HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

مکتوب - ۱

[مدیرِ ’’اشراق‘‘ کے نام آنے والے خطوط اور ان کے جوابات]

 

۲۲ اکتوبر ۱۹۸۵

محترم المقام جناب غامدی صاحب زید علومکم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

خدا کرے آپ بہمہ وجوہ بخیر و عافیت ہوں۔ ’’اشراق‘‘ اکتوبر ۱۹۸۵  موصول ہو کر باعث تشکر و امتنان ہوا۔ اگرچہ جناب نے یہ شمارہ اعزازی طور پر ہی ارسال فرمایا ہے تاہم میں چونکہ بلاوجہ جناب پر مالی بار ڈالنا نہیں چاہتا اس لیے مبلغ ۲۸۰ (قیمت رسالہ مع محصول ڈاک) اس درخواست کے ساتھ ارسال خدمت کر رہا ہوں کہ جناب قبول فرمائیں۔

 ماشاء اللہ جس علمی انداز میں آپ نے ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے بعض مزعومات کی تغلیط و تردید فرمائی ہے، وہ قابلِ    تحسین ہے اور اس میں ہر اس مسلمان کے لیے پوری رہنمائی ہے جو کسی غیرشرعی   مسلم حکومت کو حکومتِ الہٰیہ میں تبدیل کرنے کا انفرادی یا جماعتی طور سے خواہش مند ہو۔ نیز احقر کا خیال ہے کہ اگر جماعتِ اسلامی اس  مضمون کو ٹھنڈے دل سے پڑھے تو اس کو مولانا مودودی رحمہ اللہ کی بعض غلطیوں کا علم ہو جائے اور وہ اپنے طریق کار میں مناسب ترمیم کر لیں اور ساتھ وہ حضرات بھی اپنے خیال کی اصلاح کر لیں جو مولانا کو مجدد یا مجدد اعظم سمجھتے ہیں اور یہاں تک کہتے ہیں کہ دورِ صحابہ کے بعد کوئی شخص ایسا پیدانہیں ہوا جس نے اسلام کو مولانا مودودی کی طرح ٹھیک ٹھیک سمجھا ہو۔

  رسالہ کے مندرجات میں سے کسی چیز کو مبنی برصواب نہ پانے پر جناب کو اس سے مطلع کرنے کی اجازت (صفحہ ۴۲ کے مطابق) اگرچہ اہلِ علم کے ساتھ مخصوص فرما دی گئی ہے، تاہم میں  سمجھتا ہوں کہ کم ازکم اُن مسائل میں جن میں اہلِ علم خود متفق نہیں بوجہ اس کے کہ ان کا منصوص ہونا واضح نہیں، ہم جیسے عامیوں کو بھی کچھ سوچنے سمجھنے کا حق ہے، لہٰذا جسارت کی معافی چاہتے ہوئے مندرجہ ذیل باتوں پر کماحقہٗ غور کرنے کی درخواست کی جاتی ہے۔

