HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ (۱)

[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

   

ابتدائی زندگی

حضرت سلمان فارسی كا اصل نام ماہویہ (مایہ یا روزبہ يا بہبود)بن بوذخشان(يا خشفوذان) بن دہ ديرہ (مورسلا ياآذر جشيش) تھا ـ حضرت عبدالله بن عباس كی بيان كرده مشہور روايت كے مطابق وه اصفہان كے قصبہ جیّ (يا كازرون :Wikipedia)میں پيدا ہوئے۔زيد بن صوحان كی روايت ميں خوزستان كے قريبی شہر رامہرمز كو ان كی جاے پيدایش بتايا گياہے۔خود حضرت سلمان فارسی سے بھی يہی مروی ہے(بخاری، رقم ۳۹۴۷)۔ ايك روايت كے مطابق رامہرمز میں ان كی ننهیال تھی، جب كہ والد بوذخشان كا تعلق اصفہان كے آب الملك كے خاندان سے تها۔وه اپنے قصبے كے سردار تھے۔انھيں اپنے بیٹے سے بہت لگاؤ تھا۔ شدت محبت سے اسے كنواری لڑكيوں كی طرح گهر میں بند كرر كھا تھا، یہاں تك كہ كهيتوں كی ديكھ بهال كے ليے نكلتے تو يہ تاكيد كر جاتے كہ بيٹا باہر نہ جائے۔دو غلام ان كی خدمت كے ليے مختص تھے۔ حضرت سلمان مجوسی آتش پرستوں كے زرتشتی مذہب پر شدت سے عمل پیرا تهے، اپنے گهر كے آتش كدے ميں اپنے باپ كی جلائی ہوئی آگ كے پاس بیٹھے رہتے اور اسے ايك گهڑی بهی بجھنے نہ ديتے۔ اس خدمت پر مامور شخص كو قطِن كہا جاتا تها، سولہ برس كی عمر میں وه اس منصب پر فائز ہوئے،يہی ان كی عبادت تهی۔

راه حق كی پہلی جھلك

حضرت سلمان كے والد كی ملكيت ميں ايك بڑا گاؤں اوراراضی تهی۔ايك دن وه گهر كی تعمير و مرمت كے كام میں مشغول تهے، انھوں نے كچھ كام حضرت سلمان كے سپرد كر كے كہا: تم گاؤں كے كام نمٹا آؤ، ديكهو لوٹنے ميں دير نہ كرنا، كيونكہ تمھارا پاس ہونا ميرے ليےجايداد سے زيادہ اہميت ر كھتا ہے۔ والد كی ہدايت كے مطابق وه گهر سے نكلے، آس پاس غور سے ديكهتے جا رہے تهے، كيونكہ انھیں باہر نكلنے كا موقع كم ہی ملتا تها۔ راستے ميں ان كا گزر عيسائيوں كے گرجا پر ہوا۔ اندر سے مدهر آوازيں ان كے كانوں ميں پڑيں تو جهانك كرديكها كہ بہت سے لوگ مل كر بڑے جذبے سے اونچی آواز ميں خدا كے گن گا رہے ہيں۔حضرت سلمان اندر داخل ہو گئے،ان كی عبادت انھيں ايسی بهلی لگی كہ اسے ديكهنے ميں منہمك ہوگئے، شام ہو گئی اور وه اپنے والد كی اراضی پر بهی نہ جاسكے۔انھوں نے سوچا كہ يہ دين ان كے مذہب سے كہیں بہتر ہے۔ لوٹنے سے پہلے پسنديدگی كا اظہار كرتے ہوئے ان لوگوں سے پوچها : آپ كے مذہب كا مركز كہاں ہے؟ جواب ملا: ملك شام۔

شام كا اندهيرا چها چكا تها،بوذخشان اپنے بيٹے كے گهر نہ لوٹنے پر پريشان تهے،چاروں طرف آدمی دوڑا ديے تهے۔حضرت سلمان واپس آئے توخوب ناراض ہوئے، پھر ساتھ چمٹا ليا، خوشی كے آنسو ان كی آنکھوں سے رواں تھے۔حضرت سلمان نے بتايا كہ ميں نے گرجا ميں عيسائيوں كو عبادت كرتے ديكھا ہے اور مجھے ان كا دين بھلا لگا ہے۔ ان كے والد نے كہا: بيٹا مذہب تووہی سچا ہے جو ہمارا ہے۔ حضرت سلمان نے اصراركيا :ابا، يہ ہرگز صحيح نہيں كہ ہم خدا كی عبادت ميں كسی كو شريك كریں،ميں تو اب آگ كی پوجا ہرگز نہيں كروں گا اور ايك ہی بن ديكهے خدا كے گن گاؤں گا۔ ان كی گفتگو سن كر بوذخشان فكر ميں پڑ گئے كہ ماہويہ مذہب بدل كر عيسائی نہ ہو جائے۔ انھوں نے بيٹے كے پاؤں میں بیڑیاں ڈلوا دیں، اس طرح حضرت سلمان قيد كی زندگی گزارنے لگے، مگر اپنے ايك وفادار ملازم كے ذريعے سے اہل كليسا سے رابطہ ركها۔ جوں ہی انھيں خبر ملی كہ شام سے عيسائی تاجروں كا ايك قافلہ اصفہان پہنچا ہے اور چند روز ميں واپس ہو گا، انھوں نے شام جانے كی تياری كی، بيڑياں كٹوا كرچپكے سے گهر سے نكلے اور قافلے ميں شامل ہو گئے۔ ماں باپ اور گهرسے دور ہو جانے كے باوجود وه روحانی خوشی سے سرشار تهے۔ Wikipediaكے مضمون نگار نے اس وقت حضرت سلمان كی عمر انيس سال اور سن وقوع۵۸۷ءبتايا ہے۔

