سفرنامہ
محمد بلال
۱۹۹۹ء کا رمضان میرے لیے اللہ تعالیٰ کی ایک خاص رحمت لے کر آیا ۔ سعودی عرب میں مقیم میرے بڑے بھائی غلام مصطفیٰ صاحب کی دعوت اور اہتمام میں اس مہینے ، میں نے عمرے کی سعادت حاصل کی ۔ بیت اللہ جیسے انتہائی غیر معمولی بابرکت مقام کی زیارت کی۔ بیت اللہ کا طواف کیا۔حطیم میں نوافل ادا کیے۔ حجرِاسود کو بوسہ دیا ۔ آبِ زم زم کے چشمے کے پاس آبِ زم زم پیا۔ صفا و مروہ کے درمیان سعی کی۔ بیت اللہ کے بالکل قریب بیٹھ کر نماز جمعہ ادا کی ۔ صفا کی پہاڑی پر بیٹھ کر بیت اللہ کو جی بھر کر دیکھا۔
O
بس بڑی تیزی کے ساتھ جدہ سے مکہ کی جانب چل رہی تھی۔ میں کھڑکی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ میرے والد صاحب ، بڑے بھائی ، بھابی ، دو بھتیجیاں اور کزن ابوبکر صدیق میرے ہمراہ تھے ۔ سب نے احرام باندھے ہوئے تھے۔ جب مکہ کے سادہ اور پراسرار پہاڑ مجھے دور سے دکھائی دینے لگے تو دل کی دھڑکن کچھ تیز ہو گئی۔ ’’کراچی جا رہے ہیں‘‘، ’’راولپنڈی جا رہے ہیں‘‘، ’’فیصل آباد جا رہے ہیں‘‘ اس خیال کے ساتھ تو بہت سفر کیے ہیں مگر ’’مکہ جا رہے ہیں‘‘ کے خیال کے ساتھ سفر کرتے ہوئے بار بار اپنے آپ کو یقین دلانا پڑتا تھا کہ یہ خواب نہیں ، حقیقت ہے ۔ جلیل القدر انبیاے کرام کے واقعات جو مکہ کے حوالے سے مشہور ہیں، ذہن کے پردے پر آپ سے آپ ابھر رہے تھے۔ میں نے کاغان ، ناران جیسے علاقوں کے پہاڑ بھی دیکھے ہیں۔ مکہ کے پہاڑوں کے درمیان رہنے والوں کو کاغان ، ناران جیسے پہاڑوں کا حسن دیکھنے کو نہیں ملا۔ اسی طرح وہاں کے میدان بھی سبزے کی خوبی سے عاری ہیں۔ مگر انبیاے کرام کی صورت میں نخلِ فطرت کے جیسے بہترین ثمر یہاں کے رہنے والوں کو میسر آئے، وہ ناران اور کاغان کے پاس رہنے والوں کو تو حاصل نہ ہوئے ، یہ سوچیں تو کہنا پڑتا ہے کہ:
یہ بہاریں تو کسی اور نے دیکھی نہ سنیں
اہلِ گلشن سے تو اچھے رہے صحرا والے
میرے ساتھ کچھ مصری بیٹھے ہوئے تھے۔ انھوں نے احرام باندھے ہوئے تھے مگر وہ مصری اور سعودی کرنسی کو آمنے سامنے رکھ کر اس کا تقابل کر رہے تھے ۔
معلوم نہیں میقات کب آ جائے ؟ یہ سوچ کر میں نے زبانی طور پر ’لبیک اللّٰھم لبیک.....‘ کا ورد شروع کر دیا ۔ میقات ایک خاص مقام کو کہتے ہیں جہاں سے عمرہ یا حج کرنے والے احرام باندھتے ہیں۔ یہیں سے عمرہ یا حج کی پابندیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ مکہ کی جانب چاروں اطراف میں آنے والوں کے میقات مقرر ہیں۔
ہمارے سفر کے ساتھ ساتھ لیل و نہار کا سفر بھی جاری تھا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے سانولی شام پر کالی رات غلبہ پانے لگی ..... معلوم ہوا افطار کا وقت ہو گیا ہے ..... ہم سب نے سفر کے دوران ہی میں کھجوروں سے روزہ افطار کیا۔ یہ افطار مجھے کبھی نہیں بھول سکتا ۔ جسم پر احرام زبان پر ’لبیک اللّٰھم لبیک.....‘ مکہ کے پہاڑ میرے دائیں بائیں ، بیت اللہ کی زیارت کا قصد اور یہ افطار ۔
