ترجمہ و تحقیق: ڈاکٹر محمد عامر گزدر
عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، قَالَتْ: ۱ قَامَ رَسُولُ اللهِ r [خَطِيبًا،۲ ] فَذَكَرَ الْفِتْنَةَ الَّتِي يُفْتَنُ بِهَا الْمَرْءُ فِي قَبْرِهِ، فَلَمَّا ذَكَرَ ذٰلِكَ ضَجَّ الْمُسْلِمُونَ ضَجَّةً حَالَتْ بَيْنِي وَبَيْنَ أَنْ أَفْهَمَ [آخِرَ۳ ] كَلَامِ رَسُولِ اللهِ r، فَلَمَّا سَكَنَتْ ضَجَّتُهُمْ، قُلْتُ لِرَجُلٍ قَرِيبٍ مِنِّي: أَيْ بَارَكَ اللهُ لَكَ، مَاذَا قَالَ رَسُولُ اللهِ r فِي آخِرِ قَوْلِهِ؟ قَالَ: «قَدْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ قَرِيبًا مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ».
اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبے کے لیے کھڑے ہوئے تو آپ نے اُس فتنہ کا ذکر کیا جس سےآدمی کو قبر میں آزمایا جائے گا۔ جب آپ نے اُس کا ذکر کیا تو مسلمان ایسی آہ وبکا کرنے لگے کہ (اُس کے شور سے)میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری بات سمجھ نہیں سکی۔پھر جب اُن کی چیخوں کی آواز تھم گئی تو میں نے قریب بیٹھے ایک شخص سے کہا: اللہ تیرے لیے برکت فرمائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر میں کیا فرمایا تھا؟ (اُس نے کہا ): آپ نے فرمایا تھا کہ یہ بات مجھ پر وحی ہوئی ہے کہ تم لوگ قبروں میں آزمائے جاؤگے، کم و بیش اُتنے ہی، جتنے دجال کے فتنے میں۱ ۔
__________________
ا۔ اِس باب کی دوسری روایتوں سے واضح ہے کہ بات اِس سے زیادہ نہیں تھی کہ لوگ قبروں میں بھی اُسی طرح آزمائے جائیں گے ، جس طرح دجال کے فتنے میں ۔چنانچہ مدعا بھی یہی تھا اور یہی ہونا چاہیے کہ قبر اور دجال کا فتنہ، دونوں برحق ہیں اور دونوں لازماً پیش آئیں گے۔ اِس سے ہرگز یہ مقصود نہیں تھا کہ دونوں میں کسی معنوی تعلق کی طرف اشارہ کیاجائے،مگر راویوں کے تصرفات نے اُس کو یہ صورت دے دی ہے۔
۱ ۔اِس روایت کا متن اصلاً السنن الصغریٰ، نسائی، رقم ۲۰۶۲ سے لیا گیا ہے۔اِس کی راوی تنہا اسماء رضی اللہ عنہا ہیں۔اِس کے متابعات اِن مراجع میں نقل ہوئے ہیں:صحيح بخاری،رقم ۱۳۷۳۔السنن الكبرىٰ، نسائی،رقم ۲۲۰۰۔مستخرج ابی عوانہ، رقم۳۹۷۔البعث، ابن ابی داؤد، رقم ۱۱، ۱۲۔ اثبات عذاب القبر ، بیہقی، رقم ۱۰۲ ۔
۲۔صحيح بخاری ، رقم ۱۳۷۳۔
۳ ۔البعث، ابن ابی داؤد، رقم ۱۱۔
عَنْ أَسْمَاءَ أَيْضًا، قَالَتْ۱: خَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ r [فَإِذَا النَّاسُ قِيَامٌ يُصَلُّونَ،۲ ] [وَرَسُولُ اللهِ r يُصَلِّي بِالنَّاسِ،۳ ] فَدَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ [وَإِذَا هِيَ قَائِمَةٌ تُصَلِّي۴ ]، فَقُلْتُ: مَا شَأْنُ النَّاسِ يُصَلُّونَ؟ فَأَشَارَتْ بِرَأْسِهَا إِلَى السَّمَاءِ [أَوْ قَالَتْ: سُبْحَانَ اللهِ! ۵ ]، فَقُلْتُ: آيَةٌ؟ قَالَتْ: نَعَمْ۶، فَأَطَالَ رَسُولُ اللهِ r الْقِيَامَ جِدًّا حَتَّى تَجَلَّانِي الْغَشْيُ، فَأَخَذْتُ قِرْبَةً إِلَى جَنْبِي، فَجَعَلْتُ أَصُبُّ عَلَى رَأْسِي الْمَاءَ، فَانْصَرَفَ رَسُولُ اللهِ r وَقَدْ تَجَلَّتِ الشَّمْسُ، فَخَطَبَ رَسُولُ اللهِ r، فَحَمِدَ اللهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: «أَمَّا بَعْدُ، مَا مِنْ شَيْءٍ لَمْ أَكُنْ رَأَيْتُهُ إِلَّا قَدْ رَأَيْتُهُ فِي مَقَامِي هٰذَا، حَتَّى الْجَنَّةُ وَالنَّارُ، إِنَّهُ قَدْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ قَرِيبًا، أَوْ مِثْلَ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ»، لَا أَدْرِي أَيَّ ذٰلِكَ قَالَتْ أَسْمَاءُ، يُؤْتَى أَحَدُكُمْ، «فَيُقَالُ: مَا عِلْمُكَ بِهٰذَا الرَّجُلِ؟ فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ أَوِ الْمُوقِنُ»، لَا أَدْرِي أَيَّ ذٰلِكَ قَالَتْ أَسْمَاءُ، «فَيَقُولُ: هُوَ مُحَمَّدٌ، هُوَ رَسُولُ اللهِ، جَاءَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى، فَأَجَبْنَا [وَآمَنَّا۷ ] وَاتَّبَعْنَا، ثَلَاثَ مِرَارٍ، فَيُقَالُ لَهُ: قَدْ كُنَّا نَعْلَمُ إِنْ كُنْتَ لَتُؤْمِنُ بِهِ، فَنَمْ صَالِحًا، وَأَمَّا الْمُنَافِقُ، أَوِ الْمُرْتَابُ»، لَا يَدْرِي أَيَّ ذٰلِكَ قَالَتْ أَسْمَاءُ، «فَيَقُولُ: مَا أَدْرِي، سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ شَيْئًا فَقُلْتُ، [فَيُقَالُ: لَا دَرَيْتَ فَيُغْلَظُ لَهُ فِي قَبْرِهِ۸ ]».