شام،پہلی منزل

 شام پہنچتے ہی حضرت سلمان نے لوگوں سے پوچها كہ يہاں كا سب سے بڑا مذہبی پیشوا كون ہے؟انھيں بتايا گيا كہ فلاں كنيسہ كا اسقف (لاٹ پادری) يہاں كی سب سے بڑی مذہبی شخصیت ہے۔ وہ فوراً اس كے پاس پہنچے اوركہا: ميں آپ كے پاس ره كر آپ كا دين سیکھنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ شب و روزگرجے ميں رہ كر عبادت كرنے اور پادری كی خدمت كرنے لگے۔ چند روز ہی میں انھيں معلوم ہو گيا كہ  يہ پادری بڑا مكار اور لالچی ہے، لوگ اس كے وعظ و نصيحت پر صدقہ و خيرات كر تے ہيں اور يہ مال غربا كونہيں ديتا، بلكہ خود سينت سينت كر ركهتا ہے۔ حضرت سلمان يہ ديكھ ديكھ كر كڑهتے، مگر خدا كی عبادت میں كوئی كمی نہ كی۔ پادری كی زندگی كے دن پورے ہوئے تو دور دور سے اس كے عقيدت مند جمع ہوئے۔لوگ غم سے مرجهائے ہوئے تهے، مگر حضرت سلمان غصہ سے بے قابو تهے۔ ان سے رہا نہ گيا، كہا: آپ اس شخص كی آخری رسومات ادا كرنے آئے ہيں جو دين كے پردے ميں شيطان تها۔ مسكينوں اور محتاجوں كے نام پر خيرات ليتا اور يہ سات مٹكے جمع كر ليے جو سونے اور چاندی سے لب ريز ہيں۔ حاضرين بهی آپے سے باہر ہو گئے اور انھوں نے پادری كا جنازہ پڑهنا تو كجا اس كی لاش كو سولی پر لٹكا كر اس پر پتهر برسائے۔

گرجا ميں نئے اسقف كا تقرر ہواجوپہلے كے برعكس انتہائی نیك اور خدا رسيده تهے، دن رات اللہ كی عبادت كرتے۔دنيا سے بے رغبت ہوكر آخرت كی تياری ميں مشغو ل رہتے۔ حضرت سلمان كو ان كی طويل رفاقت میسر آئی۔ان كا آخری وقت آياتوحضرت سلمان نے عرض كيا: حضرت مجهے آپ سے بڑی محبت ہے، كيونكہ آپ نے مجهے دين سكهايا۔مجهے وصيت كيجيے كہ اب كہاں جاؤں ؟ فرمايا:دين مسیحی كے سچے پيرو كم ہی ره گئے ہيں،اكثريت نے تحريفات كر كے بدعات ايجاد كر لی ہيں۔ شہر موصل ميں الله كا ايك بنده ہے جوٹهيك ٹهيك اس دين پر قائم ہے جس پر ہم تم ہيں۔

موصل، پهر نصیبین

حضرت سلمان موصل پہنچےاور ان بزرگ كے حلقے ميں شامل ہو گئے،وه بهی نيك سيرت اور بے لوث بزرگ تهے۔كچھ ہی ديرگزری تھی كہ اجل نے ان كو بهی آن ليا۔حضرت سلمان نے گزارش كی:شام كے بزرگ كی نصيحت پر آپ كے پاس آيا تھا، آپ كس كے پاس حاضر ہونے كی تلقين كرتے ہیں؟ انھوں نے كہا: موصل سے شام كو جانے والی راه پر واقع بستی نصيبين ميں مقيم ايك نيك مسیحی پیشوا صحيح دين عيسوی پر عمل پيرا ہيں۔ چنانچہ حضرت سلمان ان كی نصيحت پر نصيبين چلے آئے، جہاں انھيں خوب اطمينان ملا۔الله كے اس برگزيده بندے كو الله كا بلاوا آيا تودم آخريں بهرائی ہوئی آواز میں بولے: بيٹا، دنيا ميں اب دين كہاں ره گيا ہے؟روم كے شہر عموريہ ميں ايك پابند شرع بزرگ پاكيزه زندگی گزار رہے ہيں،ان كی خدمت ميں حاضری دو۔ وه واقعی بڑے ہی الله والے انسان تهے۔حضرت سلمان شب ان كی دعاؤں اور عبادات ميں شامل ہوتے اور دن ميں ذكر الہٰی كی مجلسوں سے مستفيد ہوتے۔

