[”نقطۂ نظر“ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
تاہم کائنات کی تخلیق کا مسئلہ تخلیق پسندوں اورسائنس دانوں کے مابین تصادم کا ذریعہ بن گیاہے۔تخلیق پسند کہتے ہیں کہ چونکہ فزکس کے قوانین ٹائم اینڈاسپیس کے پابندہیں، لہٰذا نقطۂ وحدانیت میں بگ بینگ کا سبب یاتوان قوانین سے بالاترکوئی محرک ہوگایاکسی مافوق الفطرت ایجنسی نے اس کوانجام دیاہوگا۔جوظاہرہے کہ خدا کے سوا اور کوئی نہیں۔ملحدین کہتے کہ خالق عامل یاکسی سپرنیچرل ایجنسی کومان لینے سے مسئلہ حل نہیں ہو جاتا، تخلیق پسندوں کوجواب دیناہوگاکہ کائنات کیسے وجودمیں آئی۔پال ڈیویزنے ان کی ترجمانی یوں کی ہے:
"A God who is invoked only to explain the big bang fails in all three criteria. Far from simplifying our view of the world a Creator introduces an additional complicating feature, itself without explanation. Second there is no way we can test the hypothesis experimentally. There is only one place where such a God is manifested -namely the big bang, and that is over and done with. Finally the bold statement ''God created the Universe" fails to provide any real explanation unless it is accompanied by a detailed mechanism. One wants to know, for example, without properties to assign this God. and precisely how he goes about creating the Universe, why the universe has the form it does, and so on. In short unless either you can provide evidence in some other way that such a God exists, or else give a detailed account of how he made the universe that even an atheist like me would regard as deeper, simple and more satisfying, I see no reason to believe in such a being." [22]
’’ایک خدا جس کانام صرف بگ بینگ کی وضاحت کرنے کے لیے لیاجاتا ہے، وہ تینوں معیاروں پر پورا اترنے میں ناکام ہے۔کائنات میں جوزبردست پیچیدگی ہے، اس میں خداکومان لینے سے اس میں صرف اضافہ ہی ہوتاہے، کوئی حل نہیں ملتا۔ دوسری بات، ایساکوئی طریقہ نہیں کہ ہم تجربے سے خداکے مفروضے کی جانچ کرسکتے ہوں۔ یہاں صرف ایک ہی جگہ ہے جہاں ایسا خدا ظاہر ہوتا ہے اوروہ ہے بگ بینگ، جوظاہرہے کہ ہوچکا اور اب ختم۔آخرمیں یہ زبردست بیان کہ ’’ خدا نے کائنات کو تخلیق کیا ‘‘ اس وقت تک کوئی حقیقی وضاحت فراہم کرنے میں ناکام رہتا ہے جب تک کہ یہ ایک تفصیلی طریقۂ کار سے ہم آہنگ نہ ہو۔ ہرکوئی جاننا چاہتا ہے، مثال کے طور پر، اس خدا کو تفویض کی جانی والی خصوصیات کے بغیر، اور ممکنہ طور پریہ کہ خدا کائنات کی تخلیق کیسے کرتاہے اورکیوں،اورکائنات جس فارم میں ہے، اس میں کیوں ہے، وغیرہ۔ مختصر یہ کہ جب تک آپ اس بارے میں ایک مفصل احوال نہیں دے سکتے ہیں کہ اس نے کائنات کو کیسے بنایا کہ مجھ جیسا ایک ملحد بھی اس کوگہرا، سادہ اور زیادہ اطمینان بخش سمجھ سکے۔ مجھے اس طرح کے وجود پر یقین کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی ہے۔‘‘
اس بحث میں بعض سائنس دانوں کی طرف سے اہل مذہب پر تیز وتندحملے کیے گئے۔ چنانچہ کارل ساگان لکھتاہے:
"How is that hardly any major religion has looked at science and concluded, this is better than we thought, the universe is much bigger than our prophets said grander, more subtle, more elegant ?
