HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: الشعراء ۲۶: ۱۹۲- ۲۲۷ (۴)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

(گذشتہ سے پیوستہ)

 

وَاِنَّهٗ لَتَنْزِيْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ١٩٢ﶠ نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ ١٩٣ﶫ عَلٰي قَلْبِكَ لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِيْنَ ١٩٤ﶫ بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِيْنٍ ١٩٥ﶠ وَاِنَّهٗ لَفِيْ زُبُرِ الْاَوَّلِيْنَ ١٩٦ اَوَلَمْ يَكُنْ لَّهُمْ اٰيَةً اَنْ يَّعْلَمَهٗ عُلَمٰٓؤُا بَنِيْ٘ اِسْرَآءِيْلَ ١٩٧ﶠ

(یہ پہلوں کی سرگذشتیں ہیں۔ اِس کتاب کے منکرین بھی یہی کر رہے ہیں، اِس لیے مطمئن رہو)، اِس میں کچھ شک نہیں کہ یہ نہایت اہتمام سے خداوند عالم کا اتارا ہوا کلام ہے[192]۔ اِس کو تمھارے دل پر روح الامین[193] لے کر اترا ہے[194]، اِس لیے کہ دوسرے پیغمبروں کی طرح تم بھی خبردار کرنے والے بنو، نہایت صاف عربی زبان میں ـــــــ  اور یہ اگلے صحیفوں میں بھی مذکور ہے[195]۔ کیا اِن لوگوں کے لیے یہ کوئی نشانی نہیں ہے کہ اِس کو بنی اسرائیل کے علما جانتے ہیں؟ ۱۹۲- ۱۹۷


وَلَوْ نَزَّلْنٰهُ عَلٰي بَعْضِ الْاَعْجَمِيْنَ ١٩٨ﶫ فَقَرَاَهٗ عَلَيْهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ مُؤْمِنِيْنَ ١٩٩ﶠ كَذٰلِكَ سَلَكْنٰهُ فِيْ قُلُوْبِ الْمُجْرِمِيْنَ ٢٠٠ﶠ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِهٖ حَتّٰي يَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِيْمَ ٢٠١ﶫ فَيَاْتِيَهُمْ بَغْتَةً وَّهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ ٢٠٢ﶫ فَيَقُوْلُوْا هَلْ نَحْنُ مُنْظَرُوْنَ ٢٠٣ﶠ

(یہ اب بھی نہیں مان رہے)، اور اگر ہم اِس کو کسی عجمی پر نازل کر دیتے، پھر وہ اِنھیں پڑھ کر اِسے سناتا تو یہ پھربھی اِس پر ایمان نہ لاتے۔ اِن مجرموں کے دلوں میں اِسی طرح ہم نے اِسے گزارا ہے[196]۔ یہ اِسے نہیں مانیں گے، جب تک دردناک عذاب نہ دیکھ لیں کہ وہ اچانک اِن پر آجائے اور اِنھیں خبر بھی نہ ہو،پھر اُس وقت کہیں کہ کیا ہمیں کچھ مہلت ملے گی؟ ۱۹۸-۲۰۳


اَفَبِعَذَابِنَا يَسْتَعْجِلُوْنَ ٢٠٤ اَفَرَءَيْتَ اِنْ مَّتَّعْنٰهُمْ سِنِيْنَ ٢٠٥ﶫ ثُمَّ جَآءَهُمْ مَّا كَانُوْا يُوْعَدُوْنَ ٢٠٦ﶫ مَا٘ اَغْنٰي عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يُمَتَّعُوْنَ ٢٠٧ﶠ

ل تو کیا یہ ہمارے عذاب کے لیے جلدی مچائے ہوئے ہیں؟ ذرا دیکھو تو، اگر ہم (وہ عذاب ابھی نہ اتاریں اور) اِن کو چند سال اور (اِسی طرح) بہرہ مند رکھیں، پھر وہ عذاب اِن پر آجائے جس سے اِنھیں ڈرایا جا رہا ہے تو یہ بہرہ مندی اِن کے کس کام آئے گی[197]؟ ۲۰۴-۲۰۷