عموريہ میں

عموريہ كے قيام كے دوران ميں حضرت سلمان محنت مزدوری بهی كرتے رہے۔ان كے پاس كافی مال، گائيں اور بكرياں جمع ہو گئيں، مگر سكون اور خوش حالی كے دن جلد بيت جاتے ہيں۔الله والے بزرگ كو الله كا پیام آيا تو انھوں نے عرض كيا:حضرت ميں نے كہاں كہاں كی ٹهوكريں كهائی ہيں، اب آپ بهی رخصت ہو رہے ہيں، ميں كہاں جاؤں؟وه درد بهری آواز ميں بولے:اب دنيا ميں ايك شخص بهی ايسا نہيں رہا جو حضرت عيسیٰ كا سچا پيرو كار ہو۔ہاں الله كے آخری رسول كی بعثت كا زمانہ بالكل قريب آ گياہے۔ آپ عرب كی سرزمين ميں پيدا ہوں گے اور دين ابراہيم كی پيروی كريں گے۔كچھ عرصہ اپنے شہر ميں ره كر دين كی تعليم ديں گے، ليكن لوگوں كی اذيتوں سے تنگ آ كر ايسے شہر كی طرف ہجرت كريں گے جہاں دو سياه پتهريلی زمينوں كے درميان كهجوروں كے باغات ہيں۔ ان كی تين كھلی نشانياں ہوں گی جن كے ذريعے سے تم انھيں پہچان سكو گے۔صدقہ كا مال نہيں كهائيں گے،ہدیہ خوشی خوشی قبول كر لیں گے اور آپ كے دونوں مونڈهوں كے درميان مہر نبوت ہو گی۔ ان كی خدمت ميں ضرور حاضرہونا۔

سوے مدينہ

حضرت سلمان نے بزرگ كی وصيت دل ميں بٹها لی اور عرب كی طرف سفر كرنے كا وسيلہ ڈهونڈنے لگے۔ كچھ دنوں كے بعدعرب كے قبيلہ بنو كلب كا ايك تجارتی قافلہ عموريہ سےگزرا تو انھوں نےقافلے كی معيت حاصل كر نے كے ليے اپنی تمام بكرياں اور گائيں ان كے حوالے كر دیں۔ قافلہ منزل بہ منزل چلتا ہوا وادی قریٰ پہنچا تو قافلہ والوں نے دغاكی اور اس شخص كو جس نے اپنی ساری پونجی كے بدلے ميں ان كا ساتھ چاہا تها،غلام بنا كر يوشع نامی ايك يہودی كے ہاتھ بيچ ڈالا۔بے كسی كے دن آ چكے تهے، حضرت سلمان دن بهر يہودی كے باغات كی ديكھ بهال كرتے اور رات كو رب كے حضور كھڑے ہو كر دعائيں كرتے كہ مجهے نبی آخر الزماں كی خدمت ميں پہنچا دے۔الله نے ان كی دعائيں سن ليں، ان كے يہودی آقا كا چچا زاد بهائی عثمان بن اشہل مدینۃ النبی ميں آباد قبيلہ بنو قريظہ سے وادی قریٰ آيا اور حضرت سلمان فارسی كو خريد كر ساتھ لے گيا۔ حضرت سلمان كو مدینہ خوب پسند آيا،دو سياہ پتهريلی زمينوں (يا پہاڑيوں) كے ما بين كهجور كے باغات ديكھ كر انھيں عموریہ كے رہبر كی بتائی ہوئی نشانياں ياد آ گئیں اور وه خوشی سے جهوم اٹهے۔

بار گاه نبوی ميں پہلی حاضری

انھی دنوں رسول الله صلی الله عليہ وسلم نے مد ينہ ہجرت كی تھی۔حضرت سلمان اپنے نئے آقا كے باغ ميں كهجور كےدرخت پر چڑهے كام كر رہے تهے جو اسی درخت كے نيچے بيٹها تها۔ اس كا عم زاد تيز تيز چلتا ہوا آيا اور بولا:بهائی، الله بنوقيلہ(قبائل اوس و خزرج، قيلہ : اوس و خزرج دونوں قبيلوں كی ماں ) كو برباد كرے،آج قبا میں ايك ايسے شحص كے استقبال كے ليے جمع ہيں جو مكہ سے آيا ہے اور اپنے آپ كو الله كا رسول بتاتا ہے۔ يہ سنتے ہی حضرت سلمان كے بدن میں سنسنی دوڑ گئی اور ان پر لرزہ طاری ہو گيا۔وه جلدی جلدی پيڑ سے اترے اوريہ خوش خبری سنانے والے سے تفصيل پوچھنے لگے۔ان كے مالك كو غصہ لگا اور اس نے پوری قوت سے گھونسا مار كر كہا:تم سے مطلب؟چل اپنا كام كر۔

