محمد وسیم اختر مفتی
[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں ، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
حضرت حذیفہ فرماتے ہیں:نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں کوئی شخص ایک کلمۂ نفاق کہتاتھا تومنافق شمار ہونے لگتا تھا۔ آج میں تم میں سے ہر ایک کو ایک ہی مجلس میں ایسے دسیوں کلمات کہتے سنتا ہوں (احمد، رقم ۲۳۲۷۸) ۔
کچھ لوگ کوفہ کی مسجد میں حضرت عبداللہ بن مسعودکے حلقے میں بیٹھے تھے کہ حضرت حذیفہ بن یمان آئے اورسلام کرنے کے بعد کہا:نفاق نے اس قوم میں جنم لیا تھا جو تم سے بہتر تھی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود مسکرائے اور حضرت حذیفہ مسجد کے کونے میں بیٹھ گئے۔ حضرت ابن مسعود اور ان کے حاضرین اٹھ گئے تو حضرت حذیفہ نے وہاں پر موجود اسود بن یزیدکو بلایا اور کہا: مجھے ابن مسعود کی مسکراہٹ پر حیرت ہے،وہ قوم تم سے بہتر تھی،جن اہل نفاق(مثلاً حضرت عبداللہ بن مسعود کے استاذ حضرت مجمع بن جاریہ ) نے توبہ کی تو اللہ نے انھیں معاف کر دیا(بخاری، رقم۴۶۰۲)۔ حضرت حذیفہ کے کہنے کا مطلب تھا، تم تابعین سے بہتر طبقہ صحابہ میں نفاق در آیا، اس لیے تمھیں بے پروا نہیں ہوناچاہیے۔ دل بدل بھی جاتے ہیں ،خاتمہ بالخیر کی تمنا کرنی چاہیے۔
زید بن وہب حضرت حذیفہ کی مجلس میں بیٹھے تھے کہ انھوں نے بتایاکہ منافقین میں سے اب چارہی باقی رہ گئے ہیں ۔ ان میں سے ایک اتنا بوڑھا ہے کہ اگر ٹھنڈا پانی پی لے تواسے اس کی ٹھنڈک ہی محسوس نہ ہو(بخاری، رقم ۴۶۵۸) ۔
حضرت حذیفہ فرماتے ہیں:آج(زمانۂ خلافت ابوبکر و عمر ) کے منافقین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کے منافقوں سے بدتر ہیں ۔ تب وہ رازداری سے کام لیتے تھے اور اب یہ اپنی سرگرمیاں علانیہ کرتے ہیں (بخاری، رقم۷۱۱۳)۔
حضرت حذیفہ بن یمان کہتے ہیں:لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کی بابت پوچھتے تھے اور میں شر کے بارے میں سوال کرتا تھا، اس اندیشے سے کہ مجھے لاحق نہ ہو جائے۔ چنانچہ میں نے سوال کیا: یا رسول اللہ ، ہم جاہلیت کے شر میں مبتلا تھے۔ اللہ نے ہمیں اسلام کے خیر سے نوازا، کیا اس خیر کے بعد بھی کوئی شر آنے والا ہے؟آپ نے فرمایا: ہاں ، لوگ میری سنت اور ہدایت چھوڑ دیں گے اور دوسرے طریقوں اوررواجوں پر عمل پیرا ہوجائیں گے۔ تم انھیں پہچان لو گے اور ان پر نکیر کرو گے، کتاب اللہ کا علم حاصل کرنااور اس کے احکام پر عمل کرنا۔ میں نے پوچھا: اس کے بعد آنے والا شر کیا ہو گا؟ فرمایا:ایک اندھا بہرا فتنہ، جہنم کے دروازوں پر داعی بیٹھے ہوں گے،جو ان کی سنے گا، اسے جہنم میں پھینک دیں گے۔ میں نے کہا: ان کی وضاحت فرمائیے۔ ارشاد ہوا: یہ ہمارے جیسے لوگ ہی ہوں گے اور ہماری ہی زبان بولتے ہوں گے۔ میں نے کہا: یا رسول اللہ ،میرے لیے کیا حکم ہے، اگر میراان سے سامنا ہو ؟فرمایا: مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام سے چپکے رہنا۔ میں نے سوال کیا: اگر جماعت ہو نہ امام؟فرمایا: تمام گروہوں سے الگ ہو جانا،چاہے درخت کے تنے سے چمٹنا پڑے،حتیٰ کہ تمھیں اسی حالت میں موت آجائے (بخاری،رقم۳۶۰۷ ، ۷۰۸۴۔مسلم،رقم۴۷۸۴۔ابن ماجہ،رقم ۳۹۷۹۔ احمد، رقم ۲۳۲۸۲)۔ اوزاعی کہتے ہیں:آپ کے فرمودہ لفظ ’دخن‘ سے مراد فتنۂ ارتداد ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے فوراً بعد ظاہر ہوا۔
