HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

کائنات کا آغاز و ارتقا: قرآنی بیانات اور سائنسی حقائق کے درمیان تطبیق کی راہ (۱)

ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

 

  مقدمہ

  قرآن سائنس کی کتاب نہیں، بلکہ کتاب ہدایت ہے،مگریہ بھی حقیقت ہے کہ اس میں آفاق وانفس کی بہت سی نشانیوں کے بارے میں کلام کیاگیاہے۔ مثال کے طورپر متعدد آیات ایسی ہیں جوکائنات کی تخلیق کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔مثلاً وہ کہتاہے :’اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْ٘ا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا‘، ’’کیاانھوں نے دیکھانھیں کہ یہ آسمان وزمین بندتھے، پھرہم نے انھیں کھول دیا‘‘ (الانبیاء۲۱: ۳۰)۔ ’وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ‘، ’’اورہم نے ہرچیز کوپانی سے پیدا کیا (ایضاً)، ’وَالسَّمَآءَ بَنَيْنٰهَا بِاَيْىدٍ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ ‘:(الذاریات۵۱: ۴۷)، اورآسمان کوہم نے دست قدرت (انرجی) سے بنایا اور ہم اس کووسعت دیے جارہے ہیں۔کہو،کیاتم انکارکرتے ہواس کا جس نے زمین کو دو دن (دو دور)میں پیدا کیا‘‘ (حٰمٓ السجدہ ۴۱: ۹)، ’’اس نے زمین میں پہاڑجمائے،اس میں برکت رکھی اوراس کے اندراس کی خوراکیں سب ضرورت مندوں کے لیے یکساں طورپر ٹھیک اندازسے رکھیں۔یہ سب چاردن میں ہوا ‘‘(حٰمٓ السجدہ ۴۱: ۱۰)، ’’پھراس نے آسمان کی طرف رخ کیا، جب کہ وہ محض دھواں تھا‘‘(حٰمٓ السجدہ ۴۱: ۱۱)اوربہت سی آیات۔

کا بائیبل میں کتاب پیدائش (Genesis)میں تخلیق کی یہ کہانی ایک تسلسل کے ساتھ بیان ہوئی ہے [1]، جب کہ قرآن پاک میں کسی ایک جگہ بیان نہیں ہوئی، بلکہ جابہ جامختلف بیانات بکھرے ہوئے ہیں جن کوجمع کرکے ایک اسٹوری بنتی ہے، جوبائیبل کی کہانی سے مختلف ہے اوربہت سی جگہوں پر سائنس کی کہانی سے بھی مختلف نظرآتی ہے۔البتہ تخلیق کائنات اورتخلیق آدم کے ہمارے روایتی تصورات بہت حدتک بائیبل کی اسٹوری کی دَین ہیں۔ان دونوں الگ الگ کہانیوں کی بنیادپر کاسمالوجی کے تصورات اوربیانیے بھی مختلف ہوجاتے ہیں۔

ریسرچ کا سوال

مطلب یہ ہے کہ ایک بیانیہ وہ ہے جس کو مورخ یوال نوواحراری نے نیچرل سائنسز اورارتقائی نظریات کی بنیادپر ترتیب دیاہے۔ اس کے مقابلہ میں قرآن کا نیریٹوجوسائنسی اصولوں کے مطابق بھی ہو، کیا ہو سکتا ہے؟ اور  کائنا ت کے آغاز وارتقااوراس کے انجام کے بارے میں قرآنی بیانات اورسائنسی حقائق کے درمیان کوئی تطبیق کی راہ نکل سکتی ہے یانہیں۔یہی ہماراریسرچ کا سوال ہے کہ کائنات کا آغازو ارتقا :قرآن وسائنس کے بیانیوں میں کوئی تطبیق ممکن ہے یانہیں؟

یہ موضوع کیوں اختیارکیا؟

اس قسم کے مسائل پر سوچنااس لیے ضروری ہے کہ آج فزکس اورمیٹافزکس کے درمیان کی boundaries  گررہی ہیں۔پہلے مفروضہ یہ تھاکہ سائنس مابعدالطبیعات سے تعرض نہیں کرتی، مگراب سب کچھ سائنس کی دسترس  میں ہے اوراس کے سفرکوروکا بھی نہیں جا سکتا، لہٰذا اب اس بات میں کوئی وزن نہیں رہ گیاہے کہ مابعد الطبیعات (مذاہب وغیرہ)سائنس کے ڈومین میں نہیں آتی،اتناہی نہیں، بلکہ سائنس آج حقیقت کی تخلیق کی دعوے دارہے اورانسانی ارادہ کوکائنات پر مسلط کرتی نظرآرہی ہے۔لہٰذاآج کے علم الکلام کوان سوالوں کا جواب دیناہوگاجوموجودہ کاسمولوجی تخلیق کائنات کے روایتی تصورات پر واردکرسکتی ہے۔اور اگرآپ کو سائنس پر تنقیدکرنی ہے توسائنس کی زمین پر کھڑے ہوکرکرنی ہوگی مذہب کی زمین پر نہیں۔خوداہل مذہب بھی سائنس دانوں اورلامذہبوں سے یہی مطالبہ کرتے ہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ اگراہل مذہب سائنس کے ساتھ مکالمہ کرناچاہیں تووہ پہلے خودسائنس کی اچھی نالج حاصل کریں، ورنہ وہی نتیجہ ہوگاجوموجودہ زمانے میں اکثرمسلمان علماکے مسئلۂ ارتقا کوجانے بغیراس پر کلام کرنے کا ہواہے کہ ان کی باتوں کوعلمی دنیامیں کوئی سنجیدگی سے نہیں لے گا[2]۔

