(مشکوٰۃ المصابیح، حدیث: ۴۶)
وعن عمرو بن عبسة رضی اﷲ عنه قال: أتیت رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم. فقلت: یا رسول اﷲ، من معک علی ھذا الأمر؟ قال: حر و عبد. قلت: ما الإسلام؟ قال: طیب الکلام و إطعام الطعام. قلت: ما الإیمان: قال: الصبر و السماحة. قال: قلت: أی الاسلام أفضل؟ قال: من سلم المسلمون من لسانه و یدہ. قال: قلت: أی الإیمان أفضل؟ قال: خلق حسن. قال: قلت: أی الصلاۃ أفضل؟ قال: طول القنوت. قال: قلت: أی الھجرۃ أفضل؟ قال: أن تھجر ما کرہ ربک. قال: قلت: أی فأی الجھاد أفضل؟ قال: من عقر جوادہ و أھریق دمه. قال: قلت: أی الساعات أفضل؟ قال: جوف اللیل اللآخر.
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
’’حضرت عمرو بن عبسہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا اور میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ، آپ کے ساتھ اس کارِ ( دعوت ) میں کون ہے ؟ آپ نے فرمایا : آزاد اور غلام۔ میں نے پوچھا : اسلام کیاہے ؟ آپ نے فرمایا : اچھی بات اور کھانا کھلانا۔ میں نے پوچھا : ایمان کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : استقامت اور عالی ظرفی۔ وہ کہتے ہیں : میں نے پوچھا :بہترین اسلام کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔ وہ کہتے ہیں : میں نے پوچھا : بہترین ایمان کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : اچھے اخلاق۔ وہ کہتے ہیں : میں نے پوچھا : بہترین نماز کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : طولِ عجز۔ وہ کہتے ہیں: میں نے پوچھا : بہترین ہجرت کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : تو ان باتوں کو چھوڑ دے جو تیرے پروردگار کے نزدیک ناپسند یدہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں : پھر میں نے پوچھا : بہترین جہاد کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : وہ جس کی سواری کٹ گئی،جس کا خون بہ گیا۔ وہ کہتے ہیں : میں نے پوچھا : بہترین گھڑی کون سی ہے ؟ آپ نے فرمایا : آخرِ شب کا وسط۔‘‘
طیب: خوش گوار، پسندیدہ، یہ لفظ خوش بو کے معنی میں آتا ہے۔ ’طیب الکلام‘ سے مراد شیریں گفتار ہے۔
الصبر : حوصلہ قائم رکھنا، یعنی نفس کو گھبراہٹ، مایوسی سے بچانا اور دل برداشتہ ہوئے بغیر اپنے موقف پر جمے رہنا۔ لفظ ’صبر‘کے اصلی معنی روکنے کے ہیں۔ لیکن استعمالات کے اعتبار سے یہ اردو کے الفاظ ثابت قدمی، استقلال اور حوصلہ مندی کا مترادف ہے۔
السماحة : کشادہ دلی، کریم النفسی، جود وسخا۔
القنوت : عاجزی اور پستی اختیار کرنا، یہ غرور اور گھمنڈ،اورتلون اور بے صبرے پن کے برعکسرویے کو ظاہر کرتا ہے۔
عقر : ’عقر‘ یہاں مجہول استعمال ہوا ہے۔ یعنی مار دیا جائے۔ ویسے یہ جانور کی کونچیں کاٹ دینے کے معنی میں آتا ہے۔
جوادہ : ’ جواد‘ تیز رفتار گھوڑے کے لیے آتا ہے۔
اھریق : ’اھراق‘ اصل میں ’اراق، یریق، اراقة‘ ہے اور اس میں ہمزہ ہا سے بدلی ہوئی ہے۔
جوف اللیل: نیم شب، رات کا وسط۔ ’جوف‘ کے لفظی معنی کسی شے کے وسط کے خلا کے ہیں۔
