البیان
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَي الْكِتٰبَ وَقَفَّيْنَا مِنْۣ بَعْدِهٖ بِالرُّسُلِﵟ وَاٰتَيْنَا عِيْسَي ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنٰتِ وَاَيَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِﵧ اَفَكُلَّمَا جَآءَكُمْ رَسُوْلٌۣ بِمَا لَا تَهْوٰ٘ي اَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْﵐ فَفَرِيْقًا كَذَّبْتُمْﵟ وَفَرِيْقًا تَقْتُلُوْنَ ٨٧ وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌﵧ بَلْ لَّعَنَهُمُ اللّٰهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِيْلًا مَّا يُؤْمِنُوْنَ ٨٨
اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اس کے پیچھے پے در پے اپنے پیغمبر ا[214]بھیجے [215]اور مریم کے بیٹے عیسیٰ کو (اِن سب کے بعد کھلی کھلی نشانیاں دیں اور روح القدس [216]سے اُس کی تائید کی [217](تو جانتے ہو کہ ان سب کے ساتھ تمھارا رویہ کیا رہا)؟ پھر کیا یہی ہوگا کہ جب بھی (ہمارا) کوئی پیغمبر وہ باتیں لے کر تمھارے پاس آئے گا جو تمھاری خواہشوں کے خلاف ہوں گی ، تو تم (اُس کے سامنے) تکبر ہی کرو گے ؟ سو یہی ہوا کہ (ہمارے پیغمبروں میں سے) ایک گروہ کو تم نے جھٹلا دیا اور ایک گروہ کو قتل کرتے رہے ـــــ اور (یہ وہ لوگ ہیں کہ) اِنھوں نے کہا : ہمارے دلوں پر غلاف ہیں [218]۔ نہیں ، بلکہ ان کے اِس کفر کے باعث اللہ نے ان پر لعنت کر دی ہے [219]، اِس لیے (اب) یہ کم ہی مانیں گے۔ ۸۷ - ۸۸
وَلَمَّا جَآءَهُمْ كِتٰبٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْﶈ وَكَانُوْا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَي الَّذِيْنَ كَفَرُوْاﵐ فَلَمَّا جَآءَهُمْ مَّا عَرَفُوْا كَفَرُوْا بِهٖﵟ فَلَعْنَةُ اللّٰهِ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ ٨٩ بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِهٖ٘ اَنْفُسَهُمْ اَنْ يَّكْفُرُوْا بِمَا٘ اَنْزَلَ اللّٰهُ بَغْيًا اَنْ يُّنَزِّلَ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ عَلٰي مَنْ يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖﵐ فَبَآءُوْ بِغَضَبٍ عَلٰي غَضَبٍﵧ وَلِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ ٩٠
اور (یہ وہ لوگ ہیں کہ) جب اللہ کی طرف سے ایک کتاب[220] اِن کے پاس آئی ، اُن پیشین گوئیوں کی تصدیق میں جو اِن کے ہاں موجود ہیں ، اور اِس سے پہلے یہ (اُسی کے حوالے سے) اپنے دین کا انکار کرنے والوں کے خلاف فتح کی دعائیں مانگ رہے تھے[221]۔پھر جب وہ چیز ان کے پاس آئی جسے خوب پہچانے ہوئے تھے تو یہ اُس کے منکر ہو گئے۔ سو اللہ کی لعنت ہے اِن منکروں پر ۔ کیا ہی بری ہے وہ چیز جس کے بدلے میں اِنھوں نے اپنے آپ کو بیچ دیا [222] کہ محض اِس بات کی ضد [223] میں کہ اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے اپنا فضل اتارے ، یہ اُس چیز کا انکار کر دیں جو اللہ نے اتاری ہے ۔ سو وہ غضب پر غضب کما لائے [224] اور اِن منکروں کے لیے بڑی ذلت کا عذاب ہے۔ ۸۹- ۹۰
[214]۔ اصل میں لفظ ’الرسل‘ آیا ہے۔ یہ نبوت سے آگے ایک خاص منصب کے حاملین کے لیے بھی آتا ہے اور خدا کے فرستادوں کے لیے ایک عام لفظ کے طور پر بھی۔ قرآن میں جبریلِ امین کو اسی دوسرے معنی میں ’ر سول كريم‘کہا گیا ہے۔ یہ معلوم ہے کہ پہلے معنی میں رسول کی حیثیت بنی اسرائیل کے لیے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے بعد صرف حضرت مسیح کو حاصل تھی۔ اس وجہ سے یہ بالکل قطعی ہے کہ یہاں یہ لفظ دوسرے معنی میں استعمال ہوا ہے اور اس سے مراد انبیاے بنی اسرائیل ہیں۔
[215]۔ یعنی اوپر جس عہد کا ذکر ہوا ہے، اس کی یاددہانی کے لیے پھر ہم نے تمھارے اندر سلسلۂ نبوت کو بغیر کسی انقطاع کے قائم رکھنے کا یہ اہتمام بھی کیا۔
[216]۔ پرانے صحیفوں میں ’الروح القدس ‘سے جبریل امین مراد لیے جاتے ہیں ۔
