HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

عذاب قبر (۳)

ترجمہ و تحقیق: ڈاکٹر محمد عامر گزدر

 

ــــــ ۱۳ ــــــ

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَيْضًا، عَنِ النَّبِيِّ r قَالَ:۱ «إِنَّ الْمَيِّتَ تَحْضُرُهُ الْمَلَائِكَةُ، فَإِذَا كَانَ الرَّجُلُ الصَّالِحُ، قَالُوا: اخْرُجِي أَيَّتُهَا النَّفْسُ الطَّيِّبَةُ، كَانَتْ فِي الْجَسَدِ الطَّيِّبِ، وَاخْرُجِي حَمِيدَةً، وَأَبْشِرِي بِرَوْحٍ وَرَيْحَانٍ، وَرَبٍّ غَيْرِ غَضْبَانَ. فَلَا يَزَالُ يُقَالُ لَهَا ذٰلِكَ حَتَّى تَخْرُجَ، ثُمَّ يُعْرَجُ بِهَا إِلَى السَّمَاءِ، فَيُسْتَفْتَحُ لَهُ، فَيُقَالُ: مَنْ هٰذَا؟ فَيُقَالُ: فُلَانٌ، فَيُقَالُ: مَرْحَبًا بِالنَّفْسِ الطَّيِّبَةِ كَانَتْ فِي الْجَسَدِ الطَّيِّبِ، ادْخُلِي حَمِيدَةً، وَأَبْشِرِي بِرَوْحٍ وَرَيْحَانٍ وَرَبٍّ غَيْرِ غَضْبَانَ، فَلَا يَزَالُ يُقَالُ لَهَا ذٰلِكَ حَتَّى يُنْتَهَى بِهَا إِلَى السَّمَاءِ الَّتِي فِيهَا اللهُ عَزَّ وَجَلَّ. فَإِذَا كَانَ الرَّجُلُ السَّوْءُ، قَالُوا: اخْرُجِي أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْخَبِيثَةُ، كَانَتْ فِي الْجَسَدِ الْخَبِيثِ، اخْرُجِي مِنْهُ ذَمِيمَةً، وَأَبْشِرِي بِحَمِيمٍ وَغَسَّاقٍ، ﴿وَآخَرُ مِنْ شَكْلِهِ أَزْوَاجٌ﴾. فَمَا يَزَالُ يُقَالُ لَهَا ذٰلِكَ حَتَّى تَخْرُجَ ثُمَّ يُعْرَجُ بِهَا إِلَى السَّمَاءِ فَيُسْتَفْتَحُ لَهَا، فَيُقَالُ: مَنْ هٰذَا؟ فَيُقَالُ: فُلَانٌ، فَيُقَالُ: لَا مَرْحَبًا بِالنَّفْسِ الْخَبِيثَةِ، كَانَتْ فِي الْجَسَدِ الْخَبِيثِ، ارْجِعِي ذَمِيمَةً، فَإِنَّهُ لَا يُفْتَحُ لَكِ أَبْوَابُ السَّمَاءِ. فَتُرْسَلُ مِنَ السَّمَاءِ، ثُمَّ تَصِيرُ إِلَى الْقَبْرِ۲. فَيُجْلَسُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ، فَيُقَالُ لَهُ ... » وَيَرُدُّ مِثْلَ مَا فِي حَدِيثِ عَائِشَةَ، سَوَاءً، «وَيَجْلِسُ الرَّجُلُ السُّوءُ، فَيُقَالُ لَهُ ... » وَيَرُدُّ مِثْلَ مَا فِي حَدِيثِ عَائِشَةَ سَوَاءً. 
اِنھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: موت کے وقت آدمی کے پاس فرشتے آتے ہیں۔ اگر وہ نیک ہو تو اُس سے کہتے ہیں: اے پاکیزہ نفس، جو پاکیزہ جسم میں رہا، قابل ستایش حال میں باہر آجا  اور راحت و سرور کی اور اُس رب (سے ملاقات) کی خوش خبری قبول کر، جو تجھ سے ناراض نہیں ہے ۔پھر اُس سے یہ بات بار بار کہی جاتی ہے، یہاں تک کہ وہ باہر آجاتا ہے۔پھر اُس کو آسمان پر لے جایا جاتا ہے، اُس کے لیے دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے، پھر آواز آتی ہے، یہ کون ہے؟ جواب دیا جاتا ہے: فلاں۔ پھر(آسمان والوں کی طرف سے) کہا جاتا ہے: اِس پاکیزہ نفس کو، جو پاکیزہ جسم میں رہا، خوش آمدید ۔قابل تعریف ہو کر داخل ہوجاؤ اور راحت و سرور کی اور اُس رب سے ملاقات کی خوش خبری قبول کرو، جو تم سے ناراض نہیں ہے۔ یہی بات اُس سے ہر آسمان میں کہی جاتی ہے، یہاں تک کہ اُس کو  اُس آسمان پر لے جایا جاتا ہے، جہاں خود اللہ تعالیٰ کی ہستی موجود ہے۱ ۔ (فرمایا) : اور  آدمی اگر گناہ گارہوتو فرشتے کہتے ہیں کہ اے ناپاک نفس، جو ناپاک جسم میں رہا، قابل مذمت ہو کر جسم سے نکل۔ کھولتے ہوئے پانی اور کانٹے دار کھانے کی خوش خبری قبول کر اور اِسی طرح دوسرے ہر قسم کے عذاب کی بھی۔ اِس نفس سے یہ بات بار بار کہی جاتی ہے، یہاں تک کہ روح نکل جاتی ہے۔پھر اِ س  کو آسمانوں کی طرف لے جایا جاتا ہے، اِس کے لیے (آسمان کا) دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے۔ پوچھا جاتا ہے: کون؟ بتایا جاتا ہےکہ فلاں ہے۔پھر وہاں سے جواب آتا ہے کہ اِس ناپاک نفس کے لیے، جو ناپاک جسم میں رہا، کوئی خوش آمدید نہیں ہے۔اِسی حال میں قابل مذمت واپس چلے جاؤ، اِس لیے کہ تیرے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے۔ چنانچہ اُس کو آسمان سے واپس بھیج دیا جاتا ہے، جس کے بعد وہ قبر میں چلا جاتا ہے۔۲ پھر نیک و بد، دونوں قسم کے لوگوں کو قبر میں بٹھایاجاتا اور اُن کے ساتھ قبر میں سوال و جواب کا جومعاملہ ہوتا ہے، وہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اِس روایت میں بالکل اُسی طرح نقل ہوا ہے، جس طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں مذکور ہے۳ ۔