In stead they say, no, no, no my God is a little God, and I want him to stay that way A religion old or now, that stressed the magnificence of the universe as revealed by modern science might be able to draw forth reserves of reverence and ave hardly tapped the conventional faith."[23]
’’ایساکیوں ہے کہ کسی بڑے مذہب کے نبی نے شایدہی کائنات کودیکھ کریہ نتیجہ نکالاہوکہ یہ ہمارے خیالات سے کہیں زیادہ بہتر،کہیں زیادہ وسیع اورکہیں زیادہ نازک وپراسرار،خوش نمااورخوب صورت ہے۔
اس کے برخلاف وہ کہیں گے کہ نہیں نہیں !میراخداتوچھوٹاساہی خداہے اورمیں جانتاہوں کہ وہ ایساہی رہے گا۔مذہب قدیم ہو یا جدید،سائنس سے عیاں ہورہی اس کائنات کی شان وشوکت اورجاہ وعظمت کواگراہمیت دے گاتواس محفوظ ذخیرۂ احترام ورعب وجلال کا حق داربن سکے گاجسے رواجی مذہب نے بمشکل ہی قابل اعتناسمجھاہے۔‘‘ (کارل ساگان کے مضمون "Pol Blu Dot" کا ایک اقتباس جس کورچرڈ ڈاکن نے اپنی کتاب "The God Delusion" میں نقل کیاہے،اقتباس کا اردوترجمہ ڈاکٹرمحمدزکی کرمانی کا ہے )
اہل تخلیق جوچندبڑے بڑے اعتراضات اہل سائنس پر کرتے ہیں، ان کا خلاصہ یہ ہے:
۱۔کائنات کا مطالعہ بتاتاہے کہ جتنی complexity اس میں اور جتنا بھرپور نظم Intelligent design پایا جاتا ہے، وہ بغیرکسی ذہین وجودکی مداخلت کے نہیں ہوسکتا۔
۲۔فوسل رکارڈ زمیں عبوری صورتیں موجودنہیں، حالاں کہ زندہ اشیا اگرسادہ سے پیچیدہ کی طرف گئی ہیں تو تبدیلی کے مراحل کی یاوہ شکلیں جن کا تغیرابھی پورانہیں ہوا،موجودہونی چاہییں۔
۳۔Cambrian age میں یکایک بڑے بڑے جانوروں کا ظہورہوا۔
۴۔آثاری اعضا، مثلاًاپنڈکس،عقل ڈاڑھ Pioned gland (صنوبری غدہ )وغیرہ کوکہاجاتاہے کہ یہ انسان کے عبوری دورکے باقیات ہیں اوراب ان کا کوئی کام نہیں، مگرجدیدمیڈیکل سائنس یہ بتاتی ہے کہ کوئی بھی عضوبے کارنہیں ہے۔
اہل ارتقا ان کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں [24]:
’’وہ تسلیم کرتے ہیں کہ زندگی کا ظہورایک بڑاہی دل چسپ معمہ ہے جس کا حل ابھی تک پیش نہیں ہوسکاہے۔سائنس دان اس معمہ پر کام کررہے ہیں اورامیدکی جاتی ہے کہ ہم جلدہی اس کوحل کرلیں گے۔ تھرموڈائنامکس کے دوسرے قانون کی بنیادپر جودلیل دی گئی ہے (یعنی انٹیلجنٹ ڈیزائن کی )اُس کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ یہ دراصل closed systemکے لیے ہے، ہمارے پیش نظرحیاتیاتی نظام closed نہیں ہے۔ فوسل رکارڈزکے بارے میں ان کا کہناہے کہ فوسل بننے کے لیے ضروری شرائط شاذونادرہی پوری ہوپاتی ہیں، اِس لیے ممکن ہے کہ یہ پہیلی کبھی حل نہ ہوسکے، دراں حالیکہ ایسے متعددفوسل دریافت ہوچکے ہیں جوارتقائی تبدیلی کی وضاحت کرتے ہیں۔‘‘[25]
بہرحال یہ دل چسپ بحث اہل سائنس اوراہل مذہب میں پوری شدت سے جاری ہے۔اب ہمیں دیکھنایہ ہے کہ کائنات کی تخلیق،زمین کی تخلیق اورزمین پر زندگی کی نشوونماسے متعلق قرآن میں کیااشارات ملتے ہیں۔
اس موضوع پر مزیدآگے بڑھنے سے پہلے اس طرف اشارہ کرنامناسب ہوگاکہ کائناتی حقائق اورمذہب کے بارے میں علمااور خاص کربرصغیرکے علما کے اصولی مواقف کیا رہے ہیں۔
اس ضمن میں علماکا ایک عام موقف توسائنس کومستردکرنے کا رہاہے، جس کی مثال میں عالم عرب میں شیخ عبدالعزیزبن باز کی کتاب ’’الادلۃ النقلیۃ والحسیۃ علی دوران الشمس وسکون الارض‘‘ اور ہند میں مولانا احمد رضا خان کی کتاب ’’نزول آیاتِ فرقان بہ سکونِ زمین و آسمان‘‘ کا ذکرکافی ہوگا۔
