت میں بھی، جیسا کہ جنت، دوزخ اور اُن کے احوال کا مشاہدہ، جس کا ذکر متعدد روایات میں ہوا ہے۔ اِن میں چیزیں ممثل کر کے دکھائی یا سنائی جاتی ہیں، لیکن ہوتی بہرحال خدا کی طرف سے ہیں، اِس لیے لازماً اُس یقین و اذعان کا باعث بنتی ہیں جس کی بنا پر پیغمبر لوگوں کو اِن کی خبر دیتے اور اِن سے متعلق جزا و سزا کے حقائق پر اُن کو متنبہ کرتے ہیں۔ 

متن کے حواشی

۱۔ اِس واقعے کا متن اصلاًمسند احمد، رقم ۱۲۰۰۷سے لیا گیا ہے۔ اِس کے متابعات جن مراجع میں نقل ہوئے ہیں، وہ یہ ہیں: احاديث اسماعيل بن جعفر، رقم ۴۲۔مسند حميدی، رقم ۱۲۲۱۔مسنداحمد، رقم ۱۲۰۹۶، ۱۲۱۲۳، ۱۲۸۰۸، ۱۳۰۸۰، ۱۳۸۸۸۔مسند عبد بن حميد، رقم ۱۱۷۱۔صحيح مسلم، رقم ۲۸۶۸۔ السنۃ، عبد الله بن احمد، رقم ۱۴۲۰۔مسند بزار، رقم ۶۶۰۲، ۶۸۳۹، ۷۱۳۶۔ السنن الصغریٰ، نسائی، رقم ۲۰۵۸۔ السنن الكبرىٰ، نسائی، رقم ۲۱۹۶۔مسند ابی يعلىٰ، رقم ۲۹۹۶، ۳۶۹۳، ۳۷۲۷۔مسند رويانی، رقم ۱۳۵۶۔صحيح ابن حبان، رقم ۳۱۲۶، ۳۱۳۱ ۔اثبات عذاب القبر،بیہقی، رقم ۹۲، ۹۳۔

۲۔ مسند احمد، رقم ۱۲۰۹۶ ۔

۳۔ بعض طرق، مثلاً مسند حميدی، رقم ۱۲۲۱ میں یہاں  ’لَدَعَوْتُ‘ کے بجاے ’لَسَأَلْتُ‘  کا لفظ نقل ہوا ہے۔ معنی کے اعتبار سے یہاں یہ دونوں الفاظ مترادف ہیں۔

