HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: الشعراء ۲۶: ۱۰۵-۱۹۱ (۳)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

(گذشتہ سے پیوستہ)

 

كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوْحِ اِۨلْمُرْسَلِيْنَ ١٠٥ﶗ اِذْ قَالَ لَهُمْ اَخُوْهُمْ نُوْحٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ ١٠٦ﶔ اِنِّيْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِيْنٌ ١٠٧ﶫ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوْنِ ١٠٨ﶔ وَمَا٘ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍﵐ اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلٰي رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ١٠٩ﶔ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوْنِ ١١٠ﶠ قَالُوْ٘ا اَنُؤْمِنُ لَكَ وَاتَّبَعَكَ الْاَرْذَلُوْنَ ١١١ﶠ قَالَ وَمَا عِلْمِيْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ١١٢ﶔ اِنْ حِسَابُهُمْ اِلَّا عَلٰي رَبِّيْ لَوْ تَشْعُرُوْنَ ١١٣ﶔ وَمَا٘ اَنَا بِطَارِدِ الْمُؤْمِنِيْنَ ١١٤ﶔ اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ ١١٥ﶠ
نوح کی قوم نے بھی اِسی طرح رسولوں کو جھٹلا دیا[147]، جب اُن کے بھائی[148]نوح نے اُن سے کہا: کیا تم ڈرتے نہیں ہو[149]؟ میں تمھارے لیے ایک رسول امین ہوں[150]، اِس لیے اللہ سے ڈرواور میری بات مانو۔ میں اِس پر تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتا۔ میرا صلہ تو رب العٰلمین کے ذمے ہے، سواللہ سے ڈرو اور میری بات مانو۔ اُنھوں نے جواب دیا: کیا ہم تمھیں مان لیں، دراں حالیکہ تمھاری پیروی تو رذیلوں نے اختیار کر رکھی ہے[151]؟ نوح نے کہا: مجھے کیا معلوم جو وہ کرتے رہے ہیں؟ اُن کا حساب میرے رب کے ذمے ہے، اگر تم سمجھنا چاہو[152]۔ (اِس وقت تو وہ آگے بڑھ کر مجھ پر ایمان لے آئے ہیں) اور میں اِن اہل ایمان کو،(تمھاری خوشنودی کے لیے)، دھتکارنے والا نہیں ہوں۔ میں تو صرف ایک کھلا ہوا خبردار کرنے والا ہوں[153]۔ ۱۰۵-۱۱۵
قَالُوْا لَئِنْ لَّمْ تَنْتَهِ يٰنُوْحُ لَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْمَرْجُوْمِيْنَ ١١٦ﶠ
اِس پر وہ بولے: اے نوح، اگر تم باز نہ آئے تو ضرور سنگ سار کر دیے جاؤ گے[154]۔ ۱۱۶
قَالَ رَبِّ اِنَّ قَوْمِيْ كَذَّبُوْنِ ١١٧ﶗ فَافْتَحْ بَيْنِيْ وَبَيْنَهُمْ فَتْحًا وَّنَجِّنِيْ وَمَنْ مَّعِيَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ ١١٨ فَاَنْجَيْنٰهُ وَمَنْ مَّعَهٗ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ ١١٩ﶔ ثُمَّ اَغْرَقْنَا بَعْدُ الْبٰقِيْنَ ١٢٠ﶠ
(بالآخر ) نوح نے دعا کی کہ میرے پروردگار، میری قوم نے مجھے جھٹلا دیا ہے، اِس لیے تو اب میرے اور اُن کے درمیان قطعی فیصلہ فرما دے[155] اور مجھے اور میرے ساتھ جو اہل ایمان ہیں، اُنھیں نجات عطا فرما۔ چنانچہ اُس کو اور اُس کے ساتھیوں کو ہم نے بھری ہوئی کشتی[156] میں بچا لیا اور باقی سب لوگوں کو اُس کے بعد ہم نے غرق کر دیا۔۱۱۷-۱۲۰
اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةًﵧ وَمَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ١٢١ وَاِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ ١٢٢
اِس میں، یقیناً بہت بڑی نشانی ہے، لیکن اِن میں سے اکثر ماننے والے نہیں ہیں۔ اور تیرا پروردگار ، اِس میں کچھ شک نہیں کہ وہ زبردست بھی ہے اور نہایت مہربان بھی[157]۔ ۱۲۱-۱۲۲
كَذَّبَتْ عَادُ اِۨلْمُرْسَلِيْنَ ١٢٣ﶗ اِذْ قَالَ لَهُمْ اَخُوْهُمْ هُوْدٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ ١٢٤ﶔ اِنِّيْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِيْنٌ ١٢٥ﶫ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوْنِ ١٢٦ﶔ وَمَا٘ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍﵐ اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلٰي رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ١٢٧ﶠ
اِسی طرح عاد[158]نے رسولوں کو جھٹلا دیا[159]، جب اُن کے بھائی ہود نے اُن سے کہا: کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟ میں تمھارے لیے ایک رسول امین ہوں۔ اِس لیے اللہ سے ڈرو اور میری بات مانو۔ میں اِس پر تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتا۔ میرا صلہ تو اللہ رب العٰلمین کے ذمے ہے[160]۔۱۲۳-۱۲۷
اَتَبْنُوْنَ بِكُلِّ رِيْعٍ اٰيَةً تَعْبَثُوْنَ ١٢٨ﶫ وَتَتَّخِذُوْنَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُوْنَ١٢٩ﶔ وَاِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِيْنَ ١٣٠ﶔ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوْنِ ١٣١ﶔ وَاتَّقُوا الَّذِيْ٘ اَمَدَّكُمْ بِمَا تَعْلَمُوْنَ ١٣٢ﶔ اَمَدَّكُمْ بِاَنْعَامٍ وَّبَنِيْنَ ١٣٣ﶖ وَجَنّٰتٍ وَّعُيُوْنٍ ١٣٤ﶔ اِنِّيْ٘ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ ١٣٥ﶠ
(یہ تمھارا کیا حال ہے)؟کیا ہر اونچی زمین پر تم اِسی طرح لا حاصل یادگاریں بناتے رہو گے؟ اور اِسی طرح بڑے بڑے محل تعمیر کرتے رہو گے گویا تمھیں ہمیشہ رہنا ہے[161]؟اور جب کسی پر ہاتھ ڈالو گے تو جبار بن کر ڈالو گے[162] ؟سو اللہ سے ڈرو اور میری بات مانو۔ اُس سے ڈرو، جس نے تمھیں وہ چیزیں عطا فرمائی ہیں جنھیں تم خوب جانتے ہو۔ اُس نے تمھیں جانور، بیٹے، باغ اور چشمے عطا فرمائے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ (تمھارے کرتوتوں کی وجہ سے) میں تم پر ایک ہول ناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں[163]۔۱۲۸-۱۳۵
قَالُوْا سَوَآءٌ عَلَيْنَا٘ اَوَعَظْتَ اَمْ لَمْ تَكُنْ مِّنَ الْوٰعِظِيْنَ ١٣٦ﶫ اِنْ هٰذَا٘ اِلَّا خُلُقُ الْاَوَّلِيْنَ ١٣٧ﶫ وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِيْنَ ١٣٨ﶔ فَكَذَّبُوْهُ فَاَهْلَكْنٰهُمْﵧ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةًﵧ وَمَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ١٣٩ وَاِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ ١٤٠
اُنھوں نے جواب دیا: ہمارے لیے یکساں ہے، خواہ تم نصیحت کرو یا نصیحت کرنے والے نہ بنو۔ کچھ نہیں، (تم جو باتیں کر رہے ہو)، یہی عادت اگلوں کی بھی رہی ہے۔ (یہ محض تمھارے ڈراوے ہیں)، ہم پر ہرگز کوئی عذاب آنے والا نہیں ہے[164]۔بالآخر اُنھوں نے اُس کو جھٹلا دیا، پھر ہم نے بھی اُنھیں ہلاک کر ڈالا۔ اِس میں یقیناً بہت بڑی نشانی ہے، لیکن اِن میں سے اکثر ماننے والے نہیں ہیں۔ اور تیرا پروردگار، اِس میں کچھ شک نہیں کہ وہ زبردست بھی ہے اور نہایت مہربان بھی[165]۔۱۳۶-۱۴۰
كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ الْمُرْسَلِيْنَ ١٤١ﶗ اِذْ قَالَ لَهُمْ اَخُوْهُمْ صٰلِحٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ ١٤٢ﶔ اِنِّيْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِيْنٌ ١٤٣ﶫ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوْنِ ١٤٤ﶔ وَمَا٘ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍﵐ اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلٰي رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ١٤٥ﶠ
ثمود[166] نے بھی رسولوں کو جھٹلادیا، جب اُن کے بھائی صالح نے اُن سے کہا: کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟ میں تمھارے لیے ایک رسول امین ہوں، اِس لیے اللہ سے ڈرو اور میری بات مانو۔ میں اِس پر تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتا۔ میرا صلہ تو اللہ رب العٰلمین کے ذمے ہے۔۱۴۱-۱۴۵
اَتُتْرَكُوْنَ فِيْ مَا هٰهُنَا٘ اٰمِنِيْنَ ١٤٦ﶫ فِيْ جَنّٰتٍ وَّعُيُوْنٍ ١٤٧ﶫ وَّزُرُوْعٍ وَّنَخْلٍ طَلْعُهَا هَضِيْمٌ ١٤٨ﶔ وَتَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوْتًا فٰرِهِيْنَ ١٤٩ﶔ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوْنِ ١٥٠ﶔ وَلَا تُطِيْعُوْ٘ا اَمْرَ الْمُسْرِفِيْنَ ١٥١ﶫ الَّذِيْنَ يُفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ وَلَا يُصْلِحُوْنَ ١٥٢
(تمھارا کیا خیال ہے)، کیا تم اِنھی نعمتوں میں اطمینان کے ساتھ رہنے دیے جاؤ گے جو یہاں (تم کو میسر) ہیں؟ باغوں اور چشموں اور کھیتوں میں، اور کھجوروں میں جن کے خوشے آپس میں گتھے ہوئے ہوتے ہیں[167]؟اور پہاڑوں کو کھود کر (اِسی طرح) فخر جتاتے، خوش خوش گھر بناتے رہو گے[168]؟سو اللہ سے ڈرو اور میری بات مانو اور اُن حد سے گزر جانے والوں کی بات نہ مانو جو زمین میں فساد برپا کرتے ہیں[169]، اُس کی اصلاح نہیں کرتے[170]۔ ۱۴۶-۱۵۲
قَالُوْ٘ا اِنَّمَا٘ اَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِيْنَ ١٥٣ﶔ مَا٘ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَاﵗ فَاْتِ بِاٰيَةٍ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ ١٥٤
وہ بولے: کچھ نہیں، تم پر تو کسی نے بری طرح جادو کر دیا ہے (جس سے تمھاری عقل ماری گئی ہے) ۔ تم ہماری طرح کے ایک آدمی ہی ہو، اِس لیے کوئی نشانی لاؤ، اگر تم سچے ہو۔۱۵۳-۱۵۴
قَالَ هٰذِهٖ نَاقَةٌ لَّهَا شِرْبٌ وَّلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ ١٥٥ﶔ وَلَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْٓءٍ فَيَاْخُذَكُمْ عَذَابُ يَوْمٍ عَظِيْمٍ ١٥٦ فَعَقَرُوْهَا فَاَصْبَحُوْا نٰدِمِيْنَ ١٥٧ﶫ فَاَخَذَهُمُ الْعَذَابُﵧ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةًﵧ وَمَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ١٥٨ وَاِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ ١٥٩
صالح نے کہا: یہ ایک اونٹنی ہے[171]۔ ایک دن پانی پینے کی باری اِس کی ہے اور ایک مقرر دن کی باری تمھارے لیے ہے[172]۔ اور (سنو)، اِس کو کسی برے ارادے سے ہاتھ نہ لگانا، ورنہ ایک ہول ناک دن کا عذاب تمھیں آ پکڑے گا[173] ۔اِس پر بھی اُنھوں نے اُس کی کوچیں کاٹ دیں[174]، سو پچھتاتے رہ گئے اور بالآخر اُنھیں عذاب نے آلیا[175]۔ اِس میں ، یقیناً بہت بڑی نشانی ہے، لیکن اِن میں سے اکثر ماننے والے نہیں ہیں۔ اور تیرا پروردگار، اِس میں کچھ شک نہیں کہ وہ زبردست بھی ہے اور نہایت مہربان بھی[176]۔۱۵۵-۱۵۹
كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوْطِ اِۨلْمُرْسَلِيْنَ ١٦٠ﶗ اِذْ قَالَ لَهُمْ اَخُوْهُمْ لُوْطٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ ١٦١ﶔ اِنِّيْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِيْنٌ ١٦٢ﶫ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوْنِ ١٦٣ﶔ وَمَا٘ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍﵐ اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلٰي رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ١٦٤ﶠ
لوط[177] کی قوم نے بھی رسولوں کو جھٹلادیا، جب کہ اُن کے بھائی لوط نے اُن سے کہا: کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟ میں تمھارے لیے ایک رسول امین ہوں، اِس لیے اللہ سے ڈرو اور میری بات مانو۔ میں اِس پر تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتا۔ میرا صلہ تو اللہ رب العٰلمین کے ذمے ہے۔ ۱۶۰-۱۶۴
  اَتَاْتُوْنَ الذُّكْرَانَ مِنَ الْعٰلَمِيْنَ ١٦٥ﶫ وَتَذَرُوْنَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْﵧ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ عٰدُوْنَ ١٦٦
(خدا کے بندو)، کیا تم (شہوت رانی کے لیے) دنیا کے لوگوں میں سے مردوں کے پاس جاتے ہو اور تمھارے پروردگار نے تمھارے لیے جو تمھاری بیویاں پیدا کی ہیں، اُنھیں چھوڑ دیتے ہو[178]؟ نہیں، (یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے)، بلکہ تم ایسے لوگ ہو جو حد سے گزر گئے ہو۔ ۱۶۵-۱۶۶
قَالُوْا لَئِنْ لَّمْ تَنْتَهِ يٰلُوْطُ لَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُخْرَجِيْنَ ١٦٧
وہ بولے کہ اے لوط، اگر تم (ایسی باتوں سے) باز نہ آئے تو یہاں سے لازماً نکال باہر کیے جاؤ گے[179]۔ ۱۶۷
قَالَ اِنِّيْ لِعَمَلِكُمْ مِّنَ الْقَالِيْنَ ١٦٨ﶠ رَبِّ نَجِّنِيْ وَاَهْلِيْ مِمَّا يَعْمَلُوْنَ ١٦٩ فَنَجَّيْنٰهُ وَاَهْلَهٗ٘ اَجْمَعِيْنَ ١٧٠ﶫ اِلَّا عَجُوْزًا فِي الْغٰبِرِيْنَ ١٧١ﶔ ثُمَّ دَمَّرْنَا الْاٰخَرِيْنَ ١٧٢ﶔ وَاَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ مَّطَرًاﵐ فَسَآءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِيْنَ ١٧٣
 لوط نے جواب دیا: (کوئی پروا نہیں)، میں تمھارے اِس عمل سے سخت بے زار لوگوں میں سے ہوں[180]۔ (تب اُس نے دعا کی):میرے پروردگار، تو مجھے اور میرے گھر والوں کو اُس عمل کے انجام[181] سے نجات عطا فرما جو یہ کر رہے ہیں[182]۔ سو ہم نے اُسے اور اُس کے سب گھر والوں کو نجات دی، ایک بڑھیا کے سوا[183] جو پیچھے رہنے والوں میں رہ گئی۔ پھر (اُس کو اور) باقی سب لوگوں کو ہم نے ہلاک کر مارا اور اُن پر (پتھروں کی) ہول ناک بارش برسا دی[184]۔ تو کیا ہی بری بارش تھی جو اُن پر برسائی گئی جنھیں خبردار کر دیا گیا تھا۔۱۶۸-۱۷۳
اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةًﵧ وَمَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ١٧٤ وَاِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ ١٧٥
اِس میں، یقیناً بہت بڑی نشانی ہے، لیکن اِن میں سے اکثر ماننے والے نہیں ہیں۔ اور تیرا پروردگار، اِس میں کچھ شک نہیں کہ وہ زبردست بھی ہے اور نہایت مہربان بھی[185]۔ ۱۷۴-۱۷۵
كَذَّبَ اَصْحٰبُ لْـَٔيْكَةِ الْمُرْسَلِيْنَ ١٧٦ﶗ اِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَيْبٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ ١٧٧ﶔ اِنِّيْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِيْنٌ ١٧٨ﶫ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوْنِ ١٧٩ﶔ وَمَا٘ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍﵐ اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلٰي رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ١٨٠ﶠ
اِسی طرح بن والوں[186] نے بھی رسولوں کو جھٹلادیا، جب شعیب نے اُن سے کہا: کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟ میں تمھارے لیے ایک رسول امین ہوں، اِس لیے اللہ سے ڈرو اور میری بات مانو۔ میں اِس پر تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتا۔ میرا صلہ تو اللہ، رب العٰلمین کے ذمے ہے۔ ۱۷۶-۱۸۰
اَوْفُوا الْكَيْلَ وَلَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُخْسِرِيْنَ ١٨١ﶔ وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيْمِ ١٨٢ﶔ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْيَآءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْاَرْضِ مُفْسِدِيْنَ ١٨٣ﶔ وَاتَّقُوا الَّذِيْ خَلَقَكُمْ وَالْجِبِلَّةَ الْاَوَّلِيْنَ ١٨٤ﶠ
(میں تم سے کہتا ہوں کہ) پیمانہ پورا بھرو اور کسی کو نقصان دینے والے نہ بنو اور سیدھی ترازو سے تولو اور لوگوں کو اُن کی چیزیں گھٹا کر نہ دو[187]۔ اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو اور اُس (خدا) سے ڈرو جس نے تمھیں پیدا کیا ہے اور تم سے پہلی نسلوں کو بھی۔ ۱۸۱-۱۸۴
قَالُوْ٘ا اِنَّمَا٘ اَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِيْنَ ١٨٥ﶫ وَمَا٘ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا وَاِنْ نَّظُنُّكَ لَمِنَ الْكٰذِبِيْنَ ١٨٦ﶔ
اُنھوں نے جواب دیا: کچھ نہیں، تم پر تو کسی نے بری طرح جادو کر دیا ہے (جس سے تمھاری عقل ماری گئی ہے)اور یہ بھی کہ تم ہماری طرح کے ایک آدمی ہی ہو اور ہم تو تمھیں بالکل جھوٹا سمجھتے ہیں۔ ۱۸۵-۱۸۶
فَاَسْقِطْ عَلَيْنَا كِسَفًا مِّنَ السَّمَآءِ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ ١٨٧ﶠ قَالَ رَبِّيْ٘ اَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ١٨٨ فَكَذَّبُوْهُ فَاَخَذَهُمْ عَذَابُ يَوْمِ الظُّلَّةِﵧ اِنَّهٗ كَانَ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ ١٨٩
سو اگر تم سچے ہو تو آسمان سے ہم پر کوئی ٹکڑا گرا دو[188]۔ شعیب نے کہا: میرا رب خوب جانتا ہے جو کچھ تم کر رہے ہو[189]۔ بالآخر اُنھوں نے اُسے جھٹلا دیا تو سائبان والے دن کے عذاب نے اُنھیں آپکڑا[190] اور اِس میں کچھ شک نہیں کہ وہ ایک ہول ناک دن کا عذاب تھا۔ ۱۸۷-۱۸۹
اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةًﵧ وَمَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ١٩٠ وَاِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ ١٩١
اِس میں، یقیناً بہت بڑی نشانی ہے، لیکن اِن میں سے اکثر ماننے والے نہیں ہیں۔ اور تیرا پروردگار،  اِس میں کچھ شک نہیں کہ وہ زبردست بھی ہے اور نہایت مہربان بھی[191]۔۱۹۰-۱۹۱

[147]۔ اُنھوں نے ایک ہی رسول کو جھٹلایا تھا، مگر کوئی رسول بھی یہ دعوت اُن کے سامنے پیش کرتا تو وہ اُس کے ساتھ وہی معاملہ کرتے جو اُنھوں نے نوح علیہ السلام کے ساتھ کیا۔ آیت میں ’مُرْسَلِيْن‘ کا لفظ اِسی بنا پر جمع استعمال ہوا ہے ۔ اِس سے جرم کی سنگینی اور شدت ظاہر ہوتی ہے کہ اُنھوں نے جب ایک رسول کو جھٹلایا تو گویا سب کو جھٹلا دیا۔

[148]۔ نوح علیہ السلام اُن کے لیے کوئی اجنبی شخص نہیں تھے کہ وہ اُن کی زندگی اور احوال سے واقف نہ ہوں اور اُنھیں جھوٹا اور مفتری قرار دے کر اُن کی دعوت کو رد کر دیں۔ وہ اُن کی قوم کے ایک فرد اور اُن کے بھائی تھے۔ یہ حوالہ اِسی حقیقت کی طرف توجہ دلانے کے لیے دیا گیا ہے۔

[149]۔ یعنی اُس انجام سے ڈرتے نہیں ہو جو خدا سے سرکشی کے نتیجے میں تمھارا منتظر ہے؟

