’’اشراق‘‘ کے نام خطوط میں پوچھے گئے
سوالات پر مبنی مختصر جوابات کا سلسلہ
سوال: ’’اشراق‘‘ فروری ۲۰۰۰ کے ’’یسئلون‘‘ میں قرآنِ مجید میں لفظ ’کافر‘کے لغوی استعمال کے بارے میں سوال کے جواب میں لکھا گیا کہ ’’کافر کے معنی ہیں انکار کرنے والا۔ قرآن میں یہ لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔‘‘ اس جواب سے یقیناً قاری کو اطمینان نہ ہوا ہو گا۔ کیا آپ میرا حسبِ ذیل جواب شائع کریں گے ؟
قرآن میں لفظ کافر اپنے لغوی معنی میں سورۂ حدید کی آیت ۲۰ میں استعمال ہوا ہے۔ ’اعجب الکفار نباته‘یعنی کسانوں کو اپنی زمین میں اگی ہوئی ہریالی اچھی یا فصل اچھی لگتی ہے۔
عربی لغت میں ’کفر‘ (باب ضرب یضرب سے) چھپانے کے معنی میں آتا ہے۔ کسان کو کافر اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ زمین میں ہل چلا کر بیج اس میں ڈالتا ہے۔ جو مٹی میں چھپ جاتے ہیں۔ انکار کے معنی باب نصر ینصرُ سے ہیں۔ سورۂ حدید کی آیت مذکورہ بالا میں لفظ ’الکفار‘کے یہی معنی کسان، تفسیر قرطبی اور تفسیر ابنِ کثیر وغیرہ میں مذکور ہیں ۔ ( رضوان علی ندوی ، کراچی)
جواب: شاید آپ کے مطالعے میں نہیں آیا کہ مولانا امین احسن اصلاحی نے اس آیت کی تاویل کرتے ہوئے لفظ ’کفار‘کے یہ معنی نہیں لیے اور اپنی ترجیح کے دلائل بھی دے دیے ہیں۔ آپ ’’تدبرِ قرآن‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’آیت میں لفظ ’کفار‘بھی قابل غور ہے اس کے معنی مفسرین نے عام طور پر ’زراّع‘ یعنی کسانوں کے لیے ہیں۔ لیکن دل اس پر نہیں جمتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لفظ اس معنی میں معروف نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ جس مادے سے ہے اس کے اندر یہ معنی لینے کی گنجایش ہے۔ لیکن محض اتنی بات ایک ایسے لفظ کو جو ایک اصطلاح کی حیثیت سے، ایک خاص مفہوم میں قرآن میں کثرت سے استعمال ہوا ہے، ایک ایسے شاذ معنی میں لینے کے لیے کافی نہیں ہے۔ جس معنی میں اس کی کوئی مثال قرآن میں نہیں ہے۔ سورۂ فتح کی آیت ۲۹ ’فاستوی علی سوقه یعجب الزراع لیغیظ بھم الکفار‘(پس وہ کھیتی اپنے تنوں پر کھڑی ہو گئی کسانوں کے دلوں کو لبھاتی ہوئی کہ ان سے کافروں کے دل آزردہ ہوں) میں دونوں لفظ اپنے اپنے خاص معنوں میں استعمال ہوئے ہیں ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں اپنے معانی میں معروف و متعین ہیں۔ اس وجہ سے میرا ذہن اس طرف جاتا ہے کہ یہاں ’کفار‘ اپنے اصل مفہوم ہی میں ہے۔ چونکہ اس تمثیل میں پیشِ نظر منکرین آخرت ہی کے رویہ کو نمایاں کرنا ہے ۔ اس وجہ سے فرمایا ہے کہ اس دنیا کی عارضی رونقیں منکرینِ آخرت کے دلوں کو لبھا لیتی ہیں۔ وہ انھی کے اندر پھنس کے رہ جاتے ہیں۔ اور بالآخر اس عذاب سے دوچار ہوتے ہیں ۔ جو اس قسم کے محروم القسمت لوگوں کے لیے مقدر ہے۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ تمثیل و تشبیہ میں بعض اوقات ایسے الفاظ داخل کر دیے جاتے ہیں جن سے مقصود ان لوگوں کی طرف اشارہ کرنا ہوتا ہے جو اس تشبیہ یا تمثیل میں پیشِ نظر ہوتے ہیں ..... ‘‘( ج ۸ ص ۲۲۱)
