HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ کی علمی خدمت

خالد مسعود

 

[ یہ مقالہ مولانا امین احسن اصلاحی کے شاگردِ رشید جناب خالد مسعود نے ۲۷ فروری ۲۰۰۰ء کو قائد اعظم لائبریری باغ جناح لاہور میں پیش کیا جس کا اہتمام ’’دارالتذکیر‘‘ نے کیا۔]

 

میرے لیے یہ بات باعثِ افتخار ہے کہ پہلے امین احسن میموریل لیکچر کے لیے منتظمین نے میرا نام تجویز کیا ، پھر موضوع کا انتخاب بھی میرے اوپر چھوڑ دیا تاکہ میں اپنے گرامی قدر استاذ کے حوالہ سے کوئی بھی موضوع اپنی صواب دید کے مطابق چن لوں اور اس پر اپنی رائے کا اظہار کروں ۔ مولانا اصلاحی رحمہ اللہ کی وفات کے بعد ان کی زندگی کے مختلف پہلو ، ان کا اخلاق و کردار اور بعض دینی خدمات زیرِبحث آ چکی ہیں ، لیکن کوئی ایسا مقالہ میری نظر سے نہیں گزرا ، جس میں ان کی علمی خدمت کا بھرپور جائزہ لیا گیا ہو ۔ یہ موضوع اگرچہ خاصا وسیع الاطراف ہے اور اس سے انصاف کرنے کے لیے ایک مقالہ کی نہیں بلکہ ایک  مستقل کتاب لکھنے کی ضرورت ہے تاہم میں اسی موضوع پر اپنے خیالات پیش کروں گا، خواہ ان کی حیثیت محض اشارات کی ہو ۔

علمی تربیت 

مولانا امین احسن اصلاحی کی مادرِ علمی ’’مدرستہ الاصلاح‘‘ سراے میر (ضلع اعظم گڑھ ، یو پی) ہے۔ اس ادارہ کے اولین   منتظمین میں مولاناشبلی نعمانی رحمہ اللہ اور امام حمید الدین فراہی رحمہ اللہ جیسے جلیل القدر لوگ شامل ہیں۔ انھوں نے مدرسہ کو جو  تخیل دیا اور جس کے مطابق نصابِ درس تجویز کیا وہ امام فراہی کے الفاظ میں یہ ہے:

 ’’مدرستہ الاصلاح کا دعویٰ ہے کہ مسلمانوں کے انحطاط و تنزل کا اصلی سبب یہی ہے کہ وہ قرآنِ مجید کی تعلیم کو آہستہ آہستہ کم کرتے گئے اور وہ علوم جو قرآنِ مجید کے لیے آلہ اور وسیلہ ہو سکتے تھے ان کی تحصیل میں اس قدر مصروف ہو گئے کہ وہ خود مقصود بالذات بن گئے۔ یہاں تک کہ ہوتے ہوتے قرآنِ مجید کے درس و تدریس کے لیے انھوں نے بالکل جگہ نہ چھوڑی اور اب یہ حالت ہو گئی ہے کہ محض تلاوت وحفظ الفاظ پراکتفا کر لیاگیا اور ہم پر رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ شکایت منطبق ہونے لگی:’یارب ان قومی التخذوا ھذا القرآن مھجورا‘۔ (اے میرے رب ، میری قوم نے اس قرآن کو پس انداز کردہ چیز بنایا) لیکن اللہ کی توفیق سے مدرستہ الاصلاح نے یہ راز پا لیا اور قرآنِ مجید کو سرچشمۂ ہدایت و ترقی تسلیم کر کے جملہ علوم کی تعلیم اس کی تعلیم کے ماتحت کر دی۔ وہ ادب، فقہ، حدیث، تاریخ و سیر، منطق و حکمت کی تعلیم دیتا ہے لیکن اس طور پر کہ جس علم کی طرف قدم بڑھے قرآن کی روشنی میں بڑھے اور جو دروازہ کھلے قرآن ہی کے اندر سے کھلے ۔‘‘ 

مدرسہ سے سندِ فراغ پانے کے بعد مولانا اصلاحی رحمہ اللہ کو امام فراہی رحمہ اللہ جیسی نابغہ شخصیت سے براہِ راست فیض یاب ہونے کا خاص موقع ملا۔ استاذ نے کمال شفقت و توجہ کے ساتھ مولانا کی فکری رہنمائی کی اور ان کو علومِ قرآن کا ایسا شیدائی بنا دیا کہ اس کے بعد پوری زندگی میں وہ اس جانب سے غافل نہ ہو سکے۔ کلامِ الٰہی ان کے دل کی بہار، ان کے سینے کا نور، ان کی مشکلات میں سہارا اور ان کے غم کا مداوا بن گیا۔ انھوں نے پڑھا تو اسی کے افہام و تفہیم کی خاطر اور لکھا تو اسی کو محور بنا کر لکھا۔ اور آج دنیا ان کو قرآنِ مجید کے ایک عظیم شارح و ترجمان کی حیثیت سے پہچانتی ہے ۔

 مولانا نے اپنے علمی کام کا آغاز اپنے استاذ امام فراہی رحمہ اللہ کے افکار و تحقیقات کو اہلِ علم میں روشناس کرانے سے کیا ۔ انھوں نے ان کے عربی میں لکھے گئے تفسیری رسائل اور اصولِ تفسیر کے بارے میں تحقیقات کو اردو جامہ پہنایا جس سے ان بیش قیمت جواہر پاروں کو ایک وسیع علمی دائرہ میں پھیلانا ممکن ہو گیا۔ اسی دوران میں انھوں نے استاذ کے اصولوں کی روشنی میں اپنا ذاتی   تحقیقی کام شروع کر دیا جس کے نتائج آہستہ آہستہ سامنے آئے۔ مولانا کا یہ کام تفسیر، حدیث، اصولِ فقہ، کلام اور تزکیۂ نفس کے موضوعات پر محیط ہے۔

 فکرِ فراہی 

قرآنِ مجید کا مطالعہ کرنے والا ہرشخص جانتا ہے کہ یہ صحفیۂ آسمانی اپنے مدعا میں بالکل واضح ہے۔ اس کا اساسی پیغام مختلف پیرایوں میں سامنے آ کر کوئی ابہام نہیں چھوڑتا اور ہر طالبِ ہدایت اس سے ہدایت حاصل کرسکتا ہے ۔ اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایک صاحبِ فہم کے لیے جو گہرائی میں اتر کر اس کا مطالعہ کرنا چاہے، اس میں بڑی مشکلات بھی ہیں۔ عربی زبان اور اسلوبِ کلام کی مشکلات کے علاوہ لوگ آیات کو سیاق و سباق (Context) میں رکھ کر سمجھنا مشکل ہی نہیں پاتے ، بلکہ یہ رائے رکھتے ہیں کہ ہر آیت اپنی جگہ پر الگ مضمون کی حامل ہوتی ہے اور جہاں تک کلام کا تعلق ہے تو یہ غیر مربوط ہے۔ اس تصور کے تحت ہر شخص آیات کی ترجمانی اپنے رجحانِ طبع اور ذہنی اپج کے مطابق کر سکتا ہے۔ چنانچہ عرصہ دراز سے قرآنِ مجید پر غور کرنے کا یہ طریقہ رائج ہے کہ سارا اعتماد تفسیر کی ان قدیم کتابوں پر کیا جاتا ہے جن میں ائمۂ تفسیر کے اقوال نقل کیے گئے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک قول یا چند اقوال کو بلاوجہ ترجیح لے لیا جاتا ہے اور تفسیر کی رائج کتابوں کی ہر بات مجرد اس دلیل کی بناپر حق سمجھ لی جاتی ہے کہ وہ ان کتابوں میں نقل ہے۔ یہ طریقہ ان لوگوں کے لیے موزوں نہیں ہے جو اقوال کو دلائل کی کسوٹی پر بھی پرکھنا چاہتے ہیں۔ اس طریقہ کا نتیجہ یہ نکلا کہ امتِ مسلمہ نے ہر ہر آیت کی اتنی تفسریں بیان کر دیں کہ اصل مفہوم غائب ہو گیا اور امت خود بھی تفرقہ کا شکار ہو گئی۔ امام فراہی رحمہ اللہ نے اس صورتِ حال پر طویل عرصہ تک غوروفکر کیا اور اس نتیجہ تک پہنچے کہ وحدتِ امت کے لیے ضروری ہے کہ قرآن فہمی میں فکری انتشار کی راہ مسدود کی جائے ۔ چنانچہ انھوں نے تفسیر کے لیے ایسے اصول وضع کیے جو آیات کی ایک ہی تاویل تک پہنچانے میں مدد دیں۔ انھوں نے اس حقیقت کو بھی پا لیا کہ قرآنِ مجید کی ہر سورہ اول تک آخر مربوط اور ایک مکمل وحدت ہوتی ہے ۔ اس کا ایک مخصوص موضوع ہوتا ہے جس کو انھوں نے عمود سے تعبیر کیا۔ انھوں نے بتایا کہ جب سورہ کا عمود متعین ہو جائے تو اس کے تمام مباحث کو اس عمود کے ساتھ وابستہ کرنا ممکن ہو جاتا ہے۔ اور ہر آیت اپنے سیاق و سباق میں جو مفہوم دیتی ہے وہ ایک ہی ہوتا ہے۔ اس میں کئی معنوں کی گنجایش نہیں ہوتی۔ لہٰذا قرآن کو سمجھنے کے لیے آیات کے نظم و ربط کو سمجھنا از بس ضروری ہوتا ہے ۔ امام فراہی کے نزدیک قرآنِ مجید کلام اللہ ہونے کے باعث دوسری ہر چیز پر حاکم ہے لہٰذا ہر وہ علم جس کا تعلق قرآن کے موضوع سے ہے اسی سے مستنبط ہونا چاہیے اور اس کی بنیادیں قرآن کی دی ہوئی ہدایت پر استوار ہونی چاہییں۔