مسلم کی ایک روایت میں اس سے بہت مختلف مضمون بیان ہوا ہے۔لیکن ان دونوں روایتوں میں دو باتیں مشترک ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں ایک ہی روایت کے دومتن ہیں۔اوپر درج روایت میں بیان ہوا ہے کہ حضرت عمرو بن عبسہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ’من معک علی ھذا الأمر‘ کا سوال پوچھا تھا۔ مسلم کی روایت سے اس کا موقع اور پس منظر واضح ہوتا ہے :
قال عمرو بن عبسة السلمی: کنت وأنا فی الجاھلیة أظن أن الناس علی ضلالة و أنھم لیسوا أخبارا. فقعدت علی راحلتی. فقدمت علیه. فإذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مستخفیا، جرءاء علیه قومه. فتلطفت حتی دخلت علیه بمکة. فقلت له: ما أنت؟ قال: أنا نبی. فقلت: وما نبی؟ قال: أرسلنی اﷲ. فقلت: فبأی شیء؟ قال: أرسلنی بصلة الأرحام و کسر الأوثان و أن یوحد اﷲ لا یشرک به شیء. قلت له: فمن معک علی ھذا؟ قال حر و عبد. قال: ومعه یومئذ أبوبکر و بلال ممن آمن به. فقلت: إنی متبعک. قال: إنک لا تستطیع ذلک یومک ھذا. ألا تری حالی و حال الناس ولکن ارجع إلی أھلک. فإذا بی قد ظھرت فأتنی. قال: فذھبت إلی أھلی. وقدم رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم المدینة. وکنت فی أھلی فجعلت أتخبر الأخبار. و أسأل الناس حین علی شیء وھم یعبدون الأوثان. فسمعت برجل بمکة یخبر قدم المدینة حتی قدم علی نفر من أھل یثرب من أھل المدینة. فقلت ما فعل ھذا الرجل الذی قدم المدینة. فقالوا: الناس إلیه سراع. وقد أراد قومه قتله. فلم یستطیعوا ذلک فقدمت المدینة. فدخلت إلیه. فقلت: یا رسول اﷲ، أتعرفنی؟ قال: نعم، أنت الذی لقیتنی بمکة. قال: فقلت: بلی. فقلت.....(مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا)
’’ حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں جاہلیت کے زمانے میں بھی یہ سوچا کرتا تھا کہ لوگ گمراہ ہو چکے ہیں۔ ان کے مذہب کی کوئی بنیاد نہیں ہے اور وہ بتوں کی پوجاکر رہے ہیں۔اسی زمانے میں،میں نے مکہ کے ایک شخص کے بارے میں سنا کہ وہ کچھ خبریں بتا رہے ہیں۔ چنانچہ میں سواری پر بیٹھا اور ان کے پاس پہنچ گیا۔ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چھپے ہوئے ہیں اور ان کی قوم ان کے اوپر جری ہے۔ میں انھیں تلاش کرتا کرتا ان کے پاس پہنچ گیا۔ میں نے ان سے پوچھا : آپ کیا ہو ؟ آپ نے بتایا :میں نبی ہوں۔ میں نے پوچھا: نبی کیا ہے ؟ آپ نے بتایا : اللہ نے مجھے مبعوث کیا ہے۔ اس پر میں نے پوچھا : اللہ نے آپ کو کس چیز کے ساتھ مبعوث کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا: صلہ رحمی، بتوں کے خاتمے اور اس تعلیم کے ساتھ کہ اللہ کو واحد مانا جائے اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے۔ میں نے دریافت کیا کہ اس کام میں آپ کے ساتھ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا : کچھ آزاد اور کچھ غلام۔ حضرت عمرو نے تصریح کی کہ اس وقت آپ کے ساتھی اہلِ ایمان میں حضرت ابو بکر اور حضرت بلال رضوان اللہ علیہم شامل تھے۔ اس پر میں نے عرض کیا : میں بھی آپ کا پیرو ہوں۔ آپ نے فرمایا : اس زمانے میں تم یہ نہیں کر سکو گے۔ کیا تم میرے اور لوگوں کے حالات نہیں دیکھ رہے ہو۔ اب تم اپنے گھر والوں کے پا س لوٹ جاؤ۔ پھر جب میرے بارے میں سنو کہ میں غلبہ حاصل کر چکا ہوں،اس وقت میرے پاس آنا۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے گھر والوں کے پاس چلا گیا۔ (کچھ عرصے بعد ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آ گئے۔ میں اپنے لوگوں کے ساتھ رہتے ہوئے (رسول اللہ کے بارے میں) معلومات لیتا رہا۔ اور میں نے لوگوں سے معلوم کیا کہ آپ کب مدینہ تشریف لائے تھے ؟ یہاں تک کہ ہمارے ہاں آئے ہوئے اہل یثرب یعنی اہل مدینہ کے ایک گروہ سے ملاقات ہوئی۔ میں نے ان سے پوچھا : ان صاحب نے کیا کیا ہے جو مدینہ آئے ہیں ؟ انھوں نے بتایا : لوگ ان کی طرف لپک رہے ہیں۔ ان کی قوم نے ان کو قتل کرنا چاہا تھا لیکن اس میں کامیاب نہیں ہوئی۔ یہ باتیں جان کر میں مدینہ کی طرف چل پڑا۔ آپ کے پاس پہنچا۔ پھر میں نے آپ سے پوچھا : کیا آپ مجھے پہچانتے ہیں ؟ آپ نے کہا : ہاں، تم وہی ہو جو مجھے مکہ میں ملے تھے۔ میں نے کہا : ہاں، میں وہی ہوں۔ پھر میں نے پوچھا : .....‘‘
اس کے بعد اس روایت میں وہ سوالات نہیں ہیں جو زیرِ بحث روایت میں پوچھے گئے ہیں۔بلکہ ساری بات نمازِ پنجگانہ اور وضو کی برکات سے متعلق ہے۔ نسائی اور ابنِ ماجہ کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نمازوں کے بارے میں اس گفتگو کا ایک حصہ نمازِ تہجد سے بھی متعلق تھا۔اور یہ وہ بات ہے جس سے اس روایت اور زیرِ بحث روایت کے ایک ہی موقع کی گفتگو ہونے کا اشارہ ملتا ہے۔ مسندِ احمد کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرو کی حضور سے ملاقات مکہ کے بازار عکاظ میں ہوئی تھی۔ مسندِ احمد کی ایک دوسری روایت میں یہ دونوں مضامین یکجا ہیں۔ یعنی اس میں زیرِ بحث روایت بھی تقریباً انھی الفاظ میں موجود ہے اور نماز والی گفتگو بھی پوری روایت ہوئی ہے،البتہ اس میں وضو والا حصہ مروی نہیں ہے اور نہ مکہ کی ملاقات کا پس منظرہی بیان ہوا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرو نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک طویل گفتگو کی تھی۔ اس کے بعض حصے ہی مختلف روایتوں کی صورت میں نقل ہوئے ہیں۔
روایت میں موجود قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرو رضی اللہ عنہ نے مدینہ کی طرف یہ سفر فتح مکہ سے پہلے صلح حدیبیہ کے زمانے میں کیا ہے۔ اس لیے کہ یہی وہ زمانہ ہے جب لوگ تیزی سے اسلام قبول کر رہے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں اہل ِمکہ کی ناکامی واضح ہو چکی تھی۔
