محمد بلال
’’اسفار ہند‘‘ مولانا وحید الدین خاں کے ملکی سفر ناموں کا مجموعہ ہے ۔ اس مجموعے کی تمہید میں مولانا لکھتے ہیں:
’’یہ سفرنامے سادہ طور پر سفر نامے نہیں ہیں بلکہ وہ وسیع تر ہندوستان کا مطالعہ ہیں ۔ ان میں دوسرے فرقوں اور مذہبوں کے بارے میں تفصیلی معلومات جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ یہ گویا سفر نامہ کی صورت میں ملک کی تاریخ کا ایک مطالعہ ہے ۔
راقم الحروف کا مقصد ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ اس ملک میں مختلف فرقے مل جل کر امن کے ساتھ رہیں ...... امن کے بغیر کسی بھی قسم کی ترقی نہیں ہو سکتی ۔ اسی کے ساتھ راقم الحروف کا ایک مستقل مشن یہ رہا ہے کہ وہ اسلام کے خلاف غلط فہمیوں کو دور کرے اور اسلام کا مثبت تعارف لوگوں تک پہنچائے ۔ اس کے نمونے بھی زیر نظر مجموعہ میں قاری کے سامنے آئیں گے ۔
یہ سفر نامے بظاہر وقتی ہیں۔ مگر ان میں جن باتوں کو شامل کیا گیا ہے وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے دائمی ہیں ۔ یہ وقتی حالات کی زبان میں ابدی قدروں کا بیان ہے ۔ اس کی افادیت کسی زمانہ کے ساتھ بندھی ہوئی نہیں۔‘‘
اسی طرح مولانا وحید الدین خاں ’’سفرنامہ، غیر ملکی اسفار جلد ۱‘‘ کے ’’آغازِ کلام‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’میں جہاں بھی گیا ، اپنے ذوق کے مطابق ہر قسم کی باتیں جاننے کی کوشش کرتا رہا ۔ اس طرح میرا سفرنامہ صرف کانفرنسوں کی روداد نہیں ہے ، بلکہ وہ مختلف قسم کی معلومات کا مجموعہ بن گیا ہے ۔ تاہم مجھے انھی معلومات سے دلچسپی ہوتی ہے جن میں سبق ہو ۔ معلومات براے معلومات کا مجھے کوئی ذوق نہیں ۔‘‘
یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک شخص کو سفر کے دوران میں جو مشاہدات اور تجربات حاصل ہوتے ہیں ان کے اظہار میں اس کے مخصوص مزاج کا رنگ آپ سے آپ ظاہر ہو جاتا ہے ۔ اگر سفرنامہ نگار علمی اور دعوتی مزاج کا حامل ہو گا تو اس کے سفر نامے میں بھی علمی اور دعوتی باتیں فطری طور پر نسبتاً زیادہ جگہ پا لیں گی ۔ اگر ایک شخص معاش کو انسان کا سب سے بڑا مسئلہ سمجھنے کا قائل ہو گا تو اس کے سفر نامے میں کارخانوں ، فیکٹریوں ، دکانوں ، چیزوں کے نرخوں کی باتیں دوسری سب باتوں سے زیادہ نمایاں ہو جائیں گی ۔
مولانا وحید الدین خاں ایک علمی اور دعوتی شخصیت ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے سفرناموں میں علم اور دعوت کی خصوصیات نمایاں طور پر موجود ہوتی ہیں ۔
اس وقت ’’ادبیات‘‘ کے ذیل میں ’’میں حاضر ہوں! میں حاضر ہوں!‘‘ کے عنوان سے ایک سفرنامہ طبع کیا گیا ہے ۔ امید ہے قارئینِ کرام سفرنامے کے بارے میں اوپر مذکور امور ذہن میں رکھ کر اس کا مطالعہ کریں گے ۔
’’مکاتیب‘‘ کے تحت ’’اشراق‘‘ میں خطوط کی اشاعت کا اہتمام وقتا ً فوقتا ً ہوتا رہتا ہے ، مگر اب ہم نے اس سلسلے کو مستقل طور پر جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اس کے لیے مدیرِ ’’اشراق‘‘ کے نام اُس وقت کے علمی خطوط کا انتخاب کیا ہے جب ’’اشراق‘‘ جاری ہوا ہی تھا اور ’’المورد‘‘ ابھی اپنے ابتدائی خدوخال واضح کر رہا تھا ۔
ان خطوط کا مطالعہ کرتے وقت ازراہِ کرم ان کے اوپر درج تاریخوں کو ضرور پیشِ نظر رکھا جائے ، بصورتِ دیگر ان میں زیر بحث آنے والے بعض مسائل کی تفہیم میں دشواری ہو سکتی ہے۔
’’وفیات‘‘ کے ذیل میں پروفیسر مرزا محمد منور مرحوم پر ایک تحریر شائع کی گئی ہے ۔ دراصل مرزا صاحب کی وفات اس موقع پر ہوئی جب ’’اشراق‘‘ اپنی تیاری کے آخری مراحل میں داخل ہوجاتا ہے۔ لہٰذا اس وقت مرزا صاحب کے بارے میں مختصر تحریر لکھی گئی ہے ۔ اگلے شمارے میں ان شاء اللہ آپ کے کام کا ذکر قدرے تفصیل سے کیا جائے گا۔
مولانا سید ابو الحسن ندوی مرحوم کی وفات پر تفصیلی تحریر پچھلے شمارے میں شائع ہو چکی ہے ۔ اس اشاعت میں بھی ندوی صاحب پر ایک مختصرتحریر شائع کی گئی ہے ۔ یہ تحریر ان کی شخصیت کے ایک خاص پہلو کو نمایاں کرتی ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ندوی صاحب کی شخصیت اتنی بڑی ہے کہ صرف ایک تحریر سے آپ کا حق ادا نہیں ہوتا ۔
اس کے عوہ ’’شذرات‘‘، ’’قرآنیات‘‘، ’’معارفِ نبوی‘‘، ’’مناجات‘‘، ’’دین و دانش‘‘ اور ’’یسئلون‘‘ کے سلسلے حسبِ سابق موجود ہیں ۔
___________