HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد عمار خان ناصر

’’میزان‘‘ ــــــ توضیحی مطالعہ (۴)

تقسیم وراثت

’’میزان‘‘ کے باب ’’قانون معیشت‘ ‘ میں مصنف نے ’’تقسیم وراثت ‘ ‘ کے عنوان کے تحت میراث سے متعلق شرعی احکام کی وضاحت کی ہے۔ اس بحث میں کئی اہم نکات کے حوالے سے مصنف کا نقطۂ نظر  اہل علم کی عمومی راے سے مختلف ہے۔ زیرنظر سطور میں انھی نکات کا ایک توضیحی مطالعہ پیش کیا جائے گا۔

وصیت کا حکم

’’اِن آیتوں میں والدین اور قرابت مندوں کے لیے دستور کے مطابق وصیت کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ اہل عرب کا دستور تھا۔ اِس کی جگہ بعد میں اُس قانون نے لے لی جو سورۂ نساء کی آیتوں میں بیان ہوا ہے۔ والدین اور اقربا کے حصے اللہ تعالیٰ نے نساء کی اِن آیتوںمیں خود متعین کر دیے ہیں اور اِنھیں اپنی وصیت قرار دیا ہے۔ ... لہٰذا یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ ہر مسلمان اب اِسی قانون کے مطابق وصیت کا پابند ہے اور دستور کے مطابق وصیت کا حکم باقی نہیں رہا ۔‘ ‘ (میزان۵۱۸ -  ۵۱۹)

ترکے کی تقسیم سے متعلق قرآن مجید میں دو طرح کی ہدایات دی گئی ہیں۔ سورۂ بقرہ (۲: ۱۸۰) میں مرنے والے پر والدین اور اقربا کے لیے وصیت کرنے کو لازم قرار دیا گیا ہے، جب کہ سورۂ نساء (۴: ۱۰ - ۱۱) میں اللہ تعالیٰ نے ترکے میں  مختلف حالات میں والدین، اولاد، بہن بھائی اور میاں بیوی کو ملنے والے متعین حصوں کا ذکر کیا ہے۔   نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث میں ان دونوں حکموں کے باہمی تعلق کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ:

إن الله قد أعطى كل ذي حق حقه فلا وصية لوارث.(ابو داؤد، رقم ۲۸۷۰)
’’اللہ تعالی ٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے، اس لیے اب وارث کے حق میں وصیت نہیں کی جا سکتی۔‘‘

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے کہ پہلے ضابطہ یہ تھا کہ ترکہ اولاد کو ملے گا، جب کہ والدین کے حق میں وصیت کی جائے گی۔ پھر اللہ تعالی ٰ نے اس میں سے جو بات منسوخ کرنا چاہی، منسوخ کر دی اور یہ قرار دیا کہ والدین میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ، بیوی کو چوتھا یا آٹھواں حصہ اور شوہر کو چوتھا حصہ یا نصف ترکہ دیا جائے (بخاری، رقم ۲۷۴۷)۔

میراث کے احکام سے، وصیت کے حکم کا عموماً منسوخ ہو جانا جمہور فقہا کے ہاں مسلم ہے، البتہ اس سوال کے حوالے سے ان میں مختلف زاویہ ہاے نگاہ پائے جاتے ہیں کہ کیا قرآن میں ورثا کے متعین حصے مقرر کیا جانا فی نفسہٖ  وصیت کے حکم کے لیے ناسخ تھا یا اس تنسیخ کو ایک مستقل حکم کے طور پر اصلاً حدیث میں واضح کیا گیا ہے؟

امام بخاری نے ابن عباس کی مذکورہ روایت پر ’لا وصية لوارث‘ (وارث کے حق میں وصیت نہیں کی جاسکتی) کا عنوان قائم کیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ وصیت کے مطلق حکم کو آیت میراث سے منسوخ تصور کرتے ہیں۔ 

امام شافعی کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ وراثت سے متعلق احکام کے نزول کے بعد وصیت کی ہدایت کے متعلق دو احتمال موجود تھے: ایک یہ کہ ترکے میں متعین حصے مقرر کیے جانے کے بعد وارثوں کے حق میں وصیت کی ہدایت کو منسوخ تصور کیا جائے، اور دوسرا یہ کہ وصیت کا حکم بھی اپنی جگہ برقرار ہو اور ورثا ازروے وصیت بھی ترکے میں سے حصہ لینے کے حق دار ہوں۔ ان دونوں احتمالات میں سے پہلے احتمال کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں متعین کر دیا گیا ہے، چنانچہ آپ نے فتح  مکہ کے موقع پر یہ واضح فرمایا کہ وارث کے حق میں وصیت نہیں کی جا سکتی  (الام ۱/ ۵۹- ۶۰)۔ امام صاحب کی راے کا حاصل یہ ہے کہ اصولی طور پر آیات میراث نے ورثا کے حق میں وصیت کے وجوب یا جواز کو منسوخ کر دیا تھا، لیکن ہمارے لیے اس کو حتمی طور پر ناسخ قرار دینا  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی بنا پر ہی ممکن ہے۔ ن

امام ابن تیمیہ بھی اسی راے کی تائید کرتے ہیں، البتہ  ان کی راے میں  خود قرآن میں اس کی واضح دلیل موجود ہے کہ والدین اور اقربا کے حق میں وصیت کی ہدایت کو آیت مواریث نے منسوخ کر دیا ہے۔ ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی ٰ نے ورثاکے حصے مقرر کرنے کے بعد اس میں تعدی کرنے پر جہنم کے عذاب کی وعید سنائی ہے جس کامطلب یہ ہے کہ ورثاکو مقررہ حصوں سے زیادہ دینا حدود اللہ سے تجاوز کے مترادف ہے اور اس کا ایک لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وصیت کے ذریعے سے بھی ان حصوں میں زیادتی نہیں کی جا سکتی  (مجموع الفتاویٰ ۱۷/ ۱۹۸)۔

