HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

’سنت‘ اور ’ملت ابراہیم‘ کا باہمی تعلق: جناب جاوید احمد غامدی کے موقف کا تقابلی جائزہ (۳)

جناب جاوید احمد غامدی کے تصور سنت پر ایک اعتراض یہ بھی کیا گیا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام سے سنن کی نسبت تواتر عملی کے معیار پر تو کجا، خبر صحیح کے معیار پر بھی ثابت نہیں کی جا سکتی۔ چنانچہ اگر یہ ثابت ہی نہیں ہے کہ مذکورہ اعمال کو سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے دین کی حیثیت سے جاری فرمایا تھا تو انھیں دین ابراہیمی کی روایت کی حیثیت سے پیش کرنا کیسے درست ہو سکتا ہے؟

ہمارے نزدیک یہ اعتراض بالکل بے معنی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غامدی صاحب کے تصور کے مطابق سنت کی صورت میں موجود دین کا ماخذ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نہیں، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ وہ اگر سیدنا ابراہیم کی ذات کو ماخذ قرار دیتے تو اسی صورت میں مذکورہ اعتراض لائق اعتنا ہوتا، لیکن ان کی کسی تحریر میں بھی اس طرح کا تاثر نہیں ہے۔ ’’اصول و مبادی‘‘ میں انھوں نے نہایت وضاحت کے ساتھ یہ بات بیان کی ہے کہ رہتی دنیا تک کے لیے دین کا ایک ہی ماخذ ہے اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات ہے۔ انھی سے یہ دین قرآن اور سنت کی دو صورتوں میں ملا ہے۔ سنت اگرچہ اپنی نسبت اور تاریخی روایت کے لحاظ سے سیدنا ابراہیم ہی سے منسوب ہے، لیکن اس روایت کو ہمارے لیے دین کی حیثیت اس بنا پر حاصل ہوئی ہے کہ اسے نبی آخر الزماں نے دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے۔

اسی طرح یہ اعتراض بھی کیا گیاہے کہ غامدی صاحب کے مرتب کردہ سنن کی فہرست میں سے بیش تر سنن ایسے ہیں جن پر عمل کے شواہد ابراہیم علیہ السلام سے پہلے انبیا کے ہاں بھی تسلیم کیے جاتے ہیں۔ اس کی مثال قربانی اور تدفین ہے۔ چنانچہ حقیقت اگر یہی ہے تو غامدی صاحب کے اصول کی رو سے انھیں سنت ابراہیمی کے طور پر نہیں، بلکہ سنت آدم یا سنت نوح کے طور پر پیش کیا جانا چاہیے۔

یہ اعتراض بھی درست نہیں ہے۔ زبان و بیان کے مسلمات اور تاریخ و سیر کے معروفات کی رو سے یہ لازم نہیں ہے کہ کسی چیز کی نسبت اس کے اصل موجد ہی کی طرف کی جائے۔بعض اوقات یہ نسبت بعد کے زمانے کی کسی مشہور و معروف شخصیت یا قوم کی طرف بھی کر دی جاتی ہے۔ سورۂ مائدہ (۵) کی آیت ۳۲میں قصاص کے قانون کے لیے ’كَتَبْنَا عَلٰي بَنِيْ٘ اِسْرَآءِيْلَ‘   ( ہم نے بنی اسرائیل پر فرض کیا تھا)کے الفاظ آئے ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ قانون بنی اسرائیل سے پہلے بھی موجود تھا۔ قرآن نے اگر اسے بنی اسرائیل کے حوالے سے بیان کیا ہے تو اس کے معنی یہ ہرگز نہیں ہیں کہ اس کا اجرا بھی بنی اسرائیل کے زمانے میں ہوا ہے۔ چنانچہ ابن العربی نے ’’احکام القرآن‘‘ میں بیان کیا ہے:

ولم یخل زمان آدم ولا زمن من بعدہ من شرع. وأھم قواعد الشرائع حمایة الدماء عن الاعتداء وحیاطته بالقصاص کفًا وردعًا للظالمین والجائرین، وهذا من القواعد التي لا تخلو عنها الشرائع، والأصول التي لا تختلف فیها الملل؛ وإنما خص اللہ بني إسرائیل بالذکر للکتاب فیه علیهم؛ لأنه ما کان ینزل قبل ذالک من الملل والشرائع کان قولاً مطلقًا غیر مکتوب.( ۲/ ۵۹۱)
 ’’حضرت آدم اور ان کے بعد کوئی دور ایسا نہیں گزرا کہ اس میں (اللہ کی) شریعت موجود نہ رہی ہو۔ شریعت کے قواعد میں سب سے اہم قاعدہ یہ ہے کہ ظلم سے خون بہنے سے بچایا جائے اور قصاص کے ذریعے سے اس کی حفاظت کا بندوبست کیا جائے تاکہ ظالموں اور جور کرنے والوں کے ہاتھ کو روکا اور پابند کیا جائے۔ یہ ان قواعد میں سے ہے جو ہر شریعت اپنے اندر رکھتی ہے اور یہ اس اصول کا حصہ ہے جو تمام ملتیں بالاتفاق مانتی ہیں۔ اس ضمن میں اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر بنی اسرائیل میں یہ قانون جاری فرمانے کا ذکر کیا، کیونکہ ان سے پہلے کی امتوں کی طرف ان کی شریعتوں میں جو بھی وحی نازل کی گئی، وہ محض قول ہوتا تھا اور لکھا ہوا نہ ہوتا تھا۔‘‘

___________

B