استاذ کے اس فکر کو مولانا اصلاحی نے جس طرح اپنایا اور وسیع دائروں میں اس کا اطلاق کیا وہ انھی کا حصہ ہے۔ ان کے علمی کام کا مرکز و محور قرآنِ مجید ہے اور ان کا تمام علمی کام اسی اصل سے پھوٹا ہے۔ اس میں سرِفہرست ان کی  عظیم تفسیر ’’تدبرِ قرآن‘‘ ہے۔

تفسیر ’’تدبرِ قرآن‘‘

تفسیر ’’تدبرِ قرآن‘‘ ایک منفرد انداز میں تصنیف کی گئی ہے۔ مولانا اصلاحی ہر سورہ کی تفسیر سے پہلے اس کا مرکزی   مضمون یا عمود بیان کرتے اور پہلی اور پچھلی سورتوں کے ساتھ اس کے معنوی ربط پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اس کے بعد وہ پوری سورہ کا تجزیہ کر کے آیات کے ایسے مجموعوں کی نشان دہی کرتے ہیں جو ایک مضمون پر  مشتمل ہوتی ہے ۔ پھر وہ ہر مجموعہ کو لے کر اس کی تفسیر کرتے ہیں۔ اس میں وہ ہر آیت کے مشکل الفاظ اور جملوں کی ساخت نیز اسالیبِ زبان کی شرح کرتے ہیں، پھر ہر آیت کا اندرونی نظم کھولتے اور آیات کے مجموعہ میں اس کا مفہوم واضح کرتے ہیں۔ اس طرح ہر آیت کا مفہوم اپنے سیاق و سباق میں متعین ہو جاتا اور پوری سورہ ایک وحدت کی صورت میں سامنے آ جاتی ہے۔ یہ طرزِ بیان بالکل نیا اور نہایت دل نشین ہے ۔ ’’تدبرِ قرآن‘‘ متعدد خصوصیات کی حامل ہے جن میں سے اہم خصوصیات حسبِ ذیل ہیں:

(۱) مولانا اصلاحی نے شعوری کوشش کر کے اپنی تفسیر کو قرآن کے اپنے پیغام کو واضح کرنے تک محدود رکھا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ قرآن کا اصل مفہوم سامنے آئے اور الفاظ کا جتنا تقاضا ہے اسی کی بقدر وضاحت کی جائے۔ اسی لیے نہ تو انھوں نے کلامی و فقہی مسالک اور ان کی موشگافیوں کو تفسیر میں جگہ دی ہے اور نہ کسی رائج الوقت نظریہ کی حمایت و مخالفت کے لیے قرآن کو ذریعہ بنایا ہے۔ حتیٰ کہ شانِ نزول کی روایات میں سے اگر کسی روایت کا تذکرہ ضروری سمجھا ہے تو اس کو سرسری طور پر بیان کر دیا ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ ایک طالبِ علم قرآن کے الفاظ کے ساتھ مربوط رہتا ہے اور کوئی چیز اس کی توجہ اصل مضمون سے ہٹانے کا باعث نہیں بنتی۔

(ب) تفسیر کی ایک خوبی اس کی تفہیم کا انداز ہے۔ الفاظ سے لے کر جملوں، آیات، آیات کے مجموعوں اور پوری سورہ کی  تفہیم یہ اس طرح کرتی ہے کہ جیسے کوئی گائیڈ کسی نووارد کی انگلی پکڑ کر اسے منزل تک پہنچا دے۔ جہاں کوئی سوال پیدا ہوتا ہے اس کا جواب ملتا ہے، جہاں اعتراض پیدا ہوتا ہے اس کی تشفی بخش وضاحت موجود ہوتی ہے۔ کوئی نحوی مشکل ہو تو اس کا حل فراہم کیا گیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ مصنف نے ہر ہر پہلو سے آیات پر غور کیا ہے اور اس دوران میں جو مشکلات خود انھیں پیش آئی ہیں اپنے قاری کے لیے پہلے ہی سے ان کا حل پیش کر دیا ہے۔

(ج) دوسری تفاسیر کے  مصنفین دوران تفسیر میں اپنے نکات ، تحقیقات اور  ضمنی مسائل اتنی تفصیل سے بیان کرتے ہیں کہ اصل سلسلۂ کلام سے توجہ ہٹ جاتی ہے۔ مولانا کے استاذ بھی تفسیری نکات اور جزوی مسائل پر بکثرت طویل فصلیں لکھتے ہیں۔ ’’تدبرِ قرآن‘‘ میں ایسا نہیں ہے۔ گنتی کے چند موضوعات کے سوا انھوں نے کوئی فصل تفسیر کے بیچ میں داخل نہیں کی اور ان چند موضوعات کو بھی وہ ایسے مقام پر لائے ہیں جہاں سلسلۂ کلام میں خلل واقع نہیں ہوتا ۔

(د) مولانا اصلاحی نے تکلف کر کے کوئی مفہوم تراشنے سے گریز کیا ہے۔ وہ سادہ تفسیر اختیار کرتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک قرآن کے اولین مخاطب سادگی پسند تھے اور انھی کے مزاج کے مطابق قرآن نازل ہوا۔ چنانچہ مولانا اصلاحی تفسیر کے لیے جدید سائنسی تحقیقات کو خاطر میں نہیں لاتے۔ مثال کے طور پر سورۂ انبیا کی آیت ۳۰ میں آسمان و زمین کے لیے ’رتق‘اور ’فتق‘(بند ہونا اور کھلنا) کے الفاظ آئے ہیں۔ جدید مفسرین اس سے 'Big Bang Theory' مراد لیتے ہیں جس کے مطابق پہلے آسمان و زمین یکجا تھے۔ پھر ایک دھماکا ہوا تو ان کے پرزے چاروں طرف پھیلنے لگے اور وہ ابھی تک اپنے مرکز سے ہٹتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ مولانا کے نزدیک آسمان کے بند ہونے اور کھلنے سے مراد امساک باراں اور بارش کا برسنا ہے ۔ اسی طرح زمین کا رتق و فتق اس کے مساموں کا بند ہونا اور بارش ہونے پر کھلنا اور نباتات اگانا ہے۔

مولانا فراہی رحمہ اللہ کی تفسیر سورۂ ذاریات میں’نطق‘ سے قیامت کے استدل کی بحث کو مولانا اصلاحی نے تکلف قرار دیا ہے اور اس کے لیے کلمہ’کن‘کی تعبیر کو زیادہ مناسب قرار دیا ہے۔ سورۂ مرسلات میں امام فراہی نے جہنمیوں کے لیے دھوئیں کے سہ شاخہ ہونے کی توجیہ یہ کی ہے کہ کفار کی تین نمایان  خصلتوں کے لحاظ سے دھواں سہ شاخہ ہو کر ان پر پھیلے گا۔ مولانا اصلاحی کہتے ہیں کہ بیک وقت کسی کافر میں تینوں   خصلتوں کا پایا جانا ضروری نہیں۔ اس لیے بہتر تاویل یہ ہو سکتی ہے کہ ایک سمت سے  جہنمیوں کو ہانک کر لایا جا رہا ہو گا، باقی تینوں سمتوں میں دھوئیں کے بادل چھائے ہوں گے۔

(ہ) تفسیر میں الفاظ کے معانی کی تحقیق ، نحوی ترکیب، اور اسالیبِ کلام پر اہم بحثیں ملتی ہیں۔ یہ چیز ان لوگوں کے اندر تو بے چینی پیدا کرتی ہے جو خالص علمی مباحث میں دلچسپی نہیں رکھتے لیکن مولانا کی تفسیر صرف عربی سے نابلد لوگوں کے لیے نہیں لکھی گئی بلکہ عربی جاننے والوں کے لیے بھی ہے۔ ان کے لیے یہ فنی مباحث نہایت قیمتی اور ان کی ضرورت کی چیز ہیں۔ قرآن فہمی کی مشکلات کو دور کرنے میں ان مباحث کا بڑا حصہ ہے۔

(و) ’’تدبرِ قرآن‘‘ کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ اس میں قرآن کے استدل کو اس طرح کھولا گیا ہے کہ ہر عقیدہ اور دعویٰ کے فطری و عقلی دلائل کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ قرآن کا مطالعہ کرنے والا ایک عام شخص چاند، سورج، ہوا، بارش، سمندر، کشتی وغیرہ کا ذکر آنے پر سوچتا رہ جاتا ہے کہ آخر وہ کیا خاص بات ہے کہ قرآن میں ان کا تذکرہ بار بار ہوا ہے۔ ’’تدبرِ قرآن‘‘ میں ایسی تمام اشیا کے اندر شہادت کا پہلو اتنی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ اس سے آدمی اطمینانِ قلب کی دولت پاتا ہے ۔

(ز) مولانا اصلاحی نے جو کچھ لکھا ہے وہ اپنی سوچ کے مطابق اور اپنی آزاد رائے کی روشنی میں لکھا ہے۔   محض نقل انھیں کہیں گوارا نہیں ہوئی۔ وہ جس رائے کو دلیل کی روشنی میں اختیار کر لیتے ہیں اس کو اپنی قیمتی متاع سمجھتے ہیں۔ وہ صاف لکھتے ہیں:

’’ کتاب و سنت کے سوا میں کسی چیز کو حجت نہیں سمجھتا اور غور و تدبر میرے نزدیک انسانی فضائل میں سب سے برتر اور سب سے اعلیٰ فضیلت ہے۔ میری کوشش یہ ہے کہ ایک مدتِ دراز سے قرآن و حدیث پر غور و تدبر کی جو راہ مسدود ہے وہ اب کھل جائے۔ اور اگر اس راہ میں مجھ سے کوئی خدمت بن آتی ہے تو مجھے اس سے ہچکچانا نہیں چاہیے ۔‘‘ (دیباچہ تدبرِ قرآن )

یہی وجہ ہے کہ انھوں نے جب بعض اہم تفسیری مشکلات کو حل کیا ہے تو ان کو مدلل کر کے برملا بیان بھی کر دیا ہے اور کسی مصلحت کو آڑے نہیں آنے دیا۔ مثال کے طور پر اصحاب الاعراف کی تعیین، اسیرانِ بدر سے فدیہ کے معاملہ، شادی شدہ زانی کی سزا اور ازواجِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایلاء تخییر کے واقعات میں مولانا کا موقف نہایت دو ٹوک طریقہ سے مدلل ہو کر سامنے آیا ہے، اگرچہ ان معاملات میں مفسرین کی رائیں بے حد الجھی ہوئی ہیں ۔

 مولانا اصلاحی رحمہ اللہ کی یہ آزادیِ فکر ان سورتوں کی تفسیر میں بھی سامنے آئی ہے جو ان کے استاذِ گرامی کی تفسیر ’’نظام القرآن‘‘ میں شامل ہیں۔ استاذ کے طریقہ کے برعکس انھوں نے سورتوں کی تفسیر اپنے پیرایۂ بیان میں کی ہے، ضمنی مباحث کو یک قلم ختم کر دیا ہے۔ سورتوں کے عمود انھوں نے اپنے متعین کیے ہیں جس کے باعث تفسیر میں بھی فرق واقع ہوا ہے۔ مثال کے طور پر مولانا فراہی کے نزدیک سورۂ تحریم کاعمود محاسبہ میں سخت گیری ہے۔ مولانا اصلاحی اس کو ’محبت کے اندر اللہ کی حدود کی حفاظت‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ سورۂ مرسلات کا عمود استاذ کی   تحقیق میں ’قیامت، خشیت اور احسان‘ ہے جب کہ ’’تدبرِ قرآن‘‘ میں حشر و نشر اور جزا و سزا کے ایک شدنی امر ہونے کو عمود قرار دیا گیا ہے۔

(ح) مولانا اصلاحی کی سوچ نہایت عاقلانہ اور بے حدمتوازن ہے۔ اس میں نہ تو ان لوگوں کی بے اعتدالی پائی جاتی ہے جو صدیوں پرانے معیارِ فہم و   تحقیق کو حرزِ جاں بنائے ہوئے ہیں اور دین میں عقل کا کوئی مقام تسلیم کرنے کو تیارنہیں اور نہ دورِ حاضر کے ان لوگوں کی آزاد خیالی اور بے راہ روی ہے جو اپنے ملی ورثۂ علمی کے بارے میں احساسِ کہتری میں مبتلا ہیں اور ہر مسئلے میں ان کے نزدیک رائے وہی صائب ہے جو اہلِ مغرب نے پیش کی ہے۔ گویا مولانا کے فکر میں وہ قدامت ہے جو عقل و دانش سے عاری نہیں اور وہ جدت ہے جس میں بگٹٹ قسم کی آزاد روی نہیں۔

ترجمۂ قرآن 

جہاں تک ترجمۂ قرآن کا تعلق ہے اس کا مروج طریقہ یہ ہے کہ پہلے سے موجود چند ترجمے سامنے رکھ کر اپنے ذوق کے مطابق ان کی نوک پلک درست کر کے ایک نیا ترجمہ تیار کر لیا جاتا ہے۔’’تدبرِ قرآن‘‘میں جو ترجمہ کیا گیا ہے وہ اس انداز کا نہیں ہے بلکہ غوروفکر اور تدبر کے بعد آیات کا ربط اور سیاق و سباق جو مضمون پیدا کرتا ہے اس کو ترجمہ میں ملحوظ رکھا گیا ہے۔ اس میں الفاظ اورجملوں کی ساخت کا لحاظ تو ہے ہی، عربی زبان کے اسالیب کو بھی پیشِ نظر رکھا گیا ہے۔ مثلاً عربی زبان میں فصاحت و بلاغت کی مناسبت سے جملوں میں بعض الفاظ حذف کر دیے جاتے ہیں جبکہ اردو میں یہ اسلوب ناپید ہے۔ مولانا اصلاحی رحمہ اللہ مراد معانی کو ادا کرتے ہوئے حذف کو کھول دیتے ہیں اور اس وضاحت کو قوسین (Brackets) میں لانا بھی ضروری نہیں سمجھتے۔ ترجمہ میں مولانا اپنے استاذ کی اس ہدایت پرعمل کرتے ہیں کہ طرزِ ادا ، شانِ کلام اور اظہارِ جذبات کلام کی جان ہوتے ہیں۔ ترجمہ کرتے ہوئے ان کو بدلنا عبارت کو مسخ کرنا ہوتا ہے۔ نیز یہ کہ کلامِ الٰہی کا ترجمہ روز مرہ کی زبان سے الگ ہونا چاہیے۔ قدامت طرزِ متانت کے موافق ہوتی ہے اس لیے اس کی پیروی ہونی چاہیے۔ مولانا اصلاحی نے آخری پاروں کی سورتوں کی مختصر آیات کا ترجمہ انھی کی طرح مختصر اور معنی آفریں کیا ہے جبکہ طویل آیات کا ترجمہ بیانیہ انداز میں کیا ہے۔ چونکہ یہ ترجمہ سیاق و سباق کو ملحوظ رکھ کر کیا گیا ہے اس لیے یہ قرآنِ مجید کا بالکل نیا (Original) ترجمہ کہلا سکتا ہے۔

مولانا فراہی رحمہ اللہ کی فراہم کردہ بنیادوں پر مولانا اصلاحی رحمہ اللہ نے ’’تدبرِ قرآن‘‘ کی صورت میں جو عظیم عمارت تعمیر کی ہے اس کی  تکمیل پر وہ اپنے استاذ کے لیے شکر وسپاس اور اپنی ذات کے لیے عجز و انکسار کے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ اگرچہ میں اپنے طرزِ فکر کو حضرت الاستاذ رحمہ اللہ کے فکر کے ساتھ ملانا بے ادبی خیال کرتا ہوں لیکن چونکہ واقعہ یہی ہے کہ میں نے عمر بھر استاذ ہی کے سُر     میں اپنا سُر  ملانے کی کوشش کی ہے اور میرا فکر ان کے فکر کے قدرتی نتیجہ ہی کے طور پر ظہور میں آیا ہے اس وجہ سے یہ جوڑ ملانے کی جسارت بھی کر رہا ہوں۔ اگر یہ بے ادبی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو معاف فرمائے ۔‘‘ (دیباچہ تدبرِ قرآن )

نظامِ قرآن کی نئی جہات 

امام فراہی رحمہ اللہ نے جیسا کہ اوپر بیان ہوا، ہر سورہ کے ایک وحدت ہونے اور اس کا ایک خاص عمود ہونے کا تصور پیش کر کے قرآنِ مجید کو ایک مربوط و  منظم کتاب ثابت کیا۔ مولانا اصلاحی رحمہ اللہ نے مزید غوروفکر کے بعد اس تصور کو بڑی ترقی دی ہے۔ ان کے ہاں قرآن کے نظام کی جو نئی جہات ملتی ہیں وہ حسبِ ذیل ہیں:

(ا) قرآن کی ہر سورہ اپنا ایک جوڑا اور مثنیٰ بھی ر  کھتی ہے اور ان دونوں میں اسی طرح کی مناسبت ہوتی ہے جس طرح کی مناسبت زوجین میں ہوتی ہے ۔ یعنی ایک میں جو خلا ہوتا ہے دوسری اس خلا کو بھرتی ہے۔ ایک میں جو پہلو مخفی ہوتا ہے دوسری اس کو اجاگر کرتی ہے۔ اس طرح کی مثنیٰ سورتوں کا عمود اور نفسِ  مضمون ایک ہی ہوتا ہے لیکن کبھی ایک سورہ دوسری سورہ کے اجمال کی تفصیل کرتی ہے، کبھی ایک سورہ میں عام اصول بیان ہوتا ہے اور دوسری اس اصول کی تشریح کرتی ہے ، کبھی دو سورتوں میں ایک ہی مضمون کو ثابت کرنے کے لیے مختلف قسم کے شواہد استعمال کیے جاتے ہیں۔ کبھی دو سورتیں کسی معاملہ کے مثبت اورمنفی پہلوؤں کے بیان کے لیے خاص ہوتی ہیں۔ کبھی ایک میں کسی معاملہ کے مقدمات اور دوسری میں ان سے نکلنے والے نتائج بیان کیے جاتے ہیں۔

(ب) بعض سورتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کی حیثیت  ضمنی سورہ کی ہے یعنی وہ کسی سورہ کے مستقل مثنیٰ کی حیثیت نہیں ر کھتی ہیں بلکہ اپنی ماسبق سورہ کے کسی ایک اہم پہلو کی وضاحت کے طور پر نازل ہوئی ہیں۔

(ج) قرآنِ مجید میں سورتوں کے سات ایسے مجموعے یا گروپ موجود ہیں جن کی خصوصیت یہ ہے کہ ہر مجموعہ ایک یا ایک سے زیادہ مکی سورتوں سے شروع ہو کر ایک یا ایک سے زیادہ مدنی سورتوں پر ختم ہوتا ہے۔ جس طرح ہر سورہ کا ایک خاص مرکزی مضمون ہے جس سے تمام اجزاے کلام وابستہ ہوتے ہیں اسی طرح ہر گروپ کا بھی ایک جامع عمود ہے اور اس گروپ کی تمام سورتیں اس جامع عمود کے کسی خاص پہلو کی حامل ہوتی ہیں۔ مطالب اگرچہ ہر گروپ میں مشترک سے ہیں لیکن اس اشتراک کے ساتھ جامع عمود کی چھاپ ہر گروپ پر نمایاں ہے۔ ہر گروپ کی مدنی سورتیں اپنے گروپ کے عمومی مزاج سے بالکل ہم آہنگ و ہم رنگ ہیں۔ ان کو اپنے گروپ کی مکی سورتوں سے وہی مناسبت ہے جو مناسبت کسی درخت کی جڑ اور اس کی شاخوں میں ہوتی ہے۔

(د) ہر گروپ کے اندر اسلامی دعوت کے ادوار ابتدا سے لے کر انتہا تک نمایاں ہوئے ہیں البتہ نمایاں ہونے کا پہلو ہر ایک کے اندر مختلف ہے۔ نیز ایجاز اور تفصیل کے اعتبار سے انداز الگ الگ ہیں۔

(ہ) قرآنِ مجید کی بعض سورتوں مثلاً الر حمٰن، الشعراء اور المرسلات میں ایک ہی آیت بار بار دہرائی جاتی ہے۔ اسے اصطلاح میں ترجیع کہتے ہیں۔ یہ ترجیعات تمام قرآن میں پائی جاتی ہیں اور ان کی دو قسمیں ہیں۔ ایک لفظی دوسری معنوی ۔ لفظی ترجیعات تو مذکورہ سورتوں میں نظر آتی ہیں لیکن معنوی ترجیعات تقریباً ہر سورہ میں ہیں۔ البتہ ان کو تلاش کرنے کے لیے مضامینِ سورہ کا ذہن میں محفوظ رکھنا ضروری ہوتا ہے اور معرفتِ نظم کا بہت کچھ مدار ان ہی پر ہوتا ہے۔

(و) قرآنِ مجید کی قسموں کے متعلق یہ بات طے ہے کہ یہ آگے آنے والے دعویٰ پر دلیل اور شہادت کے طور پر آتی ہیں۔ جو شہادت قسموں کے اسلوب میں پیش کی گئی ہے وہی شہادت سادہ اسلوب میں طویل سورتوں میں بھی آ گئی ہے۔ لہٰذا قسموں کو حل کرنے کے لیے اس  مضمون کی بیانیہ آیات سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔

اصول فہمِ حدیث 

قرآنِ مجید کی تفسیر کے لیے مولانا اصلاحی کے سامنے امام فراہی رحمہ اللہ کے مجوزہ طریق کار کا ایک نقشہ اور کچھ نمونہ موجود تھا لیکن حدیث کی  تحقیق وشرح کے لیے ان کے سامنے کوئی ایسی کوئی چیز موجود نہ تھی۔ وہ حدیث میں ایک جلیل القدر محدث مولانا عبد الر حمٰن مبارک پوری (شارح ترمذی و مصنف تحفتہ الاحوزی) کے شاگرد تھے اور ان کی سندِ حدیث معاصر علما میں بہت عالی تھی۔ لیکن حدیث کی تحقیق کے بارے میں ان کے استاذ کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ حدیث میں اصل اعتماد سند پر ہوتا ہے ۔ اگر سند قابلِ اعتماد ہو تو حدیث کے مضمون پر بحث لاحاصل ہے۔ مولانا اصلاحی رحمہ اللہ جیسے عقلی آدمی کے لیے اس نقطۂ نظر سے اتفاق کرنا ممکن نہ تھا۔ لہٰذا انھوں نے فہمِ حدیث کے لیے مفید اصولوں کی طرف رہنمائی کی ہے ۔ وہ سند کو حدیث کے پرکھنے کا محض ایک ذریعہ قرار دیتے اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ متنِ حدیث کی نسبت چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہوتی ہے اس لیے اس کو ہر اعتبار سے جانچ کر اس کی صحت کا فیصلہ کرنا لازم ہے۔ اس کے لیے وہ قرآن کی کسوٹی پر اعتماد کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں:

’’اس وقت حدیث کی تعلیم ہر مکتبِ فکر کے علما اپنے اپنے تقیدات کے تحت دے رہے ہیں۔ کلام و عقائد اور فقہیات میں جس گروہ کا جو مسلک ہے وہ کوشش کرتا ہے کہ قرآن و حدیث دونوں سے وہ اپنی تائید حاصل کرے اگرچہ اس کے لیے کتنا ہی ظلم کرنا پڑے۔ حالانکہ صحیح علمی طریقہ یہ ہے کہ قرآن کی طرح پورے ذخیرۂ حدیث پربھی براہِ راست ان کے الفاظ، ان کے موقع و محل، ان کے سیاق و سباق، ان کے نظائر و شواہد اور قرآن کے ساتھ ان کی موافقت یا عدم موافقت کے پہلو سے غور کیا جائے اور بغیر کسی گروہی تعصب کے وہ حدیثیں اختیار کی جائیں جو مذکورہ کسوٹی پر پوری اترتی ہوں ، اگرچہ وہ ہماری خواہشوں کے خلاف ہوں۔ ہمیں اتباع بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کرنی ہے نہ کہ اپنی خواہشوں کی یا کسی خاص فقہ و کلام کی۔‘‘( تعارف ادارۂ تدبرِ قرآن و حدیث  )

متنِ حدیث کو پرکھنے کے لیے مولانا نے جو طریق کارتجویز کیا ہے اس کے اہم نکات حسبِ ذیل ہیں:

(ا)  حق و باطل میں امتیاز اور دین و شریعت کی ہر چیز کی جانچ کے لیے کسوٹی قرآنِ مجید ہے۔ لہٰذا متنِ حدیث میں تردد ہونے کی صورت میں روایت قرآنِ مجید ہی کی ترازو میں تولی جائے گی۔ اس کسوٹی پر پرکھے بغیر قبول کی ہوئی روایت میں یہ امکان موجود ہوتا ہے کہ آدمی اس چیز کو دین بنا لے جو دین نہیں ہے ۔

(ب) جس طرح قرآن کی تمام دعوت عقل و فطرت پر مبنی اور اپنے دعاوی پر شہادت انھی سے پیش کرتی ہے اس طرح صحیح حدیث کی کوئی بات عقل و فطرت کے منافی نہیں ہو سکتی۔ اگر کوئی روایت اس کے منافی نظر آئے تو اس پر اچھی طرح غور کرنا ہو گا، یہاں تک کہ اپنی عقل کی کوتاہی واضح ہو جائے یا روایت کا ضعف سمجھ میں آ جائے ۔

(ج) قرآن کی طرح حدیث کا بھی اپنا ایک مجموعی نظام ہے۔ ہر حدیث اس نظام کا ایک جز مانی جائے گی۔ اس نظام سے ہٹ کر حدیث کو صحیح طور پر سمجھا جا سکتا نہ ٹھیک طور پر اس کی تاویل و توجیہ ہو سکتی ہے۔ اہلِ تصوف کے ہاں جو روایات رائج ہیں وہ بیشتراحادیث کے مجموعی نظام سے متعارض اور بے جوڑ ہیں ۔

( د) حدیث کی اصل زبان ٹکسالی عربی ہے۔ لہٰذا ہر باب میں ان احادیث کو مقدم رکھا جائے گا جن کی زبان عہدِ نبوت و عہدِ صحابہ کی زبان سے ہم آہنگ ہو۔  

(ہ) راوی حضرات اپنے ذوق کے مطابق واقعہ کے کسی حصہ کی روایت کرتے ہیں جس کے نتیجے میں بعض لازمی اور ضروری حصے چھوٹ جاتے ہیں۔ جیسا کہ خطبۂ حجتہ الوداع کی روایات میں ہوا۔ ایک ہی راوی کی مختلف اوقات کی روایتوں میں  تکمیل، تقلیل، اطناب اور ایجاز ہوتا رہتا ہے۔ لہٰذا کسی ناتمام روایت کی تاویل اس قسم کی دوسری روایات کے ساتھ ملا کر کرنی ہو گی۔ اس طرح جو مضمون متعین ہو گا وہ اصل ہو گا۔

(و) متن میں کلام کے عموم و خصوص، موقع ومحل اور خطاب کا فہم حاصل کرنا ضروری ہے۔ اس سے صرفِ نظر کر کے بعض روایات مثلاً ’امرت ان اقاتل الناس‘ اور ’ الائمة من قریش ‘کی توجیہ اس قدر غلط ہو گئی کہ اسلام کو مطعون کرنے کی راہ کھل گئی ۔

مولانا نے اپنی حیات میں تعلیمِ دین کے لیے دو حلقے قائم کیے تو حلقۂ تدبرِقرآن میں انھوں نے اپنے اصولوں پر صحیح مسلم کا درس دیا جو ان کے نزدیک حدیث کا اصل مجموعہ اور سب سے زیادہ سائنٹیفک ترتیب کا حامل ہے۔ ادارۂ تدبرِ قرآن و حدیث میں انھوں نے موطا امام مالک کا درس دیا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب العہد مرتب ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ صحیح بخاری کا درس دیا جو ان کے نزدیک اصلاً کتابِ حدیث نہیں بلکہ امام بخاری کے فقہی و کلامی مذہب کی عکاس کتاب ہے۔ اس لیے اس کی تدوین فقہی و کلامی طرز پر ہوئی ہے۔ مولانا کے موطا اور صحیح بخاری کے درس باقاعدگی سے رسالہ ’’تدبر‘‘ میں شائع ہو رہے ہیں، ان کو کتابی صورت میں لانے کے کام کا آغاز ہو چکا ہے۔

  حکمتِ قرآن 

مولانا کی رائے میں قرآن پر تدبر کے نتیجہ میں آدمی کو حکمت حاصل ہونی چاہیے جس کو قرآنِ مجید نے خیرِ کثیر قرار دیا ہے۔ مولانا نے اس حکمت کے جواہر ریزے اپنی تفسیر میں جگہ جگہ بکھیر دیے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ان کی تفسیر سے بہت سے دینی موضوعات پر قرآن کی حکمت بہ آسانی جمع کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے اپنی مستقل تصانیف میں ان کو یکجا بھی کر دیا ہے۔ ’’حقیقتِ شرک و توحید‘، ’’حقیقتِ نماز‘‘، ’’حقیقت تقویٰ‘‘، ’’دعوتِ دین اور اس کا طریق کار‘‘ وہ کتابیں ہیں جن میں اس حکمت کے مختلف پہلو یکجا دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ کتابیں قرآن فہمی میں بھی ممدومعاون اور اس کی تربیت دیتی ہیں۔ حقیقتِ توحید تو گویا قرآنی استدلال کی اساسات کو واضح کرنے والی ایک اہم دستاویز بن گئی ہے۔ اس بارے میں مولانا کی   تحقیق یہ ہے کہ قرآن کے دلائل یا تو مخاطب کے اقرار پر مبنی ہوتے ہیں یا ایسے  مستقل اصولوں پر قائم ہوتے ہیں جو مخاطب کے اقرار و انکار سے بالکل بالاتر ہوتے ہیں۔ پھر اس دوسری قسم کی دو  قسمیں ہیں: یا تو ان دلائل کا ماخذ خود انسان کے نفس کے اندر ہے یا خارج میں۔ پہلی قسم کو ہم دلائلِ انفس سے تعبیر کریں گے اور دوسری کو دلائلِ آفاق سے۔ یہ سب ملا کر قرآنی استدلال کی تین قسمیں ہوئیں۔

۱۔  وہ استدلال جو مخاطب کے اقرار و اعتراف پر مبنی ہے۔ اس کے کئی پہلو ہیں۔ مثلاً جو قومیں کسی الہٰ کو مانتی ہیں ان کے لیے لازم ہے کہ ان تمام صفتوں اور باتوں کو مانیں جن پر یہ لفظ مشتمل ہے یا جو قومیں اللہ کی بنیادی صفتوں کو مانتی ہیں ان کے لیے لازم ہے کہ ان صفتوں کو بھی مانیں جو ان صفتوں کے لوازم میں سے ہیں۔ نیز ان صفات سے ان کی تنزیہہ کریں جو ان صفات کے منافی ہیں۔ علیٰ ھذا القیاس ان صفتوں کو تسلیم کرنے سے آدمی پر جو ذمہ داریاں اور حقوق واجب ہوتے ہیں ان کا بھی اقرار کریں۔ نیز جو قومیں کوئی آسمانی صحیفہ ر  کھتی ہیں یا اپنے پیچھے کوئی تاریخ رکھتی ہیں یا اپنی سوسائٹی کے اندر نیکی اور بدی کا کوئی ضابطہ رکھتی ہیں ان کے لیے ضروری ہے کہ ان کی بنیادی صداقتوں سے ، ان کے معروف مسلمات سے اور ان کے بدیہی منطقی نتائج سے گریز نہ کریں۔ ایسا کرنا اپنے تسلیم کردہ مقدمہ سے فرار اور خود اپنے منہ سے اپنے آپ کو جھٹلانا ہے۔

۲۔ دوسری قسم دلائلِ آفاق کی ہے۔ اس کے بھی مختلف پہلو ہیں۔ سب سے پہلے وہ قوانین ہیں جن کا اس کائنات میں ہر آن مشاہدہ ہو رہا ہے اور جن سے ایک خدا کی اور اس کی ان تمام صفتوں کی شہادت مل رہی ہے جو قرآن نے خدا کے لیے بیان کی ہیں۔ پھر وہ قوانین ہیں جو اس کائنات کے واقعات و حوادث اور قوموں کے عروج و زوال میں کارفرما نظر آتے ہیں اور جو درحقیقت انھی صفات کے مظاہر ہیں جن سے خالقِ کائنات متصف ہے۔

۳۔ تیسری قسم دلائلِ انفس کی ہے۔ ان کا ماخذ درحقیقت خود انسان کا نفس ہے اور اس سے مراد وہ فطری وجدان و اذعان ہے جو فاطر السماوات والارض نے نفوس کے اندر ودیعت فرمایا ہے۔

یہ تو دلائل کی بڑی  قسمیں ہوئیں۔ مولانا جب مزید تفصیل میں جاتے ہیں تو دلائلِ آفاق میں کائنات کے حسن و جمال، مختلف اجزا میں باہمی موافقت اور سازگاری ، عظیم اشیا کے ایک محکم نظام کے تحت مقہور و  منقسم ہونے ، کائنات کی محکم تدبیر ، ایک ضد سے دوسری ضد کے باوجود پانے ، ہر نظمِ اجتماعی کے لیے حاکمیت کے غیرمنقسم ہونے، مختلف ارادوں اور مذاقوں کے تصادم کے نتیجہ میں تناسب کے وجود کے محال ہونے، حق و باطل کی آویزش میں حق کے غالب رہنے اور مختلف اشارات (Suggestions) کو شمار کرتے ہیں۔ دلائلِ انفس میں ان کی نگاہ انسان کے اندر عہدِ فطرت کے تصور، علم و یقین کی فطری طلب، احساسِ برتری اور ذلت و طاعت سے نفرت، ضعف و افتقار وغیرہ پر جا ٹھیرتی ہے ۔

متکلمین کا طرزِ استدلال یونانیوں کے فرسودہ طریق استدل سے ماخوذ ہے جس کے اندرعقل و فطرت کے لیے کوئی اپیل نہیں ہے۔ مولاناکے طرزِ استدلال سے قرآن کی عقلیت آشکار ہو جاتی ہے اور عصرِ حاضر نے نئی نسل کے ذہنوں میں جو زہر پھیلائے ہیں ان کا تریاق بھی اس طریقہ میں ہے۔ مولانا نے قرآنی علمِ کلام کو مرتب کرنے کی بنیاد فراہم کر دی ہے ۔