ہماری معروضات کا خلاصہ یہ ہے کہ کائنات کے آغاز و ارتقا کی ایک اسٹوری وہ ہے جوارتقا کوماننے والے سائنس دان بتاتے ہیں، جس کی کہانی ہم نے نیچرلسٹ مورخ حراری کی کتاب ’’ہوموسیپین‘‘ میں پڑھی۔ اورایک اسٹوری وہ ہے جومذہب اور بالخصوص قرآن بیان کرتاہے۔بقول سرسید قرآن ورڈ آف گاڈہے اورکائنات ورک آف گاڈ، اس لیے دونوں میں اصولی طورپر تعارض و تضاد نہیں ہوناچاہیے،لیکن تعارض تو نظر آرہا ہے، تو ایسا کیوں ہے؟ اس سوال کی تحقیق کی جاتی ہے تومعلوم ہوتاہے کہ جوتضاد نظرآتاہے، اس میں دو صورتیں ممکن ہیں : سائنس جوکہانی بتارہی ہے، وہ حتمی نہ ہو،بدل بھی سکتی ہو۔اورواقعہ میں ہے بھی ایساہی، کیونکہ سائنسی طریقۂ کارکے مطابق اس کی کوئی تحقیق حتمی نہیں ہوتی، بلکہ اس میں تحقیق کا سفرمسلسل جاری رہتاہے۔دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ قرآن کامتن خودکوئی حتمی بیانیہ نہیں دیتا، بلکہ اس کے الفاظ میں وسعت،لچک اور گنجایش پائی جاتی ہو، مگراس کی رائج انسانی تشریحات نے بظاہراس کا جو نیریٹو دیاہے، وہ ہمیں سائنس کی کہانی کا مخالف نظرآتاہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ شارحین کی تعبیرات اپنے زمانے کے ورلڈویوکے تابع ہوتی ہیں، ان میں زمانی و مکانی موثرات کا عمل دخل ہوتاہے۔توان کی تفسیرات کو قرآن کے متن کا حتمی بیان کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ کل کے شارح اگرارسطوکے ورلڈویوکی پیروی کررہے تھے توآج کے مفسر مسلمہ ورلڈویوکی پیروی کیوں نہیں کرسکتے؟وغیرہ ۔

ن بہرکیف ہمارے سامنے سوال یہ ہے کہ اس بارے میں وارد قرآنی بیانات کا بہ حیثیت ultimate revelationکے کیاایسامطالعہ ممکن ہے کہ کائنا ت کے آغاز وارتقاکے بارے میں قرآ ن وسائنس کے بیانیوں میں تطبیق دی جاسکے؟یہ ریسرچ پیپراسی سوال کواکسپلورکرنے کی کوشش کرے گا۔تخلیق کی اسٹوری کے دوحصے ہیں: ایک ہے کائنات کی تخلیق اوردوسری انسان کی تخلیق۔ہمارافوکس پہلا ہوگا، دوسرے سے بحث ضمنی ہوگی اور گفتگو کو اصلاً کائنات کے آغازوارتقاکے مسئلہ تک محدودرکھیں گے،آدم کی بحث ضمنی طورپر آئے گی۔تاہم مسئلۂ ارتقا کا ا س موضوع سے اتناگہراتعلق ہے کہ اس کا کسی نہ کسی طورپر تذکرہ باربارآنا لازمی سا ہے۔ تخلیق وکرییشن والوں نے جوسوال اٹھائے ہیں کہ بگ بینگ سے پہلے کیاتھا؟ بگ بینگ کوکس نے برپا کیا؟وغیرہ کا  تذکرہ کیاہوگا۔

تحقیق کا طریقۂ کار

ا  اس پیپرمیں کائنا ت کے سلسلہ میں حراری اوردوسرے نیچرلسٹوں کے narrative کے بالمقابل قرآن کا نیریٹو کیاہوسکتاہے؟ اس سوال سے بحث کی جائے گی اور اس کی جستجوکی جائے گی کہ کیادونوں میں کوئی تطابق ممکن ہے۔اس مقالہ میں ہم ذیل کے چندمباحث کا ذکرکرکے اس مسئلہ پر کلام کرنے کی کوشش کریں گے :

۱۔مسئلہ کااجمالی جائزہ وتعارف اورلٹریچررویو

۲۔کائنات کا آغازو ارتقا اورتاریخ عظیم کا تعارف (لائف کا ارتقا،مرحلہ ٔآدم کیاہوسکتاہے)؟

٭مسلمان اسکالراورفلسفی سیدحسین نصر،ہارون یحییٰ اورخودوہ مغربی اسکالرجوcreationist ہیں، وہ ارتقا کے بارے میں کیاکہتے ہیں ۔

٭ بیسویں اوراکیسویں صدی کے منتخب مترجمین قرآن متعلقہ آیات کے بارے میں کیاکہتے ہیں؟ ضمناًیہ بھی بتایاجائے گاکہ ماضی کے علما، مثلاًجاحظ،رومی،ابن مسکویہ اوردوسرے مسلمان فلاسفرارتقا سے کیاسمجھتے تھے؟

ریسرچ کے کی ورڈز:علم کلام،سائنس،تخلیق،ارتقا،قرآن،بائیبل۔

مسئلہ کا تعارف ہم نے سطوربالامیں کرانے کی کوشش کی۔اب اس باب کے دوسرے حصہ، یعنی ہمارے موجودہ اسلامی لٹریچرمیں اس سلسلہ میں کیاکچھ کہا گیا اور لکھا گیا،اس پر ایک اجمالی نظرڈالتے ہیں۔

تخلیق کائنات:انسان ہمیشہ سے یہ سوچتارہاہے کہ وہ کون ہے، کہاں سے آیاہے؟یہ کائنات کیسے وجودمیں آئی؟ا س کائنات کاانجام کیاہوگا؟ اِن بڑے سوالوں اوران پر متفرع اورسوالوں کا جواب فلسفہ اورمذہب، دونوں نے اپنے اپنے طورپر دینے کی کوشش کی ہے۔سترھویں صدی میں سائنس فلسفہ سے الگ ایک مستقل بالذات علم بن گئی تووہ بھی ان سوالوں کے جواب دے رہی ہے۔نظریۂ ارتقا اپنی اصل میں زمین پرانوا ع (species) کے ظہوراوران کے تنوع کی ایک سائنسی توجیہ کے طورپر پیش کیاگیا۔اس کے پیش نظرالحادکودلائل فراہم کرنانہ تھا، اگرچہ اس کا استعمال بڑے پیمانہ پر اس کے لیے کیاگیا۔یہاں ہم پہلے مذہبی بیانیہ اوراس کے بعد سائنسی بیانیہ کا تذکرہ کریں گے۔

اسلام کا روایتی بیانیہ

اسلام کا روایتی بیانیہ یایوں کہیں کہ مذہب کا روایتی بیانیہ انسان کی تخلیق سے متعلق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کے مختلف اجزا لے کرمٹی کا ایک پتلہ بنایا،پھراُس میں پھونک مارکراس کوزندہ کردیاجوکہ پہلے انسان آدم تھے۔آدم ہی کی پسلی سے حواکووجودبخشا،اِس پہلے جوڑے سے ساری انسانی نسلیں پھلی پھولیں۔لہٰذاآدم مطلق پہلے انسان اورابوالبشرہیں۔اِس بیان کے فروعات وتفصیلات میں تینوں آسمانی مذاہب اسلام،مسیحیت اور یہودیت میں مختلف چھوٹے چھوٹے اختلافات موجودہیں، تاہم ان چھوٹے چھوٹے اختلافات کے باوجودتینوں کا مشترکہ عقیدہ یہی ہے۔اِ س میں، البتہ بائیبل کی کہانی کا غلبہ ہے جس سے فکراسلامی متاثرہوئی ہے، کیونکہ قرآن پاک میں یہ توبتایاہے کہ آدم وحواسے ساری نسل انسانی چلی ہے، مگران کی تخلیق کی یہ کہانی اِس تفصیل کے ساتھ موجودنہیں ہے[3]۔

مولاناآزادنے لکھاہے :

’’یادرہے کہ پیدائش عالم کے بارے میں مفسرین نے بہت سی روایات نقل کردی ہیں جن کی صحت ثابت نہیں اورجوتمام تریہودیوں کی قصص وروایات سے ماخوذ ہیں۔صحیح مسلم کی حدیث ’خلق اللہ التربة یوم السبت…الخ‘ کی نسبت بھی محققین نے یہی فیصلہ کیاہے کہ اُس کا رفع مشکوک ہے اور غالباً کعب احبارسے مروی ہے۔حافظ ابن کثیرنے تفسیرمیں اقوال جمع کردیے ہیں۔‘‘[4]

  جہاں تک کائنات کی تخلیق اورزمین کی تخلیق یاانسان کے علاوہ دوسرے جان داروں اور شجر و حجر وغیرہ کی تخلیق کی بات ہے تواس معاملہ میں آسمانی مذاہب کوئی تفصیلی بیانیہ نہیں دیتے۔وہ البتہ یہ ضرورمانتے ہیں کہ زمین کائنات کامرکز( centre )ہے؛ یہی ارسطوکا ورلڈویوبھی کہتاہے۔اورانسان اشرف المخلوقات ہے اور اس لحاظ سے ایک خصوصی پوزیشن کا حامل ہے اورکائنات ومافیہا، سب انسان کے لیے پیداکیے گئے ہیں۔البتہ زمین کی عمرکے بارے میں بائیبل یہ کہتی ہے کہ وہ ۵ہزارآٹھ سوستانوے سال پرانی ہے۔مگراسلام میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جس میں زمین کی عمرکا کوئی تعین کیاگیاہو۔

امام ابن حزم اس بارے میں لکھتے ہیں :