سیدہ اسماء ہی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ایک مرتبہ سورج گرہن ہوا تو کیا دیکھتی ہوں کہ لوگ کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امامت کرارہے ہیں۔میں سیدہ عائشہ کے ہاں داخل ہوئی تو دیکھا کہ وہ بھی نماز میں کھڑی ہیں۔ میں نے اُن سے پوچھا: کیا بات ہے، لوگ اِس وقت نماز پڑھ رہے ہیں؟اِس پر اُنھوں نے اپنے سر سے آسمان کی طرف اشارہ کیا ۔اسماء کہتی ہیں کہ یا غالباً زبان سے ’سبحان اللہ‘ کہا تو میں نے کہا: اچھا، تو خدا کی کوئی نشانی ظاہر ہوئی ہے؟ سیدہ نے اشارے سے ہاں کہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس نماز میں اتنا لمبا قیام فرمایا کہ مجھ پر بے ہوشی سی طاری ہونے لگی۱ ۔اِس پر میں نے پہلو میں رکھا ہوا ایک مشکیزہ اُٹھایا اور اُس سے اپنے سر پر پانی بہانا شروع کردیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتنے میں نماز پڑھا کر پلٹے۔ اُس وقت سورج روشن ہوچکا تھا۔چنانچہ آپ نے خطبہ دیا،اُس میں اللہ کی حمد وثنا بیان کی اور فرمایا: اما بعد، میں نے آج وہ چیزیں دیکھ لی ہیں جو اِس سے پہلے نہیں دیکھی تھیں، یہاں تک کہ جنت اور دوزخ کو بھی دیکھ لیا ہے، اور مجھے یہ بات بھی وحی کی گئی ہے کہ تم لوگ اپنی قبروں میں کم وبیش اتنے ہی یا غالباً فرمایا کہ اُسی طرح آزمائے جاؤگے، جس طرح دجال کے فتنے میں آزمائے جاؤ گے۔راوی کہتے ہیں کہ مجھے یاد نہیں رہا کہ اسماء رضی اللہ عنہا نے اِن دونوں میں سے کیا تعبیر اختیار کی تھی۲ب ۔فرمایا: پھر تمھارے مُردوں کے پاس فرشتے آئیں گے اور اُن سے سوال کیا جائے گا کہ تم اِس شخص کے بارے میں کیا جانتے ہو؟ جو مومن ہوگا، یا فرمایا کہ یقین رکھنے والا ہو گا، راوی کہتے ہیں کہ اُنھیں یاد نہیں رہا کہ اسماء نے کیا لفظ بولا تھا ـــــــــ وہ جواب میں تین مرتبہ دہراکر کہے گا کہ یہ اللہ کے رسول ہیں جو ہمارے پاس واضح نشانیاں اور ہدایت لے کر آئے تھے، ہم نے اُن کی آواز پر لبیک کہا، اُن پر ایمان لائے اور اُن کی پیروی اختیار کرلی۔ اِس پر اُس سے کہا جائے گا: یقیناً ہم جانتے تھے کہ تم اِن پر ایمان رکھتے ہو، لہٰذا اب اطمینان سے سو جاؤ۔ رہا منافق یا شک میں رہنے والا ـــــــــ راوی کو یاد نہیں رہا کہ اسماء نے کیا لفظ کہا تھا ـــــــــ فرمایا کہ وہ اِس سوال کےجواب میں کہے گا: مجھے کچھ نہیں معلوم، میں نے لوگوں کو کوئی بات کہتے ہوئے سنا تھا، وہی میں نے بھی کہہ دی تھی۔اِس پر اُس سے کہا جائے گا: تو نے کچھ نہ سمجھا۔ پھر قبر میں اُس پر سختی شروع ہو جائے گی۳۔
______________________
۱۔ یہ واقعہ پیچھے بھی بیان ہوچکا ہے۔ سیدہ کی اِس حالت سے معلوم ہوتا ہے کہ غالباً سخت گرمی کا موسم ہوگا کہ لمبے قیام کی وجہ سے وہ بے ہوش ہونے لگیں۔
۲۔ راوی کا تردد بتارہا ہے کہ اِس جملے کو سمجھنے میں اُس سے کیا غلطی ہوئی ہے۔چنانچہ ’اُسی طرح آزمائے جاؤ گے‘ کی تعبیر ہی ہمارے نزدیک صحیح ہے۔ یعنی جس طرح دجال کا فتنہ ہوگا، اُسی طرح قبر کا فتنہ بھی ہوگا، اِس لیے دونوں سے اللہ کی پناہ مانگتے رہو۔
ق ۳۔ اِس سے واضح ہے کہ یہ معاملہ اُنھی لوگوں کے ساتھ ہوگا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اور آپ کے براہ راست مخاطبین تھے اور آپ کی طرف سے اتمام حجت کے باوجود آخر وقت تک منافقوں ہی کے زمرے میں شامل رہے۔اِس طرح کے لوگوں کا یہی انجام قرآن مجید کی سورۂ توبہ میں بیان ہوا ہے۔چنانچہ فرمایا ہے: ’وَمِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ وَمِنْ اَهْلِ الْمَدِيْنَةِ مَرَدُوْا عَلَي النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْﵧ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ سَنُعَذِّبُهُمْ مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّوْنَ اِلٰي عَذَابٍ عَظِيْمٍ ‘، ’’تمھارے اردگرد جو بدوی رہتے ہیں، اُن میں بھی بہت سے منافق ہیں اور مدینہ والوں میں بھی۔ وہ اپنے نفاق میں طاق ہو چکے ہیں۔ تم اُن کو نہیں جانتے، ہم اُن کو جانتے ہیں۔ اُنھیں عنقریب ہم دو مرتبہ سزا دیں گے۔ پھر وہ ایک عذاب عظیم کی طرف دھکیل دیے جائیں گے‘‘(۹: ۱۰۱)۔ یعنی ایک مرتبہ اِسی دنیا میں اور ایک مرتبہ قیامت سے پہلے برزخ میں۔
۱ ۔ اِس واقعے کا متن اصلاً مسند احمد، رقم ۲۶۹۲۵ سے لیا گیا ہے۔ اِس کی راوی بھی تنہا اسماء رضی اللہ عنہا ہیں۔اِس کے باقی طرق جن مصادر میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں، وہ یہ ہیں: موطا مالک، رقم ۲۰۱۔مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۷۵۱۰۔صحیح بخاری، رقم ۸۶، ۱۸۴، ۷۲۸۷۔مستخرج ابی عوانہ، رقم ۳۹۵، ۳۹۶، ۲۴۳۷، ۲۴۳۸، ۲۴۳۹۔ صحيح ابن حبان، رقم ۳۱۱۴۔ المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۲۱۳، ۳۱۳، ۳۱۴، ۳۱۵، ۳۱۶۔ اثبات عذاب القبر، بیہقی، رقم ۱۸، ۱۹۔
۲ ۔ موطا مالک، رقم ۲۰۱۔
۳ ۔المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۳۱۴۔
۴ ۔صحیح بخاری، رقم ۱۸۴۔
۵۔مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۷۵۱۰۔
۶۔بعض طرق، مثلاً صحیح بخاری، رقم ۸۶ میں یہاں یہ الفاظ آئےہیں: ’فَأَشَارَتْ بِرَأْسِهَا: أَيْ نَعَمْ‘، ’’اِس پر اُنھوں نے اپنے سر سے اشارہ کرتے اثبات میں جواب دیا‘‘۔
۷ ۔صحیح بخاری، رقم ۱۸۴۔
۸ ۔المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۳۱۴۔ اثبات عذاب القبر، بیہقی، رقم ۱۹ میں یہاں ’فَيُعَذَّبُ فِي قَبْرِهِ‘ ، ’’پھر اُس کو اپنی قبر میں عذاب ہوگا‘‘ کے الفاظ آئے ہیں۔
عَنْ أَسْمَاءَ أَيْضًا، تُحَدِّثُ عَنِ النَّبِيِّ r أَنَّهُ قَالَ۱ «إِذَا دَخَلَ الْإِنْسَانُ قَبْرَهُ، فَإِنْ كَانَ مُؤْمِنًا، أَحَفَّ بِهِ عَمَلُهُ [الصَّالِحُ۲ ]، الصَّلَاةُ وَالصِّيَامُ». قَالَ: «فَيَأْتِيهِ الْمَلَكُ مِنْ نَحْوِ الصَّلَاةِ، فَيَرُدُّهُ، وَمِنْ نَحْوِ الصِّيَامِ، فَيَرُدُّهُ». قَالَ: «فَيُنَادِيهِ: اجْلِسْ». قَالَ: «فَيَجْلِسُ، فَيَقُولُ لَهُ: مَاذَا تَقُولُ فِي هٰذَا الرَّجُلِ، يَعْنِي النَّبِيَّr؟ قَالَ: مَنْ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ. قَالَ: أَنَا أَشْهَدُ أَنَّهُ رَسُولُ اللهِ» قَالَ: «يَقُولُ: وَمَا يُدْرِيكَ؟ أَدْرَكْتَهُ؟ قَالَ: أَشْهَدُ أَنَّهُ رَسُولُ اللهِ». قَالَ: «يَقُولُ: عَلَى ذٰلِكَ عِشْتَ، وَعَلَيْهِ مِتَّ، وَعَلَيْهِ تُبْعَثُ». قَالَ: «وَإِنْ كَانَ فَاجِرًا، أَوْ كَافِرًا» قَالَ: «جَاءَ الْمَلَكُ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ شَيْءٌ يَرُدُّهُ». قَالَ: «فَأَجْلَسَهُ». قَالَ: «يَقُولُ: اجْلِسْ، مَاذَا تَقُولُ فِي هٰذَا الرَّجُلِ؟ قَالَ: أَيُّ رَجُلٍ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ». قَالَ: «يَقُولُ: وَاللهِ مَا أَدْرِي، سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ شَيْئًا، فَقُلْتُهُ». قَالَ: «فَيَقُولُ لَهُ الْمَلَكُ: عَلَى ذٰلِكَ عِشْتَ، وَعَلَيْهِ مِتَّ، وَعَلَيْهِ تُبْعَثُ». قَالَ: «وَتُسَلَّطُ عَلَيْهِ دَابَّةٌ فِي قَبْرِهِ [سَوْدَاءُ مُظْلِمَةٌ۳ ]، مَعَهَا سَوْطٌ، ثَمَرَتُهُ جَمْرَةٌ مِثْلُ غَرْبِ الْبَعِيرِ، تَضْرِبُهُ مَا شَاءَ اللهُ، صَمَّاءُ لَا تَسْمَعُ صَوْتَهُ فَتَرْحَمَهُ».