حضرت سلمان گھڑياں گننے لگے كہ كب باغ كا كام ختم ہو گا اوركب وه نبی صلی الله عليہ وسلم كی خدمت ميں حاضر ہوں گے۔شام ہوتے ہی وه كھانے پینے كی كچھ چيزیں لے كر سوے قبا روانہ ہو گئے۔آپ كی مجلس ميں پہنچے اورايك دستر خوان ميں كھجوريں يہ كہہ كر پيش كيں كہ ميں نے سنا ہے كہ آپ نيك انسان ہیں اور آپ كے اصحاب غريب اور حاجت مند ہيں،ميں نے صدقہ كرنے كے ليے آپ سے زياده كسی كو حق دار نہيں سمجھا۔ آپ نے كھجوريں صحابہ كی طرف بڑها ديں اور خود نہ چكهيں۔

علامات نبوت كی تصديق

نبوت كی پہلی علامت مل چكی تھی۔حضرت سلمان كچھ دير آپ كی خدمت ميں بیٹھ كر چلے آئے اورپھر كارغلامی ميں مشغول ہو گئے۔ اس دوران میں انھوں نے كهانے پينے كی كچھ اور اشيااكٹھی كیں اور بارگاہ رسالت ميں حاضر ہوئے، تب آپ مدينہ منتقل ہو چكے تھے۔عرض كيا: ميں نے ديكھا ہے كہ آپ صدقہ نہيں كھاتے، اس ليےیہ چیزیں آپ كےليے ہدیہ لايا ہوں۔آپ نے خوشی سے قبول فرمائيں، خود تناول كيں اور صحابہ كو بھی پيش فرمائيں۔يہ نبوت كی دوسری نشانی تهی۔دوسری روايت ميں ہے كہ حضرت سلمان فارسی نےدونوں بار لكڑياں كاٹیں اور انھيں بیچ كر كھانا خریدا(احمد، رقم ۲۳۷۱۲)۔

تيسری نشانی كی تصديق كے ليے انھيں كچھ انتظار كرنا پڑا، نبی اكرم صلی الله عليہ وسلم بقيع الغرقد ميں اپنے صحابی حضرت كلثوم بن ہدم كےجنازے ميں شريك تهے كہ حضرت سلمان وہاں پہنچے۔ سلام كرنے كے بعد بيٹھے نہيں، بلكہ آپ كے پیچھے گهومتے رہے تاكہ آپ كی كمر پر مہر نبوت ديكھ سكيں۔ آپ  نے تہ بندكے طور پر اور اوڑھنے كے ليے دو چادریں لے ركھی تھیں،حضرت سلمان كی بے قراری ديكھ كر ان كا منشا جان ليا، كندھے والی چادرنيچے سركا دی اور فرمايا: ديكھ لو جس كا تمھیں كہا گيا ہے۔مہر نبوت پر نظر پڑتے ہی حضرت سلمان فارسی  كی آنكھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور وه بے اختيار جھك كر اسے چومنے لگے۔آں حضرت صلی الله عليہ وسلم نے انھيں محبت و شفقت سے اپنے سامنے بٹھا ليا، تب انھوں نے راه حق كے اپنے سفر كی پوری داستان سنائی۔ حضرت سلمان اسی وقت ايمان لا كر غلامی مصطفیٰ ميں آ گئے۔

غلامی سےآزادی

اب انھيں ايك ہی فكر تھی كہ كسی طرح يہودی كی مِلك سے آزاد ہو جائیں۔آپ نے مشوره ديا كہ اس سے عہد مكاتبت كر لو، یعنی كچھ مال (بدل كتابت) ادا كر كے آزادی كا پروانہ لے لو ۔ چنانچہ یہ طے ہوا كہ حضرت سلمان چاليس اوقيہ سونا (چاندی والی روايت درست نہيں) ديں گے اورتازه گڑھے كھود كر كهجور كے تين سو (شاذ روايت:پانچ سو)پودے لگائيں گے - جب يہ پهل دينے لگیں گے تو وه آزاد ہو جائيں گے۔ (ايك اوقيہ سونا:پونے تيس يا سوا اٹھائیس گرام یا سوا تين تولہ۔ ايك اوقيہ چاندی: ايك سو انيس گرام۔ ديگر اجناس كا اوقيہ: ايك سو ستائيس گرام)۔حضرت سلمان كے آقا عثمان بن اشہل قرظی سے كيا جانے والا معاہدۂ مكاتبت حضرت علی نے تحرير كيا، حضرت ابوبكر، حضرت عمر، حضرت ابوذر،حضرت مقداد اور حضرت ابوالدرداء گواہوں ميں شامل تھے۔

    اس موقع پر  رسول الله صلی الله عليہ وسلم نے صحابہ كو حكم ديا: اپنے بھائی كی مدد كرو۔چنانچہ ہر صحابی نے اپنی گنجایش كے مطابق دس، پندره، بيس اور تيس پودے ديے۔ آپ نے حضرت سلمان سے فرمايا:تم گڑھے كھود كر ہميں خبر كرو، ديگر صحابہ نےكھدائی ميں ان كا ساتھ ديا۔ پھرآپ خود تشريف لے گئے، آپ كے اصحاب پودے پكڑاتے جاتے اور آپ اپنے دست مبارك سے لگاتے اور گڑھا برابر كرتے جاتے۔ اسی سال ان پودوں پر پھل آگيا، ان ميں سے ايك پودا بھی خراب نہ ہوا۔