ف مولانا امین احسن اصلاحی نے اس پیرے میں تین نکات کو فیصلے کی بنیاد بنایا ہے۔ ایک یہ کہ یہ اس لفظ کے معروف معنی نہیں ہے ۔ دوسرے یہ کہ ایک دوسرے مقام پر اسی طرح کی تمثیل میں دونوں لفظ یکجا آئے ہیں اور اس میں لفظ ’کفار‘ اپنے اصلی معنی میں آیا ہے۔ تیسرے یہ کہ تشبیہ یا تمثیل میں وہ الفاظ داخل کر دیے جاتے ہیں جو مقصود کی طرف اشارہ کر دیتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ تینوں نکات بات کو حتمی کر دیتے ہیں۔ جب آیت کی تاویل معروف معنوں میں ہو۔ اس سے بلاغت بھی واضح ہو تو پھر ایک بعید معنی لینا کیسے درست ہو سکتا ہے۔
سوال: کیا مسلمانوں کی موجودہ حکومتیں سود کے متعلق قرآنِ کریم اور احادیثِ نبوی میں واضح احکام کی نفی کر کے یعنی سودی نظام کو حرام سمجھتے ہوئے بھی اسے اپنا کر کفرِ بواح کی مرتکب نہیں ہو رہیں۔ ان حالات میں ان کی اطاعت کس طرح جائز ہو سکتی ہے ؟ (حبیب الرحمٰن ڈیرہ غازی خان)
جواب: کفر بواح کے ارتکاب کا مطلب یہ ہے کہ قرآنِ مجید کے کسی صریح حکم کو ماننے سے انکار کر دیا جائے۔ ضیاء الحق مرحوم اور ان کے بعد کے حکمرانوں کے اقدامات میرے مشاہدے میں ہیں۔ میرے علم کی حد تک ان میں سے کوئی بھی سود کی حرمت سے انکار نہیں کرتا اور نہ سودی نظام کو قائم رکھنے پر مصر ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ سود کے بغیر بینکنگ کی کوئی صورت پیدا ہو تو وہ اسے نافذ کریں۔ اب بھی حیلہ ہی سہی نفع و نقصان میں شراکت کے اکانٹ قائم کیے گئے ہیں۔ میرے خیال میں اس صورتِ حال میں موجودہ نظام کا تسلسل غلط ہونے کے باوجود حکمرانوں کو کفرِ بواح کا مرتکب نہیں بناتا۔
حکمران کی اطاعت ہمیشہ ’فی المعروف‘ کی شرط کے ساتھ ہوتی ہے ۔ ریاست کے جو قوانین قرآنِ مجید اور سنت کے صریحاً خلاف ہیں ہم ان کی اطاعت نہیں کریں گے۔ خواہ حکمران کتنے ہی نیک کیوں نہ ہوں اور انھوں نے بالعموم اسلامی احکام کا نفاذ ہی کیوں نہ کر رکھا ہو۔
سوال: ہماری فقہ لایعنی مسئلوں کا طومار ہے۔ فقہا حیلے تراشتے اور خودساختہ دین پیش کرتے ہیں۔ آپ لوگ تصوف پر بنیادی تنقید کرتے ہیں لیکن فقہ اور فقہا کی شان میں قصیدے پڑھتے ہیں۔ یہ آپ کی علمی بے ایمانی نہیں تو اور کیا ہے؟ ( عمران خواجہ سیالکوٹ )