راستے میں بعض مقامات پر مسجدِ حرام کے پر ُ عظمت مینار کے اوپر والے حصے نظر آتے تھے ۔ جب یہ مینار نظر آتے دل اچھلنے لگتا ۔ پورا مینار دیکھنے کی شدید خواہش پیدا ہوتی ۔ ان میناروں کے وسط میں موجود بیت اللہ کو دیکھنے کے لیے تڑپ پیدا ہوتی ۔
مسجدِ حرام کے قریب بس رکی۔ اپنا اپنا سامان پکڑا ۔ بس سے نیچے قدم رکھا ۔ ’’یہ مکہ کی زمین ہے‘‘ خود کو پھر یقین دلانا پڑا ۔
جلد ہی مسجدِ حرام کے ایک حصے کا بیرونی دروازہ ہمارے سامنے تھا۔ پورے مینار دیکھنے کی خواہش پوری ہو چکی تھی ۔ رات کی تاریکی نے پوری طرح غلبہ حاصل نہیں کیا تھا۔ ہلکی ہلکی قدرتی روشنی ابھی موجود تھی۔ مگر میناروں کی روشنیاں جلا دی گئی تھیں۔ ان روشنیوں کا اہتمام بڑے اچھے انداز سے کیا گیا تھا۔ روشنی کا منبع نظر نہیں آ رہا تھا۔ صرف روشنی دکھائی دے رہی تھی۔ بڑے بڑے بلند مینار، ان پر نقش و نگار اور یہ روشنی، جلال اور جمال کا حسین امتزاج تھا۔ موسم بھی بہت خوش گوار تھا۔ نہ سردی تھی اور نہ گرمی۔ شکرِ خداوندی کے جذبات بار بار بڑی شدت کے ساتھ ابھر رہے تھے۔ مسجدِ حرام کے بیرونی سفید اور صاف صحن پر نمازِ مغرب ادا کی..... قریب ہی ایک ہوٹل کا کمرہ حاصل کیا ..... کھانا کھا کر عمرے کے لیے مسجدِ حرام کا رخ کیا ..... جیسے ہی میں نے مسجدِ حرام کے اندر پاؤں رکھا تو خود کو پھر یقین دلانا پڑا کہ میں مسجدِ حرام کے اندر ہوں ۔
یکایک مجھے اپنے کزن ابوبکر کی ایک بات یاد آ گئی:
’ ’میں جب پہلی دفعہ مسجدِ حرام میں داخل ہوا اور برآمدوں میں سے ہوتا ہوا بیت اللہ کی جانب بڑھ رہا تھا اور بیت اللہ کو دیکھنے کے لیے بے تاب تھا ۔ میں مشتاق نظروں سے بیت اللہ کو ڈھونڈ رہا تھا مگر برآمدوں کے بے شمار اور بڑے بڑے ستونوں کی اوٹ سے کبھی مجھے بیت اللہ کا کنارہ نظر آتا تھا، کبھی اس کا کونہ دکھائی دیتا تھا اور کبھی اس کے درمیان کا کوئی حصہ نظر آتا تھا۔ اگرچہ جلد ہی پورے بیت اللہ کی زیارت ہوگئی، مگر بعد میں ایک تشنگی سی رہی۔ لہٰذا دوبارہ بیت اللہ گیا تو میں نے برآمدوں میں سے گزرتے ہوئے اپنی نظریں فرش پر رکھیں۔ جب بیت اللہ کے صحن میں پہنچا ، تب نظریں اٹھائیں۔ اب پورا بیت اللہ میرے سامنے تھا ۔ اس طرح میری تشنگی ختم ہوئی۔‘‘
میں نے ابوبکر کے تجربے سے فائدہ اٹھایا اور جب پہلی دفعہ مسجدِ حرام میں داخل ہوا تو ایسا ہی کیا۔ اس وقت نمازِ تراویح ہو رہی تھی ۔ میں نے اپنی نظریں فرش پر ر کھیں۔ نمازیوں کے درمیان تنگ راستے سے لوگوں کی بھیڑ میں سے ہوتے ہوئے میں برآمدوں سے گزر رہا تھا۔ آہستہ آہستہ بیت اللہ کی طرف بڑھ رہا تھا۔ دل کی دھڑکن تیز ہو رہی تھی ۔ جسم پر کپکپی سی طاری تھی۔ خدا نے مجھ جیسے حقیر آدمی کو اپنے گھر بلایا۔ اپنا مہمان بنایا ۔ اپنے گھر کی زیارت کی سعادت بخشی۔ شکرِ خداوندی سے لبریز میں بیت اللہ کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ’’بیت اللہ کا صحن آنے والا ہے ‘‘ ابوبکر نے آہستگی سے مجھے بتایا، دل کی دھڑکن اور تیز ہو گئی۔ ’’اللہ کا گھر جسے اب تک میں نے صرف ٹی وی پر یا تصویروں میں دیکھا تھا۔ جس کے بارے میں بڑوں سے سنا ، کتابوں میں پڑھا تھا۔ وہ گھر جس کی بنیاد حضرت ابراہیم نے رکھی۔ جس کے ساتھ جلیل القدر پیغمبروں اور غیر معمولی شخصیتوں کی ایک تاریخ وابستہ ہے۔ جس کے قریب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے تھے۔ جس کا طواف کرتے تھے ۔‘‘ غرض بیت اللہ کے پہلو سے تاریخِ اسلامی کے گوناگوں مناظر میرے تخیل کی آنکھوں کے آگے لہرا رہے تھے۔ ایک عجیب، ایک غیر معمولی، ایک ناقابلِ بیان کیفیت طاری تھی۔ ’’آج میں بھی اس اللہ کے گھر کے قریب جاؤں گا۔ اسے چھوؤں گا ۔ اس کی زیارت کرون گا۔‘‘ میرے اندرشکرِ خداوندی کے جذبات سمندر کی بڑی لہروں کی طرح ابھر رہے تھے۔ اسی اثنا میں دودھ کی طرح سفید ، صاف شفاف بیت اللہ کے صحن پر میں نے پاؤں رکھا اور اس کے ساتھ ہی نظریں اوپر اٹھائیں..... بیت اللہ میرے سامنے تھا ..... مکمل بیت اللہ ..... دیکھنے میں کوئی اوٹ آڑے نہیں آ رہی تھی۔ کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہو رہی تھی۔ سیاہ غلاف میں لپٹا ہوا۔ ابھری ہوئی چمکیلی خطاطی سے سجا ہوا۔ پورا بیت اللہ میرے اتنے قریب سے سامنے آیا تو اس کی عظمت کا بھرپور تاثر میرے پورے وجود پر طاری ہوا۔ میرے اندر احترام، ادب اور تشکر کے ملے جلے جذبات بڑی شدت سے بیدار ہوئے۔ دل میں مدوجزر سے اٹھنے لگے۔
جی چاہتا تھا وہاں پتھر کی طرح کھڑا ہو جاؤں اور بیت اللہ کو دیکھتا رہوں، مگر لوگوں کی بھیڑ تھی۔ وہاں کھڑے ہونا لوگوں کے لیے رکاوٹ بننا تھا۔ ہمارا چھوٹا سا قافلہ تھا ۔ احرام باندھے ہوئے تھے۔ بیت اللہ کے صحن میں داخل ہوتے ہی نمازِ تراویح پڑھنے والوں کی چند صفیں جلد ہی ختم ہو گئیں۔ طواف کرنے کی جگہ فوراً سامنے آ گئی۔ ہم بھی طواف کرنے والوں میں شامل ہو گئے۔ ہم بھی شمع کے گرد پروانوں کی طرح چکر لگانے لگے، سوڈانی، بنگالی ، ایرانی ، مصری ، لبنانی ، بھارتی ، گورے ، کالے ، چھوٹے ، بڑے ، موٹے ، پتلے ، عورتیں ، مرد ، لڑکیاں ، لڑکے ، بچیاں ، بچے ، صحت مند ، کمزور : سب اللہ کے گھر کا طواف کر رہے تھے ۔ ان کی زبانیں ذکرِ الہٰی سے تر تھیں۔ سب جذبے سوئے ہوئے تھے۔ صرف ایک جذبہ بیدار تھا۔ جذبۂ عبودیت۔ خدا کا گھر جو ظاہر ہے علامتی طور پر ہی قرار دیا گیا ہے اس کے گرد چکر لگا کر اس بات کا علامتی اظہار کیا جا رہا تھا کہ اے خدا ہماری سوچوں کا ، ہماری سرگرمیوں کا مرکز و محور تو ہے۔ صرف تو۔