ابھی سونا واجب الادا تها۔انھی دنوں نبی اكرم صلی الله علیہ وسلم كے پاس بنو سليم كی كان سے مرغی كے انڈے جتنی سونے كی ڈلی آئی۔ آپ پكارے: مكاتبت كرنے والا فارسی كہاں ہے؟ حضرت سلمان حاضر ہوئے تو فرمايا:يہ لواور اس سے اپنا بدل كتابت ادا كر دو۔وه بولے: يا رسول الله، اس سے ميرے ذمہ ميں آنے والا سونا كہاں ادا ہو گا؟ فرمايا:پكڑ تو لو، الله اسی سے تمھاری خلاصی كر دے گا۔ابن اسحاق كی روايت كے مطابق آپ نے ڈلی زبان پر الٹ پلٹ كرواپس كی(احمد، رقم ۲۳۷۳۸)۔حضر ت سلمان نے سونے كا وزن كرايا تو پورے چاليس اوقيہ نكلا اس طرح وه سونا ادا كر كے آزاد ہو گئے۔رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے رہائی پانے میں حضرت سلمان كی مدد كی تھی، اس لیے ان كا شمارآپ كے موالی میں ہوتا ہے(احمد، رقم ۲۳۷۳۷۔ السيرة النبویۃ،ابن ہشام، جلد اول،حديث اسلام سلمان ،المعجم الكبیر،طبرانی، رقم ۶۰۶۵۔مسند بزار، رقم ۲۵۰۰)۔

قصۂ سلمان اورتعدد روايات

حضرت سلمان فارسی نے اپنے یہ حالات زندگی حضرت عبدالله بن عباس كو خود بتائے اور انھوں نے آگے روايت کیے ۔ ہم نے اسی كو نقل كرنا مناسب سمجھا ہے۔ دوسری روايات زيد بن صوحان،سلامہ عجلی، ابوعثمان نہدی اور ابوسلمہ بن عبد الرحمٰن نے نقل كی ہیں جن میں ان كے قبول اسلام كا قصہ بہت مختلف انداز میں بيان كيا گيا ہے : مثلاً حضرت سلمان فارسی كا یتیم ہونا، ان كا ايك چٹان كی غار ميں مقیم مسیحی راہبوں كی معیت اختيار كرنا، پھر بيت المقدس جانا، بنو جہینہ كی ايك عورت یا ايك انصاریہ حضرت خليسہ كی غلامی ميں آنا اور حضرت ابوبكر كا انھيں خريد كر آزاد كرنا (مستدرك حاكم، رقم ۶۵۴۳۔ سیر اعلام النبلاء:جلد اول،قصۃ سلمان الفارسی )۔ حاكم نے زيد بن صوحان كی روايت كوصحیح قرار ديا ہے۔ ابن كثير كہتے ہيں:اس ميں بہت كم زورياں ہيں، جب كہ حضرت عبدالله بن عباس كی روايت سند كے اعتبار سے قوی اور امام بخاری كی روايت كے قريب تر ہے۔ ذہبی نے ابو سلمہ كی روايت نقل كرنے كے بعد اسے شبہ موضوع قرار ديا۔

ابن حجر كہتے ہیں:حضرت سلمان فارسی كے قبول اسلام كے قصے ميں ايسا اختلاف ہے كہ تمام مرویات كو یکجا نہيں کیا جا سكتا۔ انھوں نے مسند احمد (رقم ۲۳۷۳۷)اور مستدرك حاكم (رقم ۶۵۴۳)كی روايات كو صحيح ترين قرار ديا ہے، حالاں كہ یہ دونوں آپس ميں مطابقت نہيں رکھتیں ۔

حضرت سلمان فارسی خود كہتے ہيں كہ وه بار ی باری دس سے زياده لوگوں كی غلامی ميں رہے(بخاری، رقم ۳۹۴۶۔ مصنف عبدالرزاق، رقم ۱۵۷۶۷)۔