وأما اختلاف الناس في التاریخ فإن الیهود یقولون: الدنیا أربعة آلاف سنة والنصارٰی یقولون: الدنیا خمسة آلاف سنة وأما نحن فلا نقطح علی علم عدد معروف عندنا و من ادعی في ذٰلک سبعة آلاف أو أکثر أو أقل فقد کذب وقال مالم یات قط عن رسول اللہ ﷺ فیه لفظة تصح عنه بل صح عنه خلافه بل یقطع علی أن للدنیا أمدًا لایعلمه إلااللہ عزوجل. قال تعالیٰ: ’’ماشهدتم خلق السماوات والأرض ولاخلق أنفسهم‘‘ وقول رسول اللہ ﷺ: ’’ما أنتم في الأمم قبلکم إلاکالشعرة البیضاء في الثور الأسود أوالشعرة السوداء في الثور الأبیض‘‘. هذا عنه علیه السلام ثابت وهؤلاء یقول إلا عین الحق وقال تعالیٰ: ’’وعادًا وثمود أو أصحاب الرس و قرونًا بعد ذٰلک کثیرًا‘‘ وهؤلاء یسامع لشيء من الباطل لاباعیاء ولا بغیره فهذہ نسبة من قد تدبرها وعرف مقدار عدد أهل الإسلام ونسبة ما بأیدیهم من معمور الأرض فإنه الأکثر علم إن للدنیا عدد لایحصیه إلا الخالق تعالیٰ. (الملل والنحل ۱ /  ۸۳)
’’باقی رہا لوگوں کا اختلاف تاریخ میں تو یہودیوں  کا قول ہے کہ دنیا چار ہزار برس کی ہے اور نصاری ٰ کہتے ہیں کہ پانچ ہزاربرس کی۔لیکن ہم لوگ کسی خاص عددپر یقین نہیں کرتے اور جو شخص سات ہزار یا اس سے کم یا زیادہ کا دعویٰ کرتا ہے، وہ جھوٹاہے اورایسی بات کہتاہے جس کی نسبت رسول اللہ ﷺ سے ایک لفظ بھی منقول نہیں، بلکہ آں حضرت ﷺ سے اس کے خلاف ثابت ہے۔بلکہ ہمارایقین ہے کہ دنیاکی مدت کو بہ جز  خدا کے اور کوئی نہیں جانتا۔خداتعالی ٰ نے کہا: تم آسمان اور زمین کی پیدایش کے وقت موجود نہ تھے، بلکہ اپنی پیدایش کے وقت بھی،  اور رسول اللہ ﷺ کا قول ہے کہ تمھاری مثال اگلی امتوں کے مقابل میں ایسی ہے، جیسے سیاہ بیل کے جسم میں ایک سفیدبال یا سفید بیل کے جسم میں ایک سیاہ بال۔ یہ حدیث آں حضرت ﷺ سے ثابت ہے اور آں حضرت کا ارشاد بہ جز حق کے اورکچھ نہیں ہو سکتا۔ اور خدانے کہا کہ ’’عاد اور ثمود اور اصحاب الرس اور ان کے درمیان بہت سے قرن تھے ‘‘ اور آں حضرت ﷺ کسی ایسی چیز کے متعلق تسامح نہیں فرماسکتے جوغلط ہو، نہ بہ سبب قاصرالبیانی کے اورنہ کسی اور سبب کے، پس یہ ایک ایسی نسبت ہے کہ جو شخص اس پر غورکرے اورمسلمانوں کی گنتی کوجانے اوریہ جانے کہ ان کے قبضے میں کس قدرزمین کی آبادی ہے (کیونکہ زیادہ ترانھی کے ہاتھ میں ہے) تو وہ جان لے گاکہ دنیاکی گنتی کو بہ جز خدا کے کوئی شخص شمارنہیں کرسکتا۔‘‘[5]

البتہ یہودیوں کے زمین کے تصورکے بارے میں  ’’جیوئش انسائیکلوپیڈیا‘‘ یہ کہتاہے :

The Hebrows regarded the earth as a plain or a hill, figured like a hemeisphere, swimming on water, over this arched the solid vault of heaven. To this vault are fastened the lights, the stars. So light is this elevation that birds may rise to it and fly along its expanse.
 ’’ یہودی یہ سمجھتے تھے کہ زمین ایک پہاڑی ہے یاایک میدان ہے جونصف کرہ کی طرح واقع ہے اورپانی میں تیررہی ہے۔اسی کے اوپرآسمان کی ٹھوس محراب ثابت ہے اوران محرابوں سے ستارے ،ٹنکے ہوئے ہیں یوں روشنی وہی اونچان ہے جس کی طرف پرندے اٹھ سکتے اوراس کی وسعتوں میں اڑسکتے ہیں۔‘‘ [6] 

سائنسی بیانیہ

ماڈرن سائنسی دورمیں بہت عرصہ تک کائنات کوابدی خیال کیاجاتارہا۔سمجھاجاتاتھاکہ کائنات لامحدودہے، اِس میں بنیادی طورپر ستارے(stars)ہیں۔یکسانیت کے باعث کائنات میں کوئی ایسامرکزی مقام نہیں جس کی طرف ستارے مائل بہ ہبوط ہوں،حتی ٰ کہ آئن اسٹائن نے بھی کائنات کوثابت وساکن قراردینے کے لیے ۱۹۱۴ء میں اپنی مساوات میں ایک اضافی term استعمال کی تھی جس پر اس نے بعدمیں افسوس بھی ظاہر کیا تھا[7]۔