وَمَا٘ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْيَةٍ اِلَّا لَهَا مُنْذِرُوْنَ ٢٠٨ﶧ ذِكْرٰيﵵ وَمَا كُنَّا ظٰلِمِيْنَ ٢٠٩

(اِنھیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ مہلت اتمام حجت کے لیے ہے)۔ ہم نے کسی بستی کو بھی اِس کے بغیر ہلاک نہیں کیا کہ اُس کے لیے پہلے (اُن لوگوں کی) یاددہانی کے لیے خبردار کرنے والے آئے۔ اور ہم ظالم نہیں ہیں کہ اِس کے بغیر ہی اُنھیں ہلاک کر دیں ۔۲۰۸-۲۰۹


وَمَا تَنَزَّلَتْ بِهِ الشَّيٰطِيْنُ ٢١٠ﶔ وَمَا يَنْۣبَغِيْ لَهُمْ وَمَا يَسْتَطِيْعُوْنَ ٢١١ﶠ اِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُوْلُوْنَ ٢١٢ﶠ

(یہ خدا کا اتارا ہوا کلام ہے، اِس سے یاددہانی حاصل کرو)۔ اِسے شیاطین لے کر نہیں اترے ہیں۔ نہ یہ اُ ن کے لائق ہے، نہ وہ ایسا کر سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ تو سن گن لینے ہی سے دور رکھے گئے ہیں[198]۔ ۲۱۰-۲۱۲


فَلَا تَدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ فَتَكُوْنَ مِنَ الْمُعَذَّبِيْنَ ٢١٣ﶔ وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ ٢١٤ﶫ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ ٢١٥ﶔ

(یہ اب عذاب کی زد میں ہیں، اے پیغمبر)، اِس لیے اللہ کے ساتھ تم کسی دوسرے معبود کو نہ پکارنا کہ تم بھی سزاوار عذاب ہو جاؤ[199]، اور اپنے قریبی خاندان والوں کو بھی اِس سے خبردار کر دو[200]، اور جن اہل ایمان نے تمھاری پیروی کی ہے، اُن کے لیے اپنی شفقت کے بازو جھکائے رکھو[201]۔ ۲۱۳ -۲۱۵


فَاِنْ عَصَوْكَ فَقُلْ اِنِّيْ بَرِيْٓءٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ ٢١٦ﶔ وَتَوَكَّلْ عَلَي الْعَزِيْزِ الرَّحِيْمِ ٢١٧ﶫ الَّذِيْ يَرٰىكَ حِيْنَ تَقُوْمُ ٢١٨ﶫ وَتَقَلُّبَكَ فِي السّٰجِدِيْنَ ٢١٩ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ ٢٢٠

لیکن تمھارے خاندان کے یہ لوگ اگر (اِس کے باوجود) تمھاری بات نہ مانیں تو اِنھیں صاف صاف بتا دو کہ جو کچھ تم کر رہے ہو، میں اُس سے بری ہوں، اور (اپنی دعوت کے اِس مرحلے میں)[202] اُس عزیز و رحیم پر بھروسا رکھو جو تمھیں اُس وقت دیکھتا ہے،جب تم رات میں تہجد کے لیے اٹھتے ہو اور سجدہ کرنے والوں کے درمیان تمھارے آنے اور جانے کو دیکھتا ہے[203]۔ بے شک، وہ سمیع و علیم ہے۔ ۲۱۶-۲۲۰


هَلْ اُنَبِّئُكُمْ عَلٰي مَنْ تَنَزَّلُ الشَّيٰطِيْنُ ٢٢١ﶠ تَنَزَّلُ عَلٰي كُلِّ اَفَّاكٍ اَثِيْمٍ ٢٢٢ﶫ يُّلْقُوْنَ السَّمْعَ وَاَكْثَرُهُمْ كٰذِبُوْنَ ٢٢٣ﶠ