[150]۔ لفظ ’اَمِيْن‘ سے اِس بات کا اظہار مقصود ہے کہ میں کوئی مفتری نہیں ہوں، بلکہ خدا کا رسول ہوں اور جو امانت میرے سپرد کی گئی ہے، اُسے پوری دیانت داری کے ساتھ تمھیں پہنچا رہا ہوں۔

[151]۔ یہ معارضہ اِس بات کی دلیل ہے کہ نوح علیہ السلام کی دعوت کی تردید میں اُن کی قوم کے متمردین کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ چنانچہ اپنی رعونت کی تسکین کے لیے اُنھوں نے یہ بہانہ ڈھونڈ لیا۔ اِس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اخلاقی لحاظ سے وہ کس پستی میں گر چکے تھے۔ قرآن کے دوسرے مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ جنھیں یہ ماجرا سنایا جا رہا ہے، اُن کا حال بھی یہی تھا اور وہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے جواب میں یہی کہتے تھے کہ ہم اشراف مکہ  اِن اراذل و انفار کے ساتھ کیسے بیٹھ سکتے ہیں جو ایمان لا کر تمھارے ساتھی بن گئے ہیں؟

[152]۔ یہ نہایت بلیغ جواب ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اِس سے پہلے اُن کے کام رذیلوں کے تھے یا شریفوں کے، مجھے اِس سے کوئی غرض نہیں ہے۔ یہ اُن کا ماضی ہے اور اِس کا حساب اُن کے پروردگار کے ذمے ہے۔ میں تو اُن کے حاضر کو دیکھ رہا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اُنھوں نے حق کے سامنے سرتسلیم خم کر دیا ہے، جب کہ تم اُس کا انکار کر رہے ہو، اور آدمی کی شرافت اور رذالت کا انحصار تو اُس کے رویے اور عمل و کردار ہی پر ہوتا ہے۔

[153]۔ یعنی میرا کام انذار ہے اور میں نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی ہے۔ مجھے ایمان و اسلام کے لیے تمھاری شرائط سننے کے لیے نہیں بھیجا گیا۔ لہٰذا نہیں مانتے ہو تو اِس کی ذمہ داری تمھی پر ہے۔ میں اِس کے لیے مسئول نہیں ہوں۔

[154]۔ یہ الفاظ بتا رہے ہیں کہ اِس طرح کی دھمکی وہ پہلے بھی دیتے رہے تھے، لیکن حضرت نوح نے اِس کی کوئی پروا نہیں کی۔ چنانچہ اُنھوں نے پورے زور کے ساتھ کہا کہ اِسے محض دھمکی نہ سمجھو، اب ہم یہ لازماً کر گزریں گے۔

[155]۔ یہ اُسی فیصلے کا ذکر ہے جو رسولوں کی طرف سے اتمام حجت کے بعد اُن کی قوموں کے لیے صادر ہوتا ہے اور جس کے نتیجے میں حق کو واضح فتح حاصل ہو جاتی ہے۔

[156]۔ اِسے بھری ہوئی اِس لیے کہا ہے کہ اِس میں وہ سب چیزیں رکھ لی گئی تھیں جنھیں بچانا مقصود تھا۔

[157]۔ یہ وہی ترجیع ہے جو اِس سے پہلے گزر چکی ہے۔

[158]۔ عاد عرب کی قدیم ترین قوم ہے۔ یہ سامی نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ اِن کا مسکن احقاف کا علاقہ تھا جو حجاز، یمن اور یمامہ کے درمیان الربع الخالی کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔ عرب کے لٹریچر میں یہ اپنی قدامت کے لیے بھی ضرب المثل ہیں اور اپنی قوت و شوکت کے لیے بھی۔ حضرت ہود اِنھی کے ایک فرد تھے جنھیں رسول کی حیثیت سے اِن کی طرف مبعوث کیا گیا۔

[159]۔ ایک رسول کے جھٹلانے کو تمام رسولوں کے جھٹلانے سے تعبیر کرنے کی وجہ اوپر آیت ۱۰۵ کے تحت بیان ہو چکی ہے۔

[160]۔ مطلب یہ ہے کہ خدا کے بندو، میری بات تو سنو۔ میں جو کچھ تمھیں دے رہا ہوں، بالکل مفت دے رہا ہوں۔ میں نے اِس پر کوئی معاوضہ نہیں مانگ لیا ہے جو تم پر گراں گزرا ہے اور تم اُس سے گریز و فرار کے راستے تلاش کر رہے ہو۔

[161]۔ اصل الفاظ ہیں: ’لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُوْنَ‘۔ اِن میں ’لَعَلَّكُمْ‘’گویا کہ‘ کے مفہوم میں ہے اور فصیح عربی میں یہ اِس مفہوم میں بھی آتا ہے۔ آیت میں جس رویے کی مذمت کی گئی ہے، وہ اِن الفاظ سے اور اوپر ’تَعْبَثُوْنَ‘ کے لفظ سے واضح ہو جاتا ہے۔ یعنی خدا اور آخرت پر ایمان کے تقاضوں کو بھول کر اور کسی تمدنی، سماجی، معاشی اور معاشرتی ضرورت کے بغیر عمارتیں تعمیر کرنا جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ غریبوں کے پاس سر چھپانے کے لیے جھونپڑے بھی نہیں ہوتے اور خشت و آہن کے فلک بوس منار شب و روز خدا کی زمین پر بلند ہوتے رہتے ہیں، جن میں نمایش اور تفاخر کے سوا کوئی چیز پیش نظر نہیں ہوتی۔ یہ رویہ انفرادی زندگی میں ہو یا اجتماعی زندگی میں، بہرحال قابل مذمت اور اِس بات کی علامت ہے کہ تمدن کا مزاج بالکل فاسد ہو چکا ہے۔ کسی صالح تمدن میں حاجیات و ضروریات ہمیشہ کمالیات و تعیشات پر مقدم ہوتی ہیں اور معاشرے کے تمام طبقات نہایت متوازن طریقے پر تعمیر و ترقی کے کاموں سے مستفید ہوتے ہیں۔