[217]۔ سیدنا مسیح علیہ السلام کے لیے روح القدس کی تائید کا یہ ذکر اس لیے کیا جاتا ہے کہ اُن سے جوکھلے کھلے معجزے صادر ہوئے ، یہود نے اپنی بد بختی کے باعث انھیں بدروحوں کے سردار بعلز بول کی تائید کا نتیجہ قرار دیا۔ متی باب ۱۲ میں ہے:
’’اس وقت اس کے پاس لوگ ایک اندھے گونگے کو لائے جس میں بدروح تھی۔ اُس نے اسے اچھا کر دیا۔ چنانچہ وہ گونگا بولنے اور دیکھنے لگا اور ساری بھیڑ حیران ہو کر کہنے لگی کہ کیا یہ ابنِ داؤد ہے۔ فریسیوں نے سن کر کہا: یہ بدروحوں کے سردار بعلز بول کی مدد کے بغیر بدروحوں کو نہیں نکالتا۔ اس نے اُن کے خیالوں کو جان کر اُن سے کہا: جس بادشاہی میں پھوٹ پڑ جاتی ہے، وہ ویران ہو جاتی ہے اور جس گھر یا شہر میں پھوٹ پڑے گی، وہ قائم نہ رہے گا۔ اور اگر شیطان ہی نے شیطان کو نکالا تو وہ آپ اپنا مخالف ہو گیا۔ پھر اس کی بادشاہی کیوں کر قائم رہے گی۔ اور اگر میں بعلز بول کی مدد سے بدروحوں کو نکالتا ہوں تو تمھارے بیٹے کس کی مدد سے نکالتے ہیں ؟ پس وہی تمھارے منصف ہوں گے، لیکن اگر میں خدا کی روح کی مدد سے بدروحوں کو نکالتا ہوں تو خدا کی بادشاہی تمھارے پاس آ پہنچی۔ یا کیوں کر کوئی آدمی کسی زورآور کے گھر گھس کر اُس کا اسباب لوٹ سکتا ہے، جب تک کہ پہلے اس زورآور کو نہ باندھ لے۔ پھر وہ اُس کا گھر لوٹ لے گا۔ جو میرے ساتھ نہیں، وہ میرے خلاف ہے۔ جو میرے ساتھ جمع نہیں کرتا، وہ بکھیرتا ہے۔ اس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ آدمیوں کا ہر گناہ اور کفر تو معاف کیا جائے گا، مگر جو کفر روح کے حق میں ہے، وہ معاف نہ کیا جائے گا۔ اور جو کوئی ابنِ آدم کے برخلاف کوئی بات کہے گا، تو وہ تو معاف کی جائے گی، لیکن جو کوئی روح القدس کے خلاف کوئی بات کہے گا، وہ معاف نہ کی جائے گی، نہ اِس عالم میں اور نہ اُس آنے والے عالم میں۔ یا تو درخت کو بھی اچھا کہو اور اُس کے پھل کو بھی اچھا۔ یا درخت کو بھی برا کہو اور اس کے پھل کو بھی برا ، کیوں کہ درخت پھل ہی سے پہچانا جاتا ہے۔‘‘ ( ۲۲ - ۲۳)
[218]۔ اُن کی اس بات کا مطلب یہ تھا کہ اِس پیغمبر کی باتوں کے لیے ہمارے دل بند ہیں ، اس لیے کہ ان کی باتیں ہی ایسی ہیں جو کسی معقول آدمی کے دل میں نہیں اتر سکتیں۔ اگر ان میں کچھ بھی معقولیت ہوتی تو سب سے بڑھ کر ہم انھیں قبول کرتے۔
[219]۔ یعنی پیغمبر جو باتیں ان کے سامنے پیش کر رہے ہیں ، وہ ہرگز ایسی نہیں ہیں۔ وہ تو نہایت معقول اور دل میں اترنے والی باتیں ہیں، لیکن اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کے باعث یہ اُن کو سمجھنے اور ماننے کی صلاحیت سے محروم ہو گئے ہیں، اس لیے کفر کا ارتکاب کر رہے ہیں اور اس کی پاداش میں اللہ نے ان پر لعنت کر دی ہے۔
[220]۔ یعنی قرآنِ مجید ۔
[221]۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآنِ مجید کے بارے میں جو پیشین گوئیاں یہود کے ہاں موجود تھیں ، اُن کی بنا پر انھیں امید تھی کہ جب ان کا ظہور ہو گا تو ان کی بد بختی کے دن دور ہو جائیں گے اور ان کے دشمنوں پر انھیں فتح حاصل ہو گی۔ چنانچہ اس حوالے سے وہ فتح کی دعائیں مانگتے تھے ۔
[222]۔ مطلب یہ ہے کہ اپنی ضد قائم ر کھی اور اس بات کی کوئی پروا نہیں کی کہ اس طرح وہ اپنے آپ کو دوزخ کے حوالے کر رہے ہیں ۔ گویا یہ ضد انھیں ایسی عزیز ہو گئی کہ اس سے انھوں نے اپنی جانوں کا مبادلہ کر لیا۔
[223]۔ یعنی محض اس ضد کی بنا پر کہ یہ قرآن بنی اسمٰعیل پر کیوں اترا ہے، خود ان کے اندر کسی پیغمبر پر کیوں نہیں اترا۔
[224]۔ غضب پر غضب کے معنی یہ ہیں کہ سیدنا موسی علیہ السلام کی وساطت سے خدا کے ساتھ باندھا ہوا اپنا عہد توڑ دینے کے باعث مغضوب تو وہ پہلے ہی تھے، لیکن قرآن کے ذریعے سے جب ایک مرتبہ پھر انھیں اس عہد میں داخل ہونے کا موقع ملا اور انھوں نے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا تو ایک کے بعد اب وہ دوسرے غضب کے بھی مستحق ہو گئے ہیں۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