HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

خور و نوش میں حلت و حرمت (۲)

گزشتہ سے پیوستہ

 

زندہ جانور کے جسم سے کوئی ٹکڑا اگر کاٹ لیا جائے تو اس کا حکم بھی یہی ہونا چاہیے ۔ ابوواقد کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو وہ لوگ اونٹوں کے کوہان اور دنبوں کی چکتی کاٹ لیتے تھے ۔ اس پر آپ نے فرمایا :

ما قطع من البھیمة وھی حیة فھی میتة. (ابوداؤد، کتاب الصید)
’’زندہ جانور کے جسم سے جو ٹکڑا کاٹا جائے وہ مردار ہے۔‘‘

میتة‘ کا لفظ ان احکام میں عرف و عادت کی رعایت سے استعمال ہوا ہے ۔ اس میں شبہ نہیں کہ عربی زبان میں اس کا ایک لغوی مفہوم بھی ہے ، لیکن یہ جب اس رعایت سے بولا جائے تو اردو کے لفظ مردار کی طرح اس کے معنی ہر مردہ چیز کے نہیں ہوتے ۔ اس صورت میں ایک نوعیت کی تخصیص اس لفظ کے مفہوم میں پیدا ہو جاتی ہے اور زبان کے اسالیب سے واقف کوئی شخص ، مثال کے طور پر ، مردہ ٹڈی اور مردہ مچھلی کو اس میں شامل نہیں سمجھتا ۔

 امام اللغتہ زمخشری لکھتے ہیں:

قصد ما یتفا ھمه الناس ویتعا رفونه فی العادة، الاتری ان القائل اذا قال، اکل فلان میتة، لم یسبق الوھم الی السبک والجراد کما لو قال، اکل دماً، لم یسبق الی الکبد والطحال، ولاعتبار العادة والتعارف قالوا، من حلف لا یاکل لحماًفاکل سبکاً لم یحنث وان اکل لحماً فی الحقیقة. (الکشاف، ج ۱ ص ۲۱۵)
’’قرآن میں لفظ ’میتة‘ عرف و عادت کے اعتبار سے استعمال ہوا ہے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ جب کوئی کہنے والا کہتا ہے: فلاں نے مردار کھایا تو ہمارا خیال کبھی مچھلی اور ٹڈی کی طرف نہیں جاتا، جس طرح اگر اس نے کہا ہوتا: فلاں شخص نے خون پیا تو ذہن کبھی جگر اور تلی کی طرف منتقل نہ ہوتا۔ چنانچہ عرف و عادت ہی کی بنا پر فقہا نے کہا ہے کہ جس نے قسم کھائی کہ وہ گوشت نہیں کھائے گا، پھر اس نے مچھلی کھا لی تو اس کی قسم نہیں ٹوٹے گی، دراں حالیکہ اس نے فی الحقیقت گوشت ہی کھایا ہے۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بنا پر فرمایا ہے:

احلت لکم میتتان ودمان، فاما المیتتان فالحرت والجراد واما الدمان فالکبد والطحال.(ا بنِ ماجہ، کتاب الاطعمہ )
’’تمھارے لیے دو مری ہوئی چیزیں اور دو خون حلال ہیں: مری ہوئی چیزیں مچھلی اور ٹڈی ہیں اور دو خون جگر اور تلی ہیں۔‘‘

 سمندر کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ ’ھو الطھور ماؤه، الحل میتة[6]،بھی اسی    تخصیص کے ساتھ ہے اور اس میں ’میتة‘ سے مراد مردہ مچھلی اور اس طرح کی بعض دوسری چیزیں ہی ہیں جن کے لیے لفظ ’میتة‘ باعتبارِ لغت تو بولا جا سکتا ہے ، لیکن عرف و عادت کی رعایت سے انھیں ’میتة‘ نہیں کہہ سکتے ۔

