جناب جاوید احمد غامدی کے تصور سنت پر یہ اعتراض بھی کیا گیاہے کہ سورۂ نحل(۱۶) کے الفاظ ’اتَّبِعْ مِلَّةَ اِبْرٰهِيْمَ حَنِيْفًا‘ کی تفسیر میں اُن کی یہ بات درست نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دین ابراہیمی کی اتباع کا حکم دیا تھا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی ملت کے احکام محفوظ ہی نہیں تھے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی اتباع کا حکم کیونکردیا جا سکتا تھا! جہاں تک ملت ابراہیم کی اتباع کے قرآنی حکم کا تعلق ہے تو اس سے مراد عملی احکام نہیں، بلکہ دین کی اساسی تعلیمات اور اصولی تصورات ہیں۔
گذشتہ بحث میں یہ بات ہر لحاظ سے واضح ہو گئی ہے کہ ملت ابراہیمی سے مراد دین ابراہیمی ہے اور اس کے مشمولات میں فقط اصولی تصورات نہیں، بلکہ احکام و اعمال بھی شامل ہیں۔اس تناظر میں مذکورہ اعتراض کے بارے میں ہماری معروضات حسب ذیل نکات پر مبنی ہیں :
اولاً، اس اعتراض کی تردید خود آیت کے اسلوب بیان سے ہو جاتی ہے۔ حکم دیا گیا ہے :’وَاتَّبِعْ مِلَّةَ اِبْرٰهِيْمَ‘، یعنی ملت ابراہیم کی پیروی کرو۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ اپنے پیغمبر کو یا اپنے بندوں کو کسی ایسی چیز کا حکم دیں جس کا وجود عنقا ہو، جو غیر محفوظ ہو یاجس کا مصداق مشتبہ ہو۔ اس ضمن میں دلیل قاطع یہ ہے کہ آیت کے اولین مخاطب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ عامۂ عرب کو ملت ابراہیم کے مختلف احکام کے بارے میں ابہام یا اشکال ہو، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ ہرگز ممکن نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کو اللہ کے احکام کی تفہیم کے لیے وحی کی مکمل رہنمائی میسر تھی۔چنانچہ یہ یقینی امر ہے کہ آپ ان سنن کی حقیقی صورتوں سے بھی آگاہ تھے اور ان سے متعلق بدعات اورتحریفات کو بھی پوری طرح جانتے تھے۔
ثانیاً،قرآن مجید میں مختلف سنن کا جس طریقے سے ذکر ہوا ہے، اس سے بھی یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ دین ابراہیمی کے سنن اہل عرب میں پوری طرح معلوم و متعارف تھے۔ عرب جاہلی میں دین ابراہیمی کے سنن کوئی اجنبی چیز نہیں تھے۔ ان کی زبان میں صلوٰۃ، صوم، زکوٰۃ، حج، نسک کے الفاظ کا وجود بجاے خود اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ان عبادات سے پوری طرح واقف تھے۔ وہ ان کی مذہبی حیثیت، ان کے آداب، ان کے اعمال و اذکار اور حدود و شرائط کو بھی بہت حد تک جانتے تھے۔ چنانچہ یہ واقعہ ہے کہ قرآن نے جب ان کاذکر کیا تو ایسے ہی کیا، جیسے کسی معلوم و معروف چیزکا ذکر کیا جاتا ہے۔ نہ ان کی نوعیت اور ماہیت بیان کی اور نہ ان کی تفصیلات سے آ گاہ کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دین ابراہیمی کی ایک روایت کی حیثیت سے یہ جس طرح انجام دی جاتی تھیں،وحی کی رہنمائی میں ان میں بعض ترامیم کر کے، ان میں کیے جانے والے انحرافات کو ختم کر کے اور ان کی بدعات کی اصلاح کر کے انھیں اپنے ماننے والوں کے لیے جاری فرمایا۔