اسماء رضی اللہ عنہا ہی کا بیان ہے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سےروایت کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: انسان اگر بندۂ مومن ہو تو جیسے ہی اپنی قبرمیں داخل ہوتا ہے،اُس کے نیک اعمال، مثلاً نماز اور روزےاُس کو گھیرے میں لے لیتے ہیں۔ فرشتہ نماز کی طرف سے آنا چاہتا ہے تو وہ اُس کو روک دیتی ہے اور روزے کی طرف سے آنا چاہے تو روزہ روک دیتا ہے ۔پھر فرشتہ اُسے پکار کر کہتا ہے: بیٹھ جاؤ۔وہ بیٹھ جاتا ہےتو اُس سے پوچھتا ہے کہ تم اِس شخص، یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ وہ پوچھتا ہے، کون شخص؟ فرشتہ کہتا ہے :محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)۔ وہ کہتا ہے: میں گواہی دیتاہوں کہ وہ اللہ کے پیغمبر ہیں۔ فرمایا کہ فرشتہ کہتا ہے : تو اِسی پر زندہ رہا ،اِسی پر تجھے موت آئی اور تجھے اٹھایا بھی اِسی پرجائے گا۔لیکن مرنےوالا فاجر یا کافر ہو تو فرشتہ آجاتا ہے اور کوئی چیز اُس کو لوٹانے کے لیے درمیان میں نہیں ہوتی۔فرمایا کہ فرشتہ اُس کو بٹھاکرکہتا ہے کہ بتاؤ کہ اِس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ وہ کہتا ہے: کون شخص؟ فرشتہ جواب دیتا ہے: محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) ۔مردہ کہتا ہے: بخدا ، مجھے کچھ معلوم نہیں۔ میں نے لوگوں کو کچھ کہتے ہوئے سنا تھا، سو میں نے بھی وہی کہہ دیا۔فرمایا کہ فرشتہ یہ سن کر اُس سے کہتا ہے: تو اِسی پر زندہ رہا ،اِسی پر تجھے موت آئی اور تجھے اٹھایا بھی اِسی پرجائے گا۔فرمایا کہ پھر قبر میں انتہائی سیاہ رنگ کا ایک جانور اُس پر مسلط کردیا جائے گا،اُس کے پاس ایک کوڑا ہوگا جس کے نیچے سے ایسی چنگاری نکلےگی، جیسے بڑا ڈول ہو، جسے کوئی اونٹ ہی کنویں سے نکال سکتا ہے۔پھر جب تک اللہ کو منظور ہوا، وہ اُسےکوڑا مارتا رہے گا۔ وہ جانور بہرا ہوگا ، اُس کی آواز نہیں سن سکے گا کہ اُس کو اُس پر رحم آجائے۱رAz۔
____________________
۱۔ بعض تفصیلات کے ساتھ یہ وہی مضمون ہے جو اِس سے پیچھے بیان ہو چکا ہے۔
۱ ۔اِس روایت کا متن اصلاً مسند احمد، رقم ۲۶۹۷۶ سے لیا گیا ہے ۔ اِس کی راوی تنہا اسماء رضی اللہ عنہا ہیں۔ اِس کا ایک ہی متابع ہے جو المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۲۸۱ میں نقل ہوا ہے۔
۲ ۔ المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۲۸۱۔
۳ ۔ المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۲۸۱۔
حَدَّثَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ۱ أَنَّ رَسُولَ اللهِ r قَالَ: «إِنَّ العَبْدَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ وَتَوَلَّى عَنْهُ أَصْحَابُهُ، وَإِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ۲ نِعَالِهِمْ، أَتَاهُ مَلَكَانِ فَيُقْعِدَانِهِ، فَيَقُولاَنِ [لَهُ۳ ]: مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هٰذَا الرَّجُلِ -لِمُحَمَّدٍ-، فَأَمَّا المُؤْمِنُ، فَيَقُولُ: أَشْهَدُ أَنَّهُ عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُهُ، فَيُقَالُ لَهُ: انْظُرْ إِلَى مَقْعَدِكَ مِنَ النَّارِ، قَدْ أَبْدَلَكَ اللهُ بِهِ مَقْعَدًا مِنَ الجَنَّةِ، فَيَرَاهُمَا جَمِيعًا» - قَالَ قَتَادَةُ: وَذُكِرَ لَنَا: أَنَّهُ يُفْسَحُ لَهُ فِي قَبْرِهِ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى حَدِيثِ أَنَسٍ - قَالَ: «وَأَمَّا المُنَافِقُ وَالكَافِرُ فَيُقَالُ لَهُ: مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هٰذَا الرَّجُلِ؟ فَيَقُولُ: لَا أَدْرِي، كُنْتُ أَقُولُ مَا يَقُولُ النَّاسُ، فَيُقَالُ [لَه۴ ] لاَ دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ، وَيُضْرَبُ بِمَطَارِقَ مِنْ حَدِيدٍ ضَرْبَةً [بَيْنَ أُذُنَيْهِ۵ ]، فَيَصِيحُ صَيْحَةً يَسْمَعُهَا مَنْ يَلِيهِ غَيْرَ الثَّقَلَيْنِ».
انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بندے کو جب اُس کی قبر میں اتارا جاتا ہے اور اُس کے ساتھی اُس سے رخصت ہوتے ہیں ۱اور وہ اُن کے جوتوں کی آہٹ سن رہا ہوتا ہے ۲تو دو فرشتے اُس کے پاس آتے، آکر اُس کو بٹھاتے اور اُس سے کہتے ہیں کہ تم اِس شخص ـــــــــ یعنی محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) ـــــــــ کے بارے میں کیا راے رکھتے تھے؟۳ بندۂ مومن جواب دیتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اوراُس کے رسول ہیں۔ پھر اُس سے کہا جاتا ہے کہ ایک نظر ذرا دوزخ میں اپنے ٹھکانے کی طرف ڈالو، اللہ نے اِس کے بجاےتمھیں جنت کا ٹھکانا عطا کیا ہے، چنانچہ وہ دونوں کو اکٹھے دیکھ لیتا ہے۔ قتادہ کہتے ہیں کہ ہمیں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اِس کے بعد اُس شخص کی قبر اُس کے لیے کشادہ کر دی جاتی ہے۔ پھر روایت کو وہیں سے بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ مرنے والا منافق یا منکر ہوتو اُس سے بھی یہی پوچھا جاتا ہے کہ اِس شخص ۴aکے بارے میں تم کیا راے رکھتے تھے؟ وہ جواب دیتا ہے کہ میں نہیں جانتا، میں وہی کہتا رہا جو لوگ کہتے تھے۵۔اِس پر اُس سےکہا جاتا ہے کہ تم نے نہ سمجھنے کی کوشش کی اور نہ پیروی کے لیے تیار ہوئے۶۔ پھر اُس کے دونوں کانوں کے درمیان لوہے کے ہتھوڑوں سے اِس طرح ضرب لگائی جاتی ہے کہ جن وانس کےسوا اُس کی چیخیں قریب کی ہر مخلوق سنتی ہے۔
__________________
۱۔یعنی اُس کو دفن کر دینے کے بعد رخصت ہوتے ہیں۔
۲۔ یعنی برزخ میں اپنی قبر کے اندر، جہاں جسم سے الگ ہو جانے کے بعد اُس کے باطنی حواس وہ چیزیں بھی دیکھتے اور سنتے ہیں، جو ہمارے اِن ظاہری حواس کی گرفت میں نہیں آسکتیں۔
۳۔ اِس سے واضح ہے کہ یہ اُنھی لوگوں کا معاملہ ہے، جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے براہ راست اللہ کی حجت پوری کی تھی اور وہ آپ کو پہچانتے تھے۔
۴۔ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں۔
۵۔ لوگوں سے مراد یہاں زمانۂ رسالت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منکرین ہیں، جن کے اقوال قرآن مجید میں جگہ جگہ نقل ہوئے ہیں کہ کبھی آپ کو شاعر، کبھی ساحر اور کبھی مجنوں قرار دے کر آپ کی تکذیب کرتے تھے۔
۶۔ یعنی نہ اُس دعوت کو سمجھنے کی کوشش کی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے تمھارے سامنے پیش کی گئی اور نہ سچے اہل ایمان کے طریقے پر آپ کی پیروی کےلیے تیار ہوئے۔
۱۔ اِس روایت کا متن اصلاً صحيح بخاری، رقم ۱۳۷۴سے لیا گیا ہے۔ اِس کے متابعات جن مراجع میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں، وہ یہ ہیں: مسند احمد، رقم ۱۲۲۷۱، ۱۳۴۴۶، ۱۳۴۴۷۔مسند عبد بن حميد، رقم ۱۱۸۰۔صحيح بخاری، رقم ۱۳۳۸۔صحيح مسلم، رقم ۲۸۷۰۔سنن ابی داؤد، رقم ۳۲۳۱، ۴۷۵۱، ۴۷۵۲۔مسند بزار، رقم ۷۰۴۶، ۷۰۴۷۔السنن الصغریٰ، نسائی، رقم ۲۰۴۹، ۲۰۵۰، ۲۰۵۱۔السنن الكبرىٰ، نسائی، رقم ۲۱۸۷، ۲۱۸۸، ۲۱۸۹۔صحيح ابن حبان، رقم ۳۱۲۰۔اثبات عذاب القبر، بیہقی، رقم ۱۳، ۱۴، ۱۵، ۱۶، ۱۷۔ السنن الكبرىٰ، بیہقی، رقم۷۲۱۷۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی اِس روایت کا ایک شاہد جابر بن عبد اللہ سے روایت ہوا ہے جس کے طرق اِن مراجع میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: مصنف عبد الرزاق، رقم ۶۷۴۴۔السنۃ،ابن ابی عاصم، رقم ۸۶۶۔ مسند ابی يعلىٰ، رقم۲۳۱۶۔اثبات عذاب القبر، بیہقی، رقم۲۱۵۔
۲ ۔بعض طرق، مثلاً مسنداحمد، رقم ۱۳۴۴۶ میں یہاں ’قَرْعَ‘ کے بجاے ’خَفْقَ‘ کا لفظ نقل ہوا ہے۔ معنی کے اعتبار سے دونوں مترادف ہیں۔
۳۔صحيح بخاری ، رقم ۱۳۳۸۔
۴۔ مسنداحمد، رقم ۱۲۲۷۱۔
۵۔ مسنداحمد، رقم ۱۲۲۷۱۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: ۱ قَالَ رَسُولُ اللهِ r: «إِذَا قُبِرَ أَحَدُكُمْ أَوِ الْإِنْسَانُ، أَتَاهُ مَلَكَانِ أَسْوَدَانِ أَزْرَقَانِ، يُقَالُ لِأَحَدِهِمَا: الْمُنْكَرُ وَالْآخَرُ: النَّكِيرُ، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هٰذَا الرَّجُلِ مُحَمَّدٍ؟ فَهُوَ قَائِلٌ مَا كَانَ يَقُولُ، فَإِنْ كَانَ مُؤْمِنًا قَالَ: هُوَ عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، فَيَقُولَانِ لَهُ: إِنْ كُنَّا لَنَعْلَمُ أَنَّكَ لَتَقُولُ ذٰلِكَ، ثُمَّ يَفْسَحُ لَهُ فِي قَبْرِهِ سَبْعُونَ ذِرَاعًا فِي سَبْعِينَ ذِرَاعًا، وَيُنَوَّرُ لَهُ فِيهِ، فَيُقَالُ لَهُ: نَمْ، [فَيَقُولُ: دَعُونِي أَرْجِعْ إِلَى أَهْلِي أُخْبِرْهُمْ. فَيُقَالُ لَهُ: نَمْ،۲ ] فَيَنَامُ كَنَوْمَةِ الْعَرُوسِ الَّذِي لَا يُوقِظُهُ إِلَّا أَحَبُّ أَهْلِهِ إِلَيْهِ حَتَّى يَبْعَثَهُ اللهُ مِنْ مَضْجَعِهِ ذٰلِكَ، وَإِنْ كَانَ مُنَافِقًا قَالَ: لَا أَدْرِي كُنْتُ أَسْمَعُ النَّاسَ يَقُولُونَ شَيْئًا، فَكُنْتُ أَقُولُهُ، فَيَقُولَانِ لَهُ: إِنْ كُنَّا لَنَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُولُ ذٰلِكَ، ثُمَّ يُقَالُ لِلْأَرْضِ: الْتَئِمِي عَلَيْهِ، فَتَلْتَئِمُ عَلَيْهِ حَتَّى تَخْتَلِفَ فِيهَا أَضْلَاعُهُ، فَلَا يَزَالُ مُعَذَّبًا حَتَّى يَبْعَثَهُ اللهُ مِنْ مَضْجَعِهِ ذٰلِكَ».