۱۔ غلبۂ دین کی جدوجہد کا پہلا مرحلہ امت کے اندر ایک راشدہ خلافت کے قیام کا وجوب بتلایا گیا ہے ، میں کہتا ہوں کہ حکومت کا شرعی یا راشدہ ہونا تو بعد کی بات ہے، نفسِ حکومت کے قیام کا ہی کوئی واضح وجوبی حکم قرآن میں نہیں ہے، جو میرے نزدیک قرآن کے کلامِ الہٰی ہونے کی ایک دلیل ہے۔ بات یہ ہے کہ حکومت کا قیام بڑی حد تک غیر اختیاری ہے، اس کے لیے سازگار حالات کی ضرورت ہے، پس اس کا مکلف بنانا تکلیف مالایطاق ہوتا ۔ سورۂ آلِ عمران آیت ۱۰۴ سے عربیت کے قاعدہ سے آپ نے یہ استنباط فرمایا ہے کہ مسلمانوں کو اپنے میں سے ایک جماعت دعوت وتبلیغ کے لیے سیاسی اقتدار کی حامل مقرر کرنا چاہیے۔ سو اول تو یہ مطلب ہی محلِ کلام ہے کیونکہ حضرت مولانا تھانوی حکیم الامت نے، جو مفسرین میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں ’یامرون بالمعروف‘ کا تفسیری ترجمہ بجائے ’’معروف کا حکم کرے‘‘ کے ’’نیک کاموں کے کرنے کو کہا کریں‘‘ کیا ہے۔  بخیال احقر’خیر‘ سے مراد یہاں اسلام لیا جا سکتا ہے اور ’امر بالمعروف‘اور ’نہی عن المنکر‘اسی کی ایک حد تک تفصیل ہے۔ اگر آپ کے خیال سے یہ جماعت سیاسی اقتدار کی حامل ہو تو وہ معروفات کی ترویج اور منکرات کا انسداد تو بے شک بزور کر سکے گی، لیکن دعوت اِلی الاسلام میں ہر گز اپنے اقتدار کو کام میں نہیں لا سکتی۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں یہ عطف صحیح نہ رہے گا۔ درحقیقت یہ عطف ایسا ہی ہے جیسے ’امنوا‘ اور ’عملوا الصٰلحت‘کے درمیان ہوتا ہے ، یعنی ’عملوا الصٰلحت... امنوا‘ہی کی تفصیل و توضیح ہوتی ہے اور اس کی نوعیت بعینہٖ وہی ہے جو عطف خاص علیٰ العام کی ہے۔ (قولِ فراہی صفحہ ۴۶  رسالہ ہذا )۔ پھر یہ بھی سوچئے کہ تاریخ سے کسی دور میں ایسی جماعت کے وجود کا پتا نہیں چلتا جو سیاسی اقتدار کے ساتھ دعوت وتبلیغ کا کام کرتی رہی ہو ۔ نیز یہ بھی غور طلب ہے کہ اگر یہ جماعت سیاسی اقتدار رکھنے والی مراد ہوتی تو آیت کے آخر میں ’واولئک ھم المفلحون‘نہ لایا جاتا کیونکہ اس صورت میں دعوت و تبلیغ کوئی دشوار اور ہمت کا کام نہ رہتا جس کے لیے اللہ تعالیٰ اس کو خاص طور سے  مستحقِ فلاح قرار دیں۔ ان تمام دلائل سے قطعِ نظر اگر آپ کا نکالا ہوا مطلب ہی صحیح مان لیا جائے تب بھی چونکہ یہ آیت قیامِ حکومتِ شرعیہ کے بعد مدینہ میں نازل ہوئی ہے، اس سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہو گا کہ شرعی حکومت کو ایک سیاسی اقتدار کی حامل جماعت دعوت وتبلیغ کے لیے مقرر کرنا چاہیے، قیامِ حکومت یا حکومتِ شرعیہ کا وجوب ثابت نہ ہو گا، کیونکہ دعوت وتبلیغ ایسا کام نہیں جو بلاسیاسی اقتدار کے ہو ہی نہ سکے۔ تاہم انبیا علیہم السلام، بلکہ اکثر مبلغین نے یہ کام ہمیشہ بلا اقتدار ہی کیا ہے۔ خود قرآن میں دوسرے مقامات پر مثلاً سورۂ توبہ آیت ۱۱۲ اور سورۂ لقمان آیت ۱۷ میں ’امر بالمعروف ونہی عن المنکر‘کا ذکر ہے جہاں اقتدار کا شائبہ بھی نہیں ، البتہ اگر آپ اللہ تعالیٰ کے کسی ایسے حکم کی آیت پیش کرتے، جس کی تعمیل بلا اقتدار کے ہو ہی نہ سکے تو حکومتِ راشدہ کا وجوب ثابت ہو جاتا جیسا کہ شاہ ولی اللہ صاحب نے ’’ازالتہ الخفاء‘‘ میں کیا ہے ۔ خلافت کی تعریف وہ اس طرح فرماتے ہیں:

’’خلافت عبارت ہے اقامتِ دین کے لیے اقتدارِ اعلیٰ سے ، اس طرح کہ دینی علوم کو زندہ کیا جائے ، ارکانِ اسلام کو قائم کیا جائے ۔ جہاد اور اس سے متعلق امور (یعنی فوجوں کی تنظیم اور مجاہدین کی بھرتی اور ان پر مالِ غنیمت کی تقسیم) کے انتظامات کئے جائیں ، نظامِ قضا اور حدود جاری کئے جائیں مظالم کا قلع قمع کیا جائے اور ’امر بالمعروف‘اور ’نہی عن المنکر‘ کا قیام عمل میں آئے ۔ اور یہ سب کچھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت کے طور پر انجام دیا جائے   ..... اس کا انتظام قیامت تک کے لیے مسلمانوں کے ذمہ واجب بالکفایہ ہے۔‘‘ 