ثالثاً،اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بنی اسمٰعیل میں دین ابراہیمی کی جو روایت رائج تھی، اس میں انھوں نے بعض تحریفات کر رکھی تھیں اور بعض بدعات اختراع کر لی تھیں، لیکن یہ بات ثابت شدہ ہے کہ ان تحریفات او ر بدعات کا تحریف اور بدعت ہونا پوری طرح مسلم تھا، یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے پہلے بھی انھیں اختیار نہیں کیا[1]۔ مزید برآں نبوت کے بعد ان تحریفات کی نشان دہی اور ان بدعات سے آ گاہی کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کی رہنمائی بھی میسر ہو گئی۔ اس تناظر میں بالبداہت واضح ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو سنت ابراہیمی کی پیروی کا حکم دیاتو اس میں کسی طرح کا کوئی ابہام نہیں تھا۔
رابعاً، مذکورہ اعتراض اگر حفاظت ہی کے پہلو سے ہے تو سوال یہ ہے کہ ’’ملت ابراہیم‘‘ کا جو مفہوم و مصداق اس اعتراض میں متعین کیاہے،یعنی توحید، شرک سے اجتناب اور اطاعت الٰہی، کیا یہ تصورات مشرکین عرب کے ہاں محفوظ اور تحریف و آمیزش سے پاک تھے؟ ہر شخص جانتا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ چنانچہ ہر صاحب علم اس کے جواب میں یہی کہے گا کہ بلا شبہ مشرکین نے ان تصورات میں تحریف و آمیزش کر رکھی تھی، لیکن وہ اس آمیزش سے بھی پوری طرح آ گاہ تھے اور اصل تصورات کو بھی بخوبی جانتے تھے۔بعینہٖ یہی معاملہ اعمال کا بھی ہے۔وہ ان اعمال کی اصل سے بھی واقف تھے اور ان کے محرفات کو بھی جانتے تھے۔
یہ نکات امید ہے کہ قارئین کے اطمینان کے لیے کافی ہوں گے۔مزید تاکید کے لیے اہل علم کی تالیفات کے چند اقتباس درج ذیل ہیں۔ ان کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ تمام احکام جنھیں غامدی صاحب نے دین ابراہیمی کی روایت قرار دے کر سنن کی فہرست میں شمار کیا ہے،ہمارے جلیل القدر علما بھی انھیں دین ابراہیمی کی مستند روایت کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔
شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے دین اسلام کے پس منظر کے حوالے سے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں بیان کیا ہے کہ اصل دین ہمیشہ سے ایک ہی رہا ہے۔ تمام انبیا نے بنیادی طورپر ایک ہی جیسے عقائد اور ایک ہی جیسے اعمال کی تعلیم دی ہے۔ شریعت کے احکام اور ان کی بجا آوری کے طریقوں میں حالات کی ضرورتوں کے لحاظ سے، البتہ کچھ فرق رہا ہے۔ سر زمین عرب میں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تو اس موقع پر اس دین کے احوال یہ تھے کہ صدیوں کے تعامل کے نتیجے میں اس کے احکام دینی مسلمات کی حیثیت اختیار کر چکے تھے اور ملت ابراہیم کے طور پر پوری طرح معلوم و معروف تھے، تاہم بعض احکام میں تحریفات اور بدعات داخل ہو گئی تھیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد ہوا: ’اتَّبِعْ مِلَّةَ اِبْرٰهِيْمَ حَنِيْفًا‘، یعنی ملت ابراہیم کی پیروی کرو۔ آپ نے یہ پیروی اس طریقے سے کی کہ اس ملت کے معلوم و معروف احکام کو برقرار رکھا، بدعات کا قلع قمع کیااور تحریف شدہ احکام کو ان کی اصل صورت پر بحال فرمایا۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں:
أصل الدین واحد اتفق علیه الأنبیاء علیهم السلام، وإنما الاختلاف في الشرائع والمناهج. تفصیل ذالک أنه أجمع الأنبیاء علیهم السلام علی توحید اللہ تعالٰی عبادة واستعانة، ... وأنه قدر جمیع الحوادث قبل أن یخلقها، وأن للہ ملائکة لا یعصونه فیما أمر، ویفعلون ما یؤمرون، وأنه ینزل الکتاب علی من یشاء من عباده، ویفرض طاعته علی الناس، وأن القیامة حق، والبعث بعد الموت حق، والجنة حق، والنار حق. وکذالک أجمعوا علی أنواع البر من الطهارة والصلٰوة والزکٰوة والصوم والحج والتقرب إلی اللہ بنوافل الطاعات من الدعاء والذکر وتلاوة الکتاب المنزل من اللہ، وکذالک أجمعوا إلی النکاح وتحریم السفاح وإقامة العدل بین الناس وتحریم المظالم وإقامة الحدود علی أهل المعاصي والجھاد مع أعداء اللہ والاجتهاد في إشاعة أمر اللہ ودینه، فھذا أصل الدین، ولذالک لم یبحث القرآن العظیم عن لمیة هذہ الأشیاء إلا ما شاء اللہ، فإنها مسلمة فیمن نزل القرآن علی ألسنتهم. وإنما الاختلاف في صور هذہ الأمور وأشباحها.(۱/ ۱۹۹ - ۲۰۰)
