HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

’’نوربصیرت‘‘ عام کرنے والے کی رحلت

محمد بلال

 

’’مسلمان حکمران ـــــــــ تین بنیادی تقاضے‘‘ موضوع تھا۔ مقرر جناب جاوید احمد غامدی تھے۔ تقریب کے صدر پروفیسر مرزا محمد منور تھے ـــــــــ یہاں یہ ذہن میں رہے کہ پروفیسر صاحب اور جاوید صاحب کے مابین گورنمنٹ کالج لاہور میں استاد اور شاگرد کا تعلق قائم رہ چکا تھا    ـــــــــ تقریر کا اختتام ہوا، میزبان نے صدر کو اظہارِ خیال کی دعوت دی۔ صدر ڈائس کے سامنے آئے اور اپنی گفتگو کا آغاز ان الفاظ سے کیا:

’’معزز خواتین و حضرات آپ نے جاوید احمد غامدی صاحب کی تقریر سنی۔ جس خلوص کے ساتھ انھوں نے معاملات آپ کے سامنے رکھے میری کج مج بیانی اس معیار پر پوری نہیں اترتی.....‘‘

 اور اختتام ان الفاظ سے کیا:

’’میں سمجھتا ہوں میں نے ، جتنے روشن الفاظ میں عزیزِ محترم گفتگو کر رہے تھے اس کی روشنی کو کچھ دھندلایا ہے۔ لیکن صدر بے چارہ بھی مجبور ہے اور کرسی کی لاج رکھنے کے لیے کچھ بولنا ہی پڑتا ہے تو میں نے بھی گستاخی کر لی ہے۔ والسلام علیکم۔‘‘

 حیرت ہوتی ہے یہ کیسے پروفیسر ہیں ، یہ کیسے استاد ہیں، یہ کیسے ملکی سطح کے بزرگ علمی رہنما ہیں جو اپنی عمر سے بہت چھوٹے، علمی دنیا میں نووارد اور اپنے شاگرد کے بارے میں اس طرح اظہارِ خیال کر رہے ہیں۔

  یہاں پروفیسرصاحب، جاوید صاحب کے الفاظ کو روشن قرار دے رہے ہیں اور اپنے الفاظ کو ان الفاظ کی روشنی کو دھندلانے کا باعث قرار دے رہے ہیں، مگر وسیع القلبی کے نقطۂ نگاہ سے سوچیں تو یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ پروفیسر صاحب کے یہ ’’دھندلانے والے‘‘ الفاظ درحقیقت خود روشن ترین الفاظ ہیں۔

  آہ! یہ روشن ترین الفاظ ادا کرنے والے، اقبالیات کے ماہر، تنقیدی اور   تحقیقی ادب کے خادم، اقبال اور قائداعظم کے مخلص محب، تحریکِ پاکستان کے ممتاز دانش ور، اردو اور انگریزی زبانوں کی درجنوں کتابوں کے مصنف، ۷ فروری ۲۰۰۰ کو پیر کے دن صبح دس بجے انتقال کر گئے ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آپ کی عمر ۷۷ سال تھی۔ آپ گزشتہ کئی ماہ سے صاحبِ فراش تھے۔ دل، دمہ اور ذیابیطس کے مریض تھے۔ اگرچہ آپ کے علاج میں کوئی کسراٹھانہیں ر کھی گئی، مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔

  پروفیسر صاحب شریف النفس، دیانت دار، درویش طبع، فیاض، کھرے اور ایک بے باک انسان تھے۔ آپ بہت محبِ وطن تھے۔ اس محبت کا ایک مظہر ان کا لباس بھی تھا۔ آپ نے ساری عمر قومی لباس پہنا۔ آپ کے سر پر جناح کیپ اور تن پر شیروانی ہوتی تھی ۔

 آپ کی شخصیت کا سب سے زیادہ نمایاں پہلو فکرِ اقبال کا فہم اور فروغ تھا۔ اقبالیات پر آپ کے کام ہی کی وجہ سے آپ کو صدارتی تمغۂ  حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا۔   تعلیم کے میدان میں بھی آپ نے نمایاں خدمات انجام دیں جس کے صلے میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے آپ کو ۱۹۹۷ ء میں ستارۂ امتیاز ملا۔