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کسی انسان کو، یا فرمایا کہ تم میں سے کسی شخص کو دفنا دیا جاتا ہے تو اُس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، نیلے سیاہ رنگ کے، جن میں سے ایک کو’ منکر‘ اور دوسرے کو ’نکیر‘ کہا جاتا ہے۔ وہ دونوں اُس سے پوچھتے ہیں: تم اِس شخص ، یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بارے میں کیا راے رکھتے تھے؟ وہ اُن کے جواب میں وہی بات کہتا ہےجو دنیا میں کہتا رہا تھا ۔چنانچہ بندۂ مومن ہو تو کہتا ہے: وہ اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے بندے اور اُس کےرسول ہیں۔ اِس پر وہ فرشتے کہتے ہیں کہ ہمیں معلوم تھا کہ تم یہی جواب دو گے۔ پھر اُس کی قبر چاروں طرف ستر گز وسیع کر دی جاتی اور اُس میں اُس کے لیے روشنی بھی ہو جاتی ہے۔ پھر اُس سے کہا جاتا ہے کہ اب سو جاؤ۔یہ سن کر وہ کہتا ہے کہ مجھے جانے دو، میں اپنے گھر والوں کو بھی ذرا یہ خبر سنا آؤں ۔ لیکن اُس کو پھر وہی بات کہی جاتی ہے کہ اب سو جاؤ۔ چنانچہ وہ اُس دلہن کی طرح سوجا تا ہے جس کو اُس کے محبوب ترین لوگ ہی آکر جگاتے ہیں۱Qa۔ یہاں تک کہ اُس کی اِس خواب گاہ سے اللہ ہی قیامت کے دن اُس کو اٹھائے گا۔ اِسی طرح وہ اگر منافق ہو تو اُن کے جواب میں کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں جانتا، میں تو لوگوں کو جوکچھ کہتے ہوئے سنتا تھا، وہی کہہ دیا کرتا تھا۲۔ اِس پر فرشتے کہتے ہیں: ہمیں معلوم تھا کہ تم یہی جواب دو گے۔ پھر زمین کو حکم دیا جاتا ہے کہ اُس کو دبوچ لے۔ سو وہ اِس طرح اُس کو دبوچ لیتی ہے کہ اُس کی پسلیاں تک ایک دوسرے میں داخل ہوجاتی ہیں ۳ ۔ وہ برابر اِسی طرح عذاب میں رہتا ہے، یہاں تک کہ قیامت کے دن اللہ اُس کی اِسی جگہ سے اُس کو اٹھا کھڑا کرے گا۔
_____________________
۱۔ یہ اطمینان و سکون اور بے فکری کی نیند کے لیے نہایت خوب صورت تعبیر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اُسی طرح سو جاتا ہے، جس طرح پہلی رات کی دلہن اپنے دلہا سے ملاقات کے بعد آرام کی نیند سو جاتی ہے اور صبح وہی لوگ آ کر اُس کو اٹھاتے ہیں جو اُس کے لیے سراپا محبت والتفات ہوتے ہیں، اور جن کا آنا اُس پر کبھی گراں نہیں ہوتا۔
۲۔ مطلب یہ ہے کہ لوگ اگر اِن کو پیغمبر کہتے تھے تو اپنے مفادات کے پیش نظر میں بھی کہہ دیتا تھا۔ علم و عقل کی بنیاد پر اور دل و دماغ کے اخلاص کے ساتھ میں نے یہ بات نہ کبھی سمجھی ، نہ مانی اور نہ زبان سے کبھی اِس کا اقرار کیا ہے۔ چنانچہ اِس وقت بھی یہی کہہ سکتا ہوں، اِس سے زیادہ میرے پاس کچھ نہیں ہے۔
۳۔ یہ اُسی طرح کے احساس کا بیان ہے، جس سے بعض اوقات ہم خواب میں بھی دوچار ہو جاتے ہیں۔ اِس سے یہ لازم نہیں آتا کہ سب کچھ اُسی جسم کے ساتھ ہو رہا ہوتا ہے ، جس کو زمین میں دفن کیا جاتا یا راکھ بنا کر دریاؤں میں بہا دیا جاتا ہے۔
روایت میں یہ اُنھی منافقوں کے انجام کا ذکر ہوا ہے جو اللہ کے آخری پیغمبر کی طرف سے اتمام حجت کے باوجود سچے ایمان کی توفیق سے محروم رہے اور اِسی حالت میں دنیا سے رخصت ہو گئے۔
۱ ۔ اِس روایت کا متن صحيح ابن حبان، رقم۳۱۱۷ سے لیا گیا ہے۔ اِس کے راوی تنہا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ اِس کے باقی طرق اِن مصادر میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: سنن ترمذی، رقم۱۰۷۱۔ السنۃ، ابن ابی عاصم، رقم۸۶۴۔ الشريعۃ، آجری، رقم ۸۵۸۔
۲۔ السنۃ، ابن ابی عاصم، رقم۸۶۴۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَيْضًا، عَنِ النَّبِيِّ فِي قَوْلِهِ جَلَّ وَعَلَا: ﴿فَاِنَّ لَهٗ مَعِيْشَةً ضَنْكًا﴾ [طٰہٰ: ۱۲۴ ] قَالَ: «عَذَابُ الْقَبْرِ»۱.
یہی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سورۂ طٰہٰ (۲۰) کی آیت ۱۲۴ ﴿فَاِنَّ لَهٗ مَعِيْشَةً ضَنْكًا﴾،’’ اور جو میری یاد دہانی سے منہ موڑے گا تو اُس کے لیے تنگی کی زندگی ہے‘‘کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اِس سے عذاب قبر مراد ہے۱۔
___________________
۱۔ یہ نتیجے کا بیان ہے۔ مطلب یہ ہے کہ پیغمبر کے منکرین دنیا کی تنگی اور قلق و اضطراب میں زندگی بسر کرنے کے بعد جب موت سے ہم کنار ہوں گے تو وہاں بھی اِس سے نجات نہیں پا سکیں گے، بلکہ یہی چیز قبر کا عذاب بن کر اُن پر مسلط ہو جائے گی۔ یہ تنگی اور قلق واضطراب کیا ہے؟ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے وضاحت فرمائی ہے، وہ لکھتے ہیں:
’’...جب بچہ بھوک سے روتا ہے تواس کے منہ میں چُسنی یا نپل دے کر کچھ دیر کے لیے بہلایا جاسکتا ہے، لیکن وہ آسودہ اُسی وقت ہوتا ہے جب ماں اُس کو چھاتی سے لگاتی اور اُس کو دودھ پلاتی ہے۔ اِس کے بغیر اُس کی بے چینی نہیں جاتی۔ یہی حال انسان کا ہے، وہ اپنے لیے جو اسباب و سامان بھی مہیا کر لے، لیکن اگر وہ خدا کے ایمان سے محروم ہے تو وہ غیر مطمئن، ڈانوا ڈول، اندیشہ ناک، مضطرب اور اندرونی خلفشار میں مبتلا رہے گا، اگرچہ وہ اپنی نمایشوں سے اِس پر کتنا ہی پردہ ڈالنے کی کوشش کرے۔ نفس مطمئنہ کی بادشاہی صرف سچے اور پکے ایمان ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ ’اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ‘!‘‘(تدبر قرآن ۵ / ۱۰۳)
۱ ۔اِس روایت کا متن صحيح ابن حبان، رقم ۳۱۱۹ سے لیا گیا ہے۔ اِس کا ایک ہی متابع ہے جو اثبات عذاب القبر، بیہقی، رقم ۵۷ میں نقل ہوا ہے۔ قرآن کی جو آیت اِس میں نقل ہوئی ہے، اُس کا ترجمہ یہ ہے: ’’اور جو میری یاددہانی سے منہ موڑے گا تو اُس کے لیے تنگی کی زندگی ہے‘‘۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی بات ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بھی روایت کی ہے، جس کے مراجع یہ ہیں: مستدرك حاكم، رقم ۳۴۳۹۔ اثبات عذاب القبر، بیہقی، رقم ۵۹۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَيْضًا، عَنِ النَّبِيِّ r قَالَ: ۱ «[وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ،۲ ] إِنَّ الْمَيِّتَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ إِنَّهُ يَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِهِمْ حِينَ يُوَلُّونَ عَنْهُ، فَإِنْ كَانَ مُؤْمِنًا، كَانَتِ الصَّلَاةُ عِنْدَ رَأْسِهِ، وَكَانَ الصِّيَامُ عَنْ يَمِينِهِ، وَكَانَتِ الزَّكَاةُ عَنْ شِمَالِهِ، وَكَانَ فِعْلُ الْخَيْرَاتِ مِنَ الصَّدَقَةِ وَالصِّلَةِ وَالْمَعْرُوفِ وَالْإِحْسَانِ إِلَى النَّاسِ عِنْدَ رِجْلَيْهِ، فَيُؤْتَى مِنْ قِبَلِ رَأْسِهِ، فَتَقُولُ الصَّلَاةُ: مَا قِبَلِي مَدْخَلٌ، ثُمَّ يُؤْتَى عَنْ يَمِينِهِ، فَيَقُولُ الصِّيَامُ: مَا قِبَلِي مَدْخَلٌ، ثُمَّ يُؤْتَى عَنْ يَسَارِهِ، فَتَقُولُ الزَّكَاةُ: مَا قِبَلِي مَدْخَلٌ، ثُمَّ يُؤْتَى مِنْ قِبَلِ رِجْلَيْهِ، فَتَقُولُ فَعَلُ الْخَيْرَاتِ مِنَ الصَّدَقَةِ وَالصِّلَةِ وَالْمَعْرُوفِ وَالْإِحْسَانِ إِلَى النَّاسِ: مَا قِبَلِي مَدْخَلٌ، فَيُقَالُ لَهُ: اجْلِسْ فَيَجْلِسُ، وَقَدْ مُثِّلَتْ لَهُ الشَّمْسُ وَقَدْ أُدْنِيَتْ لِلْغُرُوبِ، [فَيُقَالُ لَهُ: أَخْبِرْنَا عَمَّا نَسْأَلُكَ۳ ] فَيُقَالُ لَهُ: أَرَأَيْتَكَ هٰذَا الرَّجُلَ الَّذِي كَانَ فِيكُمْ مَا تَقُولُ فِيهِ، وَمَاذَا تَشْهَدُ بِهِ عَلَيْهِ؟ فَيَقُولُ: دَعُونِي حَتَّى أُصَلِّيَ، فَيَقُولُونَ: إِنَّكَ سَتَفْعَلُ، أَخْبَرَنِي عَمَّا نَسْأَلُكُ عَنْهُ، أَرَأَيْتَكَ هٰذَا الرَّجُلَ الَّذِي كَانَ فِيكُمْ، يَعْنِي النَّبِيَّ r، مَا تَقُولُ فِيهِ؟ وَمَاذَا تَشْهَدُ [بِهِ۴ ] عَلَيْهِ؟ قَالَ: فَيَقُولُ: مُحَمَّدٌ أَشْهَدُ أَنَّهُ رَسُولُ اللهِ، وَأَنَّهُ جَاءَ بِالْحَقِّ مِنْ عِنْدِ اللهِ۵ [فَصَدَّقْنَا وَاتَّبَعْنَا۶ ]، فَيُقَالُ لَهُ: [صَدَقْتَ۷ ] عَلَى ذٰلِكَ حَيِيتَ وَعَلَى ذٰلِكَ مِتَّ، وَعَلَى ذٰلِكَ تُبْعَثُ إِنْ شَاءَ اللهُ، ثُمَّ يُفْتَحُ لَهُ بَابٌ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ، فَيُقَالُ لَهُ: هٰذَا مَقْعَدُكَ مِنْهَا، وَمَا أَعَدَّ اللهُ لَكَ فِيهَا، فَيَزْدَادُ غِبْطَةً وَسُرُورًا، ثُمَّ يُفْتَحُ لَهُ بَابٌ مِنْ أَبْوَابِ النَّارِ، فَيُقَالُ لَهُ: هٰذَا مَقْعَدُكَ مِنْهَا وَمَا أَعَدَّ اللهُ لَكَ فِيهَا لَوْ عَصَيْتَهُ، فَيَزْدَادُ غِبْطَةً وَسُرُورًا، ثُمَّ يُفْسَحُ لَهُ فِي قَبْرِهِ سَبْعُونَ ذِرَاعًا۸ ، وَيُنَوَّرُ لَهُ فِيهِ، وَيُعَادُ الْجَسَدُ لِمَا بَدَأَ مِنْهُ [مِنَ التُّرَابِ۹ ]، فَتُجْعَلُ نَسَمَتُهُ فِي النَّسَمِ الطَّيِّبِ وَهِيَ طَيْرٌ [خُضْرٌ۱۰ ] يَعْلُقُ فِي شَجَرِ الْجَنَّةِ، قَالَ: فَذٰلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى: ﴿يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَةِ﴾ إِلَى آخِرِ الْآيَةِ [إبراهيم۱۴: ۲۷ ]، قَالَ: «وَإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا أُتِيَ [فِي قَبْرِهِ۱۱ ] مِنْ قِبَلِ رَأْسِهِ، لَمْ يُوجَدْ شَيْءٌ، ثُمَّ أُتِيَ عَنْ يَمِينِهِ، فَلَا يُوجَدُ شَيْءٌ، ثُمَّ أُتِيَ عَنْ شِمَالِهِ، فَلَا يُوجَدُ شَيْءٌ، ثُمَّ أُتِيَ مِنْ قِبَلِ رِجْلَيْهِ، فَلَا يُوجَدُ شَيْءٌ، فَيُقَالُ لَهُ: اجْلِسْ، فَيَجْلِسُ خَائِفًا مَرْعُوبًا، فَيُقَالُ لَهُ: أَرَأَيْتَكَ هٰذَا الرَّجُلَ الَّذِي كَانَ فِيكُمْ مَاذَا تَقُولُ فِيهِ؟ وَمَاذَا تَشَهَّدُ بِهِ عَلَيْهِ؟ فَيَقُولُ: أَيُّ رَجُلٍ؟ فَيُقَالُ: الَّذِي كَانَ فِيكُمْ، فَلَا يَهْتَدِي لِاسْمِهِ حَتَّى يُقَالَ لَهُ: مُحَمَّدٌ، فَيَقُولُ: مَا أَدْرِي، سَمِعْتُ النَّاسَ قَالُوا قَوْلًا، فَقُلْتُ كَمَا قَالَ النَّاسُ، فَيُقَالُ لَهُ: [صَدَقْتَ،۱۲ ] عَلَى ذٰلِكَ حَيِيتَ، وَعَلَى ذٰلِكَ مِتَّ، وَعَلَى ذٰلِكَ تُبْعَثُ إِنْ شَاءَ اللهُ، ثُمَّ يُفْتَحُ لَهُ بَابٌ مِنْ أَبْوَابِ النَّارِ، فَيُقَالُ لَهُ: هٰذَا مَقْعَدُكَ مِنَ النَّارِ، وَمَا أَعَدَّ اللهُ لَكَ فِيهَا، فَيَزْدَادُ حَسْرَةً وَثُبُورًا، ثُمَّ يُفْتَحُ لَهُ بَابٌ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ، فَيُقَالُ لَهُ: ذٰلِكَ مَقْعَدُكَ مِنَ الْجَنَّةِ، وَمَا أَعَدَّ اللهُ لَكَ فِيهِ لَوْ أَطَعْتَهُ فَيَزْدَادُ حَسْرَةً وَثُبُورًا، ثُمَّ يُضَيَّقُ عَلَيْهِ قَبْرُهُ حَتَّى تَخْتَلِفَ فِيهِ أَضْلَاعُهُ، فَتِلْكَ الْمَعِيشَةُ الضَّنْكَةُ الَّتِي قَالَ اللهُ: ﴿فَاِنَّ لَهٗ مَعِيْشَةً ضَنْكًا وَّنَحْشُرُهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اَعْمٰي﴾ [طٰهٰ۲۰: ۱۲۴ ]».