اگرچہ شیخ ندیم الجسراورشیخ محمدعبدہ وغیرہ کا استثنا بھی ہے۔ان کے علاوہ ایک اورعمومی موقف یہ سامنے آیاکہ صحیح عقل اورصحیح نقل میں تعارض نہیں ہوتا۔ماضی میں ابن تیمیہ کی کتاب ’’درء تعارض العقل والنقل‘‘ اسی کی نمایندہ ہے۔اوراگردونوں میں تعارض پایاجاتاہے تونقل کوفی الجملہ عقل پرترجیح دی جائے گی۔ حال میں مولاناتھانوی اس رجحان کی نمایندگی کرتے ہیں[26]۔ جدیدعلما میں ایک اور نقطۂ نظرغلام احمدپرویز نے یہ پیش کیاکہ مذہبی متن کثیرالمعنی ہوتاہے، اس کے لغت میں زمانے کے ساتھ چلنے کی گنجایش ہوتی ہے، اگرچہ متبادرمعنی چھوڑناپڑے[27]۔
سرسیداحمدخان یہ کہتے ہیں کہ متن کے معنی میں ارتقا ہوتاہے اوریوں وہ زمانے کا ساتھ دینے کے قابل ہوتا ہے۔ اس میں بھی متبادرمعنی چھوڑنے پرمجبورہوناپڑتاہے۔ان کی اصول التفسیراورتفسیرمیں اس رنگ کو دیکھا جاسکتا ہے[28]۔ ڈاکٹرفضل الرحمٰن کی اپروچ تھوڑی فلسفیانہ ہے اوراس کا مآل یہ ہے کہ مذہب، کائنات یا تمدن کے باب میں جو کچھ بھی کہتا ہے، وہ دراصل اپنے مخاطبین کے عہد سے مربوط ہوتا ہے، لہٰذا متن کامدلول ہر دور کے لحاظ سے بدل سکتاہے[29]۔
علما نے عام طورپر ان سبھی اپروچوں کوردکردیاہے اورمولاناتھانوی والی اپروچ پر قائم ہیں۔ایک اورموقف علامہ انورشاہ کشمیری نے پیش کیا، جس کو مزید شرح و وضاحت کے ساتھ استاذ جاوید احمد غامدی نے موکد و مبرہن کر کے پیش کیا ہے کہ سائنسی حقائق قرآن کا موضوع نہیں، لہٰذاکائناتی حقائق کے بارے میں سائنسی تحقیقات کوقبول کیاجائے گا۔مولاناکشمیری نے لکھاہے:
القرآن قد یعتبر الواقع بحسب الحس أیضا کما أنه یعتبر الواقع بحسب نفس الأمر، فیدیر الأحکام علی ما هو المشهود من هذ الباب قوله ’’والشمس تجری لمستقر لها‘‘ فإن جریانها مشاھد سواء کانت جاریة فی الواقع بحسب نفس الأمر أولا. وهو الذي یناسب شأن القرآن، فإنه لو بنی کلامه علی نفس الأمر الواقع في کل موضع لما آمن به کثیر من البشر، فإن من فطرته الجمود علی تحقیقه.[30]
’’ قرآن کبھی واقع کومشاہدہ کے مطابق اعتبار کر لیتا ہے اورکبھی نفس الامر کے مطابق یوں وہ انسان کے مشاہدہ کی بنیادپر احکام کو مبنی کر دیتا ہے، چاہے حقیقت نفس الامری کچھ اورہو، مثلاً فرمایا: ’’اورسورج اپنے مستقر کی طرف چلا جا رہا ہے‘‘ تو یہاں سورج کا چلنا مشاہد ہے، حالاں کہ یہ ضروری نہیں کہ مشاہدہ حقیقت کے مطابق بھی ہو۔ قرآن کے لیے یہی مناسب اسلوب تھا، کیونکہ اگر وہ ہر چیز میں حقیقت نفس الامری کو ہی سامنے رکھتا توبہت سے لوگ اس پر ایمان ہی نہ لاتے، کیونکہ انسان اپنی تحقیق پر طبعاً جمود اختیار کر لیتا ہے۔‘‘
ظاہر ہے کہ یہاں شاہ صاحب کا موقف یہ ہے کہ قرآن کریم کائناتی مظاہرسے متعلق جوبیانات دیتاہے، ان کا مقصودحقیقت نفس الامری کا بیان نہیں، بلکہ ان کا مقصداخلاقی ہے اوریہ اسلوب بیان مخاطبین اولین کی فہم کا لحاظ رکھنے والااسلوب ہے۔ ہمارے نزدیک مولاناکشمیری کا موقف ہی زیادہ مناسب اورعلمی ہے۔
قرآن کی روسے اللہ تعالی ٰ کے ہاں ایک یوم کبھی ہمارے ہزاردن کے برابرہوتاہے: ’وَاِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ‘ (الحج ۲۲: ۴۷)اورکبھی پچاس ہزارسال کے برابر ’تَعْرُجُ الْمَلٰٓئِكَةُ وَالرُّوْحُ اِلَيْهِ فِيْ يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهٗ خَمْسِيْنَ اَلْفَ سَنَةٍ‘ (المعارج۷۰: ۴)۔
اصل میں یوم (دن، day )ہماری زمینی اصطلاح میں اس مدت کا نام ہے جس میں زمین اپنے محورپرایک چکرمکمل کرتی ہے جوچوبیس گھنٹے میں پوراہوتاہے، اسی سے دن اوررات بنتے ہیں۔ ’’لسان العرب‘‘ میں ہے:
یوم: الیوم معروف مقداره من طلوع الشمس إلی غروبها والجمع أیام [31].
