HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

قانون سیاست (۴)

میزان

 

[نئی اشاعت کے لیے مصنف کی طرف سے نظرِ ثانی اور ترمیم و اضافہ کے بعد ]

 

۴ ۔شہریت اور اس کے حقوق

 

 O مسلمانوں کے لیے

۱۔ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَاِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ. (التوبہ ۹ : ۱۱  )
’’پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز کا اہتمام کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو دین میں تمھارے بھائی ہیں ۔‘‘
۲۔فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَلُّوْا سَبِيْلَهُمْ. (التوبہ ۹: ۵ )
’’پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز کا اہتمام کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو ان کی راہ چھوڑ دو ۔‘‘

 یہ دونوں آیتیں سورۂ توبہ میں ایک ہی سلسلۂ بیان میں آئی ہیں ۔ قرآن نے فرمایا ہے کہ حج کے موقع پر یہ اعلان کر دیا جائے کہ جو لوگ یہ تین شرطیں پوری کر دیں وہ دین میں تمھارے بھائی ہیں اور تمھارے لیے اللہ کا حکم یہ ہے کہ اس کے بعد ان کی راہ چھوڑ دو:

اولاً ، کفر و شرک سے توبہ کر کے وہ اسلام قبول کر لیں ۔

ثانیاً ، اپنے ایمان و اسلام کی شہادت کے طور پر نماز کا اہتمام کریں ،

ثالثا ً، ریاست کا نظم چلانے کے لیے اس کے بیتِ المال کو زکوٰۃ ادا کریں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے اسی حکم کی وضاحت میں فرمایا ہے:

امرت ان اقاتل الناس حتی یشھدوا ان لا اله الا اللہ و ان محمداً رسول اللہ و یقیموا الصلوٰة ویوتو الزکوٰة فاذا فعلوا عصموا منی دماء ھم واموالھم الابححقھا و حسابھم علی اللہ.(مسلم، کتاب الایمان)
’’ مجھے حکم دیا گیا کہ میں لوگوں سے جنگ کروں[6]، یہاں تک کہ وہ لا الہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں۔ وہ یہ شرائط تسلیم کر لیں تو ان کی جانیں اور ان کے مال محفوظ ہو جائیں گے، الاّ یہ کہ وہ ان سے متعلق کسی حق کے تحت اس حفاظت سے محروم کر دیے جائیں۔ رہا ان کا حساب تو وہ اللہ کے ذمہ ہے ۔‘‘

اس حکم پر غور کیجیے تو اس سے چند باتیں صاف واضح ہوتی ہیں:

 اوّل یہ کہ جو لوگ یہ تین شرطیں پوری کر دیں، اس سے قطعِ نظر کہ اللہ کے نزدیک اُن کی حیثیت کیا ہے، قانون و سیاست کے لحاظ سے وہ مسلمان قرار پائیں گے اور وہ تمام حقوق انھیں حاصل ہو جائیں گے جو ایک مسلمان کی حیثیت سے اسلامی ریاست میں ان کو حاصل ہونے چاہییں۔

دوم یہ کہ عام مسلمان ہوں یا اربابِ اقتدار، ان شرطوں کے پورا کر دینے کے بعد اُن کا باہمی تعلق لازماً اخوت ہی کا ہے۔ وہ ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور اس طرح قانونی حقوق کے لحاظ سے بالکل برابر ہیں۔ ان کے درمیان کسی فرق کے لیے اسلام میں کوئی گنجایش نہیں مانی جا سکتی۔ قرآن نے اس مدعا کے لیے ’فاخوانکم فی الدین‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں، یعنی وہ دین میں تمھارے بھائی بن جائیں گے۔’الدین‘ کے لفظ سے ظاہر ہے کہ یہاں اسلام مراد ہے اور ’فاخوانکم‘ کے الفاظ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو خطاب کر کے یہ ہدایت کی گئی ہے کہ ان تین شرطوں کے پورا ہو جانے کے بعد ریاست کے نظام میں تمھاری اور ان نئے ایمان لانے والوں کی حیثیت بالکل برابر ہو گی۔ تمھارے اور ان کے قانونی حقوق میں کسی لحاظ سے کوئی فرق نہیں کیا جائے گا ۔