حضرت حذیفہ بن یمان فرماتے ہیں:واللہ، میں ہر فتنے کاجو آج سے لے کر قیامت تک ظاہر ہو گا،سب لوگوں سے زیادہ علم رکھتا ہوں ۔ یہ بات نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے یہ باتیں رازمیں کی ہوں اورکسی اور کو نہ بتائی ہوں ۔ آپ نے ایک مجلس میں فتنوں کا بیان کیا جس میں میں بھی موجود تھا۔ اس مجلس میں شریک سب لوگ وفات پا چکے ہیں ،اکیلا میں ہی رہ گیا ہوں ۔ آپ نے فرمایا:تین فتنے ایسے ہیں کہ سب کچھ تباہ کر دیں گے، کچھ نہ چھوڑیں گے۔ بعض فتنے گرمیوں کی آندھیوں کی طرح ہوں گے،کچھ چھوٹے، کچھ بڑے ہوں گے(مسلم، رقم۷۲۶۲۔احمد، رقم۲۳۲۹۱)۔ حضرت حذیفہ بیان کرتے ہیں: ہم عمر کی مجلس میں بیٹھے تھے۔ انھوں نے پوچھا: تم میں سے کسے فتنہ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث یاد ہے؟میں نے کہا: مجھے۔ کہا: بتاؤ، تم بڑے دلیر ہو۔ میں نے بتایا: اہل،مال، اولاد اور پڑوسیوں کے بارے میں آنے والی آزمایشوں کو نماز اور صدقہ دور کر دیتے ہیں ۔ حضرت عمر نے کہا: میری مراد اس فتنے سے ہے جو سمندر کی لہروں کی طرح موجیں مارے گا۔ میں نے کہا:امیر المومنین،اس فتنے اور آپ کے درمیان ایک بند دروازہ (ایک شخص)حائل ہے، اس لیے آپ کو اس سے کچھ نقصان نہ ہو گا۔ ان کا اگلا سوال تھا: تو کیا یہ دروازہ کھلے گا یا ٹوٹے گا،(یعنی وہ شخص قتل ہو گا)؟ میں نے جواب دیا: وہ ٹوٹے گا۔ حضرت عمر نے کہا:تب تو وہ کبھی بند نہ ہو سکے گا۔ حاضرین نے حضرت حذیفہ سے پوچھا:کیا عمر اس دروازے کے بارے میں جانتے تھے؟ انھوں نے کہا: ہاں، اس طرح جس طرح وہ جانتے تھے کہ دن کے بعد رات آئے گی۔ میں نے انھیں حدیث رسول سنائی ہے، غلط باتیں نہیں بتائیں۔ مسروق نے بتایا: وہ دروازہ خود حضرت عمر تھے، چنانچہ ان کی شہادت کے بعد فتنوں کا آغاز ہو گیا۔ حضرت حذیفہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سنایا:دلوں پر فتنے اس طرح وارد ہوتے ہیں، جس طرح چٹائی تنکا تنکا کر کے بنی جاتی ہے،جس د ل میں فتنہ رچ بس جاتاہے،ایک سیاہ داغ چھوڑ جاتا ہے اور جواسے قبول کرنے سے ابا کرتا ہے،اس میں سفید نورانی نشان پیدا ہو جاتا ہے،اس دل کوآیندہ آنے والے فتنے ضرر نہ پہنچا سکیں گے (بخاری، رقم ۷۰۹۶۔مسلم، رقم ۳۶۹۔ ترمذی، رقم۲۲۵۸۔ابن ماجہ، رقم۳۹۵۵۔ احمد، رقم ۲۳۲۸۰)۔
ایک شخص نے حضرت حذیفہ سے سوال کیا:کون سا فتنہ شدید ترین ہے؟انھوں نے جواب دیا: یہ کہ تمھاراسامنا خیر و شر سے ہو اور تمھیں سمجھ نہ آئے کہ کس کو اختیار کروں ۔
حضرت حذیفہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آمدہ فتنوں کا بیان فرمایا تو میں نے ہر شے کے بارے میں سوال کیا، البتہ اہل مدینہ کو مدینہ سے نکالنے والوں کے بارے میں نہ پوچھ سکا(مسلم، رقم ۷۳۶۸۔ احمد، رقم۲۳۲۸۱)۔ ابن حجر کہتے ہیں: حضرت ابوہریرہ کوان لوگوں کے بارے میں علم تھا،انھوں نے بتایا: برے حکمران ہوں گے جو لوگوں کوشہر مدینہ سے نکالیں گے(تحفۃ الاشراف ۳۳۷۰)۔ دوسری روایت میں ہے:حضرت حذیفہ کہتے ہیں:نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں وعظ فرمایا اوراس میں قیامت تک پیش آنے والی (ہدایت و ضلالت کے اعتبار سے قابل ذکر ) کسی بات کو نہ چھوڑا۔ آپ کے ارشادات کچھ لوگوں نے یاد رکھے،کچھ ان سے غافل ہو گئے۔ میر ا یہ حال ہے کہ لگتا ہے کہ ایک شے بھول گئی ہے، لیکن پھر یاد آ جاتی ہے جس طرح ایک دور چلے جانے والے شخص کو دوبارہ دیکھنے پر انسان پہچان لیتا ہے(بخاری، رقم ۶۶۰۴۔ مسلم، رقم۷۲۶۳۔ابوداؤد، رقم۴۲۴۰۔ احمد، رقم۲۳۲۷۴)۔
حضرت حذیفہ بن یمان کہتے ہیں:میں ایک شخص کو جانتا ہوں جسے فتنہ کوئی ضرر نہ پہنچائے گا،وہ محمد بن مسلمہ ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا:تمھیں فتنہ کوئی ضرر نہ پہنچائے گا(ابو داؤد، رقم۴۶۶۳)۔ راوی ثعلبہ بن ضبیعہ نے بتایا کہ ہم نے محمد بن مسلمہ کو مدینہ سے باہر ایک خیمے میں مقیم دیکھا۔ وہ کہتے تھے: میں کسی شہر میں نہ رہوں گا، حتیٰ کہ ملت اسلامیہ سے فتنہ زائل ہو جائے(ابوداؤد، رقم ۴۶۶۴۔ مستدرک حاکم، رقم ۵۸۳۷)۔
رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حذیفہ بن یمان کی تین خصوصیات کوخوب جانچ لیا تھا: غیرمعمولی ذہانت جو الجھنوں کو سلجھا دے، پکار پر لبیک کہنا اورعمل پرفوراً آمادہ ہوجانا اورراز داری۔
کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نرکل کے جھونپڑے کا مقدمہ لے کر آئے جو دونوں فریقوں کے زیر استعمال تھا۔ آپ نے فیصلہ کرنے کے لیے حضرت حذیفہ کو بھیجا۔ انھوں نے فیصلہ کیا: جھونپڑا اس کا ہے جس کے پاس اس کو باندھنے والی رسی ہے۔ سرکنڈے کا نرم حصہ، یعنی کھجور کے پتے اور چھلکا جھونپڑی کے مالک کی طرف ہوتے ہیں اور سخت اور کھردرا حصہ دوسری طرف ہوتا ہے۔ حضرت حذیفہ نے واپس آ کر آپ کو بتایا تو فرمایا:تو نے درست اور خوب فیصلہ کیا ہے (ابن ماجہ، رقم۲۳۴۳)۔
حضرت حذیفہ بن یمان نماز پڑھاتے پڑھاتے رونے لگ گئے۔ نمازسے فارغ ہونے کے بعد پیچھے کھڑے آدمی سے کہا: یہ بات کسی کونہ بتانا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’کوئی نبی ایسا نہیں گزرا کہ اسے سات معزز رفقا و وزرا نہ دیے گئے ہوں، جب کہ مجھے چودہ نقیبوں (سات قریش سے اور سات باقی مہاجرین میں سے) کی معیت حاصل ہے۔ ان کے نام یہ ہیں ، حمزہ، جعفر، علی، حسن، حسین، ابوبکر،عمر، مقداد،عبداﷲ بن مسعود، حذیفہ، سلمان، عمار، مصعب،بلال اور ابوذر ‘‘ (ترمذی، رقم۳۷۸۵۔احمد، رقم ۶۶۵ ، ۱۲۶۳)۔یہ روایت موقوف ہے۔
ایک بار حضرت عمر بن خطاب نے اپنی مجلس میں بیٹھے ہوئے افرادکو اپنی اپنی خواہشیں بیان کرنے کو کہا۔ ایک شخص نے کہا:میری خواہش ہے،یہ گھر درہموں سے بھرا ہو اور میں سارے درہم اللہ کی راہ میں خرچ کر دوں۔ دوسرے نے کہا: میری آرزو ہے، یہ گھر سونے سے پر ہو اور میں سارا سونا اللہ کی خاطر لٹا دوں ۔ تیسرے نے اپنی تمنا یوں بیان کی: میرا دل چاہتا ہے،یہ حویلی جواہرات سے لبریز ہو اور میں ان سب کو راہ خدا میں انفاق کر دوں ۔ حضرت عمر نے کہا: میری خواہش تو یہ ہے کہ اس مکان میں ابوعبیدہ بن جراح، معاذ بن جبل اور حذیفہ بن یمان جیسے لوگ رونق افروز ہوتے اور میں ان سب کو اللہ کی راہ میں عامل مقرر کر دیتا۔ پھر حضرت عمر نے کچھ مال حضرت ابوعبیدہ کے پاس بھیجا اور کہا:دیکھو وہ کیا کرتے ہیں ۔ حضرت ابوعبیدہ نے وہ مال تقسیم کر دیا۔ حضرت عمر نے کچھ مال حضرت حذیفہ کے پاس بھی بھیجا اور کہا:دیکھو وہ کیا کرتے ہیں ۔ حضرت حذیفہ نے بھی وہ مال فوراً بانٹ دیا(التاریخ الصغیر، بخاری ۳۱۔مستدرک حاکم، رقم۵۱۴۴)۔
صحابہ نے کہا: یارسول اللہ ،آپ اپناجانشین مقرر فرمادیتے۔ فرمایا:اگر میں نے اپنا خلیفہ مقرر کر دیا اور تم نے اس کی نافرمانی کی تو مستحق عذاب ٹھیرو گے، تاہم حذیفہ جوتم کو بتائے، اسے سچ سمجھو اور عبداللہ بن مسعود جس طرح قرآن پڑھ کر سنائے، ویسا ہی پڑھو(ترمذی، رقم ۳۸۱۲)۔ امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن بتایا ہے، جب کہ البانی ضعیف قرار دیتے ہیں ۔
شیعہ حضرت حذیفہ کو حضرت علی کے اہم اصحاب میں شمار کرتے ہیں ۔
حضرت حذیفہ مدائن میں تھے تو لوگوں کو و ہ باتیں بتا دیتے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعض صحابہ کو ناراض ہو کر کہی تھیں ۔ ان لوگوں نے حضرت سلمان فارسی سے ذکر کیا توانھوں نے یہ کہہ کر ٹال دیا: ان باتوں کا حذیفہ ہی کوزیادہ علم ہو گا۔ تب حضرت حذیفہ حضرت سلمان فارسی سے ملنے ان کے کھیت میں گئے اور پوچھا: آپ میرے بتائے فرامین رسول کی تصدیق کیوں نہیں کرتے۔ حضرت سلمان نے کہا:رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ سے ناراض بھی ہوتے تھے اور خوش بھی۔ مختلف مواقع پر کیے گئے آپ کے تبصروں کو بیان کر نے سے کچھ صحابہ سے محبت بڑھے گی او رکچھ سے بغض جنم لے گا،اس طرح امت افتراق و انتشارکا شکار ہو جائے گی۔ آپ ایسا کرنا چھوڑیں، نہیں توعمر کو لکھ بھیجوں گا۔ بعد میں یہ معاملہ سلجھ گیا(ابوداؤد، رقم۴۶۵۹)۔
حضرت حذیفہ فرماتے ہیں:میں اپنی اہلیہ کے ساتھ سخت زبان استعمال کرتا تھا، گھر والوں کے علاوہ کسی سے یہ معاملہ نہ ہوتا۔ میں نے یہ مسئلہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا۔ آپ نے فرمایا:تو استغفار کیوں نہیں کرتا؟دن میں ستر دفعہ اللہ سے مغفرت طلب کیا کرو۔ میں دن میں ستر بار (دوسری روایت: سو بار )اللہ سے مغفرت مانگتا ہوں (ابن ماجہ، رقم ۳۸۱۷۔احمد، رقم ۲۳۳۴۰)۔
حضرت حذیفہ بن یمان کی انگوٹھی میں دو مرغابیاں بنی ہوئی تھیں اور درمیان میں ’الحمد للہ‘ نقش تھا۔
ایک شخص نے نماز جلد جلدپڑھی، رکوع و سجودبھی پوری طرح ادا نہ کیے، حضرت حذیفہ بن یمان اسے دیکھ رہے تھے۔ وہ فارغ ہوا توپوچھا:تم کب سے اس طریقے سے نماز پڑھ رہے ہو؟اس نے بتایا:چالیس سال سے۔ فرمایا:تم نے چالیس سال سے کامل نماز نہیں پڑھی۔ اسی طرح نماز ادا کرتے مر جاتے تو تمھارا خاتمہ امت محمد پر نہ ہوتا۔ آدمی ہلکی نماز پڑھ لے، لیکن رکوع و سجودپوری اور اچھی طرح ادا کرے(بخاری، رقم۳۸۹۔نسائی، رقم ۱۳۱۳۔احمد، رقم۲۳۲۵۸)۔
ایک بار مدائن میں حضرت عمار بن یاسر نماز کی امامت کرنے کے لیے مسجد کے چبوترے پر کھڑے ہوگئے۔ مقتدی ان سے نیچے کھڑے تھے، یہ صورت حال دیکھ کر وہاں پر موجودحضرت حذیفہ آگے بڑھے اور ان کے ہاتھ پکڑ لیے۔ حضرت عمار ان کے کھینچنے پرنیچے اتر آئے۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد حضرت حذیفہ نے کہا:آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نہیں سنا کہ ’’جب امام نماز پڑھانے لگے تومقتدیوں سے اونچی جگہ پرنہ کھڑا ہو؟ ‘‘ حضرت عمار نے جواب دیا:اسی لیے تو میں نے ہاتھ پکڑنے پر آپ کی بات مان لی تھی (ابوداؤد، رقم۵۹۸)۔
ت حضرت حذیفہ بن یمان نے علماے دین کو(جو اس وقت قاری کہلاتے تھے)تلقین کی:اللہ کے اوامر و نواہی پر عمل کرو،تم سے پہلے سابقین کی مثالیں گزر چکیں ۔ اگر تم اللہ کے صراط مستقیم سے ہٹ کردائیں بائیں کا رستہ لو گے تو دور کی گم راہی میں جا پڑوگے(بخاری، رقم۷۲۸۲)۔
حضرت حذیفہ مسجد میں بیٹھے تھے کہ لوگوں نے بتایا: فلاں شخص لوگوں کی باتیں امیر (المومنین حضرت عثمان ) تک پہنچاتا ہے۔ حضرت حذیفہ نے اسے سنانے کو کہا:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے: چغل خور جنت میں نہ جائے گا(بخاری، رقم۶۰۵۶۔مسلم، رقم۲۹۲۔ترمذی، رقم۲۰۲۶۔احمد، رقم ۲۳۳۰۵)۔
حمد وثنا کے بعد فرمایا:’اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ‘۔ خبردار ہو جاؤ، قیامت کی گھڑی قریب آچکی ہے،سن رکھو، چاندشق ہو گیا ہے،آگاہ رہو، دنیا جدائی کا اعلان کر رہی ہے،سن لو کہ آج اونٹوں کومقابلے کے لیے تیار کرانے کا دن ہے اور کل ان کے دوڑنے کا دن ہو گا۔ مسلمان کا دوڑنا یہ ہے کہ جنت کی طرف پیش قدمی کرے۔
حضرت حذیفہ کی تفسیری روایات بھی موجود ہیں:
سورۂ بقرہ کی آیت ۱۹۵: ’وَاَنْفِقُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَي التَّهْلُكَةِ‘، ’’اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو‘‘کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی راہ میں انفاق ترک کرنے کے بارے میں نازل ہوئی(بخاری، رقم۴۵۱۶)۔ ابن حجر کہتے ہیں:حضرت حذیفہ کے اس قول کی وضاحت اس واقعے سے ہو جاتی ہے جو قسطنطنیہ کی ایک جنگ میں پیش آیا۔ ایک مرد جری رومیوں کی صفوں میں گھس گیا اور قتال کر کے صحیح سلامت لوٹ آیا۔ لوگوں نے نعرہ بلند کیا:سبحان اللہ،اس نے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالا۔ حضرت ابوایوب انصاری نے کہا:لوگو، تم اس آیت کی یہ تاویل کررہے ہو، حالاں کہ یہ ارشادباری ہم انصارکے بارے میں نازل ہوا۔ جب اللہ نے اپنے دین کی عزت افزائی کی اور اس کے نصرت کنندگان کی تعداد بڑھ گئی تو ہم نے مشورہ کیا کہ ہمارا بہت مال صرف ہو چکا، اب ہم اسے بچائیں اور ضائع شدہ مال پھر سے جمع کر لیں تو یہ فرمان نازل ہوا۔ گویا ہماری مال بچانے کی نیت تہلکہ تھی (فتح الباری، شرح حدیث۴۵۱۶)۔
حضرت سعید بن العاص نے حضرت ابوموسیٰ اشعری اور حضرت حذیفہ بن یمان سے پوچھا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر اور عید الاضحیٰ میں تکبیریں کس طرح کہتے تھے؟حضرت ابوموسیٰ نے بتایا: آپ جنازوں کی طرح چار تکبیریں کہتے۔ حضرت حذیفہ نے کہا: سچ ہے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری نے کہا: میں بصرہ میں تھا تو ایسے ہی کیا کرتا تھا (ابوداؤد، رقم۱۱۵۳۔احمد، رقم۱۹۷۳۴)۔
عام مسلک یہ ہے کہ نفلی روزے کی نیت دن چڑھے،زوال سے پہلے کی جا سکتی ہے، تاہم حضرت حذیفہ بن یمان کہتے ہیں:جوآدمی زوال کے بعد بھی روزے کی نیت کرنا چاہے کر سکتا ہے(ابن ابی شیبہ،مصنف عبدارزاق، رقم۷۷۸۰)۔
حضرت حذیفہ کی کچھ روایتیں عام مسلک سے مطابقت نہیں رکھتیں جیسے زر بن حبیش کے پوچھنے پر انھوں نے بتایا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دن چڑھے، لیکن سورج نکلنے سے پہلے سحری کیا کرتے تھے (احمد، رقم ۲۳۴۰۰۔السنن الکبریٰ، نسائی، رقم۲۴۷۳۔ابن ماجہ، رقم ۱۶۹۵)۔ ابواسحاق کہتے ہیں:یہ روایت منسوخ ہے،اس کاکچھ اعتبار نہیں ۔ علامہ سندھی نے تاویل کی کہ دن سے مراد شرعی دن ہے اوردن چڑھنے سے مراد طلوع فجر ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ(اتنی روشنی ہوتی تھی کہ) انسان تیر کے نشانے (target) کو دیکھ سکتا تھا(احمد، رقم ۲۳۴۴۲)۔ مدائن میں حضرت حذیفہ نے سحری کے لیے نماز کو بھی موخر کر دیا (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم۹۰۳۰)۔
حضرت حذیفہ کہتے ہیں:ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر کھانا کھاتے تو اس وقت تک ہاتھ نہ بڑھاتے جب تک آپ شروع نہ کردیتے۔ ایک بار ہم آپ کے ساتھ دستر خوان پربیٹھے تھے کہ ایک باندی دوڑتی ہوئی آئی اور کھانے میں ہاتھ ڈالنے لگی۔ آپ نے اس کاہاتھ پکڑ لیاپھر ایک بدو اتنی تیزی سے آیا، گویا اسے کسی نے دھکا دیاہے۔ آپ نے اس کا ہاتھ بھی تھام لیااور فرمایا:شیطان اس کھانے کوحلال سمجھتا ہے جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو۔ وہ اس باندی اور بدو کو اس لیے پکڑ لایا کہ یہ طعام اپنے لیے حلال کر لے،اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے،ان دونوں کے ہاتھوں کے ساتھ شیطان کا ہاتھ بھی میرے قبضے میں ہے(مسلم، رقم۵۲۵۹۔ابو داؤد، رقم۳۷۶۶۔احمد، رقم۲۳۲۴۹)۔
حضرت حذیفہ بن یمان نے ایک شخص کو لوگوں کے دائرے کے بیچ میں بیٹھے دیکھا تو کہا:اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان کے ذریعے سے اس شخص پر لعنت بھیجی ہے جو حلقے کے وسط میں بیٹھا(ابوداؤد، رقم ۴۸۲۶۔ترمذی، رقم۲۷۵۳۔احمد، رقم۲۳۲۶۳)۔
ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں:ہم مدائن میں حضرت حذیفہ کے پاس بیٹھے تھے۔ انھوں نے پانی مانگا تو ایک مجوسی کسان چاندی کے پیالے میں پانی لے آیا۔ انھوں نے پیالہ پکڑتے ہی پھینک دیا اور کہا:اگر میں نے تمھیں بار بار منع نہ کیا ہوتا توپیالہ یوں نہ پھینکتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:ریشم اور اطلس پہنو نہ اس کونشست بناؤ،سونے چاندی کے برتن میں پانی پیو نہ کھانا کھاؤ۔ یہ قیمتی دھاتیں دنیامیں کافروں کے لیے ہیں اور آخرت میں ہمیں ملیں گی (بخاری، رقم۵۴۳۲، ۵۸۳۷۔مسلم، رقم۵۳۹۴۔ابوداؤد، رقم ۳۷۲۳۔ترمذی، رقم ۱۸۷۸۔نسائی، رقم۵۳۰۳۔احمد، رقم۲۳۳۵۷ )۔
۲۱ھ:فتح مدائن کے بعد حضرت عمر نے حضرت حذیفہ بن یمان اور حضرت عثمان بن حنیف کو عراق کی اس سر زمین کاجسے دجلہ سیراب کرتا ہے، خراج وصول کرنے(tax collection)کے لیے مقرر کیا۔ ان سے پہلے حضرت نعمان بن مقرن اور حضرت سوید بن مقرن اس کام پر مامور تھے، ان کے استعفیٰ کے بعد حضرت حذیفہ بن اسید اورجابر بن عمر(یا عمرو)کو یہ منصب ملا، مگر وہ بھی مستعفی ہو کر چلتے بنے۔
۲۳ھ:قاتلانہ حملے سے چار دن پہلے حضرت عمر حضرت حذیفہ بن یمان اور حضرت عثمان بن حنیف کے پاس رکے اور پوچھا: تم لوگوں نے سواد عراق (کوفہ کے آس پاس کی بستیاں اور دیہات) میں جزیہ کا کیا کیا؟ تمھیں اندیشہ نہیں ہوا کہ اتنا ٹیکس لگا دیا ہو کہ زمین کی پیداوار اسے پورا نہ کر سکے؟دونوں عمال نے کہا: ہم نے اسی قدر خراج عائد کیا ہے جس کی زمین گنجایش رکھتی ہے،اس میں کوئی بڑی زیادتی نہیں ۔ حضرت عمر نے تاکیداً کہا: پھر بھی جانچ لو،تم نے اتنا ٹیکس نہ لگادیا ہو جسے زمین کی پیداوارپوری نہ کر سکے۔ انھوں نے کہا: ایسی بات نہیں (بخاری، رقم۳۷۰۰)۔حضرت حذیفہ نے کہا: میں چاہتا تو اس سے دگنی شرح پر ٹیکس لگا سکتا تھا (مصنف ابن ابی شیبہ)۔ پھر حضرت عمر نے خود ہی حضرت عثمان بن حنیف سے کہا:اگرتو ہر شخص پر دو درہم اور ہر جریب (ایک بیگھ، چار کنال) زمین پر ایک درہم اور ایک قفیز(عراقی پیمانے کے مطابق ایک من آٹھ چھٹانک)غلہ خراج بڑھاتا تو لوگ اس کا باربرداشت کرلیتے۔ انھوں نے کہا: ہاں ایسا ہی ہے۔
حضرت عثمان نے حضرت سعید بن العاص کو دوسری بار کوفہ کا گورنر مقر رکیا تو اشتر ایک گروہ لے کر ان کے پاس پہنچا اور حضرت سعید کی معزولی کا مطالبہ کیا۔ ان کے انکار پر کوفہ واپس آیا اور لوگوں کو حضرت سعید کے خلاف بھڑکایا، چنانچہ لوگوں نے حضرت سعید کو کوفہ میں داخل ہونے سے روک دیا۔ اب اشتر نے من مانی کرتے ہوئے حضرت ابوموسیٰ اشعری کو کوفہ کے انتظامی امور اور حضرت حذیفہ بن یمان کو مالی معاملات سونپ دیے۔ کوفہ کے لوگوں نے ان تقرریوں کو مان لیا توچار وناچار حضرت عثمان کو ان تقرریوں کو قبول کرنا پڑا۔
حضرت بشیر بن سعد سے پوچھا گیا:کیا آپ کو امرا و حکام کے بار ے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان یاد ہے؟حضرت حذیفہ پاس بیٹھے تھے،کہا: میں بتاتا ہوں ۔ آپ نے فرمایا:تم اس وقت دور نبوت میں ہو، جب تک اللہ چاہے، پھر خلافت علیٰ منہاج النبوت ہو گی۔ اللہ جب چاہے گا،اسے ختم کر دے گا،پھر بادشاہت کا دور آئے جب تک اللہ چاہے گا رہے گا اور پھر ختم ہو جائے گا۔ پھرآمریت اور جبر کا دور آئے گا،اللہ کی مشیت میں جب اسے ختم کرنا ہوگا، یہ دوربھی ختم ہو جائے گا اور خلافت علیٰ منہاج النبوت پھر قائم ہوجائے گی (احمد، رقم۱۸۴۰۶۔مسندطیالسی، رقم ۴۳۸)۔
حضرت حذیفہ بن یمان نے شام و عراق کی جنگوں میں حصہ لیا تو دیکھا کہ شام کے لوگ قرآن مجید حضرت مقداد بن اسود اور حضرت ابوالدرداء کی قراءت کے مطابق پڑھتے ہیں، جب کہ عراقی حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت ابوموسیٰ اشعری کی قراءت کی پیروی کرتے ہیں ۔ وہ اپنی اپنی قراءتوں کو درست سمجھتے ہیں اور دوسروں کو خطا کار ٹھیراتے ہیں ،اس طرح لوگوں میں اختلاف وانتشار پیدا ہونے لگاہے۔ آرمینیا اور آذربائیجان کی فتح کے بعد حضرت حذیفہ مدینہ آئے توحضرت عثمان سے ملاقات کی اور کہا: امیر المومنین، اس امت کو بچالیں قبل اس کے کہ وہ قرآن کی قراءت میں یہود ونصاریٰ کی طرح اختلاف نہ کرنے لگ جائیں ۔ تب حضرت عثمان نے اکابر صحابہ سے مشورہ کیا کہ مصحف کو ایک عبارت میں تحریر کر کے تمام اقالیم اسلامیہ کے لوگوں کو اس پر جمع کر دیا جائے۔ اسی طرح جھگڑا اور اختلاف ختم ہو سکتا ہے۔ انھوں نے وہ مصحف منگوایا جو حضرت زید بن ثابت نے حضرت ابوبکر صدیق کے حکم پر لکھا تھا اور ان کی وفات کے بعد حضرت عمر اور پھر ام المومنین سیدہ حفصہ کے پاس موجودرہا۔ حضرت عثمان کے حکم پر حضرت سعید بن العاص نے اس کی نقلیں حضرت زید بن ثابت کو املا کرائیں اور حضرت عبداللہ بن زبیر اور حضرت عبدالرحمٰن بن حارث نے پڑتال کی۔ پھر شام، مصر،بصرہ، کوفہ،مکہ اور یمن کو ارسال کر دی گئیں ،ایک کاپی مدینہ میں رکھی گئی(بخاری، رقم۴۹۸۷۔ترمذی، رقم ۳۱۰۴)۔
حضرت حذیفہ بن یمان فرماتے ہیں: اپنی نرم روی، وضع قطع اور سیرت میں ابن ام عبد (حضرت عبداللہ بن مسعود ) سے بڑھ کر کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ نہیں ۔ جب وہ اپنے گھرسے نکل کراس میں واپس جاتے ہیں ،ان کا یہی حال ہوتا ہے۔ ہم نہیں جانتے جب وہ اپنے کنبے میں اکیلے ہوں ، اس وقت کیسے ہوتے ہیں ۔ کذب سے محفوظ اصحاب نبی جانتے ہیں کہ ابن ام عبد ان سب سے زیادہ اللہ کے قریب ہیں (بخاری، رقم ۶۰۹۷۔ ترمذی، رقم ۳۸۰۷۔ احمد، رقم۲۳۳۰۸)۔
کچھ لوگوں نے حضرت عمار سے پوچھا:آپ کا حضرت علی کے ساتھ مل کر حضرت معاویہ سے قتال کرنا آپ کی ذاتی راے ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس باب میں آپ کی رہنمائی کر رکھی ہے۔ حضرت عمار نے جواب دیا:آپ نے ہم سے ایسی کوئی بات نہیں فرمائی جو عام لوگوں سے نہ کہی ہو۔ یہ تو حذیفہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ میرے اصحاب میں اٹھارہ منافق ہیں ،ان میں سے آٹھ ایسے ہیں کہ جنت میں داخل نہ ہو سکیں گے، حتیٰ کہ اونٹ سوئی کے ناکے سے گزر جائے اور آٹھ سے دبیلہ (کمر یا پیٹ کا پھوڑا)تمھیں بچائے گا(مسلم، رقم۷۰۳۵۔مسند بزار، رقم۲۷۸۸۔احمد، رقم۱۸۸۸۵)۔
حضرت حذیفہ بن یمان کی وفات۳۶ھ میں حضرت عثمان کی شہادت سے پیدا ہونے والے پہلے فتنے کے بعد،حضرت علی کے بیعت لینے کے چالیس روز بعد،حضرت علی کے عہد میں برپا ہونے والے دو فتنوں ،جنگ جمل اور جنگ صفین سے پہلے ہوئی۔
حضرت حذیفہ بن یمان کی بیماری کا سن کر حضرت ابومسعود انصاری اور حضرت حبۃ بن جوین مدائن آئے۔ حضرت حذیفہ نے انھیں مرحبا کہا اور فرمایا: تم دونوں کے قبیلے مجھے بہت محبوب ہیں ۔ انھوں نے درخواست کی: ہمیں فتنوں کا اندیشہ ہے، اس باب میں کوئی فرمان رسول سنائیے۔ حضرت حذیفہ نے کہا: اس گروہ کے ساتھ رہنا جس میں عمار بن یاسر ہوں ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے:عمار کو ایک باغی، حق سے ہٹا ہوا گروہ قتل کرے گا،اس کی آخری خوراک پانی ملا دودھ ہو گی۔ پہلا فتنہ عثمان کی شہادت ہے اور آخری فتنہ دجال کا ہو گا۔ انھوں نے دعا کی: اے اللہ، اگر عثمان کا قتل خیر ہے تو میرااس میں کوئی حصہ نہیں اور اگر یہ شر ہے تومیں اس سے بری الذمہ ہوں ۔ اے اللہ، میں وہاں نہ موجود تھا نہ قتل کیا نہ اس پر راضی تھا۔ دوسری روایت کے مطابق مرض الموت میں حضرت حذیفہ کے پاس موجود ایک بھائی نے اپنی بیوی سے سرگوشی کی تو انھوں نے کہا: مجھ سے جو بات چھپا رہے ہو،خیر نہ ہو گی۔ انھوں نے حضرت عثمان کی شہادت کابتایا توانا للہ و انا الیہ راجعون کہہ کر فرمایا: اگریہ خیر ہے تو ان لوگوں کے لیے ہو گا جو ان کے پاس موجود تھے اورمیں اس سے بری الذمہ ہوں اور اگر یہ شر ہے توان لوگوں کے لیے ہو گا جوان کے پاس موجود تھے اورمیں اس سے بری الذمہ ہوں ۔ جس نے جماعت چھوڑی اور امیر کو رسوا کیا،اللہ کے ہاں کوئی مرتبہ نہ پائے گا(احمد، رقم۲۳۲۸۳)۔
