(مشکوٰۃ ، کتاب الایمان : حدیث ۴۴ :۴۵)
عن أبی ھریرة رضی اللہ عنه قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم: إذا أحسن أحدکم إسلامه، فکل حسنة یعملھا تکتب له بعشر أمثالھا إلی سبع مائة ضعف. وکل سیئة یعملھا تکتب بمثلھا حتی لقی اللہ.
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
’’ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب کوئی شخص اپنے دین کو بہترین بنا لیتا ہے تو ہر نیکی جو وہ کرتا ہے دس گنا سے سات سو گنا تک لکھی جاتی ہے ۔ اور ہر برائی جو وہ کرتا ہے اسی کے برابر (یعنی ایک ہی )لکھی جاتی ہے۔‘‘
أحسن : بہترین طریقے سے کرنا ۔ یہ لفظ قرآنِ مجید میں بھی بہت استعمال ہوا ہے ۔ لفظ احسان اسی سے مشتق ہے جسے پانے کا طریقہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیثِ جبریل میں مروی ہے ۔
حسنة: خوبی ، بھلائی ۔ یہ لفظ جہاں اچھے حالات کے لیے آتا ہے وہاں نیکیوں کے لیے بھی آتا ہے۔
سیئة: برائی ۔ یہ لفظ چھوٹی بڑی بدیوں کے لیے عام ہے ۔
لقی اللہ: اللہ سے ملے ۔ یہاں اس سے موت مراد ہے ۔
یہ روایت معروف روایات میں سے ہے ۔ اسے متعدد محدثین نے روایت کیا ہے ۔ بعض روایات میں ’إذا تحدث‘ کے بجائے ’إذا ھم‘ ہے ۔ اسی طرح ترمذی نے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات بیان کرنے کے بعد ’من جاء بالحسنة‘ والی آیت بھی پڑھی تھی ۔مسلم کی ایک روایت جامع ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ اسی کے اجزا مختلف صورتوں میں الگ الگ روایت کی شکلمیں کتبِ حدیث کی زینت بنے ہیں :
عن ابوھریرة رضی اللہ عنه عن محمد صلی اللہ علیه وسلم فذکر أحادیث منھا. قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم: قال اللہ عز و جل: إذا تحدث عبدی بأن یعمل حسنة فأنا أکتبھا له حسنة ما لم یعمل. فإذا عملھا فأنا أکتبھا له بعشر أمثالھا. و إذا تحدث بأن یعمل سیئة فأنا أغفرھا له ما لم یعملھا فإذا عملھا فأنا أکتبھا له بمثلھا. و قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم: قالت الملائکة: ذاک عبدک یرید أن یعمل سیئة و ھو أبصر به. فقال: ارقبوه فإن عملھا فاکتبوھا له بمثلھا و إن ترکھا فاکتبوھا له حسنة إنما ترکھا من جرای. وقال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم إذا أحسن أحدکم إسلامه فکل حسنه یعملھا تکتب له بعشر أمثالھا إلی سبع مائة ضعف و کل سیئة یعملھا تکتب بمثلھا حتی یلقی اللہ. (مسلم ، کتاب الایمان ، باب ۵۹)
’’ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ۔ انھوں نے ان سے بہت سی باتیں روایت کی ہیں ۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : جب میرا بندہ نیکی کرنے کے بارے میں سوچتا ہے تو میں اسے اس کی ایک نیکی کے طور پر لکھ لیتا ہوں ۔ پھر جب وہ اس پر عمل کر لیتا ہے تو میں اس نیکی کو دس گنا کر کے لکھ لیتا ہوں۔ اور جب کوئی برائی کرنے کے بارے میں سوچتا ہے تو میں اس ارادے کو معاف کر دیتا ہوں جب تک وہ کر نہیں ڈالتا۔ پھر جب وہ ارتکاب کر لیتاہے تو میں اسے اس کی ایک ہی برائی لکھتا ہوں ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی بتایا کہ فرشتے کہتے ہیں:یہ تیرا بندہ برائی کرنا چاہتا ہے اور وہ اس کے درپے ہے ۔ تو اللہ تعالیٰ ان سے کہتے ہیں: اس پر نظر رکھو ۔ اگر یہ کر ڈالے تو اسے ا س کی ایک برائی لکھ لو اور اگر چھوڑ دے تو اس کی ایک نیکی لکھ دو۔ اس نے میری وجہ سے ایسا کیا ہے ۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: جب کوئی شخص اپنے اسلام کو بہترین بنا لیتا ہے تو اس کی ہر نیکی جو وہ کرتا ہے دس گنا سے سات سو گنا تک لکھی جاتی ہے اور ہر برائی جو وہ کرتا ہے ایک ہی برائی لکھی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے پاس پہنچ جاتا ہے۔‘‘
مسلم کی یہ روایت ایک ہی موقع کی گفتگو معلوم نہیں ہوتی ۔ یہی وجہ ہے کہ دوسری کسی کتاب میں یہ روایت اس صورت میں درج نہیں ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوہریرہ کے شاگرد وہب بن منبہ نے ایک ہی مضمون کی مختلف روایات کو یک جا کر دیا ہے ۔ اور اس کے قرائن اس متن میں بھی موجود ہیں ۔ دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ گفتگو تو ایک ہی موقع کی ہو لیکن روایت میں درمیان کی بہت سی باتیں حذف ہو گئی ہیں ۔ بہرحال اس روایت میں بیان کی گئی یہ حقیقت کہ برائی کے خیال کو معاف کر دیا جاتا ہے اور نیکی کے خیال کو ایک نیکی قرار دیا جاتا ہے اور یہ بات بھی کہ ایک برائی ایک ہی لکھی جاتی ہے اور ایک نیکی دس گنایا اس سے زیادہ لکھی جاتی ہے ، اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر بے پایاں رحمت کو واضح کرتی ہے ۔
یہ روایت سر تا سر قرآنِ مجید ہی کے ایک نکتے کا بیان ہے ۔سورۂ انعام میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ عَشْرُ اَمْثَالِهَاﵐ وَمَنْ جَآءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزٰ٘ي اِلَّا مِثْلَهَا وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ . (۶ : ۱۶۰)
’’جو ایک نیکی کما کر لایا تو اس کے لیے یہ دس کے برابر ہوں گی اور جس نے ایک برائی کی اسے اس کے برابر ہی جزا دی جائے گی ۔ اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا ۔ ‘‘
اسی طرح سورۂ بقرہ میں ارشاد ہے :
مَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۣبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِيْ كُلِّ سُنْۣبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍﵧ وَاللّٰهُ يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَآءُﵧ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ. (۲ : ۲۶۱)
’’ان لوگوں کی مثال جو اللہ کے راستے میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں ایک بیج کی ہے ۔ جس پر سات بالیاں آئیں اور ہر بالی میں سو دانے تھے ۔ اور اللہ جس کے لیے چاہتا ہے اضافہ کرتا ہے اور اللہ بڑی گنجایش والا اور علم والا ہے۔‘‘
سورۂ انعام کی آیت کے سیاق وسباق اور سورۂ بقرہ کی آیت کے الفاظ سے وہ نکتہ واضح ہوتا ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’إذا أحسن أحدکم اسلامه‘ کے الفاظ میں بیان کیا ہے ۔درحقیقت کسی نیکی کے محرک ، جذبے اور خوبی کی مختلف صورتیں ہیں جن کے نتیجے میں کوئی نیکی سات سو گنا تک اجر کا باعث بن جاتی ہے ۔ چنانچہ جب ہم کوئی نیک عمل کرتے ہیں تو جہاں اس چیز کی ضرورت ہے کہ ہماری نیت صرف خدا کی رضا ہو وہاں اس عمل کادرست ہونا بھی اہمیت رکھتا ہے ۔ وہ عمل جو محض چھدا اتارنے کے لیے کیا گیا ہو بسا اوقات اللہ کی ناراضی کا باعث بن جاتاہے ۔اسی طرح کسی نیکی کے کرنے میں حالات کی نامساعدت بھی اجر کی کمی بیشی کا باعث بنتی ہے ۔ جتنے مشکل حالات میں کوئی نیکی کی جاتی ہے اس کا اجر اتنا ہی بڑھ جاتا ہے ۔ موجودہ زمانے میں لوگ بالعموم برائی کے فروغ اور نیکی کرنے میں حائل رکاوٹوں کا شکوہ کرتے ہیں ۔ لیکن اللہ تعالی کے اس اصول کی روشنی میں دیکھیں تو اس زمانے کی چھوٹی چھوٹی نیکیاں بھی بڑے اجر کا باعث ہوں گی ۔تمام نیکیوں کو بہترین صورت میں کرنے کے لیے جہاں ہمیں یہ خیال رکھنا چاہیے کہ ہم سب کچھ خدا کے سامنے کر رہے ہیں ۔ وہ ہمیں دیکھ رہا ہے ۔ اسی طرح ہمیں اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی پیشِ نظر رکھنا چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ نے ’لقد کان لکم فی رسول اللہ أسوة حسنة‘ (احزاب ۳۳ :۲۱) کہہ کر ہمارے لیے نشاناتِ راہ متعین کردیے ہیں۔
بخاری ، کتاب الایمان ، باب ۳۰،کتاب التوحید ، باب ۳۵۔مسلم ،کتاب الایمان ،باب ۵۹۔ ترمذی ، کتاب تفسیر القرآن ، باب۷۔ مسند احمد ابی ہریرہ۔
_______