(لوگو، یہ وہ پاکیزہ ہستی ہے جس کے بارے میں تم کہتے ہو کہ اُس پر شیاطین اترتے ہیں)۔ تمھیں بتاؤں کہ شیاطین کس پر اترتے ہیں؟ وہ ہر لپاٹیے بدکارپر اترتے ہیں۔وہ (اُن کی طرف) کان لگاتے ہیں (کہ غیب سے کچھ سن رہے ہیں)[204]، مگر اُن میں سے اکثر جھوٹے ہوتے ہیں[205]۔ ۲۲۱-۲۲۳


وَالشُّعَرَآءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوٗنَ ٢٢٤ﶠ اَلَمْ تَرَ اَنَّهُمْ فِيْ كُلِّ وَادٍ يَّهِيْمُوْنَ ٢٢٥ﶫ وَاَنَّهُمْ يَقُوْلُوْنَ مَا لَا يَفْعَلُوْنَ ٢٢٦ﶫ اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَذَكَرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا وَّانْتَصَرُوْا مِنْۣ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْاﵧ وَسَيَعْلَمُ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْ٘ا اَيَّ مُنْقَلَبٍ يَّنْقَلِبُوْنَ ٢٢٧

ب (اور کہتے ہو کہ وہ بھی گویا ایک شاعر ہے[206]، جب کہ)شاعروں کے پیچھے تو بہکے ہوئے لوگ چلا کرتے ہیں[207]۔ کیا دیکھتے نہیں ہو کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے ہیں[208] اور ایسی باتیں کہتے ہیں جو کرتے نہیں ہیں[209]؟ اِس سے وہی مستثنیٰ ہیں جو ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کیے اور اللہ کو بہت یاد کیا اور اُسی وقت بدلہ لیا، جب اُن پر ظلم کیا گیا[210] ـــــــ  اور یہ ظلم کرنے والے، اِنھیں جلد معلوم ہوجائے گا کہ اِن کا ٹھکانا کیا ہوتا ہے۔ ۲۲۴-۲۲۷

[192]۔ یعنی قرآن مجید۔ اِس کے لیے ضمیر مرجع کے بغیر اِس لیے آگئی ہے کہ سیاق کلام اِسے واضح کر رہا ہے۔

[193]۔ یہ جبریل علیہ السلام کا لقب ہے جس سے یہ حقیقت ظاہر ہوتی ہے کہ جو کچھ اُن کے حوالے کیا جاتا ہے، اُسے وہ پوری دیانت داری کے ساتھ بے کم و کاست اور بغیر کسی ادنیٰ تبدیلی کے پہنچاتے ہیں۔

[194]۔ یعنی براہ راست تمھارے دل پر جس کے بعد کسی آمیزش کی گنجایش نہیں ہو سکتی۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...آیت میں خطاب ظاہر الفاظ کے اعتبار سے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے، لیکن کلام کا مقصود مخالفین پر اِس حقیقت کو واضح کرنا ہے کہ یہ کلام پاک منبع سے نکلا ہے، پاک ذریعے سے اترا ہے اور پاک ترین محل میں اِس نے اپنا مستقر بنایا ہے۔‘‘(تدبرقرآن۵/ ۵۵۸)

[195]۔ یہ اُن پیشین گوئیوں کا حوالہ ہے جو قرآن سے متعلق انبیاے سابقین کے صحیفوں میں موجود ہیں۔ آگے اُنھی کے پیش نظر فرمایا ہے کہ بنی اسرائیل کے علما اُن سے واقف ہیں اور اُن میں سے خدا جنھیں توفیق دے گا، وہ اِس کی شہادت بھی دیں گے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت پر قرآن جو دلائل پیش کرتا ہے، یہ اُن میں سے ایک اہم دلیل ہے جس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ پیغمبر کی حیثیت سے آپ لوگوں کے لیے کوئی اجنبی شخصیت نہیں تھے۔ اہل کتاب کے علما آپ کو اور آپ پر نازل ہونے والی کتاب کو اُسی طرح پہچانتے تھے، جس طرح ایک مہجور باپ اپنے موعود و منتظر بیٹے کو پہچانتا ہے۔