لیکن بتدریج نئی تحقیقات سے یہ پتا چلتا گیا کہ اجرام کائنات میں ایسے بے شمارپراسس جاری ہیں جن میں تغیربھی نہیں لایاجاسکتااورجن کی وجہ سے کائنات کوثابت وساکن بھی تسلیم نہیں کیاجاسکتا۔تھرموڈائنامک طریقوں میں مزیدتحقیق نے بتایاکہ کائنات بتدریج اپنی Heat death کی طرف بڑھ رہی ہے، یعنی اس کی حدت تیز ہوتی جارہی ہے اورجس کی وجہ سے ایک دن اس کی موت ہوجائے گی، چنانچہ وہ ابدی تو نہیں ہوسکتی۔

بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں دوپیپرزاس مسئلہ پر شائع ہوئے جنھوں نے موجودہ صورت کوہمیشہ کے لیے تبدیل کرکے رکھ دیا۔ پیپر یہ تھے : [8] 

Edwin Hubble ‘‘A Relation between Distantce and Radial Velocity-1 among Extra -Galactic Nebulai’’ (a929 Proceeding of the National Acacemy of Sciences of the United States of America" Volume 15 issue 3,pp.168-173.

F.Hoyle, ‘‘A New Model for the Expending Universe’’ Monthly Notices of the-2  Royal Asronomical Society, 108 (1948 372 ).

۱۹۲۷ءمیں George Lemairte نے آئن اسٹائن کی عمومی اضافت کی تھیوری کی مساواتوں میں سے جومساوات نکالی، اس کوفرائیڈمین لیمارٹے رابرٹسن واکرمساوات کے نام سے جاناجاتاہے۔جارج نے سب سے پہلے یہ کہاکہ کائنات کی ابتداایک ابتدائی ایٹم ( primeval atom)کے پھٹنے سے ہوئی۔(پہلے پیپرمیں اس کی وضاحت تھی) ۔

۱۹۲۹ءمیں ایڈون ہبل نے بتایاکہ دوسری کہکشانوں سے زمین پر جولائٹ آرہی ہے، وہ اپنی دوری کے لحاظ سے اتنی ہی سرخی مائل ہے۔اس کے دومطلب ہوسکتے تھے: یاتوہم کہکشانوں کے دھماکے کے سینٹرمیں ہیں یا کائنات ہرطرف کویکسانیت کے ساتھ پھیل رہی ہے۔چونکہ کوپرنکس پہلے ہی یہ ثابت کرچکاتھاکہ زمین کائنات کے مرکز میں اورمخصوص پوزیشن والی نہیں ہے، اس لیے پہلاامکان توہونہیں سکتا تھا، اس لیے دوسراامکان ہی متعین ہوگیاکہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے۔(دوسراپیپراس کی تشریح کرتاتھا)اس تھیوری کی پھردوممکنہ تشریحیں پائی جاتی ہیں، جن کی باریکیوں میں نہ جاتے ہوئے یہاں اتناکہناکافی ہوگاکہ لیمارتے نے بگ بینگ تھیوری دی جس کوجارج گیمونے بھی سپورٹ کیا[9]۔دوسراماڈل فریڈہائل نے اسٹیڈی اسٹیٹ تھیوری کا دیا[10] جس کوبعدمیں ردکردیاگیا۔کچھ اورماڈل بھی پیش کیے گئے اوران کے حق میں دلائل بھی دیے جاتے رہے۔

اصل میں کائنات کے آغازسے متعلق کئی تھیوریاں اورنمونے پیش کیے گئے جن میں بعض یہ ہیں:

۱۔اسٹیڈی اسٹیٹ تھیوری (Steady state theory): اس نظریہ کی روسے کائنات قدیم ہے۔اس کا کوئی آغازہے اورنہ انجام۔وہ ہمیشہ سے ہے اورہمیشہ رہے گی۔یہ اصل میں قدیم یونانی نظریات کی سائنسی تعبیرہے اوراس تھیوری نے سائنس کی دنیامیں ۱۹۶۵ءتک اپناتسلط برقراررکھاتاآنکہ بگ بینگ تھیوری نے اس نظریہ کوبالکل کھوکھلاثابت کردیا۔

۲۔ اہتزازی نظریہ(Oscillating Universe Theory): اس کے مطابق کائنات باربارتشکیل پانے اوروسعت اختیارکرنے اورآخرمیں پھرسکڑاؤکے عمل کومسلسل جاری رکھ سکتی ہے۔ اصل میں کائنات کی تخلیق سے متعلق سائنس دانوں نے کئی معیارات اورخاکے پیش کیے ہیں جوکائنات کے آغاز کی مختلف حالتوں کی وضاحت کرتے ہیں[11] ۔

مگر ۱۹۶۵ءمیں یہ دریافت ہوئی کہ پوری کائنات Heat Radiation زیروسے ۳ ڈگری زیادہ کی حرارت میں نہارہی ہے۔یہ چیز بگ بینگ کی باقیات میں سے قراردی گئی اورسائنس دانوں کی اکثریت نے اس پر اتفاق کرلیاکہ کائنات کے آغاز میں بگ بینگ ہواتھااوراس سے کائنا ت کا آغاز ہوا[12]۔ تاہم اِس سے یہ نئے سوال بھی پیداہوگئے کہ بگ بینگ آخرکیوں ہوا؟ کہاں ہوا؟اوراس سے پہلے کیاتھا؟یہ سوال ابھی تک محتاج جواب بنے ہوئے ہیں۔