’’اصل دین ایک ہے، سب انبیا علیہم السلام نے اسی کی تبلیغ کی ہے۔ اختلاف اگر ہے تو فقط شرائع اور مناہج میں ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ سب انبیا نے متفق الکلمہ ہو کر یہ تعلیم دی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توحید دین کا بنیادی پتھر ہے۔ عبادت اور استعانت میں کسی دوسری ہستی کو اس کا شریک نہ ٹھیرایا جائے۔... ان کا یہ پختہ عقیدہ ہو کہ اللہ تعالیٰ نے سب حوادث اور واقعات کو وقوع سے پہلے ازل میں مقدر کیا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ایک پاک مخلوق ہے جس کو ملائکہ کہتے ہیں۔ وہ کبھی اس کے حکم سے سرتابی نہیں کرتے اور اس کے احکام کی اسی طرح تعمیل کرتے ہیں، جس طرح ان کو حکم ہوتا ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے کسی ایک کو چن لیتا ہے جس پر وہ اپنا کلام نازل فرماتا ہے اور لوگوں پر اس کی اطاعت فرض کر دیتا ہے۔ موت کے بعد زندہ ہونا اور قیامت کا قائم ہونا حق ہے، جنت اور دوزخ کا ہونا حق ہے۔جس طرح ہر دین کے عقائد ایک ہیں، اسی طرح بنیادی نیکیاں بھی ایک جیسی ہیں۔ چنانچہ دین میں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے، طہارت، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کو فرض قرار دیا گیا ہے۔نوافل عبادات کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ اقدس میں قرب حاصل کرنے کی تعلیم ہر دین میں موجود ہے۔ مثلاً مرادوں کے پورا ہونے کے لیے دعا مانگنا، اللہ تعالیٰ کی یاد میں مشغول رہنا، نیز کتاب منزل کی تلاوت کرنا۔ اس بات پر بھی تمام انبیا علیہم السلام کا اتفاق ہے کہ نکاح جائز اور سفاح[2] حرام اور ناجائز ہے۔ جو حکومت دنیا میں قائم ہو عدل اور انصاف کی پابندی کرنا اور کم زوروں کو ان کے حقوق دلانا اس کا فرض ہے۔ اسی طرح یہ بھی اس کا فرض ہے کہ مظالم اور جرائم کے ارتکاب کرنے والوں پر حد نافذ کرے، دین اور اس کے احکام کی تبلیغ اور اشاعت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے۔ یہ دین کے وہ اصول ہیں جن پر تمام ادیان کا اتفاق ہے اور اس لیے تم دیکھو گے کہ قرآن مجید میں ان باتوں کو مسلمات مخاطبین کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے اور ان کی لمیت سے بحث نہیں کی گئی۔ مختلف ادیان میں اگر اختلاف ہے تو وہ فقط ان احکام کی تفاصیل اور جزئیات اور طریق ادا سے متعلق ہے۔‘‘
واعلم أن النبوة کثیرًا ما تکون من تحت الملة کما قال اللہ تعالٰی: ﴿مِلَّةَ اَبِيْكُمْ اِبْرٰهِيْمَ﴾م وکما قال: ﴿وَاِنَّ مِنْ شِيْعَتِهٖ لَاِبْرٰهِيْمَ﴾ وسر ذالک أنه تنشأ قرون کثیرة علی التدین بدین. وعلی تعظیم شعائرہ. وتصیر أحکامه من المشھورات الذائعة اللاحقة بالبدیهیات الأولیة التي لا تکاد تنکر. فتجیٔ نبوة أخری لإقامة ما أعوج منها؛ وصلاح ما فسد منها بعد اختلاط روایة نبیها، فتفتش عن الأحکام المشهورة عندهم، فما کان صحیحًا موافقًا لقواعد السیاسة الملیة لا تغیره، بل تدعو إلیه، وتحث علیه، وما کان سقیمًا قد دخله التحریف، فإنها تغیرہ بقدر الحاجة، وما کان حریًا أن یزداد، فإنها تزیدہ علی ما کان عندهم.(۱/ ۲۰۹)
’’ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ملا: ’اتَّبِعْ مِلَّةَ اِبْرٰهِيْمَ حَنِيْفًا‘اور آپ کی امت کو ان الفاظ سے مخاطب کیا گیا: ’مِلَّةَ اَبِيْكُمْ اِبْرٰهِيْمَ‘۔ اسی طرح سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے حق میں فرمایا: ’وَاِنَّ مِنْ شِيْعَتِهٖ لَاِبْرٰهِيْمَ‘۔ اس کا راز اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ جب کسی دین پر بہت صدیاں گزر جاتی ہیں اور اس اثنا میں لوگ اس کی پابندی اور اس کے شعائر کی تعظیم اور احترام میں مشغول رہتے ہیں تو اس کے احکام اس قدر شائع وذائع ہو جاتے ہیں کہ ان کو بدیہیات اور مشہورات مسلمہ سے تشبیہ دی جا سکتی ہے اور کسی کو بھی ان سے انکار کرنے کی جرأت نہیں ہوتی، لیکن ساتھ ہی اس کے احکام میں طرح طرح کا تغیر و تبدل اور اس کی تعلیمات میں مختلف النوع تحریفات بھی آجاتی ہیں اور بعض بری رسوم بھی رواج پا جاتی ہیں۔ چنانچہ ان رسوم کی اصلاح اور ان تحریفات کا قلع قمع کرنے کے لیے ایک نبی کی ضرورت ہوتی ہے اور جب وہ مبعوث ہو چکتا ہے تو اس کا کام یہ ہوتا ہے کہ جو احکام اس قوم میں جس کی طرف وہ مبعوث ہوا ہے، شائع و ذائع ہیں، ان پر وہ ایک نظر غائر ڈالتا ہے جو احکام سیاست ملیہ کے اصول کے مطابق ہوتے ہیں، ان کو برقرار رکھتا ہے اور لوگوں کو ان کے پابند رہنے کی ترغیب دیتا اور تاکید کرتا ہے، برخلاف اس کے کہ جن میں تحریف آچکی ہے، ان کو بدل کر اپنی اصل صورت پر لاتا ہے اور جن احکام میں ہنگامی مصلحت کے لحاظ سے کچھ کمی بیشی کرنا مطلوب ہو، ان میں وقتی مصالح کے تقاضوں کے مطابق تغیر و تبدل کر دیتا ہے۔‘‘
شاہ صاحب نے ملت ابراہیمی کے حوالے سے اسی بات کو ایک دوسرے مقام پر ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
فاعلم أنه ﷺ بعث بالملة الحنیفیة الإسماعیلیة لإقامة عوجها وإزالة تحریفها وإشاعة نورها، وذالک قوله تعالٰی: ﴿مِلَّةَ اَبِيْكُمْ اِبْرٰهِيْمَ﴾ ولما کان الأمر علی ذالک وجب أن تکون أصول تلک الملة مسلمة، وسنتها مقررة إذ النبي إذا بعث إلی قوم فیهم بقیة سنة راشدة، فلا معنی لتغییرها وتبدیلها، بل الواجب تقریرها، لأنه أطوع لنفوسهم وأثبت عند الاحتجاج علیهم.(حجۃاللہ البالغہ ۱/ ۴۲۷)
’’اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ملت حنیفیہ اسماعیلیہ کی کجیاں درست کرنے اور جو تحریفات اس میں واقع ہوئی تھیں، ان کا ازالہ کرکے ملت مذکورہ کو اپنے اصلی رنگ میں جلوہ گر کرنے کے لیے مبعوث فرمایا تھا۔ چنانچہ : ’مِلَّةَ اَبِيْكُمْ اِبْرٰهِيْمَ‘ (اور ’اتَّبِعْ مِلَّةَ اِبْرٰهِيْمَ حَنِيْفًا‘) میں اسی حقیقت کا اظہار ہے، اس لیے یہ ضروری تھا کہ ملت ابراہیم کے اصول کو محفوظ رکھا جائے اور ان کی حیثیت مسلمات کی ہو۔ اسی طرح جو سنتیں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قائم کی تھیں، ان میں اگر کوئی تغیر نہیں آیا تو ان کا اتباع کیا جائے۔ جب کوئی نبی کسی قوم میں مبعوث ہوتا ہے تو اس سے پہلے نبی کی شریعت کی سنت راشدہ ایک حد تک ان کے پاس محفوظ ہوتی ہے جس کو بدلنا غیر ضروری، بلکہ بے معنی ہوتا ہے۔ قرین مصلحت یہی ہے کہ اس کو واجب الاتباع قرار دیا جائے، کیونکہ جس سنت راشدہ کو وہ لوگ پہلے بہ نظر استحسان دیکھتے ہیں، اسی کی پابندی پر مامور کیا جائے تو کچھ شک نہیں کہ وہ اس کو قبول کرنے میں ذرہ بھی پس و پیش نہیں کریں گے اور اگر کوئی اس سے انحراف یا سرتابی کرے تو اس کو زیادہ آسانی سے قائل کیا جاسکے گا، کیونکہ وہ خود اس کے مسلمات میں سے ہے۔‘‘
یہ بات بھی اہل علم کے ہاں پوری طرح مسلم ہے کہ دین ابراہیمی کے سنن عربوں میں قبل از اسلام رائج تھے۔شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے کہ عرب نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، اعتکاف، قربانی، ختنہ، وضو، غسل، نکاح اور تدفین کے احکام پر دین ابراہیمی کی حیثیت سے عمل پیرا تھے۔ ان احکام کے لیے شاہ صاحب نے ’سنة‘ (سنت)، ’سنن متأکدة‘ (مؤکد سنتیں )، ’سنة الأنبیاء‘ (انبیا کی سنت) اور ’شعائر الملة الحنیفیة‘ (ملت ابراہیمی کے شعار) کی تعبیرات اختیار کی ہیں:
وکان من المعلوم عندهم أن کمال الإنسان أن یسلم وجهه لربه، ویعبدہ أقصی مجهودہ. وأن من أبواب العبادة الطہارة، وما زال الغسل من الجنابة سنة معمولة عندهم، وکذالک الختان وسائر خصال الفطرة، وفي (التوراة) أن اللہ تعالٰی جعل الختان میسمة علی إبراهیم وذریته. وهذا الوضوء یفعله المجوس والیهود وغیرهم، وکانت تفعله حکماء العرب. وکانت فیهم الصلٰوة، وکان ’’أبو ذر‘‘ رضي اللہ عنه یصلي قبل أن یقدم علی النبي صلی اللہ علیه وسلم بثلاث سنین، وکان ’’قس بن ساعدة الأیادي‘‘ یصلي، والمحفوظ من الصلٰوة في أمم الیهود والمجوس وبقیة العرب أفعال تعظیمیة لا سیما السجود وأقوال من الدعاء والذکر. وکانت فیهم الزکاة،... وکان فیهم الصوم من الفجر إلی غروب الشمس، وکانت قریش تصوم عاشوراء في الجاهلیة. وکان الجوار في المسجد، وکان ’’عمر‘‘ نذر اعتکاف لیلة في الجاهلیة، فاستفتی في ذالک رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم،... وأما حج بیت اللہ وتعظیم شعائرہ والأشهر الحرم... ولم تزل سنتهم الذبح في الحلق والنحر في اللبة ما کانوا یخنقون، ولا یبعجون. ... وکانت لهم سنن متأکدة یتلاومون علی ترکها في مأکلهم ومشربهم ولباسهم وولائمهم وأعیادهم ودفن موتاهم ونکاحهم وطلاقهم وعدتهم وإحدادهم، وبیوعهم ومعاملاتهم، وما زالوا یحرمون المحارم کالبنات والأمهات والأخوات وغیرها. وکانت لهم مزاجر فی مظالمهم کالقصاص والدیات والقسامة وعقوبات علی الزنا والسرقة.(حجۃاللہ البالغہ ۱/ ۲۹۰ - ۲۹۲)
’’یہ بات وہ سب(عر ب)جانتے تھے کہ انسان کا کمال اور اس کی سعادت اس میں ہے کہ وہ اپنا ظاہر اور باطن کلیۃً اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دے اور اس کی عبادت میں اپنی انتہائی کوشش صرف کرے۔ طہارت کو وہ عبادت کا جز سمجھتے تھے اور جنابت سے غسل کرنا ان کا معمول تھا۔ ختنہ اور دیگر خصال فطرت کے وہ پابند تھے۔ تورات میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام اور اس کی اولاد کے لیے ختنہ کو ایک شناخت کی علامت مقرر کیا۔ یہودیوں اور مجوسیوں وغیرہ میں بھی وضو کرنے کا رواج تھا اور حکماے عرب بھی وضو اور نماز عمل میں لایا کرتے تھے۔ ابوذر غفاری اسلام میں داخل ہونے سے تین سال پہلے، جب کہ ابھی ان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں نیاز حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا تھا، نماز پڑھا کرتے تھے۔ اسی طرح قس بن ساعدہ ایادی کے بارے میں منقول ہے کہ وہ نماز پڑھا کرتے تھے۔ یہود اور مجوس اور اہل عرب جس طریقے پر نماز پڑھتے تھے، اس کے متعلق اس قدر معلوم ہے کہ ان کی نماز افعال تعظیمیہ پر مشتمل ہوتی تھی جس کا جزو اعظم سجود تھا۔ دعا اورذکر بھی نماز کے اجزا تھے۔ نماز کے علاوہ دیگر احکام ملت بھی ان میں رائج تھے۔ مثلاً زکوٰۃ وغیرہ۔... صبح صادق سے لے کرغروب آفتاب تک کھانے پینے اور صنفی تعلق سے محترز رہنےکو روزہ خیال کیا جاتا تھا۔ چنانچہ عہد جاہلیت میں قریش عاشورکے دن روزہ رکھنے کے پابند تھے۔ اعتکاف کو بھی وہ عبادت سمجھتے تھے۔ حضرت عمر کا یہ قول کتب حدیث میں منقول ہے کہ انھوں نے زمانۂ جاہلیت میں ایک دن کے لیے اعتکاف میں بیٹھنے کی منت مانی تھی جس کا حکم انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا۔... اور یہ تو خاص و عام جانتے ہیں کہ سال بہ سال بیت اللہ کے حج کے لیے دور دور سے ہزاروں کی تعداد میں مختلف قبائل کے لوگ آتے تھے۔... ذبح اور نحر کو بھی وہ ضروری سمجھتے تھے۔ جانور کا گلا نہیں گھونٹ دیتے تھے یا اسے چیرتے پھاڑتے نہیں تھے۔ اسی طرح اشہر الحرم کی حرمت ان کے ہاں مسلم تھی۔ ... ان کے ہاں دین مذکور کی بعض ایسی مؤکد سنتیں ماثور تھیں جن کے ترک کرنے والے کو مستوجب ملامت قرار دیا جاتا تھا۔ اس سے مراد کھانے پینے، لباس، عید اور ولیمہ، نکاح اور طلاق، عدت اور احداد، خریدو فروخت، مردوں کی تجہیزو تکفین وغیرہ کے متعلق آداب اور احکام ہیں جو حضرت ابراہیم سے ماثور و منقول تھے اور جن پر ان کی لائی ہوئی شریعت مشتمل تھی۔ ان سب کی وہ پابندی کرتے تھے۔ ماں بہن اور دیگر محرمات سے نکاح کرنا اسی طرح حرام سمجھتے تھے، جیسا کہ قرآن کریم میں مذکور ہے۔ قصاص اور دیت اور قسامت کے بارے میں بھی وہ ملت ابراہیمی کے احکام پر عامل تھے۔ اور حرام کاری اور چوری کے لیے سزائیں مقرر تھیں۔‘‘
والذبح والنحر سنة الأنبیاء علیهم السلام توارثوهما وفیهما مصالح... منها أنه صار ذالک أحد شعائر الملة الحنیفیة یعرف به الحنیفي من غیرہ فکان بمنزلة الختان وخصال الفطرة فلما بعث النبي صلی اللہ علیه وسلم مقیمًا للملة الحنیفیة وجب الحفظ علیه. (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۳۱۹ - ۳۲۰)
’’انبیا علیہم السلام کی سنت ذبح اور نحر ہے جو ان سے متوارث چلی آئی ہے۔... ذبح اور نحر دین حق کے شعائر میں سے ہے اور وہ حنیف اور غیر حنیف میں تمیز کرنے کا ذریعہ ہے، اس لیے یہ بھی اسی طرح کی ایک سنت ہے، جس طرح کہ ختنہ اور دیگر خصال فطرت ہیں اور جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو خلعت نبوت سے سرفراز فرما کر دنیا میں ہدایت کے لیے بھیجا گیا تو آپ کے دین میں اس سنت ابراہیمی کو دین حنیفی کے شعار کے طور پر محفوظ رکھا گیا۔‘‘
امام رازی نے اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے کہ عربوں میں حج اور ختنہ وغیرہ کو دین ابراہیمی ہی کی حیثیت حاصل تھی:
ومعلوم أنه علیه السلام أتی بشرائع مخصوصة، من حج البیت والختان وغیرهما،... وکان العرب تدین بهذہ الأشیاء. (التفسیر الکبیر ۴/ ۱۸)
’’ اور یہ بات معلوم ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شریعت خاص تھی، جیسے بیت اللہ کا حج اور ختنہ وغیرہ۔... عربوں نے ان چیزوں کو دین کی حیثیت سے اختیار کر رکھا تھا۔‘‘
ختنہ کی سنت کے حوالے سے ابن قیم نے لکھا ہے کہ اس کی روایت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے تک بلا انقطاع جاری رہی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم دین ابراہیمی کی تکمیل اور توثیق کے لیے مبعوث ہوئے:
قال الموجبون: الختان علم الحنیفیة وشعار الإسلام ورأس الفطرة وعنوان الملة.... وعلیه استمر عمل الحنفاء من عهد إمامهم إبراهیم إلی عهد خاتم الأنبیاء فبعث بتکمیل الحنیفیة وتقریرها لا بتحویلها وتغییرها.(مختصر تحفۃ المولود ۱۰۳- ۱۰۴)
’’ختنہ کو واجب کہنے والوں کا قول ہے کہ یہ دین ابراہیمی کی علامت، اسلام کا شعار، فطرت کی اصل اور ملت کا عنوان ہے۔... دین ابراہیمی کی اتباع کرنے والے اپنے امام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عہد سے لے کر خاتم الانبیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد تک ہمیشہ اسی پر کاربند رہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم دین ابراہیمی کی تکمیل اور توثیق کے لیے مبعوث فرمائے گئے، نہ کہ اس میں تغیر و تبدل کرنے کے لیے۔‘‘
قبل از اسلام تاریخ کے محقق ڈاکٹر جواد علی نے اپنی کتاب ’’المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام‘‘ میں کم و بیش ان تمام سنن کو دین ابراہیمی کے طور پر نقل کیا ہے جنھیں جناب جاوید احمد غامدی نے سنتوں کی فہرست میں جمع کیا ہے اور جو عربوں میں اسلام سے پہلے رائج تھیں۔ اس ضمن میں فاضل محقق نے نماز، روزہ، اعتکاف، حج و عمرہ، قربانی، جانوروں کا تذکیہ، ختنہ، مو نچھیں پست رکھنا، زیر ناف کے بال کاٹنا، بغل کے بال صاف کرنا، بڑھے ہوئے ناخن کاٹنا، ناک، منہ اور دانتوں کی صفائی، استنجا، میت کا غسل، تجہیز و تکفین اور تدفین کے بارے میں واضح کیا ہے کہ یہ سنن دین ابراہیم کے طور پر رائج تھیں اور عرب، بالخصوص قریش ان پر کاربند تھے۔ لکھتے ہیں:
وعامة ولد (معد) بن عدنان علی بعض دین إبراهیم، یحجون البیت ویقیمون المناسک، ویقرون الضیف ویعظمون الأشهر الحرم، وینکرون الفواحش والتقاطع والتظالم، ویعاقبون علی الجرائم. فأدخل في الدین أمورًا نعدها الیوم من الاعراف وقواعد الأخلاق والسلوک، وجعلها من سنة إبراهیم، أي دین العرب القدیم قبل إفسادہ بالتعبد للأصنام.(۶/ ۳۴۵)
’’بنو معد بن عدنان دین ابراہیمی کے بعض اجزا پر کارفرما تھے۔وہ بیت اللہ کا حج کرتے تھے اور اس کے مناسک ادا کرتے تھے۔ مہمان نواز تھے، حرمت والے مہینوں کی تعظیم کرتے تھے۔ فواحش، قطع رحمی اور ایک دوسرے کے ساتھ ظلم و زیادتی کو برا جانتے تھے۔ جرائم کی صورت میں سزا بھی دیتے تھے۔ یہی چیزیں ہیں جنھیں آج ہم رسم و رواج اور اخلاقی اصول و ضوابط میں شمار کرتے ہیں۔ یہی امور سنت ابراہیمی تھے، یعنی بت پرستی سے پہلے عربوں کا قدیم دین۔‘‘
ویذکر أهل الأخبار أن قریشًا کانت تصوم یوم عاشوراء... وذکر أن رسول اللہ کان یصوم عاشوراء في الجاھلیة.(۶/ ۳۳۹)
’’روایتوں میں ہے کہ قریش یوم عاشور کا روزہ رکھتے تھے۔...روایتوں میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی نبوت سے پہلے یہ روزہ رکھتے تھے۔‘‘
وقد نسب الاعتکاف في الکھوف وفي البراري وفي الجبال إلی عدد من ھؤلاء الحنفاء. فقد ذکر أهل الأخبار أنهم کانوا قد اعتکفوا في المواضع الحالیة البعیدة عن الناس، وحبسوا أنفسهم فیها، فلا یخرجون منها إلا لحاجة شدیدة وضرورة ماسة. یتحنثون فیها ویتأملون في الکون، یلتمسون الصدق والحق.(۶/ ۵۰۹)