خود ہمارے نظام شمسی میں مختلف سیاروں کے دن کا عرصہ مختلف ہوتاہے۔مثلاً مرکری کے تین دن اس کے دوسال کے برابرہیں، یعنی ڈیڑھ دن کا ایک سال ہے، وغیرہ۔ توقرآن میں تخلیق کائنات کے چھ دن جوبیان ہوئے ہیں، ان سے مرادہمارازمین کادن نہیں، بلکہ مرحلہ یا Phase ہے، کیونکہ اس وقت نہ نظام شمسی وجودمیں آیا تھا، نہ زمین، تو قرآن میں بیان کردہ ایام دراصل مختلف فیزز ہیں جوچھوٹے اوربڑے ہوسکتے ہیں۔ توجب یہ فرمایا کہ ’اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰي عَلَي الْعَرْشِﵴ يُغْشِي الَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهٗ حَثِيْثًاﶈ وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍۣ بِاَمْرِهٖﵧ اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُﵧ تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ‘، ’’تمھارارب وہ ہے جس نے پیداکیاآسمانوں اور زمین کوچھ دنوں میں پھرعرش پر مستوی ہوا،وہ رات کودن پر ڈھانپتاہے جوجلدجلددن کا پیچھاکرتی ہے اور سورج اور چاند اور ستارے سب اس کے ہاتھ میں مسخرہیں،آگاہ رہواسی کے لیے ہے خلق اورامر،پس بابرکت ہوا جو تمام جہان والوں کا رب ہے‘‘ (الاعراف۷: ۵۴)، تواس سے مرادہماری زمین کے مروجہ ایام نہیں ہوسکتے۔
بائیبل میں تخلیق کائنات کا چھ دن میں ہونابتایاگیااورکہاگیاہے کہ اس کے بعدایک دن کا آرام، یعنی یوم سبت ہے۔یہودیوں اورعیسائیوں میں یوم سبت منانے کا رجحان اسی سے پیداہواکہ خداوندنے ہفتہ کے چھ دن محنت کرنے کے بعدآرام کیا[32]۔
سینٹ آگسٹائن نے بائیبل کی کتاب پیدایش ( Book of Genesis)کے کائنات کی تخلیق کی تاریخ پانچ ہزارقبل مسیح تسلیم کی۔(دل چسپ بات یہ ہے کہ تاریخ بھی دس ہزارقبل مسیح کے آخری برفانی دورکے اختتام سے زیادہ دورکی تاریخ نہیں ہے۔جب ماہرین آثارقدیمہ کے مطابق تہذیب کی اصل ابتدا ہوئی تھی‘‘۔[33] یہاں یوم سے مرادایک دورہی ہوسکتاہے۔چونکہ قدیم مفسرین کوجدیدکاسمولوجی کا کوئی علم نہ تھا اور نہ ہو سکتا تھا، تو وہ اس میں معذورتھے کہ ’فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ‘ سے مراددن ہی لیں۔(مثال کے طورپر دیکھیں: تفسیر ابو السعود، قرطبی اور دوسری قدیم تفاسیر)۔ لیکن کئی جدیدمفسرین ومترجمین، مثال کے طورپر عبداللہ یوسف علی غیرہ تخلیق کائنات کے ضمن میں آنے والی ہرآیت میں یوم سے مرادطویل وقفہ یاقرن لیتے ہیں[34]۔
’وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍﵲ وَّمَا مَسَّنَا مِنْ لُّغُوْبٍ ‘، ’’ہم نے آسمانوں اورزمین اوران کے مابین ساری چیزوں کوچھ دنوں میں پیداکردیااورہمیں کوئی تھکان لاحق نہیں ہوئی‘‘(ق ۵۰ :۳۸ )۔یہاں یہ بات نوٹ کی جاسکتی ہے کہ جدید کاسمولوجی ـــــــــ جوزمین کوایک ذرۂ ناچیز قراردیتی ہے ـــــــــ کے برعکس قرآن زمین کواہمیت دیتاہے اوربارباراہتمام سے ’سَمَاوَات‘ (کائناتوں) کے ساتھ اس کا تذکرہ کرتاہے۔موریس بوکائیے کہتے ہیں کہ ’’آسمانوں کے ماورا اورزمین سے باہر یہ تخلیق جس کا کئی مرتبہ ذکرآیاہے (آیات۴۸، ۸۷، ۸۸۔ ۴۴: ۷۔ ۱۶: ۲۱ وغیرہ )،وہ چیز ہے جس کا تصورمشکل ہے اوران آیات کوسمجھنے کے لیے کائنات کے ماورا کہکشانی مادہ کے بارے میں انسان کے جدیدترین مشاہدات وتجربات کا حوالہ دیناپڑے گا‘‘[ 35]یہ ’مَا بَيْنَ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ‘ جدیدسائنسی تحقیقات کے مطابق ایساگیسی مادہ تھاجوہائیڈروجن اورہیلیم کی کچھ مقدارسے مرکب تھااورآہستہ آہستہ گردش کررہاتھاجس کوقرآن میں ’دُخَانٌ‘ سے بھی تعبیرکیاگیاہے۔