HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

پردے سے متعلق دینی ہدایات

محمد تہامی بشر علوی


[”نقطۂ نظر“ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

 

پردے کا لفظ قرآن مجید کے احکام کو پوری طرح بیان نہیں کرتا۔ صحیح بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ نور میں مرد وعورت، دونوں کو گھر ہو یا کوئی دوسری جگہ، جب یہ ایک دوسرے کے سامنے آئیں تو کچھ آداب واحکام کا پابند کیا ہے۔

دو حکموں میں مردوعورت مشترک ہیں اور دو حکم عورت کے لیے اضافی ہیں:

۱۔ دونوں اپنی نظریں بچا کر رکھیں۔

۲۔ دونوں شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔

۳۔ عورتیں اپنی زیب وزینت اپنے قریبی اعزہ اور متعلقین کے علاوہ کسی پر ظاہر نہ ہونے دیں۔

۴۔ عورتیں اپنے سینے کو ڈھانپ کر رکھیں ۔

نظریں بچانے سے مراد یہ ہے کہ مردو عورت ایک دوسرے کے حسن وجمال سے آنکھیں سینکنے، خط وخال کا جائزہ لینے اور ایک دوسرے کو گھورنے سے پرہیز کریں۔

شرم گاہوں کی حفاظت سے مراد یہ ہے کہ مرد وعورت ایک جگہ موجود ہوں تو چھپانے کی جگہوں کو اور بھی زیادہ اہتمام سے چھپائیں۔ اس میں، ظاہر ہے کہ بڑا دخل اس بات کا ہے کہ لباس باقرینہ ہو۔ عورتیں اور مرد، دونوں ایسا لباس پہنیں جو زینت کے ساتھ ساتھ صنفی اعضا کو بھی پوری طرح چھپانے والا ہو۔ پھر اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ اٹھنے بیٹھنے میں کوئی شخص برہنہ نہ ہونے پائے۔

لباس کے حوالے سے عورتوں کو مزید ہدایت سینے سے متعلق ہے کہ وہ اسے اپنے دوپٹوں سے ڈھانپ کررکھیں۔

قرآن مجید نے مسلمان مردو و عورت کو باہمی اختلاط کے مواقع پر ان آداب کو ملحوظ رکھنے کا پابند کیا ہے۔ ان ہدایات سے زیادہ کسی اور پردے کا مطالبہ کم از کم خدا کے دین کی رو سے نہیں کیا جا سکتا۔ لوگوں نے خیال کیا کہ پردے کا حکم شاید مردوں کو بدنظری سے بچانے کے لیے دیا گیا ہے، اس لیے وہ اس بحث کو اسی تناظر میں سمجھنا اور سمجھانا چاہتے ہیں۔وہ یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ عورت کا چہرہ پرکشش ہوتا ہے، اس لیے مردوں کو بدنظری سے بچانے کے لیے اسے بھی چھپایا جانا چاہیے۔ قرآن مجید اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا بیان بہرحال یہ نہیں ہے کہ عورتوں کوپردے کا حکم، مردوں کو بدنظری سے بچانے کی خاطر دیا گیا ہے۔ نظروں کی حفاظت کا حکم مردوعورت، دونوں کو الگ سے دیا گیا ہے۔ اس کا تعلق چہرے کے پردے سے نہیں ہے۔ پردے کے احکام دیتے وقت جو چیز پیش نظر تھی، وہ قرآن مجید کے خود اپنے بیان کی رو سے یہ تھی کہ عہد رسالت میں منافقین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو بطور خاص نشانہ بنا کر کردار کشی کی مہم شروع کر رکھی تھی۔ منافقین کی ان سازشوں سے ہوشیار و محفوظ رہنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات کے لیے بعض اضافی حفاظتی ہدایات بھی جاری کی ہیں۔منافقین کی ایذا رسانی کی زد عام مسلمان عورتوں پر بھی آ پڑی تھی۔اس پس منظر میں دی گئی ہدایات کا تعلق عام حالات سے نہیں ہے اور نہ ہی عام حالات میں مسلمان عورتوں سے اس قسم کی پابندیوں کا مطالبہ کیا گیا ہے۔  اگرچہ ان آیات سے عمومی ہدایات اخذ کر کے تمام مسلمان عورتوں سے متعلق کیا گیا ہے، مگر خود قرآن مجید ان ہدایات کا پس منظر اور مقصد واضح کر کے مدعا کوپوری طرح صاف کردیتا ہے۔ سورۂ احزاب میں ہے:

يٰنِسَآءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِيْ فِيْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا.(۳۳ : ۳۲)
’’نبی کی بیویو، تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ اگر تم خدا سے ڈرو تو (اِن لوگوں کے ساتھ)  نرمی کا لہجہ اختیار نہ کرو کہ جس کے دل میں بیماری ہے، وہ کسی طمع خام میں مبتلا ہو جائے اور معروف کے مطابق بات کرو۔‘‘

اس آیت کے مفہوم کو مولانا امین احسن اصلاحی نے اپنی تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ میں یوں بیان کیا ہے :

’’...’فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ‘ کے معنی ہوں گے۔ ’بات کہنے میں نرمی و تواضع نہ اختیار کرو‘۔ عام حالات میں تو پسندیدہ طریقۂ کلام یہی ہے کہ آدمی تواضع کا انداز اختیار کرے، لیکن بعض اوقات حالات و مصالح کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ اس سے مختلف روش اختیار کی جائے۔ اوپر ہم اشارہ کر چکے ہیں کہ اس دور میں منافقین و منافقات رات دن اس تگ و دو میں تھے کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے دلوں میں وسوسہ اندازی کرکے کوئی ایسی بات نکالیں جس کو ایک فتنہ بنا سکیں۔ ان لوگوں کی باتیں ہمدردانہ رنگ میں ہوتی تھیں اس وجہ سے امہات المومنین رضی اللہ عنہن بھی ان کا جواب اپنی شرافت نفس کے سبب سے نرم انداز ہی میں دیتی تھیں جس سے یہ مفسدین دلیر ہوتے جا رہے تھے اور ان کو یہ توقع ہو چلی تھی کہ وہ بہت جلد اپنی سازش میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ان خاص حالات کی بنا پر امہات المومنین رضی اللہ عنہن کو اپنا رویہ بدل دینے کی ہدایت ہوئی۔ فرمایا کہ اے نبی کی بیویو، تم عام عورتوں کی مانند نہیں ہو۔ نبی کے ساتھ نسبت کے باعث تمھاری نیکی اور بدی دونوں کی ایک خاص اہمیت ہے۔ تمھاری نیکی دوسروں کے لیے مثال اور نمونہ بنے گی اور تم سے کوئی غلطی صادر ہو گی تو اس کو بھی اصحاب الاغراض حجت بنائیں گے اس وجہ سے تمھارے لیے احتیاط کی روش اولیٰ ہے۔ اگر منافقین تمھارے دلوں میں وسوسہ اندازی کرنے کی کوشش کریں تو بربنائے مروت و شرافت ان کی بات کا جواب نرمی و تواضع سے نہ دو کہ جس کے دل میں اللہ اور اس کے رسول کے خلاف بغض و حسد ہے وہ کوئی غلط توقع کر بیٹھے، بلکہ صاف انداز میں اس سے اس طرح بات کہو کہ اگر وہ اپنے دل میں کوئی برا ارادہ لے کر آیا ہے تو اس کو اچھی طرح اندازہ ہو جائے کہ یہاں اس کی دال گلنے والی نہیں ہے۔‘‘(۶ / ۲۲۰)

ت منافقین کی انھی شرانگیزیوں کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن مجید، ازواج نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اگلی ہدایت یوں دیتا ہے:

وَقَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْاُوْلٰي وَاَقِمْنَ الصَّلٰوةَ وَاٰتِيْنَ الزَّكٰوةَ وَاَطِعْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗﵧ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا. (الاحزاب ۳۳ : ۳۳)
’’اور اپنے گھروں میں ٹک کے رہو، اور سابقہ جاہلیت کے سے انداز اختیار نہ کرو۔ اور نماز کا اہتمام رکھو اور زکوٰۃ دیتی رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ اللہ تو بس یہ چاہتا ہے، اے اہل بیت نبی کہ تم سے آلودگی کو دور کرے اور تمھیں اچھی طرح پاک کرے۔‘‘

اس آیت کے مفہوم کو جاوید احمد غامدی نے اپنی تفسیر ’’البیان‘‘ میں یوں بیان کیا ہے :

’’یہ ہدایت بھی اُسی منصب اور اُس کی ذمہ داریوں کے لحاظ سے ہے جو ازواج مطہرات کو حاصل تھا کہ اُنھیں زمانۂ جاہلیت میں بڑے لوگوں کی بیگمات کے طریقے پر اپنی زیب و زینت کی نمایش کرتے ہوئے باہر نہیں نکلنا چاہیے، بلکہ جو حالات اُنھیں درپیش ہیں، اُن میں باہر نکلنے ہی سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اِس لیے کہ منافقین شب و روز اِسی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ وہ اُن سے متعلق کوئی اسکینڈل پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ عام عورتوں کے ساتھ اِس ہدایت کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ اپنے حالات اور اپنی ضرورتوں کے لحاظ سے اُس زمانے میں بھی، جہاں چاہیں،جا سکتی تھیں اور اب بھی جا سکتی ہیں۔ اجنبیوں کے سامنے زیب و زینت کی نمایش، البتہ اُن کے لیے بھی ممنوع ہے، اِس لیے کہ سورۂ نور میں اللہ تعالیٰ نے اِس کی ہدایت اُنھیں الگ فرما دی ہے۔ یہاں اتنی بات مزید واضح ہوئی کہ اجنبی مردوں کے سامنے زیب و زینت کی نمایش جاہلیت کا طریقہ ہے، اِس کا اسلامی تہذیب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
یعنی گھروں میں رہ کر اِنھی کاموں میں سرگرم رہو تاکہ اپنی وہ ذمہ داری کماحقہ ٗپوری کر سکو جو رسول کی بیویوں کی حیثیت سے تم پر عائد ہوتی ہے۔ آگے وضاحت فرما دی ہے کہ یہ دعوت و تبلیغ کی ذمہ داری ہے جس کے لیے علما اُٹھیں یا پیغمبر کے گھرانے کے لوگ، اُنھیں سب سے بڑھ کر اِنھی چیزوں کا اہتمام کرنا چاہیے۔
مطلب یہ ہے کہ تمھارے باطن کی پاکیزگی میں شبہ نہیں، لیکن اللہ تعالیٰ تمھارے منصب کے لحاظ سے تمھیں لوگوں کی نگاہ میں بھی ہر طرح کی اخلاقی نجاست سے بالکل پاک دیکھنا چاہتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو نہایت شفقت و محبت کے ساتھ خطاب کرکے یہ اب اُن ہدایات کا مقصد بتایا ہے جو اُنھیں یہاں دی جا رہی ہیں اور اُن کے لیے ’اہل بیت‘ کا لفظ استعمال کرکے واضح کر دیا ہے کہ اِس کا شرف اصلاً اُنھی کو حاصل ہے۔ دوسروں کی شمولیت اِس میں ہو سکتی ہے تو اصلاً نہیں، بلکہ تبعاً و ضمناً ہو سکتی ہے۔‘‘(۴ / ۱۳۱ - ۱۳۲)

اسی سورہ میں اسی پس منظر و مقصد کے پیش نظر آگے چل کر کہا گیا :

وَالَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِيْنًا. يٰ٘اَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَآءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّﵧ ذٰلِكَ اَدْنٰ٘ي اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَﵧ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا.(۳۳: ۵۸ - ۵۹)   
’’ اور جو مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو (اِسی طرح اُن پر تہمتیں لگا کر)، بغیر اِس کے کہ اُنھوں نے کچھ کیا ہو، اذیت دے رہے ہیں، (اُنھیں بھی معلوم ہونا چاہیے کہ) اُنھوں نے بڑے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اپنے سر لے لیا ہے۔ (اِن کی شرارتوں سے اپنی حفاظت کے لیے)، اے نبی، تم اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور سب مسلمانوں کی عورتوں کو ہدایت کر دو کہ (اندیشے کی جگہوں پر جائیں تو) اپنی چادروں میں سے کوئی بڑی چادر اپنے اوپر ڈال لیا کریں۔ اِس سے امکان ہے کہ الگ پہچانی جائیں گی تو ستائی نہ جائیں گی۔ اِس کے باوجود (کوئی خطا ہوئی تو) اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔‘‘

اصل میں ’يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن میں تبعیض ہمارے نزدیک ’جلبابًا من جلابيبهن‘ کے مفہوم پر دلالت کے لیے ہے، یعنی اپنے گھروں میں موجود چادروں میں سے کوئی بڑی چادر جو بالعموم اوڑھنی کے اوپر لی جاتی تھی۔

اِن الفاظ سے بھی واضح ہے اور حکم کا سیاق و سباق بھی بتا رہا ہے کہ یہ عورتوں کے لیے پردے کا کوئی حکم نہیں تھا، جیسا کہ عام طور پر لوگوں نے سمجھا ہے، بلکہ مسلمان عورتوں کے لیے اُن کی الگ شناخت قائم کر دینے کی ایک وقتی تدبیر تھی جو اوباشوں اور تہمت تراشنے والوں کے شر سے اُن کو محفوظ رکھنے کے لیے اختیار کی گئی۔ اِس سے مقصود یہ تھا کہ وہ اندیشے کی جگہوں پر جائیں تو دوسری عورتوں سے الگ پہچانی جائیں اور اُن کے بہانے سے اُن پر تہمت لگانے کے مواقع پیدا کرکے کوئی اُنھیں اذیت نہ دے۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان عورتیں جب رات کی تاریکی میں یا صبح منہ اندھیرے رفع حاجت کے لیے نکلتی تھیں تو منافقین کے اشرار اُن کے درپے آزار ہوتے اور اِس پر گرفت کی جاتی تو فوراً کہہ دیتے تھے کہ ہم نے تو فلاں اور فلاں کی لونڈی سمجھ کر اُن سے فلاں بات معلوم کرنا چاہی تھی۔

سورۂ احزاب (۳۳) کی اس آیت سے پہلے اور بعد کی آیات سامنے رکھ کر سمجھنے کی کوشش کی جائے تو پوری بات بہ آسانی سمجھ لی جاسکتی ہے۔  چنانچہ آیت نمبر ۵۷اور ۵۸کے الفاظ یوں ہیں:

اِنَّ الَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ وَاَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِيْنًا. وَالَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِيْنًا.
’’اللہ اور اُس کے رسول کو جو لوگ اذیت پہنچا رہے ہیں، اُن پر اللہ نے دنیا اور آخرت، دونوں میں لعنت کر دی ہے اور اُن کے لیے اُس نے رسوا  کر دینے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔اور جو مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو (اِسی طرح اُن پر تہمتیں لگا کر)، بغیر اِس کے کہ اُنھوں نے کچھ کیا ہو، اذیت دے رہے ہیں، (اُنھیں بھی معلوم ہونا چاہیے کہ) اُنھوں نے بڑے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اپنے سر لے لیا ہے۔‘‘