شاہ ولی اللہ نے دونوں حکموں کے اس تعلق کو حکمت ومصلحت کے پہلو سے یوں واضح کیا ہے  کہ چونکہ اہل جاہلیت عموماً وصیت میں عدل وانصاف کو ملحوظ نہیں رکھتے تھے اور ان کی ناانصافی اہل قرابت کے مابین نفرت وکدورت اور تنازع کا موجب بنتی تھی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ترکے میں میت کے قریبی رشتہ داروں کے حصے خود متعین فرما دیے اور چونکہ اس اقدام کا مقصد ہی باہمی تنازعات کو ختم کرنا تھا، اس لیے ازروے شرع وارث بننے والے کے حق میں وصیت کو ممنوع قرار دینا اس بندوبست کا لازمی تقاضا تھا  (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۳۰۹)۔

اہل علم کا ایک دوسرا فریق آیات میراث کو  براہ راست وصیت کے حکم کے لیے ناسخ نہیں سمجھتا۔ اس کے خیال میں ظاہر کے لحاظ سے دونوں حکموں کو اپنی اپنی جگہ برقرار مانا جا سکتا ہے اور آیات میراث میں بھی اللہ تعالی ٰ نے ترکے کی تقسیم سے پہلے وصیت پوری کرنے کی ہدایت فرمائی ہے جس میں ، الفاظ کے ظاہری اطلاق کے لحاظ سے، ان ورثا کے حق میں وصیت کرنا بھی شامل ہے جن کے حصے آیات میراث میں بیان کیے گئے ہیں (اصول السرخسی ۲/ ۶۹)۔ اس فریق کے نزدیک وصیت کی حتمی تنسیخ حدیث کے ذریعے سے عمل میں آئی ہے، البتہ اس کی تفصیل کے حوالے سے ان اہل علم کے مابین مختلف رجحانات پائے جاتے ہیں۔

امام ابو منصور ماتریدی اور امام سرخسی کی راے یہ ہے کہ والدین واقربا کے حصے مقرر کیے جانے کے بعد بدیہی طور پر وصیت کا وجوب تو منسوخ ہو گیا تھا، تاہم اس کا جواز پھر بھی باقی رہا۔ بعد میں حدیث کے ذریعے سے اس نفلی وصیت کا جواز بھی منسوخ کر دیا گیا (تاویلات اہل السنۃ ۳/۷۳، ۸۳۔ اصول السرخسی ۲/ ۷۱)۔

ابن حزم بھی  احکام میراث کو آیت وصیت کے لیے ناسخ نہیں سمجھتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ازروے میراث ترکے میں حصہ ملنے اور ازروے وصیت مال کا حق دار ہونے میں کوئی تضاد نہیں اور یہ دونوں بہ یک وقت قابل عمل ہو سکتے ہیں۔ تاہم اس کے بعد جن اقربا، (یعنی والدین، اولاد اور زوجین وغیرہ) کے باقاعدہ حصے شریعت میں طے کردیے گئے ہیں، ان کے حق میں وصیت کی اجازت سنت کے ذریعے سے منسوخ کر دی گئی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’لا وصیة لوارث‘ کے الفاظ سے اس کی وضاحت فرما دی۔ البتہ یہ تنسیخ چونکہ صرف وارث بننے والے اقربا کے حوالے سے ہے، اس لیے ایسے اقربا جن کا ترکے میں کوئی متعین حصہ مقرر نہیں کیا گیا، ان کے لیے وصیت کرنا سابقہ حکم کے تحت اب بھی فرض ہے اور اس میں کوئی نسخ واقع نہیں ہوا  (احکام الاحکام ۴/ ۹۲، ۱۱۳- ۱۱۴)۔

مصنف نے یہاں فقہا کے پہلے گروہ سے اتفاق کیا ہے جن کی راے میں والدین واقربین کے لیے وصیت کرنے کی جو ہدایت سورۂ بقرہ میں دی گئی تھی، سورۂ نساء میں میراث کا قانون نازل ہو جانے کے بعد وہ منسوخ ہو چکی ہے ۔ اس حوالے سے ’’البیان‘‘ میں مصنف نے  درج ذیل تین استدلالات پیش کیے ہیں:

اولاً، اللہ تعالی ٰ نے یہ حصے یہ کہہ کر مقرر فرمائے ہیں کہ لوگ یہ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ ان کے وارثوں میں سے کون بہ لحاظ منفعت ان سے قریب تر ہے، اس لیے اس کے بعد وارثوں کے لیے وصیت کرنے کا مطلب یہ بنتا ہے کہ کوئی شخص اللہ کے فیصلے سے بہتر فیصلہ کرنے کا دعوی ٰ کر رہا ہے۔

ثانیاً، اللہ تعالی ٰ نے اس حکم کو اپنی وصیت قرار دیا ہے اور اس کے بعد کوئی وصیت کرنا گویا اللہ کے مقابلے میں اپنی وصیت کو پیش کرنا ہے۔

ثالثاً،  ان حصوں کو اللہ تعالی ٰ نے ’نَصِيْبًا مَّفْرُوْضًا‘، یعنی بالکل متعین حصوں سے تعبیر کیا ہے  جن کو کسی وصیت سے باطل نہیں کیا جا سکتا (البیان ا/ ۱۹۰)۔

حاصل یہ ہے کہ مصنف کے نزدیک ورثا کے لیے حق وصیت کا اصل ناسخ آیات میراث ہی ہیں، جب کہ ’لا وصية لوارث‘ کی حدیث محض اس کا بیان ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے بھی اس حدیث کی تفہیم اسی اصول پر کی ہے (تدبر قرآن ۲/ ۲۶۱)۔