عمرہ ، حجِ اصغر ہے اور حج درحقیقت مختلف عبادات کا مجموعہ ہے ۔ اسی لیے ایک حدیث میں اسے افضل عبادت کہا گیا ہے ۔ امام ابوحنیفہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھیں تردد تھا کہ اسلامی عبادتوں میں کون سی عبادت افضل ہے۔ جب انھوں نے حج ادا کیا تو اس کے بعد انھوں نے کہا کہ ’’اب مجھے یقین ہو گیا کہ حج تمام عبادتوں میں سب سے افضل عبادت ہے۔‘‘ حج کے مختلف مناسک میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے تعلق کا علامتی اظہار کیا جاتا ہے۔ یہاں ضروری محسوس ہوتا ہے کہ اس مجمل بات کی تفصیل پیش کر دی جائے۔ اس تفصیل کی ضرورت اس لیے محسوس ہوتی ہے کہ حج و عمرہ کے بارے میں، میں نے جتنی بھی کتابوں کا مطالعہ کیا ان میں اس عبادت کے ’’ظاہر‘‘ ہی کو بیان کیا گیا تھا۔ اس کے ’’باطن‘‘ کو سرے سے کوئی اہمیت نہیں دی گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بعض پڑھے لکھے لوگوں کو حج و عمرہ کے کچھ مناسک عجیب سے لگتے ہیں۔ میں خود جب پوری طرح دین کی طرف راغب نہیں تھا اور صرف نمازِ جمعہ ہی ادا کیا کرتا تھا اس وقت حج کے بعض مناسک میرے لیے بالکل ناقابلِ فہم ہوتے تھے۔ مگر جب اس عبادت کا علامتی پہلو میرے علم میں آیا اور اس کے ’’باطن‘‘ تک فکری رسائی حاصل ہوئی تو معلوم ہوا کہ یہ کس قدر غیر معمولی اور جامع عبادت ہے ۔ اس ’’ظاہر پرستی‘‘ کے بارے میں مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں:
’’حج کے سلسلے کی ایک بہت بڑی آفت یہ بھی ہے کہ عام طور پر لوگوں کو حج کے شعائر اور مناسک کی روح اور حقیقت سے بالکل بے خبری ہے ، بس لوگ عقیدت کے جذبے کے ساتھ جاتے ہیں اور معلم حضرات ان سے جو رسوم ادا کرا دیتے ہیں، آنکھ بند کر کے ان کو ادا کر کے چلے آتے ہیں نہ حج اور عمرہ کا فرق معلوم ،نہ طواف کی حقیقت کا پتہ، نہ حجرِ اسود کو بوسہ دینے کا مدعا کسی پر واضح، نہ یہ معلوم کہ سعی کیوں کی جاتی ہے، قربانی کی اصلی روح کیا ہے۔ رمی جمرات سے ہمارے اندر کس روح کو زندہ اور بیدار رکھنا مقصود ہے، اجتماعِ عرفات کی کیا حقیقت ہے۔ الغرض جتنے بھی شعائر ہیں ، عام طور پر لوگ ان کو محض رسوم کے طور پر اداکرتے ہیں۔ نہ ان کی معنویت کاکسی کو کچھ پتا ہوتا ہے نہ اس چیز سے لوگوں کو آگاہ کرنے کا کوئی معقول انتظام و اہتمام ہے اور نہ بظاہر اس چیز کے لیے لوگوں کے اندر کوئی طلب ہی پائی جاتی ہے۔
ظاہر ہے کہ جو عبادت محض رسم کی خانہ پری بن کر رہ جائے گی وہ روحوں اور دلوں پر کیا اثر انداز ہو سکتی ہے؟ اسی وجہ سے حج کا حقیقی فائدہ بہت کم لوگوں پر ظاہر ہوتا ہے۔
ہمارے اہلِ علم کو یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ قرآنِ مجید اور احادیث میں حج کے شعائر کے لیے شعائر کا جو لفظ استعمال کیا گیا ہے تو یہ لفظ ہی اس حقیقت پر گواہ ہے کہ ان شعائر سے مقصود اصلی وہ معانی اور حقائق ہیں جو ان شعائر کے ذریعے سے ہمیں سمجھائے گئے ہیں۔‘‘( تزکیۂ نفس ج ۱ ص ۳۰۶ - ۳۰۷)
سورۂ مائدہ کی آیت ۲ میں حج کے حوالے سے فرمانِ الہٰی ہے کہ اے ایمان والو! شعائرِ الہٰی کی بے حرمتی نہ کرو۔ سورۂ بقرہ کی آیت ۱۵۸ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ بے شک صفا اور مروہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں۔ اس کی تفسیر میں مولانا امین احسن صاحب اصلاحی لکھتے ہیں:
’’شعائر، شعیرہ کی جمع ہے ۔ جس کے معنی کسی ایسی چیز کے ہیں جو کسی حقیقت کا احساس دلانے والی اور اس کا مظہر اور نشان (symbol) ہو۔ اصطلاحِ دین میں اس سے مراد شریعت کے وہ مظاہر ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے کسی معنوی حقیقت کا شعور پیدا کرنے کے لیے بطور ایک نشان اور علامت کے مقرر کیے گئے ہوں۔ ان مظاہر میں مقصود بالذات تو وہ حقائق ہوا کرتے ہیں جو ان کے اندر مضمر ہوتے ہیں۔ لیکن یہ مقرر کیے ہوئے اللہ اور رسول کے ہوتے ہیں اس وجہ سے ان حقائق کے تعلق سے یہ مظاہر بھی تقدیس کا درجہ حاصل کر لیتے ہیں۔‘‘ ( تدبرِ قرآن ج ۱ ص ۳۸۴)
اربابِ تصوف معرفتِ الہٰی کو خدا کی ذات کے ذریعے سے پانے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ اس ضمن میں خدا ہمیں صفاتِ الہٰی کو ذریعہ بنانے کی ہدایت کرتا ہے ۔ دیکھیے ، حج جیسی جامع عبادت میں یہ حقیقت کس طرح نمایاں ہوتی ہے ۔ مولانا وحید الدین خاں لکھتے ہیں:
’’حج ایک اعتبار سے انسانی ذہن کی اصلاح ہے۔ حج کا پیغام یہ ہے کہ خدا کو ’’مجسمہ‘‘ کی سطح پر اتارنے کی کوشش نہ کرو۔ خدا کو اس کے ’’شعائر‘‘ کی سطح پر دیکھو۔ موجودہ دنیا میں تم خود کو اس کی ذات کی سطح پر نہیں پا سکتے۔ البتہ تم اس کو آثار ذات کی سطح پر پا سکتے ہو۔ یہ شعائر وہ ہیں جو خدا کے معیاری پرستاروں کے عمل سے قائم ہوئے ہیں۔ یہ تاریخ کے ان لمحات کی مادی یادگاریں ہیں جب کہ خدا اور بندے کے درمیان براہِ راست اتصال قائم ہوا۔ جب بندہ نے خدا کو پایا اور خدا نے اپنے کو بندہ کے لیے بے نقاب کیا۔
تاریخ کے وہ قیمتی افراد جنھوں نے خدا پرستی کو اس کی اعلیٰ اور معیاری شکل میں اختیار کیا۔ ان کے آثار ہی کا نام شعائر اللہ (خدا کی یادگاریں) ہے۔ انھیں شعائر کے درمیان تمام مراسمِ حج ادا کیے جاتے ہیں۔ ان سے دوری خدا سے دوری ہے اور ان سے وابستگی خدا سے وابستگی۔‘‘( حقیقتِ حج ص ۷۵)
حج ، ایک ایسی جامع عبادت ہے جس نے تمام عبادات کی اصل اساسات براہِ راست یا بالواسطہ اپنے اندر جمع کر لی ہیں۔ ذیل کی سطور میں ہم اس کی وضاحت کرتے ہیں کہ کس طرح نماز، زکوٰۃ، روزہ، ہجرت، جہاد، قربانی، تذکیر کے عناصر حج کے مناسک میں کارفرما ہیں۔
نماز ہی کو لیں۔ حج کے مناسک میں طواف ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی طواف کا ’’باطن‘‘ واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’قرآنِ مجید کے اشارات اور احادیث کی تصریحات سے ثابت ہے کہ طواف بھی درحقیقت نماز ہے۔ یہ نماز صرف خانہ کعبہ کے اردگرد ہی ادا کی جا سکتی ہے۔ اس کے سوا دنیا میں اور کہیں بھی ادا نہیں کی جا سکتی ۔ اس نماز میں بندہ جب خانہ کعبہ کے اردگرد دعائیں پڑھتا ہوا اس طرح چکر لگاتا ہے جس طرح شمع کے اردگرد پروانہ چکر لگاتا ہے تو غافل سے غافل انسان کی روح بھی وجد میں آ جاتی ہے پھر جب آدمی خیال کرتا ہے کہ اس کی یہ نماز مشابہ نماز ہے اس نماز سے جو فرشتے عرشِ الہٰی کے اردگرد پڑھ رہے ہیں تو ایک صاحبِ دل کے دل کی حالت ہوتی ہے یا ہوسکتی ہے وہ حالت کسی طرح بھی لفظوں میں بیان نہیں کی جا سکتی ۔‘‘ (تزکیہ نفس ج ۱ ص ۲۸۸)