۴۔ صحيح مسلم، رقم ۲۸۶۸۔

۵۔ مسند حميدی، رقم ۱۲۲۱ ۔

ــــــ ۲۱ ــــــ

قَالَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ۱ بَيْنَمَا النَّبِيُّ r فِي حَائِطٍ [مِنْ حِيطَانِ الْمَدِينَةِ۲] لِبَنِي النَّجَّارِ [وَهُوَ۳] عَلَى بَغْلَةٍ لَهُ وَنَحْنُ مَعَهُ، إِذْ حَادَتْ۴ بِهِ فَكَادَتْ تُلْقِيهِ، وَإِذَا أَقْبُرٌ سِتَّةٌ أَوْ خَمْسَةٌ أَوْ أَرْبَعَةٌ، فَقَالَ: «مَنْ يَعْرِفُ أَصْحَابَ هٰذِهِ الْأَقْبُرِ؟» فَقَالَ رَجُلٌ: أَنَا، قَالَ: «فَمَتَى مَاتَ هَؤُلَاءِ؟» قَالَ: مَاتُوا فِي الْإِشْرَاكِ،۵ فَقَالَ: «إِنَّ هٰذِهِ الْأُمَّةَ تُبْتَلَى فِي قُبُورِهَا، فَلَوْلَا أَنْ لَا تَدَافَنُوا، لَدَعَوْتُ اللهَ أَنْ يُسْمِعَكُمْ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ الَّذِي أَسْمَعُ مِنْهُ» ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ، فَقَالَ: «تَعَوَّذُوا بِاللهِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ» قَالُوا: نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ، فَقَالَ: «تَعَوَّذُوا بِاللهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ» قَالُوا: نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، قَالَ: «تَعَوَّذُوا بِاللهِ مِنَ الْفِتَنِ، مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ» قَالُوا: نَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ، قَالَ: «تَعَوَّذُوا بِاللهِ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ» قَالُوا: نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ. 
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے باغوں میں سے بنو نجار کے ایک باغ میں تھے۔ آپ اپنے ایک خچر   پر سوار تھے ، ہم بھی آپ کے ساتھ تھے کہ اِسی اثنا میں یکایک آپ کا خچر بدکنے لگا اورقریب تھا کہ وہ آپ کو گرادیتا۔ اِس پر کیا دیکھتے ہیں کہ وہاں چار یا پانچ یا شاید چھ قبریں ہیں۔ آپ نے فرمایا: کسی کو معلوم ہے کہ یہ کن لوگوں کی قبریں ہیں ؟ ایک شخص نے عرض کیا : میں جانتا ہوں۔ آپ نے پوچھا: یہ کب فوت ہوئے تھے؟ اُس نے کہا: اُس زمانے میں جب شرک ہی لوگوں کا دین تھا۱ ۔اِس پر آپ نے فرمایا: اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ امت بھی قبروں میں آزمائی جائے گی۔اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تم اپنے مُردوں کو دفن کرنا چھوڑ دو گے تو میں اللہ سے دعا کرتا کہ وہ تمھیں بھی عذاب قبر کی کوئی چیز اِسی طرح سنا دے، جس طرح میں سنتا ہوں۔پھر آپ نے ہماری طرف رخ کیا اور فرمایا: دوزخ کے عذاب سےاللہ کی پناہ مانگو۔صحابہ نے جواب میں عرض کیا: ہم دوزخ کے عذاب سےاللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ پھر آپ نے فرمایا: قبر کے عذاب سےاللہ کی پناہ مانگو۔صحابہ نے عرض کیا: ہم قبر کے عذاب سےاللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔آپ نے فرمایا: ظاہر وباطن کے فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگو۔ صحابہ نے جواب میں کہا: ہم ظاہر وباطن کے فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔آپ نے فرمایا:دجال کے فتنے ۲سے اللہ کی پناہ مانگو۔ صحابہ نے کہا: ہم دجال کے فتنے سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔

______________________

ا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے کا زمانہ مراد ہے ۔اوپر بنو نجار کے باغ کا ذکر ہے ، جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ یہود ہی کی قبریں تھیں، بلکہ خیال ہوتا ہے کہ یہ الگ الگ واقعات نہیں ہیں ، بنو نجار کے باغ کا ایک ہی واقعہ ہے ، جس کو راویوں نے اِس طرح کہیں اجمال اور کہیں تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔

۲۔دجال کے فتنے سے کیا مراد ہے؟ اِس کی وضاحت پیچھے روایت۲ کے تحت ہو چکی ہے۔

متن کے حواشی

۱ ۔اِس روایت کا متن اصلاًصحيح مسلم، رقم ۲۸۶۷ سے لیا گیا ہے۔ اِس واقعے کے باقی طرق جن مصادر میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں، وہ یہ ہیں: مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۲۰۲۸، ۲۹۱۲۱، ۳۷۱۹۰۔ مسند ابن ابی شیبہ ، رقم ۱۲۲۔ مسند احمد، رقم ۲۱۶۵۸۔ مسند عبد بن حميد، رقم ۲۵۴۔ السنۃ، ابن ابی عاصم، رقم ۸۶۸۔ الآحاد والمثانی، ابن ابی  عاصم، رقم ۲۰۵۷۔ شرح مشكل الآثار، طحاوی، رقم ۵۲۰۳۔ معجم ابن اعرابی، رقم ۳۵۔المعجم الكبير، طبرانی، رقم ۴۷۸۴۔ المخلصيات، ابو طاہر، رقم ۳۶۸۔ الايمان،ابن منده، رقم ۱۰۶۵ ۔ شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ و الجماعۃ، لالکائی، رقم۲۱۲۹۔اثبات عذاب القبر، بیہقی، رقم ۸۹، ۲۰۳۔