سائنس دان مانتے ہیں کہ بگ بینگ سے جو شدید دباؤ پیدا ہوا، اس سے پیداشدہ کشش کی زبردست قوت کوختم کردینے والی کوئی قوت کائنات میں نہیں، لہٰذابگ بینگ کی ابتدامیں جتنازیادہ کہکشانوں کا مادہ باہم چپکا ہوا ہوگا، اتنا ہی زیادہ کشش کا پریشرمادہ پر ہواہوگا،کیونکہ اس کمپریسر کی کوئی حدنہیں تواندرسے مادہ کوتوڑتاہوا پریشر بالآخر اس کوایسے نقطہ پر لے آیاہوگاجسے infinite Compressure کہتے ہیں۔اس نقطہ پر کشش کی قوت اورمادہ کی کثافت بے نہایت رہی ہوگی۔ اسی نقطہ میں پورے Cosmose کی سمائی رہی ہوگی جس کوفزکس کے ماہرین Singularity یا نقطۂ وحدانیت بولتے ہیں۔یعنی وہ ایسی حالت یاپوزیشن تھی جس میں مادے کی کثافت، قوت کشش اورحرارت اتنی زیادہ تھی کہ فزکس اورریاضی کے موجودہ قوانین سے اس کی حقیقت کا پتا لگانا سردست ناممکن ہے۔نہ ہی یہ بتایاجاسکتاہے کہ آیااس وقت ’’وقت ‘‘(ٹائم )کا کوئی وجود تھا یا نہیں۔ البتہ اسٹیفن ہاکنگ نے کانٹ کے حوالہ سے لکھاہے کہ وہ ’’وقت کا تسلسل ہمیشہ سے موجود مانتا ہے‘‘[13]۔ جمشید اختر قرآنی آیت ’كَانَتَا رَتْقًا‘ سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ یہ حالت بھی پہلے نہیں تھی، بلکہ یہ ’’پوزیشن بعدمیں ہوئی‘‘، یعنی اِس سے پہلے کوئی اورحالت تھی جس کی تحقیق کی ضرورت ہے[14]۔ تو جب انفجار ہوا توسب سے پہلے ایک دھواں وجودمیں آیا۔یہ دھواں ہائیڈروجن اورہیلیم پر مشتمل تھا۔یہ دونوں عناصر انفجار کے چودہ سیکنڈکے اندر وجود میں آئے۔ہارون یحییٰ کہتے ہیں :

’’سائنس دانوں کا اس بات پرعام اتفاق ہے کہ فطری عناصرکی فہرست میں پہلے اورسب سے ہلکے دو عناصر، یعنی ہائیڈروجن اورہیلیم بگ بینگ کے پہلے چودہ سیکنڈکے اندروجودمیں آچکے تھے۔شروع میں کائنا ت صرف ہائیڈروجن اورہیلیم کا ایک عظیم مجموعہ تھا۔اگریہ اسی طرح رہتاتونہ ستارے ہوتے نہ سیارے نہ پتھر ہوتے نہ مٹی نہ درخت ہوتے نہ انسان۔‘‘[15]

یعنی دونوں عناصرسائنس کے نزدیک پہلے چودہ سیکنڈ میں پیداہوگئے تھے[16]۔ آئن اسٹائن کی عمومی اضافت کی تھیوری یہ بھی بتاتی ہے کہ فضا،ٹائم اورمادہ یہ تینوں الگ الگ وجود نہیں، بلکہ باہم ملے ہوئے ہیں۔اس ارتباط کے معنی یہ ہیں کہ بیرون کی جانب کوسموزCosmos کی توسیع صرف کہکشانوں کا ایک دوسرے سے بھاگنا نہیں تھا، بلکہ اسپیس خودٹائم سے مربوط ہے۔اگرہم ٹائم اور اسپیس کوپیچھے لے جاسکیں توInfinte Cosmos کے نقطے پر اسپیس بھی یاتوبلانہایت سمٹ سکڑجائے گی یا ٹائم کے ساتھ بالکل غائب ہوجائے گی، کیونکہ اسپیس کے بغیرٹائم نہیں ہوسکتا۔اس سے معلوم ہوتاہے کہ بگ بینگ سے ٹائم اوراسپیس، دونوں ساتھ ساتھ وجود پذیر ہوتے چلے گئے۔ [17] اسی سے سلسلہ ٔعلت ومعلول وجودمیں آیا۔

ہبل کی توسیع کائنات کی تھیور ی کا مطلب یہ تھاکہ پوری کائنات مسلسل پھیل رہی ہے۔جیسے کسی غبار ے کوپھُلانے سے پہلے اس پرکچھ چھوٹے بڑے نقطے ڈال دیے جائیں اورغبارہ کوپھُلاناشروع کیاجائے توجونتیجہ ہوگا، وہ یہ ہوگاکہ غبارہ جتنا پھولتا جائے گا، اتنا ہی یہ بے شمارنقطے بھی ایک دوسرے سے مسلسل دورہوتے جائیں گے۔اسٹیفن ہاکنگ کے مطابق:

’’۱۹۲۴ءمیں ایڈون ہبل نے بتایاکہ اب ہمار ی کہکشاں اکلوتی نہیں۔ حقیقت میں بہت سی اورکہکشائیں بھی ہیں جو ایک دوسرے کے درمیان خالی جگہ Empty Space کے وسیع خطہ رکھتی ہیں [18]۔ ۱۹۲۰ءمیں ہبل نے مزیدحیرت انگیز دریافت شائع کی ...کہکشاں جتنی دورہے اتنی ہی تیزی سے مزیددورجارہی ہے اوراس کا مطلب تھاکہ کائنات ساکن نہیں ہوسکتی‘‘

اس بیانیہ کے مطابق تقریباً ۱۵ ہزار (پندرہ  ارب) سال قبل ہونے والے اس انفجارعظیم کے نتیجہ میں تمام مادہ،توانائی اورحرکت (زمان ومکان) وجود میں آئے۔ ابتداءً کائنات بہت چھوٹی اورگرم تھی۔ایٹمی ذرات مزید پھیلنے کے باعث ٹھنڈی ہونے لگی۔بگ بینگ میں اتنی طاقت تھی کہ تب سے لے کراب تک کائنات مسلسل پھیل رہی ہے[19]۔

سائنس دان کائنات کی تخلیق کوکئی حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ان کے مطابق particles اور Antiparticles بگ بینگ کے بعدپہلے سیکنڈ کے اتنے چھوٹے حصہ میں وجودمیں آچکے تھے کہ اتنے چھوٹے حصہ کوظاہرکرنے کے لیے انسانی زبانوں میں کوئی لفظ موجودنہیں ہے۔جدیدسائنس پوری ریاضی پراستوارہے تواس لمحہ کوظاہرکرنے کے لیے سائنس دان ۱کے دائیں جانب ۴۳صفرلگاتے ہیں اوراس سے جوعددحاصل ہوگا، اس عددکے اندریہ ذرات اورمخالف ذرات وجودمیں آگئے۔تویوں چودہ سیکنڈکے دورانیہ میں ہائیڈروجن اورہیلیم کا وہ ’’دھواں ‘‘وجودمیں آیاجوپوری کائنات کا مادہ وجودہے۔بگ بینگ کے بعدچندمنٹوں میں مادہ (matter )وجودمیں آگیا۔ اس وقت کائنات ۷۵ فی صد ہائیڈروجن اور۲۵ فی صد ہیلیم پر مشتمل تھی اوراس کا ابتدائی درجہ ٔحرارت تقریبا۱۰۰۰۰ (دس ہزار)ملین ڈگری تھا۔سائنس دانوں کے مطابق :

’’عظیم دھماکے سے پھٹنے کے عمل کے آغازکے ساتھ ہی ایک سیکنڈ کے سوویں حصہ میں وہ اکائیت پھیل کرابتدائی آگ کا گولا( Primordial Fireball) بن گئی اور دھماکے کے فوری بعداُس کا درجہ ٔحرارت ایک کھرب سے ایک کھرب ۸۰ ارب سینٹی گریڈ تک جاپہنچا۔عظیم دھماکے سے ایک منٹ بعدہی کائنات کا درجہ ٔحرارت گر کر ۱۰ ارب سے ۱۸ ارب سینٹی گریڈ کے درمیان آن پہنچا۔یہ سورج کے مرکزکے موجودہ درجہ ٔحرارت سے تقریباً ایک ہزارگنازیادہ حرارت تھی۔اُس وقت کائنات زیادہ ترفوٹان،الیکٹران،نیوٹران اوراس کے مخالف ذروں پر مشتمل تھی۔کائنات کے اولین مرحلہ کی تصویرکشی سب سے پہلے جارج گیمو (George Gamoe )نامی سائنس دان نے ۱۹۴۸ءمیں تصنیف کردہ اپنی مشہور تحریر ۱، ۲، ۳ میں پیش کی۔  اس نے کہاکہ عظیم دھماکے کے معاًبعدکائنات اتنی شدیدگرم تھی کہ ہرطرف نیوکلیائی حرارتی تعاملات (hermonuclear Reactions)شروع ہوسکیں۔اس کا مطلب یہ ہواکہ ابتدائی کائنات زیادہ توانائی کے حامل خوردموجی (Short-wave)فوٹانزسے معمورتھی ‘‘۔ [20] 

اسٹیفن ہاکنگ کا تبصرہ یہ تھا:

’’۱۹۲۹ء میں ایڈون ہبل نے یہ عہدآفرین مشاہدہ کیاکہ جہاں سے بھی دیکھاجائے دوردراز کی کہکشائیں ہم سے مزیددورہوتی جارہی ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے وقتوں میں اجرام فلکی ایک دوسرے سے قریب رہے ہوں گے۔حقیقت میں یہ لگتاہے کہ اب سے دس یابیس ارب سال پہلے وہ سب ٹھیک ایک ہی جگہ پرتھیں تواس وقت کائنات کی کثافت Dencity لامتناہی ہوگی یہ دریافت بالآخرکائنات کی ابتدا کے سوال کوسائنس کی دنیامیں لے آئی۔‘‘[21] 