نصاریٰ كے بارے ميں اشكال

حضرت سلمان فارسی نے نبی صلی الله علیہ وسلم سےعرض كيا:يا رسول الله، نصاریٰ كے بارے میں ارشاد كیجیے۔ آپ نے فرمايا: ان ميں كوئی خیر ہے، نہ ان کے چاہنے والوں میں كوئی بھلائی ہے۔حضرت سلمان يہ سوچ كر بوجھل دل سے اٹھ آئےكہ ميں توان كوچاہتا ہوں، وه نماز پڑھتے تھے، روزه ركھتےتھے اور بعث بعد الموت پر يقين ركھتے تھے۔ نبی صلی الله علیہ وسلم، آپ كو پا ليتے تو آپ كی تصديق كرتے اور آپ كی پيروی كرتے۔ تبھی الله كے یہ ارشادات نازل ہوئے:’لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا الْيَهُوْدَ وَالَّذِيْنَ اَشْرَكُوْاﵐ وَلَتَجِدَنَّ اَقْرَبَهُمْ مَّوَدَّةً لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا الَّذِيْنَ قَالُوْ٘ا اِنَّا نَصٰرٰيﵧ ذٰلِكَ بِاَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيْسِيْنَ وَرُهْبَانًا وَّاَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ‘، ’’تم اہل ايمان سے عداوت ميں سب سے زياده شدت ركھنے والا يہود اور شرك كرنے والوں كو پاؤ گے اور اہل ايمان كی دوستی میں سب سے قريب تر ان لوگوں كو پاؤ گے جو اپنے آپ كو نصاریٰ كہتے ہیں، ان كی دوستی اس وجہ سے ہے كہ ان ميں عبادت گزار عالم اور تارك الدنيا درويش پائے جاتے ہيں اور يہ تكبر نہیں كرتے‘‘ (المائده ۵: ۸۲)۔’اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِيْنَ هَادُوْا وَالنَّصٰرٰي وَالصّٰبِـِٕيْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْﵓ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ‘، ’’بے شك جو ايمان لائےاور جو يہودی ہوئے اور جونصرانی اور صابی ہيں ، جو بھی الله اور روز آخرت پر ایمان لائے گا  اور نيك عمل كرے گا تو ان سب كو ان كے رب كے ہاں اجر ملے گا  اور ان كو ڈر ہو گا نہ وه غم زده ہوں گے‘‘(البقره ۲: ۶۲)۔ تب رسول اكرم صلی الله علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی كو بلا كر فرمايا: آپ كے اصحاب ان لوگوں ميں سے تھے جن كا الله تعالیٰ نے ان آیات میں ذكر كیا ہے۔

ابن كثير كہتے ہیں:یہوديوں ميں سے جو تورات اور حضرت موسیٰ عليہ السلام كی سنت پر قائم رہا، مومن ہے، تاآنكہ حضرت عيسیٰ عليہ السلام آگئے ۔اب اس نے حضرت عيسیٰ عليہ السلام كی پيروی نہ كی تو ہلاك ہو گا۔اسی طرح نصاریٰ ميں سے جو انجیل اور شريعت عيسوی سے جڑا رہا،صاحب ايمان ہے، يہاں تك حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم كی بعثت ہو گئی۔اب اس نے گذشتہ شريعت كو ترك كر كے حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم كا اتباع نہ كيا تو آخرت ميں برباد ہو گا(تفسير القرآن العظيم، سورۂ بقره : آيت ۶۲)۔ 

مواخات

  مدینہ آمد کے بعد آ ں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرين و انصارميں مواخات قا ئم فرمائی۔حضرت انس بن مالک کے گھرميں طرفين كے پينتاليس پينتاليس افراد بهائی چارے كے اس عہد میں شريك ہوئے۔ اس موقع پر آپ نے حضرت سلمان فارسی كوحضرت حذیفہ بن یمان كا بهائی قرار فرمایا۔دوسری روايت ہے كہ ان كی مواخات حضرت ابوالدرداء عويمر بن ثعلبہ سے قرار پائی(بخاری:مناقب الانصار)۔بعد ميں جنگ بدر کے موقع پر جب فرمان الہٰی ’وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰي بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُهٰجِرِيْنَ‘، ’’اور اللہ کی کتاب میں رحم کا رشتہ رکھنے والے اہل ایمان اور مہاجرین سے زیادہ ایک دوسرے کے حق دار ہیں‘‘ (الاحزاب ۳۳: ۶) نازل ہوا تو اہل مواخات كو ملنے والا حق وراثت ختم ہوگيا۔اسی ليے زہری نہيں مانتے كہ حضرت سلمان كی يا جنگ بدر كے بعد كسی صحابی كی مواخات ہوئی ہو، كيونكہ تب احكام ميراث منسوخ ہو چكے تهے۔

جنگ بدر و جنگ احد

حضرت سلمان فارسی ہجرت كے پہلے سال مشرف بہ اسلام ہوئے تھے، ليكن بدر و احد كے غزوات میں حصہ نہ لے سكے، كيونكہ تب وه یہودی كی غلامی سے آزاد نہ ہوئےتھے۔

جنگ خندق

شوال۵ھ(مارچ۷۲۶ء):آں حضورصلی الله علیہ وسلم نے مدينہ تشريف آوری كے بعد اوس و خزرج اور مدینہ كے یہودی قبائل كے ساتھ باہمی صلح و امن كا معاہده كیا، جسے ’ميثاق مدینہ‘ يا ’صحیفۃ المدینۃ‘ كہا جاتا ہے۔ ۴ ھ میں يہودی قبیلہ بنونضیر نے اس معاہدہ کی خلاف ورزی كرتے ہوئے رسول الله صلی الله علیہ وسلم كی جان لينے كی كوشش كی۔ چنانچہ انھيں مدينہ سے جلاوطن كر ديا گيا۔وه پھر بھی اسلام كے خلاف سازشيں كرتے رہے، ان كے لیڈر عبدالله بن سلام،حيی بن اخطب اوركنانہ بن ربيع مکہ گئے اور قریش کے لیڈر ابوسفيان كےساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ کرنے کا معاہدہ کیا۔انھوں نے بنو غطفان، بنو سليم،بنو مرہ اور بنواشجع کے قبائل كو اپنے ساتھ ملا كردس ہزار كی نفری اكٹھی كر لی، جب كہ مسلمانوں كی تعداد تين ہزار تھی۔ آپ کو ان کی کارروائیوں کا پتا چلا تو صحابہ سے مشورہ کیا۔ حضرت سلمان فارسی نے بتایا کہ ایران میں ہم جب دشمن میں گھر جاتے تھے تو اپنے گرد خندق کھود لیتے تھے۔ منوچہر بن ايرج پہلا بادشاه تھا جس نے اسے جنگی تدبير كے طور پر استعمال كيا۔ یہ تجویزآپ کوپسند آئی اور اسی پر عمل کا فیصلہ فرمایا۔