______________________

۱۔ یعنی جہاں عرش الہٰی ہے۔ یہاں یہ ملحوظ رہے کہ اپنے اوپر جس آسمان کو ہم دیکھتے ہیں، یہ اُن سات میں سے ایک ہے، جن کا ذکر قرآن میں ہوا ہے اور یہی ہمارے لیے وہ پوری کائنات ہے، جس سے ہم واقف ہیں۔ باقی چھ ہماری حد علم سے ماورا ہیں۔

۲۔ یہاں بھی ’قبر‘ کا لفظ اُسی مفہوم میں استعمال ہوا ہے، جس کی وضاحت ہم پیچھے کرتے آرہے ہیں کہ اِس سے مراد اِسی زمین میں وہ جگہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اُن سب نفوس کو رکھنے کا اہتمام کیا ہے، جنھیں ملائکہ موت کے وقت انسان کے اِس مادی جسم سے الگ کرکے اپنی تحویل میں لے لیتے ہیں ۔اِس سے آگے کا جملہ بتا رہا ہے کہ بدوں کی طرح نیک لوگ بھی ملاء اعلیٰ میں حاضری کے بعد اِسی طرح قبروں میں لوٹا دیے جاتے ہیں۔ یہ حاضری بھی، ظاہر ہے کہ انسان کی اصل شخصیت ہی کی ہوتی ہے۔

۳۔ یہ حدیث، رقم۵  کا حوالہ ہے۔ جو سوال و جواب وہاں نقل ہوئے ہیں، وہی یہاں بھی منقول ہیں۔ چنانچہ صاف واضح ہے کہ یہ بھی اُنھی لوگوں کا ذکر ہے، جن کے احوال پیچھے سیدہ کی روایت میں گزر چکے ہیں۔

متن کے حواشی

۱ ۔اِس روایت کا متن مسند احمد، رقم ۲۵۰۹۰ سے لیا گیا ہے۔تعبیر کے معمولی تفاوت کے ساتھ اِس کے باقی طرق جن مراجع میں نقل ہوئے ہیں، وہ یہ ہیں: مسند احمد، رقم ۸۷۶۹۔ صحيح مسلم، رقم۲۸۷۲۔ سنن ابن ماجہ، رقم ۴۲۶۲۔ السنۃ،عبد الله بن احمد، رقم ۱۴۴۹۔السنن الكبرىٰ، نسائی، رقم ۱۱۳۷۸۔التوحيد، ابن خزیمہ، رقم ۱۷۶۔ الشريعۃ، آجری، رقم ۹۲۳۔الايمان، ابن منده، رقم ۱۰۶۸۔ اثبات عذاب القبر، بیہقی، رقم ۳۵۔

۲۔ بعض طرق، مثلًا السنۃ، عبد الله بن احمد، رقم ۱۴۴۹ میں یہاں ’تَصِيرُ إِلَى الْقَبْرِ‘ کے بجاے ’يَصِيرَانِ إِلَى الْقَبْرِ‘ کے الفاظ آئے ہیں، جن کا مفہوم یہ ہے کہ نیک وبد، دونوں طرح کے نفوس قبروں میں چلے جاتے ہیں۔

ــــــ ۱۴ ــــــ

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَيْضًا أَنَّ النَّبِيَّ r قَالَ: ۱ «إِذَا حُضِرَ الْمُؤْمِنُ أَتَتْهُ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ بِحَرِيرَةٍ بَيْضَاءَ فَيَقُولُونَ: اخْرُجِي رَاضِيَةً مَرْضِيًّا عَنْكِ إِلَى رَوْحِ اللهِ، وَرَيْحَانٍ، وَرَبٍّ غَيْرِ غَضْبَانَ، فَتَخْرُجُ كَأَطْيَبِ رِيحِ الْمِسْكِ، حَتَّى أَنَّهُ لَيُنَاوِلُهُ بَعْضُهُمْ بَعْضًا [يَشُمُّونَهُ۲ ]، حَتَّى يَأْتُونَ بِهِ بَابَ السَّمَاءِ فَيَقُولُونَ: مَا أَطْيَبَ هٰذِهِ الرِّيحَ الَّتِي جَاءَتْكُمْ مِنَ الْأَرْضِ، فَيَأْتُونَ بِهِ أَرْوَاحَ الْمُؤْمِنِينَ فَلَهُمْ أَشَدُّ فَرَحًا بِهِ مِنْ أَحَدِكُمْ بِغَائِبِهِ يَقْدَمُ عَلَيْهِ، فَيَسْأَلُونَهُ: مَاذَا فَعَلَ فُلَانٌ؟ مَاذَا فَعَلَ فُلَانٌ؟ فَيَقُولُونَ: دَعُوهُ فَإِنَّهُ كَانَ فِي غَمِّ الدُّنْيَا، فَإِذَا قَالَ: أَمَا أَتَاكُمْ؟ قَالُوا: ذُهِبَ بِهِ إِلَى أُمِّهِ الْهَاوِيَةِ، وَإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا احْتُضِرَ أَتَتْهُ مَلَائِكَةُ الْعَذَابِ بِمِسْحٍ فَيَقُولُونَ: اخْرُجِي سَاخِطَةً مَسْخُوطًا عَلَيْكِ إِلَى عَذَابِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَتَخْرُجُ كَأَنْتَنِ رِيحِ جِيفَةٍ، حَتَّى يَأْتُونَ بِهِ بَابَ الْأَرْضِ، فَيَقُولُونَ: مَا أَنْتَنَ هٰذِهِ الرِّيحَ حَتَّى يَأْتُونَ بِهِ أَرْوَاحَ الْكُفَّارِ». 
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب بندۂ مومن کی وفات کا وقت قریب ہوتا ہے تو رحمت کے فرشتے اُس کے پاس ایک سفید ریشمی کپڑا لے کر آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ (اے مطمئن نفس،) اللہ کی عطا کردہ راحت اور سرور کی طرف اور اپنے پروردگار کی طرف، جو تجھ سے خوش ہے، باہر نکل آ، اِس حال میں کہ تو اُس  سے راضی ہے اور وہ تجھ سے راضی۔چنانچہ وہ روح مشک کی عمدہ ترین خوشبو کی طرح جسم سے  نکلتی ہے اور فرشتے اُس کی یہ خوشبو سونگھتے، اُس کو ایک دوسرے کےہاتھوں میں تھماتے ہوئے آسمان کے دروازے پر لے  جاکر کہتے ہیں: (دیکھیے)، یہ کس قدر عمدہ خوشبو ہے جو زمین سے تمھارے پاس آئی ہے۔ پھر اُس کو مومنین کی روحوں کے پاس لاتے   ہیں۱ع جو اُس کی آمد سے ایسی مسرت محسوس کرتی ہیں جو تمھیں اپنے کسی بچھڑے ہوئے شخص کی ملاقات سے بھی نہیں ہوتی۔ پھر وہ ارواح اُس سے دنیا کے حالات پوچھتی ہیں کہ فلاں آدمی نے کیا کیا اور فلاں نے کیا کیا؟ پھر وہ کہتی ہیں کہ ابھی اِسے آرام کرنے دو، اِس لیے کہ یہ دنیا کے غموں میں تھا ۔ جب یہ روح اُن سے پوچھتی ہے کہ فلاں شخص مرنے کے بعد کیا تمھارے پاس نہیں آیا، تو اِس پر وہ روحیں کہتی ہیں: اُس کو تو اُس کی گہری کھائی کے ٹھکانے، (یعنی جہنم )میں لے جایا گیا ہے۔(فرمایا) : اور جب کافر کی موت کا وقت آتا ہے تو  عذاب کے فرشتے ایک ٹاٹ کا کپڑا لے کر آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ (اے نفس)، تو اللہ کے عذاب کی طرف باہر نکل آ، اِس حال میں کہ تو بھی ناراض  اور وہ بھی تجھ پر ناراض۔چنانچہ وہ روح سڑے ہوئے مردار کی بدبو کی طرح (جسم سے) باہرنکلتی ہے اور فرشتے اُس کو زمین کے دروازے ۲پر لاکر کہتے ہیں:یہ کیسی بری بو ہے، پھر اُس کو کفار کی روحوں میں لے جاتے ہیں۔

