HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

میں حاضر ہوں! میں حاضر ہوں! (۲)

سفرنامه

محمد بلال

 

ذکر ہو رہا تھا طواف کا۔ بیت اللہ کو پہلی دفعہ دیکھنے سے میرے اوپر جو ہیبت طاری ہو گئی تھی طواف کے دوسرے ہی چکر میں اس کی شدت بہت حد تک کم ہو چکی تھی۔ پہلے، دوسرے چکر میں تو میری کیفیت ’’نارمل‘‘ نہیں تھی۔ آہستہ آہستہ میں ’’نارمل‘‘ ہونا شروع ہوا۔ اس وقت میری زبان پر دعائیں تھیں اور نظریں بیت اللہ پر۔ بیت اللہ کی زیارت اور اس کا طواف انتہائی غیر معمولی سعادت ہے۔ مجھے بار بار ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے یہ سب خواب ہے۔ مجھے بار بار اپنے آپ کو یقین دلانا پڑ رہا تھا کہ میں واقعی اس انتہائی بابرکت مقام پر موجود ہوں۔ جب میں نے بیت اللہ کو پہلی دفعہ دیکھا تو مجھے بیت اللہ کا حجم اندازے سے بڑا محسوس ہوا۔ اصل میں فوٹو گرافر حضرات بیت اللہ کے گردوپیش کے ماحول کا زیادہ سے زیادہ احاطہ کرنے کے لیے کیمرے کے ساتھ زوم لینز استعمال کرتے ہیں جس سے بیت اللہ کے صحن کے تناسب سے بیت اللہ چھوٹا لگتا ہے۔

وہاں طواف کرنے والوں کے بھی اپنے اپنے انداز تھے۔ بعض لوگ ہاتھوں میں چھوٹی چھوٹی کتابیں پکڑے مختلف دعائیں پڑھ رہے ہیں۔ بعض لوگ ایک گروپ کی شکل میں طواف کر رہے تھے۔ کوئی گروپ لیڈر کتاب دیکھ کر اور کوئی زبانی باآوازِ بلند دعائیں پڑھ رہا تھا اور باقی لوگ ان دعاؤں کو باآوازِ بلند دہرا رہے تھے۔ بعض گروہوں نے ایک چھوٹی سی رسی پکڑی ہوئی تھی تاکہ ہجوم میں خاندان کے لوگ اِدھر اُدھر نہ ہو جائیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ اگر وہاں کوئی اِدھر اُدھر ہو جائے تو بہت پریشانی ہوتی ہے اور عبادت کی یکسوئی متاثر ہوتی ہے۔ خاص طور پر بچوں کا مسئلہ تو بہت نازک ہوتا ہے۔

حجرِ اسود پر لوگوں کا بے پناہ ہجوم تھا۔ حجرِ اسود کا بوسہ لینے کا فی الحال کوئی امکان نظر نہیں آ رہا تھا۔ اسی طرح ملتزم کے ساتھ لوگ چپکے ہوئے تھے اور اپنے رب کے ساتھ سرگوشیاں کر رہے تھے۔ وہاں بھی اپنے لیے کوئی جگہ دکھائی نہیں دے رہی تھی ۔

نظم کو برقرار رکھنے کے لیے اور کسی شرک یا بدعت پر مبنی حرکت کو روکنے کے لیے وہاں جگہ جگہ سپاہی موجود تھے۔ اکثر سپاہی سخت مزاج محسوس ہوئے۔ حجرِ اسود اور مقامِ ابراہیم کے قریب سپاہی تو اپنی جگہ سے ہلتے بھی نہیں تھے۔ وہاں موجود سپاہیوں کو میں نے شرک اور بدعت کے معاملے میں غیر  معمولی طور پر اور حد سے زیادہ حساس پایا۔ سپاہی کسی  شخص کو حجرِ اسود اور مقامِ ابراہیم کے قریب زیادہ دیر کھڑا نہیں ہونے دے رہے تھے۔ حتیٰ کہ مقامِ ابراہیم کو چھونے بھی نہیں دے رہے تھے۔ میں تیسرے چکر میں مقامِ ابراہیم کو دیکھ سکا۔

 مقامِ ابراہیم کیا ہے ؟ 

مقامِ ابراہیم کا ذکر قرآنِ مجید میں ہوا :

وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًاﵧ وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّي. (البقرہ ۲ : ۱۲۵)
’’ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کے لیے مرکز اور امن کی جگہ بنایا اور حکم دیا کہ مسکنِ ابراہیم میں ایک نماز کی جگہ بناؤ۔‘‘

   یہاں ’’مقامِ ابراہیم‘‘ سے کیا مراد ہے ؟ اس ضمن میں مولانا امین احسن اصلاحی نے لکھا ہے:

’’اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کو تمام اولادِ ابراہیم کے لیے مرکز و قبلہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ پھر یہ فرمایا کہ اسی فیصلہ کو بروے کار لانے کے لیے ابراہیم اور اولادِ ابراہیم کو یہ حکم ہوا کہ مسکنِ ابراہیم کے ایک حصہ میں نماز کی ایک جگہ بنا ؤ۔ 
یہاں آیت میں مقامِ ابراہیم کا لفظ آیا ہے۔ مقام سے کیا مراد ہے ؟ علماے تفسیر سے اس بارے میں دو قول منقول ہیں۔ ایک گروہ کے نزدیک اس سے مراد وہ پتھر ہے جس کے متعلق یہ مشہور ہے کہ حضرت ابراہیم نے اس پر کھڑے ہو کر خانہ کعبہ کی تعمیر کی تھی۔ دوسرے گروہ کے نزدیک اس سے مراد حرم کا پورا علاقہ ہے۔ اس گروہ نے مقام کے لفظ کو کسی مخصوص کھڑے ہونے کی جگہ کے بجائے مسکن و مستقر کے مفہوم میں لیا ہے۔ ہمارے نزدیک یہی تاویل صحیح ہے۔ اس تاویل میں وسعت و جامعیت کے ساتھ ساتھ خاص اہمیت رکھنے والا پہلو یہ ہے کہ نظمِ کلام کے اعتبار سے یہ اس مقصد کو زیادہ واضح کرنے والی ہے جس کے لیے یہ بات یہاں کہی گئی ہے۔ یہاں یہ ثابت کیا جا رہا ہے کہ یہی گھر تمام اولادِ ابراہیم کا قبلہ رہا ہے اس لیے کہ یہی گھر ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں حضرت ابراہیم نے سب سے پہلے اپنے اس مستقر میں تعمیر کیا جس میں ہجرت کے بعد انھوں نے حضرت اسماعیل کے ساتھ سکونت اختیار کی   ..... ظاہر ہے کہ جب حضرت ابراہیم نے قیام اسی علاقہ میں فرمایا نہ کہ شام میں تو ان کو نماز کے لیے ایک مرکز کی تعمیر بھی اسی علاقہ میں کرنے کا حکم ہونا چاہیے۔ چنانچہ اسی حکم کی تعمیل میں انھوں نے اس بیت اللہ کی تعمیر کی جس کا ذکر تورات کی کتابِ پیدایش میں بیتِ ایل کے نام سے ہوا ہے۔ بیت اللہ اور بیتِ ایل دونوں کے معنی بالکل ایک ہیں۔ ایل کے معنی عبرانی میں اللہ کے ہیں۔ اس بیتِ ایل سے اگر یہود بیت المقدس کو مراد لیتے ہیں تو قطع نظر اس سے کہ اس سرزمین کو حضرت ابراہیم نے اپنا مسکن نہیں بنایا، یہود کے اس دعوے کو جھٹلانے والی سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ بیت المقدس کی تعمیر بالاتفاق حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سیکڑوں سال بعد حضرت سلیمان کے عہد میں ہوئی ہے۔ چنانچہ خانہ کعبہ کی اسی قدامت اور اولیت کی وجہ سے قرآن نے اس کو ’’بیتِ عتیق‘‘ اور ’’اول بیت‘‘ کے الفاظ سے بھی تعبیر کیا ہے۔.....  (بے شک پہلا گھر جو لوگوں ـــــ  اولادِ ابراہیم ـــــ  کے لیے تعمیر ہوا وہی ہے جو مکہ میں ہے، مبارک اور تمام عالم کے لیے سرچشمہ ہدایت۔ اس میں (اس کی اولیت کی) نہایت واضح نشانیاں ہیں، یہ مسکنِ ابراہیم ہے (اور اس کی روایت ہے کہ) جو اس میں داخل ہوا وہ مامون ہوا)
یہاں بیت اللہ کو ’’مصلی‘‘ کے لفظ سے جو تعبیر فرمایا ہے تو اس سے اس گھر کے اصل مقصدِ تعمیر کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ یہ نماز کا مرکز ہو گا۔ حضرت ابراہیم نے اس کے جوارِ رحمت میں حضرت اسماعیل کو بساتے وقت دعا بھی یہی کی تھی کہ (اے رب، میں نے ان کو اس لیے یہاں بسایا ہے تاکہ یہ نماز قائم کریں)۔‘‘ ( تدبرِ قرآن، ج ۱، ص ۳۲۹-۳۳۱)

نمازِ تراویح کی صفوں کے لیے ایک حد قائم کی گئی تھی۔ اس حد سے آگے نماز کے لیے اگر کوئی کھڑا ہو جائے تو وہ طواف کرنے والوں کے لیے رکاوٹ بن سکتا تھا۔ میں نے دیکھا کہ دو آدمیوں نے اس حد کی خلاف ورزی کی۔ وہ آخری صف کے آگے کھڑے ہوئے اور نماز کے لیے نیت باندھ لی۔ ان کا خیال ہو گا کہ اب ہمیں کوئی نہیں ہلا سکتا۔ مگر شاید وہ وہاں کے سپاہیوں سے واقف نہ تھے۔ یکایک دو سپاہی نمودار ہوئے۔ انھوں نے اپنی زبان میں سخت اسلوب میں کچھ کہا ، ان کے بندھے ہاتھ ایک جھٹکے سے کھولے اور انھیں صفوں کے پیچھے دھکیل دیا ۔

مجھے سپاہیوں کی یہ حرکت عجیب سی لگی ، مگر جب اجتماعی نقطۂ نگاہ سے سوچا تو خیال آیا کہ سپاہیوں کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ میرا اصل دھیان تو اپنی دعاؤں اور بیت اللہ کی جانب تھا مگر گردوپیش کے واقعات بھی وقتی طور پر میری توجہ اپنی طرف منتقل کرا لیتے تھے۔ میں چونکہ طواف کے فلسفے سے واقف تھا ، اس لیے ظاہر اور باطن دونوں پہلوؤں سے طواف کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس وقت میرے اوپر جو کیفیت تھی، وہ ناقابلِ بیان ہے۔ اللہ کو اپنی سوچوں اور سرگرمیوں کا مرکزو محور بنانے کے عزائم اور اس عزم میں کامیابی کے لیے خدا سے توفیق حاصل کرنے کی دعائیں اپنی کوتاہیوں، لغزشوں اور گناہوں سے مغفرت کی التجائیں، اس غیرمعمولی سعادت کے حاصل ہونے پر شکر گزاری جیسے سب امور اس کیفیت میں شامل تھے۔

طواف کے دوران میں دو نابینا لوگوں کو بھی دیکھا۔ انھیں کوئی سہارا دینے کی پیش کش کرتا تو وہ اس سے انکار کر دیتے تھے۔ بینائی سے محروم ہونے کے باوجود وہ ٹھیک طواف کر رہے تھے۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ نماز پڑھنے والوں سے ٹکرا جائیں یا کسی چیز سے متصادم ہو جائیں۔ طواف کرنے والوں میں ایک شخص کبڑا تھا۔ ایک آدمی ’’کبوتر چھاتی‘‘ کے مرض میں مبتلا تھا۔ ضعیف اور بیمار لوگ کسی شخص کی کمر پر، کسی کرسی پر یا ڈولی پر طواف کر رہے تھے ۔

خیال آیا : کتنے بینا، صحیح کمر اور صحیح چھاتی والے صحت مند اور طاقت ور لوگ ہیں جنھیں اللہ کے گھر کے طواف کی سعادت حاصل نہیں ہوتی یا وہ یہ سعادت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ اکثر و بیشتر لوگوں کے پاس جب دولت آتی ہے تو ان کے وہم و گمان میں بھی یہ نہیں آتا کہ اس رقم کو خرچ کرکے بیت اللہ کی زیارت کی جائے، اس کا طواف کیا جائے۔ وہ اس دولت سے مکانات بناتے ہیں۔ مکانات بنے ہوئے ہوں تو اس کی شان میں اضافہ کرتے ہیں۔ کار نہ ہوتو کار خریدتے ہیں۔ پرانے ماڈل کی کار ہو تو نئے ماڈل کی کار خریدتے ہیں۔ اور ایسا نہیں ہے کہ یہ رویہ بے دین لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ اچھے خاصے مذہبی مزاج کے حامل لوگ، حتیٰ کہ دین کا علم رکھنے والے بعض لوگوں میں بھی یہ روش دیکھی جا سکتی ہے۔

سبحان اللہ! ان بینا، صحت مند اور طاقت ور لوگوں سے وہ نابینا، بیمار اور ضعیف لوگ کتنے ’’بینا‘‘ کتنے ’’صحت مند‘‘ اور کتنے ’’طاقت ور‘‘ تھے۔

نمازِ تراویح کے امام صاحب حجرِ اسود کے سامنے ایک برآمدے میں امامت کرا رہے تھے۔ ان کے سامنے بیت اللہ کے صحن میں انگریزی حرفِ تہجی کی وی (V) کی طرح جگہ خالی پڑی ہوئی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اگر یہاں بھی مقتدی کھڑے ہو جائیں تو مقتدی امام کے سامنے آ جاتے تھے۔ امام تو امام ہی ہوتا ہے۔ ظاہر ہے اس طرح اس سے آگے کسی کو نہیں ہونا چاہیے ۔

بیت اللہ کا فرش سفید ملائم ہموار پتھر کا بنا ہواتھا۔ اس پر  مسلسل چلنے کی وجہ سے مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے میرے پاؤں کا خم ختم ہو گیا ہے۔ پاؤں نیچے سے چپٹے ہو گئے ہیں۔ جب مجھے پاؤں میں درد کا ہلکا سا احساس ہوا تو اس درد میں بھی ایک لذت محسوس ہوئی۔ خیال آیا! اللہ کے لیے درد سہنے کی معمولی سی مشق ہو رہی ہے۔

ایک چکر میں میرے کزن ابوبکر نے دیکھا کہ ملتزم والے حصے کے پاس جگہ خالی ہے۔ اس نے مجھے اشارہ کیا۔ میں فوراً اس جانب بڑھا اور اس کے ساتھ چپک گیا۔ کیونکہ ملتزم کے پاس اتنی بھیڑ تھی کہ وہاں پہنچنا ناممکن نظر آ رہا تھا۔ اصل میں ملتزم کی جگہ ہے بھی بہت چھوٹی۔ (ملتزم اس جگہ کو کہتے ہیں جو حجرِ اسود اور بیت اللہ کے دروازے کے درمیان میں ہے، جہاں خصوصی دعا کی جاتی ہے) اس وقت توبہ و استغفار کے کلمات دوسرے کلمات پر غالب آ گئے۔ جن لوگوں نے مجھے وہاں دعا کرنے کے لیے کہا تھا، میں نے سب کے لیے نام لے لے کر دعائیں کیں۔ غلاف پر میں نے اچھی طرح ہاتھ پھیر کر اس کی ملائمت کو بھرپور طریقے سے محسوس کیا۔ پھر غلاف کو تھوڑا سا اوپر اٹھا کر بیت اللہ کی پتھریلی دیوار پر ہاتھ پھیرا۔ دیوار ظاہر ہے نرم تو نہیں تھی، البتہ اس میں کوئی کھردراپن نہیں تھا۔ مگر مجھے اس سخت چیز پر ہاتھ پھیرتے وقت بھی ایک خاص قسم کا لطف آیا۔ ظاہر ہے بیت اللہ کو اس طرح چھونے کی برکت کے پہلو سے وہ حیثیت نہیں ہے جو حجرِ اسود کو بوسہ دینے یا استلام کرنے کی ہے۔ میں نے یہ کام فطری انسانی    تجسس کے تحت کیا۔ اس مقام پر میں نے سر اٹھا کر اوپر دیکھا۔ بیت اللہ کے اوپر سیاہ بادلوں کا راج تھا۔ آسمان کا کوئی ستارہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ بیت اللہ کا سیاہ غلاف، سیاہ بادل اور رات کی سیاہی، اس منظر میں ایک پراسرار سی عظمت محسوس ہوئی۔ یہ منظر بھی میرے ذہن کے البم میں ناقابل فراموش حصے میں نقش ہو گیا۔ 