زکوٰۃ پر غور کریں ۔ زکوٰۃ خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی عبادت ہے۔ حج کا اہتمام اور اس کے زادِراہ کے انتظام میں آدمی جو کچھ خرچ کرتا ہے وہ ظاہر ہے خدا ہی کے لیے خرچ کرتا ہے۔ عام آدمی تو اپنے روزمرہ کے اخراجات کم کر کے ہی حج کے مصارف پورے کر پاتا ہے۔
روزے کی طرف ذہن منتقل کریں۔ روزہ رکھ کر جو کیفیت ایک بندے پر طاری ہوتی ہے ، وہی کیفیت ایک حاجی کی احرام باندھنے کے بعد ہوتی ہے۔ جس طرح اس پر یہ احساس طاری رہتا ہے کہ وہ روزے سے ہے، لہٰذا اسے شہوت کی باتوں سے بچنا ہے اورگناہوں سے گریزاں رہنا ہے۔ جس طرح روزہ دار اگر روزے کے آداب کا خیال نہ رکھے تو اسے بھوک پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا، اسی طرح ایک حاجی بھی اپنی ساری مساعی کو گناہ کی باتوں سے غارت کر سکتا ہے۔
ہجرت و جہاد کے حوالے سے سوچیں۔ ہجرت و جہاد کی عبادت بھی خدا کی نافرمانی کے ماحول سے نکلنے اور خدا کی راہ میں سرگرم ہو جانے کے جذبے کا نام ہے۔ حج میں بھی آدمی اپنے پروردگار کے لیے گھربار چھوڑتا، شر سے خیر کی طرف بھاگتا اور حج کے دنوں میں ایک مجاہد کی طرح میدان میں خیمے لگا کر کبھی پڑاؤ اور کبھی سفرکے سخت مراحل سے گزرتا ہے اوران میں پیش آنے والی تکلیفیں برداشت کرتا ہے۔
احرام ایک سادہ اور ان سلا لباس ہے، جس کے ساتھ کوئی سلی ہوئی چیز نہیں پہنی جا سکتی۔ احرام باندھنا، اس بات کی علامت ہے کہ ہم نے دنیا سے اپنا تعلق منقطع کر لیا اور زیب و زینت کی زندگی ترک کر کے وہ لباس پہن کر خدا کے حضور میں حاضر ہو گئے ہیں، جس لباس میں مردہ قبر میں اتارا جاتا ہے۔ پھر ہماری زبان پر ’لبیک اللّٰھم لبیک‘ کا وہ ورد شروع ہو جاتا ہے، جس سے ہمارے خدا کے حضور حاضری کے والہانہ جذبے کا اظہار ہوتا ہے، اور جس میں ہم اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے اور اس کی یکتائی کا اعلان کرتے ہیں۔ یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ شکر کا جذبہ خدا کے ساتھ تعلق کے سارے پہلوؤں میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
حجرِ اسود کو علامت کے طور پر اللہ کا ہاتھ قرار دیا گیا ہے ۔ طواف کا آغاز اسے چوم کر یا اس کی طرف ہاتھ اٹھا کر کیا جاتا ہے ۔ ہاتھ چومنا یا ہاتھ پر ہاتھ رکھنا قدیم عرب میں عہد معاہدے کی توثیق کا ایک طریقہ تھا۔ حاجی طواف کے آغاز میں یہ عمل کر کے ’بسم اللہ، اللہ اکبر ‘ کہہ کر وہ دعا پڑھتا ہے، جس میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیے ہوئے عہدِ وفا کی تجدید کی جاتی ہے۔