______________________

۱۔ یہ اُس وقت ہوتا ہے، جب روحیں زمین پر اپنے مستقر میں واپس آجاتی ہیں۔ راوی نے یہاں بعض مراحل حذف کر دیے ہیں۔ چنانچہ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ آسمان ہی پر پیش آجاتا ہے۔ آگے براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی مفصل روایت سے ہماری یہ بات مزید واضح ہو جائے گی۔

۲۔ یعنی جہاں سے زمین کا مدار شروع ہوتا ہے۔ زمین اور آسمان کے دروازوں سے اِن روایتوں میں غالباً یہی مراد ہے۔

متن کے حواشی

۱۔اِس روایت کا متن اصلاً السنن الصغریٰ، نسائی، رقم ۱۸۳۳ سے لیا گیا ہے۔اِس کے متابعات اِن مصادر میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: مسند طیالسی، رقم۲۵۱۱۔السنن الكبرىٰ، نسائی، رقم ۱۹۷۲، ۱۱۹۲۴، ۱۱۹۲۶، ۱۱۹۲۷۔ صحيح ابن حبان، رقم ۳۰۱۳، ۳۰۱۴۔ المعجم الاوسط، طبرانی، رقم۷۴۲۔

۲۔صحيح ابن حبان، رقم  ۳۰۱۴۔

ــــــ ۱۵ ــــــ

عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، عَنِ النَّبِيِّ r، قَالَ۱: ﴿يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ﴾ [ابراہیم ۱۴: ۲۷] قَالَ: «نَزَلَتْ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ، فَيُقَالُ لَهُ: مَنْ رَبُّكَ؟ فَيَقُولُ: رَبِّيَ اللهُ، وَنَبِيِّي مُحَمَّدٌ، فَذٰلِكَ قَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ: ﴿يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَةِ﴾» [ابراہیم ۱۴: ۲۷]. 
براء بن عازب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ’﴿يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ﴾ ‘، ’’ایمان والوں کو اللہ محکم بات سے ثبات عطا فرمائے گا ‘‘ (ابراہیم ۱۴: ۲۷) قبر کے عذاب کے بارے میں نازل ہوا ہے۔اِس لیے کہ مرنے والے سے (قبر میں) کہا جاتا ہے کہ تیرا رب کون ہے؟ تو وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور میرے نبی محمد ہیں۔یہی بات ہے جو اللہ تعالیٰ کے فرمان: ’﴿يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَةِ﴾‘، ’’ایمان والوں کو اللہ محکم بات سے دنیا اور آخرت، (دونوں ) کی زندگی میں ثبات عطا فرمائے گا‘‘(ابراہیم ۱۴: ۲۷)    میں بیان ہوئی ہے۔۱ 

______________________

۱۔قرآن میں ’فِي الْاٰخِرَةِ ‘ کے الفاظ ہیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات اگر فرمائی ہے تو غالباً اِس پہلو سے فرمائی ہے کہ مرنے والوں کے لیے برزخ گویا آخرت ہی کی تمہید ہے۔

متن کے حواشی

۱۔ اِس روایت کا متن صحيح مسلم، رقم ۲۸۷۱ سے لیا گیا ہے۔ اِس کے متابعات جن مراجع میں نقل ہوئے ہیں، وہ یہ ہیں: مسند طيالسی، رقم۷۸۱۔ مسنداحمد، رقم ۱۸۴۸۲، ۱۸۵۷۵۔صحيح بخاری، رقم ۱۳۶۹، ۴۶۹۹۔ سنن ابن ماجہ، رقم ۴۲۶۹۔سنن ابی داؤد،رقم ۴۷۵۰۔سنن ترمذی، رقم  ۳۱۲۰۔ السنۃ،عبد الله بن احمد، رقم ۱۴۳۷، ۱۴۵۱۔السنن الصغریٰ، نسائی، رقم ۲۰۵۷۔السنن الكبرىٰ، نسائی، رقم ۲۱۹۵، ۱۱۲۰۰۔مسند رويانی، رقم ۳۹۴۔ صحيح ابن حبان، رقم ۲۰۶، ۶۳۲۴۔الايمان،ابن منده، رقم۱۶۶، ۱۰۶۲۔شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ، لالکائی، رقم ۲۱۲۱، ۲۱۲۲۔ اثبات عذاب القبر، بیہقی، رقم ۱، ۲، ۴، ۸۔