  آپ کے والد صاحب مرزا ہاشم الدین ایک اسکول میں پڑھاتے تھے اور والدہ صاحبہ محلے کی لڑکیوں کو قرآن کی تعلیم دیتی تھیں۔ آپ ۲۷ مارچ ۱۹۲۳ء کو بھیرہ میں پیدا ہوئے۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد ریلوے میں اور پھر محکمہ انہار میں کلرک کے طور پر ملازمت کی۔ بی اے پرائیویٹ طور پر کیا۔ ۱۹۵۲ء میں پنجاب یونیورسٹی، لاہور سے اردو میں، ۱۹۵۳ء میں عربی میں اور ۱۹۶۷ء میں فلسفہ میں ایم-اے کیا۔ ۱۹۵۳ء سے ۱۹۶۱ء تک گورنمنٹ کالج، فیصل آباد میں اردو کے لیکچرر رہے۔ ۱۹۶۱ ء سے ۱۹۸۰ ء تک گورنمنٹ کالج، لاہور میں اردو کے اسسٹنٹ پروفیسر رہے۔ ۱۹۸۰ ء سے۱۹۸۵ ء تک یونیورسٹی اورینٹل کالج، لاہور کے شعبہ اقبالیات کے چئیرمین رہے۔ ۱۹۸۳ ء سے ۱۹۸۵ ء تک اقبال اکادمی، پاکستان کے جز وقتی اور ۱۹۸۵ ء سے ۱۹۸۸ ء اور ۱۹۹۱ ء سے ۱۹۹۳ ء تک کل وقتی ڈائریکٹر رہے۔ آپ نے ۲۱ ویں اسکیل میں اپنی خدمات انجام دیں۔ ۸ سال تک وی آئی پی کی حیثیت حاصل رہی۔

   آپ اقبال اکادمی، پاکستان کی گورننگ باڈی ، مرکزی مجلسِ اقبال لاہور ، مرکزی زکوٰۃ کونسل، حمایتِ اسلام لاہور کی انتظامی  کمیٹی، منصوبۂ بابِ پاکستان کمیٹی ، پنجاب آرٹس کونسل ، ریڈیو پاکستان کی گورننگ باڈی ، پاکستان ٹیلی وژن لاہور کی ایڈوائزی باڈی کی سطح اور نوعیت کے کئی اداروں کے ممبر رہے ۔

 آپ اردو، انگریزی، عربی، پنجابی اور فارسی زبان میں مہارت رکھتے تھے۔ آپ کئی کتابوں کے مصنف اور روزنامہ ’’نواے وقت‘‘ کے مستقل مضمون نگار تھے ۔

 شاعرِ مشرق نے عالم کے پروردگار کے حضور میں یہ دعا کی تھی:

خدایا آرزو میری یہی ہے

 مرا نورِ بصیرت عام کر دے 

اس بات میں رتی برابر بھی شبہ نہیں کہ پروفیسر صاحب کی زندگی کا مرکز و محور شاعرِ مشرق کا نورِ بصیرت عام کرنا ہی تھا ۔

 قرآن و حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب انسان اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو اس کی قیامت تو واقع ہو جاتی ہے ۔ وہ عالم برزخ میں منتقل ہو جاتا ہے ۔ اگر وہ نیک ہو تو اس کو جنت دکھائی جاتی ہے۔

 شاعرِ مشرق نے کہا تھا:

 یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصہ محشر میں ہے

پیش کر غافل عمل اگر کوئی دفتر میں ہے 

مجھے یقین کی حدود کو چھوتا ہوا گمان ہے کہ پروفیسر صاحب کے ’’دفتر‘‘ میں اتنا ’’عمل‘‘ موجود ہے کہ جس کے صلے میں اس وقت عالمِ برزخ میں انھیں جنت دکھائی جا رہی ہو گی۔

(جاری)

___________

B