وارثوں کے حق میں وصیت

’’... اللہ کی طرف سے اِس قانون کے نازل ہو جانے کے بعد اب کسی مرنے والے کو رشتہ داری کی بنیاد پر اللہ کے ٹھیراے ہوئے وارثوں کے حق میں وصیت کا اختیار باقی نہیں رہا ۔ ... تاہم اِس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وارثوں کی کوئی ضرورت یا اُن میں سے کسی کی کوئی خدمت یا اِس طرح کی کوئی دوسری چیز تقاضا کرے تو اِس صورت میں بھی اُن کے حق میں وصیت نہیں کی جا سکتی۔ آیت میں جس منفعت کے کم یا زیادہ ہونے کا علم اللہ تعالیٰ کے لیے خاص قرار دیا گیا ہے، وہ رشتہ داری کی منفعت ہے۔ اِس کا اُن ضرورتوں اور منفعتوں سے کوئی تعلق نہیں ہے جو ہمارے لیے معلوم اور متعین ہوتی ہیں۔ اِس لیے یہ وصیت کی جا سکتی ہے، مگر اللہ کی وصیت کے مقابلے میں کوئی مسلمان اب رشتہ داری کی بنیاد پر اپنی کوئی وصیت پیش کرنے کی جسارت نہیں کرسکتا۔’مِنْ م بَعْدِ وَصِيَّةٍ‘ کے جو الفاظ اِن آیتوں میں بار بار آئیں گے، اُن سے مراد بھی ایسی ہی کوئی وصیت ہے جو وارثوں کے سوا کسی دوسرے کے حق میں ہو یا وارثوں کی کسی ضرورت کے لیے یا اُن کی کسی خدمت کے صلے میں خود اُن کے حق میں کی جائے۔‘‘ (میزان ۵۲۴-  ۵۲۵)

جمہور فقہا کے نزدیک قرآن مجید میں مختلف وارثوں کے حصے مقرر کر دیے جانے اور   ’لا وصية لوارث‘ کی مذکورہ روایت کی روشنی میں مرنے والے کے لیے ورثاکے حق میں وصیت کرنا جائز نہیں، تاہم اگر ایسا ورثا کی رضامندی سے ہو یا وہ اس وصیت کو جائز قرار دے دیں تو پھر وہ نافذ ہو جائے گی۔

فقہاے امامیہ اور زیدیہ کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ جس طرح غیر وارث کے حق میں وصیت کی جا سکتی ہے، اسی طرح ورثاکے حق میں بھی کی جا سکتی ہے، چاہے ورثااس پر رضامند ہوں یا نہ ہوں۔ اس ضمن میں فقہاے امامیہ ’لا وصیة لوارث‘ کے ارشاد نبوی کو اس صورت سے متعلق قرار دیتے ہیں جب وصیت ترکے کے ایک تہائی سے متجاوز ہو اور شیعہ ذخیرۂ حدیث میں مروی بعض روایات میں اس قید کی تصریح بھی موجود ہے (شوکانی، نیل الاوطار ۱۱۳۹۔ محمد جواد مغنیۃ، الفقہ علی المذاہب الخمسۃ۴۶۵)۔

امام ابن جریر طبری نے بعض تابعین کے آثار کی روشنی میں اس نقطۂ نظر کو ترجیح دی ہے کہ یہ آیت مرنے والے کے ایسے والدین اور اقربا کے حق میں محکم ہے جو کسی وجہ سے ، (مثلاً غیر مسلم ہونے کے باعث) وراثت سے محروم ہو رہے ہوں۔ ابن جریر کے نزدیک ایسے رشتہ داروں کے لیے وصیت کرنا مرنے والے پر واجب ہے (جامع البیان ۳ / ۳۸۴-  ۳۸۵)۔

ماضی قریب کے اہل علم میں سے مفتی محمد عبدہ نے یہ راے اختیار کی ہے کہ والدین اور اقربا کے لیے وصیت کی ہدایت ، احکام میراث کےنزول سے منسوخ نہیں ہوئی اور دونوں ہدایات اپنی جگہ برقرار ہیں، تاہم ان کا محل الگ الگ ہے، یعنی اللہ تعالی ٰ نے اقربا کو وراثت کے مقررہ حصے قرابت داری کی بنیاد پر دیے ہیں، جب کہ مرنے والے کو پابند کیا ہے کہ وہ ان میں سے کسی کی خصوصی ضرورت اور احتیاج کے پیش نظر اس کے لیے   وصیت بھی کر دے۔ لکھتے ہیں:

وجوز بعض السلف الوصية للوارث نفسه بأن يخص بها من يراه أحوج من الورثة كأن يكون بعضهم غنيًا والبعض الآخر فقيرًا - مثال ذالك أن يطلق أبوه أمه وهو غني وهي لا عائل لها إلا ولدها ويرى أن ما يصيبها من التركة لا يكفيها - ومثله أن يكون بعض ولده أو إخوته إن لم يكن له ولد عاجزًا عن الكسب فنحن نرى أن الحكيم الخبير اللطيف بعباده الذي وضع الشريعة والأحكام لمصلحة خلقه لا يحتم أن يساوي الغني الفقير والقادر على الكسب من يعجز عنه - فإذا كان وضع أحكام المواريث العادلة على أساس التساوي بين الطبقات باعتبار أنهم سواسية في الحاجة كما أنهم سواء في القرابة فلا غرو أن يجعل أمر الوصية مقدمًا على أمر الإرث أو يجعل نفاذ هذا مشروطًا بنفاذ ذالك قبله ويجعل الوالدين والأقربين في آية أخرى أولى بالوصية لهم من غيرهم لعلمه سبحانه وتعالٰى بما يكون من التفاوت بينهم في الحاجة أحيانًا.(تفسیر المنار ۲/ ۱۳۶- ۱۳۷) 
’’اور بعض سلف نے خود وارث کے لیے بھی اس صورت میں وصیت کرنے کو درست قرار دیا ہے کہ مرنے والا ورثا میں  سے زیادہ ضرورت مند کے لیے خصوصی وصیت کر دے، جب کہ بعض ورثا مال دار اور بعض محتاج ہوں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کسی کا والد اس کی ماں کو طلاق دے دے اور وہ آدمی خود تو مال دار ہو، لیکن اس کی بیوی کی کفالت کرنے والا اس کے علاوہ کوئی نہ ہو اور اولاد یہ محسوس کرے کہ ترکے میں سے جو کچھ ماں کو ملے گا، وہ اس کے لیے کافی نہیں ہوگا۔ اسی طرح یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی آدمی کے کچھ بچے یا اولاد کی غیر موجودگی میں اس کے بہن بھائی کمانے سے عاجز ہوں۔ پس ہماری راے میں حکیم و خبیر اور اپنے بندوں کے ساتھ مہربان ذات جس نے شریعت اور احکام کو اپنی مخلوق کی مصلحت کے لیے مقرر فرمایا ہے،یہ لازم نہیں کرتی کہ مال دار اور فقیر کو اور اسی طرح کمانے پر قادر اور کمانے سے عاجز وارثوں کو ایک ہی درجے میں رکھا جائے۔ پس جب میراث کے عادلانہ احکام کی بنیاد مختلف طبقوں کے مابین برابری پر ہے، اس لحاظ سے کہ وہ حاجت و ضرورت میں بھی  ایک جیسے ہیں، جیسا کہ قرابت میں یکساں ہیں، تو اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ وصیت کے معاملے کو وراثت پر مقدم رکھا جائے یا وراثت کی تقسیم کو اس سے پہلے وصیت کی تنفیذ سے مشروط قرار دیا جائے، جب کہ دوسری آیت میں والدین یا اقربا کے متعلق کہا جائے کہ وہ باقی رشتہ داروں سے زیادہ وصیت کیے جانے کا حق رکھتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالی ٰ جانتے ہیں کہ ان کے مابین بعض حالات میں ضرورت و حاجت کے اعتبار سے تفاوت ہو سکتا ہے۔‘‘

مصنف کا موقف یہاں  نتیجے کے لحاظ سے  مفتی محمد عبدہ کے نقطۂ نظر سے ہم آہنگ ہے، تاہم دونوں کا منہج استدلال مختلف ہے۔ مفتی محمد عبدہ، آیت وصیت اور آیات میراث، دونوں کو الگ الگ اور مستقل احکام مانتے ہیں جن کے مابین کوئی نسخ واقع نہیں ہوا اور ان دونوں کے مجموعے سے یہ بات اخذ ہوتی ہے کہ مرنے والے کو والدین اور دیگر اقربا کی ضرورت کے لحاظ سے ، خاص حالات میں الگ سے وصیت کرنے کا بھی اختیار ہے۔ اس کے برخلاف، مصنف کےنزدیک آیت وصیت میں تقسیم وراثت کے حوالے سے ایک عبوری ہدایت دی گئی تھی جو آیت میراث کے نزول کے بعد منسوخ ہو چکی ہے، تاہم وہ اس تنسیخ کو ترکے میں استحقاق  کے صرف ایک اصول، یعنی قرابت داری سے متعلق قرار دیتے ہیں۔ جہاں تک دوسرے اصول، یعنی ضرورت و حاجت کا تعلق ہے تو وہ ایک مستقل اصول ہے اور آیت میراث کے بعد بھی قائم ہے۔  اس استدلال کی رو سے، مصنف وصیت کی اس ممانعت کو اس صورت سے متعلق نہیں سمجھتے جب، رشتہ داری کے عمومی تعلق سے ہٹ کر، وارثوں کی کسی خاص ضرورت کے پیش نظر یا ان کی کسی خدمت کے صلے میں مرنے والا ان کو اپنے ترکے میں سے کچھ دینا چاہے۔

اس ضمن میں سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۲۴۰ میں وارد وصیت کی ہدایت کے متعلق اہل علم کے اختلاف کو سامنے رکھنا بھی اہم ہے۔  مذکورہ آیت میں اس کی تاکید کی گئی ہے کہ مرنے والے کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کے بارے میں یہ وصیت کر کے جائے کہ اس کے مرنے کے بعد ایک سال تک اسے اسی گھر میں رہنے دیا جائے اور اسے سامان زندگی بھی فراہم کیا جائے۔ جمہور فقہا اس ہدایت کو، میراث کی آیات سے منسوخ قرار دیتے ہیں، تاہم دوسری راے یہ ہے کہ یہ ہدایت اپنی جگہ برقرار ہے اور اگر واجب نہیں تو کم سے کم اسے مستحب قرار دینے میں کوئی مانع نہیں (شاہ ولی اللہ، الفوز الکبیر فی اصول التفسیر ۴۸۔ تعریب: محمد انور البدخشانی، بیت العلم کراچی، ۲۰۰۶ء)۔ مصنف کے نزدیک یہ ہدایت وجوب پر محمول ہے اور اس کی حیثیت ایک محکم حکم کی ہے، چنانچہ لکھتے ہیں:

’’عام طور پر لوگ اِس حکم کو سورۂ نساء میں تقسیم وراثت کی آیات سے منسوخ مانتے ہیں ، لیکن صاف واضح ہے کہ عورت کو نان و نفقہ اور سکونت فراہم کرنے کی جو ذمہ داری شوہر پر اُس کی زندگی میں عائد ہوتی ہے ، یہ اُسی کی توسیع ہے ۔ عدت کی پابندی وہ شوہر ہی کے لیے قبول کرتی ہے ۔ پھر اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے بھی اُسے کچھ مہلت لازماً ملنی چاہیے ۔ یہ حکم اِن مصلحتوں کے پیش نظر دیا گیاہے ، تقسیم وراثت سے اِس کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ ‘‘ (میزان ۴۶۴)