خندق کی کھدائی

 آپ گھوڑے پر سوار ہوئے اور صحابہ کے ساتھ مدینہ کے گرد چکر لگایا۔ شمال کی جانب اجم الشیخین(لفظی مطلب: دوسرداروں کے قلعے، یہ بنو عبدالاشہل کا علاقہ تھا)یا یہودیوں کے قلعہ راتج سےآپ نے خط کھینچنا شروع کیا اور بنوحارثہ کے علاقے اور جبل ذباب سے ہوتے ہوئے اسے وادی مذاذ تک لے آئے،کوہ سلع آپ کے عقب میں تھا۔پھر آپ نے چالیس چالیس ذراع (ایک ذراع: قریباً اٹھارہ انچ) کے حصوں میں تقسیم كر کے ہر حصہ کھودنے کے لیے دس دس صحابہ کی جماعت مقرر فرمائی۔ اس موقع پر مہاجرين و انصار ميں نزاع پيدا ہو گيا، مہاجرين كا كہنا تھا كہ سلمان مہاجر ہيں، جب كہ انصار كا اصرار تھا كہ سلمان بھی انصاری ہيں۔ تب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:سلمان كا تعلق ہم سے ہے، سلمان اہل بيت ميں سے ہیں (مستدرك حاكم، رقم ۶۵۳۹۔ المعجم الكبیر،طبرانی، رقم ۶۰۴۰)۔

چٹان كا ٹوٹنا اور فتح كی پيش گوئی

حضرت سلمان فارسی، حضرت عمرو بن عوف، حضرت حذیفہ بن يمان، حضرت نعمان بن مقرن اور چھ انصاری صحابہ اپنے حصے میں آنے والی کھدائی کررہے تھے۔ کھدائی کرتے کرتے ایک سفید چکنی چٹان نمودار ہوئی جو اس قدرسخت تھی کہ صحابہ كے پھاوڑے ٹوٹ گئے، مگر چٹان پر کوئی اثر نہ ہوا۔ صحابہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کھینچے ہوئے خط سے ہٹنا نہ چاہتے تھے،اس لیے حضرت سلمان فارسی آپ کے پاس پہنچے۔ آپ اپنی چادر خندق كے كنارے پر ركھ كران كے ساتھ نيچے اترے، کدال لی، یہ آیت تلاوت فرمائی : ’وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّعَدْلًاﵧ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖﵐ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ‘، ’’تمھارے پروردگار كا حكم سچائی اور انصاف كے ساتھ پورا ہوا،كوئی نہیں جو اس كے كلمات كوبدل سكے، وه سننے والا اور علم ركھنے والا ہے‘‘ (الانعام  ۶: ۱۱۵)اور چٹان پرزوردار ضرب لگائی جس سے اتنی تیز روشنی نکلی کہ سنگلاخ زمینوں کے مابین واقع مدینہ چمک اٹھا اور ایك تہائی چٹان ٹوٹ گئی۔حضرت سلمان فارسی پاس كھڑے ديكھ رہے تھے،مسلمانوں نے نعرۂ تکبیر بلند کیا۔ آپ نے دوسری اور تیسری ضربیں لگائیں،ہر دودفعہ ايك تہائی چٹان ٹوٹی اور خندق كے اطراف روشن ہوگئے، مدینہ اہل ایمان کے نعرہ ہاے اللہ اکبر سے گونجتا رہا۔حضرت سلمان فارسی نے کہا:یا رسول اللہ، میں نے وہ کچھ دیکھا جو پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ آپ نے پوچھا: تمھیں کیا نظر آیا؟ حضرت سلمان بولے: میں نے بجلی دیکھی جو موج کے مانند پھیل رہی تھی۔ آپ نے دوسرے صحابہ سے دريافت فرمايا: كيا آپ لوگوں نے بھی يہی ديكھا؟ ان كے ہاں كہنے پر وضاحت فرمائی:تم نے سچ کہا، میں نے پہلی چوٹ لگائی تو اس کی روشنی میں حیرہ کے محلات اور کسریٰ کا مدائن دیکھا۔ايك صحابی نے عرض كيا: یا رسول الله،دعا كیجیے كہ الله ان علاقوں كو ہمارے زير نگیں كردے۔آپ نے فرمايا: جبریل نے مجھے بتایا ہے کہ میری امت ان پر قابض ہوگی۔ دوسری ضرب لگانے پر مجھے روم کے سرخ محلات دکھائی دیے۔ صحابہ نے پھر عرض كيا: یا رسول الله،دعا كیجیے كہ الله ان علاقوں پر ہمیں فتح دے۔آ پ نے فرمايا:، جبریل نے خبردی ہے کہ میری امت ان پر غالب ہو گی۔ کدال تیسری مرتبہ چلانے پر صنعا کے ایوان نظر آئے، جبریل نے ان پر بھی میری امت کے غلبے کی خوش خبری دی(نسائی، رقم ۳۱۷۸ طبقات ابن سعد۳ / ۵۸ )۔نسائی كی روايت میں صنعا كی جگہ حبشہ اور اس كے اردگرد كے علاقوں كا ذكر ہے اور آپ كا فرمان مذكور ہے كہ حبشہ كو رہنے دواور تركوں سے تعرض نہ كرو، جب تك وه تم سے لاتعلق رہتے ہیں۔ ’’سيرت ابن ہشام‘‘ كی تفصيل اس طرح ہے:رسول الله صلی الله علیہ وسلم خندق كے قريب تھے اور حضرت سلمان فارسی كی مشقت كو ديكھ كر خود نيچے اترے، آپ كی ضربوں سے نكلنے والی روشنی حضرت سلمان نے ديكھی اور آپ سے اس كی بابت استفسار كيا،آپ نے جن مفتوحات كی بشارت دی،علی الترتيب يمن، شام و مشرق اور مغرب تھے۔بیہقی كہتے ہيں: حضرت سلمان فارسی نے روشنی كی سمتوں كابھی مشاہدہ كیا اور نبی صلی الله علیہ وسلم نے مفتوحات كا ذكر فرماكر ان كی تائید كی۔