یہی واقعہ تفصیلات کے جزوی فرق کے ساتھ انس رضی اللہ عنہ سے بھی نقل ہوا ہے۔اُن کی روایت کے طرق جن مراجع میں نقل ہوئے ہیں، وہ یہ ہیں: مسند احمد، رقم ۱۲۵۵۳، ۱۲۷۹۱، ۱۴۰۳۱۔ اثبات عذاب القبر، بیہقی،  رقم ۹۰۔

۲ ۔مسنداحمد، رقم ۲۱۶۵۸ ۔

۳ ۔مسنداحمد، رقم ۲۱۶۵۸۔

۴ ۔شرح مشكل الآثار، طحاوی، رقم ۵۲۰۳  میں یہاں ’إِذْ حَادَتْ‘ کے بجاے ’فَنَفَرَتْ‘ ،’’دوڑنے لگا‘‘ کا لفظ نقل ہوا ہے۔

۵ ۔مسنداحمد، رقم ۲۱۶۵۸  میں یہاں ’مَاتُوا فِي الْإِشْرَاكِ‘ کے بجاے ’قَوْمٌ هَلَكُوا فِي الْجَاهِلِيَّةِ‘ ، ’’اِن لوگوں کی وفات دور جاہلیت میں ہوئی تھی‘‘ کا جملہ روایت ہوا ہے۔

ــــــ ۲۲ ــــــ

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ۱ مَرَّ النَّبِيُّ بِحَائِطٍ مِنْ حِيطَانِ المَدِينَةِ، أَوْ مَكَّةَ، فَسَمِعَ صَوْتَ إِنْسَانَيْنِ يُعَذَّبَانِ فِي قُبُورِهِمَا، فَقَالَ النَّبِيُّ : «يُعَذَّبَانِ، وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ، [وَإِنَّهُ لَكَبِيرٌ،۲]» ثُمَّ قَالَ: «بَلَى، كَانَ أَحَدُهُمَا لاَ يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ، وَكَانَ الآخَرُ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ». ثُمَّ دَعَا بِجَرِيدَةٍ [رَطْبَةٍ۳]، فَكَسَرَهَا كِسْرَتَيْنِ۴، فَوَضَعَ عَلَى كُلِّ قَبْرٍ مِنْهُمَا كِسْرَةً۵، فَقِيلَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللهِ، لِمَ فَعَلْتَ هٰذَا؟ قَالَ: «لَعَلَّهُ أَنْ يُخَفَّفَ عَنْهُمَا مَا لَمْ تَيْبَسَا» أَوْ: «إِلَى أَنْ يَيْبَسَا»۶
ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ یا  مکہ کے کسی باغ میں تشریف لے گئے تو دو آدمیوں کی آواز سنی، جن پر اُن کی قبروں میں عذاب ہورہا تھا۱۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو فرمایا کہ اِن دونوں پر عذاب ہورہا ہے، اور (بظاہر) کسی بڑی بات پر نہیں ہو رہا، لیکن (اللہ کے نزدیک) وہ بڑی بات ہی ہے۔ پھر آپ نے فرمایا: اِن میں سے ایک اپنے پیشاب سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغلی کھاتاتھا ۲۔پھر آپ نے ایک گیلی ٹہنی منگوائی، اُس کے دو ٹکڑے کیے اور اُن دونوں میں سے ہر ایک کی قبر پر ایک ایک ٹکڑا رکھ دیا۔پھر آپ سے سوال کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول، آپ نے ایسا کیوں کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ٹہنی کے یہ دونوں ٹکڑے جب تک  خشک نہیں ہوجاتے، امید ہے کہ اِن دونوں آدمیوں کےعذاب میں تخفیف کردی جائے گی۔