اب اگر یہ ہدایت منسوخ نہیں ہے تو  پھر ورثا کے حق میں بر بناے ضرورت کسی وصیت کے مسئلے میں  یہ ایک اہم محل استشہاد بن جاتی ہے۔ اگر قرآن نے بیوہ کے لیے ایک سال تک سامان زندگی کی وصیت کرنے کی ہدایت دراصل اس کی ضرورت و احتیاج اور مخصوص حالات کے پیش نظر دی ہے اور اس کے لیے یہ انتظام میت کے ترکے میں سے وراثت کے متعین حصے کے علاوہ ہی کیا جائے گا تو اس سے یہ بات اخذ کی جا سکتی ہے کہ رشتہ داری سے ہٹ کر کچھ ایسی اضافی وجوہ، مثلاً ضرورت واحتیاج، ہو سکتی ہیں جن کے پیش نظر وارث کے حق میں معمول کے حصے کے علاوہ زائد مال کی وصیت بھی کی جائے۔

وصیت میں ایک تہائی کی تحدید

وصیت کے مسئلے میں مصنف کا ایک اہم اختلاف وصیت کی تحدید سے متعلق ہے۔ جمہور فقہا کے نزدیک مرنے والے کا، اپنے مال میں وصیت کرنے کا اختیار ترکے کے ایک تہائی تک محدود ہے۔  اس راے کی بنیاد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر ہے جو آپ نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو دی تھی۔ سعد نے آپ سے دریافت کیا تھا کہ میرے پاس کافی مال ہے، جب کہ میری وارث صرف ایک بیٹی ہے تو کیا میں اپنا دو تہائی مال صدقہ کر دوں؟ آپ نے فرمایا: نہیں۔ سعد نے پوچھا کہ نصف مال صدقہ کر دوں؟ آپ نے فرمایا:نہیں۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا:

الثلث والثلث کبیر أو کثیر إنک إن تذر ورثتک أغنیاء خیر من أن تذرهم عالة یتکففون الناس.(بخاری، رقم  ۱۲۹۵)
” تم تیسرا حصہ صدقہ کر سکتے ہو، لیکن یہ بھی زیادہ ہے۔ تم اگر اپنے وارثوں کو غنی چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہو تو یہ اس سے بہتر ہے کہ تم انھیں فقر واحتیاج کی حالت میں چھوڑ کر جاؤ اور وہ لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرتے رہیں۔“

اس روایت سے فقہا یہ استدلال کرتے ہیں کہ کسی آدمی کا اپنے مال میں وصیت کرنے کا حق ایک تہائی تک محدود ہے اور اس سے زاید اگر وہ کسی کے حق میں وصیت کرے گا تو وہ غیر معتبر ہوگی۔ فقہا مذکورہ حدیث کو قرآن کی تخصیص کی مثال کے طور پر بھی پیش کرتے ہیں۔   جہاں تک اس روایت سے استدلال کا تعلق ہے تو بظاہر اس کے سیاق وسباق سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آپ کے پیش نظر یہاں کسی باضابطہ شرعی تحدید کا بیان نہیں، بلکہ صورت حال کے لحاظ سے محض ایک مناسب مشورہ دینا ہے۔ امام شافعی نے مذکورہ حدیث کے حوالے سے اس امکان کو تسلیم کرتے ہوئے یہ استدلال کیا ہے کہ بعض دیگر روایات سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فیصلوں میں ایک تہائی کی تحدید کو ملحوظ رکھا ہے (الام) ۔ مثال کےطور پر عمران بن حصین اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما کی روایات میں نقل کیا گیا ہے کہ ایک آدمی کے پاس چھ غلام تھے اور اس نے مرتے وقت انھیں آزاد کر دیا، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مابین قرعہ ڈالا اور دو کو آزاد کر کے چار غلاموں کو اس کے وارثوں کی ملکیت میں دے دیا (مسلم، رقم ۱۶۶۸) ۔ روایت کے بعض طرق میں اس کو یوں تعبیر کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غلاموں کے تیسرے حصے میں اس کاتصرف نافذ قرار دیا اور باقی چار غلام اس کے ورثا کی تحویل میں دے دیے۔

بہرحال روایات وآثار سے واضح ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن ابی وقاص کو جو ہدایت فرمائی تھی، مسلمانوں میں عمومی طور پر اسی پر تعامل جاری ہو گیا اور اسی کو ایک قانونی تحدید کے طور پر قبول کر لیا گیا۔ عطاء کا بیان ہے:

قال فالثلث؟ فسکت النبي صلی اللہ علیه وسلم فمضی بذالک الأمر.(مصنف عبد الرزاق، رقم ۱۶۳۶۰)
’’سعد نے پوچھا کہ ایک تہائی؟ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے اور پھر اسی پر معاملہ جاری ہو گیا۔‘‘

صحابہ وتابعین کے عہد میں اس تحدید کی پابندی اتنی اہم سمجھی جاتی تھی کہ عبد اللہ بن مسعود، ابراہیم نخعی، قاضی شریح، شعبی، طاؤس اور حکم جیسے جلیل القدر فقہا کی راے یہ تھی کہ اگر مرنے والا، آخری وقت میں کسی کے حق میں ایک تہائی ترکے سے زیادہ وصیت کرنا چاہے اور ورثا اس کو جائز قرار دے دیں تو بھی اس کی وفات کے بعد انھیں اس فیصلے پر نظرثانی کا اختیار ہوگا، کیونکہ انھوں نے پہلے جو اجازت دی، وہ حقیقی رضامندی سے نہیں، بلکہ مرنے والے کی دل جوئی کے جذبے سے ہو سکتی ہے (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۱۳۶۵ -  ۳۱۳۷۵)۔