[196]۔ یعنی اِس طرح داخل کیا ہے کہ سنت الہٰی کے مطابق یہ اُس کو قبول کرنے سے ابا ہی کریں گے، اِس لیے کہ اپنی فطرت کو اِس بری طرح مسخ کر چکے ہیں کہ اِن کا معدہ اب اِس طرح کی کسی غذا کو قبول کرنے کے قابل نہیں رہا۔ چنانچہ انکار کے لیے کوئی نہ کوئی بہانہ تراش لیتے ہیں۔ اب اِس لیے نہیں مان رہے کہ تم اِنھی کے اندر سے ہو اور اگر باہر کا کوئی آدمی آ کر اِسے سناتا تو یہ کہہ کر رد کر دیتے کہ اہل عرب کے لیے کوئی عجمی کیسے پیغمبر بنا کر بھیجا جا سکتا ہے؟

[197]۔ مطلب یہ ہے کہ چند برسوں کی اِس مہلت نے اِنھیں غلط فہمی میں مبتلا کر دیا ہے۔ اِنھیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ مہلت مصلحت الہٰی سے ہے۔ اِس سے یہ عذاب ہمیشہ کے لیے ٹل نہیں جائے گا۔ اِن کا رویہ یہی رہا تو اِسے بالآخر آنا ہے اور یہ جب آئے گا تو یہ مہلت اِن کے کچھ بھی کام نہ آ ئے گی۔ موت اب آئے یا دس سال بعد آئے، وہ جب بھی آئے گی ، اُس سے پہلے کی زندگی اپنی تمام قدر و قیمت لازماً کھو دے گی۔

[198]۔ یعنی ایسی پاکیزہ باتیں، ایسی اعلیٰ اور برتر تعلیمات اور ایسا علم حقائق، پھر ایسے فصیح و بلیغ اور دل نشیں اسلوب میں نہ کسی شیطان سے صادر ہو سکتا ہے اور نہ شیاطین کسی منبع خیر سے اِس کو اچک کر لا سکتے ہیں، اِس لیے کہ ملاء اعلیٰ تک اُن کی رسائی کے تمام راستے نزول قرآن کے ساتھ ہی بند کر دیے گئے ہیں۔ قرآن نے دوسری جگہ خود جنات کی زبان سے اُن کا یہ اعتراف نقل کیا ہے کہ پہلے ہم آسمان کے ٹھکانوں میں سننے کی کوئی جگہ پا لیتے تھے، مگر ہم نے دیکھا کہ اب جو کچھ سننے کی کوشش کرتا ہے، اپنے لیے گھات میں ایک انگارا پاتا ہے۔ گویا مدعا یہ ہے کہ کلام خود بھی اِس بے ہودہ الزام کی تردید کر رہا ہے اور جن کے حوالے سے لگایا جا رہا ہے، وہ بھی تردید کر رہے ہیں۔

[199]۔ یہ خطاب اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، لیکن اِس سے مقصود اُنھی منکرین کو متنبہ کرنا ہے جو پیغمبر کی طرف سے اتمام حجت کے باوجود اپنے شرک پر اصرار کر رہے تھے۔

[200]۔ اِس لیے کہ تمھاری خیرخواہی کے سب سے زیادہ حق دار بھی وہی ہیں اور اہل عرب کی مذہبی اور سیاسی پیشوائی کا منصب بھی اُنھی کو حاصل ہے۔ لہٰذا متنبہ ہو گئے تو پوری قوم کے لیے خدا کے عذاب سے بچنے کی راہ نکل آئے گی۔

[201]۔ یہ ہدایت اِس لیے فرمائی ہے کہ یہ لوگ زیادہ تر غربا تھے اور قریش کے اکابر ہر وقت اِن کی تحقیر کے درپے رہتے تھے۔ چنانچہ اندیشہ تھا کہ کہیں دل شکستہ ہو کر ایمان کے منافی کوئی کام نہ کر بیٹھیں۔ چنانچہ دونے التفات کے مستحق تھے۔

