(گذشتہ سے پیوستہ)
وَاِذْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَ بَنِيْ٘ اِسْرَآءِيْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَﵴ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا وَّذِي الْقُرْبٰي وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَّاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَﵧ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ اِلَّا قَلِيْلًا مِّنْكُمْ وَاَنْتُمْ مُّعْرِضُوْنَ ٨٣
اور[203]یاد کرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد [204]لیا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کروگے اور والدین [205]کے ساتھ اورقرابت مندوں اور یتیموں اور مسکینوں [206] کے ساتھ حسنِ سلوک کرو گے[207]۔ اور (عہد لیا کہ) لوگوں سے اچھی بات کہو[208] اور نماز کا اہتمام کرو اور زکوٰۃ ادا کرو ۔ پھر تم میں سے تھوڑے لوگوں کے سوا تم سب (اُس سے) پھر گئے اور (حقیقت یہ ہے کہ) تم پھر جانے والے ہی لوگ ہو[209]۔ ۸۳
وَاِذْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُوْنَ دِمَآءَكُمْ وَلَا تُخْرِجُوْنَ اَنْفُسَكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ ثُمَّ اَقْرَرْتُمْ وَاَنْتُمْ تَشْهَدُوْنَ ٨٤ ثُمَّ اَنْتُمْ هٰ٘ؤُلَآءِ تَقْتُلُوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَتُخْرِجُوْنَ فَرِيْقًا مِّنْكُمْ مِّنْ دِيَارِهِمْﵟ تَظٰهَرُوْنَ عَلَيْهِمْ بِالْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِﵧ وَاِنْ يَّاْتُوْكُمْ اُسٰرٰي تُفٰدُوْهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ اِخْرَاجُهُمْﵧ اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَتَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍﵐ فَمَا جَزَآءُ مَنْ يَّفْعَلُ ذٰلِكَ مِنْكُمْ اِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَاﵐ وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ يُرَدُّوْنَ اِلٰ٘ي اَشَدِّ الْعَذَابِﵧ وَمَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ ٨٥ اُولٰٓئِكَ الَّذِيْنَ اشْتَرَوُا الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا بِالْاٰخِرَةِﵟ فَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنْصَرُوْنَ ٨٦ﶒ
اور یاد کرو ، جب ہم نے تم سے عہد [210] لیا کہ آپس میں خون نہ بہاؤ گے اور اپنے لوگوں کو اپنی بستیوں سے نہ نکالو گے ۔ پھر تم نے اقرار کیا اور تم اس کے گواہ ہو[211]۔ پھر یہ تمھی ہو کہ اپنوں کو قتل کرتے ہو اور اپنے ہی ایک گروہ کو ان کی بستیوں سے نکالتے ہو ، اس طرح کہ ظلم اور حق تلفی کے ساتھ ان کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرتے ہو ، اور اگر وہ قیدی ہو کر آئیں تو فدیہ دے کر اُنھیں چھڑاتے ہو [212]دراں حالیکہ اُن کا نکالنا ہی سرے سے تمھارے لیے جائز نہ تھا ۔ پھر کیا تم کتابِ الہٰی کے ایک حصے کو مانتے اور ایک حصے کا انکار کرتے ہو؟ سو تم میں سے جو یہ کرتے ہیں، اُن کی سزا اِس دنیا کی زندگی میں رسوائی کے سوا کچھ نہیں اور قیامت کے دن وہ سخت سے سخت عذاب میں پہنچا دیے جائیں گے۔ (تم یہی کرتے ہو ) اور جو کچھ تم کرتے ہو ، اللہ اُس سے بے خبر نہیں ہے ـــــــــ یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے آخرت دے کر دنیا خریدلی[213]، اس لیے (قیامت میں اب) نہ اِن کا عذاب ہی ہلکا ہو گا اور نہ کوئی مدد انھیں پہنچے گی۔ ۸۴- ۸۶
[203]۔ اتمامِ حجت کا جومضمون پیچھے سے چلا آ رہا ہے، یہ اب اس میں یہود کو ان کے نقضِ عہد کی یاددہانی کی جا رہی ہے تاکہ اُن پر واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے جس عہد و میثاق کو وہ اپنا سرمایۂ فخروناز سمجھتے ہیں، اُس کے ساتھ اُن کا رویہ کیا رہا ہے۔
[204]۔ اس سے مراد وہ ابتدائی عہد ہے جو بنی اسرائیل سے توحید اور اداے حقوق سے متعلق لیا گیا۔
[205]۔ اللہ تعالیٰ کا حق بیان کرنے کے فوراً بعد یہ والدین کے حق کا ذکر اس بات کو واضح کرتا ہے کہ خدا کے بعد سب سے بڑا حق انسان پر اگر کوئی ہے تو انھی کا ہے۔
[206]۔والدین اور اقربا کے معا ً بعد یتیموں اور مسکینوں کا ذکر اسلامی معاشرے میں اُن کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔
[207]۔حسنِ سلوک اداے حقوق سے الگ کوئی چیز نہیں ہے۔ اس کے معنی ہی یہ ہیں کہ دوسروں کے حقوق نہایت خوبی کے ساتھ ادا کر دیے جائیں۔
[208]۔ یہ کم و بیش وہی بات ہے جو اسی سورہ کی آیات ۲۶۲، ۲۶۳، سورۂ نساء ( ۴) کی آیات ۵، ۸، ۹ اور سورۂ بنی اسرائیل (۱۷) کی آیت ۲۸ میں بالترتیب ’قول معروف و مغفرة‘، ’قولوا لھم قولاً معروفاً‘، ’ولیقولوا قولاً سدیداً ‘ اور ’فقل لھم قولًا میسوراً ‘ کے الفاظ میں کہی گئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اداے حقوق کے ساتھ ان حق داروں کی عزتِ نفس بھی ہرحال میں ملحوظ رہنی چاہیے۔ لہٰذا ان سے جو بات بھی کی جائے، نہایت شریفانہ اور مہذب انداز میں کی جائے۔ سختی اور ترش کلامی کا رویہ ہرگز اختیار نہ کیا جائے۔ اداے حقوق کے ساتھ یہ چیز نہ ہو تو آدمی کا سارا حسنِ سلوک غارت ہو سکتا ہے۔
[209]۔ یعنی یہ کوئی ایسا جرم نہیں ہے جو تم سے اتفاقا ً صادر ہو گیا ہو، بلکہ تمھارا مستقل رویہ یہی رہا ہے۔
[210]۔ یہ اب ایک دوسرے عہد کا حوالہ دیا ہے۔
[211]۔ یعنی جب یہ اقرار تم نے کیا تو تمھارے بزرگوں کی پوری جماعت اُس وقت سیدنا موسی علیہ السلام کے ساتھ موجود تھی۔ تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کا طریقہ یہی تھا کہ وہ بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ کے احکام سے ہمیشہ سب لوگوں کے سامنے آگاہ کرتے اور پھر پوری جماعت سے اُن کی پابندی کا عہد لیتے تھے۔
[212]۔ اس کی صورت تاریخ سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ پہلے دشمنوں سے ساز باز کر کے اپنے ہی بھائیوں کی کسی جماعت پر چڑھائی کرا دی جاتی۔ پھر قتل و غارت کے بعد جب وہ دشمنوں کے ہاتھوں میں قیدی ہو کر مدد کے طالب ہوتے تو اُن کو چھڑا کر قومی ہم دردی اور حسنِ سلوک کا مظاہرہ کیا جاتا۔
[213]۔ یعنی آخرت کے مقابلے میں دنیا کو ترجیح دی۔ اس طرح کے مواقع پر عربی زبان میں یہ تعبیر اسی مفہوم کے لیے اختیار کی جاتی ہے۔
[باقی]
_______