محمد بلال
عید الاضحیٰ کی نماز جیسے ہی ختم ہوئی تو اجتماع گاہ سے بہت سے لوگ اٹھے ، اپنی سواریوں کی طرف بڑھے اور اپنے گھروں کی طرف چلے گئے ۔ میں نے سوچا: ’’نمازِ عید کا خطبہ سننا بھی ضروری ہوتا ہے مگر یہ لوگ صرف نماز پڑھ کر ہی کیوں چلے گئے ہیں ؟‘‘ پھر خیال آیا : ’’اچھا! یہ لوگ اپنا قربانی کا جانور صبح صبح ہی ذبح کر کے جلدی فارغ ہونا چاہتے ہیں۔‘‘ اس خیال کے ساتھ ہی عید الا ضحیٰ پر جانور کی قربانی کا فلسفہ میرے تحت الشعور سے شعور کے خانے میں منتقل ہوا ۔ اس فلسفے کی روشنی میں نماز کا خطبہ چھوڑ کر جانے والوں ، خود کو اللہ کے حوالے کرنے کے ایک بہت معمولی عمل سے گریز کرنے والوں پر سوچا تو حیرت بھی ہوئی اور افسوس بھی ہوا۔
عید الا ضحیٰ کا فلسفہ کیا ہے ؟ عید الا ضحیٰ اسلامی مہینے ذوالحجہ میں منائی جاتی ہے ۔ اسی مہینے کے ابتدائی دنوں میں مکہ معظمہ میں لاکھوں مسلمان حج کے مناسک ادا کر رہے ہوتے ہیں ۔ انھی مناسک کو ادا کرتے ہوئے ایک موقع پر وہ صفا و مروہ کی پہاڑیوں کے مابین پھیرے لگاتے ہیں ۔ یہ پھیرے اصل میں حضرت ابراہیم کے ان پھیروں کی یادگار ہیں جو انھوں نے حضرت اسماعیل کو اللہ کی راہ میں قربان کرتے وقت لگائے تھے ۔ شریعتِ ابراہیمی میں دستور تھا کہ جس کو قربان گاہ پر چڑھانا مقصود ہوتا تھا یا خدا کی نذر کرنا پیشِ نظر ہوتا تھا ، وہ بار بار معبد یا قربان گاہ کے گرد پھیرے لگاتا تھا۔ حضرت ابراہیم نے جس طرح اپنے آپ کو اور اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کو خدا کے حوالے کیا تھا ، وہ انتہائی غیر معمولی واقعہ ہے ۔ اسی طرح حضرت اسماعیل کا حکمِ الہٰی کے آگے سر جھکانا بھی دنیاے تسلیم و رضا کی روشن ترین مثال ہے ۔ حضرت ابراہیم نے جب حضرت اسماعیل سے پوچھا کہ خدا کا حکم ہوا ہے کہ میں تجھ کو قربان کردوں تو انھوں نے نہایت استقلال کے ساتھ کہا: یہ سر حاضر ہے ۔ اس بات کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں لفظ ’اسلما‘ استعمال کیا جو ’اسلام‘سے ماخوذ ہے اور جس کے معنی تسلیم اور حوالے کر دینے کے ہیں ۔ اسی نسبت سے حضرت ابراہیم کے پیروکاروں کا نام ’مسلم‘رکھا گیا۔
ایک باپ ہی جانتا ہے کہ جب اس کا بچہ اس کے ساتھ چلنے کے قابل ہوتا ہے تو اس کے جذبات کیا ہوتے ہیں اور جب وہ بچہ اس کے ساتھ چھوٹے موٹے کاموں میں ہاتھ بٹانا شروع کرتا ہے تو اس کے اندر خوشی کی کیسی بڑی بڑی لہریں اٹھتی ہیں ۔ اپنے بچے کے اندر بڑھتی ہوئی توانائی اسے کس طرح اپنے اندر بڑھتی ہوئی توانائی محسوس ہوتی ہے۔ حضرت ابراہیم کا معاملہ یہ تھا کہ انھوں نے شرک کی غلاظت میں لتھڑی ہوئی اپنی قوم میں نداے اصلاح بلند کی مگر کسی نے بھی ان کی بات پر کان نہ دھرا ۔ حتیٰ کہ آپ کو آگ میں جلانے کی کوشش کی ۔ چنانچہ حضرت ابراہیم نے وہاں سے ہجرت کی ۔ ایک تو آپ بے اولاد تھے دوسرے اپنے خاندان اور قبیلے سے کٹ کر نئی جگہ آ گئے ، یہاں فطری طور پر آپ کو ساتھی کی ضرورت محسوس ہوئی ۔ لہذا آپ نے دعا فرمائی: ’’اے رب ، ان برے لوگوں کی جگہ مجھے اچھے ساتھی دے ۔‘‘ دعا قبول ہوئی ۔ آپ کے ہاں ایک فرزند کی ولادت ہوئی۔ اس وقت آپ کی عمر ۸۶ سال تھی ۔ آپ کی دل جمعی کا سامان ہو گیا ، لیکن جب آپ کا یہ اکلوتا لڑکا آپ کے ساتھ چلنے پھرنے اور چھوٹے موٹے کاموں میں ہاتھ بٹانے کے مرحلے میں داخل ہوا تو آپ کی زندگی آزمایش کے سخت ترین مرحلے میں داخل ہو گئی۔ قرآنِ مجید میں ہے:
’’پس جب وہ اس کے ساتھ چلنے پھرنے کی عمر کو پہنچا ، اس نے کہا : اے میرے بیٹے ، میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تم کو ذبح کر رہا ہوں ۔ تو غور کر لو تمھاری کیا رائے ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ اے میرے باپ ، آپ کو جو حکم دیا جا رہا ہے اس کی تعمیل کیجیے ۔ آپ ان شاء اللہ مجھے ثابت قدموں میں پائیں گے ۔ پس جب دونوں نے اپنے تئیں اپنے رب کے حوالے کر دیا اور ابراہیم نے اس کو پیشانی کے بل پچھاڑ دیا ۔‘‘(الصافات ۳۷: ۱۰۲ - ۱۰۳)
ان آیات کی تفسیر میں مولانا امین احسن صاحب اصلاحی نے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کے اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کرنے کے جذبے کو مزید نمایاں کر دیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں:
’’اصل مرحلہ یعنی قربانی کا بیان ہو رہا ہے۔’اسلام‘ کے معنی اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دینے کے ہیں ۔ یعنی باپ اور بیٹا دونوں امتحان کے لیے آمادہ ہو گئے ۔ باپ نے بیٹے کو ذبح کر دینے کے لیے چھری نکال لی اور بیٹے نے اپنے آپ کو ذبح کر دینے کے لیے حوالے کر دیا ۔ ’وتله للجبین‘ اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل پچھاڑ دیا ۔ پیشانی کے بل پچھاڑنے کی توجیہ بعض لوگوں نے یہ کی ہے کہ حضرت ابراہیم نے چاہا کہ ذبح کے وقت بیٹے کا محبوب چہرہ سامنے نہ ہوتا کہ رقتِ قلب چھری چلانے میں مانع نہ ہو لیکن یہ توجیہ میرے نزدیک صحیح نہیں ہے جو باپ اس طرح اپنے اکلوتے اور محبوب لختِ جگر پر چھری چلانے کے لیے آستینیں چڑھا لے گا وہ اس قسم کی تسلیوں کا محتاج نہیں ہو سکتا ۔ میرے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے بیٹے کو سجدہ کی حالت میں قربان کرنا چاہا اس وجہ سے پیشانی کے بل پچھاڑا ۔ سجدہ کی ہیئت خدا کے قرب کی سب سے زیادہ محبوب ہیئت اسلام میں بھی ہے ، جیسا کہ ارشاد ہے ’واسجدو اقترب‘(سجدہ کر اور اپنے رب سے قریب تر ہو جا) اور اس کی یہ حیثیت قدیم مذاہب میں بھی مسّلم رہی ہے ۔ یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب بیت اللہ نہ تو تعمیر ہوا تھا اور نہ عبادت کے لیے کوئی متعین قبلہ ہی تھا۔ اگر کوئی متعین قبلہ ہوتا تو ہو سکتا ہے کہ حضرت ابراہیم بھی بیٹے کو قبلہ رخ لٹاتے جس طرح ہم جانوروں کو ذبح کرتے وقت قبلہ رخ لٹاتے ہیں۔‘‘ ( تدبرِ قرآن ،ج ۶ ص۴۸۵ - ۴۸۶)
لہٰذا حاجی صفا اور مروہ کے مابین پھیرے لگا کر اور منیٰ میں جانور ذبح کر کے دراصل علامتی طور پر اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ اے عالم کے پروردگار اگر کبھی تیرا دین ہماری قیمتی ترین چیز قربان کرنے کا تقاضا کرے گا تو سیدنا ابراہیم کی طرح ہم اس کے آگے اپنا سرِ تسلیم خم کر دیں گے ۔
حج کی اس عظیم عبادت میں ذہنی اور روحانی طور پر شریک کرنے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیرحاجیوں کو جانور کی قربانی کرنے کی ہدایت فرمائی ہے ۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ عید الاضحیٰ پر جانور ذبح کرنے کے پیچھے کس قدر غیر معمولی فلسفہ وحکمت کارفرما ہے ۔
ان تمام باتوں کو ذہن میں رکھ کر سوچا جائے کہ کیا عید الاضحیٰپر جانور کی قربانی کرتے وقت ہم پر خود کو اللہ کے حوالے کرنے کے عزم کی وہ کیفیت طاری ہوتی ہے جو اِس ’’رسم‘‘ کی حقیقی روح ہے؟
اگر نماز کے بعد چھوٹا سا خطبہ سننا گوارا نہیں ہے تو یہ کیسی ’’حوالگی‘‘ ہے جس کا اظہار جانور ذبح کر کے کیا جارہا ہے ؟ اگر جانور ذبح کرنے کے سوا ہماری زندگی میں نہ پہلے نماز کا التزام تھا نہ آیندہ ایسا کوئی ارادہ ہے ، نہ پہلے انفاق کیا تھا نہ آیندہ ایسا کوئی ارادہ ہے ، نہ پہلے دین کی نصرت کی تھی اور نہ آیندہ ایسا کوئی ارادہ ہے ، نہ پہلے دل کو پاک کرنے کا کوئی اہتمام تھا نہ آیندہ ایسا کوئی ارادہ ہے ، نہ پہلے جھوٹ ، ملاوٹ ، رشوت ، بدگمانی ، غیبت سے گریز کیا تھا نہ آیندہ ایسا کوئی ارادہ ہے ، اگر ہم دانش ور ہیں تو نہ پہلے قرآن کو اپنے خیالات کا محور و مرکز بنایا نہ آیندہ ایسا کوئی ارادہ ہے ، اسی طرح اگر ہم حکمران ہیں تو نہ پہلے ریاست کے بارے میں احکامِ الہٰی پر عمل کیا تھا نہ آیندہ ایسا کوئی ارادہ ہے تو ہمیں اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ ہم کیسی قربانی کر رہے ہیں جس کا قربانی کے فلسفے کے ساتھ کوئی حقیقی تعلق ہی نہیں ہے اور قربانی کے اصل تقاضوں کو مجروح کرتی ہوئی جو زندگی ہم گزار رہے ہیں ، اس میں قربانی کر کے کہیں ہم دین و شریعت کے ساتھ مذاق کرنے کی سنگین جسارت تو نہیں کر رہے ؟
___________