[202]۔ یعنی جب تمھارے لیے ہجرت اور تمھارے مکذبین کے لیے عذاب کا مرحلہ قریب آرہا ہے۔ یہ مرحلہ چونکہ پیغمبر کے لیے نہایت کٹھن ہوتا ہے، اِس لیے آگے ہدایت فرمائی ہے کہ اِس میں اُس پروردگار پر بھروسا رکھو جو عزیز ہے، لہٰذا عذاب کا فیصلہ کرے گا تو کوئی اُس کا ہاتھ پکڑنے والا نہ ہو گا اور اپنے بندوں کے لیے رحیم و شفیق بھی ہے، لہٰذا اُنھیں بھی لازماً نوازے گا اور کوئی اُس میں رکاوٹ نہ بن سکے گا۔

[203]۔ یعنی غایت درجہ التفات کے ساتھ دیکھتا ہے۔ یہ اُس آمد و شد کی طرف اشارہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو دعا و مناجات میں مشغول دیکھنے کے لیے اُن کے درمیان رکھتے تھے۔ اہل ذوق اندازہ کر سکتے ہیں کہ آپ کی اور آپ کے ساتھیوں کی شب خیزی، فکر مندی اور ذکر و عبادت میں مشغولیت کی یہ کس قدر دل نواز انداز میں تحسین ہے۔ آیت میں اِس کے لیے ’تَقَلُّبَكَ فِي السّٰجِدِيْنَ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِس سے ’حِيْنَ تَقُوْمُ‘ کے معنی بھی واضح ہو جاتے ہیں کہ یہ فی الواقع آپ کا نماز تہجد ہی کے لیے اٹھنا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح خود شب کی دعا و مناجات کا اہتمام فرماتے تھے، اُسی طرح اپنے صحابہ کو بھی اِس کی تاکید فرماتے تھے اور وقتاً فوقتاً آپ مسجد میں جا کر یہ روح پرور منظر دیکھتے بھی تھے کہ لوگ دعا و عبادت میں مشغول ہیں۔ اوپرآیت۲۱۵ میں آپ کو مومنین کے باب میں یہ ہدایت جو فرمائی گئی کہ اُن کو اپنی شفقت کے بازوؤں کے نیچے رکھو، یہ بھی اُسی کا ایک پہلو ہے کہ آپ کی طرح آپ کے ساتھی بھی پوری طرح چوکنے اور بیدار رہیں۔ انجیلوں میں سیدنا مسیح کے بارے میں بھی آتا ہے کہ جب آزمایش کا آخری مرحلہ آیا ہے تو وہ ایک پہاڑی پر جا کر دعا میں مشغول ہو گئے اور اپنے شاگردوں کو بھی ہدایت فرمائی کہ وہ جاگیں اور دعا کریں کہ فتنے میں نہ پڑیں۔ پھر وہ بار بار اپنے شاگردوں کے پاس یہ دیکھنے کے لیے آئے کہ وہ دعا کر رہے ہیں یا نہیں۔ شاگرد سو جاتے تو وہ اُن کو بار بار جگاتے کہ دعا کرو تاکہ فتنے سے محفوظ رہو۔‘‘(تدبرقرآن۵/ ۵۶۴)

