محمد بلال
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ یہودی دس محرم کو روزہ رکھتے ہیں۔ آپ کے دریافت کرنے پر یہودیوں نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ اس روز حضرت موسیٰ اور ان کی قوم کو خدا نے فرعون کی غلامی سے نجات دی تھی، اس لیے حضرت موسیٰ اس روز شکرِ خداوندی کے اظہار کے لیے روزہ رکھتے تھے۔ لہٰذا ہم بھی یہ روزہ رکھتے ہیں۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم تم لوگوں سے اس بات کے زیادہ حق دار ہیں کہ حضرت موسیٰ کی پیروی کریں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روز خود روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی اس کی ہدایت کی اور (یہودیوں کی مشابہت سے بچنے کے لیے) آپ نے فرمایا کہ اگر میں اگلے سال زندہ رہا تو نو محرم کو بھی روزہ رکھوں گا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے نظریات اور اپنے قومی تشخص کے معاملے میں ہمیشہ حساس رہنا چاہیے ۔ خاص طور پر غیر مسلموں کے کسی تہوار کو اختیار کرتے ہوئے اس کے فلسفے کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے، مگر ہمارے معاشرے میں، بالخصوص ہمارے ذرائع ابلاغ میں اس بات کو کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں ہے۔
اکرام اللہ صاحب اپنے کالم ’’نئے ملینیم کا جشنِ بہاراں‘‘ میں بسنت کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے پاکستان کے وجود میں آنے سے پہلے شمالی ہند میں جس میں زیادہ تر متحدہ پنجاب کے علاقہ جات شامل تھے ، بسنت اکثر و بیشتر دیوالی اور ہولی کے تہواروں کی طرح ہندو اور سکھ طبقات جوش و خروش سے مناتے تھے اور جہاں تک پتنگ اڑانے کا تعلق ہے ، یہ مشغلہ زیادہ تر بچوں اور لڑکوں تک محدود تھا۔ دیہات میں ’’آئی بسنت پالا اڑنت‘‘ کی تھاپ پر ڈھول بجتے تھے جس پر دیسی شراب پی کر سکھ نوجوان بھنگڑا ڈالتے تھے۔ ۱۹۴۷ء تک اس عمل میں کوئی قابلِ ذکر ارتقا نہیں ہوا۔ بلکہ پاکستان کے وجود میں آنے کے دوران میں ہندو مسلم فسادات اور خصوصی طور پر مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کے خون کی جو ہولی کھیلی گئی اور ہزاروں مسلمان خواتین کی عصمتیں لوٹی گئیں ، اس کے ایک قدرتی اور فطری قومی ردِعمل کے طور پر ہولی اور دیوالی کی طرح بسنت کا تہوار بھی تقریباً ختم ہو گیا۔ جس طرح وقت بہت سے زخموں پر مرہم لگا دیتا ہے ، اسی طرح گزشتہ دہائی کے دوران جب ماضی کی حکومتوں نے بھارت کے ساتھ پینگیں بڑھانے کا سلسلہ جاری کیا تو اس کا سماجی اور ثقافتی سطح پر بھی اثر پڑنا ناگزیر تھا ، چنانچہ بھارتی فلموں اور گانوں کی مقبولیت کے ساتھ لاہور کی فضاؤں میں جہاں زمین پر رنگا رنگ کی ساڑھیوں اور عروسی لباس کو فروغ ملا وہاں آسمان پر رنگا رنگ کی پتنگیں بھی ایک نئے ولولے کے ساتھ نمودار ہونا شروع ہو گئیں ۔ لاہور کے شاہی محلے ، ملحقہ رئیسوں کی حویلیاں پتنگ بازی کو رومانی رنگ دینے کا مرکز بن گئیں اور بسنت کی پتنگیں رات کی چکا چوند اور حسن و جمال کی آمیزش کا ایک بہانہ بن گئیں ۔ آہستہ آہستہ پتنگ بازی کے ساتھ شباب و کباب کا یہ سلسلہ شاہی محلے کی حویلیوں سے نکل کر فائیو اسٹار ہوٹلوں کی چھتوں تک جا پہنچا ۔‘‘
