HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

قانون سیاست (۳)

 [نئی اشاعت کے لیے مصنف کی طرف سے نظرِ ثانی اور ترمیم و اضافہ کے بعد]

 

۳ ۔دینی فرائض

 

اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ. (الحج ۲۲: ۴۱)
’’(یہ اہلِ ایمان وہ لوگ ہیں کہ) اگر ہم ان کو (عرب کی) اِس سر زمین میں اقتدار  بخشیں گے تو نماز کا اہتمام کریں گے ، زکوٰۃ ادا کریں گے ، بھلائی کا حکم دیں گے اور برائی سے روکیں گے ۔ ‘‘

سورۂ حج کی یہ آیت وہ دینی فرائض بیان کرتی ہے جو کسی خطۂ ارض میں اقتدار حاصل ہو جانے کے بعد مسلمانوں کے نظمِ اجتماعی پر عائد ہوتے ہیں ۔ نماز قائم کی جائے ، زکوٰۃ ادا کی جائے ، معروف کا حکم دیا جائے اورمنکر سے روکا جائے ، یہ چار باتیں اس آیت میں مسلمانوں پر ان کی اجتماعی حیثیت میں لازم کی گئی ہیں ۔

 قرآن کے اس حکم کی تعمیل میں ریاست کی سطح پرنماز قائم کرنے کے لیے جو سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کی ہے ، اس کی رو سے :

(ا) لوگوں کو اس بات کا پابند کیا جائے گا کہ وہ اگر مسلمان ہیں تو اپنے ایمان و اسلام کی شہادت کے طور پر مسجدوں میں حاضر ہوں اور نماز ادا کریں ۔

(ب)  مسجدوں کا اہتمام اور ان کے لیے ائمہ کا تقرر حکومت کرے گی۔

(ج) نمازِ جمعہ کا خطاب اور اس کی امامت ، ریاست کے صدر مقام کی مرکزی جامع مسجد میں سربراہِ مملکت ، صوبوں میں گورنر اور مختلف انتظامی وحدتوں میں ان کے عمال کریں گے ۔

 اسی طرح زکوٰۃ کے بارے میں جو سنت قائم کی ہے ، اس کی رو سے ریاست کے مسلمان شہریوں میں سے ہر وہ شخص جس پر زکوٰۃ عائد ہوتی ہو ، اپنے مال ، مواشی اور پیداوار میں مقرر یہ حصہ اپنے سرمایے سے الگ کر کے اسے لازما ً حکومت کے حوالے کر دے گا اور حکومت دوسرے مصارف کے ساتھ اس سے اپنے حاجت مند شہریوں کی ضرورتیں ، ان کی فریاد سے پہلے ان کے دروازے پر پہنچ کر پوری کرنے کی کوشش کرے گی ۔

 معروف کا حکم دینے اور منکر سے روکنے کے لیے قرآنِ مجید کا حکم یہ ہے کہ ریاست کی طرف سے ایک جماعت باقاعدہ مقرر کی جائے جو لوگوں کو بھلائی کی دعوت دے ، انھیں معروف پر قائم رکھے اور منکر سے روک دے ۔ اس زمانے کی تعبیر اختیار کیجیے تو گویا قرآن کا منشایہ ہے کہ فوج اور پولیس کی طرح ایک محکمہ قانونی اختیارات کے ساتھ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے بھی ریاست کے نظام میں قائم ہونا چاہیے جو اپنے لیے  متعین کردہ حدود کے مطابق اس کام کو انجام دینے کے لیے ہمہ وقت سرگرم عمل رہے ۔ سورۂ آل عمران میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ اِلَي الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِﵧ وَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ. (۳: ۱۰۴)
’’اور تمھارے اندر سے ایک جماعت اس کام پر مقرر ہونی چاہیے کہ وہ بھلائی کی دعوت دے، معروف کا حکم دے اور منکر سے روک دے۔ اور جو لوگ یہ اہتمام کریں گے، وہی فلاح پائیں گے۔‘‘[5]

اسلامی ریاست کے دینی فرائض یہی ہیں ۔ دنیا میں جو ریاست بھی قائم ہوتی ہے ، وہ امن اور دفاع اور ملک کی مادی خوش حالی کے لیے سعی و جہد تو بہرحال کرتی ہی ہے ، لیکن محض ایک ریاست سے آگے بڑھ کر جب وہ اسلامی ریاست کی حیثیت اختیار کرتی ہے تو اس سے قرآن مطالبہ کرتا ہے کہ وہ نماز اور زکوٰۃ کے اہتمام اور بھلائی کو پھیلانے اور برائی کو مٹا دینے کی ذمہ داری سے کسی حال میں غافل اور بے پروانہ ہو                ۔

(باقی)

____________

[5]۔ یہ حکم اس وقت دیا گیا، جب ہجرت کے بعد مسلمانوں کی ایک باقاعدہ ریاست مدینہ میں قائم ہو گئی۔


B