ہمارے درمیان علم و اخلاق اور تعلیم وتربیت کا جو بحران پیدا ہوا ہے، اُس کا نتیجہ یہ ہے کہ وقت کی ناقدری اور غیر منصوبہ بند طرز حیات عرصے سے گویا اب ہمارا ایک قومی شعار بن چکا ہے۔ عام زندگی میں اِسی کا ایک ظاہرہ ہمارے اکثر لوگوں کا دیر سے سونا اور دیر سے اٹھنا ہے[1]۔
ایک زندہ فرد اور قوم کی پہچان یہ ہے کہ وقت اُس کے نزدیک ’’کاٹنے‘‘جیسی کوئی چیز نہیں ہوتا، بلکہ یہ ’زندگی‘ کا وہ قیمتی لمحہ ہوتا ہے جسے بھر پور طورپر وصول کرنا ضروری ہے۔ چنانچہ مشہور عربی مثل ہے: ’الوقتُ سیفٌ، إن لَمْ تَقْطَعْهُ قَطَعَک‘، یعنی وقت ایک تلوار ہے، اگر تم اُس کو نہ کاٹو تو وہ یقیناً تمھیں کاٹ دے گا۔ وقت کا کم تر استعمال ہمیشہ اُس کے برتر استعمال کی قیمت پر ہوتا ہے ،جو بے شعوری کا نتیجہ ہے ، اور اِس کا انجام محرومی کے سوا اور کچھ نہیں۔ ایک مغربی مفکر نے وقت کی اِسی اہمیت کے متعلق بجا طورپر کہا تھا کہ ـــــــ فارغ اوقات کا بہتر استعمال تہذیب کی آخری بلندی کی علامت ہے ،اور ابھی بہت کم لوگ تہذیب کی اِس بلندی تک پہنچ سکے ہیں!
وقت کے استعمال کا بہترین طریقہ اپنے نشانے اور اپنے طے شدہ پروگرام کے اعتبار سے، اپنی زندگی کی منصوبہ بندی ہے۔اِس کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اپنی ترجیحات متعین کرکے اپنے وقت اور اپنی توانائی کو اُسی محاذ پر صرف کرے۔
یہی صحت (health)کا معاملہ ہے۔کسی آدمی کے پاس سب سے بڑی جو چیز ہوتی ہے، وہ وقت اور صحت ہے[2] ،مگر آدمی کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی بے شعوری کی بنا پر اِس معاملے میں سب سے زیادہ گھاٹے میں رہتا ہے۔ وہ وقت اور صحت، دونوں کو برباد کردیتا ہے۔
صحت کے لیے ضروری ہے کہ آدمی ہر اعتبار سے، سادگی اور اعتدال کو اختیار کرے۔اِس کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی تعیش اور خواہش پرستی کے بجاے ضرورت[3] پر قانع[4] رہے؛ وہ اعلیٰ معیارِ زندگی (high standard of living)[5] اور نمایشی طرزِ حیات(ostentatious living) کے پرفریب ’نصب العین‘ سے اپنے آپ کو دور رکھے؛وہ ورزش، چہل قدمی، کھیل کود اور پیدل چلنے کو اپنی زندگی کا مستقل معمول بنائے؛ وہ سادہ اور صحت بخش کھانے کو ترجیح دے اور شکم سیری کی مہلک عادت کے بجاے کم خوری کی صحت بخش عادت کا طریقہ اختیار کرے ـــــــ قرنطینہ کے دوران روزوں کا یہ مہینا، ذِکرو عبادت اور تلاوت وتدبر کے ساتھ ،وقت اورصحت کی حفاظت اور بامقصد زندگی کی تربیت کاایک بہترین لمحہ ہے۔وہ ہمارے لیے سادگی اور فطرت کی طرف واپسی کی ایک جبری درس گاہ بھی ہے اور اُس کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنے کا ایک نادر موقع بھی۔
(لکھنؤ ۲۰/ اپریل ۲۰۲۰ء)
ـــــــــــــــــــــــــ