مولانا کے نہج پرغوروفکر کرنے سے عصری عمرانی علوم کے بارے میں یہ تحقیق ممکن ہے کہ ان علوم کے کون سے حصے قرآنی فکر سے مطابقت نہیں رکھتے اور یہ کہ ان میں اسلامی نقطۂ نظر کیا ہونا چاہیے۔ یہ وہی ہدف ہے جو آج 'Islamization of knowledge' کی ضرورت کا احساس رکھنے والے مسلمانوں کے اداروں کے سامنے ہے۔ اس کی نہایت عمدہ مثال مولانا کی کتاب ’’فلسفہ کے بنیادی مسائل‘‘ فراہم کرتی ہے۔ جس میں انھوں نے فلسفہ کے چھ اہم بنیادی مسائل پر مغربی حکما کی آرا کا محاکمہ کرنے کے بعد ان کے بارے میں حکمتِ قرآن کو واضح کیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بہت سے مسلمان علما اور دانش وروں نے ان مسائل پر پر ُمغز تحریریں چھوڑی ہیں لیکن ان کے ہاں جامع قرآنی حکمت اپنے پورے استدل کے ساتھ سامنے نہیں آتی۔ مولانا جب فلاسفہ کے خیالات کا تجزیہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر موضوع پر فلاسفہ کے رجحانات کی کمزوری اور خامی کا پورا ادراک رکھتے ہیں، پھر اس کے مقابل میں جب قرآن کا فلسفہ پیش کرتے ہیں تو صاف نظر آتا ہے کہ ان کے پاس حکمتِ نورانی کا ایک ایسا آئینہ موجود ہے جس میں فلسفہ قدیم و جدید کے تمام تصورات کی کم مائیگی کا عکس نظر آتا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ دنیا کے غیر  معمولی ذہین دماغوں نے عقل و حواس پر انحصار کرکے اور وحی کے سرچشمہ سے محروم ہو کر کیسی کیسی ٹھوکریں کھائی ہیں ۔ 

اسلامی قانون 

مولانا اصلاحی کے ذہن نے دورِ حاضر کے جس میدان میں جولانی دکھائی ہے وہ اسلامی ریاست کی تشکیل اور اس میں اسلامی قانون کے نفاذ کا میدان ہے۔ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد یہ موضوع قدرتی طور پر بے حد اہمیت اختیار کر گیا تھا۔ اس کے بارے میں لوگوں کے پاس معلومات کم تھیں اور جو معلومات تھیں وہ جدید دور کی ضروریات کے مطابق نہ تھیں۔ پھر نوزائیدہ مملکت میں ایسے لوگ سرگرم تھے جو پاکستان کو ایک اسلامی مملکت کے روپ میں نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ انھیں اسلام کے اندر جدید زمانہ کے مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت نظر نہیں آتی تھی اور اگر صلاحیت دیکھتے بھی تھے تو سوسائٹی میں اسلامی احکام کے نفاذ کے تصور ہی سے ان کے جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا تھا۔ مولانا اصلاحی نے ایک طرف تو اسلامی ریاست کے اصول و مبادی واضح کیے جن میں خلافت اور اس کے بنیادی اصول بیان کیے۔ اس میں قوم، وطن، زبان اور تہذیب و روایات کے عمل دخل پر روشنی ڈالی۔ پھر اسلامی ریاست میں بنیادی شہری حقوق اور فرائض کو واضح کیا۔ رعایا کے مختلف طبقات کا تعین کر کے ان کے حقوق متعین کیے۔ ریاست کے لیے اطاعت کے شرائط و حدود پر روشنی ڈالی اور حکومت کے کارکنوں کے اوصاف اور ان کی ذمہ داریاں واضح کیں۔ دوسری طرف اسلامی نظام کے معترضین کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ان کے ایک ایک اعتراض کا نہایت مدلل اورمسکت جواب دیا۔ ان مباحث میں مولانا قرآن و سنت کے علاوہ اسلامی تاریخ سے دلائل فراہم کرتے ہیں۔ نہایت دقیق مباحث کو انھوں نے ایسی سلیس زبان میں سہل بنا کر پیش کیا ہے کہ ان کی قدرتِ بیان پر حیرت ہوتی ہے ۔

فقہی موضوعات پر مولانا کی تحریریں محض اصولی نہیں ہیں بلکہ جہاں انھوں نے محسوس کیا ہے کہ پاکستان کے حالات متقاضی ہیں کہ ان میں شریعت کا حل پیش کیا جائے تو وہاں انھوں نے احکام کو پاکستان کے حالات پر منطبق بھی کیا ہے اور جدید مسائل کا مواجہہ کرتے ہوئے مجتہدانہ بصیرت کے ساتھ ان کا حل بھی پیش کیا ہے۔ مثلاً پاکستان کی غیر مسلم اقلیتوں پر وہ ذمیوں کے احکام نافذ کرنے کے حق میں نہیں ہیں بلکہ ان کی رائے یہ ہے کہ یہ لوگ قیام پاکستان کی جدوجہد میں شریک رہے یا انھیں تسلی دی گئی کہ پاکستان بننے کے بعد ان کے ساتھ معاملہ دوسری رعایا سے مختلف نہیں ہوگا لہٰذا ان پر معاہد اہلِ ذمہ کے احکام نافذ ہوں گے ۔

مسلمانوں کے درمیان فقہی اختلافات کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’مسلمانوں کے درمیان جو فقہی اختلافات ہیں اگرچہ وہ بالکل سرسری اور سطحی ہیں لیکن امتدادِ زمانہ سے ان کی جڑیں اتنی گہری اتر چکی ہیں کہ اب ان کا اکھاڑنا آسان نہیں رہا اور ان کے اکھاڑے بغیر نہ صحیح نہج پر اسلامی قانون کی تدوین ہی ممکن ہے اور نہ اس کے موثر نفاذ ہی کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان من حیث الجماعت اس اصول پر  مجتمع ہوں کہ ان کے قانون کے پرکھنے کے لیے اصل کسوٹی قرآن و سنت ہیں۔ اور ان پر یہ واجب ہے کہ وہ ان کسوٹیوں کو اپنے دوسرے تمام تعصبات و تعلقات سے بالکل دست بردار ہو کرتسلیم کریں۔‘‘ (فقہی اختلافات کا حل ، ص ۸  )

مولانا کے نزدیک اسلامی قانون کا مزاج بیک وقت دو متضاد خصوصیات رکھتا ہے۔ ایک پہلو سے یہ ثابت اور غیر تغیر پذیر ہے، دوسرے پہلو سے اپنے اندر کافی لچک اور وسعت رکھتا ہے جس کے باعث یہ ہر زمانے کے مسائل کو حل کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ اصولِ فقہ کی کتابوں میں اسلامی قانون کے ماخذ میں کتاب اللہ، سنتِ رسول ، اجماع اور قیاس کا نام آتا ہے۔ مولانا ان کی تعبیر کتاب اللہ، سنتِ رسول، اجتہاد، رواج اور مصلحت سے کرتے ہیں۔ اجتہاد کے بارے میں ان کی رائے یہ ہے کہ یہ ہر مسلمان کی ہر دور کی ضرورت ہے جس کے بغیر وہ اپنی اسلامیت پر قائم نہیں رکھ سکتا۔ فرماتے ہیں:

 ’’مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ زندگی میں جو قدم بھی اٹھائے اسلام کے حکم اور اشارہ کے مطابق            اٹھائے۔ زندگی جن حالات و تغیر سے بھی گزرتی ہے ان میں کوئی مرحلہ بھی ایک مسلم کے لیے ایسا نہیں آتا جس میں وہ اسلام سے استفتا کا محتاج نہ رہتا ہو۔ اپنی اسی خصوصیت کے سبب سے ایک مسلمان کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ اجتہاد کے بغیر اپنی اسلامیت کو برقرار رکھ سکے ۔‘‘(اسلامی قانون کی تدوین ص ۶۱)

اس عام تصور کے برعکس کہ مسلمانوں نے اپنے اوپر اجتہاد کا دروازہ صدیوں سے بند کر رکھا ہے مولانا کی رائے یہ ہے کہ اس ’’زوال و انحطاط کے باوجود جو علمِ دین اور اصحابِ علمِ دین پر طاری رہا ہے ہر مسلمان ملک کے علما نے اپنی اپنی صلاحیت و استعداد کے مطابق اجتہادات کیے اور اپنے اپنے ملکوں کے عوام کی رہنمائی کی۔‘‘ تاہم مولانا اس خیال سے متفق ہیں کہ اجتہاد کی اہلیت رکھنے والے لوگ کم پیدا ہوئے اور اجتہاد کی رفتار سست رہی۔ لیکن اس کا عذر یہ بیان کرتے ہیں کہ مغرب کے لادینی اثرات کے تحت مسلمان حکومتوں نے بھی غیر اسلامی قوانین اختیار کرنے شروع کر دیے۔ اجتماعی و سیاسی زندگی کے ہر گوشہ سے اسلامی قانون کو خارج کر دیا گیا۔ جب قانون عملی زندگی سے اتنا بے تعلق ہو جائے تو اس کے سیکھنے سکھانے کا ذوق بھی مردہ ہو جاتا ہے چہ جائیکہ اس کے اندر اجتہاد کا ولولہ پیدا ہو۔‘‘ جاہلیت کے غلبہ و تسلط کے اس عالم گیر اندھیرے میں اجتہاد کے لیے محرک کون سا باقی رہ گیا تھا ؟

 ۱۹۵۵ء میں حکومتِ پاکستان نے عائلی مسائل و قوانین کے جائزہ اور اس سلسلہ میں تجاویز و سفارشات مرتب کرنے کے لیے ایک  کمیشن قائم کیا جس نے اپنی رپورٹ جون ۱۹۵۶ء میں پیش کی۔ مولانا کے الفاظ میں یہ رپورٹ مغرب زدہ طبقہ کے خیالات و نظریات کا مرقع بن گئی اس وجہ سے انھوں نے اس پرمفصل تنقید لکھنے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے بڑی دقتِ نظر سے اجتہاد اور اصول کے بارے میں اس طبقہ کے خیالات جمع کر کے ان پر بحث کی اور ان کی خامیوں اور غلطیوں کو واضح کیا ۔ رپورٹ کے مرتبین کے نزدیک ’’اجتہاد کا مفہوم کسی قانونی مسئلہ پر آزادانہ رائے قائم کرنا ہے ۔‘‘ یہ طبقہ جن اصولوں کی روشنی میں اجتہاد کرنا چاہتا ہے وہ یہ ہیں:

۱۔ جو چیز قطعی اور غیرمشروط طور پر ایک واضح حکم کے ذریعہ سے ممنوع نہیں ہے وہ جائز ہے، اگر افراد یا قوم کی بہبود اس کا تقاضا کر رہی ہو۔

۲۔ موجودہ زمانہ کا معاشرتی اور اقتصادی نقشہ اسلام کی ابتدائی صدیوں کے مقابل میں تبدیل ہو چکا ہے۔

 ۳۔ بعض چیزوں کی اجازت اسلام نے اس لیے دی تھی کہ انسانی سوسائٹی ہنوز اپنے دورِ طفولیت میں تھی۔ یہ اجازت غلط طور پر استعمال ہو رہی ہے تو اس اجازت پر اب پابندیاں عائد ہونی چاہییں۔

۴۔ یہ تعین کرنا ہو گا کہ اسلام کے کون سے احکام سب کے لیے ہیں اور برابر قائم رہنے والے ہیں اور کون سے احکام ایک خاص طرز کی سوسائٹی، ایک مخصوص دور اور ایک خاص علاقہ سے تعلق رکھنے والے ہیں۔

۵۔ استحسان کا مفہوم یہ ہے کہ عوام کے مفاد کو سامنے رکھ کر جو جی میں آئے قانون بنا ڈالا جائے۔ 

مولانا نے تنقید کر کے ان اصولِ اجتہاد کے بخیے ادھیڑے لیکن تبصرہ کو تبصرہ تک محدود نہ رکھا بلکہ عائلی نظام میں ان خرابیوں کی نشان دہی بھی کی جو ان پاکیزہ اصولوں اور تعلیمات کے بالکل خلاف ہیں جن پر اسلام نے اپنے عائلی نظام کو قائم کیا تھا۔ چنانچہ مولانا نے وہ تدابیر بتائی ہیں جو ان خرابیوں کو دور کر سکتی ہیں۔ اس طرح کا ان کا تبصرہ اسلام کے عائلی نظام پر ایک سیر حاصل بحث بن گیا ہے۔

عائلی کمیشن کی سفارشات پر تبصرہ ہو یا خاندانی منصوبہ بندی کی مہم کی وکالت پر ڈاکٹر فضل الرحمٰن صاحب پر گرفت، جماعتِ اسلامی کے دفاع میں معترضین کے افکار کا جواب ہو یا دین میں حکمتِ عملی اور مصلحت شناسی کے مقام کے بارے میں جماعتِ اسلامی کے نقطۂ نظر کا محاکمہ ہر چیز میں مولانا اصلاحی بھرپور انداز میں بحث کرتے ہیں اور عقلی و نقلی دلائل کا اتنا انبار لگا دیتے ہیں کہ حریف کے لیے کوئی راہِ فرار باقی نہیں رہتی ۔ وہ بنیادی طور پر ایک محقق اور اسکالر ہیں اس لیے دلیل ان کا سب سے موثر ہتھیار ہے۔ البتہ تنقیدی مضامین میں مولانا بسا اوقات شوخی و طنزو تعریض سے بھی کام لیتے ہیں جو نہایت بر  محل، برجستہ اور چبھتا ہوا ہوتا ہے ۔ اردو ادب کے حوالہ سے تو اس کی بڑی قدرو قیمت ہے لیکن مولانا کا اس کے بارے میں نقطۂ نظر مختلف ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

 ’’جس طرح زندگی کا خاصہ حرارت ہے اسی طرح زندہ مسائل میں بھی ایک قسم کی حرارت پائی جاتی ہے۔ اس حرارت کے سبب سے جب ان پر تنقید کی جاتی ہے تو اس تنقید میں بھی کچھ نہ کچھ حرارت کا پیدا ہونا ناگزیر ہوتا ہے۔ میں اعتراف کرتا ہوں کہ اس قسم کی حرارت ان مضامین میں بھی قارئین محسوس کریں گے لیکن امید ہے کہ یہ حرارت اپنے فطری اور جائز حدود سے کہیں بھی متجاوز نظر نہیں آئے گی۔ اور اگر کہیں متجاوز نظر آئے تو سمجھنا چاہیے کہ یہ محض میری ادبی کوتاہی کا نتیجہ ہے ۔ اس میں میری جانب سے سوء نیت کو کوئی دخل نہیں ہے۔ میں نے حتی الامکان یہ مضامین لکھتے وقت اس امر کو ملحوظ رکھا کہ تنقید میں کہیں بے جاسختی یا طنزو تعریض کا رنگ غالب نہ آنے پائے ۔‘‘ 

مولانا اصلاحی نے امت کے اندر فقہی اختلافات کو ہوا دینے کی شدت سے مخالفت کی ہے وہ اس بات کے قائل ہیں کہ تمام فقہیں اسلامی فقہیں ہیں اور یکساں طور پر قابل قدر ہیں۔ ان کے ائمہ امت کے عظیم رجال میں سے تھے لہٰذا ان سب کے لیے احترام واجب ہے ۔ وہ لکھتے ہیں:

’’ایک شخص کا اپنے آپ کو حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی کہنا اسی طریقہ سے ہے جس طرح وہ کہہ دے کہ میں لاہوری یا دہلوی ہوں۔ یعنی اس کی نوعیت محض ایک نسبت کی ہے۔ دین کے معاملہ میں واقعہ یہ ہے کہ اس نسبت پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ آدمی حنفی کیوں ہے شافعی کیوں نہیں ہے ؟ یا شافعی کیوں ہے مالکی کیوں نہیں ہے ؟ یا مالکی کیوں ہے حنبلی کیوں نہیں ہے ؟ اس لیے کہ تمام ائمۂ فقہا پوری امت کے امام ہیں۔ ان ائمہ کے متعلق کسی کا بھی یہ خیال نہیں ہے کہ ان میں سے کسی کا اصول یا طریقہ گمراہی کا اصول یا طریقہ تھا۔ ان سب کی فقہ کی بنیاد کتاب و سنت پر ہے۔ سب دین کے اصولوں کو یکساں طور پر مانتے ہیں ۔ ان کے درمیان جو اختلاف ہے وہ اجتہاد کا اختلاف ہے ۔ ایک مسئلہ میں اجتہاد کرتے ہوئے کسی کی رائے کچھ ہو گئی ہے اور کسی کی کچھ۔ اس لیے ان کے بارے میں کوئی تعصب نہیں ہونا چاہیے ۔ 
جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ ذی علم اصحاب کو رایوں کے ماننے میں کیا طرزِ عمل اختیار کرنا چاہیے تو میرے نزدیک ایسے لوگوں کا فرض یہ ہے کہ وہ ہر رائے کو اس کے دلائل کی بنیاد پر مانیں۔ انھیں یہ تحقیق کرنی چاہیے کہ ایک معاملہ میں احناف کا مذہب قوی ہے یا شوافع، مالکیہ یا حنابلہ کا، پھر قوی ترین رائے کو ترجیح دینی چاہیے۔ میں ہمیشہ یہی طریقہ اختیار کرتا ہوں ۔‘‘    (فقہی اختلافات میں صحیح طرزِ عمل تدبر ۳: ۶۴)