اس ضمن میں اختلافی زاویۂ نظر غالباً سب سے پہلے مولانا فراہی نے پیش کیا۔ مولانا اس تحدید کی تائید میں قرآن سے یہ استنباط پیش کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ٰ نے ترکے میں تین حقوق بیان فرمائے ہیں، یعنی ورثا کے حصے، مرنے والے کی وصیت اور قرض کی ادائیگی۔ اس سہ گانہ تقسیم سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ تینوں مدات کے لیے ترکے کا ایک ایک حصہ صرف کیا جانا چاہیے۔ تاہم مولانا کے نزدیک چونکہ یہ مقدار قرآن نے نصاً بیان نہیں کی، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس سے زیادہ وصیت کرنے کو حرام قرار نہیں دیا، بلکہ اس طرف توجہ دلائی کہ اس سے زیادہ وصیت تقسیم وراثت کے احکام کے مقاصد اور حکمتوں کے خلاف ہے۔ مولانا کی راے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چونکہ یہ بات ایک خاص واقعے میں ارشاد فرمائی ہے، اس لیے اسے منصوص معنوں میں عمومی ممانعت نہیں سمجھا جا سکتا، البتہ مصلحت کے پہلو سے اس کی عمومی پابندی کرنا مناسب ہے تاکہ ورثا کے حق کی حفاظت کی جا سکے   (احکام الاصول ۲)۔

مصنف کا زاویۂ نظر اس سوال کے حوالے سے یہ ہے کہ اصولی طور پر وصیت کی تحدید کی بنیاد تو قرآن میں موجود ہے، کیونکہ اللہ تعالی ٰ نے وصیت کا حق بیان کرتے ہوئے یہ تاکید کی ہے کہ کسی حق دار کو ضرر نہ پہنچایا جائے۔ مصنف کے نزدیک طنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیر بحث ہدایت بھی اسی اصول پر مبنی ہے (البیان ۱/ ۴۵۶- ۴۵۷۔ میزان ۵۳۰- ۵۳۱)۔ تاہم مصنف کو مولانا فراہی کی اس راے سے اتفاق ہے کہ ”یہ خاص صورت حال میں ایک خاص شخص کے فیصلے پر آپ کا تبصرہ ہے۔ اس کا کسی قانونی تحدید سے کوئی تعلق نہیں ہے“ (مقامات۲۸۴)۔ قرآن کے اسلوب سے اس تحدید کے استحباب کا جو قرینہ مولانا فراہی نے ذکر کیا ہے، مصنف اس کو درست نہیں سمجھتے۔ ان کی راے یہ ہے کہ ”قرآن کے الفاظ میں کسی تحدید کے لیے کوئی گنجایش نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے علی الاطلاق فرمایا ہے کہ یہ تقسیم مرنے والے کی وصیت پوری کرنے کے بعد کی جائے گی۔ زبان وبیان کے کسی قاعدے کی رو سے اس اطلاق پر کوئی پابندی عائد نہیں کی جا سکتی“ (مقامات۲۸۳)۔

گویا مصنف کا زاویۂ نظر یہ ہے کہ اس معاملے میں اصل چیز عدل وانصاف اور ورثا کے حقوق کا لحاظ رکھنا ہے اور اگر کوئی مورث اس کو نظرا نداز کر کے وصیت کرنا چاہے تو نظم اجتماعی اس میں مداخلت کر کے معاملے کی اصلاح کر سکتا ہے۔ تاہم مورث کو کتنے مال کی وصیت کرنے کا حق ہونا چاہیے، اس کا تعلق اجتہاد سے ہے اور قاضی کو ہر مقدمے کی انفرادی صورت حال کے لحاظ سے فیصلہ کرنا چاہیے۔

اولاد کی میراث

’’’ فَاِنْ كُنَّ نِسَآءً‘ ، ’لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ‘ سے استثنا اور اِسی کے ایک پہلو کی وضاحت ہے۔  ہماری یہ بات اگر صحیح ہے تو اِسے پھر  ’وَلِاَبَوَيْهِ‘ کی طرح اپنے مقام پر مستقل نہیں مانا جا سکتا ۔اِس کا حکم وہی ہونا چاہیے جو ’لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ‘ کا ہے ۔... یہ اگر ملحوظ رہے تو اِس بات کو سمجھنے میں دقت نہیں ہوتی کہ ’وَاِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ‘ کے بعد والدین اور زوجین کے جو حصے حرف ’و‘ سے اولاد کے حصوں پر عطف ہوئے ہیں ،وہ سب لازماً پہلے دیے جائیں گے اور اِس کے بعد جو کچھ بچے گا ، صرف وہی اولاد میں تقسیم ہو گا ۔لڑکے اگر تنہا ہوں تو اُنھیں بھی یہی ملے گا اور لڑکے اور لڑکیاں، دونوں ہوں تو اُن کے لیے بھی یہی قاعدہ ہو گا ۔اِسی طرح میت کی اولاد میں اگر تنہا لڑکیاں ہی ہوں تو اُنھیں بھی اِس بچے ہوئے ترکے ہی کا دو تہائی یا آدھا دیا جائے گا ،اُن کے حصے پورے ترکے میں سے کسی حال میں ادا نہ ہوں گے۔‘‘ (میزان ۵۲۲)

ان آیات میں اولاد کے وارث ہونے کی تین صورتیں بیان کی گئی ہیں: ایک یہ کہ اولاد میں بیٹے اور بیٹیاں دونوں ہوں۔ اس صورت میں  بیٹوں کو بیٹیوں سے دوگنا حصہ دیا جائے گا۔ دوسری یہ کہ صرف بیٹیاں ہوں اور ان کی تعداد دو یا دو سے زائد ہو۔  اس صورت میں وہ دو تہائی کی حق دار ہوں گی۔ تیسری یہ کہ صرف ایک بیٹی ہو۔ اس صورت میں اسے ترکے کا نصف حصہ دیا جائے گا۔