یہ گیسی مادہ زبردست اوراتھاہ ذخیرہ(سدیم )غالباً وہی ہے جس کواِ س آیت میں بتایا گیا ہے : ’اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا‘(مادہ کی یہ بہت بڑی مقدارسائنس دانوں کے مطابق موجودہ سورج کے ایک ارب سے لے کرایک کھرب گنازیادہ تھی اورمرکب (رتق )تھی۔ جب (حکم خداوندی) سے اس مرکب مادہ میں انشقاق (فتق) ہواتواُس زبردست گیسی مادہ کے فتق اورٹوٹ پھوٹ سے اس مادہ کے ٹکڑے ٹکڑے بگ بینگ کے ذریعے سے دور دور بکھرے اور خلالانہایت تک پھیلتی چلی گئی اورجوابھی تک مزیدپھیلتی جارہی ہے اور ’وَاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ‘ کا منظرنامہ پیش کررہی ہے۔اوراسی بکھرے مادہ سے عظیم الجثہ کہکشانیں و کائناتیں (سَمَاوَات) سیارے ستارے اوردم دارتارے اورسپرنوواوغیرہ اسپیس میں پیدا ہو گئے۔ اس کے بعد ٹائم کے تصورکا ظہورہوا۔
بہ ظاہرسورۂ حٰم السجدہ کی ان چارآیتوں میں جن میں آسمانوں اورزمین کی تخلیق، زمین پر پہاڑوں کے جمانے کا بیان ہواہے، تخلیق کے واسطے چھ ادوار اورکہیں دوادوارکے بیان میں ایک تضاددکھائی دیتاہے جس کوامام رازی اس طرح دورکرتے ہیں:
’’یہاں چندسوالات ہیں۔پہلاسوال خدانے بیان کیاکہ اس نے دنیاکودودنوں میں پیداکیااوریہ کہ ان تینوں قسموں کودوسرے چاردنوں میں پیداکیااوریہ کہ اس نے آسمانوں کودودن میں پیداکیاتواس کا مجموعہ آٹھ دن ہوئے، لیکن خودخدانے اورآیتوں میں یہ بیان کیاہے کہ اس نے آسمانوں اورزمین کوچھ دن میں پیداکیا۔اس سے تناقض لازم آتاہے۔جانناچاہیے کہ علما نے اس کا اس طرح جواب دیاہے کہ مرادخداکے اس قول سے ’’وقدر فیها اقواتها فی اربعة ایام‘‘یہ ہے پہلے دودنوں کے ساتھ ملاکراوراس کی مثال یہ ہے کہ جیسے قائل کہے کہ میں بصرہ سے بغدادگیادس دن میں اورکوفہ کوپندرہ دن میں تومطلب یہ ہوگاکہ دونوں کی مسافت کوملاکراورایک شخص دوسرے سے کہتاہے کہ میں نے تجھ کوایک ہزارایک مہینے میں دیے اورکئی ہزاردومہینوں میں تووہ ہزاربھی انھی ہزاروں میں داخل ہوگااوروہ مہینا دونوں مہینوں میں۔ ‘‘[36]
مفسرقرآن جاویداحمدغامدی کی تشریح کے مطابق دنیوی زندگی عارضی ہے، مگروہ موت سے ختم نہیں ہوتی، بلکہ برزخ کے وقفہ کے بعدانسان حیات ابدی میں داخل کردیاجائے گا۔جنت کی وسعتوں اوردرجوں کے بارے میں جومعلومات قرآن وحدیث میں آئی ہیں، وہ زمین وآسمانوں کوختم کرکے ایک نئی دنیااورنئی کائنات میں بدل کراہل جنت کوبڑے بڑے باغات اورقصورفاخرہ دیے جائیں گے، وہ دراصل موجودہ کائناتوں کے ملبہ سے تیارکردیے جائیں گے[37]۔
اس ضمن میں قرآن ایسے منتخب الفاظ استعمال کرتاہے جن کی تفسیروتشریح قدیم زمانے میں اس وقت کی کاسمولوجی کے مطابق کی جاتی تھی اوران میں یہ وسعت ہے کہ ان کی نئی سائنسی تشریح بھی کی جاسکتی ہے۔وہ ہیں:
٭ بایدیه ید: بمعنی ہاتھ، قوت،توانائی کے معنی میں ہے: پرانے مترجمین ومفسرین اس سے مرادلیتے تھے کہ ہم نے اپنی طاقت وقوت کے ذریعے سے کائنات کوپیداکیا۔آج کا مفسرکہہ سکتاہے کہ ہم نے توانائی کے ذریعے سے کائنات کی تخلیق کی۔
٭ رتق: کسی شے کوباندھنااورملانا،ابتدائی کمیتی اکائی ۔
٭ فتق: توڑنااورالگ کرنا،پھاڑنا۔
پرانے مترجمین اس آیت کا ترجمہ کیاکرتے تھے کہ پہلے آسمان وزمین ملے ہوئے اور یکجا تھے، پھرہم نے ان کو پھاڑا اور جدا جدا کر دیا۔ آج اس کی سائنسی تشریح یوں کی جاسکتی ہے کہ آسمان و زمین سب ایک اکائی (singularity) یا کائناتی انڈا (Minute Cosmic Egg)یا ابتدائی ایٹم (Primal Atom) میں تھے،جس میں بے پناہ توانائی تھی۔اوراس بے پناہ توانائی نے اس ابتدائی کمیتی اکائی کوناقابل تصورحدتک کثیف اور گرم مقام بنارکھاتھا۔وہ انڈا خداکے حکم سے اچانک پھٹااوراس کے نتیجہ میں اِس کائنات کا مختلف الاقسام مادہ تخلیق پایااوراس بکھرے مادے سے مختلف کہکشانیں اورکائناتیں تخلیق پائیں۔
٭دخان: دھواں،گیس نہایت چھوٹے ذرات پر مشتمل ایک گیسی مرغولہ کے وجودکا ذکر،اس لیے کہ یہی وہ چیز ہے جس کے ذریعے سے لفظ ’دخان‘ کی توضیح وتشریح کی جاسکتی ہے۔دھواں عموماً ایک گیس میں جمع کم وبیش مستحکم تطبیق کی حالت میں مہین ذرات ایسے مادہ کی ٹھوس اور رقیق حالتوں پر مشتمل ہوتے ہیں جن کا درجہ ٔحرارت زیادہ یاکم ہوتاہے[38] ۔
٭فظر: بلاکسی نمونہ کے ابتداءً کسی چیز کوبنانا۔
٭فلق :پھاڑنایہ ’فتق ‘ کے ہم معنی بھی ہے اوراس کا سادہ مفہوم رات ودن کوالگ کرنابھی ہے، جیسا کہ عام مترجمین کرتے ہیں۔ترکی اسکالرڈاکٹرہلوک نورباقی نے علم اشتقاق کی روسے لفظ ’فلق ‘ کے متعددمعانی بیان کیے ہیں، تاہم اس لفظ کا بنیادی معنی کسی چیز کا اچانک پھٹنااورشدیددھماکا کرناہے۔
[39] تفلق: تیزرفتاری سے بھاگنے کوکہتے ہیں۔( ایضاً)یہی معنی ہمارے موضوع کے لحاظ سے یہاں زیادہ مناسبت رکھتے ہیں۔
رتق یاابتدائی کمیتی اکائی سے پہلے کائنات میں کیاتھا؟اس کا جواب سائنس نہیں دیتی۔بعض سائنس دان یہ کہتے ہیں کہ اس سوال کی کوئی اہمیت نہیں، کیونکہ یہ سائنس کا نہیں، فلسفہ کا سوال ہے۔بعض یہ کہتے ہیں کہ اس بات کا امکان ہے کہ ہمیں اس کا پتا چل جائے کہ بگ بینگ سے پہلے کیاتھا؟ بعض نے کہاہے کہ بگ بینگ سے پہلے یہ تمام خلا گیسوں کے زبردست بادلوں سے بھراہواتھا۔خوداسٹیفن ہاکنگ یہ کہتاہے کہ’’ کائنات کی ابتدائی صورت حال کا سوال بعض سائنس دانوں کے نزدیک مابعدالطبیعات یامذہب کا معاملہ ہے‘‘[40]۔
مذہب اس سوال کویوں حل کرلے گاکہ خدانے جس وقت چاہاکائنات کوپیداکردیااوراس کا طریقہ یہ اپنایا جو قرآن میں بیان کیاگیاہے کہ:
اِذَا قَضٰ٘ي اَمْرًا فَاِنَّمَا يَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ. ( مریم ۱۹ : ۳۵)
’’جب وہ کسی کام کا فیصلہ فرماتا ہے تو اُسے صرف یہی حکم دیتا ہے کہ ’’ہوجا‘‘ پس وہ ہو جاتا ہے۔‘‘
۱۔ آسمان وزمین کی پیدایش ایک ایسے مادہ سے ہوئی جسے قرآن ’دُخَانٌ‘ سے تعبیرکرتاہے: ’ثُمَّ اسْتَوٰ٘ي اِلَي السَّمَآءِ وَهِيَ دُخَانٌ‘(حٰم السجدہ ۴۱: ۱۱)، دخان کے معنی دھویں کے ہیں یاایسی بھاپ کے جواوپرچڑھی ہوئی ہو۔
۲۔یہ مادہ دخانیہ ابتدامیں ملا ہوا تھا، الگ الگ نہ تھا۔پھراُس کے مختلف حصے ایک دوسرے سے جداکردیے گئے اور ان سے اجرام سماویہ کی پیدایش ظہورمیں آئی: ’اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا‘ (الانبیاء ۲۱: ۳۰)۔
۳۔یہ تمام کائنات بہ یک دفعہ ظہورمیں نہیں آگئی، بلکہ تخلیق کے مختلف دوریکے بعددیگرے طاری ہوئے۔ یہ دورچھ تھے، جیساکہ آیت زیربحث میں ہے۔
۴۔سات ستاروں کی تکمیل دو ادوار میں ہوئی: ’فَقَضٰىهُنَّ سَبْعَ سَمٰوَاتٍ فِيْ يَوْمَيْنِ‘ (حٰم السجدہ ۴۱: ۱۲)۔
۵۔ زمین کی پیدایش دو ادوار میں ہوئی: ’قُلْ اَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُوْنَ بِالَّذِيْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِيْ يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُوْنَ لَهٗ٘ اَنْدَادًاﵧ ذٰلِكَ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ‘ (حٰم السجدہ ۴۱: ۹)۔