اپنے اسی کالم میں اکرام اللہ صاحب ویلنٹائن ڈے کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’گذشتہ دنوں شہر لاہور کے علاوہ پاکستان کے دیگر بڑے شہروں میں پہلی دفعہ ویلنٹائن ڈے بھی بڑے جوش و خروش سے منایا گیا اور ملکی سطح پر کروڑوں روپے کے تحائف کا تبادلہ کیا گیا ۔ کہا گیا کہ یہ محبت کے اظہار کا ایک خصوصی دن ہے ، جبکہ پاکستانی قوم کے اکثر و بیشتر لوگ نہ ہی اس خصوصی دن کی اہمیت سے آشنا ہیں اور نہ ہی اپنے معاشرہ اور مذہبی روایات و تعلیمات سے انھوں نے باہمی پیار و محبت کا کوئی درس سیکھا ہے ۔ بہرحال ویلنٹائن ڈے جواں سال اہلِ دل کا یوم ہے ۔ ہمارے اخبارات نے اسے بھی قومی دن بنا دیا ہے ۔ اخبار تو کسی طرح بیچنا ہوتا ہے ، لیکن نئی ہزاری میں کرۂ ارض چونکہ ایک گلوبل ویلیج میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے ، اس لیے شرق و غرب میں اسی معاشرے کا غلبہ ہو گا جس کے ذرائع ابلاغ دوسروں کی نسبت زیادہ طاقت ور ہوں گے ۔ ویلنٹائن ڈے اور پتنگ بازی کے جشنِ بہاراں کے بعد مجھے صاف نظر آ رہا ہے کہ نئے میلینیم میں مغرب کی قوموں کے ساتھ کندھا رگڑنے کے شوق میں ہمارا معاشرہ بھی جدید وطیرے اور رسم ورواج کی تلاش میں سرگرداں ہو جائے گا۔‘‘( نواے وقت ۲۱ فروری ۲۰۰۰ ء)
بسنت کی ابتدا کے حوالے سے جو کچھ اکرام اللہ صاحب نے لکھا ہے ، وہ ملی اور قومی شعور رکھنے والوں کے لیے بہت قابلِ غور ہے ۔
ویلنٹائن ڈے [1] (عاشقوں کا تہوار Lover's Festival ) تو ہماری تہذیب کے لیے بالکل ایک اجنبی ، بلکہ ایک پہلو سے دیکھیں تو بہت مضر چیز ہے ، مگر ہمارے اخبارات نے اس کو اپنے صفحات پر بہت نمایاں اور اس طرح جگہ دی جیسے وہ اس معاشرے کی عکاسی کر رہے ہیں۔
ویلٹنائن ڈے کے حوالے سے محمد عطاء اللہ صدیقی صاحب لکھتے ہیں:
’’مغرب میں ’محبت‘ کا تصور و مفہوم یکسر مختلف ہے ۔ جس جذبے کو وہاں ’محبت‘ (Love) کا نام دیا جاتا ہے ، وہ درحقیقت بوالہوسی (Lust) ہے ۔ مغرب کے تہذیبی اہداف میں جنسی ہوس ناکی اور جنسی باؤلاپن کی تسکین کی خاطر مردوزن کے آزادانہ اختلاط کو بھر پور ہوا دینا ہے ۔ اس معاشرے میں عشق اور فسق میں کوئی فرق روا نہیں رکھا جاتا ۔ مرد و زن کی باہمی رضا مندی ہر طرح کی شہوت رانی اور زنا کاری وہاں محبت (Love) ہی کہلاتی ہے ۔ اسی طرح ویلنٹائن ڈے منانے والوں کی جانب سے محبت (Love) کا لفظ جنسی بے راہ روی کے لیے بطورِ استعارہ استعمال ہوتا ہے ۔‘‘ (ماہنامہ ’’محدث‘‘ مارچ ۲۰۰۰ء)
یہ بات افسوس ناک ہی نہیں ، تشویش انگیز بھی ہے کہ ہمارے ذرائع ابلاغ ایسی اقدار کو فروغ دے رہے ہیں جو ملک و ملت کے لیے کسی بھی طرح موزوں نہیں ہیں ۔
بسنت ہی کو لیں ۔ بسنت پر سنجیدہ طبقات کی جانب سے بہت اچھی تنقید کی گئی ، مگر اخبارات نے اس تنقید کو بہت کم اہمیت دی اور جن ’’من چلوں‘‘ نے انسانی ، اخلاقی اور دینی حدود کو پامال کرتے ہوئے بسنت منائی ، ان کی سرگرمیوں کو بڑے دل کش انداز میں اور بہت نمایاں مقامات پر شائع کیا گیا ۔ قومی سطح کے من چلے اخبارات کے ساتھ ساتھ وہ اخبارات جو اپنے آپ کو ’’نظریاتی‘‘ کہتے ہیں ، انھوں نے بھی اس گنگا سے پوری طرح اشنان کیا اور چھتوں پر محوِ رقص خواتین کی رنگین تصویروں کو پہلے صفحے پر شائع کر کے ’’نظریۂ پاکستان‘‘ کا بھر پور دفاع کیا ـــــــــ ایک دفعہ میں نے ایک سنجیدہ رسالے میں صحافت کے بارے میں ایک تنقیدی تحریر پڑھی ۔ اس تحریر میں موجودہ صحافت کو ’’دھندہ‘‘ لکھا گیا تھا ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ موجود صحافت کا جو رنگ ڈھنگ ہے ، اس کے بعض اجزا کے بارے میں لفظ ’’دھندہ‘‘ کا استعمال بالکل موزوں ہے ـــــــــ اسی طرح دوسرے ’’قومی‘‘ ذرائع ابلاغ نے بھی اس ضمن میں افسوس ناک کردار ادا کیا۔
اس میں شبہ نہیں کہ تفریح انسان کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر تہذیب میں کسی نہ کسی بہانے سے انسان اپنے لیے فرحت و تفریح کا اہتمام کر لیتا ہے ۔ بسنت کے حوالے سے غور کیجیے تو موسم میں غیر معمولی طور پر خوش گوار تغیر لوگوں کو غیر معمولی خوشی سے ہم کنار کرتا ہے ۔ جس طرح ایک گل دستہ ایک کمرے کو مہکا دیتا ہے ، اسی طرح بہار کا موسم سارے ملک کو مہکا دیتا ہے ۔ باہر کے رنگ اور اندر کے ترنگ سے جذبات میں جو ارتعاش پیدا ہوتا ہے ، وہ اپنا نکاس اور انعکاس چاہتا ہے ۔ بسنت پر ہمارے ہاں جو کچھ ہوتا ہے ، اس کے پیچھے یہی انسانی ضرورت کارفرما ہوتی ہے ، مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ موسم میں یہ خوش گوار تغیر عالم کا پروردگار لاتا ہے ۔ پھولوں میں خوش بو اور گیہوں کی بالیوں میں دانے پروردگار ہی پیدا کرتا ہے ۔ چنانچہ ضروری ہے کہ اس موقع پر شکرِ خداوندی کا اظہار سب سے پہلے کیا جائے ۔
ان حقائق کو مدِ نظر رکھ کر ایسے تہذیبی مظاہر وجود میں لانے ، جی ہاں لانے چاہییں جو انسان کی فطرت اور خدا کی شریعت، دونوں کے تقاضوں کی تکمیل کا سامان اپنے اندر رکھتے ہوں۔
یہ ایک امرِ واقعی ہے کہ انسانی تہذیب و تمدن کے وجود میں آنے کا ایک سبب خوں خوار جانور اور زہریلے کیڑے بھی ہیں ۔ انسان نے خود کو ان کے ضرر سے بچانے کے لیے گھر بنائے ، شہر آباد کیے اور حصار قائم کیے ۔ اس بات سے کوئی عاقل انکار نہیں کر سکتا کہ بسنت کے اندر بھی انسان کو مادی ، جسمانی اور اخلاقی نقصان پہنچانے کے اجزا موجود ہیں ۔ اس کے علاوہ اس موقع پر عالم کے پروردگار کو جو یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے ، اس کا اخروی ضرر الگ ہے ۔
یہ بات صحیح ہے کہ تہذیب و تمدن ، دین کا نہیں بلکہ دین ، تہذیب و تمدن کا جز ہوتا ہے ۔ دین بنیادی رہنمائی دیتا ہے ۔ کچھ پابندیاں عائد کرتا ہے ، پھر آزاد چھوڑ دیتا ہے ۔ دو اسلامی معاشروں میں تہذیب و تمدن اور رسوم و رواج کا فرق ہو سکتا ہے ، لہٰذا مذکورہ تہذیبی مظاہر کو وجود میں لاتے وقت لوگوں کو یہ ’’آزادی‘‘ ضرور دینی چاہیے۔
اس ضمن میں موجودہ ذرائع ابلاغ کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں؟ وہ منکرات کو چھوڑ کر معروفات کا فروغ کرسکتے ہیں ؟ وہ حیات و کائنات میں خدا کی کارفرمائی کو دیکھ سکتے ہیں ؟ اس کے بارے میں یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔ صورتِ حال وسیع پیمانے پر بگڑی ہوئی ہے ۔ ان پر اصلاح و دعوت کاکام جاری رہنا چاہیے ، مگر اس کے پہلو بہ پہلو ضروری محسوس ہوتا ہے کہ دین و شریعت اور آج کے مسائل کا مناسب شعور رکھنے والے صالحین اٹھیں ، آگے بڑھیں اور ذرائع ابلاغ کو اپنے ہاتھ میں لیں۔ وہ اپنے اخبار جاری کریں ۔ اپنے ٹی وی چینل شروع کریں ۔ فنونِ لطیفہ کے اپنے ادارے بنائیں ۔ عوام کو تفریح پہنچانے کا خود اہتمام کریں۔ تہذیبی سرگرمیوں پر اپنے اثرات مرتب کریں ۔
اکرام اللہ صاحب کی یہ بات بہت اہم ہے کہ ’’شرق و غرب میں اس معاشرے کا غلبہ ہو گا جس کے ذرائع ابلاغ دوسروں کی نسبت زیادہ طاقت ور ہوں گے ۔‘‘ اس بات کی روشنی میں یہ بھی بڑے یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ ایک معاشرے میں انھی طبقات کے نظریات اور اقدار کو غلبہ حاصل ہو گا جس کے ذرائع ابلاغ دوسروں کی نسبت زیادہ طاقت ور ہوں گے ۔ غور کیجیے، یہ ذرائع ابلاغ ہی ہیں جنھوں نے معاشرے کے ’’ہیروز‘‘ اور ’’آئیڈیلز‘‘ بدل ڈالے ہیں ۔ یہ ذرائع ابلاغ ہی ہیں جن کی وجہ سے عام مذہبی مزاج کے حامل افراد تو درکنار ، علماے دین کی اولاد پر بھی ’’علم‘‘ کی بجائے ’’فلم‘‘ کے اثرات زیادہ دکھائی دیتے ہیں ۔ یہ ذرائع ابلاغ ہی ہیں جن کی وجہ سے اس ملک کے سربراہ ’’مرزا محمد منور‘‘ کے بجائے ’’نورجہان‘‘ کی تیمار داری کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔
صالحین کا مسئلہ یہ ہے کہ جس قدر ان کے اندر نیک جذبات کا غلبہ ہوتا ہے ، وہ اسی قدر تنہائی پسند ہو جاتے ہیں۔ صالحین کے کلچر میں تنہائی پسندی کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس رویے کا نقصان یہ ہوا کہ معاشرے کی زمامِ کار آہستہ آہستہ ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آ گئی جو دین و شریعت ، تہذیب و تمدن اور ملک و ملت کے اعتبار سے موزوں نہیں ہیں۔
’’دنیا آخرت کی کھیتی ہے‘‘ اس بات کو پیشِ نظر رکھا جائے تو یہ ضروری محسوس ہوتا ہے کہ صالحین دنیوی سرگرمیوں میں پوری طرح شرکت کریں اور معاشرے میں اتنا غلبہ حاصل کر لیں کہ موجودہ غالب ذرائع ابلاغ کی قوتیں مغلوب ہو جائیں۔ بالفاظِ دیگر معروفات کی نظافتوں کے سامنے منکرات کی غلاظتیں مغلوب ہو جائیں۔ مشرق و مغرب کے رب کی باتوں کے سامنے ’’مغرب‘‘ کی باتیں مغلوب ہو جائیں۔
___________
۱۔ اس تہوار کے بارے میں مؤرخین کے ہاں دو آرا پائی جاتی ہیں ۔ ایک رائے یہ ہے کہ یہ تہوار محبت کے یونانی دیوتا ویلنٹائن کی یاد میں منایا جاتا ہے اور دوسری رائے کے حامل اسے تیسری صدی میں مارے جانے والے دو رومی سپاہیوں سے منسوب کرتے ہیں ۔ ان دونوں سپاہیوں کے نام ویلنٹائن تھے ۔