یہاں جمہور اہل علم سے مصنف کا اہم ترین اختلاف اس حوالے سے ہے کہ جمہور  کے نزدیک مذکورہ تین میں سے پہلی صورت میں تو باقی ورثا کے حصے دے دیے جانے کے بعد   باقی ترکہ ایک اور دو کی نسبت سے بیٹوں اور بیٹیوں میں تقسیم کیا جائے گا، جب کہ صرف ایک بیٹی یا دو بیٹیاں ہونے کی صورت میں انھیں باقی ماندہ ترکے کا نہیں، بلکہ کل ترکے کا نصف یا دو تہائی ملے گا۔ مصنف کے نزدیک ان تینوں صورتوں میں اولاد کو ترکے میں سے حصہ باقی ورثا کے حصے ادا کرنے کے بعد ہی دیا جائے گا۔ یہی اختلاف اس صورت میں ہے جب ، سورۂ نساء کی آخری آیت کی رو سے، اولاد کی غیر موجودگی میں مرنے والے کے بہن  بھائی اسی تفصیل کے مطابق ترکے میں سے حصہ پا رہے ہوں۔ع

مصنف نے اس موقف کے حق میں یہ استدلال کیا ہے کہ زیر بحث آیات کی ابتدا میں ’يُوْصِيْكُمُ اللّٰهُ فِيْ٘ اَوْلَادِكُمْﵯ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ‘ کے اسلوب سے یہ واضح ہے کہ اللہ تعالی ٰ ترکے کا وارث اصلاً مرنے والے کی اولاد کو بنانا چاہتے ہیں، جب کہ ماں باپ اور میاں بیوی کو ثانوی طور پر او رفی الجملہ حصہ دار بنانا مقصود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیٹوں اور بیٹیوں کے حصے متعین کرنے کے بجاے ’لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ‘ کی تعبیر اختیار کی گئی ہے جس کی تعیین باقی ورثا کے حصے دیے جانے کے بعد ہی ہو سکتی ہے۔ اس کے بعد دو بیٹیوں یا ایک بیٹی کا حصہ بھی اسی اصول کے تحت بیان کیا گیا ہے اور یہاں دو تہائی یا نصف سے مراد کل ترکے کا نصف یا دو تہائی نہیں، بلکہ باقی ورثا کے حصے ادا کرنے کے بعد اولاد کے لیے بچ جانے والے ترکے کا نصف یا دوتہائی ہے۔ مصنف کے نزدیک یہاں ’فَاِنْ كُنَّ نِسَآءً‘ میں حرف فاء کی دلالت بہت اہم ہے جسے جمہور اہل علم نے نظر انداز کیا ہے اور جو واضح طور پر بتاتی ہے کہ صرف بیٹیاں ہونے کی صورت ’لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ‘ کی صورت پر ہی متفرع ہے اور اسی اصول پر  ترکے کی تقسیم کا تقاضا کر رہی ہے جس پر بیٹوں اور بیٹیوں ، دونوں کی موجودگی میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

اس اختلاف پر ایک بہت اہم نتیجہ عول کے مسئلے کے حوالے سے مرتب ہوتا ہے۔ جمہور کی تفسیر کی رو سے چونکہ بعض صورتوں میں بیٹیوں کو باقی ورثا کے ساتھ پورے ترکے میں سے حصہ دلوانے کے نتیجے میں  ترکہ کم پڑ جاتا ہے اور تمام حصہ داروں کو ان کا حصہ پورا ادا کرنا ممکن نہیں ہوتا، اس لیے سب کے حصوں میں  ان کے حصوں کے تناسب سے کمی کر دی جاتی ہے جسے فقہی اصطلاح میں ’عول‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص فوت ہو جائے اور   اس کے ماں باپ، بیوی اور دو بیٹیاں وارث بن رہی ہوں  تو بیٹیوں کو دو تہائی اور ماں باپ کو مشترکہ طور پر ایک تہائی دینے کے بعد بیوی کو آٹھواں حصہ دینے کے لیے ترکہ باقی نہیں بچتا۔ اسی طرح اگر عورت وفات پا جائے اور اس کے ماں باپ، شوہر اور دو بیٹیاں وارث بن رہی ہوں تو بیٹیوں کو دو تہائی اور ماں باپ کو ایک تہائی دینے کے بعد شوہر کو ایک چوتھائی دینے کے لیے ترکے میں گنجایش نہیں رہتی۔ جمہور فقہا ایسی تمام صورتوں میں یہ تجویز کرتے ہیں کہ سارے ورثا کے حصوں میں اس طرح متناسب کمی کر دی جائے کہ کسی کو بھی اپنا مقررہ حصہ اگرچہ پورا نہ ملے، لیکن کوئی بھی محروم نہ رہے اور سب ایک تخفیف شدہ حصے کے حق دار بن جائیں۔ اس کے برخلاف مصنف کی راے کے مطابق چونکہ بیٹیوں کو دو تہائی پورے ترکے میں سے نہیں، بلکہ ماں باپ اور بیوی یا شوہر کے حصے ادا کرنے کے بعد   باقی ترکے میں سے دیا جانا مقصود ہے، اس لیے کسی بھی صورت میں عول کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ (جمہور کی راے کے مطابق عول کی   بعض صورتوں کا تعلق آیت ۱۲ میں بیان کی گئی کلالہ کی وراثت سے ہے۔ وہاں بھی، جیسا کہ آگے بیان کیا جائے گا، مصنف نے حکم کی جو تفہیم بیان کی ہے، اس کے مطابق عول کی ضرورت پیش نہیں آتی)۔