جواب: آپ کا سوال زبان و بیان اور اخلاق کے اعتبار سے ناقابلِ اشاعت تفصیلات پر مشتمل تھا میں نے اس کی موزوں تلخیص کر دی۔ آپ کا یہ اعتراض درست نہیں ہے ۔ ہم نے ہر غلط بات سے براءت کا اظہار کرنے ہی کو اپنا طریق کار ٹھیرایا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارا کام صرف انھی غلط افکار کی تردید تک محدود رہا ہے جن کا دائرۂ اثر وسیع ہے یا جن کی تردید کرنا کسی خاص وقت پر ضروری معلوم ہوا ہے۔ فقہ کے جس غلط پہلو کی آپ نے نشان دہی کی ہے اس میں ہم آپ سے متفق ہیں۔
سوال: سید سلیمان صاحب ندوی نے ’’سیرت النبی‘‘ میں یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ جنت کے برعکس جہنم ہمیشہ قائم نہیں رہے گی اور ایک روز آئے گا جب کافروں کو دوزخ سے نکالا جائے گا۔ قرآنی اسلوب کے مطابق اس رائے میں کہاں تک حقیقت ہے، جبکہ جمہور علما کی رائے اس کے برعکس ہے؟ (محمدصفتین راولپنڈی )
جواب: قرآنِ مجید میں کوئی آیت ایسی نہیں ہے جس میں بصراحت بیان ہوا ہو کہ بالآخر دوزخ ختم ہو جائے گی۔ مولانا ندوی کی ساری بحث بعض الفاظ کے اشارات کو متعین کرنے سے متعلق ہے۔ یہ بات بالبداہت واضح ہے کہ اس نوعیت کی بحث سے کوئی حتمی نتیجہ نکالنا ممکن نہیں ہوتا۔ میرا خیال یہ ہے کہ اس باب میں خاموشی ہی بہتر ہے ۔
سوال: مہر کی ادائیگی کا صحیح وقت کون سا ہے مہر ادا کیے بغیر نکاح ہو جاتا ہے کیا مہر بخش دینا چاہیے ؟ (محمد صفتین راولپنڈی )
جواب: بہتر تو یہی ہے کہ مہر بوقتِ نکاح یا پہلی ملاقات کے موقع ہی پر ادا کر دیا جائے ۔ لیکن مہر کا تقرر کرتے ہوئے اس بات کی گنجایش ہوتی ہے کہ مہر کی ادائیگی کے لیے بعد کا کوئی وقت طے کر لیا جائے۔ مہر کی رقم ادا کیے بغیر نکاح ہو جاتا ہے۔ لیکن مہر ادا نہ کرنا ایک نامعقول روش ہے۔ اگر کوئی مجبوری ہو تو مہر بخشنا درست ہے لیکن مرد کی طرف سے اس کا مطالبہ پسندیدہ نہیں ہے ۔
سوال: بدعت کی تعریف کیا ہے ؟ کیا عبادات میں کمی بیشی کی جاسکتی ہے۔ ایک ایساعمل جو آپ نے مستقل طور پر نہ کیا ہو اسے مستقل طور پر کرنا بدعت کی تعریف میں آتا ہے یا نہیں ؟ کیا نماز باجماعت کے بعد اجتماعی دعا مانگنا اس میں شامل ہے ؟ (محمدصفتین راولپنڈی )
جواب: کسی نئی چیز کو دین میں شامل کرنا بدعت ہے۔ یعنی جو چیز دین کا حصہ نہیں تھی اسے دین قرار دینا بدعت کا ارتکاب ہے۔ اسی طرح دین میں کسی چیز کے محل کو تبدیل کرنا بھی اسے بدعت بنا دیتا ہے۔ مثلاً کسی نفلی عمل کو لازم کر دینا یا کسی جائز عمل کی ایسی صورت بنا دینا کہ وہ ہیئت دین میں نئی ہو مثلاً اذان سے پہلے درود کا التزام کرنا ۔ اسی طرح نماز کے بعد اجتماعی دعا اس دوسری شق کے تحت ہے۔ ہمارے ہاں اسے نماز کے لازمی حصے کے طور پر کیا جاتا ہے اور یہی چیز اسے بدعت بنا دیتی ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــ