HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : سید منظور الحسن

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

’سنت‘ اور ’ملت ابراہیم‘ کا باہمی تعلق: جناب جاوید احمد غامدی کے موقف کا تقابلی مطالعہ

سنت کے بارے میں استاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی کا تصور یہ ہے کہ یہ دین ابراہیمی کی روایت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تجدید واصلاح کے بعد اور اس میں بعض اضافوں کے ساتھ اسے دین کی حیثیت سے امت میں جاری فرمایاہے۔اس کا پس منظر ان کے نزدیک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دین کے بنیادی حقائق اس کی فطرت میں ودیعت کر کے دنیا میں بھیجا۔پھر اس کی ہدایت کی ضرورتوں کے پیش نظر انبیا کا سلسلہ جاری فرمایا۔ یہ انبیا وقتاً فوقتاً مبعوث ہوتے رہے اور بنی آدم تک ان کے پروردگار کادین پہنچاتے رہے۔یہ دین ہمیشہ دو اجزا پر مشتمل رہا : ایک حکمت، یعنی دین کی مابعدالطبیعاتی اور اخلاقی اساسات اور دوسرے شریعت، یعنی اس کے مراسم اور حدود و قیود۔ حکمت ہر طرح کے تغیرات سے بالا تھی، لہٰذا وہ ہمیشہ ایک رہی، لیکن شریعت کا معاملہ قدرے مختلف رہا۔ وہ ہر قوم کی ضرورتوں کے لحاظ سے اترتی رہی، لہٰذا انسانی تمدن میں ارتقا اور تغیر کے باعث بہت کچھ مختلف بھی رہی۔مختلف اقوام میں انبیا کی بعثت کے ساتھ شریعت میں ارتقا و تغیر کا سلسلہ جاری رہا، یہاں تک کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی نبوت میں پوری انسانیت کے لیے اس کے احکام بہت حد تک متعین ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹوں  ـــــــــ اسحٰق اور اسمٰعیل علیہما السلام   ـــــــــ  کو اسی دین کی پیروی کی وصیت کی اور سیدنا یعقوب علیہ السلام نے بھی بنی اسرائیل کو اسی پر عمل پیرا رہنے کی ہدایت کی:

وَمَنْ يَّرْغَبُ عَنْ مِّلَّةِ اِبْرٰهٖمَ اِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهٗ.... وَوَصّٰي بِهَا٘ اِبْرٰهٖمُ بَنِيْهِ وَيَعْقُوْبُ.(البقرہ۲: ۱۳۰، ۱۳۲)   
  ’’اور کون ہے جو ملت ابراہیم سے اعراض کر سکے، مگر وہی جو اپنے آپ کو حماقت میں مبتلا کرے...۔ اور ابراہیم نے اسی (ملت) کی وصیت اپنے بیٹوں کو کی اور (اسی کی وصیت) یعقوب نے (اپنے بیٹوں کو) کی۔‘‘

دین ابراہیمی کے احکام ذریت ابراہیم کی دونوں شاخوں  ـــــــــ  بنی اسرائیل اور بنی اسمٰعیل   ـــــــــ  میں نسلاً بعد نسلٍ ایک دینی روایت کے طور پرجاری رہے۔ بنی اسمٰعیل میں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تو آپ کو بھی دین ابراہیمی کی پیروی کا حکم دیا گیا۔ سورۂ نحل میں ارشاد فرمایا ہے:

ثُمَّ اَوْحَيْنَا٘ اِلَيْكَ اَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ اِبْرٰهِيْمَ حَنِيْفًاﵧ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ. (۱۶ :۱۲۳)    
   ’’پھر ہم نے تمھیں وحی کی کہ ملت ابراہیم کی پیروی کرو جو بالکل یک سو تھا اور مشرکوں میں سے نہیں تھا۔‘‘

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب دین ابراہیمی کی پیروی کا حکم دیا گیا تو عبادات، معاشرت، خور و نوش اور رسوم و آداب سے متعلق دین ابراہیمی کے یہ احکام پہلے سے رائج تھے اور بنی اسمٰعیل ان سے ایک معلوم و متعین روایت کی حیثیت سے پوری طرح متعارف تھے۔بنی اسمٰعیل بڑی حد تک ان پر عمل پیرا بھی تھے۔ دین ابراہیمی کے یہی معلوم و متعارف اور رائج احکام ہیں جنھیں اصطلاح میں ’سنت‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تجدید و اصلاح کے بعد اور ان میں بعض اضافوں کے ساتھ انھیں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے۔

جناب جاوید احمد غامدی کا موقف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے عربوں میں دین ابراہیمی کی روایت پوری طرح مسلم تھی۔ لوگ بعض تحریفات کے ساتھ کم و بیش وہ تمام امور انجام دیتے تھے جنھیں سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے جاری کیا تھا اور جنھیں بعد ازاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تصویب سے امت میں سنت کی حیثیت سے جاری فرمایا۔ چنانچہ ان کے نزدیک نماز، روزہ، حج،زکوٰۃ،نماز جنازہ، جمعہ، قربانی، اعتکاف اور ختنہ جیسی سنتیں دین ابراہیمی کے طور پر قریش میں معلوم و معروف تھیں۔لکھتے ہیں:

’’...نماز،روزہ،حج،زکوٰۃ، یہ سب اِسی ملت کے احکام ہیں جن سے قرآن کے مخاطب پوری طرح واقف، بلکہ بڑی حد تک اُن پر عامل تھے۔ سیدنا ابوذر کے ایمان لانے کی جو روایت مسلم میں بیان ہوئی ہے، اُس میں وہ صراحت کے ساتھ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے ہی وہ نماز کے پابند ہو چکے تھے۔ جمعہ کی اقامت کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ قرآن کے مخاطبین کے لیے کوئی اجنبی چیز نہ تھی۔ نماز جنازہ وہ پڑھتے تھے۔ روزہ اُسی طرح رکھتے تھے، جس طرح اب ہم رکھتے ہیں۔ زکوٰۃ اُن کے ہاں بالکل اُسی طرح ایک متعین حق تھی، جس طرح اب متعین ہے۔  حج و عمرہ سے متعلق ہر صاحب علم اِس حقیقت کو جانتا ہے کہ قریش نے چند بدعتیں اُن میں بے شک، داخل کر دی تھیں، لیکن اُن کے مناسک فی الجملہ وہی تھے جن کے مطابق یہ عبادات اِس وقت ادا کی جاتی ہیں،بلکہ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ اِن بدعتوں پر متنبہ بھی تھے۔ چنانچہ بخاری و مسلم، دونوں میں بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعثت سے پہلے جو حج کیا،وہ قریش کی اِن بدعتوں سے الگ رہ کر بالکل اُسی طریقے پر کیا، جس طریقے پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے حج ہمیشہ جاری رہا ہے۔
یہی معاملہ قربانی، اعتکاف، ختنہ اور بعض دوسرے رسوم و آداب کا ہے۔یہ سب چیزیں پہلے سے رائج، معلوم ومتعین اور نسلاً بعد نسلٍ جاری ایک روایت کی حیثیت سے پوری طرح متعارف تھیں۔ چنانچہ اِس بات کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ قرآن اِن کی تفصیل کرتا۔ لغت عرب میں جو الفاظ اِن کے لیے مستعمل تھے، اُن کا مصداق لوگوں کے سامنے موجود تھا۔ قرآن نے اُنھیں نماز قائم کرنے یا زکوٰۃ ادا کرنے یا روزہ رکھنے یا حج و عمرہ کے لیے آنے کا حکم دیا تو وہ جانتے تھے کہ نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج و عمرہ کن چیزوں کے نام ہیں۔ ‘‘ (میزان۴۶- ۴۷)     

درج بالا تفصیل سے واضح ہے کہ ملت ابراہیم سے جناب جاوید احمد غامدی کی مراد دین ابراہیم ہے۔ سنت ان کے نزدیک دین ابراہیمی یا ملت ابراہیمی ہی کا ایک جز ہے۔ یہ در حقیقت دین ابراہیم کے ان احکام پر مشتمل ہے جو بنی اسمٰعیل میں پہلے سے رائج اور معلوم و متعین تھے اور نسل در نسل چلتی ہوئی ایک روایت کی حیثیت سے متعارف تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تجدید و اصلاح کی اور ان میں بعض اضافوں کے ساتھ انھیں مسلمانوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا۔وہ لکھتے ہیں:

’’ سنت سے ہماری مراد دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کی تجدید واصلاح کے بعد اور اُس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے۔‘‘(میزان۱۴)   
’’...دین ابراہیمی کی روایت کا یہ حصہ جسے اصطلاح میں سنت سے تعبیر کیا جاتا ہے، قرآن کے نزدیک خدا کا دین ہے اور وہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملت ابراہیمی کی اتباع کا حکم دیتا ہے تو گویا اِس کو بھی پورا کا پورا اپنانے کی تلقین کرتا ہے۔‘‘ (میزان۴۷)

استاذ گرامی کے اس موقف پر بعض اہل علم نے یہ اعتراض کیا ہے کہ ملت ابراہیم کے الفاظ سے دین ابراہیمی کی روایت مراد لینا درست نہیں ہے۔ اس سے مراد دین کی اساسی تعلیمات، یعنی توحید، شرک اور اطاعت الہٰی ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ بات لغت عرب اور آ یت کے سیاق و سباق کی رو سے صحیح نہیں ہے۔لغت کے مطابق، لفظ ’ملت‘ ایک جامع لفظ ہے جو اصولی تصورات کے علاوہ عملی احکام کو بھی شامل ہے۔

’’لسان العرب‘‘ میں ہے:

والملة: الشریعة والدین.... الملة: الدین کملة الإسلام والنصرانیة والیهودیة، وقیل: هي معظم الدین، وجملة ما یجیٔ به الرسل.... قال أبو إسحٰق: الملة في اللغة سنتهم و طریقهم. (۱۱/ ۶۳۱- ۶۳۲)    
 ’’شریعت اور دین کا نام ملت ہے۔... ملت، ملت اسلام، ملت نصرانیہ اور ملت یہودیہ کی طرح ایک دین کا نام ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ بنیادی اور جملہ اجزاے دین کو ملت کہتے ہیں جس کو رسول لے کر آتے ہیں۔... ابواسحٰق کہتے ہیں کہ لغت میں ان کی سنت اور طریقے کو ملت کہتے ہیں۔‘‘

سورۂ نحل کی مذکورہ بالا آیات میں سیاق وسباق کی رو سے عملی پہلو مراد ہیں۔اس مقام پر اصل میں ان مشرکانہ بدعات کی تردید کی گئی ہے جوبعض جانوروں کی حرمت کے حوالے سے مشرکین عرب میں رائج تھیں اور جن کے بارے میں ان کادعویٰ تھا کہ انھیں سیدنا ابراہیم علیہ السلام ہی نے جاری فرمایا تھا۔ اس ضمن میں انھوں نے اپنے طور پر ایک پوری شریعت وضع کر رکھی تھی۔ مثال کے طور پر وہ منتوں اور نذروں کے لیے خاص کیے گئے جانوروں پر اللہ کانام لینا جائز نہیں سمجھتے تھے۔ ان پر سوار ہو کر حج کرنا ممنوع تھا۔ وہ اپنی کھیتیوں اور جانوروں میں سے ایک حصہ اللہ کے لیے مقرر کرتے اور ایک حصہ دیوی دیوتاؤں کے لیے خاص کر دیتے تھے۔نذروں اور منتوں کے لیے مخصوص جانوروں میں سے مادائیں جو بچہ جنتیں، اس کا گوشت عورتوں کے لیے ناجائز اور مردوں کے لیے جائز تھا، لیکن اگر وہ بچہ مردہ پیدا ہو یا بعد میں مر جائے تو پھر اس کا گوشت عورتوں کے لیے بھی جائز ہو جاتا تھا۔قرآن مجید نے ان مشرکانہ بدعات اور ان کی سیدنا ابراہیم سے نسبت کی نہایت سختی سے تردید کی۔ یہ اس آیت کا پس منظر ہے۔ اس پس منظرمیں اگر آیت کا مطالعہ اس کے سیاق و سباق کے ساتھ کیا جائے تو یہ بات پوری طرح واضح ہوتی ہے کہ’اتَّبِعْ مِلَّةَ اِبْرٰهِيْمَ‘ کا حکم اصل میں عملی احکام ہی کے تناظر میں آیا ہے۔ ارشاد فرمایا ہے:

فَكُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلٰلًا طَيِّبًاﵣ وَّاشْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَ. اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيْرِ وَمَا٘ اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖ ... وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هٰذَا حَلٰلٌ وَّهٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ... وَعَلَي الَّذِيْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا مَا قَصَصْنَا عَلَيْكَ مِنْ قَبْلُﵐ وَمَا ظَلَمْنٰهُمْ وَلٰكِنْ كَانُوْ٘ا اَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُوْنَ... اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِيْفًاﵧ وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ. شَاكِرًا لِّاَنْعُمِهٖﵧ اِجْتَبٰىهُ وَهَدٰىهُ اِلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ. . . ثُمَّ اَوْحَيْنَا٘ اِلَيْكَ اَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ اِبْرٰهِيْمَ حَنِيْفًاﵧ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ. اِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ عَلَي الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا فِيْهِﵧ وَاِنَّ رَبَّكَ لَيَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ فِيْمَا كَانُوْا فِيْهِ يَخْتَلِفُوْنَ.(النحل۱۶: ۱۱۴- ۱۲۴)    
 ’’تو اللہ نے تمھیں جو چیزیں جائز و پاکیزہ دے رکھی ہیں، ان میں سے کھاؤ اور اللہ کی نعمت کا شکر ادا کرو اگر تم اسی کی پرستش کرتے ہو۔ اس نے تو تم پر بس مردار اور خون اور سؤر کا گوشت اور جس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو، حرام ٹھیرایا ہے...۔ اور اپنی زبانوں کے گھڑے ہوئے جھوٹ کی بنا پر یہ نہ کہو کہ فلاں چیز حلال ہے اور فلاں چیز حرام کہ اللہ پر جھوٹی تہمت لگاؤ...۔ اور جو یہودی ہوئے، ان پر بھی ہم نے وہی چیزیں حرام کیں جو ہم نے پہلے تم کو بتائیں اور ہم نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا، بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم ڈھاتے رہے۔... بے شک، ابراہیم ایک الگ امت تھے، اللہ کے فرماں بردار اور اس کی طرف یک سو اور وہ مشرکین میں سے نہ تھے۔ وہ اس کی نعمتوں کے شکر گزار تھے۔ اللہ نے ان کو برگزیدہ کیا اور ان کی رہنمائی ایک سیدھی راہ کی طرف فرمائی۔... پھر ہم نے تمھاری طرف وحی کی کہ ملت ابراہیم کی پیروی کرو جو بالکل یک سو تھے اور وہ مشرکین میں سے نہ تھے۔ سبت انھی لوگوں پر عائد کیا گیا تھا جنھوں نے اس کے باب میں اختلاف کیا، اور بے شک، تمھارا رب ان چیزوں کے باب میں جن میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں، قیامت کے روز ان کے درمیان فیصلہ فرمائے گا۔‘‘ 

اتَّبِعْ مِلَّةَ اِبْرٰهِيْمَ حَنِيْفًا‘کی تفسیر میں جلیل القدر اہل علم نے ملت سے فقط اصولی تصورات مراد نہیں لیے، بلکہ عملی پہلوؤں کو نمایاں طور پر شامل سمجھتے ہوئے اس آیت کی تفسیر کی ہے۔

ابن قیم نے ملت کو توحید کے مفہوم میں لینے کی صریح طور پر تردید کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ اس سے مراد دین ہے اور اس کے مفہوم میں عقائد کے ساتھ اعمال بھی شامل ہیں:

وأما قولکم إن الملة هي التوحید فالملة هي الدین وهي مجموعة أقوال وأفعال واعتقاد ودخول الأعمال في الملة کدخول الإیمان، فالملة هي الفطرة وهي الدین ومحال أن یأمر اللہ سبحانه باتباع إبراهیم في مجرد الکلمة دون الأعمال وخصال الفطرة.(تحفۃ المودودباحکام المولود۱۰۶)   
  ’’تم اگر یہ کہتے ہو کہ ملت سے مراد توحید ہے (تو یہ درست نہیں ہے)۔ ملت سے مراد دین ہے اور دین اقوال، افعال اور اعتقاد کے مجموعے کا نام ہے۔ جس طرح ایمان ملت کے مفہوم میں داخل ہے، اسی طرح اعمال بھی اس کے مفہوم میں داخل ہیں۔ پس فطرت کا نام ملت ہے اور وہ دین ہے۔ یہ بات محال ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اعمال اور عادات فطرت کو چھوڑ کر صرف کلمہ کی پیروی کرنے کا حکم فرمائیں۔‘‘

امام رازی نے ملت سے شریعت مراد لیا ہے اور بیان کیا ہے کہ ملت ابراہیم ملت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ ہے:

ظاہر هذہ الآیة یقتضي أن شرع محمد علیه الصلٰوة والسلام نفس شرع إبراهیم، وعلی هذا التقدیر لم یکن محمد علیه الصلٰوة والسلام صاحب شریعة مستقلة، وأنتم لا تقولون بذالک. قلنا: یجوز أن تکون ملة إبراهیم داخلة في ملة محمد علیه الصلٰوة والسلام مع اشتمال هذہ الملة علی زوائد حسنة وفوائد جلیلة.(التفسیر الکبیر ۱/ ۵۷)   
 ’’(پھر اگر یہ کہا جائے کہ) آیت کا ظاہر تو اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت اور ابراہیم علیہ السلام کی شریعت یکساں ہے اور اس بنا پر تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوئی مستقل شریعت کے حامل نہ ہوئے، جب کہ تم ایسا نہیں کہتے۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ بات درست ہے کہ ملت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں ملت ابراہیم داخل ہے کچھ اچھے زوائد اور بہتر فوائد کے ساتھ۔‘‘

امام ابن حزم نے اسے شریعت کے معنوں میں لیا ہے اور واضح کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی شریعت کو لے کر آئے جس پر سیدنا ابراہیم عمل پیرا تھے:

وأما شریعة إبراهیم علیه السلام فهي شریعتنا هذہ بعینها ولسنا نقول إن إبراهیم بعث إلی الناس کافة وإنما نقول إن اللہ تعالٰی بعث محمدًا إلی الناس کافة بالشریعة التي بعث تعالٰی بها إبراهیم علیه السلام إلی قومه خاصة دون سائر أهل عصره وإنما لزمتنا ملة إبراهیم لأن محمدًا صلی اللہ علیه وسلم بعث بها إلینا لا لأن إبراهیم علیه السلام بعث بها.(الاحکام ۲/ ۱۶۵- ۱۶۶)    
 ’’حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شریعت بعینہٖ وہی شریعت ہے جوہماری ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ابراہیم علیہ السلام تمام لوگوں کی طرف بھیجے گئے تھے، ہم تو یہ کہتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اسی شریعت کے ساتھ تمام لوگوں کی طرف بھیجے گئے جس کے ساتھ ابراہیم علیہ السلام بالخصوص اپنی قوم کی طرف بھیجے گئے نہ کہ اپنے ہم عصر تمام لوگوں کی طرف۔ ہم پر ملت ابراہیم کی پیروی لازم ہے، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی کے ساتھ ہماری طرف بھیجے گئے ہیں، نہ کہ اس لیے کہ ابراہیم علیہ السلام اس کے ساتھ بھیجے گئے تھے۔ ‘‘

بیضاوی نے ملت ابراہیم سے ملت اسلام کو مراد لیا ہے:

(فَاتَّبِعُوْا مِلَّةَ اِبْرٰهِيْمَ حَنِيْفًا) أي ملة الإسلام التي هي في الأصل ملة إبراهیم، أو مثل ملته.(انوار التنزیل واسرار التاویل ۱/ ۱۴۸)    
’’’فَاتَّبِعُوْا مِلَّةَ اِبْرٰهِيْمَ حَنِيْفًا‘، یعنی ملت اسلام (کی پیروی کرو)جو اصل میں ملت ابراہیم ہے یا اس کی مثل ہے۔‘‘

شاہ ولی اللہ نے حج جیسی عملی عبادت کو ’فَاتَّبِعْ مِلَّةَ اِبْرٰهِيْمَ حَنِيْفًا ‘ہی کے حکم کے تحت شامل کیا ہے:

والنبي صلی اللہ علیه وسلم بعث لتظهر به الملة الحنیفیة وتعلو بها کلمتها، وهو قوله تعالٰی: ™مِلَّةَ اَبِيْكُمْ اِبْرٰهِيْمَ— فمن الواجب المحافظة علی ما استفاض عن امامیها کخصال الفطرة ومناسک الحج؛ وهو قوله صلی اللہ علیه وسلم: ’’قفوا علی مشاعرکم  فإنکم علی إرث من إرث أبیکم ابراهیم‘‘.(حجۃ اللہ البالغہ۲/ ۹۸) 
  ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ملت حنیفیہ ہی کے احیا اور قیام کے لیے ہوئی ہے اور اسی کا بول بالا کرنے کے لیے آپ اس دنیا میں تشریف لائے۔ قرآن مجید میں ہے: ’مِلَّةَ اَبِيْكُمْ اِبْرٰهِيْمَ‘،اس لیے یہ ضروری تھا کہ جو مناسک وہ بجا لائے ہیں اور ان کی لائی ہوئی شریعت کے شعائر ہیں، ان کو من و عن قائم رکھا جائے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب عربوں کو موقف میں دیکھا تو ان سے مخاطب ہو کر فرمایا: ’’اپنی اپنی جگہ کھڑے رہو، کیونکہ یہ مناسک تمھارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی میراث ہیں۔‘‘ ‘‘

’’تفسیر مظہری‘‘ میں شریعت کو ملت کے مفہوم میں شامل کر کے بیان کیا گیا ہے:

والملة کالدین اسم لما شرع اللہ لعبادہ علی لسان الأنبیاء لیتوصلوا بها إلی مدارج القرب وصلاح الدارین.( ۲/ ۹۴) 
 ’’ ’ملة‘ کا لفظ دین کی طرح ہے اور یہ اس چیز کے لیے اسم ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے انبیا کی زبان سے شریعت کے طور پر جاری کیا ہو تاکہ وہ قرب کے مدارج اور دنیا و آخرت کی صلاح تک پہنچ سکیں۔‘‘ 
(وَاتَّبِعْ مِلَّةَ اِبْرٰهِيْمَ) خص إبراهیم علیه السلام بالذکر، مع أن دین الأنبیاء کلهم واحد وهو صرف نفسه وأعضائه وقواه ظاہرًا أو باطنًا في مرضاة اللہ تعالٰی مشتغلاً به تعالٰی معرضًا عن غیرہ تعالٰی لاتفاق جمیع الأمم علی کونه نبیًا حقًا حمیدًا في کل دین، ولکون دین الإسلام موافقًا لشریعة إبراهیم علیه السلام في کثیر من فروع الأعمال کالصلٰوة إلی الکعبة والطواف بها ومناسک الحج والختان وحسن الضیافة وغیر ذالک من کلمات ابتلاه اللہ تعالٰی بها فأتمهن.(تفسیر المظہری ۲/ ۴۶۱)   
’’’وَاتَّبِعْ مِلَّةَ اِبْرٰهِيْمَ‘۔اس میں حضرت ابراہیم کو خاص کیا ہے، باوجود اس کے کہ تمام انبیا کا دین ایک ہی ہے، جب کہ حضرت ابراہیم نے اپنی جان، اپنے اعضا اور قویٰ ظاہری اور باطنی طور پر اللہ تعالیٰ کی مرضی کے لیے صرف کیے، اللہ تعالیٰ کی طرف مشغول ہو کر اور اس کے علاوہ سب سے اعراض کرتے ہوئے، اس لیے کہ تمام امتوں کا ہر دین کے معاملے میں ان کے نبی برحق اور محمود ہونے پر اتفاق ہو جائے اور دین اسلام اعمال کی فروع میں ان کی شریعت کے موافق ہو، جیسا کہ کعبے کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا، اس کا طواف کرنا، مناسک حج، ختنہ اور حسن ضیافت اور اس کے علاوہ وہ کلمات جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے انھیں آزمایا تو انھوں نے ان کو پورا کر دیا وغیرہ۔‘‘

’’تفسیر عثمانی‘‘ میں حلال و حرام کو ملت کے مفہوم میں شامل تصور کیا گیا ہے:

’’...مقصد یہ ہے کہ حلال و حرام اور دین کی باتوں میں اصل ملت ابراہیم ہے۔ ‘‘( ۳۶۴)

مفتی محمد شفیع کی تفسیر سے واضح ہے کہ وہ شریعت اور احکام کو ملت کے مفہوم میں شامل سمجھتے ہیں:

’’حق تعالیٰ نے جو شریعت و احکام حضرت ابراہیم علیہ السلام کو عطا فرمائے تھے، خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت بھی بعض خاص احکام کے علاوہ اس کے مطابق رکھی گئی۔‘‘ (معارف القرآن ۵/ ۴۰۵)    

مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے ملت ابراہیم کے مفہوم کو ادا کرنے کے لیے ابراہیم علیہ السلام کے طریقے کی تعبیر اختیار کی ہے۔ لکھتے ہیں:

’’... محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جس طریقے کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے، وہ ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ ہے اور تمھیں معلوم ہے کہ ملت ابراہیمی میں وہ چیزیں حرام نہ تھیں جو یہودیوں کے ہاں حرام ہیں۔ مثلاً یہودی اونٹ نہیں کھاتے، مگر ملت ابراہیمی میں وہ حلال تھا۔ یہودیوں کے ہاں شترمرغ، بط، خرگوش وغیرہ حرام ہیں، مگر ملت ابراہیمی میں یہ سب چیزیں حلال تھیں۔‘‘ (تفہیم القرآن۲/ ۵۸۰)    

اس تفصیل سے یہ بات ہر لحاظ سے واضح ہو گئی ہے کہ ملت ابراہیمی سے مراد دین ابراہیمی ہے اور اس کے مشمولات میں فقط اصولی تصورات نہیں، بلکہ احکام و اعمال بھی شامل ہیں اور سنت درحقیقت دین ابراہیمی ہی کی روایت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کی تجدید واصلاح کے بعد اور اُس میں بعض اضافوں کے ساتھ امت میں بہ حیثیت دین جاری فرمایا ہے۔

___________

B