ــــــ ۱۶ ــــــ

عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ أَيْضًا، قَالَ۱: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ r فِي جَنَازَةِ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَانْتَهَيْنَا إِلَى الْقَبْرِ، وَلَمَّا يُلْحَدْ [لَهُ۲  ]، فَجَلَسَ رَسُولُ اللهِ r، وَجَلَسْنَا حَوْلَهُ، كَأَنَّ عَلَى رُءُوسِنَا الطَّيْرَ، [فَجَعَلَ يَرْفَعُ بَصَرَهُ وَيَنْظُرُ إِلَى السَّمَاءِ وَيَخْفِضُ بَصَرَهُ وَيَنْظُرُ إِلَى الْأَرْضِ،۳ ] وَفِي يَدِهِ عُودٌ يَنْكُتُ فِي الْأَرْضِ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: «اسْتَعِيذُوا بِاللهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ مَرَّتَيْنِ، أَوْ ثَلَاثًا»، ثُمَّ قَالَ: «إِنَّ الْعَبْدَ الْمُؤْمِنَ إِذَا كَانَ فِي انْقِطَاعٍ مِنَ الدُّنْيَا وَإِقْبَالٍ مِنَ الْآخِرَةِ، نَزَلَ إِلَيْهِ مَلَائِكَةٌ مِنَ السَّمَاءِ بِيضُ الْوُجُوهِ، كَأَنَّ وُجُوهَهُمُ الشَّمْسُ، مَعَهُمْ كَفَنٌ مِنْ أَكْفَانِ الْجَنَّةِ، وَحَنُوطٌ مِنْ حَنُوطِ الْجَنَّةِ، حَتَّى يَجْلِسُوا مِنْهُ مَدَّ الْبَصَرِ، ثُمَّ يَجِيءُ مَلَكُ الْمَوْتِ عَلَيْهِ السَّلَامُ، حَتَّى يَجْلِسَ عِنْدَ رَأْسِهِ، فَيَقُولُ: أَيَّتُهَا النَّفْسُ [الْمُطْمَئِنَّةُ۴ ] الطَّيِّبَةُ، اخْرُجِي إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنَ اللهِ وَرِضْوَانٍ». قَالَ: «فَتَخْرُجُ تَسِيلُ كَمَا تَسِيلُ الْقَطْرَةُ مِنْ فِي السِّقَاءِ، فَيَأْخُذُهَا، فَإِذَا أَخَذَهَا لَمْ يَدَعُوهَا فِي يَدِهِ طَرْفَةَ عَيْنٍ حَتَّى يَأْخُذُوهَا، فَيَجْعَلُوهَا فِي ذٰلِكَ الْكَفَنِ، وَفِي ذٰلِكَ الْحَنُوطِ، وَيَخْرُجُ مِنْهَا كَأَطْيَبِ نَفْحَةِ مِسْكٍ وُجِدَتْ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ» قَالَ: «فَيَصْعَدُونَ بِهَا، فَلَا يَمُرُّونَ، يَعْنِي بِهَا، عَلَى مَلَإٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ، إِلَّا قَالُوا: مَا هٰذَا الرُّوحُ الطَّيِّبُ؟ فَيَقُولُونَ: فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ، بِأَحْسَنِ أَسْمَائِهِ الَّتِي كَانُوا يُسَمُّونَهُ بِهَا فِي الدُّنْيَا، حَتَّى يَنْتَهُوا بِهَا إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، فَيَسْتَفْتِحُونَ لَهُ، فَيُفْتَحُ لَهُمْ فَيُشَيِّعُهُ مِنْ كُلِّ سَمَاءٍ مُقَرَّبُوهَا إِلَى السَّمَاءِ الَّتِي تَلِيهَا، حَتَّى يُنْتَهَى بِهِ إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ، فَيَقُولُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: اكْتُبُوا كِتَابَ عَبْدِي فِي عِلِّيِّينَ، وَأَعِيدُوهُ إِلَى الْأَرْضِ، فَإِنِّي مِنْهَا خَلَقْتُهُمْ، وَفِيهَا أُعِيدُهُمْ، وَمِنْهَا أُخْرِجُهُمْ تَارَةً أُخْرَى». قَالَ: «[فَيُرَدُّ إِلَى الْأَرْضِ،۵ ] فَتُعَادُ رُوحُهُ فِي جَسَدِهِ، فَيَأْتِيهِ مَلَكَانِ، فَيُجْلِسَانِهِ، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَنْ رَبُّكَ؟ فَيَقُولُ: رَبِّيَ اللهُ، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَا دِينُكَ؟ فَيَقُولُ: دِينِيَ الْاِسلَامُ، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَا هٰذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيكُمْ؟ فَيَقُولُ: هُوَ رَسُولُ اللهِ r، [فَيَقُولَانِ: وَمَا يُدْرِيكَ؟ فَيَقُولُ: جَاءَنَا بِالْبَيِّنَاتِ مِنْ رَبِّنَا فَآمَنْتُ بِهِ وَصَدَّقْتُهُ،۶  ] فَيَقُولَانِ: لَهُ: وَمَا عِلْمُكَ؟ فَيَقُولُ: قَرَأْتُ كِتَابَ اللهِ، فَآمَنْتُ بِهِ وَصَدَّقْتُ،» [قَالَ: «وَذٰلِكَ قَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ: ﴿يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَةِ﴾» [ابراہیم ۱۴: ۲۷]» قَالَ۷  ]: «فَيُنَادِي مُنَادٍ فِي السَّمَاءِ: أَنْ صَدَقَ عَبْدِي، فَأَفْرِشُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ، وَأَلْبِسُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ، وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى الْجَنَّةِ». قَالَ: «فَيَأْتِيهِ مِنْ رَوْحِهَا، وَطِيبِهَا، وَيُفْسَحُ لَهُ فِي قَبْرِهِ مَدَّ بَصَرِهِ». قَالَ: «وَيَأْتِيهِ رَجُلٌ حَسَنُ الْوَجْهِ، حَسَنُ الثِّيَابِ، طَيِّبُ الرِّيحِ، فَيَقُولُ [لَهُ۸  ]: أَبْشِرْ بِالَّذِي يَسُرُّكَ، هٰذَا يَوْمُكَ الَّذِي كُنْتَ تُوعَدُ، فَيَقُولُ لَهُ: مَنْ أَنْتَ [يَرْحَمُكَ اللهُ۹ ]؟ فَوَجْهُكَ الْوَجْهُ يَجِيءُ بِالْخَيْرِ، فَيَقُولُ: أَنَا عَمَلُكَ الصَّالِحُ، [فَوَاللهِ مَا عَلِمْتُكَ إِلَّا كُنْتَ سَرِيعًا فِي طَاعَةِ اللهِ بَطِيئًا عَنْ مَعْصِيَةِ اللهِ فَجَزَاكَ اللهُ خَيْرًا۱۰  ] فَيَقُولُ: رَبِّ أَقِمِ السَّاعَةَ [ثَلَاثًا،۱۱   ]حَتَّى أَرْجِعَ إِلَى أَهْلِي، وَمَالِي». قَالَ: «وَإِنَّ الْعَبْدَ الْكَافِرَ۱۲ إِذَا كَانَ فِي انْقِطَاعٍ مِنَ الدُّنْيَا وَإِقْبَالٍ مِنَ الْآخِرَةِ، نَزَلَ إِلَيْهِ مِنَ السَّمَاءِ مَلَائِكَةٌ سُودُ الْوُجُوهِ، مَعَهُمُ الْمُسُوحُ، فَيَجْلِسُونَ مِنْهُ مَدَّ الْبَصَرِ، ثُمَّ يَجِيءُ مَلَكُ الْمَوْتِ، حَتَّى يَجْلِسَ عِنْدَ رَأْسِهِ، فَيَقُولُ: أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْخَبِيثَةُ، اخْرُجِي إِلَى سَخَطٍ مِنَ اللهِ وَغَضَبٍ». قَالَ: «فَتُفَرَّقُ فِي جَسَدِهِ، فَيَنْتَزِعُهَا كَمَا يُنْتَزَعُ السَّفُّودُ مِنَ الصُّوفِ الْمَبْلُولِ، فَيَأْخُذُهَا، فَإِذَا أَخَذَهَا لَمْ يَدَعُوهَا فِي يَدِهِ طَرْفَةَ عَيْنٍ حَتَّى يَجْعَلُوهَا فِي تِلْكَ الْمُسُوحِ، وَيَخْرُجُ مِنْهَا كَأَنْتَنِ رِيحِ جِيفَةٍ وُجِدَتْ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ، فَيَصْعَدُونَ بِهَا، فَلَا يَمُرُّونَ بِهَا عَلَى مَلَاءٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ، إِلَّا قَالُوا: مَا هٰذَا الرُّوحُ الْخَبِيثُ؟ فَيَقُولُونَ: فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ بِأَقْبَحِ أَسْمَائِهِ الَّتِي كَانَ يُسَمَّى بِهَا فِي الدُّنْيَا، حَتَّى يُنْتَهَى بِهِ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، فَيُسْتَفْتَحُ لَهُ، فَلَا يُفْتَحُ لَهُ»، ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللهِ r: ﴿لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ اَبْوَابُ السَّمَآءِ وَلَا يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ حَتّٰي يَلِجَ الْجَمَلُ فِيْ سَمِّ الْخِيَاطِذ﴾ [الاعراف ۷: ۴۰]  فَيَقُولُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: «اكْتُبُوا كِتَابَهُ فِي سِجِّينٍ فِي الْأَرْضِ السُّفْلَى، [وَأَعِيدُوهُ إِلَى الْأَرْضِ، فَإِنِّي مِنْهَا خَلَقْتُهُمْ، وَفِيهَا أُعِيدُهُمْ، وَمِنْهَا أُخْرِجُهُمْ تَارَةً أُخْرَى» قَالَ۱۳ ] «فَتُطْرَحُ رُوحُهُ طَرْحًا»۱۴. ثُمَّ قَرَأَ [رَسُولُ اللهِ r۱۵  ]: ﴿وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ اَوْ تَهْوِيْ بِهِ الرِّيْحُ فِيْ مَكَانٍ سَحِيْقٍا﴾ [الحج۲۲: ۳۱] «[وَيُعَادُ إِلَى الْأَرْضِ،۱۶ ] فَتُعَادُ رُوحُهُ فِي جَسَدِهِ، وَيَأْتِيهِ مَلَكَانِ [شَدِيدَا الِانْتِهَارِ فَيَنْتَهِرَانِهِ۱۷ ] فَيُجْلِسَانِهِ، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَنْ رَبُّكَ؟ فَيَقُولُ: هَاهْ هَاهْ لَا أَدْرِي، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَا دِينُكَ؟ فَيَقُولُ: هَاهْ هَاهْ لَا أَدْرِي، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَا هٰذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيكُمْ؟ فَيَقُولُ: هَاهْ هَاهْ لَا أَدْرِي، فَيُنَادِي مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ أَنْ كَذَبَ، فَافْرِشُوا لَهُ مِنَ النَّارِ، [وَأَلْبِسُوهُ مِنَ النَّارِ،۱۸  ] وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى النَّارِ، فَيَأْتِيهِ مِنْ حَرِّهَا، وَسَمُومِهَا، وَيُضَيَّقُ عَلَيْهِ قَبْرُهُ حَتَّى تَخْتَلِفَ فِيهِ أَضْلَاعُهُ، وَيَأْتِيهِ رَجُلٌ قَبِيحُ الْوَجْهِ، قَبِيحُ الثِّيَابِ، مُنْتِنُ الرِّيحِ، فَيَقُولُ: أَبْشِرْ بِالَّذِي يَسُوءُكَ، هٰذَا يَوْمُكَ الَّذِي كُنْتَ تُوعَدُ، فَيَقُولُ: مَنْ أَنْتَ؟ فَوَجْهُكَ الْوَجْهُ يَجِيءُ بِالشَّرِّ، فَيَقُولُ: أَنَا عَمَلُكَ الْخَبِيثُ،۱۹ [وَاللهِ مَا عَلِمْتُكَ إِلَّا كُنْتَ بَطِيئًا عَنْ طَاعَةِ اللهِ سَرِيعًا إِلَى مَعْصِيَةِ اللهِ۲۰ ] فَيَقُولُ: رَبِّ لَا تُقِمِ السَّاعَةَ، [رَبِّ لَا تُقِمِ السَّاعَةَ۲۱ ]». 
اِنھی براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم انصار کے ایک شخص کے جنازے میں شرکت کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے اور اُس کی قبر کے پاس پہنچے، جو ابھی کھودی نہیں گئی تھی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں پہنچ کر بیٹھ گئے اور ہم بھی آپ کے گرد بیٹھ گئے۔ (اُس وقت ہم ایسے خاموش تھے)، جیسے ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں۔آپ نگاہ اُٹھا کر کبھی آسمان کی طرف اور کبھی نیچی کرکے زمین کی طرف دیکھ رہے تھے۔آپ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی، جس سے آپ زمین کو کرید رہے تھے۔ پھر آپ نے سر اٹھا کر دو یا تین مرتبہ فرمایا: قبر کےعذاب سے بچنے کے لیے اللہ کی پناہ مانگا کرو۔ پھر فرمایا کہ بندۂ مومن جب دنیا کو چھوڑ کر آخرت کی طرف روانہ ہونے لگتا ہے تو آسمان سے اُس کے پاس بہت سے فرشتے آتے ہیں، روشن چہرے والے، گویا چمکتا ہوا سورج ہیں۔اُن کے پاس جنت کا ایک کفن اور وہاں کی ایک خوشبو ہوتی ہے،وہ اُس کے سامنے تا حد نگاہ بیٹھ جاتے ہیں۔ پھر موت کا فرشتہ آکر اُس کےسرہانے بیٹھ کر کہتا ہے: اے مطمئن اور پاکیزہ نفس، اپنے رب کی مغفرت اور اُس کی خوشنودی کی طرف باہر نکل آ۔ فرمایا کہ  پھر اُس کی روح اِس طرح نکلتی ہے، جیسے مشکیزے کے منہ سے پانی کا قطرہ بہتا ہے، چنانچہ  ملک الموت اُسے لیتا ہے اور پھر اگلے ہی لمحے دوسرے فرشتے اُس سے یہ روح لے کر وہی خوشبو اُسے لگاتے اور وہی  کفن اُسے پہنادیتے ہیں۔ پھر اُس سے مشک کی ایسی خوشبو پھیلتی ہے جیسے بہترین مشک کا ایک خوشگوار جھونکا زمین پر محسوس ہونے لگا ہو۔ فرمایا کہ  پھر فرشتے اُس روح کو لے کر اوپر چلے جاتے ہیں اور فرشتوں کے جس گروہ پر بھی اُن کا گزر ہوتا ہے، وہ  اُن سے پوچھتا ہے: یہ پاکیزہ روح کس کی ہے؟ یہ جواب میں فلاں بن فلاں کہہ کر اُس کا وہ بہترین نام بتاتے ہیں جس سے دنیا میں لوگ اُسے پکارتے تھے، یہاں تک کہ یہ اُس  روح کو لے کر آسمان دنیا تک پہنچ جاتے اور اُس کے لیے وہاں کے دروازے کھٹکھٹاتے ہیں تو اِن کے لیے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور پھر  ہر آسمان کے قریبی فرشتے اُس کو لے کر اگلے آسمان تک پہنچاتے ہیں، یہاں تک کہ باُس کو ساتویں آسمان تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرے بندے کا نامۂ اعمال علیین میں لکھ کر محفوظ کردو اور اِسے واپس زمین کی طرف لے جاؤ ، اِس لیے کہ میں نے اپنے بندوں کو زمین کی مٹی ہی سے پیدا کیا ہے، اِسی میں اِن کو  لوٹاؤں گا اور اِسی سے ایک مرتبہ پھر نکالوں گا۔چنانچہ اُس کو زمین کی طرف واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ پھر اُس کی روح اُس کےجسم میں لوٹادی جاتی ہے۱ ق، پھر دو فرشتے اُس کے پاس آتے ہیں جو اُس کو بٹھاکر پوچھتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے؟ وہ جواب میں کہتا ہے: میرا رب اللہ ہے۔ پھر وہ اُس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا دین کیا ہے ؟ وہ کہتا  ہے: میرادین اسلام ہے۔ پھر وہ اُس سے پوچھتے ہیں کہ یہ کون شخص ہے جو تمھاری طرف بھیجا گیا تھا؟ وہ جواب دیتا ہے:یہ اللہ کے رسول ہیں ۔وہ اُس سے پوچھتے ہیں کہ (اِن کے بارے میں) تم کیا جانتے ہو ؟ وہ جواب میں کہتا ہے: یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے پاس واضح نشانیاں لے کر آئے تھے، چنانچہ میں اِن پر ایمان لایا اور اِن کی تصدیق کی تھی۲۔پھر وہ اُس سے کہتے ہیں کہ تمھارا علم کیا ہے؟ وہ کہتا ہے: میں نے اللہ کی کتاب پڑھی ہے، اُس پر ایمان لایا ہوں اور اُس کی تصدیق کی ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ یہی بات ہے جو اللہ تعالیٰ کے ارشاد: ’﴿يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَةِ﴾‘، ’’ایمان والوں کو اللہ اِسی محکم بات سے دنیا اور آخرت، (دونوں ) کی زندگی میں ثبات عطا فرمائے گا‘‘(ابراہیم۱۴: ۲۷)میں بیان ہوئی ہے۔فرمایا کہ اِس کے بعد آسمان سے ایک منادی پکارتا ہے کہ میرے بندے نے بالکل سچ کہا ہے،اِس کے لیے جنت کا بستر بچھادو، اِسے جنت کا لباس پہناؤ اور اِس کے لیے جنت کا ایک دروازہ کھول دو۔چنانچہ اُسے جنت کی ہوائیں اور خوشبوئیں آنا شروع ہوجاتی ہیں اور اُس کی قبر کو تاحد نگاہ وسیع کردیا جاتا ہے اور اُس کے پاس ایک خوب صورت آدمی، خوب صورت لباس میں اور خوشبو میں مہکتا ہوا آتا ہے اور اُس سے کہتا ہےکہ تمھیں یہ خوش خبری مبارک ہو، یہ وہی دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا  گیا تھا۔ وہ اُس سے پوچھتا ہے: اللہ تم پر رحم فرمائے، تم کون ہو؟ تمھارا تو چہرہ ہی خیر کا پیغام بر ہے۔ وہ جواب دیتا ہے کہ میں تمھارا نیک عمل ہوں، بخدا میں جانتا ہوں کہ تم ہمیشہ اللہ کی فرماں برداری میں چست اور اُس کی نافرمانی میں سست رہے ہو، لہٰذا اب اللہ تمھیں اِس کی بہترین جزا دے گا۔ پھر وہ مردہ تین مرتبہ پکارتا ہے کہ اے میرے رب، (جلد) قیامت قائم فرما تا کہ میں اپنے اہل خانہ اور اپنے مال کی طرف ۳ بلوٹ جاؤں۔ فرمایا کہ (اِس کے برخلاف) جب کافر دنیا کو چھوڑتا اور آخرت کی طرف روانہ ہونے لگتا ہے تو اُس کے پاس بھی آسمان سے بہت سے فرشتے آتے ہیں، سیاہ چہرے والے، جن کے پاس ٹاٹ کے کپڑے ہوتے ہیں، وہ اُس کے سامنے تا حد نگاہ بیٹھ جاتے ہیں۔ پھر موت کا فرشتہ آکر اُس کےسرہانے بیٹھ کر کہتا ہے: اے ناپاک نفس، اللہ کی ناراضی اور اُس کےغصے کی طرف باہر  نکل آ۔ یہ سن کر اُس کی روح جسم میں منتشر ہونے لگتی ہے، لیکن ملک الموت اُس کو جسم سے اِس طرح کھینچ لیتا ہے، جیسے گیلی اون سے سیخ کو کھینچا جاتا ہے ۔سو وہ اُس کو لیتا ہے اور اگلے ہی لمحے دوسرے فرشتے اُس سے یہ روح لے کراُنھی ٹاٹ کے کپڑوں میں اُس کو ڈال دیتے ہیں۔ اُس وقت اُس سےایسی بو اُٹھتی ہے، گویا روے زمین پر پایا جانے والا سڑے ہوئے مردار کی بد بو کابدترین جھونکا ہے ۔پھر وہ فرشتے اُس کو لے کر اوپر چلے جاتے ہیں اور فرشتوں کے جس گروہ پر بھی اُن کا گزر ہوتا ہے، وہ  اُن سے پوچھتا ہے کہ یہ ناپاک روح کس کی ہے؟ یہ جواب میں فلاں بن فلاں کہہ کر اُس کا وہ بد ترین نام بتاتے ہیں جس سے دنیا میں اُس کو پکارا جاتا تھا، یہاں تک کہ یہ اُس  روح کو لے کر آسمان دنیا تک پہنچتے ہیں، وہاں اُس کے لیے دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے، لیکن وہ اُس کے لیے نہیں کھولا جاتا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی کہ:’﴿لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ اَبْوَابُ السَّمَآءِ وَلَا يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ حَتّٰي يَلِجَ الْجَمَلُ فِيْ سَمِّ الْخِيَاطِ﴾‘، ’’اُن کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے اور وہ ہرگز جنت میں داخل نہیں ہوں گے، جب تک اونٹ سوئی کے ناکے سے نہ گزر جائے‘‘ (الاعراف ۷: ۴۰)۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اِس کے اعمال نامے کو سجین میں لکھ کر نچلی زمین میں محفوظ کردو اور اِس کو واپس اِسی زمین کی طرف لے جاؤ ، اِس لیے کہ میں نے اپنے بندوں کو زمین کی مٹی ہی سے پیدا کیا ہے، اِسی میں اِن کو  لوٹاؤں گا اور اِسی سے ایک مرتبہ پھر نکالوں گا۔ فرمایا کہ اُس کی روح کو اوپر ہی سےپھینک دیا جاتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی: ’﴿وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ اَوْ تَهْوِيْ بِهِ الرِّيْحُ فِيْ مَكَانٍ سَحِيْقٍ﴾‘، ’’اور (یاد رکھو کہ) جو اللہ کے شریک ٹھیراتا ہے تو گویا وہ آسمان سے گر پڑاہے۔ اب پرندے اُس کو اچک لے جائیں گے یا ہوا اُس کو کسی دور دراز جگہ پر لے جا کر پھینک دے گی‘‘(الحج۲۲: ۳۱)۔ (فرمایا): وہ زمین کی طرف واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ پھر اُس کی روح اُس کے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے۔ پھر سخت جھڑکنے والے دو فرشتے اُس کے پاس آتے ہیں اور اُس کو جھڑک کر بٹھاتے اور اُس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے ؟ وہ جواب دیتا ہے: ہاے افسوس ، میں کچھ نہیں جانتا۔وہ اُس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا دین کیا ہے ؟ وہ کہتا ہے: ہاے افسوس ، مجھے کچھ علم نہیں ہے۔ وہ پوچھتے ہیں کہ یہ کون شخص تھا جوتمھاری طرف بھیجا گیا تھا؟ وہ جواب دیتا ہے: ہاے افسوس ، مجھے کچھ نہیں معلوم۔ پھر آسمان سے ایک منادی پکارتا ہے کہ اِس نے جھوٹ بولا ہے، لہٰذا اِس کے لیے آگ کا بستر بچھاؤ، اِس کوآگ کا لباس پہناؤ اور جہنم کا ایک دروازہ اِس کے لیے کھول دو۔ چنانچہ پھر اُس کو دوزخ کی گرمی اور اُس کی  لو پہنچنے لگتی ہے اور قبر کو اُس پر اتنا  تنگ کردیا جاتا ہے کہ اُس کی پسلیاں تک ایک دوسرے میں داخل ہو جاتی ہیں۔ اِس کے بعد ایک بد صور ت آدمی بد نما کپڑوں اور بد بو دار حالت میں اُس کے پاس آکر اُس سے کہتا ہےکہ تجھے یہ بری خبر مبارک ہو۔ یہ وہی دن ہے جس کی تجھے وعید سنائی گئی تھی۔ وہ اُس سے پوچھتا ہے:تم کون ہو؟ تمھارا تو چہرہ ہی شر کا پتا دے رہا ہے۔ وہ جواب دیتا ہے کہ میں تمھارا برا عمل ہوں، بخدا میں جانتا ہوں کہ تم ہمیشہ اللہ کی فرماں برداری میں سست اور اُس کی نافرمانی میں چست رہے ہو ۔پھر وہ مرنے والا کہتا ہے کہ پروردگار، قیامت قائم نہ کرنا، قیامت قائم نہ کرنا۔