پھر وہ اس کے شرعی دلائل بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

’’اللہ تعالیٰ نے جہاد و قضا ، احیاے علوم دین ، اقامتِ ارکانِ اسلام کفار کے تسلط سے اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت کو فرض بالکفایہ قرار دیا ہے ۔ اور یہ سب ’’امام‘‘ کے تقرر و انتخاب کے بغیر صورت پذیر نہیں ہو سکتا اور یہ مسلمہ اصول ہے کہ مقدمہ واجب کا واجب ہوتا ہے (یعنی اگر کوئی واجب کسی عمل کے بغیر ظہور پذیر نہیں ہو سکتا تو وہ عمل بھی واجب ہو گا)۔‘‘

لیکن واضح رہے کہ یہ وجوب بالکفایہ بھی صرف ان مسلمانوں پر ہے جو کسی خطۂ ارض میں آزاد ہوں جیسا کہ آپ نے بھی لکھا ہے۔

۲۔ غلبۂ دین کی جدوجہد کا دوسرا مرحلہ آپ کے نزدیک دنیا بھر کی قوموں پر اس کے سیاسی غلبہ کا ہے کہ خدا کی زمین پر کسی جگہ بھی زمامِ اقتدار غیر   مسلموں کے ہاتھ میں نہ رہے ۔ اپنے اسی دعوے کے ثبوت میں آپ نے سورۂ توبہ کی آیت ۲۹پیش فرمائی ہے جو قطعاً ناکافی ہے کیونکہ اس کی رو سے صرف اہلِ کتاب کو جزیرہ نماے عرب میں جزیہ دے کر زندہ رہنے کا حق دیا گیا ہے ۔ جبکہ دوسرے کفار و مشرکین کے ساتھ حضرت امامِ اعظم رحمہ اللہ کے نزدیک یہ رعایت نہ تھی ۔ بلکہ ان کے لیے اسلام تھا یا سیف، یعنی اگر مسلمان نہ ہوں تو قتل کر دیے جائیں ، کیونکہ کفارِ عرب سے جزیہ نہیں لیا جاتا۔ ابنِ شہاب کے قول سے بھی (جو درمنشور میں منقول ہے) امامِ اعظم کے مذہب کی تائید ہوتی ہے کہ کفارِ قریش و عرب کے بارے میں تو یہ حکم نازل ہوا، ’قاتلوھم حتی لا تکون فتنه‘(الانفال: ۳۹) اور آیت ’حتی یعطوا الجزیة‘اہلِ کتاب کے بارے میں نازل ہوئی ۔ اس آیت کا تعلق بیرونِ عرب کسی غیر   مسلم کی حکومت کو محض اسلام نہ لانے کی بنا پر ختم کرنے سے نہیں ہے البتہ، فتنہ و فساد برپا کرنے ، اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ معاندانہ و غیر مصلحانہ برتاؤ رکھنے کی بنا پر بیرونِ عرب بھی ان کی حکومتیں  ختم کی جا سکتی ہیں ۔ قرآن میں جہاں کہیں بھی مشرکین اور اہلِ کتاب سے لڑنے کا حکم دیا گیا ہے، ان سے مراد عموماً اہلِ عرب ہی ہوتے ہیں اور احقر کی نگاہ میں صرف ایک مقام (سورۂ فتح آیت ۱۶) ہی ایسا ہے جہاں ایران و شام کے کفار مراد ہیں، لیکن وہاں ایساسمجھنے کا قرینہ پایا جاتا ہے۔ پھر آپ کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا منشا مسلمانوں کے ذریعے سے تمام روے زمین کی غیر مسلم حکومتوں کو ان کے غیرمسلم ہونے کی بنا پر ختم کرانا ہوتا تو اتنے ضروری اور مہتمم بالشان حکم کو جس کا تعلق پوری امتِ مسلمہ سے ہو، وہ صاف صاف کیوں نہ فرماتے تاکہ استنباطی غلطیوں کا امکان نہ رہتا ؟ احقر کے نزدیک تو یہ نظریہ  قطعی غلط اور اسلام اور مسلمانوں کے لیے سخت مضر ہے۔ خصوصاً ہمارے زمانے میں۔ بلکہ یہ ایک المیہ ہے جو سب سے پہلے اخوان المسلمین کے بانی یا مولانا مودودی کے دماغ میں پیدا ہوا اور پھر اکثر مسلم ممالک میں پھیل گیا، حالانکہ یہ لوگ دنیا بھر میں تو حکومتِ الہٰیہ کیا قائم کرتے، خود اپنی حکومتوں میں بھی نہ کر سکے اور مسلمانوں کی موجودہ حالت کے پیشِ نظر  مستقبل قریب میں بھی ایسا کر سکنے کی امید نہیں کی جا سکتی۔

  قرآنِ مجید سے غیر ثابت و غیر موید ہونے کے علاوہ یہ نظریہ عقلاً بھی غلط ہے ۔ اول تو اس وجہ سے کہ جب غیر  مسلم یہ سمجھ لیں گے کہ مذہبِ اسلام کی تعلیم ہی غیر  مسلموں کے اقتدار کو دنیا سے مٹانا ہے تو وہ کبھی بھی اسلام کی دعوت و تبلیغ کو سنجیدگی سے نہ سنیں گے بلکہ اس سے نفرت کریں گے۔ بقول مولانا وحید الدین خاں یوں بھی مفتوح کے اندر فاتح کے لیے نفرت کے جذبات ہوتے ہیں، اس لیے مفتوح فریق ثانی کی کسی چیز کو قبول کرنے پر راضی نہیں ہوتا، خواہ وہ کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو۔ دعوت و تبلیغ مسلمانوں کا خاص کام، بلکہ ان کی وجۂ  تخلیق ہے ۔تو جو چیز اس کو بے اثر کر دے، اس کی قباحت کا کیا ٹھکانا! دوسرے غیر مسلم حکومتوں کی خواہش اور اس کے نتیجے میں کوشش متحد طور پر یہ ہو گی کہ  مسلم حکومت کو اتنی طاقت ہی حاصل نہ ہو جو وہ ان پر حملہ آور ہونے اور ان کو مٹانے کا خیال دل میں لائے، بلکہ ’قتل الموذی قبل الایذا‘کے اصول پر ہر ممکن طریقہ پر وہ مسلمانوں کو کچلنے کی کوشش کریں گے ۔ اور ظاہر ہے کہ ان کی یہ کوشش حق بجانب ہو گی۔

  تیسرے یہ کہ آیت ’ما جعل علیکم فی الدین من حرج‘(حج۷۸) اور حدیث ’ الدین یسر‘ دونوں موجبِ اشکال ہوں گی ، کیونکہ جس دین میں زندگی بھر قتال میں مصروف رہنے کا حکم ہو (بایں وجہ کہ دنیا بھر میں اسلامی حکومت دو چار سال میں تو قائم ہو نہیں سکتی) اس کو تنگی سے خالی اور آسان ہرگز نہیں کہا جاسکتا ۔ چوتھے اگر بالفرض محال کہیں طاقت کے بل پر غیر  مسلم حکومت کو ختم کر کے اسلامی حکومت قائم بھی کر لی، لیکن وہاں کی اکثریت ایمان نہ لائی، کیونکہ مفتوح عموماً فاتحین کے اعلیٰ کردار سے متاثر ہو کر ایمان لایا کرتے ہیں۔ اور بدقسمتی سے وہ چیز مدت سے مسلمانوں کی اکثریت سے عنقا ہے۔ تو ایسی صورت میں سنگین کی نوک پرحکومت کرنے سے کیا فائدہ ؟ اور وہ چلے گی کتنے دن ؟ اور اس کے خاتمے پر غیر  مسلموں کا جو ردِعمل ہو گا ظاہر ہے اسپین اور ہندوستان کی مثالیں سب کے سامنے ہیں۔ پس ہم نہیں سمجھتے کہ جو نظریہ اتنے مفاسد کا حامل ہو، خصوصاً جو کفار کو اسلام سے متنفر کرے، بلکہ اسلام اور  مسلم دشمنی پر آمادہ کرے، وہ قرآن کی تعلیم ہو،  کبھی ہو سکتا ہے ؟ ہر گز نہیں۔ بلکہ ہمارے نزدیک تو ایسا کہنے والے اسلام کو بدنام کرنے والے ہیں۔ دراصل ہم مسلمان اصلاً تو صرف دعوت و تبلیغِ اسلام حسبِ استعداد دنیا بھر میں کرنے ہی کے مکلف ہیں۔ اور اس کی راہ سے مخالفتوں اور مزاحمتوں کے بھی حتی الامکان دور کرنے کے (جس میں غیر مصالح غیر مسلم حکومتوں پر قبضہ کر لینا بھی شامل ہے) نہ یہ کہ دنیا بھر میں علی الاطلاق حکومتِ الہٰیہ قائم کرتے رہنے کے بھی۔ اور یہ احقر ہی کا خیال نہیں بلکہ مشاہیرِاسلام بھی اس کے موید ہیں۔ چنانچہ سیدسلیمان ندوی فرماتے ہیں:

’’اسلام کا اصل مقصددعوت وتبلیغ ہے، اب اگر کوئی قوم اس دعوت کی سدِراہ نہ ہو تو اسلام کو نہ تو اس سے جنگ ہے اور نہ اس کے رعایا بنا لینے کی ضرورت ہے۔ صرف معاہدۂ صلح کافی ہے، جس کی بہت سی مثالیں اسلام میں موجود ہیں۔ لیکن جب کوئی قوم اسلام دشمنی پرکمربستہ ہو اور اس کو مٹا دینا چاہے تو اسلام کی مدافعت کے لیے تلوار ہاتھ میں لینا پڑتی ہے اور اس کو زیرِ اثر رکھنا پڑتا ہے۔ خیبر اس قاعدہ کے مطابق اسلام کا پہلا مفتوحہ ملک ہے ۔‘‘ (’’مبلغِ اعظم‘‘ ماخوذ از ’’سیرت النبی‘‘ از شیخ عبد الغفار اثر۔ اسلامی مشن سنت نگر۔ لاہور) 

اسی قسم کا قول حکیم الاسلام قاری طیب صاحب سابق مہتمم درالعلوم دیو بند کا ہے ملاحظہ ہو ’’حکیم الاسلام اور ان کی مجالس‘‘ (جلد اول ص ۲۳۷- ۲۳۸) اور ابھی تقریباً ایک ماہ قبل مفتی رشید احمد لدھیانوی مدظلہ (دارالافتاء و الارشاد کراچی) نے میرے پیش کردہ نظریۂ بالا کی تصویب فرمائی ہے ۔ حضرت مولانا تھانوی حکیم الامت کے بعض ملفوظات سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ جو کافر حکومت مسلمانوں کے ساتھ مصالحت سے رہنا نہ چاہے، اسی پر اعلاے کلمتہ اللہ کے لیے جہاد کیا جا سکتا ہے۔

۳۔ جناب کا یہ خیال بھی غلط ہے کہ سورۂ توبہ کی اسی آیت مذکورہ کے حکم کی پیروی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ   عنہم نے عرب کے اہلِ کتاب اور ایران کی حکومتوں کے خلاف جہاد کیا ۔ اہلِ کتاب میں یہود سے جوجنگیں ہوئیں وہ اس آیت کے نزول سے قبل ہو چکی تھیں اور ہرگز اس بنا پر نہیں ہوئیں، بلکہ ان کی عہد شکنی اور شرارت کی بنا پر ہوئیں، جیسا کہ قرآن سے ظاہر ہے سوائے خیبر کے اورکہیں باقاعدہ جنگ کی نوبت ہی نہیں آئی۔ اور جزیرہ نماے عرب میں نصرانیوں سے کوئی جنگ نہیں ہوئی، بلکہ انھوں نے جزیہ دینا قبول کرلیا تھا۔ رہا ایران و روم کا سوال تو تاریخ سے ثابت ہے کہ یہ دونوں ملک اہلِ عرب سے مذہبی اور سیاسی بنا پر دشمنی رکھتے تھے۔ لہٰذا ان کے شر سے  محفوظ رہنے کے لیے ان سے طویل جنگیں ہوئیں اور ان ممالک پر قبضہ کر لیا گیا نہ کہ ان کے غیر  مسلم ہونے کی بنا پر۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور پیشین گوئی فرمایا تھا کہ جب تک شام و ایران پر قبضہ نہ کرو گے ، تم مسلمانوں کو اطمینان سے بیٹھنا نصیب نہ ہو گا ۔ ایران و شام فتح ہو جانے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ مزید فتوحات کرنا نہیں چاہتے تھے، لیکن حضرت عمرو بن العاص نے لگے ہاتھ مصر پر بھی قبضہ کر لینے کی درخواست پیش کی تھی جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے منظور فرمائی تھی۔

  میں یہ نہیں کہتا کہ مسلمانوں نے دیگر غیر مسلم حکومتوں کے شر سے محفوظ رہنے ہی کے واسطے ان پر حملہ کیا ہے ۔ نہیں انھوں نے چند چھوٹے چھوٹے ممالک مثلاً آذر بائجان اور شمالی افریقہ پر بھی جہاد کیا ہے جس کی مختلف وجوہ ہیں جن میں سے سب سے بڑی وجہ دعوت و تبلیغِ اسلام ہے جس کا اس زمانہ میں بہترین طریقہ یہی تھا نہ کہ روے زمین سے غیر  مسلم اقتدار کو مٹانا اور واضح رہے کہ اس زمانہ میں کیا، اب سے ایک ڈیڑھ صدی قبل تک دنیا میں فتوحات کا عام رواج تھا۔ ہر طاقت ور حکومت کمزور حکومتوں کو باج گذار بنانے کی کوشش کیا کرتی تھی ۔اور یہ چیز بادشاہوں کے لیے معیوب نہیں  سمجھی جاتی تھی، بلکہ ان کے محاسن میں شمار ہوتی تھی۔ ایسی ہی فتوحات کی وجہ سے سکندر، سکندرِ اعظم کہلایا ۔ اسی طرح سے اکبر اعظم ، پیٹر اعظم وغیرہ کو سمجھیے ۔ اس وقت اگر مسلمانوں نے بھی اس رواج سے فائدہ اٹھا کر اعلاے کلمتہ اللہ (دعوت و تبلیغ کی حد تک) کے لیے چند ممالک پر قبضہ کر لیا تو ان پر اعتراض کا کیا موقع ہے جبکہ دوسرے لوگ محض طاقت کے مظاہرے اور حصولِ مال و جاہ کے لیے ایسا کرتے تھے۔ اب چونکہ بین الاقوامی طور پر توسیع پسندی کو بری نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اس لیے بین الاقوامی رواج کا احترام مسلمانوں پر بھی لازم ہے۔ پھر اب تبلیغ کے لیے کسی ملک پر قبضہ کرنے کی ضرورت بھی نہیں رہی، سوائے کمیونسٹ ممالک کے ہر ملک میں تبلیغِ اسلام کی عام اجازت ہے جس سے مسلمانوں کو فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ہاں، اگر طاقت ہو تو ان ملکوں پر جہاد کریں جو تبلیغ و دعوت کی اپنے ہاں اجازت نہیں دیتے ۔

 مجھے یہ تین ہی باتیں خاص طور پر عرض کرنا تھیں جن میں بھی دوسری یعنی غیر  مسلم حکومتوں کو مٹانے والا نظریہ بہت اہم ہے اور احقر جناب سے اس پر خصوصی غور و توجہ کرنے کی درخواست کرتا ہے۔ ان کے علاوہ چند  معمولی باتیں یہ بھی ہیں:

۱۔ آیت ’ھو الذی ارسل رسوله‘میں مولانا وحید الدین خاں صاحب کے نزدیک غلبہ سے مراد فکری غلبہ ہے نہ کہ اسلام کے تمام قوانین کا نفاذ (الرسالہ ستمبر ۱۹۸۳)   اور احقر کے نزدیک فکری غلبہ اور اس کے نتیجہ میں عددی غلبہ یعنی لوگوں کا اسلام کی اصولی برتری سے متاثر ہو کر بکثرت اسلام قبول کرنا اور شدہ شدہ یہی دنیا کی اکثریت کا مذہب بن جانا مراد ہے، کیونکہ سیاسی غلبہ بلا اس قسم کے دینی غلبہ کے بیکارِ محض ہے اور دینی غلبہ کا طریقہ موثر دعوت و تبلیغ اور اس کی راہ سے مزاحمتوں کو دور کرنا ہے۔ اگر ڈاکٹر صاحب دینی غلبہ کے لیے جدوجہد کریں تو اس آیت سے استدل کچھ غلط نہیں کیونکہ اس صورت میں وہ وہی کام کریں گے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا۔ اور ’علی الدین کله‘ کا مطلب صرف ادیانِ عرب پر غلبہ نہیں، بلکہ ادیانِ عالم مراد ہے۔ مگر چونکہ آپ غلبہ کا مطلب یہاں بھی سیاسی غلبہ لیتے ہیں اس لیے آپ کو صحیح مطلب میں کتربیونت کرنی پڑی۔

۲۔  آیت ۷ : ۲۹ ( صفحہ ۱۸)   کا ترجمہ صحیح مفہوم کا حامل نہیں۔ ’عند کل مسجد‘ کا مطلب یہاں ’’ہر عبادت کے وقت‘‘ ہے۔

۳۔  آیت ۴۸: ۱۶ (صفحہ ۱۲)   کا مطلب غلط ہے۔ یہاں بنی اسماعیل مراد نہیں ، بلکہ اشارہ روم و ایران والوں کی طرف ہے جیسا کہ حضرت حکیم الامت نے ’’بیان القرآن‘‘ میں لکھا ہے اور عقلاً بھی وہی صحیح ہے۔ دیکھیے تفسیر ’’بیان القرآن‘‘۔

۴۔ صفحہ ۳۹  آخری پیرا گراف ۔ ہر سربراہِ مملکت اپنی رائے اکثریت کے خلاف رکھنے اور اسے نافذ کرنے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح ہی اختیار رکھتا ہے ۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے کے بعد جب اس کثرت رائے کا فیصلہ ماننا ہوتا تو یہ سلطنت جمہوری ہو گی نہ کہ شخصی اور اسلام شخصی سلطنت کا موید ہے جیسا کہ حضرت حکیم الامت کے وعظ قطع التمنی میں بدلیل ثابت کیا گیا ہے۔

۵۔  تعجب ہے کہ آپ فراہی صاحب کو ’’امام‘‘ لکھتے ہیں ، حالانکہ انھوں نے سورۂ فیل کی تفسیر میں لکھا ہے کہ اصحابِ فیل کو اہلِ مکہ نے مارا اور چڑیاں ان کی لاشیں کھانے آئی تھیں ۔ دیکھیے تفسیر ’’تفہیم القرآن‘‘۔ اس کے علاوہ انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ قرآنِ مجید کی عبارت بعض جگہ فصاحت سے گر گئی ہے جس پر حضرت تھانوی نے ان پر کفر کا فتویٰ دیا تھا جو بعد میں مولانا عبد الماجد دریا بادی کی تاویلی سفارش سے واپس لے لیا تھا۔ دیکھیے ’’حکیم الامت ، نقوش و تاثرات‘‘ از مولانا عبد الماجد دریا بادی۔ کیا اس قسم کی غلط باتیں کرنے کے بعد بھی کوئی شخص ’’امام‘‘ کہلانے کامستحق ہے؟

۶۔ آیت ۵۸: ۲۰، ۲۱ (صفحہ ۱۱) سیاسی غلبہ (بایں معنی) کہ کسی رسول یا نبی کو اپنی قوم پرسلطانی اختیارات حاصل ہو جائیں (سواے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی کو بھی حاصل نہیں ہوا) یعنی کوئی نبی یا رسول اپنی قوم پر جہاد کے ذریعے سے سوائے حضور کے غالب نہیں ہوا۔ اس لیے آیت میں غلبہ سے مراد سیاسی غلبہ لینا صحیح نہیں بلکہ غلبہ بالحجتہ والعواقب مراد ہے ۔ دیکھیے تفسیر ’’بیان القرآن‘‘۔

   آخر میں پھر عرض کرتا ہوں کہ دنیا بھر سے غیر مسلموں کا اقتدار ہٹانے والے نظریہ کو قرآن کی طرف منسوب کرنا میرے نزدیک قرآن پرتہمت لگانا ہے ۔ خدا کرے کہ اس غلط نظریہ کی قباحت مسلمانوں کی سمجھ میں آ جائے تاکہ ان کی زبان یا قلم سے  کبھی ایسی بات نہ نکلے ۔ اور خدا کرے کہ آپ نے جو کچھ اس کی موافقت میں لکھا ہے اس سے آپ رجوع فرما لیں۔ غلطی کا اعتراف کر لینا ایک عملِ صالحہ اور عزیمت ہے ۔ ’وما علی الا البلاغ‘۔

نیاز مند        

احقر کریم الدین عفی عنہ       

(جدہ سعودی عرب           )

______

 

 ۱ نومبر ۱۹۸۵

محترم و مکرم جناب کریم الدین صاحب  

السلام علیکم 

عنایت نامہ ملا آپ کے اعتراضات کا مفصل جواب ان شاء اللہ ’’اشراق‘‘ کی کسی آیندہ اشاعت میں دوں گا۔ چند مختصر نکات پیشِ خدمت ہیں ۔ امید ہے آپ غور فرمائیں گے۔

۱۔  آلِ عمران آیت ۱۰۴ میں ’امر‘کو ’یدعون الی الخیر‘پر عطف کی وجہ سے ’تلقین و ترغیب‘ کے معنی میں لینا عربیت کے خلاف ہے ۔ یہ بے شک عطف الخاص علی العام ہے ، لیکن اس کے معنی یہاں حکم کرنے ہی کے ہو سکتے ہیں ۔ اسلام میں حکومت داعی الی الخیر بھی ہوتی ہے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی۔ کسی حکومت میں اگر یہ صفات نہ ہوں تو وہ لفظ کے کسی مفہوم میں اسلامی حکومت کہلانے کی مستحق نہیں ہو سکتی۔

۲۔  توبہ آیت ۲۹میں اہلِ کتاب کی عرب کے ساتھ  تخصیص کا کوئی قرینہ آیت میں موجود نہیں ہے۔ یہ صرف میری ہی نہیں ، تمام اکابر مفسرین کی رائے ہے ۔ملاحظہ ہو تفسیر ابنِ کثیر (آیت ۲۹ ،آیت ۱۲۳)۔

۳ ۔صف آیت ۹ کے بارے میں اپنے نقطۂ نظر کے دلائل میں نے اپنے مضمون میں بیان کر دیے ہیں۔ میرے نزدیک آیت میں ’یظھرہ‘ کو فکری غلبہ کے معنی میں لینے کی کوئی گنجایش قرآنِ مجید کے الفاظ میں نہیں ہے۔ ’لو کرہ المشرکون‘پر عطف کی وجہ سے اسے سرزمینِ عرب ہی کے ساتھ خاص ماننا ناگزیر ہے۔

۴۔  فتح آیت ۱۶ بنی اسماعیل ہی کے بارے میں ہے ۔ روم و ایران کے لیے اسلام یا تلوار کا معاملہ نہیں تھا۔

۵۔  میں مولانا حمید الدین فراہی رحمہ اللہ کو ان کے غیر معمولی علم ، ان کے بے نظیر تقویٰ اور ان کی بے مثال تحقیقات کی بنا پر امام مانتا ہوں۔ مولانا اشرف علی صاحب تھانوی کے لیے میرے دل میں بے حد احترام ہے، لیکن جس ہستی کا براہِ راست مطالعہ کر کے میں نے ایک رائے قائم کی ہے، اسے محض اس لیے تبدیل نہیں کرسکتا کہ انھوں نے اس کی تکفیر کی تھی۔ سورۂ فیل کی تفسیر میں مجھے ان کی رائے سے اتفاق ہے ۔ قرآنِ مجید کی زبان کے بارے میں جو کچھ ان کی طرف منسوب کیا گیا تھا، اس کی تردید خود آپ کے بقول مولانا دریا بادی نے کر دی تھی۔ میں نے اصل عبارت دیکھی ہے، اس میں بالکل دوسری بات کہی گئی ہے ۔

 والسلام

ــــــــ جاوید احمد           

______

B