HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

آداب و شعائر (۱)

میزان

 

انسان کی تہذیبِ  نفس رہن سہن کے جن طریقوں اور تمدن کے جن مظاہر سے نمایاں ہوتی ہے، انھیں ہم اصطلاح میں آداب وشعائر کہتے ہیں۔ انسانی معاشرت کا کوئی دور ان آداب و شعائر سے خالی نہیں رہا۔ انھیں ہم ہر قبیلے، ہر قوم اور ہر تہذیب میں یکساں رائج اور ایک عمومی دستور کی حیثیت سے یکساں جاری دیکھتے ہیں۔ اقوام و ملل کی پہچان ایک دوسرے کے مقابلے میں زیادہ تر انھی سے قائم ہوتی ہے۔ انبیا علیہم السلام جو دین لے کر آئے ہیں، وہ بھی اپنے ماننے والوں کو بعض آداب و شعائر کا پابند کرتا ہے۔ دین کا مقصد تزکیۂ نفس ہے، لہٰذا دین کے یہ آداب و شعائر بھی اسی مقصد کو سامنے رکھ کر مقرر کیے گئے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تو یہ سب دینِ ابراہیمی کی روایت کے طور پر عرب میں رائج تھے۔ چند چیزوں کے سوا آپ نے ان میں کوئی اضافہ نہیں کیا۔ یہ قرآن سے مقدم ہیں اور ان کی حیثیت ایک سنت کی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر و تصویب کے بعد صحابۂ کرام کے اجماع اور تواترِعملی سے امت کو منتقل ہوئی ہے۔ ان کا ماخذ اب امت کا اجماع ہے اور یہ سب اسی بنیاد پر پوری امت میں ہر جگہ دین  تسلیم کیے جاتے ہیں۔ انبیا علیہم السلام کے مقرر کردہ یہی آداب و شعائر ہم تفصیل کے ساتھ یہاں بیان کریں گے۔

۱۔ اللہ کا نام لے کر اور دائیں ہاتھ سے کھانا پینا ۔

ان میں سے پہلی چیز اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے اعتراف و اقرار اور ان میں برکت کی دعا کے لیے ہے اور دوسری چیز اس حقیقت کی ہمہ وقت یاددہانی کے لیے کہ جنت کی  نعمتیں قیامت کے دن جن لوگوں کو ملیں گی، ان کا نامۂ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں پکڑایا جائے گا۔ بندۂ مومن جب اس طرح کے مواقع پر دائیں کی رعایت کرتا ہے تو یہ گویا اس کی طرف سے ایک طرح کا علامتی اظہار ہوتا ہے کہ قیامت میں بھی وہ اصحاب الیمین ہی کے زمرے میں شامل ہونا چاہتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات میں انبیا علیہم السلام کی اس سنت پر عمل پیرا ہونے کی تاکید اس طرح فرمائی ہے:

اذا اکل احدکم طعاماً فلیقل بسم اللہ، فان نسی فی اوله فلیقل بسم اللہ فی اوله و آخرہ.(ترمذی، کتاب الاطعمہ  )
’’تم میں سے کوئی شخص کھانا کھائے تو اسے ’بسم اللہ‘ کہہ کر کھانا چاہیے۔ پھر اگر ابتدا میں بھول جائے (اور بعد میں یاد آئے) تو اسے کہنا چاہیے: ابتدا اور انتہا ، دونوں میں اللہ کے نام سے۔‘‘
اذا اکل احدکم فلیأکل بیمینه و اذا شرب فلیشرب بیمینه. (مسلم، کتاب الاشربہ)
’’تم میں سے جب کوئی کھائے تو اسے دائیں ہاتھ سے کھانا چاہیے اور پیئے تو دائیں ہاتھ سے پینا چاہیے۔‘‘ 

۲۔ملاقات کے موقع پر ’السلام علیکم‘ اور اس کا جواب۔

یہ دنیا اور آخرت میں سلامتی کی دعا ہے جو مسلمان ملاقات کے موقع پر ایک دوسرے کے لیے کرتے ہیں۔ پہل کرنے والا اس مقصد کے لیے ’السلام علیکم‘ اور جواب دینے والا ’وعلیکم السلام‘ کہتا ہے۔  اس کا ذکر قرآنِ مجید میں بھی ہوا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں بھی۔ اس کا ادب آپ نے یہ بیان فرمایا ہے:

یسلم الصغیر علی الکبیر والمار علی القاعد والقلیل علی الکثیر.(بخاری، کتاب الاستیذان)
’’چھوٹا بڑے کو سلام کرے گا، چلنے والا بیٹھے ہوئے کو اور تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کو سلام میں پہل کریں گے۔‘‘

۳۔چھینک آنے پر ’الحمد للہ ‘اور اس کے جواب میں ’یرحمک اللہ ‘۔

انسان کے وجود میں چھینک ایک عام اختلال سے نجات کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے اس پر شکر گزاری اور اس کے جواب میں رحمت کی دعا کا یہ طریقہ انبیا علیہم السلام کے دین میں اس لیے مقرر کیا گیا ہے کہ بندۂ مومن دین کی اس حقیقت پر ہمیشہ متنبہ رہے کہ دنیا اور آخرت میں خدا کی رحمت صرف اس کے شکر گزار بندوں ہی کے لیے خاص ہے۔ بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی ابتدا نفخِ روح کے بعد سیدناآدم علیہ السلام کی اولین بیداری سے ہوئی[6]۔ عربی زبان میں اس عمل کے لیے ’تشمیت‘ کا لفظ دلیل ہے کہ یہ ایک قدیم سنت ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت   میں اسی طرح برقرار رکھا ہے۔ آپ کا ارشاد ہے:

اذا عطش احدکم فلیقل الحمد للہ، ولیقل له اکوه او صاحبه یرحمک اللہ، فاذا قال له یرحمک اللہ، فلیقل یھدیکم اللہ ویصلح بالکم.(بخاری، کتاب الادب   )
’’تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو اسے ’الحمد للہ ‘ کہناچاہیے اور اس کابھائی یا سا تھی سنے تو اسے جواب میں کہنا چاہیے ’یرحمک اللہ‘ پھر جب وہ ’یرحمک اللہ‘ کہے تو سننے والے کو چاہیے کہ وہ کہے: اللہ تمھیں ہدایت دے اور تمھارا حال درست رکھے۔‘‘

۴۔نومولود کے دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامت ۔

اس کی ابتدا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی ہے ۔ اذان اور اقامت کے لیے جو الفاظ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق آپ نے مقرر فرمائے ہیں، اُن پر غور کیجیے تو صاف واضح ہوتا ہے کہ دین کی پوری دعوت اُن میں بڑی جامعیت اور اختصار کے ساتھ اور بڑے ہی دل نواز اسلوب میں بیان ہو گئی ہے۔ بندۂ مومن اپنی زندگی میں ہر لحظہ اسی دعوت کا مدعو ہے ۔ اسے ہم روزانہ پانچ وقت اپنی مسجدوں سے لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔ نومولود کے کانوں میں یہ صدا اس بات کا علامتی اظہار ہے کہ اس کے والدین نے جس طرح اپنا مادی وجود اسے منتقل کیا ہے ، اسی طرح اپنا روحانی وجود بھی وہ اس دعوت کے ذریعے سے اسے منتقل کرنے کی ابتدا کر رہے ہیں۔

(باقی)

____________

[6]۔ ترمذی، کتاب تفسیر القرآن، باب ۹۵۔

B