اس روایت کا پہلا جملہ حضرت عمرو کی مکہ میں ملاقات سے متعلق ہے۔ اس سوال و جواب سے حضورکی سیرت کے ایک پہلو پر روشنی پڑتی ہے۔ آپ نے اس قبائلی معاشرت میں جہاں اعلیٰ خاندان سے نسبت میں عظمت کا تصور بہت قوی تھا اور غلاموں کے حالات اور ان کی سماجی حیثیت بہت بری تھی اور جس میں غلاموں اور غربا کا ساتھ ایک طعنے کی حیثیت رکھتا تھا،وہاں یہ بات بیان کرنے میں کوئی حجاب یا دقت محسوس نہیں کی کہ میرے پیغام کو ماننے والوں میں غلام بھی شامل ہیں۔ باقی روایت اس گفتگوسے مقتبس ہے جو انھوں نے مدینہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کی تھی۔اس گفتگو میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کے باطنی اور اخلاقی پہلو کو واضح کیا ہے۔
یہ بات متون کے مطالعے سے واضح ہو چکی ہے کہ حضرت عمرو زمانہ ٔ جاہلیت ہی میں بتوں اور مشرکانہ رسوم کی غلطی سے واقف تھے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں جو گفتگو کی تھی،اس میں توحید و شرک کی بنیادی تعلیم کو بھی بیان کیا تھا۔ لیکن مدینہ میں اسے بیان کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ہم حدیثِ جبریل میں دیکھ چکے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’ماالاسلام ؟‘ (اسلام کیا ہے)کے جواب میں اسلام کے ارکانِ خمسہ کا ذکر کیا تھا،جبکہ حضرت عمرو کے اسی سوال کے جواب میں اخلاقِ عالیہ کا ذکر کیا ہے۔ وہاں حضور کے سامنے دین کی وضاحت کا مقصد تھا اور اس موقع پر آپ کا مقصدوہ خصوصیات واضح کرنا ہے جو دین کو اپنانے کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں۔ ’طیب الکلام ‘ بات چیت میں آنے والی تبدیلی کا سرِ عنوان ہے اور ’اطعام الطعام‘ لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے میں سرگرم ہونے کی علامت ہے۔ قرآنِ مجید میں دو مقامات پر ان امور کی اس اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے جس کے باعث نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ’ما الاسلام‘ کے سوال کے جواب میں بیان کیا ہے۔ سورۂ بقرہ میں ارشاد ہے :
وَاِذْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَ بَنِيْ٘ اِسْرَآءِيْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَﵴ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا وَّذِي الْقُرْبٰي وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا . (البقرۃ۲ : ۸۳)
’’اور یاد کرو، جب ہم نے بنی اسرائیل سے ان کا عہد لیا کہ وہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں گے، والدین سے، قرابت داروں سے یتیموں اور محتاجوں سے اچھا برتاؤ کریں گے۔‘‘
اس آیۂ کریمہ میں ان امور کے اختیار کرنے کے لیے ان کی اہمیت ’میثاق ‘کے لفظ سے واضح کی گئی ہے۔ سورۂ بلد میں انھی امور کو ایک گھاٹی قرار دیا گیا ہے، جسے سر کیے بغیر کامیابی ملنا مشکل ہے۔ ارشاد ہے :
وَمَا٘ اَدْرٰىكَ مَا الْعَقَبَةُ. فَكُّ رَقَبَةٍ. اَوْ اِطْعٰمٌ فِيْ يَوْمٍ ذِيْ مَسْغَبَةٍ. يَّتِيْمًا ذَا مَقْرَبَةٍ. اَوْ مِسْكِيْنًا ذَا مَتْرَبَةٍ. (البلد ۹۰ : ۱۲ -۱۶)
’’ اور تم کیا سمجھے کہ وہ گھاٹی کیا ہے؟ (یہی کہ) گردن چھڑائی جائے اور بھوک کے دن کسی قرابت مند یتیم یا کسی خاک آلود مسکین کو کھانا کھلایا جائے۔‘‘