۶۔ زمین کی سطح کی درستی اورپہاڑوں کی نموداورقوت نشوونماکی تکمیل بھی دو ادوار میں ہوئی اوراس طرح یہ چار دور ہوئے: ’وَجَعَلَ فِيْهَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِهَا وَبٰرَكَ فِيْهَا وَقَدَّرَ فِيْهَا٘ اَقْوَاتَهَا فِيْ٘ اَرْبَعَةِ اَيَّامٍﵧ سَوَآءً لِّلسَّآئِلِيْنَ‘ (حٰم السجدہ ۴۱: ۱۰)۔
۷۔تمام اجسام حیہ، یعنی نباتات وحیوانات کی پیدایش پانی سے ہوئی: ’وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ‘ (الانبیاء ۲۱ : ۳۰)۔
۸۔انسان کے وجود پر بھی یکے بعد دیگرے مختلف حالتیں گزری ہیں: ’وَقَدْ خَلَقَكُمْ اَطْوَارًا‘(نوح ۷۱: ۱۴)۔
ان تمام اشارات کا ماحصل بظاہریہ معلوم ہوتاہے کہ ابتدامیں مادہ دخانی تھا،پھراس میں انقسام ہوا، یعنی بہت سے ٹکڑے ہوگئے،پھرہرٹکڑے نے ایک کرہ کی شکل اختیارکرلی اوراُسی کے ایک ایک ٹکڑے سے زمین بنی۔ پھر زمین میں کوئی ایسی تبدیلی واقع ہوئی کہ دخانیت نے مائیت کی شکل اختیارکرلی، یعنی پانی پیداہوگیا۔پھرخشکی کے قطعات درست ہوئے،پھرپہاڑوں کے سلسلے نمایاں ہوئے۔پھرزندگی کا نموشروع ہوا اور نباتات ظہورمیں آگئیں۔ موجودہ زمانے میں اجرام سماویہ کی ابتدائی تخلیق اورکرۂ ارض کی ابتدائی نشوونماکے جونظریے تسلیم کرلیے گئے ہیں، یہ اشارات بظاہران کی تائیدکرتے ہیں اوراگرہم چاہیں تواِن بنیادوں پر شرح وتفصیل کی بڑی بڑی عمارتیں اٹھاسکتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایساکرناصحیح نہ ہوگا۔...قرآن کا مقصودان اشارات سے تخلیق عالم کی شرح و تحقیق نہیں ہے خداکی قدرت وحکمت کی طرف انسان کوتوجہ دلاناہے آغا آغ[41]۔
جیساکہ اوپرگزراکہ کائنات کے آغاز وارتقا کے بارے میں متعدد تھیوریوں اورنمونوں میں بگ بینگ کی تھیوری آرنوپینزیاس،رابرٹ ولسن اورایڈون ہبل نے پیش کی اوراب تقریباًتمام سائنس دان اس پر متفق ہوچکے ہیں کہ کائنات کے آغازسے متعلق اب تک کی سب سے بامعنی ممکنہ تھیوری یہی ہے جس سے تمام واقعات کی ممکنہ توجیہ کی جاسکتی ہے۔مختلف نمونوں میں یہی زیادہ قابل قبول ثابت ہواہے۔عبدالستار منہاجین اس کی مزیدوضاحت کرتے ہیں :’’عظیم دھماکے کانظریہ اس بات کوبھی لازم قراردیتاہے کہ کائنات کا اختتام ہوجب تمام ترمادۂ کائنات آپس میں ٹکراکرپاش پاش ہوجائے گا‘‘[ا 42]۔یہ عظیم سانحہ آج سے تقریباً ۶۵ارب سال بعدوقوع پذیرہوگا۔سائنس کے مطابق کائنات الٹی سمت میں بھاگ رہی ہے۔تمام کائنات اورباقی مادہ ۱۸ ارب سال کے چکرمیں اُس صفر سیکنڈ پر قریب قریب غالب آتے ہوئے جو’’کائناتی احتراقی‘‘ لمحہ ہے،اُسی لمحے کی طرف جارہاہے جہاں سے اس کائنات کی اولین تخلیق عمل میں آئی تھی۔
اسٹیفن ہاکنگ نے لکھاہے:
’’اگرکائنات پھیل رہی ہے تواس کی کوئی طبیعی وجہ بھی ہوگی اوراس پھیلاؤکی ابتدابھی ضرور ہوئی ہوگی۔کوئی چاہے تویہ سوچ سکتاہے کہ خدانے کائنا ت کوبگ بینگ کے لمحے میں تخلیق کیاہے۔یاپھراس کے بعداس طرح بنایاہوکہ ہمیں یہ تاثرملے کہ اس کا آغاز بگ بینگ سے ہواہے۔مگریہ فرض کرناتوبہرصورت بے معنی ہوگاکہ اسے بگ بینگ سے پہلے تخلیق کیاگیاتھا۔پھیلی ہوئی کائنات خالق کوخارج ازامکان قرارنہیں دیتی، مگروہ یہ حدودضرور مقررکرتی ہے کہ یہ کائنات اس نے کب بنائی ہوگی۔‘‘[زا43]