مذکورہ بالابیانات کی روشنی میں تخلیق کائنات کے مسئلہ پر غورکرتے ہیں توموجودہ کاسمولوجی جوسائنسی تحقیقات اورمعلومات پر کھڑی ہے، وہ ایک بیانیہ دیتی ہے۔اس بیانیہ کے مطابق جیساکہ اوپرگزرا آج سے کوئی ۱۵بلین (ارب)سال پہلے خلامیں بگ بینگ ( Big Bang) کا عظیم واقعہ ہوا۔بگ بینگ کے ہونے کے بعد پوری کائنات کا ظہورہوگیا۔یہ تھاکائنات کے آغاز کا تفصیلی سائنسی بیان۔ اب اس بارے میں مذہب کیاکہتاہے یاوہ اس سائنسی بیانیہ سے اختلاف کرتاہے یانہیں؟اس سوال کے جواب میں مذہب پسند کہیں گے کہ ہمیں سائنس کی اس تفصیل سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔وہ قرآن کی ایک آیت دلیل میں پیش کرتے ہیں: ’وَالسَّمَآءَ بَنَيْنٰهَا بِاَيْىدٍ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ ‘، ’’ ہم نے آسمان کوبنایااپنی قدرت (انرجی )سے اورہم اس کو (مسلسل) پھیلائے جارہے ہیں‘‘ (الذاریات۵۱: ۴۷)۔ واضح رہے کہ قرآن میں آسمان کہہ کر cosmos مراد لیا جاتا ہے، سات آسمانوں کا بیان صرف تقریب فہم کے لیے ہے، ورنہ سائنس کی دنیامیں ایسی کوئی چیز موجود نہیں۔ یایوں  کہہ لیں کہ ’سَبْعَ سَمٰوَاتٍ‘ کے قرآنی بیان کی ابھی سائنس تصدیق یاتردیدکرنے کے لائق نہیں ہوئی۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

[1]۔ مورس بوکائیے،بائبل قرآن اورسائنس  ۲۰۸، اردوترجمہ: ثناء الحق صدیقی۔

2. Evolution and Islam—a brief review by Dr Shoaib Malik The World's 500  most influential Muslims 2020  The Royal Islamic Strategic Studies Centre 20  Saed Bino Road, Dabuq, PO Box950361 Amman 11195Jordan

WWW.rissc.jo

[3]۔ مورس بوکائیے،بائیبل قرآن اینڈسائنس۔

[4]۔ ابوالکلام آزاد،تفسیرترجمان القرآن ۲/  ۲۳۱ -۲۳۲، اسلامی اکادمی، لاہور۔

[5]۔ بحوالہ مقالات سرسید ۴/ ۹ - ۱۰۔

[6]۔ بحوالہ جمشید اختر، The fate of our Universe ۱۱۔

[7]۔ ایضاً  ۵ ۔

[8]۔ بحوالہ جمشید اختر، The fate of our Universe ۵ ۔

[9]۔ ایضاً  ۵ ۔

[10]۔ ایضاً  ۵ ۔

[11]۔ مثال کے طورپر :

۱۔فرائڈمین کا خاکہ جس کوFriedman Model کہتے ہیں۔

۲۔عظیم دھماکے کا خاکہ  Big Bang Model۔

۳۔ایڈون ہبل کا خاکہ Edvin Hubble Model۔

۴۔ پنزیاس اورولسن کا خاکہ Penzias & Wislon's Model۔

۵۔ نئے پھیلاؤکاخاکہ New Inflationary Model ۔

۶۔ بدنظم پھیلاؤکاخاکہ Chaotc Inflationary Model ۔

جسے وحدانیت کی تحویل کاخاکہ (Singularity Theorems Model) بھی کہتے ہیں اور اس کوراجر پنزوز اور اسٹیفن ہاکنگ نے ثابت کیاتھا۔


[12]۔ بحوالہ جمشید اختر، The fate of our Universe۷۔

[13]۔ ملاحظہ ہو:وقت کا سفر ۲۷۔

[14]۔ بحوالہ جمشید اختر، The fate of our Universe۱۰۔

[15]۔ ہارون یحییٰ،Creation of the Universe۴۵۔

[16]۔ کائنات کے ٹھنڈا ہونے کے اعدادوشمار۔

     بگ بینگ کے بعد عرصہ  درجہ حرارت

10/8سکینڈز                          10.13 0c

تین منٹ                                                     10 80c  

اس کے بعدلمبے زمانوں تک کوئی تغیرنہیں ہوا اور درجہ ٔحرارت اسی حالت میں رہا پھر 300,000(تین لاکھ) سال بعد درجہ ٔحرارت بڑھ کر10 80c   ہوگیا۔

بگ بینگ کے ایک ملین سال بعد                              3,000 oC درجہ پرپہنچا

1000 ملین سال بعد                           170 oC_ درجہ ٔ حرارت

15000سال بعد                         270 oC - ہوا  

تفصیل کے لیے دیکھیں : The Univers Facts کیرل اسٹوٹ،کلنٹ سٹوٹ اردوترجمہ : یاسرجواد۔

[17]۔ بحوالہ جمشید اختر، The fate of our Universe۷۔

[18]۔ وقت کا سفر۶۴۔

[19]۔ تفصیل کے لیے دیکھیں : The Univers Facts کیرل اسٹوٹ،کلنٹ سٹوٹ اردوترجمہ: یاسر جواد (اور وقت کا سفرص۶۴)۔

[20]۔ طاہرالقادری،تخلیق کائنات ۶۸۔

[21]۔ اسٹیفن ہاکنگ،وقت کا سفر  ۲۸۔

B