______________________

۱۔ پچھلی روایتوں کی روشنی میں دیکھا جائے تو پورے اطمینان کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ یہ مدینہ ہی کا کوئی باغ تھا اور قبریں بھی یہود ہی کی تھیں ، جن کے بارے میں عذاب کا فیصلہ ہم پیچھے بیان کرچکے ہیں۔

۲۔ یہ اُسی عذاب کا ذکر ہے، جس کی وضاحت ہم نے پیچھے کی ہےکہ یہود جب اپنے لیے اللہ کے آخری پیغمبر کو قتل تک کردینے کے در پے ہوگئے اور اُن کے اِس جرم کی پاداش میں اُن کے لیے دنیا اور آخرت، دونوں میں عذاب کا فیصلہ سنا دیا گیا تو اُن کےچھوٹے چھوٹے گناہ بھی اب اِسی طرح بڑے شمار ہوتے اور اُن کے لیے عذاب کا باعث بن جاتے ہیں۔ چنانچہ یہ جس طرح چغلی کھانے پرہوتا ہے ، اُسی طرح پیشاب سے نہ بچنے جیسے چھوٹے گناہ پر بھی ہوتا ہے۔یہ اُسی اُصول کے مطابق ہے جو قرآن میں بیان ہوا ہے کہ آدمی بڑے گناہوں سے بچتا رہے تو اُس کے چھوٹے گناہ سب معاف کردیے جاتے ہیں، مگر بڑوں میں پکڑا جائے تو چھوٹی بڑی ہر برائی حساب میں شامل ہوجاتی ہے۔ اِس لحاظ سے دیکھیے تو اِس میں کوئی مشکل نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات غالباً یہی تھی ، جسے راویوں نے یہ صورت دے دی ہے۔

متن کے حواشی

۱ ۔اِس واقعے کا متن اصلاًصحيح بخاری، رقم ۲۱۶ سے لیا گیا ہے۔اِس کے متابعات جن مصادر میں نقل ہوئے ہیں، وہ یہ ہیں: الزہد،وكيع،رقم ۴۴۴۔مسند طيالسی، رقم ۲۷۶۸۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۳۰۴ ، ۱۲۰۳۸، ۱۲۰۴۵، ۱۲۰۴۶۔ مسند احمد، رقم ۱۹۸۰، ۱۹۸۱۔ الزہد ، ہنَّاد، رقم ۳۶۰، ۱۲۱۳۔سنن دارمی، رقم ۷۶۶۔ صحيح بخاری، رقم ۲۱۸، ۱۳۶۱، ۱۳۷۸، ۶۰۵۲، ۶۰۵۵۔صحيح مسلم، رقم ۲۹۲۔سنن ابن ماجہ، رقم ۳۴۷۔ سنن ابی داؤد، رقم ۲۰، ۲۱۔سنن ترمذی، رقم  ۷۰۔ مسند بزار، رقم ۴۸۴۶، ۴۸۴۷۔ السنن الصغریٰ، نسائی ، رقم ۳۱، ۲۰۶۸، ۲۰۶۹۔السنن الكبرىٰ، نسائی ، رقم ۲۷، ۲۲۰۶، ۲۲۰۷، ۱۱۵۴۹۔ المنتقى، ابن جارود، رقم ۱۳۰۔ صحيح ابن خزيمہ، رقم ۵۵، ۵۶۔مستخرج ابی عوانہ، رقم ۴۹۵، ۴۹۶۔ شرح مشكل الآثار، طحاوی، رقم ۵۱۹۰۔ صحيح ابن حبان، رقم ۳۱۲۸، ۳۱۲۹۔ الشريعۃ، آجری ، رقم ۸۴۸، ۸۴۹، ۸۵۰، ۸۵۱۔شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ،لالکائی، رقم ۲۱۳۳۔اثبات عذاب القبر، بیہقی، رقم۱۱۷، ۱۱۹۔السنن الكبرىٰ، بیہقی ، رقم۵۰۸، ۴۱۳۹۔

ابن عباس رضی اللہ عنہ کی اِس روایت کے تین شواہد مصادر حدیث میں نقل ہوئے ہیں۔ ایک جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے، دوسرے ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے اور تیسرے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہوا ہے۔

جابر رضی اللہ عنہ کی روایت کے مراجع یہ ہیں: الادب المفرد، بخاری، رقم ۷۳۵۔صحيح مسلم، رقم ۳۰۱۲۔ ذم الغيبۃ والنمیمۃ، ابن ابی الدنيا، رقم ۳۸۔ الصمت،ابن ابی الدنيا، رقم ۱۷۶ ۔ مسند ابی يعلىٰ، رقم۲۰۵۰،  ۲۰۵۵۔ صحيح ابن حبان، رقم ۶۵۲۴۔ السنن الكبرىٰ، بیہقی، رقم ۴۴۷۔ دلائل النبوة، بیہقی، رقم ۲۲۶۴۔

ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے طرق اِن مصادر میں دیکھ لیےجاسکتے ہیں: مصنف ابن  ابی شیبہ، رقم  ۱۳۰۸، ۱۲۰۴۳۔ مسند احمد، رقم ۲۰۳۷۳ ۔ مسندبزار، رقم ۳۶۳۶۔ المعجم الاوسط، طبرانی، رقم ۳۷۴۷۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اِس واقعے کا صرف ایک ہی طریق ہے جو صحيح ابن حبان، رقم ۸۲۴ میں نقل ہوا ہے۔

۲ ۔ صحیح بخاری، رقم ۶۰۵۵۔

۳ ۔صحيح بخاری، رقم ۲۱۸۔

۴۔ بعض طرق، مثلاً مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۲۰۴۵ میں یہاں  ’فَكَسَرَهَا كِسْرَتَيْنِ‘ کے بجاے ’فَشَقَّهَا نِصْفَيْنِ‘    کی تعبیر نقل ہوئی ہے۔معنی کے لحاظ سے دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔

۵۔ بعض طرق، مثلاً مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۲۰۴۵میں یہاں یہ الفاظ آئے ہیں: ’ثُمَّ غَرَسَ فِي كُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَةً‘۔’’پھر آپ نے ہر قبر پر ایک ٹہنی گاڑ دی ‘‘۔

۶۔ جابر رضی اللہ عنہ کی روایت کے بعض طرق، مثلاً مسند ابی يعلىٰ، رقم ۲۰۵۰ میں یہاں یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں: ’«أَمَا إِنَّهُ سَيُهَوَّنُ مِنْ عَذَابِهِمَا مَا كَانَتَا رَطْبَتَيْنِ - أَوْ مَا لَمْ تَيْبَسَا - »‘، ’’جان لو کہ ٹہنی کے یہ دونوں ٹکڑے جب تک تر رہیں گے، یا فرمایا کہ جب تک خشک نہ ہوں گے، اِن دونوں کے عذاب میں تخفیف کی جائے گی ‘‘۔

ــــــ ۲۳ ــــــ

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ قَالَ۱ «إِنَّ أَكْثَرَ عَذَابِ الْقَبْرِ مِنَ الْبَوْلِ».
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قبر کا  عذاب اکثر پیشاب سے نہ بچنے کی وجہ سے ہوتا ہے۱۔

______________________

۱۔یہود مدینہ کی قبروں کے جو مشاہدات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کرائے گئے ، یہ غالباً اُنھی میں سے کسی مشاہدے کے موقع پر آپ کا تبصرہ ہے، جسے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے ایک قاعدۂ کلیہ بنا کر بیان کردیا ہے۔ راویوں سے اِس طرح کی غلطیاں بالعموم ہوتی ہیں۔گویا بات اُس سے زیادہ نہیں تھی جو ہم پیچھے بیان کرچکے ہیں کہ سیدنا مسیح کی طرف سے اتمام حجت کے بعد یہود کے لیے جس عذاب کا فیصلہ اِسی دنیا میں ہوچکا ہے، اُس کے بعد اُن کےچھوٹے چھوٹے گناہ بھی بڑے شمار ہوتے اور اُن کے لیے عذاب کا باعث بن جاتے ہیں۔ چنانچہ وہ اکثر پیشاب سے نہ بچنے کی وجہ سے بھی اِس سے دوچار ہوتے ہیں۔اِس لحاظ سے دیکھیے تو روایت میں کوئی اشکال نہیں ہے۔مگر سیاق سے الگ ہوکر اب اِس جملے کو سمجھنا آسان نہیں ہے۔

