HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

مکاتیب

[مدیرِ ’’اشراق‘‘ کے نام آنے والے خطوط اور ان کے جوابات ]

 

۲۳ جون ۱۹۸۶

محترم و مکرم جاوید صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

گرمی خاصی بڑھ چلی ہے ۔ دعا ہے کہ مزاجِ گرامی بخیر ہوں۔ منصب نبی و رسول کے فرق کی نوعیت پر آپ کے موقف کے بارے میں کچھ وضاحت مطلوب ہے۔ کیا میں امید رکھوں کہ کسی نہ کسی طرح آپ کے جواب سے مطلع بھی ہو جاؤں گا۔ اس لیے کہ قبل ازیں میرے کچھ دوسرے اشکالات کے جوابات عنایت فرمائے بھی ہیں تو مجھے موصول نہیں ہوئے۔ آپ کی مجلسِ سوال و جواب سے لازم نہیں کہ دور بیٹھا کوئی سائل بھی بلا واسطہ اپنے سوال کا جواب سن لے۔ کوئی واسطہ اگر ہے بھی تو مجھے کم از کم تاحال اپنے سوالات کے جوابات سے مطلع کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اپنے اشکالات کے جوابات سے سائل اگر محروم رہے اور باقی لوگ سن بھی لیں تو کیا فائدہ ؟ اس تمہید کے بعد ایک بار پھر قسمت آزمائی کر رہا ہوں۔

’’میزان‘‘ حصہ اول میں نبی اور رسول کے فرق کی نوعیت پر آپ کے مؤقف کو جہاں تک میں سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ نبی کے معاملے میں تو یہ ہو سکتا ہے کہ وہ مخالفین کے ہاتھوں مارا جائے، لیکن رسول کے معاملے میں یہ ممکن ہی نہیں ہے ۔ آپ کی تحریر کردہ مثالوں سے بظاہر یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے ، لیکن ان کی بنیاد پر بلا استثنا ایک غیر متبدل اصول تک رسائی محلِ نظر ہے، اس لیے کہ قرآنِ حکیم ہی میں ہے کہ ’’محمد نہیں مگر رسول۔ ان سے پہلے اور بھی رسول گزر چکے ہیں۔ پس اگر محمد مر جائیں یا مارے جائیں تو تم لوگ اپنی پرانی حالتِ کفر کی طرف لوٹ جاؤ گے.....‘‘

 ناممکن قرار دادہ حقیقت کا بطور امکان تذکرہ بے معنی ہی ٹھیرے گا۔ امید ہے رہنمائی فرمائیں گے۔ منیجر ’’اشراق‘‘ کو خصوصی سلام۔

آپ کا  

سعید انور   

(پشاور    )

_______

 

یکم جولائی ۱۹۸۶

برادرم سعید انور صاحب 

السلام علیکم ورحمتہ اللہ 

عنایت نامہ ملا۔ آپ کی شکایت بجا ہے، لیکن میرا عذر یہ ہے کہ آپ کے سوالات تمام تر روایاتِ رجم کے بارے میں تھے ۔ میں اس سلسلے میں ایک مفصل مضمون لکھنا چاہتا ہوں تاکہ اس بحث کا یہ گوشہ بھی مکمل ہو جائے۔ میرا خیال تھا کہ ان سوالات کے جوابات چونکہ اس بحث میں آ جائیں گے، اس لیے انھیں اس سے پہلے شائع کرنا موزوں نہ ہو گا۔ مجھے امید ہے آپ اس عذر کو قبول فرمائیں گے۔

رسولوں کے قتل کے بارے میں میرے  مضمون پر آپ کا اعتراض قوی ہے۔ بعض دوسرے نصوص بھی اس معاملے میں بظاہر ، میری رائے کے خلاف ہیں۔ میں ان سب پر غور کر رہا ہوں۔ امید ہے جلد کسی نتیجے پر پہنچ جاؤں گا۔ آپ براہِ کرم اس وقت تک انتظار کر لیں ۔ 

والسلام

ــــــ جاوید احمد

_______

 

۲۴ جون ۱۹۸۶

محترم علامہ صاحب 

السلام علیکم 

کئی دنوں سے کوشش کر رہا تھا کہ آپ کے بارے میں کچھ پتا چل سکے کہ آپ کہاں رہتے ہیں اور کیا سرگرمیاں ہیں یا پھر کس تنظیم سے وابستہ ہیں تو یہاں ایک دوست نے آپ کا رسالہ ’’اشراق‘‘ دیا تو مجھے کافی کچھ پتا چل گیا ۔

جناب والا آج سے کئی سال پہلے آپ کی ایک تقریر سنی تھی جو آپ نے جماعتِ اسلامی کی تربیت گاہ میں کی تھی جوکہ سرگودھامیں ہوئی تھی ۔ پھر پتا چلا کہ آپ جماعت سے نکل گئے ہیں یا جماعت نے آپ کو نکال دیا ہے تو اس بارے میں آپ سے بات ہو گی۔ ان شاء اللہ۔

آپ میرے نام ایک ’’اشراق‘‘ بھیج دیا کریں۔ یہاں تھوڑا بہت دین کا کام ہو رہا ہے۔ ہفتہ وار درسِ قرآن کا بھی پروگرام ہوتا ہے ۔ یہاں کافی دوست ہیں جو کہ رسالہ بھی منگوانا چاہتے ہیں اور آپ سے ملاقات بھی چاہتے ہیں۔

