عن أبی أمامة رضی اﷲ عنه أن رجلا سأل رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم: ما الایمان؟ قال: إذا سرتک حسنتک و ساء تک سیئتک، فأنت مؤمن. قال: یا رسول اﷲ، فما الإثم؟ قال: إذا حاک فی نفسک شیء فدعه.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
’’ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : ایمان کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : جب تمھاری نیکی سے تمھیں خوشی ہو اور تمھاری برائی تمھیں بے چین کر دے تو تم مؤمن ہو ۔ اس نے (پھر ) سوال کیا : اے اللہ کے رسول ، گناہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : جب کوئی چیز تمھارے جی میں کھٹکے تو تم اسے چھوڑ دو ۔ ‘‘
سر: خوش کرے ، بھائے ۔ یہاں اس سے دل کا اطمینان مراد ہے ۔
ساء : برا لگنا، ناگوار ہونا ۔ یہاں اس سے کسی غلط کام کے ہونے کے بعد دل میں پیدا ہونے والی بے چینی یا اضطراب کی کیفیت مراد ہے۔
اثم : ’اثم‘ میں اصلاً تاخر یعنی پیچھے رہ جانے کا مفہوم پایا جاتا ہے ۔ اب یہ لفظ اداے حقوق میں پیچھے رہ جانے کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ عام اس سے کہ وہ خدا کے حقوق ہوں یا بندوں کے ۔
حاک: ’حاک فی صدری ‘ ، ’بات میرے دل میں گڑ گئی ۔‘یہ محاورہ ہے اور یہ اس موقع پر بولا جاتا ہے جب کوئی معاملہ دل پر جم کر رہ جائے ۔ یعنی دل کی کھٹک ۔
یہ روایت بھی صاحبِ مشکوٰۃ نے مسندِ احمد سے لی ہے ۔ مسند میں اس روایت کے تین متن درج کیے گئے ہیں ۔ ایک متن بعینہٖ وہی ہے جو صاحبِ مشکوٰۃ نے لیا ہے ۔ دوسرے متن میں ’سأل‘ کے بجائے ’قال‘ اور ’فی نفسک‘کی جگہ ’فی صدرک ‘ہے ۔تیسرے متن میں مضامین کی ترتیب اس متن کے برعکس ہے ۔ یعنی ’اثم‘سے متعلق سوال پہلے اور ایمان کے بارے میں سوال بعد میں نقل کیا گیا ہے۔ ترتیبِ مضامین کے اعتبار سے پہلے دونوں متن درست معلوم ہوتے ہیں اور ’فی صدرک‘ اور ’فی نفسک، ہم معنی تراکیب ہیں۔
اس روایت میں سائل کا نام نہیں بتایا گیا ۔ حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے مروی مسلم کی روایت کے مطابق انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سے ملتا جلتا سوال پوچھا تھا ۔ کہتے ہیں:
سألت رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم عن البر و الإثم. فقال البر حسن الخلق و الإثم ما حاک فی صدرک و کرھت أن یطلع علیه الناس.
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ’بر‘ اور ’اثم‘ کے بارے میں سوال کیا ۔ آپ نےفرمایا: ’بر‘ حسنِ اخلاق ہے اور ’اثم‘ وہ جو تمھارے دل میں کھٹکے اور تو اس بات کو پسند نہ کرے کہ لوگ اس سے واقف ہوں۔‘‘
اسی طرح حضرت خشنی رضی اللہ عنہ کے ایک سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا :
البر ما سکنت إلیه النفس و اطمأن إلیه القلب و الإثم ما لم تسکن إلیه النفس و لم یطمئن إلیه القلب.
’’نیکی وہ ہے جس پر تیرا نفس سکون پائے اور تیرا دل مطمئن ہو اور برائی وہ ہے جس پر تیرا نفس بے سکون ہو اور تیرا دل غیر مطمئن۔‘‘
ایک اور صحابی وابصہ بن معبد رضی اللہ عنہ کے سوال کے جواب میں آپ نے وضاحت کی :
البر ما انشرح له صدرک و الإثم ما حاک فی صدرک و إن افتاک عنه الناس.
’’ نیکی وہ ہے جس سے تمھارا سینہ کھل جائے اوربرائی وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے خواہ لوگوں نے اس کے حق میں فتویٰ دیا ہو۔‘‘
اگرچہ یہ کہنا درست نہیں کہ اوپر والی روایت کے سائل انھی میں سے کوئی ایک ہیں ۔ اس لیے کہ ان میں سے کسی روایت میں بھی سوال ایمان کے بارے میں نہیں کیا گیا ۔ جبکہ زیرِ بحث روایت میں پہلا سوال ایمان کے بارے میں کیا گیا ہے ۔ بہرحال ان روایات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر یہ بات ارشاد فرمائی ہے۔
اس روایت میں برائی کے پہچاننے کا معیار بتایا گیا ہے ۔ یہ معیار درحقیقت اس شعور پر مبنی ہے جو فاطرِ فطرت نے ہر نفس کے اندر ودیعت کیا ہے ۔ ارشادِ ربانی ہے :
وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰىهَا. فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰىهَا . (الشمس۹۱ :۷-۸)
’’ نفس گواہی دیتا ہے اور جیسا اسے سنوارا ، پھر اسے اس کی نیکی اور بدی سمجھا دی ۔‘‘
نفس انسانی کا یہی فہم اسے برائی پر اطمینان سے محروم کرتا اور نیکی پر داخلی مسرت سے ہم کنار کرتا ہے ۔ یہی اطمینان ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اوپر درج روایات میں دل کے سکون اورانشراحِ صدر کے الفاظ سے بھی تعبیر کیا ہے ۔ یہی بے اطمینانی ہے جس کے لیے دل کی کھٹک اور سکون سے محرومی کے الفاظ بھی استعمال کیے گئے ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دل کی حالت کو اس قدر اہمیت دی ہے کہ ایک روایت کے مطابق آپ نے فرمایا کہ اگرچہ لوگ کسی امر کے جواز کے فتوے ہی کیوں نہ دے رہے ہوں اگر تمھارا دل مطمئن نہ ہو تو اس شے کو ترک کر دو ۔
دوسرا پہلو ان روایات سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ دین کے سارے حکمہماری فطرت سے پوری طرح ہم آہنگ ہیں۔ چنانچہ شریعت کے سارے حکم خواہ ان کا تعلق تعبدی امور سے ہو یا دنیوی امور سے،ہماری نفسیات سے ہم آہنگ ، ہمارے جذبات کی تسکین اور ہماری ضروریات کی تکمیل ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم ان سے انحراف کرتے ہیں تو ہمارا داخلی وجود اس پر کبیدگی کا اظہار کرتا ہے ۔
یہاں یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ ہمارا یہ داخلی وجود مختلف عوامل کے تحت بعض اوقات صحیح یا غلط بات میں فرق نہیں کر پاتا ۔ چنانچہ وحی کے ذریعے سے ضروری امور متعین کر دیے گئے ہیں ۔ ایک اور روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حقیقت کو ان الفاظ میں واضح کیا ہے :
عن النعمان بن بشیر سمعت رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم یقول: الحلال بین. والحرام بین. و بینھما مشبھات. لا یعلمھا کثیر من الناس. فمن اتقی المشبھات استبرأ لدینه و عرضه. و من وقع فی الشبھات کراع یرعی حول الحمی یوشک أن یواقعه. ألا و لکل ملک حمی. ألا إن حمی اﷲ فی أرضه محارمه، ألا إن فی الجسد مضغة. إذا صلحت صلح الجسد کله. وإذا فسدت فسد الجسد کله. ألا وھو القلب.( بخاری کتاب الایمان ، باب ۳۷)
’’ حضرت نعمان بن بشیر روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا : حلال واضح ہے ۔ حرام واضح ہے۔ ان کے درمیان غیر واضح امور ہیں۔ لوگوں کی اکثریت ان (کی نوعیت ) سے واقف نہیں ہوتی۔ چنانچہ جو ان غیر واضح امور سے بچ گیا وہ اپنے دین اور عزت کے معاملے میں بری ہو گیا اور جو ان معاملات میں پڑ گیا اس کی مثال اس گڈریے کی طرح ہے جو کسی کی چراگاہ کے کنارے کنارے اپنا ریوڑ چراتا ہے ۔ لہٰذا خطرہ رہتا کہ اس میں جا پڑے۔ سنو ،زمین پر خدا کی چراگاہ اس کے محرمات ہیں ۔ سنو ، جسم میں ایک لوتھڑا ہے جب وہ درست ہوتا ہے تو سارا جسم درست ہوتا ہے اور جب وہ خراب ہو جاتا ہے توسارا جسم خراب ہو جاتا ہے ۔ سنو ، یہ لوتھڑا دل ہے ۔‘‘
اس روایت میں دل کی درستی اور مشتبہ امور سے گریز کے مابین جو تعلق بیان ہوا ہے ،اس سے زیرِ بحث روایت کے اس پہلو کی وضاحت ہوتی ہے کہ بندہ مؤمن کا دل نادرست کو پہچانتا ضرور ہے ، لیکن پہچان کی اہلیت کو فعال رکھنے کے لیے مشتبہ امور سے گریز ضروری ہے ۔
مسنداحمد ، عن ابی امامہ، عن نواس بن سمعان ، عن خشنی ، عن وابصہ بن معبد۔
___________