متن کے حواشی

۱۔ اِس روایت کا متن مسند احمد، رقم ۹۰۵۹ سے لیا گیاہے۔ اِس کے تنہا راوی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں۔اِس کے متابعات جن مصادر میں نقل ہوئے ہیں، وہ یہ ہیں: مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۳۰۶۔ مسند احمد، رقم ۸۳۳۱، ۹۰۳۳۔سنن ابن ماجہ،رقم۳۴۸۔ شرح مشكل الآثار،طحاوی،رقم۵۱۹۳۔الشريعۃ، آجری،رقم۸۵۲، ۸۵۳۔ سنن الدارقطنی، رقم۴۶۵۔مستدرك حاكم،رقم ۶۵۳۔ اثبات عذاب القبر،بیہقی، رقم ۱۲۰۔السنن الكبرىٰ، بیہقی، رقم۴۱۴۱۔

ــــــ ۲۴ ــــــ

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَيْضًا، قَالَ۱ مَرَّ رَسُولُ اللهِ عَلَى قَبْرٍ فَوَقَفَ عَلَيْهِ، فَقَالَ: «ايتُونِي بِجَرِيدَتَيْنِ»، [فَأَتَوْهُ بِهِمَا،۲] فَجَعَلَ إِحْدَاهُمَا عِنْدَ رَأْسِهِ، وَالْأُخْرَى عِنْدَ رِجْلَيْهِ، [فَقَالَ: «إِنَّ هٰذَا كَانَ يُعَذَّبُ فِي قَبْرِه»،۳ ] فَقِيلَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللهِ أَيَنْفَعُهُ ذٰلِكَ؟، فَقَالَ: «لَعَلَّهُ يُخَفِّفَ عَنْهُ بَعْضَ عَذَابِ الْقَبْرِ۴ مَا بَقِيَتْ فِيهِ نَدْوَةٌ ۵». 
اِنھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک قبر کے پاس سے ہوا تو آپ وہاں ٹھیر گئے اور فرمایا کہ مجھے دو  ٹہنیاں لا کر دو، چنانچہ لوگوں نے وہ لاکر آپ کو دے دیں۔پھر اُن میں سے ایک ٹہنی کو آپ نے مدفون کے سرہانے اور دوسری کو اُس کے پیروں   کی طرف رکھ دیا۔اِس کے بعد فرمایا کہ اِس شخص کو اِس کی قبر میں عذاب ہورہا تھا۔چنانچہ آپ سے سوال کیا گیا کہ  اے اللہ کے رسول،  کیا یہ چیز اِس شخص کو  نفع پہنچا سکتی ہے؟ آپ نے فرمایا: جب تک اِس ٹہنی میں تری باقی رہے گی، شاید اللہ تعالیٰ اِس کے عذاب میں کچھ تخفیف فرمادیں۱۔

______________________

۱۔ یہ آپ نے اپنی طبعی شفقت اور کریم النفسی کے باعث ایک متعین وقت کے لیے تخفیف کی دعا کی ہے اور تعیین کے لیے ٹہنی کے خشک ہونے کو پیمانہ قرار دیا ہے۔ اِس کے ہرگز یہ معنی نہیں ہیں کہ ٹہنی کا خشک یا سبز ہونا عذاب میں کمی بیشی کا باعث بنتا ہے۔اِس طرح کی دعائیں، ظاہر ہے کہ خدا کے پیغمبر ہی کر سکتے ہیں، اِن میں عام لوگوں کے لیے کوئی اُسوہ نہیں ہے کہ وہ بھی قبروں پر ٹہنیاں نصب کرنا شروع کر دیں۔