اگلا سوال ایمان سے متعلق ہے۔ حدیثِ جبریل میں آپ نے ان مابعد الطبیعیاتی حقائق کی تفصیل کی ہے جن کو ماننا مسلمان ہونے کے لیے ضروری ہے۔ اور یہاں ان حقائق کو ماننے کے تقاضے پورے کرنے کے لیے ضروری صفات کو بیان کیا ہے۔ ان میں پہلی چیز صبر ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے صبر کے دینی پہلو کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’( صبر کے معنی نفس کو گھبراہٹ اور مایوسی سے بچا کر رکھنے اور دل برداشتہ ہوئے بغیر اپنے موقف پر جمے رہنے کے ہیں) قرآنِ مجید میں اس حقیقت نے کچھ زیادہ پاکیزہ صورت اختیار کرلی ہے۔ یعنی قرآن میں عموماً اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ بندہ پوری طمانیتِ قلب کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے عہد پر ڈٹا رہے۔ اور اس کے وعدوں پر یقین رکھے۔ اور اس راہ میں اس کو جن مشکلات سے بھی دوچار ہونا پڑے ان کو پرِکاہ کے برابر بھی وقعت نہ دے۔‘‘ (تدبرِ قرآن، ج ۱، ص ۱۸۸ )
اس کے ساتھ ’سماحة‘ کا لفظ آیا ہے۔اگرچہ اسے سخاوت کامترادف مانا جاتا ہے، لیکن اس سے محض مال خرچ کرنے کے معاملے میں فیاضی مراد نہیں ہوتی،بلکہ اس سے معاملات کرنے میں اعلیٰ ظرفی کا اظہار مراد ہوتا ہے۔ یہی چیز جب محتاجوں کی مدد میں نمایاں ہوتی ہے تو سخاوت اور جب قصور والوں سے معاملہ کرنے میں سامنے آتی ہے تو عفو و درگزر اور جود و کرم بن جاتی ہے۔
اوپر سورۂ بلد میں جہاں غریبوں اور محتاجوں کی مدد کو گھاٹی قرار دیا گیا ہے،وہیں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس کے علاوہ ان میں دو خوبیاں اور بھی ہوں گی :
ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ. اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ الْمَيْمَنَةِ. (البلد ۹۰ : ۱۷- ۱۸)
’’ پھر آدمی ان میں سے ہو جو ایمان لائے اور جنھوں نے ایک دوسرے کو (اس پر ) ثابت قدمی کی نصیحت کی اور (دوسرے سے) ہمدردی کی نصیحت کی۔ یہی خوش بخت ہیں۔‘‘
اس آیۂ کریمہ میں ’سماحة‘ ہی کے ایک پہلو کو ’مرحمة‘ کے لفظ سے بیان کیا گیا ہے۔ اس طرح اس کا دوسرا پہلو اور اس کی عظمت جس کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایمان سے تعبیر کیا ہے سورۂ حم السجدہ سے سمجھ میں آتی ہے :
وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُﵧ اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ. وَمَا يُلَقّٰىهَا٘ اِلَّا الَّذِيْنَ صَبَرُوْاﵐ وَمَا يُلَقّٰىهَا٘ اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِيْمٍ.(۴۱ : ۳۴- ۳۵)
’’اور بھلائی اور برائی دونوں یکساں نہیں ہیں۔ تم برائی کو اس چیز سے دفع کرو جو زیادہ بہتر ہے تو تم دیکھو گے کہ وہ جس کے اور تمھارے درمیان عداوت ہے، گویا ایک سرگرم دوست بن گیا ہے اور یہ دانش نہیں ملتی مگر ثابت قدم رہنے والوں کو اور یہ حکمت نہیں ملتی مگر نصیبہ وروں کو۔‘‘
عفوودرگزر، جود و سخا اور حوصلہ مندی اور استقلال ایک گہرے کردار کے مظہر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ایمان کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔
اس کے بعد حضرت عمرو بن عبسہ نے اپنے انھی سوالات کو ایک دوسرے انداز میں دہرایا ہے۔ ’ماالاسلام‘ کے جواب میں انھیں اصولی بات بتائی گئی تھی۔ اب انھوں نے ’ای الاسلام افضل‘ پوچھ کر اس میں نقطہ ٔ کمال کو جاننا چاہا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جواب اسی پہلو سے دیا ہے۔ زبان اور ہاتھ کی تعدی سے اپنے آپ کو روک لینا ساری اخلاقیات کی بنیاد ہے۔یہ اخلاق کی ترقی کا نقطۂ آغاز بھی ہے اور نقطۂ کمال بھی۔اس کے بعد حضرت عمرو نے ایمان میں کمال کے بارے میں دریافت کیا۔ ’ما الایمان ‘کے جواب میں آپ نے استقامت اور عالی ظرفی کوایمان کا باطنی مظہر قرار دیا تھا۔ بہترین ایمان کیا ہے ؟کے سوال پر آپ نے ’خلق حسن ‘کے الفاظ سے واضح کیا ہے کہ ایمان کی بہترین حالت کا اظہار اعلیٰ اخلاق سے ہوتا ہے۔
حضرت عمرو بات کو آگے بڑھاتے ہوئے دین کے عملی احکام پر عمل میں کمال کے پہلو دریافت کرتے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے پہلا سوال نماز کے بارے میں کیا ہے۔ آپ نے نماز کے داخلی پہلو میں مطلوب امر کو بیان فرمایا۔’قنوت‘ کا لفظ دل کی حاضری، اطاعت و انقیاد اور خشوع و خضوع کو بیان کرتا ہے۔ سورۂ بقرہ میں اسے نماز کے ضروری ادب کی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے :
حَافِظُوْا عَلَي الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوةِ الْوُسْطٰيﵯ وَقُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِيْنَ.(البقرہ ۲: ۲۳۸)
’’ نمازوں کی نگہداشت رکھو، خاص طور پر بیچ کی نماز کی اورنمازوں میں خدا کے حضور فرماں بردارانہ کھڑے رہو۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی پر ’طول‘ کا اضافہ کیا ہے۔ظاہر ہے، جو نمازقنوت کی اس کیفیت کے ساتھ طویل بھی ہوگی،وہی نماز بہترین نماز قرار پائے گی۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ ہجرت فرمانے کے بعد مدینہ کی طرف ہجرت نے دین کے ایک اہم مطالبے کی حیثیت اختیار کر لی تھی۔حضرت عمرو نے یہ جاننا چاہا ہے کہ یہ عمل بہترین صورت میں کیسے ادا ہو سکتا ہے۔ آپ نے فرمایا : ان امور کو چھوڑ دینا جو اللہ تعالیٰ کو نا پسندیدہ ہیں ہجرت کے عمل کو اس کے کمال تک پہنچا دیتے ہیں۔
اگلا سوال جہاد سے متعلق ہے۔ بہترین جہاد، ظاہر ہے، اسی کا ہے جس نے دشمن کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کے لیے کسی خطرے کی پروا نہ کی ہو۔ جو شخص اس طرح مردانہ وار لڑتا ہے وہ خود بھی اور اس کی سواری بھی تلواروں، نیزوں اور تیروں کی اس جنگ میں کام آ جائے گی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی مآلِ کار کو سامنے رکھ کرجواب دیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انجام بیان کیا ہے۔ لیکن اس سے مجاہد کی جرأت و پامردی واضح ہوتی ہے۔ اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انجام بیان کر کے مطلوب رویے کو بتانے کا خوب صورت اسلوب اختیار کیا ہے۔
آخری سوال خدا کے حضور میں حاضری کے بہترین وقت کے بارے میں ہے۔آپ نے فرمایا :آخر شب۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد قرآنِ مجید سے ماخوذ ہے۔ ارشاد ِباری تعالیٰ ہے :