سوم یہ کہ اخوت کا یہ رشتہ قائم ہو جانے کے بعد سب مسلمانوں پر، خواہ وہ عوام میں سے ہوں یا اربابِ حل و عقد میں سے، وہ تمام ذمہ داریاں خودبخود عائد ہو جاتی ہیں جو عقل و فطرت کی رو سے ایک بھائی پر اُس کے بھائی کے بارے میں عائد ہونی چاہییں۔

چہارم یہ کہ آخرت میں جواب دہی کے لحاظ سے اسلام کے مطالبات اپنے ماننے والوں سے خواہ کچھ بھی ہوں، اس کی ریاست اپنے مسلمان شہریوں سے جو مطالبات کر سکتی ہے، وہ بس یہ تین ہی مطالبات ہیں جو ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے پوری وضاحت کے ساتھ خود بیان فرما دیے ہیں۔ ان میں نہ کمی کے لیے کوئی گنجایش ہے اور نہ بیشی کے لیے۔ عالم کے پروردگار نے ان پر خود اپنی مہر ثبت کر دی ہے۔ اس وجہ سے کوئی قانون، کوئی ضابطہ، کوئی حکومت، کوئی شوریٰ، کوئی پارلیمان، اب قیامت تک ان شرائط کے پورا کر دینے کے بعد مسلمانوں کی جان، مال، آبرو اورعقل ورائے کے خلاف کسی نوعیت کی کوئی تعدی نہیں کر سکتی۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسلامی ریاست کے پہلے حکمران سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے جب مانعینِ زکوٰۃ کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تو لوگوں کے معارضہ پر یہ حقیقت پوری قطعیت کے ساتھ اس طرح واضح فرمائی:

قال اللہ تعالیٰ: فان تابوا واقاموا الصلوٰة واتوا الزکوٰة فخلوا سبیلھم. واللہ، لا اسئل فوقھن ولا اقصر دونھن. (احکام القرآن، الجصاص، ج ۲، ص ۸۲)
’’اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اس کے بعد اگر وہ توبہ کر لیں نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دینے لگیں تو ان کی راہ چھوڑ دو، (اس لیے) خدا کی قسم، میں ان شرطوں پر کسی اضافے کا مطالبہ کروں گا اورنہ ان میں کوئی کمی برداشت کروں گا۔‘‘

  اس سے واضح ہے کہ اسلامی ریاست اپنے مسلمان شہریوں کو کسی منکر کے ارتکاب سے روک سکتی اور اس پر سزا تو دے سکتی ہے، لیکن دین کے ایجابی تقاضوں میں سے نماز اور زکوٰۃ کے علاوہ کسی چیز کو بھی قانون کی طاقت سے لوگوں پر نافذ نہیں کرسکتی۔ وہ ، مثال کے طور پر، انھیں روزہ رکھنے کا حکم نہیں دے سکتی۔ ان میں سے کسی شخص کے بارے میں یہ معلوم ہو جانے کے باوجود کہ وہ صاحبِ استطاعت ہے، اسے حج پر جانے کے لیے مجبور نہیں کر سکتی۔ جہاد و قتال کے لیے جبری بھرتی کا کوئی قانون نافذ نہیں کر سکتی۔ مختصر یہ کہ منکرات کے معاملے میں اس کا دائرۂ اختیار آخری حد تک وسیع ہے، لیکن شریعت کے معروفات میں سے ان دو  ــــــ  نماز اور زکوٰۃ ــــــ  کے سوا باقی سب معاملات میں یہ صرف ترغیب و تلقین اور تبلیغ و تعلیم ہی ہے جس کے ذریعے سے وہ لوگوں کی اصلاح کے لیے جدوجہد کرسکتی ہے۔ اس طرح کے تمام معاملات میں اس کے سوا کوئی چیز اس کے دائرۂ اختیار میں نہیں ہے۔

سورۂ توبہ کی ان آیات کایہ تجزیہ پیشِ نظر رہے تو اس سے جو حقوق ثابت ہوتے ہیں، وہ یہ ہیں:

 آیت ۵ کے حکم ’فخلوا سبیلھم‘ کی رو سے اسلامی ریاست پر مسلمانوں کا یہ حق قائم ہو جاتا ہے کہ اس کے نظام میں:

   ان کی جان کے خلاف کسی نوعیت کی کوئی تعدی نہ کی جائے اور کسی اعلیٰ سے اعلیٰ مقصد کے لیے بھی انھیں اس کو کسی خطرے میں ڈالنے پر مجبور نہ کیا جائے ۔

ان کے مال، جائدادیں اور ملکیتیں جن کے وہ جائز طریقے سے مالک ہوئے ہیں، بالکل محفوظ قرار دی جائیں، یہاں تک کہ ان پر کسی نوعیت کا کوئی ٹیکس بھی عائد نہ کیا جائے ۔

ان کی عزت و آبرو ہر تعدی سے  محفوظ رہے ۔

ان میں سے کسی شخص کی آزادی کسی غیر  معمولی حالت میں بھی اُس وقت تک محدود یا سلب نہ کی جائے، جب تک اس کا جرم اسے صفائی کا پورا موقع دینے کے بعد کھلی عدالت میں ثابت نہ کر دیا جائے۔

انھیں کوئی خاص فکر، رائے، نقطۂ نظر ، پیشہ، لباس یا طرزِ عمل اختیار کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔

ان پر کوئی نقطۂ نظر قائم کرنے اور اسے دوسروں کے سامنے پیش کرنے کے معاملے میں کسی نوعیت کی کوئی پابندی نہ لگائی جائے ۔

ان کی مرضی کے خلاف ان پر کوئی ذمہ داری عائد نہ کی جائے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

ان اموالکم و دماء کم واعراضکم علیکم حرام کحرمة یومکم هٰذا، فی بلدکم هٰذا، فی شہرکم هٰذا[7]. (احمد بن حنبل، ج ۱، ص ۲۳۰)     
’’تمھارے مال، تمھاری جانیں ، اور تمھاری آبروئیں، تم پر اسی طرح حرام ہیں، جس طرح تمھارے اس دن (یوم النحر) کی حرمت، تمھارے اس شہر (ام القریٰ مکہ) میں، اور تمھارے اس مہینے (ذوالحجہ) میں۔‘‘

اسی طرح آیت ۱۱ کے حکم ’فاخوانکم فی الدین ‘کی رو سے ریاست پر ان کا یہ حق قائم ہو جاتا ہے کہ:

 اُن میں سے ہرشخص کو، خواہ وہ امیر ہو یا غریب، شریف ہو یا وضیع، امیر ہو یا مامور، قانون کے نقطۂ نظر سے بالکل مساوی حیثیت دی جائے اور اس معاملہ میں کسی کے ساتھ کوئی امتیاز روا نہ رکھا جائے ۔

معاشرتی رتبہ کے لحاظ سے وہ بالکل برابر قرار پائیں اور رنگ و نسل اور پیشے کی بنیاد پر جو فرق جاہلی معاشروں میں، بالعموم قائم کیے جاتے ہیں، وہ اس ریاست میں یکسر باطل قرار دیے جائیں ۔

ان کے ہر سائل و محروم کو روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم، علاج اور اس طرح کی دوسری بنیادی ضرورتیں لازماً فراہم کی جائیں۔

ان کے لیے ریاست کے امرا اور عمال کے دروازے شب و روز کھلے رہیں تاکہ وہ جب چاہیں، درخواست، فریاد، اعتراض اور محاسبے کے لیے ان تک پہنچ سکیں۔

انھیں ہر حال میں بالکل بے لاگ انصاف مہیا کیا جائے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