سعی، نصرتِ دین کے جذبے کی علامت ہے۔ اس کا پیکرِ اتم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شخصیت ہے۔ جب وہ اپنے بیٹے کو قربان کرنے کے لیے قربان گاہ لے گئے تو صفا اور مروہ کے درمیان قربانی کو پھیرے دلائے۔ سعی میں ان پھیروں اور حضرت ہاجرہ کی اس دوڑ دھوپ کی نقل کی جاتی ہے جو انھوں نے اس بیابان میں پانی کی تلاش کے لیے کی۔ حضرت ابراہیم اور حضرت حاجرہ کا یہی عمل ہے، جو سعی کی صورت میں حج کا حصہ بن گیا ہے۔
سرمنڈانا پرانے زمانے میں غلام بننے کی علامت تھی ۔ جب کوئی شخص کسی کا غلام بن جاتا تو اس کا سر مونڈ دیاجاتا تھا ۔ حاجی اپنا سرمنڈا کر اللہ کا غلام بننے اور اس کا غلام رہنے کا علامتی اظہارکرتا ہے۔
عرفات کا وقوف ، درحقیقت اپنے آپ کو خدا کے حضور میں کھڑا کر دینا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں یہ سنت قائم کی کہ خطبے اور دوپہر کی نمازوں کے بعد مغرب کی طرف رخ کر کے کھڑے ہوئے اور اس وقت تک کھڑے دعا فرماتے رہے، جب تک سورج ڈوب نہیں گیا۔ اس دوران میں بندۂ مومن اپنے گناہوں کو یاد کرتا، ان کے لیے معافی مانگتا اور اپنی حاجات کی تکمیل کے لیے دعائیں مانگتا ہے۔
a مزدلفہ میں اگرچہ وقوف تو عرفات کے مقابلے میں مختصر ہوتا ہے، لیکن عرفات و مزدلفہ کے مابین یہ سفرمعنوی طور پرجہاد کے سفر کی علامت بن جاتا ہے۔ ایک مقام پر رکے، پڑاؤ کیا، پھر اگلی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔ اس دوران میں نمازیں بھی جہاد سے علامتی مشابہت کی وجہ سے قصرپڑھی جاتی ہیں۔
منیٰ میں جمرات پر جو کنکریاں ماری جاتی ہیں ان کو کوئی شخص چاہے شیطان پر کنکریاں مارنا سمجھے یا ابرہہ کی فوجوں پر جو آسمانی سنگ باری ہوئی تھی ، اس کی یادگار سمجھے، بہرحال یہ کنکریاں مارنا اللہ کے دشمنوں پر لعنت اور سنگ باری کی ایک علامت ہے اور اللہ و رسول نے اس یادگار کو حج کے مناسک میں اسی لیے محفوظ کر دیا ہے تاکہ حج ، مسلمانوں کی جہاد کی روح کو بھی زندہ رکھے ۔
جہاد میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کو حج میں قربانی کی صورت میں علامتی طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ ابراہیمی قربانی کی یادگار ہے۔ حاجی قربانی اس جذبے کے ساتھ کرتا ہے کہ جس طرح اس نے خدا کی خوش نودی کے لیے جانور قربان کیا ہے، اسی طرح اگر اس کے دین کو ضرورت پڑی تو وہ اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کرنے سے دریغ نہیں کرے گا ۔ اسلام کے معنی بھی اپنے آپ کو خدا کے سپرد کر دینے کے ہیں۔ یعنی خدا کی مرضی اور اس کی پسند کے آگے آدمی اپنی کوئی پسند باقی نہ رکھے۔ حضرت ابراہیم نے اپنے محبوب بیٹے حضرت اسماعیل کو جب خدا کی راہ میں قربان کرنے کا عزم کیا تو لفظ ’’اسلام‘‘ ہی کے پہلو سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو ’’مسلم‘‘ کے لقب سے نوازا۔ جہاد کے اسی پہلو کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ تمھارا جہاد حج ہے۔