مولانا کے نزدیک صحیح اسلامی حکومت کسی متعین امام کی تقلید کے اصول پر قائم نہیں ہوتی بلکہ اس کی اساس براہِ راست کتاب و سنت اور اجتہاد و شوریٰ پر ہوتی ہے۔ البتہ ہر شہری اس بات میں آزاد ہوتا ہے کہ وہ اپنی انفرادی زندگی کے دائرہ میں جس فقہی و کلامی مسلک کو ترجیح دیتا ہو اس کو اختیار کر لے لیکن اجتماعی مسائل میں اسے حکومت کے قانون اور فیصلے کا پابند ہونا پڑتا ہے۔ وہ اپنے فقہی مسلک کی بنا پر ان سے آزاد نہیں ہو سکتا  ۔

مولانا حکومتِ پاکستان کے اربابِ کار سے شاکی ہیں کہ انھوں نے زبان سے اسلام قائم کرنے کے دعوے کرنے اور عملاً ہر اقدام اس مقصد کے خلاف کرنے کی روش اپنا رکھی ہے۔ وہ بڑے دردمندانہ انداز میں لکھتے ہیں:

 ’’ایک معقول آدمی کے لیے معقول رویہ تو یہ ہے کہ کفر اور اسلام میں سے جس پر اس کا دل ٹھک جائے اس کو مسلکِ زندگی کی حیثیت سے اختیار کر لے اور مشکلات و موانع سے بے پروا ہو کر اس پر چل پڑے۔ حق و باطل سے قطع نظر کر کے یہ یکسوئی بجائے خود ایک بڑی اہم طاقت ہے ۔ اور جس راہ میں بھی کوئی قابلِ ذکر کامیابی ہوتی ہے وہ اس یکسوئی کی بدولت ہی حاصل ہوتی ہے۔ دنیا میں ہمیشہ کامیابی حاصل کرنے والوں نے اسی طریقہ کو اختیار کیا ہے اور اپنے اپنے مطمحِ نظر کے لحاظ سے اسی کے بل پر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ لیکن ہمارے ملک کے اربابِ کار نے یکسوئی کی یہ اولو العزمانہ روش اختیار کرنے کے بجائے دورخے پن کی بزدلانہ روش اختیار کی ہے جس کو اسلامی اصطلاح میں ہم نفاق سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ نفاق انسان کی ایک مہلک بیماری کی حیثیت سے تو ضرور متعارف ہے اور ہر دور اور ہر سوسائٹی میں ایسے افراد و اشخاص پیدا ہوتے رہے ہیں جو اس بیماری میں مبتلا ہوئے ہیں لیکن ہمیں تاریخ میں کسی ایسی قوم کا سراغ نہیں ملتا ہے جس کے لیڈروں نے متفق ہو کر نفاق کو قومی پالیسی کی حیثیت سے اختیار کیا ہو اور اس کو اپنی مشکلات کے حل کی کلید جانا ہو۔ پوری تاریخِ انسانی میں اس قسم کی کوئی قوم اگر ملتی ہے تو صرف ایک قوم ملتی ہے اور وہ بدقسمتی سے ہماری قوم ہے۔‘‘( اسلامی معاشرہ میں عورت کا مقام ، ص ۱۵-۱۶)

’’تزکیۂ نفس‘‘

 مولانا کی کتاب ’’تزکیۂ نفس‘‘ کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ مولانا نے اس کو فکری اعتبار سے اپنے دینی فکر کا لبِ لباب قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں:

’’برسوں کے فکر و مطالعہ سے دین و شریعت کی جو روح میری سمجھ میں آئی ہے اس کا ایک حصہ میں نے ان اوراق میں الفاظ کے جامہ میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے     ..... میں نے اس کتاب میں ان لوگوں کی رہنمائی کرنے کی کوشش کی ہے جو اپنے نفس کی اصلاح و تربیت کرنا چاہتے ہیں۔ اس سے تزکیۂ نفس کے وہ اصول و مبادی ان شاء اللہ سامنے آ جائیں گے جو کتاب و سنت میں بیان ہوئے ہیں اور ساتھ ہی وہ بہت سی غلط فہمیاں رفع ہو جائیں گی جو غلط قسم کے تصوف کی راہ سے ہمارے اندر پھیلی ہیں۔ چونکہ اس کتاب کا موضوع وہی ہے جو تصوف کا موضوع ہے اس وجہ سے مجھے جگہ جگہ اس میں مروجہ تصوف پر تنقید بھی کرنی پڑی ہے ۔ ممکن ہے یہ تنقید ان لوگوں کو کچھ ناگوار ہو جو اپنے اپنائے ہوئے کسی طریقہ پر کسی تنقید کو برداشت کرنے کے عادی نہیں ہیں لیکن ایک غیر جانب دار قاری ان شاء اللہ میری کسی تنقید کو بھی تحقیقِ حق اور حمایت کتاب و سنت کے جذبہ اور کوشش سے خالی نہیں پائے گا۔‘‘ (دیباچہ تزکیۂ نفس حصہ اول)

ہمارے ہاں تزکیۂ نفس کا جو مفہوم اربابِ تصوف کے زیرِ اثر قائم ہوا ہے وہ عبادات اور کچھ اورادو وظائف تک محدود ہے۔ مولانا نے قرآن و سنت پر غور کر کے اس کو اتنی وسعت دے دی ہے کہ وہ زندگی کے ہر گوشہ پر حاوی ہو گیا ہے۔ اس میں سب سے پہلے تزکیۂ علم آتا ہے پھر تزکیۂ عمل اور اس کے بعد تزکیۂ تعلقات و معاملات۔ اس تزکیہ سے بہرہ مند ہونے کے بعد سب سے بڑا عارف وہ شخص قرار پاتا ہے جو دنیا کے جھمیلوں میں پڑ کر اپنی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریوں کو اس طرح ادا کرے جس طرح ادا کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا اور جس کا کامل نمونہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طبیہ میں نظر آتا ہے۔  مولانا کے الفاظ میں ’’کسی شخص کے صاحبِ تزکیہ ہونے کے لیے تنہا یہ بات کافی نہیں ہے کہ وہ ذاکر و شاغل اور زاہد و مرتاض ہو بلکہ اسلامی نقطۂ نظر سے میرے نزدیک یہ بھی ضروری ہے کہ وہ معاشرہ کا ایک خدمت گزار فرد اور اپنی ریاست کا اسلامی مفہوم میں ایک فرض شناس شہری بھی ہو۔‘‘

مولانا اصلاحی کے پیش کردہ فکر کے اس جائزہ سے ظاہر ہو رہا کہ انھوں نے قرآن و سنت دونوں کی تحقیق کا ایک ایسا طریق کار وضع کر دیا ہے اور اس پر عمًلا کام کر کے دکھا بھی دیا ہے کہ اگر تعصبات کو راہ نہ دی جائے تو ہر مسلمان یکساں شرحِ صدر اور اطمینانِ قلب کے ساتھ ان کے حقیقی علم سے فیض یاب ہو سکتا ہے اور فرقوں میں بٹی ہوئی امت کے اختلافات کی خلیج پاٹی جا سکتی ہے۔

مولانا کی یہ   عظیم خدمت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ قرآن پر تدبر کے لیے ان کا دیا ہوا لائحۂ عمل اپنائیں اورنظمِ قرآن کے رموز پر مزید  تحقیق کریں تاکہ دورِ حاضر کے مستشرقین کے اس اعتراض کا مسکت جواب دیا جاسکے کہ قرآنِ مجید ایک بے ربط اور وحدتِ فکر سے عاری تصنیف ہے اور اس کی ترتیب کو الٹ پلٹ کر دوبارہ ایڈٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ مولانا اصلاحی نے ’’تدبرِ قرآن‘‘ لکھ کر بنیادی کام کر دیا ہے۔ اب مزید باریکیوں میں قرآن کے نظام کو ثابت کرنے کی ضرورت ہے ۔

مولانا نے حکمتِ قرآن کو مرتب کرنے کی جو راہ کھولی ہے اس پر چل کر مزید بے شمار عنوانات پر کام کیا جاسکتا ہے۔ اس میں مولانا کی تفسیر رہنما کا کام دے گی۔ حکمتِ قرآن کو جس قدر مدلل کر کے پھیلایا جا سکے گا اسی قدر امت کی اصلاح متوقع ہے۔ اس حکمت کی روشنی میں عصری عمرانی علوم کا جائزہ لینا اور ان کی تدوینِ نو کا کام بھی ضروری ہے تاکہ قرآن کی روشنی سے یہ علوم بے بہرہ نہ رہیں اور قرآنِ مجید کی فطری عقلیت بے نقاب ہو۔

قرآنِ مجید میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرائض چار بتائے گئے ہیں۔ تلاوتِ آیات ، تعلیمِ کتاب، تعلیمِ حکمت اور تزکیۂ نفوس۔ میں غور کرتا ہوں تو مولانا اصلاحی کا علمی کام مجھے ان چاروں پر محیط نظر آتا ہے۔ اس طرح میرے نزدیک دورِ حاضر میں انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فرض شناس امتی ہونے کا حق ادا کر دیا ہے۔وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

___________

B