حضرت حذیفہ نے صلہ بن زفر اور حضرت ابو مسعود انصاری کو اپنے لیے کفن لینے بھیجا۔ وہ تین سو درہم کا جوڑا لے آئے تو کہا: میرے لیے دو سفیدچادریں کافی ہیں جن کے ساتھ قمیص نہ ہو۔ میں قبر میں کچھ وقت گزاروں گا تو ان سے بہتر یا بد تر کپڑے مل جائیں گے (المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۳۰۰۸)۔ وقت سحرتین دفعہ کہا:’أعوذ باللہ من صباح إلي النار‘ (میں اس صبح سے پناہ مانگتا ہوں جو مجھے دوزخ میں لے جائے)۔ وفات سے پہلے بہت روئے۔ کسی نے پوچھا: آپ کیوں روتے ہیں ؟کہا: میں دنیا چھوٹنے کے افسوس میں نہیں روتا،موت مجھے محبوب ہے۔ میں اس لیے رو رہا ہوں کہ نہیں جانتا،اللہ کی رضا پانے لگا ہوں یا اس کی ناراضی میرا انجام ہو گی۔ حضرت حذیفہ کے آخری کلمات یہ تھے: اے اللہ، تو جانتا ہے کہ میں نے غربت کو دولت مندی پر ترجیح دی ہے، پستی کو عزت پر اور موت کو زندگی پر مقدم جانا ہے۔ تیرا دوست ہے جو فاقہ کشی کے ساتھ آیا ہے، جو شرم ساری لایا، اس نے فلاح نہ پائی۔ جب موت بالکل قریب آ گئی تو فرمایا:یہ دنیا کی آخری ساعت ہے، اے اللہ، تو جانتا ہے کہ میں تجھ سے محبت کرتا ہوں ، اپنی ملاقات بابرکت بنا دے۔ پھر انھوں نے دم دے دیا۔
حضرت حذیفہ بن یمان کے دو بیٹوں صفوان اور سعید نے ان کی وصیت کے مطابق حضرت علی کا ساتھ دیا اور جنگ صفین میں شہادت پائی۔
حضرت حذیفہ بن یمان کہتے ہیں: اگر میں تمھیں اپنے علم میں آنے والی ہر بات بتا دوں تو نہر سے بھرے ہوئے پانی سے چلو بھر پینے کی بھی مہلت نہ ملے اور اس سے پہلے ہی قتل کردیا جاؤں ۔ کہتے ہیں:ہم سے روایت کرو کیونکہ ہم تمھارے لیے ثقہ ہیں ، پھر حدیث ان سے حاصل کرو جنھوں نے ہم سے سیکھا،اس لیے کہ وہ بھی تمھارے لیے ثقہ ہیں ۔ اپنے ساتھ والوں سے کچھ اخذ نہ کرو،وہ میٹھی میٹھی باتیں بیان کرتے اور کڑوی چھوڑ دیتے ہیں، حالاں کہ میٹھا کڑوے کے بغیر مزہ ہی نہیں دیتا۔ حضرت حذیفہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بے شمار فرامین امت تک منتقل کیے۔ انھوں نے حضرت عمر سے بھی حدیث روایت کی۔ حضرت حذیفہ بن یمان کی بخاری میں آٹھ اور مسلم میں سترہ احادیث ہیں ۔ ان سے روایت کرنے والے صحابہ میں شامل ہیں:حضرت عمر، حضرت علی، حضرت جابر بن عبداللہ،حضرت عمار بن یاسر،حضرت طارق بن شہاب،حضرت عبداللہ بن یزید، حضرت ابوالطفیل،حضرت جندب بن عبداللہ۔ رواۃ تابعین کی فہرست اس طرح ہے: ان کے بیٹے ابوعبیدہ اوربلال، ربعی بن حراش،زید بن وہب،زر بن حبیش،قیس بن ابو حازم،ابو وائل، محمد بن سیرین،صلہ بن زفر، ابوالعالیہ،عبدالرحمٰن بن ابولیلیٰ،ابوادریس خولانی، قیس بن عباد، ابوالبختری، نعیم بن ابوہند،ہمام بن حارث، اسود بن یزید،بلال بن یحییٰ،سبیع بن خالد،طلحہ بن یزید، عبداللہ بن صامت،عبداللہ بن فیروز،عبداللہ بن یسار، عبدالرحمٰن بن یزید،قبیصہ بن ذؤیب،ابوبردہ بن ابوموسیٰ اشعری،ابو عثمان نہدی۔
مطالعۂ مزید: السیرۃ النبویہ(ابن ہشام)، فتوح البلدان(بلاذری)، تاریخ الامم والملوک (طبری)، دلائل النبوۃ (بیہقی)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب(ابن عبدالبر)،المنتظم فی تواریخ الملوک والامم (ابن جوزی)، الکامل فی التاریخ(ابن اثیر)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ(ابن اثیر)،البدایۃ والنہایۃ(ابن کثیر)، تہذیب الکمال فی اسماء الرجال(مزی)،سیراعلام النبلا (ذہبی)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)،صور من حیاۃ الصحابۃ (رافت پاشا)۔
_________