یہ دونوں سورتیں اپنے مضمون کے لحاظ سے توام ہیں۔ دونوں کا موضوع نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو تسلی اور بشارت دینا اور آپ کے منکرین کو متنبہ کرنا ہے کہ آخرت سے بے خوف اور دنیا کے عیش و آرام میں مگن ہو کر وہ جس سرکشی پر اترے ہوئے ہیں، اُسے چھوڑ دیں، اپنے اوپر خدا کی نعمتوں اور عنایتوں کا شکر ادا کریں اور اپنے پیغمبر کو پہچانیں۔
دونوں سورتوں میں اصل بناے استدلال موسیٰ علیہ السلام کی سرگذشت ہے۔ اِس کے علاوہ جو سرگذشتیں سنائی گئی ہیں، وہ تبعاً اِسی کے بعض پہلوؤں کی مزید وضاحت کرتی ہیں۔
اِن میں خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ہوا ہے اور قریش مکہ سے بھی، لیکن روے سخن زیادہ تر اُنھی کی طرف ہے۔
دونوں سورتوں کے مضمون سے واضح ہے کہ ام القریٰ مکہ میں یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے مرحلۂ انذار عام میں اُس وقت نازل ہوئی ہیں، جب ہجرت و براء ت کا مرحلہ قریب آ چکا ہے۔
__________
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
طٰسٓ تِلْكَ اٰيٰتُ الْقُرْاٰنِ وَكِتَابٍ مُّبِيْنٍ ١ هُدًي وَّبُشْرٰي لِلْمُؤْمِنِيْنَ ٢ الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَهُمْ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ يُوْقِنُوْنَ ٣
اللہ کے نام سے جو سراسر رحمت ہے ، جس کی شفقت ابدی ہے ۔
یہ سورۂ ’طٰسٓ‘ ہے۔ یہ قرآن اور ایک واضح کتاب کی آیتیں ہیں[1]، ایمان والوں کے لیے ہدایت اور بشارت[2] جو نماز کا اہتمام کرتے ہیں، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں [3]اور وہی آخرت پر فی الواقع یقین رکھتے ہیں[4]۔۱- ۳
اِنَّ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ زَيَّنَّا لَهُمْ اَعْمَالَهُمْ فَهُمْ يَعْمَهُوْنَ ٤ اُولٰٓئِكَ الَّذِيْنَ لَهُمْ سُوْٓءُ الْعَذَابِ وَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ هُمُ الْاَخْسَرُوْنَ ٥ وَاِنَّكَ لَتُلَقَّي الْقُرْاٰنَ مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ عَلِيْمٍ ٦
اِس کے برخلاف جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے، اُن کے اعمال ہم نے اُن کے لیے خوش نما بنا دیے ہیں، چنانچہ بھٹکتے پھر رہے ہیں[5]۔ یہ لوگ ہیں کہ اِن کے لیے دنیا میں بھی برا عذاب ہے[6] اور آخرت میں بھی یہی سخت خسارے میں ہوں گے۔ (اِن کی پروا نہ کرو، اے پیغمبر)، اِس میں کوئی شبہ ہی نہیں کہ یہ قرآن تمھیں ایک حکیم و علیم کی طرف سے دیا جا رہا ہے[7]۔۴- ۶
اِذْ قَالَ مُوْسٰي لِاَهْلِهٖ٘ اِنِّيْ٘ اٰنَسْتُ نَارًا سَاٰتِيْكُمْ مِّنْهَا بِخَبَرٍ اَوْ اٰتِيْكُمْ بِشِهَابٍ قَبَسٍ لَّعَلَّكُمْ تَصْطَلُوْنَ ٧ فَلَمَّا جَآءَهَا نُوْدِيَ اَنْۣ بُوْرِكَ مَنْ فِي النَّارِ وَمَنْ حَوْلَهَا وَسُبْحٰنَ اللّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ٨
(اور اپنے اوپرخدا کی اِس عنایت کو سمجھنے کے لیے) وہ قصہ یاد کرو [8]،جب موسیٰ نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ میں نے ایک آگ سی دیکھی ہے[9]۔ (تم لوگ ذرا ٹھیرو)، میں وہاں سے ابھی تمھارے پاس کوئی خبر لاتاہوں یا آگ کا کوئی انگارا لے کر آتا ہوں تاکہ تم اُسے تاپ سکو[10]۔ سو جب وہ اُس کے پاس پہنچا تو ندا آئی[11] کہ مبارک ہے وہ جو اِس آگ میں جلوہ فرما ہے اور وہ بھی جو اِس کے ارد گرد ہیں[12]۔ اور پاک ہے اللہ، جہانوں کا پروردگار[13] ۔۷ - ۸
يٰمُوْسٰ٘ي اِنَّهٗ٘ اَنَا اللّٰهُ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ٩ وَاَلْقِ عَصَاكَ فَلَمَّا رَاٰهَا تَهْتَزُّ كَاَنَّهَا جَآنٌّ وَّلّٰي مُدْبِرًا وَّلَمْ يُعَقِّبْ يٰمُوْسٰي لَا تَخَفْ اِنِّيْ لَا يَخَافُ لَدَيَّ الْمُرْسَلُوْنَ ١٠ اِلَّا مَنْ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْنًاۣ بَعْدَ سُوْٓءٍ فَاِنِّيْ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ١١
اے موسیٰ، یہ میں ہوں اللہ، زبردست اور حکیم۔ (تم مطمئن ہو جاؤ) [14] اور اپنی لاٹھی (زمین پر) ڈال دو۔ پھر جب موسیٰ نے اُس کو دیکھا کہ وہ اِس طرح بل کھا رہی ہے ، گویا وہ سانپ ہے تو پیٹھ پھیر کر بھاگا اور پلٹ کر دیکھا بھی نہیں۔ ارشاد ہوا: اے موسیٰ، ڈرو نہیں، میرے حضور پیغمبر ڈرا نہیں کرتے[15]۔ ہاں مگر جو برائی کے مرتکب ہوں، پھر برائی کے بعد وہ اُسے بھلائی سے بدل دیں تو (اُن کے لیے ) میں بڑا بخشنے والا اور بڑا مہربان ہوں[16]۔ ۹ - ۱۱
وَاَدْخِلْ يَدَكَ فِيْ جَيْبِكَ تَخْرُجْ بَيْضَآءَ مِنْ غَيْرِ سُوْٓءٍ فِيْ تِسْعِ اٰيٰتٍ اِلٰي فِرْعَوْنَ وَقَوْمِهٖ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِيْنَ ١٢ فَلَمَّا جَآءَتْهُمْ اٰيٰتُنَا مُبْصِرَةً قَالُوْا هٰذَا سِحْرٌ مُّبِيْنٌ ١٣ وَجَحَدُوْا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا٘ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ ١٤
اور اپنا ہاتھ ذرا اپنے گریبان میں ڈالو، وہ بغیر کسی بیماری کے[17]سفید ہو کر نکلے گا۔ (یہ دونوں مل کر نو نشانیاں ہیں جو ہم تمھیں دے رہے ہیں۔ اِن) نو نشانیوں کے جلو میں[18] تم فرعوناور اُس کی قوم کے پاس جاؤ، وہ بڑے ہی نافرمان لوگ ہیں۔ پھر جب ہماری یہ آنکھیں کھول دینے والی نشانیاں اُن کے سامنے آئیں تو اُنھوں نے کہہ دیا کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔ اُنھوں نے ظلم اور گھمنڈ کے باعث اِن کا انکار کیا، دراں حالیکہ اُن کے دل اِن نشانیوں کو تسلیم کر چکے تھے۔ سو دیکھو، اِن مفسدوں کا انجام کیا ہوا[19]! ۱۲ - ۱۴
[1]۔ یعنی ایسی کتاب کی جو حقائق کو اِس طرح واضح کر دیتی ہے کہ آپ ہی اپنی حجت بن جاتی ہے۔ اُس کی صحت و صداقت کو جانچنے کے لیے کسی خارجی شہادت یا معجزے اور نشانی کی ضرورت نہیں رہتی۔ آیت میں ’تِلْكَ‘ کا مشار الیہ ’طٰسٓ‘ ہے۔ اِس کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر ہم سورۂ بقرہ (۲)کی آیت ۱کے تحت بیان کر چکے ہیں۔
[2]۔ ہدایت کے ساتھ بشارت کا ذکر یہاں خاص طور پر اِس لیے ہوا ہے کہ آگے سورہ کے مضامین اِسی کی شہادت دے رہے ہیں۔
[3]۔ یہ دونوں عبادات ایمان و اسلام کا لازمی ظہور ہیں۔ اہل عرب کے لیے یہ کوئی اجنبی چیزیں نہیں تھیں۔ دین ابراہیمی کی ایک روایت کی حیثیت سے وہ نہ صرف یہ کہ اِن سے واقف تھے، بلکہ اُن کے صالحین اِن کا اہتمام بھی کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اِن کی کوئی تفصیلات بیان نہیں کی ہیں۔