اِس سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے گھر والے ہی نہیں، دوسرے مسلمان مرد اور عورتیں بھی اُس زمانے میں منافقین کی شرارتوں کا ہدف بنے ہوئے تھے اور اُن کی اخلاقی ساکھ کو مجروح کرنے کے لیے وہ اُنھیں بھی کسی نہ کسی طریقے سے متہم کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ آگے جو حکم دیا گیا ہے، اُس میں عام مسلمان عورتوں کو اِسی بنا پر شامل کردیا ہے۔ تاہم اُس طرح کے خطرات اُن کے لیے نہیں تھے، جن کا پیچھے ازواج مطہرات سے متعلق ذکر ہوا ہے۔ چنانچہ وہاں شامل نہیں کیا گیا۔

اب آیت نمبر۶۰ اور ۶۱کے الفاظ پر غور کیجیے :

لَئِنْ لَّمْ يَنْتَهِ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ وَّالْمُرْجِفُوْنَ فِي الْمَدِيْنَةِ لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُوْنَكَ فِيْهَا٘ اِلَّا قَلِيْلًا.(الاحزاب ۳۳: ۶۰)
’’یہ منافقین اگر (اِس کے بعد بھی) اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے اور وہ بھی جن کے دلوں میں بیماری ہے اور جو مدینہ میں لوگوں کو بھڑکانے کے لیے جھوٹ اڑانے والے ہیں تو ہم اُن پر تمھیں اکسا دیں گے، پھر وہ تمھارے ساتھ اِس شہر میں کم ہی رہنے پائیں گے۔‘‘

یعنی حسد، کینہ اور بغض و عناد کی بیماری ہے۔ یہ بھی منافقین ہی کے ایک گروہ کی طرف اشارہ ہے جو صرف منافق ہی نہیں تھا، اِس کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے بارے میں اپنے دل میں سخت عناد بھی رکھتا تھا اور مسلمانوں کے اندر داخل ہوکر اُن کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا رہتا تھا۔

اصل میں لفظ ’اِرْجَاف‘ استعمال ہوا ہے، یعنی لوگوں کے اندر اضطراب اور بے چینی پھیلانے کے ارادے سے فتنہ انگیز خبروں کا پروپیگنڈا کرنا۔ اِس گروہ کا کردار پیچھے کئی مقامات پر زیر بحث آچکا ہے۔سیدہ زینب کے نکاح کے معاملے میں بھی یہی سب سے بڑھ کر فتنہ انگیزی کر رہا تھا۔

یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ اِن کے معاملے میں اب تک عفوودرگذرہی کی ہدایت کی گئی تھی۔

مَّلْعُوْنِيْنَﵑ اَيْنَمَا ثُقِفُوْ٘ا اُخِذُوْا وَقُتِّلُوْا تَقْتِيْلًا. (الاحزاب ۳۳: ۶۱)
’’ان پر پھٹکار ہو گی، جہاں ملیں گے پکڑے جائیں گے اور بے دریغ قتل کیے جائیں گے۔‘‘

یعنی، اول تو ان کو تمھارے دامن امن میں پھر ٹکنا ہی بہت کم نصیب ہو گا اور اگر کچھ ہوگا بھی تو خدا کی لعنت اور پھٹکار کے ساتھ ہو گا۔ ’اَيْنَمَا ثُقِفُوْ٘ا اُخِذُوْا وَقُتِّلُوْا تَقْتِيْلًا‘ اسی ملعونیت کی تصویر ہے۔ چنانچہ بعد کے ادوار میں ان منافقین کو اسی حشر سے سابقہ پیش آیا۔ ان میں سے جنھوں نے اپنی روش کی اصلاح نہیں کی، ان کا انجام وہی ہوا جو قریش اور یہود کے اشرار کا ہوا۔

اِس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اوپر کا حکم کس طرح کے اشرارسے مسلمانوں کی عزت و آبرو کو محفوظ رکھنے کے لیے دیا گیا ہے۔

قرآن مجید کے خود اپنے ہی بیان و اسلوب سے واضح ہے کہ ان ہدایات کا تعلق کس سے اور کس وجہ سے ہے۔مزید کسی شرح و وضاحت کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔

ـــــــــــــــــــــــــ

B