حج کے مناسک میں کارفرما یہی فلسفہ ہے جس کے پیش نظر مولانا وحید الدین خاں صاحب نے حج کے بارے میں ایک خاص جذباتی اسلوب میں تحریریں لکھی ہیں۔ ذیل میں ان کی ایسی ہی تحریروں سے اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں تاکہ مناسکِ حج کے علمی اور جذباتی، دونوں پہلو نمایاں ہو جائیں:
’’حج حق تعالیٰ سے ملاقات ہے۔ آدمی جب سفر کر کے مقامات حج تک پہنچتا ہے تو اس پر خاص طرح کی ربانی کیفیت طاری ہوتی ہیں۔ اس کو ایسا محسوس ہوتا ہے گویا وہ ’’اپنی دنیا‘‘ سے نکل کر ’’خدا کی دنیا‘‘ میں پہنچ گیا ہے۔ وہ اپنے رب کو چھو رہا ہے۔ وہ اس کے گرد گھوم رہا ہے۔ وہ اس کی طرف دوڑ رہا ہے..... حج کے تمام مراسم اس بات کا عملی اظہار ہیں کہ آدمی اللہ کے لیے سرگرم ہے ۔ اس نے اپنی زندگی اللہ کے گرد گھما ر کھی ہے۔ وہ اللہ کے دوستوں کا دوست اور دشمنوں کا دشمن ہے۔ حشر کے میدان میں اللہ کے سامنے حاضری کی کیفیت کو آج ہی اس نے اپنے اوپر طاری کر لیا ہے۔ وہ سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور سب سے زیادہ اللہ کی یاد کرنے والا ہے۔ وہ اسلام کو ایک عالمی حقیقت بنانے اور اس کو بین الاقوامی سطح پر رواج دینے کے لیے بے قرار ہے ..... حج گویا حق تعالیٰ کی زیارت ہے۔ وہ دنیا کی زندگی میں اپنے رب سے قریب ہونے کی انتہائی شکل ہے۔ دوسری عبادتیں اگر اللہ کی یاد ہیں تو حج خود اللہ تعالیٰ تک پہنچ جانا ہے ..... حاجی جب کعبہ کے سامنے کھڑا ہوتا ہے تو وہ ایسا محسوس کرتا ہے گویا وہ خود ربِ کعبہ کے سامنے کھڑا ہوا ہے۔ کعبہ کا طواف اس حقیقت کا مظہر ہے کہ بندہ اپنے رب کو پا کر پروانہ وار اس کے گرد گھوم رہا ہے۔ جب وہ ملتزم کو پکڑ کر دعا کرتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے گویا اس کو اپنے آقا کا دامن ہاتھ آ گیا ہے جس سے وہ بے تابانہ لپٹ گیا ہے اور اپنی ساری بات اس سے کہہ دینا چاہتا ہے۔
اکثر حاجیوں کو دیکھا گیا ہے کہ ارکانِ حج کو ادا کرتے ہوئے وہ بس رٹی ہوئی دعائیں دہراتے ہیں یا کتاب ہاتھ میں لے کر اس سے پڑھتے رہتے ہیں ۔ حج کی فقہی ادائیگی اگرچہ اس سے ہو جاتی ہے ۔ مگر حج کے دوران ذکر و دعا سے جو چیز مطلوب ہے اس کا حق اس طرح ادا نہیں ہوتا ۔ حج کے دوران آدمی پر وہ کیفیت گزرنی چاہیے جو حضرت ابراہیم اور ان کے خاندان پر گزری تھی۔ مثلاً جب آدمی سعی کرتا ہے تو اس کی زبان سے ایسے کلمات نکلنے چاہییں کہ خدایا تو نے اس سعی کے بعد ہاجرہ کے لیے برکت کا ابدی چشمہ جاری کر دیا تھا میری سعی کو بھی تو ایسی سعی بنا دے جس کے بعد میرے لیے خیر کے ایسے چشمے جاری ہو جائیں جو دنیا سے آخرت تک مجھے سیراب کرتے رہیں۔‘‘ (حقیقتِ حج ۴۳، ۴۴، ۴۶، ۴۸)
(جاری)
___________