[1]۔ خدا نے دن کو اصلاً کام کے لیے اور رات کو آرام کے لیے بنایا ہے (الفرقان ۲۵: ۴۷۔ النبا ۷۸: ۱۰- ۱۱)۔ یہ صرف ایک سادہ مثال ہے، ورنہ موجودہ زمانے میں فطرت کے خلاف اِس قسم کے بہت سے ’فسادات‘ و انحرافات عام ہوگئے ہیں۔جیسے ’’ڈیویلپمنٹ‘‘کے نام پر کھیت،درخت اور جنگلات کا خاتمہ کرکے ناقابل تلافی حد تک زمین کا توازن بگاڑ دینا؛پانی،ہوا اورروشنی جیسی بنیادی اور فطری چیزوں کے حصول کو تمام تر کمرشلائز کردینا،پانی جیسی عام نعمت کو خرید کر پینا، جو بلاشبہ تاریخ کی وہ بدترین غلامی ہے جس میں آج کا انسان’’تہذیب و تجدید‘‘کے پر فریب نام پر مبتلا ہے۔اِسی طرح ’مصنوعی ذہانت‘AI) (جیسا سنگین انسانی اور اخلاقی بحران ، وغیرہ۔تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں اسرائیلی مصنف یوول نووا ہراری کی کتاب: ’’ 21 Lessons for the 21st Century‘‘۔
فطرت کے خلاف مذکورہ قسم کی بے اعتدالی اور انحراف کوئی سادہ بات نہیں۔قرآن کے مطابق، وہ نظام فطرت میں ’تغییر‘(النساء ۴: ۱۱۹)اور زمین میں ’فساد‘(الاعراف ۷: ۵۶، ۸۵)کے ہم معنی ہے۔ موجودہ حالات انسان کے اِنھی ’اعمال ‘(مفسدانہ سرگرمیوں) کا نتیجہ ہیں۔چنانچہ اب جدید تہذیب اپنے اِس فساد کے مہلک انجام کو بھگت رہی ہے۔اِس ہول ناک صورت حال سے نکلنے کا واحد راستہ صرف یہ ہے کہ آج کا انسان ’فسادِ بر وبحر‘ کی اِس حالت سے لوٹ کر دوبارہ ’صلاحِ بر وبحر‘کی ربانی حالت کومکمل طورپر اختیار کرلے۔اِس کے سوا، خدا اور کائنات کی نسبت سے، اپنے جرم کو چھپانے کے لیے ’’گلوبل وارمنگ‘‘کے نام پر کی جانے والی مختلف قسم کی سرگرمیاں ’’پیوند کاری‘‘ (patch up)سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں۔اِس طرح کے امور میں جوہری تبدیلی (sea change) مطلوب ہوتی ہے، نہ کہ مذکورہ قسم کی پیوند کاری۔انسان کے ’’ہاتھوں‘ ‘بر پا ہونے والے اِس ’فساد‘ کا انجام بظاہر اِس کے سوا اور کچھ نہیں کہ اب انسان اِسی دنیا میں اپنے اِس ’عمل‘ کا کچھ مزہ چکھے (الروم ۳۰: ۴۱)۔
[2]۔ ’نعمتانِ مغبونٌ فیھما کثیرٌ من الناس: الصِّحةُ والفَراغ‘ (بخاری، رقم ۶۴۱۲)، یعنی وقت اور صحت اللہ کی دو ایسی عظیم نعمتیں ہیں جن کے متعلق اکثر لوگ غفلت اور ناقدری کا شکار رہتے ہیں۔
[3]۔ ’’ضرورت‘‘ کے لیے کوئی قانونی حد بندی ممکن نہیں۔ ایک سلیم الفطرت انسان خوداپنی عقل اور حالات کے تحت اِس کا فیصلہ کرسکتا ہے۔
[4]۔ ’قد أفلح مَن أسلَمَ، ورُزِق کَفافًا، وقنَّعَهُ اللہُ بما اٰتاہ‘(مسلم، رقم ۱۰۵۴)،یعنی بلاشبہ کامیاب وہی شخص ہے جس نے اللہ کی فرماں برداری کی ، اُس کو ضرورت بھر رزق ملا اورمزید کی فکر کرنے کے بجاے اُس نے اللہ کی طرف سے ملنے والی نعمتوں پر دل سے قناعت اختیار کی۔
[5]۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں:
-A Dictionart of Economics and Commerce: J. L. Hanson, Published by Mackdonald & Evans Ltd., London- 1969.
-The Affluent Society, by J. K. Galbraith, A Mariner Book, New York- 1998.