روایات کے مطابق عول کا طریقہ اس طرح کی بعض صورتیں سامنے آنے پر سیدنا عمر نے بعض دیگر صحابہ کے مشورے پر اختیار کیا تھا اور پھر اسی پر علما وفقہا کا عمومی اتفاق ہو گیا ۔ تاہم صحابہ میں سے عبد اللہ بن عباس کے متعلق منقول ہے کہ انھوں نے سیدنا عمر کی وفات کے بعد ان کے اس فیصلے سے اختلاف کیا اور کہا کہ اس کا مطلب تو یہ بنتا ہے کہ وہ ہستی جو ساحل سمندر پر ریت کے ذروں کی تعداد کو جانتی ہے، ترکے میں حصے مقرر کرتے ہوئے یہ اندازہ نہیں کر سکی کہ بعض صورتوں میں ان کی بہ یک وقت مکمل ادائیگی ممکن نہیں ہوگی (سنن سعید بن منصور، رقم ۳۶)۔ ابن عباس نے اس صورت حال کا حل یہ بتایا کہ سب حصہ داروں کو پورے ترکے میں سے حصہ دینے کے بجاے ان کی اس طرح درجہ بندی کی جائے کہ جو وارث ، مثلاً ماں باپ اور میاں بیوی ہر حال میں متعین حصے کے حق دار ٹھیراے گئے ہیں، انھیں پورے ترکے میں سے حصہ دیا جائے، جب کہ جن وارثوں ، مثلاً بیٹیوں اور بہنوں کو بعض صورتوں میں متعین حصے دیے گئے اور بعض میں باقی ماندہ ترکے میں حصہ دار بنایا گیا ہے، ان کا حصہ پہلی قسم کے وارثوں کو حصہ ادا کرنے کے بعد باقی مال میں سے ادا کیا جائے۔

ابن عباس کے اس موقف سے بعض اکابر تابعین، مثلاً محمد بن الحنفیہ، علی بن الحسین، امام محمد باقر اور عطاء کا اتفاق کرنا منقول ہے (سرخسی، المبسوط ۲۹/ ۱۶۱۔ الجوینی، نہایۃ المطلب فی درایۃ المذہب ۹/ ۱۳۸) ، جب کہ امام زہری سے مروی ہے کہ انھوں نے کہا کہ ابن عباس سے پہلے سیدنا عمر جیسے ایک عادل اور متقی امام نے ایک طریقہ جاری نہ کر دیا ہوتا تو باعتبار دلیل ابن عباس کی راے اتنی مضبوط تھی کہ اہل علم میں سے کوئی دو بھی ان سے اختلاف نہ کرتے (بیہقی، السنن الکبری ٰ، رقم ۱۲۴۵۷)۔ بعد کے فقہا میں سے امام ابن حزم نے بھی عبد اللہ بن عباس کے موقف کی تائید کی ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ سیدنا عمر نے جو راے اختیار کی، روایات کی روشنی میں وہ ان کی کوئی باقاعدہ علمی راے نہیں تھی، یعنی انھوں نے اسے اس بنیاد پر اختیار نہیں کیا تھا کہ ان کے فہم کے مطابق اللہ تعالی ٰ کی منشا اس صورت میں اسی طرح ترکہ تقسیم کرانا ہے، بلکہ انھوں نے اپنے عجز کا اعتراف کرتے ہوئے یہ کہہ کر عول کا طریقہ اختیار کیا کہ یا اللہ، میں اس مسئلے کی حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہوں، لیکن اس کے علاوہ کوئی اور حل سمجھ میں نہیں آ رہا، اس لیے اس کو اختیار کر رہا ہوں۔ ابن حزم کا کہنا ہے کہ  اگر سیدنا عمر کے سامنے دلیل پر مبنی متبادل راے آتی تو وہ عول کے طریقے کو ترک کر دیتے۔ اہل سنت کے فقہا کے علاوہ فقہاے امامیہ نے بھی سیدنا عمر کے طریقے کو قابل اعتراض قرار دیا اور اس کے مقابلے میں ابن عباس کے موقف کو راجح قرار دیا ہے (المحلی ۹/ ۲۶۴-  ۲۶۵)۔

بہرحال جمہور فقہا نے صحابہ کے عمومی اتفاق اور امت کے تعامل کے پیش نظر ابن عباس کے موقف کو شاذ قرار دیا ہے اور اس پر یہ فقہی وقیاسی اعتراض بھی وارد کیا ہے کہ جب بیٹیوں، ماں باپ اور میاں بیوی کے حصے بیان کرتے ہوئے اللہ تعالی ٰ نے ان میں کوئی تقدیم وتاخیر بیان نہیں کی اور ابن عباس قیاساً ماں باپ اور میاں بیوی کو مقدم اور بیٹیوں کو موخر کرنا چاہتے ہیں تو ازروے قیاس اس سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ ورثا میں تقدیم وتاخیر کرنے کے بجاے سب کو یکساں حصہ دار قرار دیا جائےاور بعض کو پورا، جب کہ بعض کو کم حصہ دینے کے بجاے سب کے حصوں میں یکساں کمی کر دی جائے تاکہ کسی کے ساتھ نا انصافی نہ ہو۔

جمہور کے اس استدلال میں، جیسا کہ دیکھا جا سکتا ہے، قیاس کی حد تک کافی وزن ہے، لیکن جمہور کی طرف سے ابن عباس کے اس اصولی اعتراض کا کوئی جواب نہیں دیا گیا کہ اللہ تعالی ٰ اس طرح کی تقسیم  بنیادی طور پر   کر ہی کیسے سکتے ہیں جس میں ورثا کو بیان کیے گئے حصے دینا ممکن نہ ہو؟ گویا اس طریقے پر  بہت مضبوط عقلی اعتراض کا وارد ہونا ہی ابن عباس کے نزدیک یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ اللہ تعالی ٰ سب وارثوں کو پورے ترکے میں سے حصہ نہیں دلوانا چاہتے۔ تاہم ان میں سے کس کو پورے ترکے میں سے اور کس کو باقی ترکے میں سے حصہ دلوایا جائے، اس کے جواب میں چونکہ ابن عباس کے پاس بظاہر ایک قیاسی استدلال ہے، اس لیے جمہور فقہا اس کے مقابلے میں صحابہ کے عمومی اتفاق کو زیادہ مضبوط سمجھتے ہیں جس کی تائید اسی نوعیت کے ایک مقابل قیاس سے بھی ہوتی ہے۔ مصنف نے اس موقف کے حق میں جو استدلال کیا ہے، اس سے بظاہر  وہ کم زوری دور ہو جاتی ہے جو ابن عباس سے منقول موقف میں پائی جاتی ہے۔

[باقی]

__________

B