 مائدہ کی جو آیت ہم نے اوپر نقل کی ہے ، اس میں ’میتة‘ کی تفصیل اور ’ما اکل السبع‘کے بعد ’الا ما ذکیتم‘ کے الفاظ سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ یہ صرف تذکیہ ہی ہے جس سے کسی جانور کی موت اگر واقع ہو تو وہ مردار نہیں ہوتا ۔ آداب و شعائر کے زیرِ عنوان ہم اسی کتاب میں بیان کر چکے ہیں کہ تذکیہ کا لفظ بطور اصطلاح جس مفہوم کے لیے بولا جاتا ہے ، وہ یہ ہے کہ کسی تیز چیز سے جانور کو زخمی کر کے اس کا خون اس طرح بہا دیا جائے کہ اس کی موت خون بہ جانے ہی کے باعث واقع ہو ۔ جانور کو مارنے کی یہی صورت ہے جس میں اس کا گوشت خون کی نجاست سے پوری طرح پاک ہو جاتا ہے ۔

 اس کا اصل طریقہ ذبح یا نحر ہے ۔ ذبح گائے ، بکری اور اس کے مانند جانوروں کے لیے خاص ہے اور نحر اونٹ اور اس کے مانند جانوروں کے لیے ۔ ذبح سے مراد یہ ہے کہ کسی تیز چیز سے حلقوم اور مری (غذا کی نالی) یا حلقوم اور ودجین (گردن کی رگوں) کو کاٹ دیا جائے اور نحر یہ ہے کہ جانور کے حلقوم میں نیزے جیسی کوئی تیز چیز اس طرح چبھوئی جائے کہ اس سے خون کا فوارہ چھوٹے اور خون بہ بہ کر جانور بالآخر بے دم ہو کر گر جائے ۔

 اس طریقے پر عمل کرنا اگر کسی وقت ممکن نہ ہو تو کیا کیا جائے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سوال کا جواب یہ دیا ہے کہ کسی بھی چیز سے اس طرح کا زخم لگا دینا اس صورت میں کافی ہے جس سے سارا خون بہ جائے:

عن عدی بن حاتم رضی اللہ عنه، قال: یا رسول اللہ، أرأیت احدنا اصاب صیداً ولیس معه سکین، أیذبح بالمروة وشقة العصا؟ فقال امررالدم بما شئت واذکر اسم اللہ عزوجل.(ابوداؤد، کتاب الضحایا)
’’عدی بن حاتم کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول، آپ فرمائیں کہ ہم میں سے کوئی اگر اپنا شکار پالے اور اس کے پاس چھری نہ ہو تو تو کیا وہ پتھر یا لکڑی کے ٹکڑے سے ذبح کر لے؟ آپ نے فرمایا: جس چیز سے چاہو، خون بہا دو اور اس پر اللہ تعالیٰ کا نام لو۔‘‘

تیر اور بندوق سے شکار کے جواز اور عدمِ جواز کا فیصلہ بھی اسی قاعدے کے مطابق کیا جائے گا۔ سدھایا ہوا جانور اگر شکار کو پھاڑ دے تو قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے وضاحت فرمائی ہے کہ اس کا حکم بھی یہی ہے ۔ اس طرح کا شکار اگر زندہ نہ بھی ملے تو اسے ’میتة‘ نہیں   سمجھنا چاہیے[7]۔ارشاد فرمایا ہے:

يَسْـَٔلُوْنَكَ مَاذَا٘ اُحِلَّ لَهُمْﵧ قُلْ اُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبٰتُﶈ وَمَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِيْنَ تُعَلِّمُوْنَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللّٰهُﵟ فَكُلُوْا مِمَّا٘ اَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَيْهِﵣ وَاتَّقُوا اللّٰهَﵧ اِنَّ اللّٰهَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ.(المائدہ ۵: ۴)
 ’’وہ پوچھتے ہیں: ان کے لیے کیا چیز حلال ٹھیرائی گئی ہے؟ کہہ دو، تمھارے لیے سب پاکیزہ چیزیں حلال ہیں اور شکاری جانوروں میں سے جن کو تم نے اس علم میں سے کچھ سکھا کر سدھایا ہے جو اللہ نے تمھیں سکھایا، (اُن کا شکار بھی)۔ لہٰذا اس میں سے کھاؤ جو وہ تمھارے لیے روک رکھیں، اور اس پر اللہ کا نام لے لیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بے شک، اللہ بہت جلد حساب چکانے والا ہے۔‘‘

مائدہ کی یہ آیت جس سیاق میں آئی ہے ، اس سے واضح ہے کہ اس سے اوپر کی آیت میں درندے کے پھاڑے ہوئے جانور کو چونکہ صرف اس صورت میں جائز قرار دیا ہے جب اس کو زندہ حالت میں ذبح کر لیا جائے ، اس لیے یہ سوال اس کے بارے میں پیدا ہوا کہ سدھایا ہوا جانور اگر شکار کو پھاڑ دے اور شکار ذبح کی نوبت آنے سے پہلے ہی دم توڑ دے تو اس کا حکم کیا ہو گا ۔ اس سوال کا جواب اس آیت میں یہ دیا گیا ہے کہ اس طرح کے جانور کا اسے پھاڑنا ہی اس کا تذکیہ ہے ، لہٰذا اسے ذبح کیے بغیر کھایا جا سکتا ہے ۔ تاہم اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اسے اپنے مالک کے لیے روک رکھے ۔ اس میں سے اس نے اگر کچھ کھا لیا ہے تو اس کا کیا ہوا شکار جائز نہ رہے گا۔ آیت میں یہ شرط ’مما امسكن عليكم‘ کے الفاظ میں بیان ہوئی ہے۔ اس معاملے میں درندے اور پرندے کے شکار کے درمیان فرق کرنے کی بھی کوئی وجہ نہیں ہے۔ یہ معلوم ہے کہ اس حد تک تربیت جس طرح درندے قبول کر لیتے ہیں، باز ، عقاب اور شاہین بھی قبول کر لیتے ہیں ۔

 نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کا یہ مدعا اس طرح واضح فرمایا ہے:

اذا ارسلت کلبک فاذکر اسم اللہ علیه، فان ادرکته لم یقتل فاذبح واذکر اسم اللہ علیه، وان ادرکته قد قتل ولم یأکل، فقد امسکه علیک، فان وجدته قد اکل منه، فلا تطعم منه شئیا فانما امسک علی نفسه، وان خالط کلبک کلابا فقتلن، فلم یأکلن، فلا تأکل منه شئیا فانک لاتدری ایھما قتل. (النسائی، کتاب الصید والذبائح)
’’تم جب اپنا کتا چھوڑتے ہو تو اللہ کا نام لے کر چھوڑو۔ پھر اگر دیکھو کہ اس نے شکار کو مارا نہیں تو اللہ کا نام لے کر ذبح کر لو اور اگر دیکھو کہ مار ڈالا ہے، مگر اس میں سے کچھ کھایا نہیں تو تم اسے کھا سکتے ہو، اس لیے کہ یہ اس نے تمھارے لیے روک رکھا ہے، لیکن اگر کھا لیا ہو تو اسے کھانا جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ پر اس نے اپنے لیے روکا ہے۔ اور اگر دوسرے کتے بھی اپنے کتے کے ساتھ اس طرح دیکھو کہ انھوں نے شکار کو مار دیا ہے تو نہ کھاؤ، اس لیے کہ تم نہیں جانتے کہ ان میں سے کس نے مارا ہے۔‘‘

آیت میں ’میتة‘ کے بعد دوسری اور تیسری چیز بہایا ہوا خون اور سؤر کا گوشت ہے۔ ان میں سے سؤر کے گوشت کا معاملہ تو کسی وضاحت کا محتاج نہیں ہے۔ بہائے ہوئے خون کی حرمت کے بارے میں یہ بات البتہ واضح رہنی چاہیے کہ اس کے لیے ’دماً مسفوحاً‘کے جو الفاظ اصل میں آئے ہیں، ان کا مفہوم وہی ہے جو عام بول چال میں ان الفاظ سے سمجھا جاتا ہے۔ تلی اور جگر کے متعلق یہ بات اگرچہ کہی جا سکتی ہے کہ یہ بھی درحقیقت خون ہی ہیں، لیکن جس طرح کہ زمخشری کے حوالے سے اوپر ہم نے بیان کیا ہے، عرفِ استعمال کا تقاضا ہے کہ ان پر اس کا اطلاق نہ کیا جائے۔ اسی طرح ’مسفوحاً‘کی قید سے معلوم ہوتا ہے کہ رگوں اور شریانوں میں رکا ہوا خون بھی حرمت کے اس حکم سے مستثنیٰ ہے ۔

 اس کے بعد چوتھی اور آخری چیز غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ ہے۔ قرآن نے سورۂ انعام کی زیرِبحث آیت میں واضح کر دیا ہے کہ اس کی حرمت کا باعث خود جانور کا ’رجس‘یعنی ظاہری نجاست نہیں، بلکہ ذبح کرنے والے کا ’فسق ‘ہے۔ غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنا چونکہ ایک مشرکانہ فعل ہے، اس لیے اسے ’فسق‘سے تعبیر فرمایا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ علم وعقیدہ کی نجاست ہے ۔اس طرح کی نجاست جس چیز کو بھی لاحق ہو جائے، عقل کا تقاضا ہے کہ اس کا حکم یہی سمجھا جائے۔ قرآن نے سورۂ مائدہ میں بعض چیزیں اسی اصول کے تحت ممنوع قرار دی ہیں۔ ارشاد فرمایا ہے:

وَمَا ذُبِحَ عَلَي النُّصُبِ وَاَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِﵧ ذٰلِكُمْ فِسْقٌ.(۵: ۳)
 ’’اور وہ جانور بھی حرام ہیں جو کسی آستانے پر ذبح کیے گئے ہوں اور وہ بھی جن کا گوشت جوئے میں جیتا جائے۔ یہ سب باتیں فسق ہیں۔‘‘

استاذ امام امین احسن اصلاحی اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

’’ ’ وما ذبح علی النصب‘، ’نصب‘ تھان اور استھان کو کہتے ہیں۔ عرب میں ایسے تھان اور استھان بے شمار تھے جہاں دیویوں، دیوتاؤں، بھوتوں ، جنوں کی خوش نودی کے لیے قربانیاں کی جاتی تھیں۔ قرآن نے اس قسم کے ذبیحے بھی حرام قرار دیے۔ قرآن کے الفاظ سے یہ بات صاف نکلتی ہے کہ ان کے اندر حرمت مجرد بارادۂ تقرب و خوش نودی استھانوں پر ذبح کیے جانے ہی سے پیدا ہو جاتی ہے۔ اس سے بحث نہیں کہ ان پر نام اللہ کا لیا گیا ہے یا کسی غیر اللہ کا۔ اگر غیر اللہ کا نام لینے کے سبب سے ان کو حرمت لاحق ہوتی تو ان کے علیحدہ ذکر کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اوپر ’وما اھل لغیر اللہ به‘ کا ذکر گزر چکا ہے، وہ کافی تھا۔ ہمارے نزدیک اسی حکم میں وہ قربانیاں بھی داخل ہیں جو مزاروں اور قبروں پر پیش کی جاتی ہیں۔ ان میں بھی صاحبِ مزار اور صاحبِ قبر کی خوش نودی مدِنظر ہوتی ہے ۔ ذبح کے وقت نام چاہے اللہ کا لیا جائے یا صاحبِ قبر و مزار کا، ان کی حرمت میں دخل نام کو نہیں، بلکہ مقام کو حاصل ہے۔
وان تستقسموا بالازلام‘ ’استقسام‘ کے معنی ہیں حصہ یاقسمت یا تقدیر معلوم کرنا۔ ’ازلام‘ جوئے یا فال کے تیروں کو کہتے ہیں۔ عرب میں فال کے تیروں کا بھی رواج تھا جن سے وہ اپنے زعم کے مطابق غیب کے فیصلے معلوم کرتے تھے اور جوئے کے تیروں کا بھی رواج تھا جن کے ذریعے سے وہ گوشت یا کسی چیز کے حصے حاصل کرتے تھے۔ ہم سورۂ بقرہ کی تفسیر میں ’خمر و میسر‘ کے تحت بیان کر آئے ہیں کہ عرب شراب نوشی کی مجلسیں منعقد کرتے، شراب کے نشے میں جس کا اونٹ چاہتے، ذبح کر دیتے، مالک کو منہ مانگے دام دے کر راضی کر لیتے، پھر اس کے گوشت پر جوا کھیلتے۔ گوشت کی جو ڈھیریاں جیتتے جاتے، ان کو بھونتے، کھاتے ، کھلاتے اور شرابیں پیتے اور بسا اوقات اسی شغلِ بدمستی میں ایسے ایسے جھگڑے کھڑے کر لیتے کہ قبیلے کے قبیلے برسوں کے لیے آپس میں    گتھم گتھا ہو جاتے اور سیکڑوں جانیں اس کی نذر ہو جاتیں  ـــــــــ مجھے خیال ہوتا ہے کہ یہاں ’استقسام بالازلام‘ سے یہی دوسری صورت مراد ہے۔‘‘ ( تدبرِ قرآن ج ۲ ص ۴۵۶- ۴۵۷)    

وہ ذبیحہ جس پر غیر اللہ کا نام تو نہیں لیا گیا ، لیکن اللہ کا نام بھی نہیں لیا گیا، وہ بھی اسی کے تحت ہے۔ قرآنِ مجید میں اس کو اسی طرح ’فسق‘قرار دیا گیا ہے ، جس طرح ’ما اھل لغیر اللہ به‘ کو قرار دیا گیا ہے۔ سورۂ انعام میں جانوروں سے متعلق اہلِ عرب کے بعض توہمات کی تردید کرتے ہوئے فرمایا ہے:

وَلَا تَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ وَاِنَّهٗ لَفِسْقٌﵧ وَاِنَّ الشَّيٰطِيْنَ لَيُوْحُوْنَ اِلٰ٘ي اَوْلِيٰٓـِٕهِمْ لِيُجَادِلُوْكُمْﵐ وَاِنْ اَطَعْتُمُوْهُمْ اِنَّكُمْ لَمُشْرِكُوْنَ.(۶: ۱۲۱)
’’اور تم اس جانور کو نہ کھاؤ جسے اللہ کا نام لے کر ذبح نہ کیا گیا ہو، بے شک، یہ فسق ہے۔ اور یہ شیاطین اپنے ساتھیوں کو القا کر رہے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑیں۔ اور (تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ) تم نے اگر ان کا کہا مانا تو تم بھی مشرک ہو جاؤ گے۔‘‘

ذبیحہ اور صید پر یہ اللہ کا نام نہ لینا ، ایسا فسق کیوں ہے کہ اس کے نتیجے میں جانور ’ما اھل لغیر اللہ به‘ کے حکم میں داخل ہو جائے ؟ استاذ امام اس کے وجوہ بیان کرتے ہوئی لکھتے ہیں:

’’اول یہ کہ اللہ کے نام اور اس کی تکبیر کے بغیر جو کام بھی کیا جاتا ہے وہ ، جیسا کہ ہم آیت بسم اللہ کی تفسیر میں واضح کر چکے ہیں ، برکت سے خالی ہوتا ہے۔ خدا کی ہر نعمت سے، خواہ وہ چھوٹی ہو یا بڑی، فائدہ اٹھاتے وقت ضروری ہے کہ اس پر اس کا نام لیا جائے تاکہ بندوں کی طرف سے اس کے انعام و احسان کا اعتراف و اقرار ہو۔ اس اعتراف و اقرار کے بغیر کوئی شخص کسی چیز پر تصرف کرتا ہے تو اس کا یہ تصرف غاصبانہ ہے اور غصب سے کوئی حق قائم نہیں ہوتا، بلکہ یہ جسارت اور ڈھٹائی ہے جو خدا کے ہاں مستوجبِ سزا ہے ۔
 دوم یہ کہ احترامِ جان کا یہ تقاضا ہے کہ کسی جانور کو ذبح کرتے وقت اس پر خدا کا نام لیا جائے ۔ جان کسی کی بھی ہو ، ایک محترم شے ہے ۔ اگر خدا نے ہم کو اجازت نہ دی ہوتی تو ہمارے لیے کسی جانور کی بھی جان لینا جائز نہ ہوتا ۔ یہ حق ہم کو صرف خدا کے اذن سے حاصل ہوا ہے ۔ اس وجہ سے یہ ضروری ہے کہ جس وقت ہم ان میں سے کسی کی جان لیں ، صرف خدا کے نام پر لیں۔ اگر ان پر خدا کا نام نہ لیں یا خدا کے نام کے ساتھ کسی اور کا نام لیں یا کسی غیر اللہ کے نام پر ان کو ذبح کر دیں تو یہ ان کی جان کی بھی بے حرمتی ہے اور ساتھ ہی جان کے خالق کی بھی ۔
 سوم یہ کہ اس سے شرک کا ایک بہت وسیع دروازہ بند ہو جاتا ہے۔ ادیان کی تاریخ پر جن لوگوں کی نظر ہے ، وہ جانتے ہیں کہ جانوروں کی قربانی، ان کی نذر اور ان کے چڑھاوے کو ابتداے تاریخ سے عبادات میں بڑی اہمیت حاصل رہی ہے ۔ اس اہمیت کے سبب سے مشرکانہ مذاہب میں بھی اس کو بڑا فروغ حاصل ہوا۔ جو قوم بھی کسی غیر اللہ کی عقیدت و نیاز مندی میں مبتلا ہوئی ، اس نے مختلف شکلوں سے اس غیر اللہ کو راضی کرنے کے لیے جانوروں کی بھینٹ چڑھائی۔ قرآن میں شیطان کی جو دھمکی انسانوں کو گمراہ کرنے کے باب میں مذکور ہوئی ہے، اس میں بھی، جیسا کہ ہم اس کے مقام میں واضح کر چکے ہیں، اس ذریعۂ ضلالت کا شیطان نے خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ اسلام نے شرک کے ان تمام راستوں کو بند کر دینے کے لیے جانوروں کی جانوں پر اللہ تعالیٰ کے نام کا قفل لگا دیا جس کو خدا کے نام کی کنجی کے سوا کسی اور کنجی سے کھولنا حرام قرار دے دیا گیا۔ اگر اس کنجی کے بغیر کسی اور کنجی سے اس کو کھولنے یا اس کو توڑنے کی کوشش کی گئی تو یہ کام بھی ناجائز اور جس جانور پر یہ ناجائز تصرف ہوا، وہ جانور بھی حرام۔‘‘ (  تدبرِ قرآن ج ۳ ص ۱۵۷- ۱۵۸)      

یہی معاملہ اس ذبیحہ اور صید کا بھی ہے جس پر اللہ کا نام تو لیا گیا، لیکن نام لینے والا اللہ تعالیٰ کو نہیں مانتا یا مانتا تو ہے، مگر خداؤں کی انجمن میں ایک رب الارباب کی حیثیت سے مانتا ہے اور شرک ہی کو اصلاً اپنا دین قرار دیتا ہے۔ ذبح کرتے وقت شرک کے ارتکاب اور مشرک کے ذبیحہ میں، ظاہر ہے کہ کوئی فرق نہیں کیا جاسکتا۔ قرآنِ مجید نے اسی بناپرمسلمانوں کے علاوہ صرف اہلِ کتاب کا ذبیحہ جائز قرار دیا ہے ، اس لیے کہ وہ اصلاً توحید ہی کے ماننے والے ہیں ۔ ارشاد فرمایا ہے:

اَلْيَوْمَ اُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبٰتُﵧ وَطَعَامُ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حِلٌّ لَّكُمْﵣ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ. (المائدہ ۵: ۵)
’’اب تمھارے لیے سب پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئی ہیں اور اہل کتاب کا کھانا بھی تمھارے لیے حلال ہے اور تمھارا کھانا ان کے لیے۔‘‘

ان محرمات سے استثنا صرف حالتِ اضطرار کا ہے ، اور وہ بھی ’غیر باغ ولا عاد‘یعنی اس طرح کہ آدمی نہ خواہش مند ہو نہ ضرورت کی حد سے آگے بڑھنے والا ہو ۔ بقرہ و نحل کی آیات میں بھی یہ بات بالکل انھی الفاظ میں بیان ہوئی ہے ۔ مائدہ میں البتہ، الفاظ کا معمولی فرق ہے ۔ ارشاد فرمایا ہے:

فَمَنِ اضْطُرَّ فِيْ مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍﶈ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ.(۵: ۳)
’’پھر جو بھوک سے مجبور ہو کر کوئی حرام چیز کھالے، بغیر اس کے کہ وہ گناہ کی طرف مائل ہو تو اللہ بخشنے والا ہے، وہ سراسر رحمت ہے۔‘‘

استاذ امام اس کی وضاحت میں لکھتے ہیں:

 ’’’مخمصة ‘ کے معنی بھوک کے ہیں۔ بھوک سے مضطر ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ آدمی بھوک کی ایسی مصیبت میں گرفتار ہو جائے کہ موت یا حرام میں سے کسی ایک کے اختیار کرنے کے سوا کوئی اور راہ بظاہرکھلی ہوئی باقی ہی نہ رہ جائے۔ ایسی حالت میں اس کو اجازت ہے کہ حرام چیزوں میں سے بھی کسی چیز سے فائدہ اٹھا کر اپنی جان بچا سکتا ہے ۔ اس کے ساتھ ’غیر متجانف‘کی قید اسی مضمون کو ظاہر کر رہی ہے جو دوسرے مقام میں ’غیر باغ ولا عاد‘سے ادا ہوا ہے ۔ یعنی نہ تو دل سے چاہنے والا بنے اور نہ سدرِمق کی حد سے آگے بڑھنے والا ۔’مخمصة‘کی قید سے یہ بات صاف نکلتی ہے کہ جہاں دوسرے غذائی بدل موجود ہوں، وہاں مجرد اس عذر پر کہ شرعی ذبیحہ کا گوشت میسر نہیں آتا ، جیسا کہ یورپ اور امریکا کے اکثر ملکوں کا حال ہے، ناجائز کو جائز بنا لینے کا حق کسی کو نہیں ہے۔ گوشت زندگی کے بقا کے لیے ناگزیر نہیں ہے۔ دوسری غذاؤں سے نہ صرف زندگی، بلکہ صحت بھی نہایت اعلیٰ معیار پر قائم ر  کھی جا سکتی ہے، ’غیر متجانف لاثم‘کی قید اس حقیقت کو ظاہر کر رہی ہے کہ رخصت بہرحال رخصت ہے اور حرام بہرشکل حرام ہے۔ نہ کوئی حرام چیز شیرِ مادر بن سکتی، نہ رخصت کوئی ابدی پروانہ ہے۔ اس وجہ سے یہ بات کسی کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ دفعِ اضطرار کی حد سے آگے بڑھے ۔ اگر ان پابندیوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے کوئی شخص کسی حرام سے اپنی زندگی بچا لے گا تو اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ اگر اس اجازت سے فائدہ اٹھا کر اپنے حظِ نفس کی راہیں کھولے گا تو اس کی ذمہ داری خود اس پر ہے یہ اجازت اس کے لیے قیامت کے دن عذر خواہ نہیں بنے گی۔‘‘ (تدبرِ قرآن ج ۲ ص ۴۵۸- ۴۵۹)  

یہ سب چیزیں ، جس طرح کہ قرآن کی ان آیات سے واضح ہے ، صرف خورونوش کے لیے حرام ہیں۔ رہے ان کے دوسرے استعمالات تو وہ بالکل جائز ہیں۔ کسی صاحبِ ایمان کو اس معاملے میں ہرگز کوئی تردد نہیں ہونا چاہیے۔ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کی ایک روایت کے مطابق یہ بات خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر صراحت کے ساتھ بیان فرمائی ہے:

قال: تصدق علی مولاة لمیمونة بشاة فماتت، فمربھا رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم، فقال: ھلا اخذتم اھابھا فدبغتموہ فانتفعتم به؟ فقالوا: انھا میتة، فقال: انما حرم اکلھا.(مسلم، کتاب الحیض)
’’سیدہ میمونہ کی ایک لونڈی کو بکری صدقے میں دی گئی تھی۔ وہ مرگئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہاں سے گزر ہوا تو آپ نےفرمایا: تم نے اس کی کھال کیوں نہیں اتاری کہ دباغت کے بعد اس سے فائدہ اٹھاتے؟ لوگوں نے عرض کیا: یہ تو مردار ہے۔ آپ نے فرمایا: اس کا صرف کھانا ہی حرام ہے۔‘‘

____________

[6]۔ النسائی، کتاب الطہارۃ، باب ۴۷۔

[7]۔ لیکن اگر پھاڑا نہ ہو اور جانور خوف سے مر جائے تو وہ پھر ’میتة‘ ہی ہے۔اسی طرح پھاڑا نہ ہو اور وہ زندہ مل جائے تو اسے لازماً ذبح کرنا چاہیے۔ اس کے بغیر تذکیہ کا تقاضا، بالبداہت واضح ہے کہ کسی طرح پورا نہیں ہو سکتا۔


B