اس کے بعد میں نے پھر طواف کا سلسلہ بحال کیا۔ طواف کے دوران میں بار بار بیت اللہ کے متعلق واقعات یاد آ رہے تھے۔ اس بیت اللہ کے اندر کبھی بت رکھ دئیے گئے تھے۔ بیت اللہ کو بت کدہ بنا دیا گیا تھا۔ خدا کے اس گھر میں خدا کی نافرمانی کا ارتکاب کیا گیا تھا۔ اور پھر ان بتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا تھا۔ میرا  تخیل ان واقعات کی میرے ذہن کے پردے پر تصویریں بنا رہا تھا تو اس کے ساتھ نمازِ تراویح کے امام صاحب کی دل پذیر قراءت وہاں کے غیر معمولی طور پر معیاری ساؤنڈ سسٹم کی وجہ سے سماعت کے پردوں سے گزر کر دل کی گہرائیوں میں اتر رہی تھی۔

طواف کے آخری پھیروں میں     حطیم کے اندر جگہ مل گئی۔ چنانچہ وہاں بھی نوافل اداکرنے کی سعادت حاصل ہو گئی ۔

حطیم کیا ہے ؟   

حطیم بیت اللہ کا وہ حصہ ہے جو کبھی بیت اللہ میں شامل تھا۔ ایک مرتبہ بیت اللہ کی تعمیرِ نو کرتے ہوئے اسے یہ سوچ کر باہر چھوڑ دیا گیا تھا کہ جب مناسب وسائل میسر ہوئے تو اس کو بیت اللہ کے اندر لے آیا جائے گا۔ اس حصے کے بارے میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کے بعد ارادہ کیا تھا کہ بیت اللہ کی دیوار ڈھا کر نئے سرے سے اس طرح تعمیر کی جائے کہ یہ حصہ بیت اللہ میں آ جائے، لیکن یہ سوچ کر اقدام نہ کیا کہ لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے ہیں، بیت اللہ کی دیوار ڈھانے سے بدگمان ہی نہ ہو جائیں۔

یہ بیت اللہ کی تاریخ کا ایک غیر  معمولی واقعہ ہے۔ اس واقعہ پر سیرت النبی پر دنیا بھر میں اول انعام یافتہ کتاب ’’الرحیق المختوم‘‘ میں مولانا صفی الرحمٰن مبارک پوری نے لکھا ہے:

’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کا پینتیسواں سال تھا کہ قریش نے نئے سرے سے خانہ کعبہ کی تعمیر شروع کی۔ وجہ یہ تھی کہ کعبہ صرف قد سے کچھ اونچی چہار دیواری کی شکل میں تھا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے زمانے ہی سے اس کی بلندی ۹ ہاتھ تھی اور اس پر چھت نہ تھی۔ اس کیفیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ چوروں نے اس کے اندر رکھا ہوا خزانہ چرا لیا۔ اس کے علاوہ اس کی تعمیر پر ایک طویل زمانہ گزر چکا تھا۔ عمارت خستگی کا شکار ہو چکی تھی اور دیواریں پھٹ گئی تھیں۔ ادھر اسی سال ایک زور دار سیلاب آیا جس کے بہاؤ کا رخ خانہ کعبہ کی طرف تھا۔ اس کے نتیجے میں خانہ کعبہ کسی بھی لمحے ڈھے سکتا تھا۔ اس لیے قریش مجبور ہو گئے کہ اس کا مرتبہ و مقام برقرار رکھنے کے لیے اسے ازسرِ نو تعمیر کریں ۔
اس مرحلے پر قریش نے یہ متفقہ فیصلہ کیا کہ خانہ کعبہ کی تعمیر میں صرف حلال رقم ہی استعمال کریں گے۔ اس میں رنڈی کی اجرت، سود کی دولت اور کسی کا ناحق لیا ہوا مال استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ (نئی تعمیر کے لیے پرانی عمارت کو ڈھانا ضروری تھا) لیکن کسی کو ڈھانے کی جرأت نہیں ہوتی تھی بالآخر ولید بن مغیرہ مخزومی نے ابتدا کی۔ جب لوگوں نے دیکھا کہ اس پر کوئی آفت نہیں ٹوٹی تو باقی لوگوں نے بھی ڈھانا شروع کیا۔ اور جب قواعدِ ابراہیم تک ڈھاچکے تو تعمیر کا آغاز کیا۔ تعمیر کے لیے الگ الگ ہر قبیلے کا حصہ مقرر تھا۔ اور ہر قبیلے نے علیحدہ علیحدہ پتھر کے ڈھیر لگا رکھے تھے۔ تعمیر شروع ہوئی۔ باقوم نامی ایک رومی معمار نگراں تھا۔ جب عمارت حجرِ اسود تک بلند ہو چکی تو یہ جھگڑا اٹھ کھڑا ہوا کہ حجرِ اسود کو اس کی جگہ رکھنے کا شرف و امتیاز کسے حاصل ہو۔ یہ جھگڑا چار پانچ روز تک جاری رہا اور رفتہ رفتہ اس قدر شدت اختیار کر گیا کہ معلوم ہوتا تھا سرزمینِ حرم میں سخت خون خرابہ ہو جائے گا۔ لیکن ابوامیہ مخزومی نے یہ کہہ کر فیصلے کی ایک صورت پیدا کر دی کہ مسجدِ حرام کے دروازے سے دوسرے دن جو سب سے پہلے داخل ہو اسے اپنے جھگڑے کا حَکم (ثالث) مان لیں۔ لوگوں نے یہ تجویز منظور کر لی۔ اللہ کی مشیت کہ اس کے بعد سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ لوگوں نے آپ کو دیکھا تو چیخ پڑے کہ ’هٰذا الامین رضیناه هٰذا محمد صلی اللہ علیه وسلم‘ (یہ امین ہیں۔ ہم ان سے راضی ہیں یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔) پھر جب آپ ان کے قریب پہنچے اور انھوں نے آپ کو معاملے کی تفصیل بتائی تو آپ نے ایک چادر طلب کی۔ بیچ میں حجرِ اسود رکھا اور متنازعہ قبائل کے سرداروں سے کہا کہ آپ سب حضرات چادر کا کنارہ پکڑ کر اوپر اٹھائیں۔ انھوں نے ایساہی کیا۔ جب چادر حجرِاسود کے مقام پرپہنچ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے حجرِ اسود کو اس کی مقررہ جگہ پر رکھ دیا۔ یہ بڑامعقول فیصلہ تھا۔ اس پر ساری قوم راضی ہوگئی۔
ادھر قریش کے پاس مالِ حلال کی کمی پڑ گئی اس لیے انھوں نے شمال کی طرف سے کعبہ کی لمبائی تقریباً چھ ہاتھ کم کر دی۔ یہی ٹکڑا حجر اور حطیم کہلاتا ہے۔ اس دفعہ قریش نے کعبہ کا دروازہ زمین سے خاصا بلند کر دیا تاکہ اس میں وہی شخص داخل ہو سکے جسے وہ اجازت دیں۔ جب دیواریں پندرہ ہاتھ بلند ہو گئیں تو اندر چھ ستون کھڑے کر کے اوپر سے چھت ڈال دی گئی اور کعبہ اپنی تکمیل کے بعد قریب قریب چوکور شکل کا ہو گیا۔‘‘ (ص۹۲-۹۳)

  (جاری)

___________

B