______________________

۱۔ یعنی اُس جسم میں، جس کے ساتھ وہ قیامت کے دن اٹھے گا اور اُس کا یہ جسم وہاں دوسروں کے لیے بھی مرئی ہو جائے گا۔ بالبداہت واضح ہے کہ اِس سے وہ جسم ہرگز مراد نہیں ہے، جسے لوگ سپرد خاک کر دیتے یا جلا کر راکھ بنا دیتے ہیں۔قبر میں روح و جسم کے تعلق کے بارے میں جتنے مباحث ہمارے ہاں پیدا ہوئے ہیں، وہ اِسی غلط فہمی سے پیدا ہوئے ہیں۔ قرآن نے کئی مقامات پر اِس دوسرے جسم کی صراحت فرمائی ہے، لیکن اُس کا ذکر چونکہ احوال قیامت کے ذیل میں ہوا ہے، اِس لیے لوگ اِس طرف متوجہ نہیں ہوئے کہ اُس کی ابتدا برزخ ہی سے ہو جائے گی اور مرنے والے اُسی کے ساتھ قیامت میں اپنی قبروں سے نکل کر اپنے پروردگار کے سامنے حاضر ہوں گے۔ اِس وقت یہ جسم اور اِس کے حاملین اِسی زمین میں ہیں، مگر ہمارے لیے اُسی طرح نظروں سے اوجھل ہیں، جس طرح فرشتے اور جنات اپنے اجسام کے ساتھ نظروں سے اوجھل ہیں۔ تاہم معلوم ہے کہ پیغمبروں کے سامنے وہ اپنے اصلی جسم میں اور کبھی انسانوں کی صورت میں ممثل ہو کر نمایاں بھی ہوتے رہے ہیں۔ بنی آدم کے معاملے میں یہ ظہور و خفا کس طرح  ہوگا اور اُن کا یہ جسم اگر مٹی سے بنا ہے تو اُس میں یہ خاصیت کس طرح پیدا ہو جائے گی، اِ س کی حقیقت ہم نہیں جانتے، لیکن اتنی بات ہر شخص کو معلوم ہے کہ یہ ہرگز مستبعد نہیں ہے، اِس لیے کہ ایٹم کی سطح پر تو یہ مٹی اِس وقت بھی غیرمرئی ہی ہے۔

۲۔ اِس سے معلوم ہوا کہ براء بن عازب کی یہ مفصل روایت بھی اُنھی لوگوں کے بارے میں ہے، جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے براہ راست اتمام حجت کیا اور وہ آپ کے مومن یا کافر ہو کر اِس دنیا سے رخصت ہوئے۔

۳۔ یعنی اُس مال ومنال کی طرف جو مجھے ابدی زندگی میں رہنے بسنے کے لیے دیا جائے گا۔

متن کے حواشی

۱۔ اِس روایت کا متن اصلاً مسند احمد، رقم ۱۸۵۳۴سے لیا گیا ہے۔اِس کے راوی تنہا براء بن عازب رضی اللہ عنہ ہیں۔ اِس کے متابعات اِن مراجع میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: الزہد والرقائق،ابن مبارک، رقم ۱۲۱۹۔ مسندطيالسی، رقم ۷۸۹۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۲۰۵۹، ۱۲۰۶۰۔ الرد على الجہميہ، ابو سعید دارمی، رقم ۱۱۰۔ سنن ابی داؤد، رقم ۴۷۵۳ ، ۴۷۵۴۔السنۃ، عبد الله بن احمد، رقم ۱۴۳۸، ۱۴۳۹، ۱۴۴۰۔ مسندرويانی، رقم ۳۹۲۔ تفسير ابن ابی حاتم، رقم ۷۴۱۷، ۸۴۹۲۔الشريعۃ، آجری، رقم  ۸۶۴، ۸۶۵، ۸۶۶۔ الايمان،ابن منده، رقم  ۱۰۶۴۔ مستدرك حاكم، رقم ۱۰۷۔شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ، لالکائی، رقم۲۱۴۰۔ اثبات عذاب القبر، بیہقی، رقم۲۰، ۲۱، ۴۴۔

۲۔الزہد والرقائق،ابن مبارک، رقم ۱۲۱۹۔

۳۔ مسندطيالسی، رقم ۷۸۹۔

۴ ۔الزہد والرقائق،ابن مبارک، رقم ۱۲۱۹۔

۵۔ مسندطيالسی، رقم ۷۸۹۔

۶۔ مسندطيالسی، رقم ۷۸۹۔

۷۔ مسندطيالسی، رقم ۷۸۹۔

۸۔ السنۃ، عبد الله بن احمد، رقم ۱۴۳۸۔

۹۔  مسند رويانی، رقم ۳۹۲۔

۱۰۔  مسندطيالسی، رقم ۷۸۹۔

۱۱۔ الزہد والرقائق،ابن مبارک، رقم ۱۲۱۹۔

۱۲ ۔ بعض طرق، مثلاً مسند رويانی، رقم ۳۹۲ میں یہاں ’كافر‘ کے بجاے’ فاجر‘  کا لفظ نقل ہوا ہے۔

۱۳۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۲۰۵۹۔

۱۴ ۔مسندطيالسی، رقم ۷۸۹میں یہاں ’«فَيُرْمَى بِهِ مِنَ السَّمَاءِ»‘، ’’پھر اُس کو آسمان سے (زمین کی طرف) پھینک دیا جاتا ہے ‘‘کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔

۱۵۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۲۰۵۹۔

۱۶۔  مسندطيالسی، رقم ۷۸۹۔

۱۷ ۔اثبات عذاب القبر، بیہقی، رقم۲۰۔

۱۸۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۲۰۵۹۔

۱۹۔ بعض طرق، مثلاً الزہد والرقائق،ابن مبارک، رقم ۱۲۱۹ میں یہاں ’الْخَبِيثُ‘ کے بجاے ’ السَّيِّئُ‘   کا لفظ آیا ہے۔ معنی کے اعتبار سے یہاں یہ دونوں الفاظ مترادف ہیں۔

۲۰۔  مسندطيالسی، رقم ۷۸۹۔

۲۱۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۲۰۵۹۔

[باقی]

__________

B