[204]۔ یہ اُن کاہنوں کی تصویر ہے جو اُس زمانے کے عرب میں اکثر دیکھے جاتے تھے۔ ہمارے ہاں کے متصوفین اور عاملوں کی تصویر بھی اِس سے مختلف نہیں ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’... اِن کی پہلی صفت یہ بتائی ہے کہ یہ ’اَفَّاك‘ یعنی بالکل لاغی، دروغ باف اور لپاٹیے ہوتے ہیں۔ یہ سادہ لوحوں کو بے وقوف بنانے کے لیے طرح طرح کے جھوٹ گھڑتے ہیں اور پھر اِس دعوے کے ساتھ اُن کو پیش کرتے ہیں کہ یہ باتیں اِن پر غیب سے القا ہوئی ہیں۔ اِن کی دوسری صفت ’اَثِيْم‘ بیان ہوئی ہے ،یعنی اخلاقی اعتبار سے یہ ہر قسم کے گناہوں میں آلودہ ہیں۔ آخر میں اِن کے اُس بھگل کی تصویر پیش کی گئی ہے جو عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے یہ لوگ اختیار کرتے تھے۔ اِن لوگوں کا طریقہ یہ تھا کہ احمق لوگ جب کسی معاملے میں غیب کی باتیں معلوم کرنے کے لیے اِن سے رجوع کرتے تو یہ لوگ کچھ عملیات سفلیہ کے ساتھ مراقبہ کرتے اور پھر ایک مقفٰی کلام کی صورت میں (جو اکثر بالکل بے معنی یا ذو معانی ہوتا)، اپنا الہام پیش کرتے کہ یہ اِن پر غیب سے فلاں جن نے القا کیا ہے۔ اِن کے اِس مراقبے کو یہاں ’القاے سمع‘ سے تعبیر فرمایا ہے، اِس لیے کہ وہ مراقبے میں اِس طرح بیٹھتے گویا ہاتف غیب سے کوئی بات سننے کے لیے کان لگائے ہوئے ہیں۔‘‘(تدبرقرآن ۵/ ۵۶۵)     

[205]۔ یعنی بعض تو فی الواقع اپنے عملیات سفلیہ کے ذریعے سے شیاطین جن کے ساتھ کچھ رابطہ پیدا کر لیتے اور اُن سے الہام پاتے ہیں، لیکن اکثر اپنے اِس پیشۂ کہانت میں بھی سچے نہیں ہوتے، محض عوام فریبی کے لیے اپنے آپ کو کاہن بنا کر پیش کرتے اور غیب دانی کا ڈھونگ رچاتے ہیں۔

[206]۔ یہ بات وہ اِس معنی میں کہتے تھے کہ جو بلاغت و جزالت اِن کے کلام میں دیکھ رہے ہو، وہ اُسی طرح کی بلاغت و جزالت ہے جو ہمارے شاعروں کے کلام میں بھی ہوتی ہے، خاص طور پر اُن بڑے شاعروں کے کلام میں جن کے ساتھ جنات ہوتے ہیں جو اُنھیں شعر الہام کرتے ہیں۔ اِسے آں سوے افلاک کی کوئی چیز قرار دینے کی ضرورت نہیں ہے۔

[207]۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کے تقابل میں فرمایا ہے کہ شاعروں کے پیرو تو سیرت و کردار کے لحاظ سے ایسے مہ و آفتاب اور سجدوں میں راتیں بسر کرنے والے نہیں ہوتے۔ تم شاعروں کو بھی جانتے ہو اور اُن کے پیرووں کو بھی۔ اُن میں سے تو ہر ایک دوسرے سے بڑھ کر اوباش، گم راہ، دین و اخلاق کی بندشوں سے آزاد اور جذبات و خواہشات کا غلام ہوتا ہے۔کیا اندھے ہو گئے ہو کہ اِن دونوں گروہوں کا یہ کھلا کھلا فرق و امتیاز بھی دیکھ نہیں پاتے ہو؟

[208]۔ یہ قرآن کے تقابل میں فرمایا ہے کہ اُسے شاعری کہتے ہو؟ کہاں اُس کی ہم رنگی و ہم آہنگی کہ ہر آیت اپنے معین ہدف اور طے شدہ مقصد کے تحت صادر ہوتی ہے، اُس میں کسی جگہ کوئی تضاد و تخالف نہیں ہوتا، اُس کے مضامین باہم مربوط ، نہایت جچے تلے، دو ٹوک، سراسر دانش و حکمت اور ہر جگہ اپنے اندر راستی، حق اور خیر و صلاح کی دعوت لیے ہوئے ہوتے ہیں، اور کہاں تمھارے شاعر کہ بے لگام گھوڑے کی طرح ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں۔ استاذ امام کے الفاظ میں:

’’...جو واردہ دل پر گزر گیا، اگر اُس کو ادا کرنے کے لیے اُن کو کوئی اچھوتا اسلوب ہاتھ آگیا تو اُس کو شعر کے قالب میں ڈھال دیں گے۔ اِس سے بحث نہیں کہ وہ رحمانی ہے یا شیطانی، روحانی ہے یا نفسانی، اُس سے خیر کی تحریک ہو گی یا شر کی۔ اُن کے اشعار پڑھیے تو ایک شعر سے معلوم ہو گا کہ ولی ہیں، دوسرے شعر سے معلوم ہو گا کہ شیطان ہیں۔ ایک ہی سانس میں وہ نیکی اور بدی، دونوں کی باتیں بے تکلف کہتے ہیں اور چونکہ اچھوتے اور موثر اسلوب میں کہتے ہیں، اِس وجہ سے پڑھنے والے دونوں سے متاثر تو ہوتے ہیں، لیکن نفس کو زیادہ مرغوب چونکہ بدی کی باتیں ہیں، اِس وجہ سے اُس کے نقوش تو دلوں پر قائم رہ جاتے ہیں، نیکی کا اثر غائب ہو جاتا ہے اور اِس طرح اگر اُن کے کلام میں کچھ افادیت ہوتی بھی ہے تو وہ اُن کے تضاد فکر میں غائب ہو جاتی ہے ـــــــ  جھاڑ جھنکاڑ کے جنگل میں اگر کچھ صالح پودے بھی لگا دیے جائیں تو وہ مثمر نہیں ہوتے۔‘‘(تدبرقرآن۵/ ۵۶۷)

[209]۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تقابل میں فرمایا ہے کہ کہاں وہ قدسی صفات ہستی جس کا کلام اُس کی شخصیت میں مجسم ہو گیا ہے اور کہاں یہ گفتار کے غازی جو تمھارے شاعر ہیں ـــــــ  چہ نسبت خاک را با عالم پاک۔ اِنھیں شعروں میں دیکھیے تو رستم وسہراب بھی ہوں گے اور قیس و فرہاد بھی، لیکن اِن کی یہ رزم و بزم، سب خیالی ہوتی ہے۔ چنانچہ مکارم اخلاق کی تعریف میں زمین وآسمان کے قلابے ملا رہے ہوں گے، مگر اپنے آپ کو اُن کی ہوا بھی نہیں لگنے دیں گے۔ زہد و تصوف کے لطائف و حقائق بیان کریں گے،مگر حال وہی ہو گا کہ ـــــــ  پر طبیعت ادھر نہیں آتی۔

[210]۔ یہ اُن شاعروں کی طرف اشارہ فرمایا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے تھے۔ فرمایا کہ جس کو شاعر سمجھ رہے ہو، یہ اُس کی دعوت پر ایمان کا اثر ہے کہ وہی گفتار کے غازی اب صرف گفتار کے غازی نہیں رہے، بلکہ تقویٰ اور عمل صالح کی دولت سے بھی بہرہ مند ہو گئے ہیں، عشق و ہوس اور مفاخر و مطاعن کے بجاے اب اُن کی شاعری میں زیادہ سے زیادہ اللہ کا ذکر ہوتا ہے اور کسی کے بارے میں کچھ کہتے بھی ہیں تو حق کی مدافعت میں اور اُسی وقت کہتے ہیں، جب اُنھیں یا اُن کے ساتھیوں کو ظلم و عدوان کا ہدف بنایا جاتا ہے۔

یہ استثنا اِس لیے ضروری تھا کہ شاعری بجاے خود کوئی قابل مذمت چیز نہیں ہے، بلکہ ایک عطیۂ خداوندی ہے جسے اگر صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے تو روح کے اہتزاز اور قلب و نظر کی تطہیر کا باعث بن جاتی ہے۔

کوالالمپور

 ۲۱/  اکتوبر۲۰۱۳ء

ـــــــــــــــــــــــــ

 

B