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اُس ہستی کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، میت کو جب اُس کی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور لوگ اُسے دفنا کر پلٹ رہے ہوتے ہیں تو وہ اُن کے جوتوں کی چاپ بھی سنتا ہے۱a۔ پھر مرنے والا مومن ہو تو اُس کی نماز اُس کے سرہانے آجاتی ہے، روزے اُس کے دائیں طرف ہوتے ہیں، زکوٰۃ اُس کے بائیں طرف ہوتی ہے اور لوگوں کے ساتھ احسان، بھلائی، صلۂ رحمی اور صدقہ جیسے نیکی کے دوسرے کام اُس کے پاؤں کے پاس آجاتے ہیں۔پھر (فرشتوں کی طرف سے) اُس کے سر کی جانب سے آنے کی کوشش کی جاتی ہے تو نماز کہتی ہے: میری طرف سے داخل ہونے کا راستہ نہیں ہے۔پھر اُس کے دائیں طرف سے آنے کی کوشش کی جاتی ہے تو روزہ کہتا ہے: میری طرف سے راستہ نہیں ہے۔پھر اُس کے بائیں طرف سے آنے کی کوشش کی جاتی ہے تو زکوٰۃ کہتی ہے: میری طرف سے داخل نہیں ہوا جاسکتا۔پھر اُس کے پاؤں کی طرف سے آنے کی کوشش کی جاتی ہے تو لوگوں کے ساتھ احسان، بھلائی، صلۂ رحمی اور صدقہ جیسے نیکی کے دوسرے کام کہتے ہیں: ہماری طرف سے داخل ہونے کا راستہ نہیں ہے۲۔یہ دیکھ کر مردے سے کہا جاتا ہے کہ بیٹھ جاؤ تو وہ بیٹھ جاتا ہے۔اُس وقت اُسے یوں دکھائی دیتا ہے، جیسے غروب آفتاب کا وقت قریب ہو۔پھر اُس سے کہا جاتا ہے کہ اب ہم تم سے جو پوچھیں، ہمیں اُس کا جواب دینا۔اُس سے کہا جاتا ہے: اِس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہو، جو تمھارے درمیان (مبعوث) تھا، اوراِن کے بارے میں کیا گواہی دیتے ہو۳b؟ یہ سننے کے بعد وہ کہتا ہے کہ مجھے ذرا مہلت دیجیے کہ میں پہلے نماز پڑھ لوں۔اِس پر فرشتے کہتے ہیں : یقیناً، نماز تو تم ابھی پڑھو گے۴ ، پہلے ہم جو پوچھ رہے ہیں، اُس کا جواب دو: اِس شخص کے بارے میں، جو تمھارے درمیان (مبعوث) تھا، تم کیا راے رکھتے ہو؟ اوراِن کے بارے میں کیا گواہی دیتے ہو؟ وہ جواب میں کہتا ہے کہ یہ محمد ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ اللہ کے رسول ہیں اور یہ اللہ کی طرف سے (ہمارے پاس) حق لے کر آئے تھے ، جس پر ہم نے اِن کی تصدیق کی اور پیروی کی۔اِس پر اُس سے کہا جاتا ہے کہ تو نے بالکل سچ کہا ہے،اِسی پر تونے زندگی گزاری ہے، اِسی پر تیری موت ہوئی ہے اور اللہ نے چاہا تو اِسی پر تجھے اُٹھایا جائے گا۔پھر اُس کے لیے جنت کا ایک دروازہ کھول دیا جاتا اور اُس سے کہا جاتا ہے کہ جنت میں یہ تمھارا ٹھکانا اور وہ انعام ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے تیار کر رکھا ہے۔ یہ سن کر وہ رشک اور خوشی سے جھوم اُٹھتا ہے۔ پھر اُس کے لیے دوزخ کا ایک دروازہ کھول کر اُس سے کہا جاتا ہے کہ اگر تم اللہ کے پیغمبر کی نافرمانی کرتے تو جہنم میں تمھارا یہ ٹھکانا ہوتا ، جو اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے تیار کر رکھا تھا۔ یہ سن کر ایک مرتبہ پھر وہ رشک اور خوشی سے جھوم اُٹھتا ہے۔پھر اُس کی قبر کو اُس کے لیے ستر گز کشادہ کردیا جاتا اور وہاں اُس کے لیے روشنی کر دی جاتی ہے۔پھر اُس کے جسم کو مٹی کی اُسی حالت پر لوٹا دیا جاتا ہے جس سے اُس کا آغاز ہوا تھا ۵ ۔ اِس کے بعد اُس کی روح کو پاکیزہ جانوں میں رکھ دیا جاتا ہے، اور وہ جنت کے درختوں پر لٹکتے ہوئے ایک سبز پرندے کی صورت میں ہوتی ہیں۶۔ آپ نے فرمایا: یہی بات ہے جو اللہ تعالیٰ کے ارشاد: ’﴿يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَةِ﴾‘ ، ’’ایمان والوں کو اللہ اِسی محکم بات سے۷ دنیا اور آخرت، (دونوں ) کی زندگی میں ثبات عطا فرمائے گا‘‘(ابراہیم۱۴: ۲۷)میں بیان ہوئی ہے۔آپ نے یہ پوری آیت تلاوت فرمائی۔فرمایا: اور مرنے والا اگر کافر ہو تو فرشتے جب اُس کی قبر میں سرہانے کی طرف سے آتے ہیں تو وہاں کوئی چیز نہیں ہوتی، پھر اُس کے دائیں طرف سے آتے ہیں تو وہاں بھی کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی، پھر اُس کے بائیں طرف سے آتے ہیں تو وہاں بھی کوئی روک نہیں ہوتی، پھر اُس کے پاؤں کی طرف سے آتے ہیں تو وہاں بھی کوئی مانع نہیں ہوتا۔اِس کے بعد اُس سے کہا جاتا ہے کہ بیٹھ جاؤ تو وہ خوف زدہ اور مرعوب ہو کر بیٹھ جاتا ہے۔ پھر اُس سے کہا جاتا ہے : اِس شخص کے بارے میں، جو تمھارے درمیان (مبعوث) تھا، تم کیا کہتے ہو؟ اوراِن کے بارے میں کیا گواہی دیتے ہو؟ اِس پر وہ کہتا ہے : کون شخص؟ اُس سے کہا جاتا ہے کہ جو تمھارے درمیان (مبعوث) تھا۔اُس کو اُن کا، یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا نام تک نہیں سوجھتا، یہاں تک کہ اُس سے کہا جاتا ہے کہ ہم تم سے محمد کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔اِس پر وہ کہتا ہے کہ میں نہیں جانتا، (اُن کے بارے میں)لوگوں کو کوئی بات کرتے ہوئے میں نے سنا تھا، چنانچہ میں نے بھی اُنھی کی طرح کہہ دیا تھا۔ اُس سے کہا جاتا ہے کہ تونے بالکل سچ کہاہے، اِسی پر تونے زندگی گزاری ہے، اِسی پر تو مرا ہے اور اللہ نے چاہا تو اِسی پر تجھے اُٹھایا جائے گا۔ پھر اُس کے لیے دوزخ کا ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور اُس سے کہا جاتا ہے کہ جہنم میں یہ تمھارا ٹھکانا ہے اور وہ سزا بھی جو اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے تیار کر رکھی ہے۔یہ سن کر وہ حسرت اور ہلاکت کے احساس میں ڈوب جاتا ہے۔ پھر اُس کے لیے جنت کا ایک دروازہ کھول کر اُس سے کہا جاتا ہے کہ اگر تم اللہ کے پیغمبر کی اطاعت کرتے تو جنت میں تمھارا یہ ٹھکانا ہوتا ، جو اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے تیار کر رکھا تھا۔ یہ سن کر ایک مرتبہ پھر وہ حسرت اور احساس محرومی میں ڈوب جاتاہے۔پھر اُس کی قبر کو اُس پر اِس طرح تنگ کر دیا جاتا ہے کہ اُس کی پسلیاں تک ایک دوسرے میں داخل ہوجاتی ہیں۸۔ یہی تنگی کی زندگی ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’﴿فَاِنَّ لَهٗ مَعِيْشَةً ضَنْكًا وَّنَحْشُرُهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اَعْمٰي﴾‘، ’’ اور جو میری یاد دہانی سے منہ موڑے گا تو اُس کے لیے تنگی کی زندگی ہے۹ اور قیامت کے دن ہم اُس کو اندھا اٹھائیں گے‘‘ (طٰہٰ۲۰: ۱۲۴) ۔
__________________
۱۔یعنی وہاں سنتا ہے، جہاں فرشتے اُس کی اصل شخصیت کو لے جا کر رکھتے ہیں۔ اِسے مستبعد نہیں سمجھنا چاہیے۔ اِس زمانے میں ہم چاہیں تو زہرہ و مریخ پر چلنے والے کسی انسان کی آواز جدید آلات کی مدد سے اپنے گھروں میں بیٹھ کر سن سکتے ہیں۔
۲۔ مطلب یہ ہے کہ اُس کی نیکیاں اِس طرح اُس کا احاطہ کر لیتی ہیں کہ خدا کے فرشتے بھی اُس کے ساتھ سختی کا کوئی معاملہ کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے۔ یہ برزخ کی ہر تکلیف سے محفوظ رہنے کی تعبیر ہے، اِس کے ہرگز یہ معنی نہیں ہیں کہ فرشتے اِس طرح کے نیکوکاروں کے ساتھ بھی سختی کا کوئی معاملہ کرنے کے لیے آئیں گے۔
۳۔ اِس سے واضح ہے کہ یہاں بھی اُنھی لوگوں کا انجام بیان ہو رہا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ کے حین حیات ایمان لائے۔
۴۔ یعنی جب برزخ کی نیند سے سو کر اٹھو گے اور اپنے رب کی نعمتیں پا کر اُس کے سامنے سجدہ ریز ہو جاؤ گے۔
۵۔ یعنی اُس جسم کو قانون قدرت کے مطابق مٹی ہونے دیا جاتا ہے جو اُسے دنیا کی زندگی میں دیا گیا اور مرنے کے بعد اُسی طرح باقی تھا۔
۶۔ یہ اُن کے روحانی وجود کی تصویر ہے، اِس سے کوئی نیا قالب دینا مراد نہیں ہے۔مطلب یہ ہے کہ زمانۂ برزخ میں پاکیزہ روحیں جہاں رکھی جاتی ہیں، اُس کو بھی وہیں رکھ دیا جاتا ہے اور وہ درختوں پر چہکتے ہوئے پرندوں کی طرح خوش و خرم وہاں رہتی ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر غالباً اِسی طرح کی کوئی تعبیر تھی، جسے راویوں نے اِس طریقے سے بیان کردیا ہے کہ نئے قالب کا تصور پیدا ہوتا ہے۔
۷۔ یعنی کلمۂ توحید سے، جس کی دعوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مخاطبین کو دی اور وہ آگے بڑھ کر اُس کو ماننے والے بن گئے۔ اوپر ’حق لے کر آئے تھے‘ کے الفاظ میں اِسی کا ذکر ہوا ہے۔
۸۔ اِس کی حقیقت خواب کے احوال سے سمجھنی چاہیے، جس میں آدمی اِسی طرح محسوس کرتا ہے، دراں حالیکہ جو کچھ ہوتا ہے، اُس کے جسم کے ساتھ نہیں، بلکہ اُس کی اصل شخصیت کے ساتھ ہوتا ہے۔ روایتوں میں جو تعبیریں اِس مدعا کے لیے اختیار کی گئی ہیں، وہ مردے کے احساس اور ہمارے فہم کے لحاظ سے ہیں، اِس لیے کہ ہم اِنھی کو سمجھ سکتے ہیں۔
۹۔ یعنی دنیا میں بھی اور اِس کے لازمی نتیجے کے طور پر برزخ میں بھی۔اِس کی وضاحت ہم پیچھے استاذ امام امین احسن اصلاحی کی تفسیر ’’تدبرقرآن‘‘ کے حوالے سے کر چکے ہیں۔
۱۔ اِس روایت کا متن اصلاً صحيح ابن حبان، رقم ۳۱۱۳سے لیا گیا ہے۔ اِس کے راوی تنہا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں اور اِس کے متابعات جن مراجع میں نقل ہوئے ہیں، وہ یہ ہیں: الزہد،ہناد، رقم۳۳۸۔تفسير طبری، رقم ۲۰۷۶۹۔تہذيب الآثار، طبری، رقم ۷۲۷۔ شرح معانی الآثار، طحاوی، رقم۲۹۰۹، ۲۹۱۰۔المعجم الاوسط، طبرانی، رقم۲۶۳۰، ۹۴۳۸۔مستدرك حاكم، رقم۱۴۰۳، ۱۴۰۴۔اثبات عذاب القبر، بیہقی، رقم ۶۷، ۱۳۹۔
۲۔ الزہد،ہناد، رقم۳۳۸۔
۳۔الزہد،ہناد، رقم۳۳۸۔
۴ ۔مستدرک حاکم، رقم۱۴۰۳۔
۵ ۔المعجم الاوسط، طبرانی، رقم ۲۶۳۰میں یہاں یہ الفاظ روایت ہوئے ہیں: ’جَاءَنَا بِالْبَيِّنَاتِ مِنْ عِنْدِ رَبِّنَا‘، ’’ یہ ہمارے پروردگار کی طرف سے نہایت واضح نشانیاں لے کر ہمارے پاس آئے ‘‘۔
۶ ۔ المعجم الاوسط، طبرانی، رقم۲۶۳۰۔
۷۔ المعجم الاوسط، طبرانی، رقم۲۶۳۰۔
۸ ۔الزہد،ہناد، رقم۳۳۸ میں یہاں ’وَيَفْسَحُ لَهُ فِي قَبْرِهِ مَدَّ بَصَرِهِ‘، ’’ اور اُس کی قبر کو تاحد نگاہ وسیع کردیا جاتا ہے ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں۔
۹۔الزہد،ہناد، رقم۳۳۸۔
۱۰۔الزہد،ہناد، رقم۳۳۸۔
۱۱۔المعجم الاوسط، طبرانی، رقم۲۶۳۰۔
۱۲ ۔المعجم الاوسط، طبرانی، رقم۲۶۳۰۔
[باقی]
__________