’’اعتکاف کی نسبت دین ابراہیمی کے متبعین کی طرف کی جاتی ہے جو پہاڑوں، غاروں اورغیر آباد جگہوں میں اس کااہتمام کرتے تھے۔ اہل اخبار بیان کرتے ہیں کہ وہ ویران اورآبادی سے دور مقامات پر اعتکاف کیا کرتے تھے۔ ان جگہوں میں وہ اپنے آپ کو بند رکھتے اور شدید حاجت اور ضروری کام کے علاوہ باہر نہیں نکلتے تھے۔ ان میں عبادت کرتے، کائنات میں غوروفکر کرتے، سچ اور حق کے لیے دعا کرتے۔‘‘
وقد کان الحنفاء من النساک أي المتعبدین. وعدوا الذبائح من النسک. وجعلوا النسیکة: الذبیحة. والذبائح، أی النسائک، هي من أهم مظاهر التعبد والزهد عند الجاهلیین.(۶/ ۵۱۰)
’’دین ابراہیمی کے پیرو نساک، یعنی عبادت گزاروں میں سے تھے۔ وہ قربانی کے جانور کو بھی ’نسک‘ میں شمار کرتے تھے اور وہ ’’نسیکہ‘‘ سے مراد ’’ذبیحہ‘‘ لیتے تھے۔ قربانی کے جانور، یعنی نسائک زمانۂ جاہلیت کے لوگوں کے نزدیک زہد و عبادت کے اہم مظاہر میں سے تھے۔‘‘
وذکر أنهم کانوا یصلون علی موتاهم، وکانت صلاتهم أن یحمل المیت علی سریر، ثم یقوم ولیه، فیذکر محاسنه کلها ویثني علیه. ثم یقول: علیک رحمة اللہ. ثم یدفن.(۶/ ۳۳۷)
’’بیان کیا گیا ہے کہ وہ اپنے مردوں پر صلوٰۃ پڑھتے تھے۔ ان کی نمازجنازہ یہ تھی کہ میت کو کھاٹ پر لٹا دیا جاتا، پھراس کا ولی کھڑا ہوتا اور اس کے تمام محاسن بیان کرتا اور اس کی مدح و ثنا کرتا۔ پھر کہتا: تم پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو۔ پھر اس کو دفن کر دیا جاتا۔‘‘
وأما الاغتسال من الجنابة وتغسیل الموتی، فمن السنن التي أقرت في الإسلام، وقد أشیر إلی غسل المیت في شعر للأفوہ الأودي. وأشیر إلی تکفین الموتی والصلٰوة علیهم في أشعار منسوبة إلی الأعشی وإلی بعض الجاهلیین. وورد أن قریشًا کانت تغسل موتاها وتحنطهم.(۶/ ۳۴۴)
جاوید ’’غسل جنابت اور مردوں کو نہلانا بھی ان سنتوں میں سے ہے جو اسلام میں مقرر کی گئیں۔ افوہ اودی کے شعر میں غسل میت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اعشیٰ اور بعض جاہلی شعرا کی طرف منسوب اشعار میں مردوں کے کفن اور ان پر نماز پڑھنے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ روایتوں میں ہے کہ قریش اپنے مردوں کو غسل دیتے اور خوشبو لگاتے تھے۔‘‘
ویذکر أهل الاخبار أنه کان لأتباع إبراهیم من العرب علامات وعادات میزوا أنفسهم بها عن غیرهم، منها: الختان، وحلق العانة، وقص الشارب... ومن سنن شریعة إبراهیم الاختتان. وهو من العادات القدیمة الشائعة بین العرب الجاھلیین الوثنیین. (۶/ ۵۰۸)
’’اہل اخبار بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متبعین کی کچھ ایسی علامات اور عادات تھیں،جن کی وجہ سے وہ دوسروں سے ممتاز تھے۔ ان میں سے ختنہ، زیرناف بال کاٹنا اور مونچھیں ترشوانا۔...ختنہ شریعت ابراہیم کی سنتوں میں سے ایک سنت ہے۔ یہ ان قدیم عادات میں سے ہے جو زمانۂ جاہلیت کے بت پرستوں میں عام تھیں۔‘‘
______________
[1]۔ حج و عمرہ کے حوالے سے یہ بات پوری طرح مسلم ہے۔ اہل عرب نہ صرف اس کے مناسک اور رسوم و آداب سے آ گاہ تھے، بلکہ ان بدعتوں کے بارے میں بھی پوری طرح متنبہ تھے جو انھوں نے اس کے مراسم میں شامل کر رکھی تھیں۔ روایتوں میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے ایک حج کے موقع پر جبیر بن مطعم آپ کو میدان عرفات میں دیکھ کر حیران ہوا۔ اسے تعجب ہوا کہ قریش کے لوگ تو مزدلفہ سے آگے نہیں جاتے، جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وقوف عرفہ کے لیے یہاں حاضر ہیں (بخاری،رقم۱۶۶۴) ۔
[2]۔ ’سفاح‘ کا لفظ نکاح کے مقابل میں ہے، اس کے معنی ناجائز طریقے سے صنفی خواہش پوری کرنے کے ہیں۔