[162]۔ یعنی جنگ کرو گے تو کسی شر و فساد اور ظلم و عدوان کے استیصال کے لیے نہیں، بلکہ اپنی قوت و صولت کے مظاہرے اور دوسروں کو مغلوب و محکوم بنانے کے لیے کرو گے۔ یہ، ظاہر ہے کہ صریح فساد فی الارض ہے جس کا ارتکاب خدا سے ڈرنے والے کبھی نہیں کر سکتے۔

[163]۔ نہایت دل سوزی اور دردمندی کے ساتھ تذکیر و نصیحت اور خدا کے بے پایاں افضال و عنایات کی طرف توجہ دلانے کے بعد یہ آخر میں ہود علیہ السلام نے متنبہ کیا ہے کہ میں تمھارے سروں پر ایک ہول ناک عذاب کو منڈلاتے ہوئے دیکھ رہا ہوں، اِس لیے کہ اتمام حجت کے بعد یہ عذاب لازماً آجاتا ہے۔

[164]۔ ہود علیہ السلام کی دردمندانہ اپیل کے جواب میں آخری درجے کی قساوت ہے جس کا اظہار اِن استہزائیہ جملوں میں ہوا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے گھر بیٹھو، ہمیں تمھاری نصیحتوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ مذہب و اخلاق کے علم بردار اِس سے پہلے بھی اِسی طرح عذاب کی دھمکیاں دیتے رہے ہیں، لیکن یہ دھمکیاں نہ پہلے کبھی پوری ہوئی ہیں، نہ اب پوری ہوں گی۔

[165]۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تسلی اور آپ کے مخاطبین کی تہدید و وعید کے لیے یہ سلسلۂ کلام بھی حسب سابق ترجیع پر ختم ہوا ہے۔

[166]۔ یہ عاد کے بقایا میں سے ہیں۔ اِسی بنا پر اِنھیں عاد ثانی بھی کہا جاتا ہے۔ عرب کی قدیم اقوام میں سے یہ دوسری قوم ہے جس نے عاد کے بعدغیر معمولی شہرت حاصل کی۔ اِن کا مسکن شمال مغربی عرب کا وہ علاقہ ہے جسے الحجر کہا جاتا ہے۔

[167]۔ یہ اُس خوش حالی اور رفاہیت کا بیان ہے جو خدا نے اِس قوم کو عطا کر رکھی تھی اور دنیا کی اکثر قوموں کی طرح یہی خوش حالی اور رفاہیت اِس کی غفلت، سرکشی اور خدا سے بے نیازی کا باعث بن گئی تھی۔ اِس کے لیے باغ کے اجزا مستعار لیے گئے ہیں اور یہ وہی باغ ہے جسے عرب پسند کرتے تھے کہ اُس میں انار اور انگور ہوں، اُس کے نیچے نہر بہتی ہو، بیچ میں کھیتی کی چیزیں اگائی گئی ہوں اور کنارے کنارے کھجور کے بلند و بالا درخت باڑ کی صورت میں لگے ہوئے ہوں۔ صالح علیہ السلام نے اِسی باغ و بہار کی طرف توجہ دلا کر فرمایا ہے کہ کیا یہ خیال کرتے ہو کہ تمھارا یہ عیش دائمی اور ابدی ہے، اِس پرکبھی زوال نہ آئے گا، تم اِسی طرح چھوڑ دیے جاؤ گے اور جس پروردگار نے یہ سب تمھیں عطا فرمایا ہے، وہ کبھی اِس کا حساب تم سے نہ مانگے گا؟ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’... ہر نعمت منعم کی شکر گزاری کا حق واجب کرتی ہے اور اِس شکر گزاری کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ وہ برابر چوکنا رہے کہ مبادا کسی نعمت کا حق ادا کرنے میں کوئی کوتاہی ہو جائے۔ نعمت کسی کا حق نہیں، بلکہ منعم کی طرف سے ایک امانت ہے۔ اِس وجہ سے جس کی تحویل میں جتنی ہی زیادہ امانت ہو، اُس کو اتنا ہی زیادہ فکر مند اور بیدار رہنا چاہیے۔ اگر کوئی شخص نعمت پا کر نچنت ہو کر سو رہے کہ یہ نعمت اُس کا حق ہے اور وہ اِس میں عیش کرنے کے لیے پیدا ہوا ہے تو وہ نہایت احمق ہے۔ ‘‘ (تدبرقرآن ۵/ ۵۴۲)

[168]۔ پہاڑوں کو تراش کر گھر بنانے کے فن میں یہ لوگ جس کمال کو پہنچے ہوئے تھے، اُس کے آثار آج بھی مدائن صالح میں موجود ہیں۔یہ آثار ہزاروں ایکڑ کے رقبے میں پھیلے ہوئے ہیں اور کم و بیش ویسے ہی ہیں، جیسے ہندوستان میں ایلورا، ایجنٹا اور بعض دوسرے مقامات میں پائے جاتے ہیں۔