انما ھلک من کن قبلکم انھم کانوا یقیمون الحدود علی الوضیع و یترکون علی الشریف. والذی نفسی بیده لو فاطمة فعلت ذلک لقطعت یدھا.(  بخاری، کتاب الحدود   )
’’ تم سے پہلی قوموں کے لوگ اسی وجہ سے ہلاک ہوئے کہ وہ کم حیثیت کے لوگوں پر تو حدود نافذ کرتے تھے، لیکن بڑی حیثیت والوں کو چھوڑ دیتے تھے۔ اس پروردگار کی قسم، جس کے قبضے میں میری جان ہے، اگر (میری بیٹی) فاطمہ بھی یہ جرم کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔‘‘

o  غیر  مسلموں کے لیے

  ۳۔قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ وَلَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰي يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَّدٍ وَّهُمْ صٰغِرُوْنَ. (التوبہ ۹: ۲۹)
’’ان اہلِ کتاب سے لڑو جو نہ اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان لاتے ہیں نہ اللہ اور اس کے رسول نے جو کچھ حرام ٹھیرایا ہے، اسے حرام ٹھیراتے ہیں اور نہ دینِ حق کو اپنا دین بناتے ہیں، (ان سے لڑو )، یہاں تک کہ مغلوب ہو کر جزیہ ادا کریں اور زیر دست بن کر رہیں۔‘‘

یہ حکم اُن اہلِ کتاب کے لیے تھا جن پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے اتمامِ حجت کیا اور ان کے کفر کی پاداش میں سنتِ الٰہی کے مطابق یہ سزا اُن پر نافذ کر دی کہ وہ اگر قتل سے بچنا چاہتے ہیں تو اسلامی ریاست کی شہریت کے لیے:

اولاً ، جزیہ ادا کریں ،

 ثانیاً ، ریاست کے نظام میں مسلمانوں کے زیردست ہو کر رہیں۔

سورۂ توبہ کا یہ حکم اللہ تعالیٰ کے قانونِ اتمامِ حجت کی ایک فرع اور صحابہ ہی کے ساتھ خاص تھا۔ اُن کے بعد اب دنیا کے کسی غیر  مسلم سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم اپنی ریاست کے غیر مسلم شہریوں کے ساتھ حالات و مصالح کے رعایت سے اور دورِ حاضر کے بین الاقوامی معاہدات کے مطابق جو معاملہ چاہیں، کر سکتے ہیں۔ اس باب میں ہمارے لیے بہترین نمونہ وہ عہد ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتمامِ حجت سے پہلے یثرب کے یہود کے ساتھ کیا تھا ۔ تاریخ میں یہ ’’میثاقِ مدینہ‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ اس طرح کے معاہدے مسلمانوں نے بعد میں دوسری قوموں کے ساتھ بھی کیے۔ یہ ظاہر ہے کہ حالات کے لحاظ سے مختلف شرائط پر کیے جا سکتے ہیں۔ چنانچہ ’’میثاقِ مدینہ‘‘ کو اگر دیکھیے تو اس میں یہ دفعہ پوری صراحت کے ساتھ ثبت ہوئی ہے کہ مدینہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اقتدار تسلیم کر لینے کے بعد یہود مسلمانوں کے ساتھ ایک امت ہیں، لہٰذا ان کے حقوق اب وہی ہوں گے جو یثرب کی اس ریاست میں اس کے مسلمان شہریوں کو حاصل ہیں:

و ان یہود امة مع المؤمنین، للیھود دینھم وللمسلمین دینھم، موالیھم وانفسھم.(السیرۃ النبویہ، ابن ہشام، ج۲، ص۱۰۷)
’’یہود اس دستور کے مطابق، سیاسی حیثیت سے، مسلمانوں کے ساتھ ایک امت تسلیم کیے جاتے ہیں۔ رہا دین کا معاملہ تو یہودی اپنے دین پر رہیں گے اور مسلمان اور اُن کے موالی ، سب اپنے دین پر۔‘‘

(باقی)

____________

[6]۔ اس روایت میں جنگ و قتال کے ذکر سے کسی کو غلط فہمی نہ ہو۔ یہ محض اس لیے ہوا ہے کہ اس وقت معاملہ مشرکین عرب سے تھا، جن کے بارے میں قرآن نے وضاحت کر دی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اُن پر اتمامِ حجت کے بعد اب انھیں اسلام یا تلوار میں سے کسی ایک کا انتخاب بہرحال کرنا ہے۔

[7]۔ یہ روایت مسلم کتاب الحج میں بھی موجود ہے، لیکن وہاں ’اعراضکم‘ کے الفاط نہیں ہین اس لیے ہم نے مسند کے متن کو ترجیح دی ہے۔


B