[4]۔ چنانچہ یہی چیز اُن کے ایمان لانے اور نماز اور زکوٰۃ کا اہتمام کرنے کا باعث بن گئی ہے۔
[5]۔ یعنی دنیا کو مطلوب و مقصود بنا کر جو کچھ وہ کر رہے ہیں، اُسی پر مطمئن ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...یہ اُس سنت الٰہی کی طرف اشارہ ہے جس کی وضاحت ...جگہ جگہ ہو چکی ہے کہ جو لوگ اِسی دنیا کو مقصود و مطلوب بنا کر اپنی تمام ذہانت و قابلیت اِسی کی طلب میں لگا دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ اُن کے اعمال و مشاغل کو اِس طرح اُن پر مسلط کر دیتا ہے کہ پھر نہ وہ اُن کے چھوڑنے ہی پر آمادہ ہوتے اور نہ اُن سے چھوٹ ہی سکتے۔ وہ اُنھی کے اندر بھٹکتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ ایک دن فرشتۂ اجل آکر اُن کو دبوچ لیتا ہے۔‘‘(تدبرقرآن۵/ ۵۷۷)
[6]۔ یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ رسولوں کی طرف سے اتمام حجت کے بعد اُن کے مکذبین پر اِس دنیا میں بھی لازماً عذاب آتا ہے اور یہاں اُنھی کا ذکر ہو رہا ہے۔
[7]۔ یعنی اُس ذات کی طرف سے دیا جا رہاہے جس کے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے اور وہ ہر چیز سے با خبر بھی رہتا ہے، اِس لیے مطمئن رہو، وہ تمھیں کبھی تنہا نہ چھوڑے گا، بلکہ ہر قدم پر تمھاری رہنمائی فرمائے گا اور تمھیں منزل مقصود پر پہنچائے گا۔
[8]۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سب سے زیادہ مماثلت حضرت موسیٰ ہی کی ہے۔ چنانچہ آگے اُنھی کی سرگذشت آپ کی تسلی اور آپ کے مخاطبین کی تنبیہ کے لیے سنائی گئی ہے تاکہ واضح ہو جائے کہ پیغمبری کیا ہے، یہ کیسے ملتی ہے اور اِس کے ساتھ خدا کی کیا کیا عنایتیں وابستہ ہو سکتی ہیں؟
[9]۔ یہ اُس وقت کا قصہ ہے ، جب موسیٰ علیہ السلام مدین میں آٹھ دس سال گزارنے کے بعد اپنی بیوی کو لے کر واپس مصر جا رہے تھے۔ اپنے اِس سفر میں جب وہ مدین سے چل کر جزیرہ نماے سینا کے اُس مقام پر پہنچے جو اب کوہ سینا اور جبل موسیٰ کہلاتا ہے تو اِسی پہاڑ کے دامن میں یہ واقعہ پیش آیا۔ نزول قرآن کے زمانے میں یہ پہاڑ طور کے نام سے مشہور تھا۔
[10]۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سردی کا زمانہ تھا اور اپنے بیوی بچوں کے ساتھ جب موسیٰ علیہ السلام وادی طور کے پاس پہنچے تو رات ہو چکی تھی اور اُنھیں راستے کا کچھ اندازہ نہیں ہورہا تھا۔ چنانچہ روشنی دیکھ کر اُنھیں خیال ہوا کہ ہو سکتا ہے وہاں کچھ لوگ ہوں جن سے رہنمائی مل جائے، ورنہ آگ ہی کا کوئی انگارا لے آؤں جس سے کچھ گرمی حاصل کی جا سکے۔
[11]۔ اصل میں مجہول کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ یہ ابہام اور تفخیم کوظاہر کر رہا ہے۔ یعنی اُنھیں آواز تو سنائی دی، لیکن یہ متعین نہیں ہو سکا کہ آواز کس کی ہے اور کہاں سے آئی ہے۔
[12]۔ یعنی خدا کے فرشتے۔ اِس میں ’مبارک‘کے لفظ سے بیان حقیقت کے ساتھ حضرت موسیٰ کی تسلی بھی مقصود ہے کہ وہ اِس طرح کی آواز سن کر گھبرائیں نہیں۔یہ اللہ تعالیٰ کی بابرکت ذات کی آواز ہے جو اپنے بابرکت کروبیوں کے ساتھ اِس آگ کے پردے میں جلوہ گر ہوئی ہے۔
[13]۔ آگ کے اندر سے آنے والی آواز چونکہ تحدید و حلول کا تاثر پیدا کر سکتی تھی،لہٰذا تنزیہہ کے لیے فرمایا ہے کہ متنبہ رہو، تمام محدودیتوں اور تمام عیوب و نقائص سے پاک ہوتے ہوئے، یہ اُسی کی تجلی ہے جو تمھیں نظر آ ئی ہے اور وہ تمام عالم کا پروردگار ہے، اِس لیے جس وقت اور جس طریقے سے چاہے، اپنے بندوں سے مخاطب ہو سکتا ہے۔
[14]۔ آیت میں عزیز و حکیم کی صفات کا حوالہ یہی اطمینان دلانے کے لیے آیا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...یہاں ’عَزِيْز‘ کے ساتھ ’حَكِيْم‘ کی صفت آئی ہے جس سے مقصود اِس حقیقت کو واضح کرنا ہے کہ جس ذات نے تم کو اِس وقت خطاب و کلام سے مشرف فرمایا ہے، وہ ہر چیز پر غالب و مقتدر ہے، کوئی اُس کے کسی ارادے میں مزاحم نہیں ہو سکتا اور ساتھ ہی وہ حکیم ہے، اُس کا ہر ارادہ حکمت و مصلحت پر مبنی ہے۔ اور اسلوب کلام چونکہ حصر در حصر کا ہے، اِس وجہ سے اِس سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ میرے مقابل میں کسی اور کے زور و اقتدار یا میری حکمت و مصلحت کے مقابل میں کسی اور کی حکمت و مصلحت کے تصور کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔‘‘(تدبرقرآن۵/ ۵۸۱ )
[15]۔ یہ تسلی کا نہایت دل نواز اسلوب ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تم نبوت کے منصب پر فائز کیے جا رہے ہو اور اِس منصب کے حاملین میری حفاظت میں ہوتے ہیں۔ اُنھیں اِس طرح کی چیزیں کوئی گزند نہیں پہنچا سکتیں، اِس لیے بے خوف اور مطمئن ہو جاؤ۔
[16]۔ یہ استثنا اِس بات کا قرینہ ہے کہ حضرت موسیٰ کا ذہن اِس موقع پر غالباً قبطی کے قتل کے واقعے کی طرف منتقل ہوا ہے کہ مجھ سے ایک غلطی ہو چکی ہے، یہ کہیں اُسی کا خمیازہ نہ ہو۔ چنانچہ مزید تسلی کے لیے فرمایا ہے کہ تو بہ و اصلاح سے تم اُس کی تلافی کر چکے ہو اور میں بڑا غفور ورحیم ہوں، اِس لیے ایسا کوئی اندیشہ نہیں ہونا چاہیے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...اِس بات کو یہاں عام صیغے میں فرما کر اِس کے فیض کو ہمہ گیر کر دیا ہے کہ یہ معاملہ کچھ تمھارے ہی لیے خاص نہیں ہے، بلکہ میں اپنے ہر بندے کے ساتھ یہی معاملہ کرتا ہوں۔‘‘(تدبرقرآن۵/ ۵۸۳)
[17]۔ یہ اضافہ صاف واضح کر رہا ہے کہ یہاں بائیبل کی تردید مقصود ہے جس میں ہاتھ کی سفیدی کو برص بتایا گیا ہے۔
[18]۔ قرآن کے دوسرے مقامات میں اِن نشانیوں کی تفصیل ہے۔ یہ گویا ایک پوری میگزین تھی جو فرعون کے پاس جانے کے لیے حضرت موسیٰ کو ابتدا ہی میں دے دی گئی۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ایک منتقم و جبار اور سرکش بادشاہ کی طرف رسول بنا کر بھیجے جا رہے تھے جو آسانی کے ساتھ اُن کی کوئی بات سننے کے لیے آمادہ نہیں ہو سکتا تھا۔
[19]۔ یہ وہ اصل مدعا ہے جس کے لیے یہ سرگذشت سنائی گئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے مخاطبین کے انکار کا سبب سمجھ لیں اور اُن کے رویے سے دل برداشتہ نہ ہوں۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