 یہ کون شخص تھا؟ روایت میں اِس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ تاہم پچھلی روایتوں کی روشنی میں قیاس کیا جاسکتا ہے کہ یہ بھی یہود ہی کے مستکبرین میں سے کسی کی قبر ہوگی ، جن پر عذاب کے واقعات پیچھے بیان ہوچکے ہیں۔ اللہ کے پیغمبروں کا جو اُسوہ قرآن میں مذکور ہے، اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس طرح کے لوگوں کے لیےدعائیں وہ اُس وقت تک کرتے رہتے ہیں، جب تک متعین طریقے پر اُنھیں اِس سے روک نہ دیا جائے۔

متن کے حواشی

۱۔ اِس روایت کا متن اصلاً مصنف ابن ابی شیبہ، رقم  ۱۲۰۴۲ سے لیا گیا ہے۔ اِس واقعے کے باقی طرق اِن مصادر میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: مسنداسحاق ، رقم ۲۰۷۔مسنداحمد، رقم ۹۶۸۶۔ تہذيب الآثار، طبری، رقم ۹۰۳۔ اثبات عذاب القبر، بیہقی، رقم۱۲۳۔

اِسی طرح کا ایک واقعہ جابر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہوا ہے ، جس میں کسی سفر کے ایک طویل قصے کے ضمن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد منقول ہے کہ: ’«إِنِّي مَرَرْتُ بِقَبْرَيْنِ يُعَذَّبَانِ، فَأَحْبَبْتُ، بِشَفَاعَتِي، أَنْ يُرَفَّهَ عَنْهُمَا، مَا دَامَ الْغُصْنَانِ رَطْبَيْنِ»‘،’’ میں دو قبروں کے پاس سے گزرا تھا، جن میں مُردوں کو عذاب ہو رہا تھا ۔چنانچہ میں نے چاہا کہ جب تک یہ دونوں ٹہنیاں تر رہیں، میری شفاعت سےاِن دونوں سے عذاب ہلکا کر دیا جائے‘‘(صحيح مسلم، رقم ۳۰۱۲اِس واقعے کے متابعات اِن مصادر میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: صحيح ابن حبان، رقم ۶۵۲۴۔ السنن الكبرىٰ، بیہقی، رقم ۴۴۷۔ دلائل النبوة، بیہقی، رقم ۲۲۶۴۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس عمل کا جو مدعا ہم نے پیچھے بیان کیا ہے، یہ روایت اُسے ہر لحاظ سے واضح کر دیتی ہے۔

۲ ۔ تہذيب الآثار، طبری، رقم ۹۰۳۔

۳۔ تہذيب الآثار، طبری، رقم ۹۰۳۔

۴ ۔مسنداسحاق ، رقم ۲۰۷ میں یہاں’«لَعَلَّ اللهَ أَنْ يُخَفِّفَ عَنْهُ بَعْضَ عَذَابِ الْقَبْرِ»‘،   ’’ شاید اللہ تعالیٰ اِس کے عذاب میں کچھ تخفیف فرمادیں‘‘ کے الفاظ روایت ہوئے ہیں، جب کہ مسند احمد، رقم ۹۶۸۶ میں یہ الفاظ ہیں: ’«لَنْ يَزَالَ يُخَفَّفَ عَنْهُ بَعْضُ عَذَابِ الْقَبْرِ»‘، ’’اِس کے عذاب قبر میں ضرور کچھ کمی ہوگی‘‘۔

۵ ۔مسنداسحاق ، رقم ۲۰۷ میں یہاں ’مَا كَانَتْ فِيهِ نَدَاوَةٌ‘ کے الفاظ آئے ہیں، جب کہ مسنداحمد، رقم ۹۶۸۶ میں ’مَا كَانَ فِيهِمَا نُدُوٌّ‘ کی تعبیر نقل ہوئی ہے۔ معنی کے اعتبار سے یہ تمام اسالیب مترادف ہیں۔

[باقی]

__________

B