یہ اقتباس بتاتا ہے کہ یہ کتاب لکھتے وقت اسٹیفن ہاکنگ خداکے وجودپریقین رکھتاتھا۔سائنس دان جان ویلز کا کہناہے کہ اگرکائنات بلیک ہول سے طبیعاتی قوانین کے مطابق متصادم ہوکرتباہ ہوئی تونئی جیومیٹری کے ساتھ اس کے دوبارہ وجودپذیرہونے کے پورے امکانات موجودہیں۔سائنس کی زبان میں اس کوبگ کرنچ (Big Crunch) کہاجاتاہے۔
یہ بگ کرنچ ایک اورنئے بگ بینگ کا باعث بن سکتی ہے،جس کے نتیجہ میں ناقابل اختتام کائناتی پھیلاؤ یا چکردارکائنات (Oscillating Universe)کی صورت میں ظاہرہوگا۔کیاقرآن کی آیات میں ہم اس کو trace کرسکتے ہیں؟ڈاکٹرطاہرالقادری کاجواب اثبات میں ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ’يَوْمَ نَطْوِي السَّمَآءَ كَطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِﵧ كَمَا بَدَاْنَا٘ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيْدُهٗﵧ وَعْدًا عَلَيْنَاﵧ اِنَّا كُنَّا فٰعِلِيْنَ‘، ’’ اُس دن ہم (ساری )کائنات کواس طرح لپیٹ دیں گے، جیسے لکھے ہوئے کاغذ کو لپیٹ دیاجاتاہے،جس طرح ہم نے کائنات کوپہلی بار پیدا کیا تھا، ہم (اس کے ختم ہوجانے کے بعد)اُسی عمل تخلیق کودہرائیں گے۔یہ وعدہ پوراکرناہم نے اپنے اوپر لازم کرلیاہے۔ہم یہ (اعادہ )ضرورکرنے والے ہیں‘‘ (الانبیاء ۲۱: ۱۰۴) [4 ا4]۔کم ازکم ایک آیت اورہے جس میں یہ بتایاگیاہے کہ ہم ان آسمان وزمین کوبدل کردوسرے آسمان وزمین وجودپذیرکردیں گے: ’يَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَيْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ وَبَرَزُوْا لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ ‘، ’’ جس دن (یہ) زمین دوسری زمین سے بدل جائے گی اورجملہ آسمان بھی بدل جائیں گے اورسب لوگ اللہ کے روبروحاضرہوں گے جوسب پر غالب ہے‘‘( ابراہیم۱۴: ۴۸) ۔اس سے یہ سائنسی حقائق ثابت ہوتے ہیں۔
اسٹیفن ہاکنگ بھی کائنات کے ممکنہ اختتام کومانتے ہیں ایک جگہ اس نے لکھا:
’’میں نے یہ بتایاکہ آئن اسٹائن کے عمومی نظریۂ اضافت کے مطابق کائنات کا آغاز ہوناضروری ہے اور ممکنہ طورپر اس کا ایک انجام ہے۔‘‘[ر45]
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ
[22]۔ بحوالہ جمشید اختر، The mind of God ۱۰۔
[23]۔ بحوالہ جمشید اختر، The mind of God ۱۳۔
[24]۔ قرآن کریم اورارتقائے حیات کی جستجو،جمشیداختر ۱۶۷، ایویریز اکیڈمی، علی گڑھ۔
[25]۔ قرآن کریم اورارتقائے حیات کی جستجو،جمشیداختر ۱۶۷، ایویریز اکیڈمی، علی گڑھ۔
[26]۔ الانتباھات المفیدۃ فی حلّ الاشتباھات الجدیدۃ ۷۳- ۷۴۔
[27]۔ مفہوم القرآن ۲۴۔
[28]۔ التحریرفی اصول التفسیر ۷۔
[29]۔ اسلام:اردو ترجمہ محمد کاظم ۵ - ۴۷۔
[30]۔ فیض الباری علی صحیح البخاری، دار الکتب العربیۃ، بیروت ۴ / ۳۰۶۔
[31]۔ ۱۶/ ۱۳۷۔ بحوالہ مقالات سرسید ۴ / ۷۳۔
[32]۔ بائبل قرآن اینڈسائنس،موریس بوکائیے ۲۰۸۔
[33]۔ وقت کا سفر ۲۶۔
[34]۔ بائبل قرآن اینڈسائنس،موریس بوکائیے ۲۱۰۔
[35]۔ بائبل قرآن اینڈسائنس،موریس بوکائیے ۲۱۰۔
[36]۔ تفسیر کبیر ۵ / ۴۹۹، بحوالہ مقالات سرسید۴ / ۱۸، مرتب: مولانامحمداسماعیل پانی پتی، مجلس ترقی ادب، لاہور، طبع دوم، جنوری ۱۹۸۸ء۔
[37]۔ یوٹیوب لیکچر۔
[38]۔ موریس بوکائیے۲۱۵۔
[39]۔ وقت کا سفر ۳۰۔
[40]۔ قادری،تخلیق کائنات۷۷۔
[41]۔ ابوالکلام آزاد،تفسیرترجمان القرآن، ۲ / ۲۳۱- ۲۳۲، اسلامی اکادمی، لاہور۔
[42]۔ وقت کا سفر ۳۰۔
[43]۔ وقت کا سفر ۲۸۔
[44]۔ تخلیق کائنات، طاہرالقادری ۱۵۳۔
[45]۔ وقت کا سفر ۲۸۔