آیت میں ’فٰرِهِيْن‘ کا لفظ بھی قابل توجہ ہے۔ یہ اُسی ذہنیت کے ایک دوسرے پہلو کو نمایاں کرتا ہے جو اوپر لفظ ’اٰمِنِيْن‘ سے واضح ہوتی ہے۔یعنی احساس تفاخر سے مگن اور اپنے طرزعمل کے نتائج و عواقب سے بالکل بے پروا۔ درحقیقت یہی وہ چیز ہے جو تعمیر و ترقی کو معاشرے اور تمدن کے لیے ناسور بنا دیتی ہے۔ ورنہ مادی ترقی کوئی جرم نہیں ہے اور نہ فلک بوس عمارتیں بنانا لازماً کسی فساد کی نشانی ہے۔ یہ صحیح وقت پر بنائی جائیں تو سیدنا سلیمان علیہ السلام کے ’صَرْحٌ مُّمَرَّدٌ مِّنْ قَوَارِيْرَ‘ کی طرح حق و باطل میں امتیاز اور معرفت الہٰی کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔

[169]۔ اِس سے مراد وہی رویہ ہے جو پیچھے ’اِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِيْنَ‘ کے الفاظ میں بیان ہوا ہے۔

[170]۔ یعنی اُس میں لوگوں کو بھلائی کی تلقین نہیں کرتے اور نہ دوسروں کی حق تلفی اور اُن پر تعدی سے اُنھیں روکتے ہیں۔ یہ وہی تقاضا ہے جسے قرآن امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے تعبیر کرتا ہے۔

[171]۔ یعنی ایک اونٹنی ہے جسے میں نے نامزد کر دیا ہے۔ دوسری جگہ وضاحت ہے کہ اُسے خدا کی نذر کرکے نامزد کیا گیا تھا۔

[172]۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ جانوروں کو پانی پلانے کا گھاٹ ایک ہی تھا۔ چنانچہ اِس پابندی سے قوم کے لیے نہایت سخت آزمایش پیدا ہو گئی۔

[173]۔ مطلب یہ ہے کہ تمھارے لیے یہ خدا کے عذاب کی نشانی ہے۔ اِس کو گزند پہنچاؤ گے تو سمجھ لو کہ امان کی دیوار گر گئی۔ اِس کے بعد قہر الہٰی کے سیلاب کو کوئی چیز تمھاری بستیوں میں داخل ہونے سے روک نہ سکے گی۔

[174]۔ اونٹنی کو مارنے کا جرم اگرچہ اُن کے ایک سرکش سردار نے کیا تھا، مگر قرآن نے اِسے پوری قوم کی طرف منسوب کیا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ باقی متمردین بھی اِس پر راضی تھے۔

[175]۔ یہ اونٹنی قوم کی سرکشی کو جانچنے کا ایک پیمانہ تھی۔ اِس کو مارنے سے واضح ہو گیا کہ یہ لوگ اب مزید کسی مہلت کے مستحق نہیں رہے۔ چنانچہ عذاب کا حکم صادر ہو گیا اور قوم عاد کی طرح یہ بھی زمین سے مٹا دیے گئے۔

[176]۔ یہ وہی آیت ترجیع ہے جو اوپر گزر چکی ہے اور اِس کا موقع و محل بالکل واضح ہے۔

[177]۔ حضرت لوط سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے۔ اُن کی قوم اُس علاقے میں رہتی تھی جو شام کے جنوب میں عراق و فلسطین کے درمیان واقع ہے اور آج کل شرق اردن کہلاتا ہے۔ بائیبل میں اُن کے سب سے بڑے شہر کا نام سدوم بتایا گیا ہے۔ لوط علیہ السلام کا تعلق اُس قوم کے ساتھ وہی تھا جو حضرت موسیٰ کا قوم فرعون کے ساتھ تھا۔ اُن کی بیوی کا ذکر آگے جس اسلوب میں ہوا ہے، اُس سے اشارہ نکلتا ہے کہ اُن کی شادی اُسی قوم کے اندر ہوئی تھی اور اِس لحاظ سے وہ اُنھی کے ایک فرد بن چکے تھے۔

[178]۔ یہ استفہام اظہار نفرت و کراہت کے لیے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خدا نے اِس مقصد کے لیے زن و مرد کے جوڑے پیدا کیے تھے۔تم عورتوں کو چھوڑ کر کس اوندھی فطرت کا مظاہرہ کر رہے ہو۔ پھر لڑکے تو لڑکے، تمھارے مرد تک اِسی لعنت میں گرفتار ہیں۔ یہ کیسا فساد طبیعت ہے جس نے تمھیں اِس مرض خبیث میں مبتلا کر دیا ہے؟ اِس نفرت و کراہت اور اظہار تعجب کی وجہ یہ ہے کہ زنا اپنے تمام مفاسد کے باوجود نفس انسانی کی بنیادی ترکیب میں کوئی خلل پیدا نہیں کرتا، لیکن یہ بیماری لاحق ہو جائے تو اِس ترکیب میں خلل عظیم پیدا کر دیتی ہے۔

[179]۔ یہ الفاظ بتا رہے ہیں کہ اِس طرح کی دھمکی وہ پہلے بھی دیتے رہے تھے، لیکن اب اُنھوں نے دو ٹوک فیصلہ سنا دیا کہ اپنی زبان بند رکھو، ورنہ ہم جو کچھ کہتے رہے ہیں، وہ کر گزریں گے۔

