HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

مکتوب - ۲

۱۳  نومبر ۱۹۸۵

 محترم جناب مولانا جاوید احمد صاحب 

السلام علیکم 

مزاج شریف!

  پچھلے دنوں کراچی جانا ہوا تو وہاں مولانا محمد طاسین صاحب نے آپ کا ذکرِ خیر کیا اور ’’اشراق‘‘ کا وہ شمارہ دیا جس میں آپ نے قرآن ، عربی لغت اور اسلامی نقطۂ نگاہ سے غلبۂ دین اور اس سے متعلق امور پر تفصیلی بحث کی ہے ۔ مجھے آپ کا یہ  مضمون اتنا پسند آیا کہ میں مولانا طاسین صاحب کو وہ شمارہ واپس کرنے کے بجائے اپنے ہمراہ حیدر آباد لے آیا ۔ کئی دوستوں کو میں نے یہ  مضمون دکھایا ہے ۔

 اصل میں اس دور کا ایک المیہ یہ ہے کہ جدید نظریات ، جدید نظاموں اور علوم و فنون کے غلبہ اور سامراج کے تسلط کی وجہ سے اسلامی مفکروں اور دانش وروں پر دین کے اجتماعی، سیاسی اور خارجی پہلو کا غلبہ ہو گیا اور انھوں نے اجتماعیت اور نظامِ زندگی اور حکومتِ الہٰیہ اور خارجی زندگی میں اقامتِ دین کو پیشِ نظر رکھ کر ہی پورے اسلام کی تشریح کر ڈالی ۔

 انفرادی اصلاح ، تزکیۂ نفس ، معاشرے کی اصلاح اور تربیتی اداروں کے استحکام اور علمی و فکری کام کی بنیادیں     مستحکم کرنے کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ نتیجہ یہ ہے کہ معاشرے کے اندر برائی کے خلاف مدافعت کی قوت ہی پیدا نہ ہو سکی۔ اب تو حالت یہ ہے کہ خدا کا جو بندہ بھی گھر سے نکلتا ہے، وہ اقامتِ دین سے کم تر بات نہیں کرتا، حالانکہ تزکیۂ نفس ، اپنی ذاتی تربیت، اصلاحِ معاشرہ اور اقامتِ دین کی نوعیت پرائمری اور یونیورسٹی کی تعلیم کی سی ہے۔ اگر کوئی گروہ پرائمری تعلیم حاصل کیے بغیر یونیورسٹی میں داخل ہونا چاہتا ہے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے تو ظاہر ہے کہ ایسا ہونا ممکن نہیں۔ ہم نے تو معاشرے کی اصلاح کے لیے قومی سطح پر کوئی ایک بھی ادارہ قائم نہیں کیا ہے۔ آخر بدی کی وہ طاقتیں جو ہمارے معاشرے میں ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں اور نہایت ہی مضبوط ہیں، انتظامیہ میں بھی، فوج جاگیردار اور صنعت کار طبقہ میں، پھر خارجی طور پر بین الاقوامی طاقتیں، پھر ان کے پاس وسائل بھی بے پناہ ہیں اور ان کے ہاں   تنظیم بھی ہے۔ اتنی بڑی قوت سے آپ چند بے تربیت افراد کی مدد سے کیسے لڑ سکتے ہیں۔

  بڑی عمارت کی تعمیر کے لیے پہلے اس کی بنیادوں کے استحکام کا سامان ہونا ضروری ہے ۔ اس سامان سے پہلے اگر عمارت قائم بھی ہو جائے تو وہ جلد ہی گر جائے گی ۔ بد  قسمتی سے یہ نکتہ ہمارے ’’نئے دانش وروں‘‘ کو سمجھ میں نہیں آتا ۔ کاش کہ ہم قوم کو جذباتی نعروں کے ذریعہ  سطحی کاموں میں لگانے کی بجائے صحیح خطوط میں ان کی تربیت کا نظام قائم کر لیں اور آنے والے  مصلحین کو ایسے لوگ فراہم کر کے دیں جن کے مضبوط کردار، جذبۂ جہاد اور تقویٰ سے فائدہ اٹھا کر وہ کوئی بڑا معرکہ سر انجام دے سکنے کے قابل ہو سکیں۔ اگر موجودہ صورتِ حال رہی تو نہ اقامتِ دین کا کام ہو گا اور نہ ہی معاشرے میں تربیت کی   مستحکم بنیادیں ر کھی جا سکیں گی۔

والسلام  

محمد موسیٰ بھٹو     

حیدرآباد           

______

 

۲۲ نومبر ۱۹۸۵

محترم و مکرم جناب بھٹو صاحب 

السلام علیکم و رحمتہ اللہ 

عنایت نامہ ملا۔ شکر گزار ہوں۔ آپ نے مضمون پسند کیا ، کتابیں ارسال فرمائیں، آپ کی عنایت ہے۔

  آپ نے جس کام کی طرف توجہ دلائی ہے، واقعہ یہ ہے کہ اس وقت کرنے کا اصل کام وہی ہے۔ دین کے فکری غلبہ کے بغیر کوئی کام کرنا ممکن نہیں اور یہ چیز اعلیٰ علمی اداروں کے قیام ہی سے حاصل ہو سکتی ہے ۔ ہم نے ’المورد‘ اسی مقصد کے پیشِ نظر قائم کیا ہے ۔ آپ بھی اسی کے لیے کام کر رہے ہیں ۔ جو کچھ ہمارے بس میں ہے،  ہم ان شاء اللہ کریں گے ۔ امید ہے کہ اللہ تعالیٰ صحیح سمت میں کی جانے والی مساعی کو ضائع نہیں کریں گے      ۔  

 والسلام

ــــــــ جاوید احمد           

___________

B