’’اشراق‘‘ کے نام خطوط میں پوچھے گئے سوالات پر مبنی مختصر جوابات کا سلسلہ
سوال: آپ کی رائے میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد اسلامی حکومتیں صرف دفاع یا مظلوم کی مدد کے لیے میدان میں اتر سکتی ہیں اور یہ دونوں کام بھی ریاست کے امیر کے حکم سے مشروط ہیں۔ اگر آپ کے نقطۂ نظر کو صحیح مان لیا جائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفاے راشدین، خلافتِ امیہ و عباسیہ کے ادوار میں جہاد و فتوحات مثلاً فتح مصروشام، عراق و ایران، جہادِ قسطنطنیہ کی شرعی و دینی حیثیت کیا ہے ؟ اور اب دنیا بھر میں مظلوم مسلمان خصوصاً کشمیر، فلسطین، چیچنیا وغیرہ کی جدوجہدِ آزادی کی دینی حیثیت بھی مشکوک ہو جاتی ہے۔ مسلمانوں کی موجودہ حکومتیں مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے نہ اٹھیں تو کیا ریاست کے مسلمان بھی مظلوم ریاست پر ظلم ہوتا دیکھ کر آنکھیں بند کرلیں ؟ (حبیب الرحمٰن ، ڈیرہ غازی خان)
جواب: اس سوال کے تین حصے ہیں۔ پہ حصہ خلفاے راشدین کی جنگوں کے بارے میں ہے۔ اس حوالے سے عرض ہے کہ صحابہ کو قرآنِ مجید نے خاص حیثیت دی ہے اور انھیں ’’خیرِ امت‘‘ اور رسولِ کریم اور باقی امت کے درمیان کی کڑی قرار دیتے ہوئے شہادت کے منصب پر فائز کیا ہے۔ دیکھیے سورۂ بقرہ میں ہے:
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا . (۲: ۱۴۳)
’’ اور (یہود) کی طرح ہم نے تمھیں بھی بیچ کی امت بنایا ہے تاکہ تم (اس دین کی) گواہی سارے لوگوں کے سامنے دو اور رسول تمھارے اوپر گواہی دینے والا ہو۔‘‘
اس آیۂ کریمہ میں رسول کی گواہی پانے کے بعد لوگوں پر گواہی کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے۔ ظاہر ہے، اس کا اطلاق صرف صحابہ پر ہوتا ہے۔ چنانچہ ہمارے نزدیک یہ صرف صحابہ کا منصب تھا کہ وہ تمام دنیا تک دین پہنچائیں اور اس میں حائل استبدادی نظاموں کو بیخ و بن سے اکھاڑ دیں۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم نے اپنی یہ ذمہ داری تاریخ گواہ ہے کہ بے کم و کاست پوری کر دی۔ ان کی جنگیں اور فتوحات اسی ذمہ داری کے ادا کرنے کا ایک ضمنی نتیجہ تھیں ۔
دوسرا حصہ عباسیوں، دیگر سلاطین اور خلفا کی فتوحات اور جنگوں سے متعلق ہے۔ ان میں سے وہ جنگیں جو خلافتِ راشدہ سے متصل بعد کے زمانے میں لڑی گئیں درحقیقت اُس اقدام کا تسلسل ہیں جو صحابہ نے اذنِ خداوندی سے کیا تھا۔ کوئی بھی تاریخی عمل اپنے منطقی نتائج تک پہنچے بغیر رک نہیں پاتا۔ چنانچہ ان میں سے بہت کم جنگیں ایسی ہیں جنھیں محض کشور کشائی کے جذبے کے تحت کی گئی جنگیں قرار دیا جا سکے۔ لہٰذا مذکورہ جنگوں کو ہم کافی حد تک اطمینان کے ساتھ جہاد قرار دے سکتے ہیں ۔
تیسرے حصے میں آپ نے موجودہ دور میں جاری چیچنیا، کشمیر اور فلسطین میں جاری جدوجہد کے بارے میں پوچھا ہے ۔ جہاں تک چیچنیا کا تعلق ہے وہ ایک ریاست ہے اور ریاست کے حکمران دفاعی جنگ لڑ رہے ہیں۔ لہٰذا وہ جہاد ہے اور اس میں عالمِ اسلام کو دامے درمے مدد کرنی چاہیے۔ کشمیر اور فلسطین میں کی جانے والی جدوجہد ہمارے نزدیک پرامن ہونی چاہیے اور اگر جنگ ہی ناگزیز حل ہو تو کشمیر کے لیے پاکستان اور فلسطین کے لیے کسی ہمسایہ ملک کو فوج کشی کرنی چاہیے۔ باقی اسلامی دنیا ان ممالک کی مالی اور فوجی معاونت کریں۔ کسی عام مسلمان کو اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ اسلحہ اٹھا لے۔ اس باب میں دین نے ہمارے ہاتھ باندھ دیے ہیں۔ اگر آپ دین کے اس حکم کی حکمت سمجھنا چاہتے ہیں تو میں آپ کو مولانا امین احسن اصلاحی کی کتاب ’’دعوتِ دین اور اس کا طریق کار‘‘ کے صفحات ۲۴۰ - ۲۴۲ پڑھنے کا مشورہ دوں گا۔ مجھے امید ہے آپ کے اشکالات دور ہو جائیں گے ۔
سوال: آپ کے استادِ گرامی جاوید احمد صاحب غامدی اپنے ابتدائی علمی دور میں قرآن و سنت سے دلائل دیا کرتے تھے کہ ’’تصوف ہی اسلام کی روح ہے ۔‘‘ اب قرآن و سنت کے دلائل ہی سے وہ ثابت کرتے ہیں کہ ’’تصوف اسلام کے متوازی ایک الگ دین ہے ۔‘‘ گزارش ہے کہ آیندہ چند برسوں میں وہ اگر ایک مرتبہ پھر قرآن و سنت ہی کے دلائل سے تصوف کے قائل ہو جائیں تو اس ساری صورتِ حال کی ذمہ داری استادِ گرامی پر ہو گی ؟ سو بھیس بنا لینے والی عقلِ عیار پر، قرآن و سنت پر یا یہ استادِ گرامی کا تعصب پر مبنی کوئی ذاتی معاملہ ہے ؟ (عمران خواجہ سیالکوٹ )
جواب: اس بات سے قطع نظر کہ آپ نے جو مثال دی ہے وہ درست ہے یا نہیں یہ واقعہ ممکن الوقوع ہے۔ سچا عالم دین اپنی آرا قرآن و سنت کی نصوص کی روشنی میں قائم کرتا ہے۔ یہ آرا درست بھی ہو سکتی ہیں اور غلط بھی۔ چنانچہ دلائل کے سامنے آنے کے بعد لازم ہے کہ وہ اپنی غلطی کی اصلاح کر لے۔ مجھے فخر ہے کہ میرے استاد اسی روش پر قائم ہیں اور جب تک وہ قائم ہیں خواہ وہ روز اپنی آرا تبدیل کریں اس معاملے میں میرے لیے لائقِ پیروی ہیں۔
ذمہ داری کا سوال بے محل ہے۔ استادِ گرامی کی آرا پڑھنے والوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ دلیل کو حکم مانیں۔ استادگرامی نے اپنے لوگوں (احباب اور شاگردوں) میں یہی روایت قائم کی ہے۔ چنانچہ ان کے خوشہ چینوں میں ایسے لوگ کم نہیں ہیں جو ان کی بعض آرا سے اختلاف رکھتے ہیں اور اس کے باوجود ان کے ساتھیوں میں شامل رہنے کو اپنا اعزاز سمجھتے اور ان کے کاموں میں جان و مال سے تعاون بھی کرتے ہیں ۔
سوال: قرآن میں اللہ کی بنائی ہوئی فطرت میں تغیر سے منع کیا گیا ہے۔ فطرت سے کیا مراد ہے ؟ خواتین کا سر کے بال کٹوانا اور چہرے سے بال صاف کرنا اس میں شامل ہے؟ ابوداؤد میں حضرت ابومسعود کی روایت کردہ حدیث کا جس میں خواتین کے بالوں کو صاف کرنے سے منع کیا گیا ہے، مفہوم کیا ہے ؟ (محمدصفتین راولپنڈی )
جواب: تبدیلیِ فطرت سے یہاں دونوں پہلو مراد ہیں۔ یعنی انسان کی شخصیت جن اصولوں پر استوار ہوتی ہے وہ ان کو مسخ نہ کرے۔ مثلاً توحید سے انحراف اس تبدیلی کی ایک مثال ہے۔ دوسرا پہلو ظاہری شخصیت کا ہے۔ اس میں بھی اللہ تعالیٰ کے کیے ہوئے فیصلے سے انحراف غلط ہے۔ مثلاً مرد کا عورت بننے کی خواہش کرنا اور عورت کا مرد بننے کے خبط میں مبتلا ہونا۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض ایسے ہی رواجوں کو غلط قرار دیا۔ عورت کا اپنے بال کاٹنا اس ذیل میں نہیں آتا۔ یہ تزئین کی غرض سے ہے، شرط یہ ہے کہ یہ تزئین نمایش کے لیے نہ ہو اور مردوں کے بال کٹوانے کے انداز سے مشابہ نہ ہو۔
سوال: بدعت کی تعریف کیا ہے ؟ کیا عبادات میں کمی بیشی کی جاسکتی ہے۔ ایک ایساعمل جو آپ نے مستقل طور پر نہ کیا ہو ، اسے مستقل طور پر کرنا بدعت کی تعریف میں آتا ہے یا نہیں ؟ کیا نماز باجماعت کے بعد اجتماعی دعا مانگنا اس میں شامل ہے ؟ (محمدصفتین راولپنڈی )
جواب: کسی نئی چیز کو دین میں شامل کرنا بدعت ہے۔ یعنی جو چیز دین کا حصہ نہیں تھی اسے دین قرار دینا بدعت کا ارتکاب ہے۔ اسی طرح دین میں کسی چیز کے محل کو تبدیل کرنا بھی اسے بدعت بنا دیتا ہے۔ مثلاً کسی نفلی عمل کو لازم کر دینا یا کسی جائز عمل کی ایسی صورت بنا دینا کہ وہ ہیئت دین میں نئی ہو مثلاً اذان سے پہلے درود کا التزام کرنا۔ اسی طرح نماز کے بعد اجتماعی دعا اس دوسری شق کے تحت ہے۔ ہمارے ہاں اسے نماز کے لازمی حصے کے طور پر کیا جاتا ہے اور یہی چیز اسے بدعت بنا دیتی ہے ۔
سوال: آج کل ہر کمپنی اپنی اشیا کی فروخت میں اضافہ کرنے کے لیے صارفین کو پر ُ کشش انعامات کا لالچ دے رہی ہے۔ آپ اگر کوئی شے خریدیں تو اس کے ساتھ آپ کو ایک انعامی کوپن ملتا ہے، جسے پر ُ کر کے بھیجنے سے آپ قرعہ اندازی کے ذریعے سے انعام حاصل کر سکتے ہیں۔ کیا یہ قرعہ اندازی جوا کی تعریف میں آتی ہے ؟ اگر ہے تو کیوں ؟ اگر ایک شخص محض انعام کے لالچ میں وہ شے خریدے تو کیا یہ درست ہے ؟ (محمدصفتین راولپنڈی )
جواب: جب کوئی آدمی صرف انعام کی اسکیم میں شامل ہونے کے لیے کوئی چیز خریدتا ہے تو اس کے اس عمل کے جوا ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ البتہ اگر کوئی شخص کوئی چیز استعمال کرتا ہے اور اس پر اس کا انعام نکل آئے تو اسے جوا قرار دینا مشکل ہے۔ اس طرح کی مشتبہ صورت میں اصل مفتی بندۂ مومن کا دل ہے۔ اسی سے فتویٰ لینا چاہیے ۔
سوال: ایک اچھے اور مستحکم خاندان کی تعمیر کے لیے میاں بیوی کے درمیان ہم آہنگی ضروری ہے، کیا شادی سے پہلے ایک دوسرے کو سمجھنے کے لیے لڑکا، لڑکی اسلامی حدود میں رہتے ہوئے ایک دوسرے سے مل سکتے ہیں ؟ کیا لڑکا، لڑکی شادی سے پہلے حدود کا خیال رکھتے ہوئے ایک دوسرے سے پاکیزہ محبت کر سکتے ہیں ؟ (محمدصفتین راولپنڈی )
جواب: ہم آہنگی چند ملاقاتوں سے پیدا نہیں ہوتی لہٰذا اس غرض سے لڑکے، لڑکی کا ملنا بے معنی ہے۔ اور اگر ملنے کی اجازت دی جائے تو فتنے سے خالی نہیں۔ شکل و صورت دیکھنے کے لیے اگر لڑکا، لڑکی ایک دوسرے کو دیکھ لیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ مل بیٹھنا، گپ شپ کرنا، آیندہ زندگی کے منصوبے بنانا یہ چیزیں باعث فتنہ ہیں۔ البتہ کبھی کبھار ایک آدھ بات ہو جائے تو اس میں حرج نہیں۔ پاکیزہ محبت سے مراد اگر یہ ہے کہ کوئی لڑکا کسی لڑکی کو بیوی بنانا چاہتا ہے یا کوئی لڑکی کسی لڑکے کو اپنا شوہر بنانا چاہتی ہے اور اپنی خواہش کو سلیقے سے اپنے والدین کے سامنے بیان کرتے ہیں تو یہ بالکل صحیح ہے اور ایسی خواہش کو غلط قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اور اگر اس سے مراد یہ ہے کہ لڑکا، لڑکی اکٹھے سیر کو جاتے ہیں، تنہائی میں بیٹھ کر گپ شپ کرتے ہیں، ایک دوسرے سے عہدوپیمان کرتے ہیں، لیکن اس سے آگے نہیں بڑھتے تو بے شک زنا میں مبتلا ہونے سے بچے ہوئے ہیں۔ بہرحال یہ طریقہ پاکیزگی، حسنِ معاشرت اور مردوعورت کے ایک دوسرے سے گریز کی اسلامی قدر کے خلاف ہے ۔ اس کو روا قرار دینا ممکن نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر موافقت نہ ہوسکے توپھر وہ لڑکی کسی دوسرے لڑکے سے ملے پھرتیسرے سے تو اس کی عصمت کی دلیل کیا رہ جائے گی ۔
سوال: کیا تصوف کی ابتدائی شخصیات جو خانقاہی تصورِ تصوف کے خلاف تھیں وہ بھی ابن العربی کے نظریات ر کھتی تھیں ؟ وحدت الوجود کا نظریہ کب تصوف میں شامل ہوا ؟ (محمد صفتین راولپنڈی)
جواب: میرے علم کے مطابق تمام اکابر صوفیہ وحدت الوجود کے قائل ہیں۔ فرق صرف بیان کرنے کے اسالیب اور شریعت کے بارے میں رویے کا ہے۔ آپ اگر وضاحت کر دیتے کہ کون سی ابتدائی شخصیات آپ کے پیشِ نظر ہیں تو جواب دینا آسان ہوتا۔ باقی رہا بعض صحابہ و تابعین کے بارے میں یہ خیال کہ وہ صوفی تھے تو یہ بات ہی درست نہیں ہے۔ تصوف بیرونی اثرات کے نتیجے میں رائج ہوا اور جس نے اسے قبول کیا اس کے اس پہلو کے ساتھ ہی قبول کیا تھا۔
سوال: کیا انسان مرنے کے بعد اپنے اعضا وجوارح کسی کو عطیہ کے طور پر دے سکتاہے ؟ (محمدصفتین راولپنڈی)
جواب: اپنے اعضا عطیہ کرنے کی اہلیت انسان نے آج کل حاصل کی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اس طرح کے کسی عمل کا کوئی تصور نہیں کر سکتا تھا۔ چنانچہ اس کے بارے میں نفیاً یا اثباتاً کوئی چیز موجود نہیں۔ اسی طرح کوئی ایسی آیت یا حدیث بھی موجود نہیں جس کی مدد سے ہم قیاس و اجتہاد سے کوئی رائے قائم کر سکیں۔ چنانچہ یہ معاملہ سر تا سر عقلِ عام پر منحصر ہے۔ میرے خیال میں اس طرح کا عطیہ دینے میں کوئی حرج نہیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــ