HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد ذکوان ندوی

انسان رخی طرز فکر

ایک بزرگ کا فون آیا۔ اپنے نقطۂ نظر کے مطابق، اصلاً وہ مجھ سے یہ معلوم کرنا چاہتے تھے کہ کیا دوسرا اور کوئی شخص ہے جسے میں نے ’صاحب معرفت‘ پایا ہے۔ چند سوالات کے بعد انھوں نے پوچھا: آپ نے کن بزرگوں کو اُن کی وفات سے قبل دیکھا ہے؟ میں نے کہا: حالت شعور میں، میں نے صرف ایک ’بزرگ‘ کو دیکھا ہے اور وہ آپ ہیں۔اِس سے قبل بے شعوری کے دور میں ایسے کئی ’بزرگوں‘ کو دیکھنے اور اُن سے ملاقات کرنے کا موقع ملا ہے، مگر بے شعوری کے دور کا کوئی اعتبار نہیں!

جلد ہی بعد موصوف کے ایک ساتھی نے اُن کے حوالے سے دوبارہ فون پر یہی سوال کیا اور پھر اِن الفاظ میں مجھے اپنا سوال بھیجا:

’’آپ نے کن بزرگوں کی تحریر وں کو خدا مرکزی پایا اور کن بزرگوں کی تحریر وں کو حضرت مرکزی پایا...؟‘‘

اِس قسم کے ’’حضرت مرکزی‘‘ سوالات سے دل چسپی کے بجاے ہمیں چاہیے کہ ہم انسانیت مرکزی سوالات سے دل چسپی پیدا کریں، یعنی ایسے موضوعات جن سے انسان کی حقیقی فلاح و بہبود وابستہ ہو۔ رضاے الہٰی اور انسانی ہم دردی کے جذبے کے تحت کی جانے والی یہی انسان رخی سرگرمی دراصل دینی سرگرمی ہے۔ مثلاً مخلصانہ جذبے کے تحت بلا تفریق لوگوں کے لیے اُن کی بنیادی ضرورتوں کا نظم کرنا، جیسے غذا و صحت اور دینی اوراخلاقی تعلیم و تربیت، وغیرہ۔

موجودہ زمانے میں خود دوا اور بنیادی غذائی اشیا میں عظیم فساد کی بنا پر ’تغییر خلق‘[1] (النساء ۴: ۱۱۹) کا چیلنج انسانیت کو درپیش ہے[2]۔  اِس طرح عملاً ہر سطح پر انسان کو غیرانسان بنائے جانے (dehumanization) کا عمل انتہائی تیزی کے ساتھ جاری ہے۔ اِس کے نتیجے میں نہ صرف مہلک بیماری اور عدم تغذیہ کا ناقابل تلافی بحران پیدا ہوگیا ہے، بلکہ اِس فساد کے ذریعے سے سرے سے اُس جوہرفطرت ہی کا خاتمہ کیا جارہا ہے جو نہ صرف وحی ودعوت کا مخاطب ہے ، بلکہ یہی ربانی فطرت آدمی کا اصل امتیاز ہے۔ اِسی فطرت کی بنا پر انسان انسان ہے اور جب خود انسان کا انسان ہونا ہی خطرے میں پڑجائے ، اُس وقت یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ ہمارا اولین ترجیحی کام کیا ہونا چاہیے۔

اِس وقت انسانیت کورونا (COVID-19) کے تحت برپا عظیم بحران سے گزررہی ہے۔ ایسی حالت میں، علم و اخلاق کا تقاضا ہے کہ ہم درست رہنمائی کے ساتھ انسان کو اپنا عملی تعاون بھی فراہم کریں۔ یہ وقت لوگوں کے ایمان و معرفت کو جانچنے کا نہیں؛ نہ خدا نے ہمیں اِس کا مکلف بنایا ہے اور نہ اِس کے لیے خد اکو ہرگز کسی شخص کے سرٹیفکیٹ کی کوئی ضرورت ہے۔

ناگزیر علمی اور دینی ضرورت کے تحت کسی آدمی کے فکر وعمل کا دیانت دارانہ تجزیہ ایک الگ چیزہے ، مگر کون خدا کاعارف تھا اور کون نہیں، اِس قسم کی چیزوں کوموضوع بنانا علم اورسنجیدگی، دونوں کے خلاف ہے۔ لوگوں کی نسبت سے ہماری جو ذمہ داری ہے ، وہ صرف اُنھیں بتانا اور سمجھانا ہے، نہ کہ اُن پر اِس طرح کا کوئی حکم لگانا۔یہی وجہ ہے کہ گذشتہ لوگوں کے متعلق قرآن مجید کا صریح ارشاد ہے: ’تِلْكَ اُمَّةٌ قَدْ خَلَتْﵐ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَّا كَسَبْتُمْﵐ وَلَا تُسْـَٔلُوْنَ عَمَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ‘ [3] (البقرہ ۲: ۱۴۱)۔

ایک مفکر نے بجا طورپر کہا تھا کہ ـــــــ لوگوں سے وہ سوال نہ کرو جو خدا کو اُن سے کرنا ہے، بلکہ وہ سوال کرو جو انسان کو انسان سے کرنا چاہیے۔کون صاحب معرفت تھا اور کون نہیں، کس کی معرفت اعلیٰ تھی اور کس کی معرفت غیر اعلیٰ؛ یہ سوال بلاشبہ خدا سے متعلق ہے، نہ کہ انسان سے۔ آدمی کو دوسرے انسانوں کی نسبت سے صرف اپنی ذمہ داری ادا کرنا ہے، نہ کہ اِس طر ح اُن کے ایمان و معرفت کا احتساب کرنا ـــــــ حقیقی معرفت آدمی کے اندر خوداحتسابی کا مزاج پیدا کرتی ہے، نہ کہ غیر احتسابی کا مزاج۔

(لکھنؤ ۱۹/ جون ۲۰۲۰ء)

ـــــــــــــــــــــــــ

[1]۔ سورۂ روم (۳۰) کی آیت ۳۰ سے متعین ہوجاتا ہے کہ یہاں ’خَلْق‘ سے مراد وہ اصل فطرت ہے جس پر انسان کو پیدا کیا گیا ہے۔ یہی فطرت ہے جس کو ’تقوٰي‘ اور ’فجور‘ (الشمس ۹۱: ۸)کا حامل بنایا گیا ہے۔اِسی فطرت کے تحت آدمی حق و باطل کے درمیان تمیز کرتا اورخیر کو خیر اور شر کو شر سمجھتا ہے۔ انسان کے اندر یہ فطرت جب مسخ و تغییر کے فساد کا شکار ہوجائے تو پھر وہ انسان نہیں، بلکہ دو پیروں پر چلنے والا صرف ایک ایسا حیوان بن کر رہ جاتا ہے جس میں حیوانیت کے سوا انسان کے ساتھ اور کوئی مشابہت باقی نہیں رہتی۔دور آخر میں ظاہر ہونے والے یہی وہ جینیاتی مقلوب افراد (GMS) ہیں جن کو احادیث میں ’حُثالة‘ (بخاری، رقم ۶۷۱۰) اور ’عَجاجة‘(احمد، رقم  ۶۹۶۴) کہا گیا ہے، یعنی بے خیر و بے فیض قسم کے پست و اراذل لوگ۔اِنھی کے متعلق ارشاد نبوی ہے: ’لا یعرفون معروفًا، ولا یُنکرون منکرًا‘ (احمد، رقم۶۹۶۴)،یعنی اِن کو نہ کسی معروف کا شعور ہوگا اور نہ کسی منکر کا احساس۔

[2]۔ تفصیل کے لیے حسب ذیل کتب ملاحظہ فرمائیں، خصوصاً پہلی کتاب کے آخر میں درج کتابیں:

1. Your Doctor Is A Liar, by James Paul Roguski.

2. Death By Prescription: The Shocking Truth Behind an Overmedicated Nation, by Ray Strand.

3. Safety Of Genetically Modified Foods. National Research Council, Washington DC.

B