 والسلام    

دعا گو               

محمد اکرم           

(لاہور)

_______

 

۱۷ شوال ۱۴۰۶

محترمی و مکرمی محمد اکرم صاحب 

السلام علیکم و رحمتہ اللہ 

عنایت نامہ ملا۔ آپ نے یاد رکھا۔ شکر گزار ہوں ۔ رسالہ آپ کے نام جاری کر دیا جائے گا۔ کبھی لاہور آنا ہو تو غریب خانے پر تشریف لائیے ۔

احباب کی خدمت میں سلام  

والسلام

ــــــ جاوید احمد

_______

۲۹ جون ۱۹۸۶

کرم فرمائے بندہ عزیزی و  شفیقی جاوید صاحب  

السلام علیکم  

تلطف نامہ موصول ہوا۔ جون کا ’’اشراق‘‘ بھی نظر نواز ہوا اور ملاحظہ میں آیا۔ یہ بات ہمیشہ آپ کے بطور ہدف کے پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ توحید الوہیت اور اس کے مقضیات کسی حالت میں بھی مجروح و مذبوح نہیں ہونے چاہیے ۔ احادیث کے سلسلہ میں بغیر ثبوت اور حوالے کے بات نہ کیا کریں۔

’’شذرات‘‘ ماشاء اللہ قابلِ   تحسین وتبریک ہیں۔ دعائیں ہماری آپ کے ساتھ ہیں۔ ان شاء اللہ۔

 دعا گو   

ولی محمد            

(پاک پتن)

_______

 

۱۱ جولائی ۱۹۸۶

محترمی و مکرمی ولی محمد صاحب 

السلام علیکم 

عنایت نامہ ملا۔ توحید ہی اصل دین ہے۔ اس معاملے میں اللہ کا شکر ہے کہ دل و دماغ میں کوئی خلجان نہیں۔ آپ دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس صراطِ   مستقیم پر قائم رکھے۔

احادیث کا حوالہ ان شاء اللہ مضامین میں احتیاط کے ساتھ ضبط کیا جائے گا  ۔

 والسلام

ــــــ جاوید احمد

_______

 

۳۰ جولائی ۱۹۸۶

برادرم محترم!

السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ 

’’اشراق‘‘ جولائی ۱۹۸۶ کے شمارے میں ’’شذرات‘‘ کے ذیل میں سوالات کا جواب دیتے ہوئے ’’اسرار صاحب پرتنقید میں شدت‘‘ کے موضوع پر آپ کا جواب نظر سے گزرا۔ میں سوال کرنے والے دوست کی بات سے کسی حد تک اتفاق کرتے ہوئے بعض گزارشات کرنا چاہتا ہوں۔ اور ان گزارشات سے پہلے چند ایک ذاتی وضاحتیں کرنا چاہتا ہوں کہ :

میں اسرار صاحب کی تحریک میں شامل نہیں ہوں، بلکہ جماعت کے بارے میں ان کے بعض رویوں کو ناپسندیدگی کی نظر سے بھی دیکھتا ہوں۔ دوسری بات یہ کہ آنکھیں بند کر کے اتحاد اتحاد کی رٹ لگانے کے حق میں بھی نہیں ہوں۔ اور اس بات کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہوں کہ دوسرے لوگوں بالخصوص  متکلمینِ اسلام کی علمی و عملی غلطیوں کو مناسب انداز میں واضح بھی کیا جانا چاہیے ۔

ان معروضات کے بعد جب آپ کے جواب پر نظر ڈالتا ہوں تو میرا احساس یہ ہے کہ آپ کی طرف سے اسرار صاحب کے ساتھ کچھ زیادتی ہوئی ہے ۔ ایسا رویہ تو ان لوگوں کے ساتھ ہونا چاہیے جو ایک خدا کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہرا رہے ہیں، جو حدیث کے منکر ہیں، جو ختمِ نبوت کی دیوار گرا رہے ہیں یا پروفیسر وارث میر صاحب کی طرز کے ادیبوں کے ساتھ یہ انداز ہونا چاہیے، مگر ایک ہی راستے کے راہی جو لوگ ہوں انھیں باہمی غلطیاں یوں تلخی اور شدت کا رنگ دیے بغیر بیان کرنی چاہییں۔

’’امی‘‘کے سلسلہ میں آپ نے جو گرفت کی ہے، وہ ضرور کی جانی چاہیے تھی اور ایسا کر کے آپ نے دین کی خدمت فرمائی ہے۔ بس بات وہی ہے کہ موحدین کے درمیان ماتھے پرسلوٹیں ڈالے بغیر بات ہونی چاہیے۔ طولِ کلامی کی معذرت ۔

والسلام  

ظفر اقبال احمد      

(ننکانہ صاحب)

_______

 

۱۳ اگست ۱۹۸۶

محترم و مکرم جناب ظفر اقبال صاحب 

السلام علیکم و رحمتہ اللہ 

عنایت نامہ ملا۔ آپ کے احساسات کے لیے میرے دل میں بڑی قدر ہے۔ میں کوشش کروں گا کہ آیندہ  کبھی اس طرح کے موضوع پر لکھنا پڑا تو محتاط تر اسلوبِ بیان اختیار کروں۔ مجھے امید ہے آپ اسی محبت کے ساتھ توجہ دلاتے رہیں گے ۔

 والسلام

ــــــ جاوید احمد

___________

B