اِنَّ نَاشِئَةَ الَّيْلِ هِيَ اَشَدُّ وَطْاً وَّاَقْوَمُ قِيْلًا. (مزمل ۷۳ : ۶ )
’’ اس میں شبہ نہیں کہ یہ رات کا اٹھنا، دل جمعی اور بات کی درستی کے لیے موزوں ہے۔‘‘
اس آیہ ٔ کریمہ میں آخرِ شب کے قیام کی دو خصوصیات بیان کی گئی ہیں : ایک یہ کہ یہ وقت یکسوئی اور دل کے سکون کے لیے انتہائی موزوں ہے۔ دوسرے یہ کہ اس کے نتیجے کے طور پر تلاوتِ قرآن سے جو تہجد کا سب سے نمایاں جزہے، پوری طرح مستفید ہونے کے لیے خاص اہمیت رکھتا ہے۔ علاوہ ازیں تنہائی اور دنیا کے شور و شغب سے پاک ماحول کے باعث توبہ و استغفار اور دعا و مناجات کے لیے بھی یہ وقت خاص تاثیر رکھتا ہے۔
اس روایت کے مندرجات کو مجموعی طور پر دیکھیں تو یہ بات بہت نمایاں طور پر سامنے آتی ہے کہ حضرت عمر و دین کے حقائق سے پوری طرح واقف ہیں۔وہ ان کی دین میں حیثیت اور ان کے عملی پہلوؤں سے بھی آگاہ ہیں۔ چنانچہ ان کی تمام گفتگو ان کے داخلی پہلو کو جاننے کے بارے میں تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو توضیحات کی ہیں ان میں بنیادی نکات کی حیثیت دو امور کو حاصل ہے۔ ایک نکتہ اخلاق کی درستی کا ہے اور دوسرا نیت کی درستی اور خدا کی رضاکے عمیق جذبے کے تحت پیدا ہونے والی مسابقت، ہمت، جوش اور ہر ہر تقاضے کو پورا کرنے کی لگن کا ہے۔یہی وہ چیز ہے جسے قرآنِ مجید میں ’احسان‘ کہا گیا ہے۔
اس روایت کے متون کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرو کو اہل ِدین میں شامل ہونے سے روک دیا تھا اور انھیں اپنے غلبے کے انتظار کا مشورہ دیا تھا۔ اس سے اگرچہ یہ بات تو واضح ہوتی ہے کہ حضور کو اپنے کام کے نتیجہ خیز ہونے کا یقین تھا لیکن سوال یہ ہے کہ ایک شخص کے علانیہ دین قبول کرنے سے روک دینے میں کیا مصلحت تھی ؟جس مصلحت کو روایت میں بیان کیا گیا ہے وہ مصلحت خود اہلِ مکہ کے لیے زیادہ قابلِ لحاظ تھی۔ خاص طور پر ان اہلِ مکہ کے لیے جو کمزور طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور جو سب سے زیادہ مصائب کا سامنا کر رہے تھے۔
بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ مکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود موجود تھے اور معرکۂ حق و باطل اصلاً وہیں برپا تھا۔ باہر کے لوگوں کو آپ نے عرصے تک یہی نصیحت کی، اس لیے کہ ان کے علاقوں اور قبیلوں میں اس کے نتیجے میں بڑی مشکلات پیدا ہو سکتی تھیں اور اس کا مواجہہ کرنے کے لیے انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی براہِ راست رہنمائی بھی حاصل نہیں تھی۔ غالباً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیشِ نظر یہی مصلحت تھی۔
مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا، باب ۵۱۔ نسائی، کتاب المواقیت، باب ۳۵، باب ۴۰۔ ابنِ ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنتہ فیھا،باب ۱۴۸، باب۱۸۲۔ترمذی، کتاب الدعوات، باب۷۱۔مسندِاحمد عن عمرو بن عبسۃ۔
___________