[180]۔ یعنی اُن لوگوں میں سے ہوں جن کی فطرت سلیم اور عقل مستقیم ہے اور جو ایسی چیزوں سے بے زار ہی ہوا کرتے ہیں۔

[181]۔ اِس جملے میں ایک مضاف عربیت کے قاعدے سے محذوف ہے، یعنی ’من عقوبة ما يعملون‘۔ یہ اُسی کا ترجمہ ہے۔

[182]۔ اِس طرح کی دعا اُسی وقت پیغمبر کی زبان پر آتی ہے، جب سنت الہٰی کے مطابق اُس کی قوم پر عذاب کا فیصلہ ہوجاتا ہے۔

[183]۔ یہ تحقیر کا اسلوب ہے اور اِس سے حضرت لوط کی بیوی مراد ہے جو اُن پر ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہوئی۔

[184]۔ سورۂ ہود میں تصریح ہے کہ یہ پتھروں کی بارش تھی۔ اِس تباہی کے آثار اِن کے علاقے میں آج تک نمایاں ہیں۔ یہ علاقہ، جیسا کہ اوپر بیان ہوا، بحر لوط (بحیرۂ مردار) کے مشرق اور جنوب میں واقع ہے اور خاص اِس کے جنوبی علاقے کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ یہاں اِس درجہ ویرانی پائی جاتی ہے جس کی نظیر روے زمین پر کہیں اور نہیں دیکھی گئی۔

[185]۔ یہ آیت ترجیع ہے۔

[186]۔ پچھلی سورتوں میں بیان ہو چکا ہے کہ شعیب علیہ السلام مدین والوں کی طرف بھیجے گئے تھے۔ یہ بستی ابراہیم علیہ السلام کے صاحبزادے مدیان کے نام پر مدین یا مدیان کہلاتی تھی، جو اُن کی تیسری بیوی قطورا کے بطن سے تھے۔ اِس کے قریب ایک بہت بڑا بن تھا۔ عربی زبان میں جھاڑی اور بن کے لیے ’أيكة‘ کا لفظ آتا ہے۔ آیت میں اِسی بنا پر اِن کا ذکر ’اَصْحٰبُ لْئَيْكَةِ‘،یعنی بن والوں کے الفاظ سے ہوا ہے۔

[187]۔ اُس زمانے کی دو بڑی تجارتی شاہراہیں مدین کے قریب سے گزرتی تھیں، اِس وجہ سے مدین کے لوگوں نے بھی تجارت میں بہت ترقی کر لی تھی۔ چنانچہ اِن کے باطنی فساد کا ظہور ناپ تول میں خیانت اور اشیا میں ملاوٹ کی صورت میں بھی ہوا۔ یہ اِس بات کی علامت تھی کہ پوری قوم کے اندر عدل و قسط کا تصور مختل ہو چکا اور خدا کے قائم بالقسط ہونے کا عقیدہ باقی نہیں رہا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...اِس دنیا کو اللہ تعالیٰ نے ایک میزان کے ساتھ پیدا کیا ہے اور اِسی میزان پر یہ آسمان و زمین قائم ہیں۔ اگر یہ درہم برہم ہو جائے تو یہ آسمان و زمین درہم برہم ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ نظام انسانوں کو یہ رہنمائی دیتا ہے کہ وہ بھی اپنے اندر ہر شعبۂ زندگی میں صحیح میزان کے قیام کا پورا پور ااہتمام رکھیں، ورنہ اُن کا سارا معاشی و معاشرتی نظام درہم برہم ہو کر رہ جائے گا۔‘‘(تدبرقرآن ۵/ ۵۵۲)

[188]۔ یعنی جس آسمانی عذاب کی دھمکی دیتے رہے ہو، وہ لے آؤ۔ قرآن میں دوسری جگہ مذکور ہے کہ یہی بات قریش مکہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہی تھی۔

[189]۔ یہ تفویض الی اللہ کا کلمہ ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...مطلب یہ ہے کہ آسمان سے ٹکڑے گرانا میرے اختیار میں نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ وہ تمھاری کارستانیوں سے اچھی طرح باخبر ہے تو میں اِس معاملے کو اُسی کے حوالے کرتا ہوں۔ اُس کی حکمت کا جو تقاضا ہو گا، وہ ظہور میں آئے گا اور بالکل ٹھیک وقت پر ظہور میں آئے گا۔‘‘ (تدبر قرآن ۵/ ۵۵۳)

[190]۔ یعنی اُس دن کا عذاب جس میں غبار اٹھا، بادل امڈ کر آئے اور حاصب کے طوفان نے ایک سائبان کی طرح اُنھیں ہر طرف سے گھیر لیا۔ اِس طرح کے عذاب میں چونکہ آندھی، طوفان، رعد و برق اور چیخنے چنگھاڑنے کی آوازیں، سب اکٹھی ہو جاتی ہیں، اِس لیے دوسرے مقامات میں اِس کو ’رَجْفَة‘ اور ’صَيْحَة‘ سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ یہاں اِس کا وہ منظر نگاہوں کے سامنے لانا مقصود ہے، جب یہ دور سے آتا ہوا دکھائی دیا۔ چنانچہ ’عَذَابُ يَوْمِ الظُّلَّةِ‘ کی تعبیر اِسی رعایت سے اختیار فرمائی ہے۔

[191]۔ یہ آیت ترجیع ہے جو ہر سرگذشت کے بعد اِسی طرح آئی ہے۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

B