اہل ايمان كا اظہارمسرت اور منافقين كا بغض

 اس موقع پر اہل ايمان نے خوشی كا اظہار كرتے ہوئے كہا: يہ سچے اور پاك نبی كا وعده ہے، انھوں نے محاصرے كے بعد نصرت و فتح كا وعده كيا ہے، جب كہ منافقین نے ہرزہ سرائی كی:تمھیں خيال نہيں آتا كہ نبی تم سے جھوٹے وعدے كر رہے ہیں؟ تب فرمان الہٰی نازل ہوا: ’وَلَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَﶈ قَالُوْا هٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ وَصَدَقَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗﵟ وَمَا زَادَهُمْ اِلَّا٘ اِيْمَانًا وَّتَسْلِيْمًا‘، ’’اہل ايمان نے مشركوں كے جتھے دیکھے تو كہا : يہ ہے جس كا ہم سے الله و رسول نے وعده كيا اور الله و رسول كا فرمانا سچا تھااور اس آزمایش نے ان كے ايمان و اذعان ميں اضافہ ہی كيا‘‘(الاحزاب ۳۳: ۲۲)۔ ’وَاِذْ يَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ٘ اِلَّا غُرُوْرًا‘، ’’جب منافق اور وه جن كے دلوں میں روگ ہے،كہنے لگے:اللہ ورسول كے ہم سے كیے گئے وعدے فریب ہی نكلے (الاحزاب ۳۳: ۱۲)۔

حصار طائف

 ۱۴ھ (۶۳۰ء):غزوۂ حنین میں انجام كار بنو ہوازن، بنوثقیف اور ان كے اتحادیوں كو شكست ہوئی ۔ شكست خوردہ فوج كا ايك حصہ اوطاس پہنچا، اسے حضرت ابوعامر اشعری نے زیر كیا اور خود بھی شہادت پائی۔دوسرا حصہ نخلستان چلا گيا۔ بنوثقیف اور حلفا پر مشتمل تیسرا حصہ طائف پہنچا جہاں اس قيسی قبیلے نے اپنے قلعے ميں سال بھر كی ضروریات زندگی جمع كر ركھی تھيں۔ اہل طائف جب قلعہ بند ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان كا محاصره كر لیا جو اٹھارہ يا بيس سے زائد دن جاری رہا اور كسی نتیجے كے بغير ختم ہو گيا۔محاصرے كی ابتدا ميں كفار كی شدید تیر اندازی سے باره مسلمان شہیداور بہت سے زخمی ہو گئے توآپ نے صحابہ سے مشوره كیا۔حضرت سلمان  فارسی نے كہا: يا رسول الله، ميرا خيال ہے كہ ہم ان كے قلعے پر منجنیقیں نصب كردیں، سر زمين فارس میں ہم قلعوں پر منجنیقیں لگاكر فتح پا لیتے تھے۔ ايسا نہ كیا تو محاصره لمبا ہو جائے گا۔چنانچہ حضرت یزید بن زمعہ (ياحضرت خالد بن سعید )منجنيق لائے اور آپ نے اپنے دست مبارك سے نصب كی۔ اس غزوه میں دبابہ كا استعمال بھی كیا گیا، یہ لفظ آج كل جنگی ٹینك كے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس وقت لكڑی اور چمڑے سے بنے ہوئے كیبن كودبابہ كہا جاتا تھاجس میں سپاہیوں كو بٹھا كر نقب لگانے كے لیے قلعےكی فصيل  كے پاس بٹھا دیا جاتا تھا۔

[باقی]

_________

B